حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)0%

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما) مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف: صباح علي بياتي
زمرہ جات:

مشاہدے: 12259
ڈاؤنلوڈ: 2893

تبصرے:

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12259 / ڈاؤنلوڈ: 2893
سائز سائز سائز
حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

حقيقت شيعه (شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و نما)

مؤلف:
اردو

مرجعيت کے عام شرائط اور نص

گذشتہ بحثوں ميں ہم نے اہلبيت ٪ کي مرجعيت اور ديني مرکزيت کي لياقت کے سلسلہ ميں دلائل پيش کئے ہيں اور ان کي حمايت و لياقت پر متعدد شواہد و دلائل بھي پيش کئے جس ميں آيات الٰہيہ اور فرمان رسول شامل تھا، اور ہم نے يہ بات بھي عرض کي تھي کہ اسلام کي قيادت اور سياست کا آپس ميں چولي دامن کا ساتھ ہے دونوں ايک دوسرے کے اٹوٹ حصے ہيں، اور نبي اکرم نے اس سلسلہ ميں اقدام بھي کيا خاص طور سے ہجرت کے بعد مسلمانوں نے دو حکومتوں کے سنگم کو بنحو احسن درک بھي کيا، گويا رسول کي جانب سے ديني مرجعيت و مرکزيت پر نص موجود ہے لہٰذا سياسي مرکزيت کے لئے بھي کسي کا وجود ضروري ہے، انھيں ضروريات کے پيش نظر رسول نے اپنے بعد کے وصي کا تعين فرمايا اور ان افراد نے احکام الٰہيہ کا اجراء بھي کيا جس طرح سے نبي نے خبر دي تھي اور افراد کا تعين بھي فرمايا تھا، ثبوت ميں کچھ واقعات پيش کريں گے:

اگر ہم حيات نبوي کا بغور مطالعہ کريں گے تو يہ بات کھل کر سامنے آئے گي کہ رسول اکرم نے ابتدائے بعثت ميں ہي اس جانب خاص عنايت رکھي ہے اور اس قائد کي تعيين کا اہتمام کيا ہے جو ان کے بعد امت رسول کے امور کي پاسباني ميں ان کا خليفہ ہوگا، اور خداوند تعاليٰ کي بھي عنايت رہي ہے کہ اس نے نبي کي کفالت ميں تربيت کے مسئلہ کو بھي حل کرديا اور وہ بھي اعلان رسالت سے قبل۔

ابن اسحق، ابن ہشام کي نقل کے مطابق اس واقعہ کي يوں منظر کشي کرتا ہے: علي ابن ابي طالب پر خدا کي خاص عنايت يہ تھي کہ جس وقت قريش سخت قحط سالي سے دوچار تھے اور حضرت ابوطالب کثير العيال تھے، تو رسول اکرم نے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب، جو کہ اس وقت کے متمول افراد ميں شمار ہوتے تھے، ان سے کہا کہ لوگ اس وقت قحط سالي کے شکار ہيں اور آپ کے بھائي ابوطالب کثير العيال ہيں لہٰذا ہم لوگ چل کر بات کرتے ہيں تاکہ ان کے اہل و عيال کے بوجھ اور خرچ کو ہلکا کرسکيں، ان کے فرزندوں ميں سے ايک ہم لے ليتے ہيں اور ايک کو آپ، اور ہم دونوں ان کي کفالت کريں گے، جناب عباس نے حامي بھر لي! دونوں افراد حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور دونوں نے ايک زبان ہوکر کہا کہ ہم چاہتے ہيں کہ آپ کے عيال کا بوجھ ہلکا کرديں، تاکہ لوگوں ميں جو بات (آپ کے کثير العيالي اور مشکلات کي) پھيلي ہے وہ ختم ہوجائے۔

حضرت ابوطالب نے ان لوگوں سے کہا کہ عقيل کو ميرے پاس چھوڑ دو بقيہ جو فيصلہ کرنا چاہو تم لوگوں کو اختيار ہے۔

رسول اکرم نے حضرت علي کو ليا اور سينہ سے لگاليا، حضرت علي بھي سايہ کي طرح آپ کے ساتھ ساتھ رہے يہاں تک کہ آپ مبعوث بہ رسالت ہوئے اس وقت حضرت علي نے آپ کي اتباع کي، آپ پر ايمان لائے اور آپ کي رسالت کي تصديق کي اور جعفر جناب عباس کے پاس ان کے اسلام لانے تک رہے يہاں تک کہ غربت کے دن دور ہوگئے۔( ۳۰ )

پيغمبر اسلام نے حضرت علي کے سابق الاسلام اور سابق الايمان ہونے پر متعدد بار اشارہ کيا ہے آپ نے آنے والے دنوں کے ضمن ميں يہ اشارہ کيا تھا، جيسا کہ سلمان / اور ابوذر /سے روايت ہے کہ آپ نے فرمايا: يہ (علي) وہ ہيں جو سب سے پہلے ہم پر ايمان لائے اور روز قيامت سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کريں گے، يہ صديق اکبر، اس امت کے فاروق اعظم (جو کہ حق و باطل کے درميان فرق کريں گے) اور مومنين کے يعسوب (سربراہ) ہيں۔

امير المومنين - نے بھي تربيت نبوي اور کفالت رسالت کي جانب اشارہ کيا ہے جب آپ کي شخصيت ميں نکھار آرہا تھا اور عضلات بدن نمو پارہے تھے۔

آپ نے ايک خطبہ ميں ارشاد فرمايا:

ميں نے تو بچپن ہي ميں عرب کا سينہ پيوند زمين کرديا تھا اور قبيلہ ربيعہ اور مضر کے ابھرے ہوئے سينگوں کو توڑ ديا تھا تم جانتے ہي ہو کہ رسول سے قرابت داري اور مخصوص قدر و منزلت کي وجہ سے ان کے نزديک ميرا کيا مقام تھا ميں بچہ ہي تھا کہ رسول اللہ نے مجھے گود لے ليا تھا، اپنے سينے سے لگائے رکھتے تھے، بستر ميں اپنے پہلو ميں جگہ ديتے تھے اپنے جسم مبارک کو ہم سے مس کرتے تھے اور اپني خوشبو مجھے سنگھاتے تھے، پہلے آپ کسي چيز کو چباتے پھر اس کو لقمہ بناکر ميرے منھ ميں ڈاليتے تھے، انھوں نے نہ تو ميري کسي بات ميں جھوٹ کا شائبہ پايا اور نہ ميرے کسي کام ميں لغزش و کمزوري ديکھي، اللہ نے آپ کي دودھ بڑھائي کے وقت ہي سے فرشتوں ميں ايک عظيم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپ کے ہمراہ کرديا تھا، جو انھيں شب و روز عظيم خصلتوں اور پاکيزہ سيرتوں پر لے چلتا تھا اور ميں ان کے پيچھے پيچھے يوں لگا رہتا تھا جيسے اونٹني کا بچہ اپني ماں کے پيچھے۔

آپ ہر روز ميرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کي پيروي کا حکم ديتے تھے۔

اور ہر سال کوہ حرا ميں کچھ عرصہ قيام فرماتے تھے اور وہاں ميرے علاوہ کوئي انھيں نہيں ديکھتا تھا اس وقت رسول اللہ اور (ام المومنين) خديجہ کے گھر کے علاوہ کسي گھر کي چار ديواري ميں اسلام نہ تھا البتہ تيسرا ان ميں سے ميں تھا، ميں وحي رسالت کا نور ديکھتا تھا اور نبوت کي خوشبو سونگھتا تھا۔

جب آپ پر (پہلے پہل) وحي نازل ہوئي تو ميں نے شيطان کي ايک چيخ سني، جس پر ميں نے پوچھا کہ يا رسول اللہ! يہ چيخ کيسي تھي؟

آپ نے فرمايا: يہ شيطان ہے جو اپني پرستش سے مايوس ہوگيا ہے، اے علي! جو ميں سنتا ہوں تم بھي سنتے ہو جو ميں ديکھتا ہوں تم بھي ديکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبي نہيں ہو بلکہ (ميرے) وصي و جانشين ہو اور يقيناً بھلائي کي راہ پر ہو۔( ۳۱ )

خليفہ کي تعيين اور احاديث نبوي

اسلامي فرقوں کے درميان خلافت کے مسئلہ پر بہت مباحثہ و مجادلہ ہوا ہے، خاص طور سے اس نظريہ کے قائل افراد جو يہ کہتے ہيں کہ رسول کے بعد امامت و خلافت کے حوالے سے رسول کي کوئي نص موجود نہيںہے اور اس رخنہ کو پر کرنے کے لئے يہ کہتے ہيں کہ رسول نے يہ اختيار امت کے ہاتھوں چھوڑ ديا تھا اور شيعہ حضرات جواس بات کے معتقد ہيں کہ نص نبوي موجود ہے اور رسول اکرم نے علي ابن ابي طالب + کو امت کا ہادي و رہنما اور امام قرار ديا تھا، دونوں فرقوں کے درميان بڑے ہي نظرياتي رد و بدل ہوئے ہيں۔

اگر ہم حيات نبوي کا جائزہ ليں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ نبي اکرم نے امامت و خلافت کے مسئلہ کو بہت اہميت دي ہے يہاں تک کہ معمولي مقامات پر بھي اس کي اہميت تھي بلکہ دو سفر کرنے والوں سے آپ مطالبہ کرتے کہ تم ميں ايک دوسرے کا حاکم بن جائے۔

آپ جب کبھي کسي جنگ يا سفر کے سبب مدينے کو ترک فرماتے تو کسي نہ کسي کو اس کا ذمہ دار بہ نفس نفيس معين فرماتے تھے اور لوگوں کو کبھي اس بات کا حق نہيں ديتے تھے کہ وہ جس کو چاہيں چن ليں!

تو جب نبي کريم اپني حيات ميں تعيين خليفہ کے سلسلہ ميں اتنا حساس تھے تو کتني حيرت انگيز بات ہے کہ اپنے بعد کے عظيم مسئلہ يعني امت کي رہبري کو ايسے ہي چھوڑ کر چلے جائيں گے!

اور مسلمانوں کي ايک کثير تعداد اس بات کي جانب متوجہ ہوئي چنانچہ ابوبکر نے عمر کو معين کيا تھا اور امت کو ا س بات کا بالکل حق نہيں ديا تھا کہ وہ اپنا رہبر چن ليں۔

اور خود عمر بن الخطاب اس بات کے راوي ہيں کہ اگر سالم موليٰ ابي حذيفہ يا ابوعبيدہ بن الجراح دونوں ميں سے کوئي ايک زندہ ہوتا، تو کسي ايک کو منتخب کرتا اور بغير کسي شک و ترديد کے اس کو خليفہ بناتا، انھوں نے تو امت سے مطلق طور پر اس اختيار کو سلب کرليا تھا اور چھ لوگوں کي ايک شوريٰ (کميٹي) معين کردي تھي کہ اس ميں کسي ايک کو ميرے بعد خليفہ کے طور پر منتخب کرلو۔

ان سب باتوں کے پيش نظر جب اصحاب کرام خلافت کي اہميت کو درک کر رہے تھے تو رسول کيونکر غافل رہ جاتے اور اس کي اہميت کو درک نہ کرپاتے جب کہ آپ عقل کل اور امت و رسالت کے مصالح کو بہتر درک کرتے تھے، لہٰذا جب ہم سيرہ نبوي کو ديکھيں گے تو ہم کو اس بات کا علم ہوگا کہ رسول کي بے پناہ حديثيں موجود ہيں جواس بات کي غماز ہيں کہ آپ نے اس عظيم مسئلہ کے حل ميں بالکل تساہلي سے کام نہيں ليا جس سے امت مسلمہ کا مستقبل وابستہ تھا، آپ نے اس نوراني مرکزيت و مرجعيت کے خد و خال بتاديئے تھے اور اس کي حدبندي بھي فرمادي تھي! اور يہ کام تو آپ نے ابتدائے اسلام ہي ميں کرڈالا تھا اہل سنت کے منابع ميں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ( وَ انذِر عَشِيرَتَکَ الاقرَبِينَ ) جب يہ آيت نازل ہوئي تو بعثت رسالت کا تيسرا سال تھا، رسول نے علي کو طلب کيا اور فرمايا: اے علي! خدا نے ہم کو حکم ديا ہے کہ ہم اپنے اقرباء کو (عذاب الٰہي سے) ڈرائيں، ميں سونچ رہا ہوں کہ اس کام کو کيسے شروع کروں، ميں جانتا ہوں کہ وہ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے ہيں اسي لئے ميں نے خموشي اختيار کرلي، يہاں تک جبرئيل آئے اور کہا کہ ”اے محمد! اگر تم نے حکم خدا پر عمل نہيں کيا تو تمہارا خدا تم سے ناراض ہو جائے گا“ لہٰذا علي تم ايک صاع (ايک قسم کا ناپ اور پيمانہ ہے) کھانا اور ايک بکري کي ران بناؤ اور ايک برتن ميں دودھ بھردو، اس کے بعد عبدالمطلب کے فرزندوں کو دعوت دو تاکہ ميں ان سے کچھ بات کرسکوں او رجس بات کا حکم ديا گيا ہے اس کو پہنچا سکوں۔

(امير المومنين فرماتے ہيں کہ) ميںنے حکم رسول کے مطابق لوگوں کو دعوت ديدي اس دن تقريباً چاليس لوگ جمع ہوئے جس ميں آپ کے چچا حضرات ابوطالب، حمزہ، عباس، ابولہب وغيرہ شامل تھے، جب سب لوگ آگئے تو کھانا پيش کرنے کو کہا، ميں نے لاکر رکھا رسول اکرم نے گوشت کا ٹکڑا اٹھايا اور چکھ کر برتن کے ايک کونے ميں واپس رکھ ديا اس کے بعد کہا: ”بسم اللہ کہہ کر شروع کريں“ سارے افراد نے چھک کر کھايا اور ابھي کھانا بچا ہوا تھا، قسم ہے اس ذات کي جس کے دست قدرت ميں ميري جان ہے کوئي ايک بھي ايسا نہيں بچا تھا جس کے سامنے ميںنے کھانا پيش نہ کيا ہو، اس کے بعد رسول اکرم نے حکم ديا: سب کو سيراب کرو! پھر ميں نے شير پيش کيا، سب نے پيا يہاں تک کہ سب سيراب ہوگئے ،قسم ہے خدائے جلال کي کوئي ايک بھي پياسا نہ تھا، اس کے بعد جب رسول نے کچھ کہنا چاہا، ابولہب آپ پر سبقت لے گيا اور کہا: خبردار! تم لوگوں نے اس شخص کي جادوگري کو ديکھا، پورے افراد تتربتر ہوگئے اور اس دن رسول کچھ نہ کہہ سکے، دوسرے دن رسول نے کہا: علي وہ شخص مجھ پر سبقت لے گيا، قبل اس کے کہ وہ ميري بات سنتا اور ميں افراد سے گفتگو کرتا، سب چلے گئے لہٰذا پھر تم اسي دن کي طرح کھانے کا انتظام کرو اور لوگوں کو دعوت دو۔

ميں نے حسب دستور لوگوں کو پھر جمع کيا پھر مجھ کو کھانا پيش کرنے کا حکم ديا، ميں نے سارا کام کل کي طرح انجام ديا ،سب نے ڈٹ کر کھايا پھر سيرابي کا حکم ملا ، ميں نے سب کو سيراب کيا اس کے بعد رسول گويا ہوئے: اے فرزندان عبد المطلب! خدا کي قسم پورے عرب ميں ايسا کوئي جوان نہيں ہے جو مجھ سے بہتر اپني قوم کے لئے کوئي چيز لائے، ميں تم لوگوں کے لئے دنيا و آخرت کي بھلائي لايا ہوں اور خدا نے ہم کو اس بات کا حکم ديا ہے، لہٰذا کون ہے جو ميري اس امر ميں پشت پناہي کرے تاکہ وہ ميرا وصي و خليفہ ہوسکے۔

پوري قوم اس تجويز سے روگرداني کرگئي ، تو ميں نے کہا، جب کہ ميں عمر ميں سب سے چھوٹا ہوں، آنکھيں گرد آلود ہيں، پنڈلياں کمزور ہيں ليکن اے اللہ کے رسول! اس کام ميں آپ کا ميں پشت پناہ و حامي ہوں۔

رسول نے ميرے شانے پر ہاتھ رکھا اور فرمايا: يہ ميرے بھائي، وصي اور تمہارے درميان ميرے خليفہ ہيں ان کے احکامات کي پيروي کرو اور ان کے فرمان پر ہمہ تن گوش رہو۔

سب لوگ وہاں سے ہنستے ہوئے اٹھے اور کہنے لگے: ابوطالب تم کو تمہارے بيٹے کي اطاعت و پيروي کا حکم ديا گيا ہے۔( ۳۲ )

يہ عبارت جو کہ ہمارے لئے آغاز بعثت کي منظر کشي کرتي ہے اور اس طرح کي صراحت و وضاحت کے باوجود بعض مورخين و مؤلفين نے اس طرح کي باتوں کو يا تو سرے سے حذف کرديا ہے يا پھر اس ميں کتربيونت کي ہے جس ميں رسول نے صاف صاف علي کي ولايت و وصايت کا اعلان و اظہار کيا ہے اور ان کي اطاعت کا حکم ديا ہے جب کہ اس وقت موجودہ افراد نے ابوطالب کا مذاق اڑايا تھا اور اس بات کا طعنہ بھي ديا تھا کہ بيٹے کي اطاعت و ولايت مبارک ہو۔

پيغمبر اسلام کي ديگر احاديث

پيغمبر متعدد مقامات پر اس بات کي کوشش کرتے رہے کہ علي ابن ابي طالب کي سربراہي مسلّم ہوجائے، پيغمبر کے نزديک حضرت علي کا مرتبہ لوگوں کے سامنے واضح تھا جس سے مستقبل قريب ميں ايک مقصد وابستہ تھا اور حضرت علي کي اور آغاز ہجرت ہي ميں آپ نے مسلمانوں کواس بات کي طرف متوجہ کيا کہ ہم اور علي بھائي بھائي ہيں۔

حفّاظ نے اس بات کو نقل کيا ہے، ابن ہشام نے ابن اسحاق سے يوں نقل روايت کي ہے کہ رسول نے اصحاب و مہاجرين و انصار ميں مواخات (بھائي چارہ) پيدا کي! آپ نے فرمايا: راہ خدا ميں بھائي چارگي پيدا کرو، (ايک دوسرے کے بھائي بنو) اس کے بعد علي کا ہاتھ پکڑ کر فرمايا: (يہ ميرے بھائي ہيں)( ۳۳ )

لہٰذا رسول خدا جو کہ سيد المرسلين، امام المتقين، رسول رب العالمين، نہ ہي ان کا کوئي نظير تھا اور نہ ہي کوئي بديل اور علي ابن ابي طالب دونوں بھائي بھائي تھے۔

ہجرت نبوي کے نو يں سال جب سرکار غزوہ تبوک کے ارادہ سے مدينہ کو ترک فرمارہے تھے تو آپ نے اپنے اہل وعيال کا خليفہ علي کو قرار ديا تھا اور ان کے پاس رہنے کا حکم ديا تھا اور مدينہ کي ديکھ بھال نبي غفار کے ايک فرد سباع بن عرفطہ کے حوالے کي تھي۔

منافقين نے امير المومنين کے بارے ميں يہ پروپيگنڈہ کيا کہ رسول نے ان کو ان کي نااہلي کي بنا پر چھوڑ ديا ہے، جب يہ بات حضرت علي کے کانوں تک پہنچي تو آپ نے اسلحہ جنگ کو زيب تن کيا اور جرف نامي مقام پر جاکر رسول کي خدمت ميں عرض کي، يارسول اللہ منافقين کہتے ہيں کہ آپ نے ہم کو ہماري نااہلي اور سستي کے باعث ان کے بيچ رکھ چھوڑا ہے۔

آپ نے فرمايا: وہ جھوٹے ہيں، ہم نے تم کو اپنا خليفہ بنا يا ہے واپس جاؤ اور ميرے اور اپنے اہل وعيال کے پاس ميري خلافت کے فرائض انجام دو،اے علي! کيا تم اس بات پر راضي نہيں ہو کہ تم سے ميري وہي نسبت ہے جو موسيٰ کو ہارون سے تھي بس فرق اتنا ہے کہ ميرے بعد کوئي نبي آنے والا نہيں ہے، علي مدينہ کي طرف واپس آگئے اور رسول نے اپنا سفر جاري رکھا۔( ۳۴ )

رسول نے اس طرح ہارون و موسيٰ کے تمام مراتب، وزارت، خلافت اور کسي نبي کے نہ آنے کي خبر سب واضح کردي۔

رسول اسلام کا مبلّغ

جيسا کہ ہم نے ذکر کيا کہ رسول نے علي کي حمايت و اختيارات کا اظہار متعدد مقامات پر کيا مگر صرف اسي پر اکتفا نہيں کي بلکہ آپ نے چاہا کہ يہ بات تمام اصحاب پر عياں ہوجائے اور سارے اصحاب ميں صرف آپ کو تبليغ خاص کے لئے منتخب کيا۔

روايات کا ايک جم غفير ہے کہ ہجرت کے نويں سال نبي اکرم نے ابوبکر کو سورہ برائت کي پہلي دس آيتوں کو ديکر مکہ بھيجا، کہ اس کو مشرکين مکہ کے سامنے پڑھ کر سنائيں، ليکن فوراً بعد حضرت علي کو ان کے پيچھے روانہ کيا اور فرمايا: ”تم جاؤ اس نوشتہ (سورہ) کو لے لو اور خود مکہ جاکر اس کو ابلاغ کرو“

حضرت علي گئے اور درميان راہ ہي ان کو جاليا اور ان سے اس نوشتہ کو طلب کيا، ابوبکر بيچ راستے ہي سے واپس آگئے اور بہت کبيدہ خاطر تھے رسول کي خدمت ميں آکر سوال کيا يا رسول اللہ! کيا ميرے بارے ميں کوئي خاص حکم نازل ہوا ہے؟

آپ نے فرمايا: نہيں، بلکہ ہم کو اس بات کا حکم ديا گيا ہے کہ يا ميں خود اس کو پہنچاؤں يا اس شخص کو بھيجوں جو ميرے اہلبيت ميں سے ہے۔( ۳۵ ) ميرے بعد علي تمہارے ولي ہيں

روز وشب کي گردش ماہ و سال کے گزر کے ساتھ ساتھ مولائے کائنات کي شان ميں احاديث کا اضافہ ہوتا رہا، خود رسول اکرم بھي اس بات کي صراحت و وضاحت کرتے رہتے تھے جس ميں کسي قسم کا شک و تردد نہيں ہے اور تمام مسلمين کي ولايت کا اعلان بطور نمونہ پيش بھي کرديا ہے۔

بريدہ سے روايت ہے کہ رسول نے حضرت علي کو يمن کا اور خالد بن وليد کو جبل کا امير بنا کر بھيجا، اس کے بعد آپ نے فرمايا: ”اگر کسي مقام پر تم دونوں (علي و خالدبن وليد) جمع ہوجاؤ تو علي افضل و اوليٰ ہيں“ ايک جگہ دونوں کي ملاقات ہوئي اور کثير مقدار ميں مال غنيمت حاصل ہوا، حضرت علي نے خمس ميں سے ايک کنيز کا انتخاب کيا، خالدبن وليد نے بريدہ کو بلايا اور کہا کہ مال غنيمت کي کنيز کو لے ليا گيا ہے اس بات کي اطلاع رسول اسلام کو ديدو، ميں مدينہ آيا اور مسجد ميں داخل ہوا رسول بيت الشرف ميں تھے اور اصحاب کا ازدھام آپ کے در دولت پر تھا!۔

لوگوں نے پوچھا، بريدہ کيا خبر ہے، ميں نے کہا: خير ہے! خدا نے مسلمانوں کو فتح عنايت کي لوگوں نے پوچھا اس وقت کيوں آئے ہو؟

ميں نے کہا: خمس ميں سے علي نے ايک کنيز لے لي ہے!ميں رسول کو اس کي خبر دينے آيا ہوں، لوگوں نے کہا کہ رسول کو اس کي اطلاع ضرور دو تاکہ علي رسول کي نظروں سے گرجائيں،! رسول خدا اس مکالمہ کو سن رہے تھے، آپ غيظ و غضب کي حالت ميں گھر سے باہر آئے اور فرمايا: ”اس قوم کو کيا ہوگيا ہے، يہ علي ميں نقص نکال رہي ہے، جس نے علي ميں نقص نکالا اس نے مجھ ميں نقص تلاشا، جس نے علي کو چھوڑا اس نے گويا مجھے کھويا، ميں علي سے ہوں اور علي مجھ سے ہيں اور وہ ميري طينت سے خلق ہوئے ہيں اور ميں ابراہيم کي طينت سے خلق ہوا ہوں اور ميں ابراہيم سے افضل ہوں، يہ ايک نسل ہے جس ميں ايک کا سلسلہ ايک سے ہے، اللہ سننے اور جاننے والا ہے“

اس کے بعد فرمايا: بريدہ تم کو خبر ہے علي کا حق اس کنيز سے کہيں زيادہ تھا جو انھوں نے انتخاب کيا ہے؟ وہ ميرے بعد تمہارے ولي ہيں۔

بريدہ کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا يارسول اللہ! دست مبارک بڑھائيں تاکہ آپ کے ہاتھوں پر بيعت اسلام کي تجديد کروں،راوي کہتا ہے کہ ميں بيعت اسلام کي تجديد کرنے سے پہلے جدا نہيں ہوا۔( ۳۶ )

رسول اکرم نے اس (صحيح) حديث ميں بغير کسي استثناء کے تمام مسلمين پر حضرت علي کي ولايت مطلقہ کو ثابت کيا ہے، اس حکم کے اطلاق ميں شيخين ابوبکر و عمر سب شامل ہيں کيونکہ رسول نے کسي کو مستثنيٰ نہيں کيا ہے۔

يہ درج ہے کہ بريدہ نے کہا کہ ميں نے رسول کو اس دن سب سے زيادہ غضبناک پايااس سے قبل کبھي بھي اس حالت ميں نہيں ديکھا تھا سوائے قريظہ و نضير کے دن کے! ميري جانب ديکھا اور فرمايا: ”اے بريدہ! ميرے بعد علي تمہارے ولي ہيں تم ان کو دوست رکھو کيونکہ يہ وہي کرتے ہيں جو حکم ديا جاتا ہے“

عبد اللہ بن عطاء کے بقول ابا حرب بن سويد بن غفہ سے ميں نے نقل کيا ہے، انھوں نے کہا کہ عبد اللہ بن بريدہ نے تم سے حديث کے کچھ حصہ کو چھپاليا ہے رسول نے ان سے کہا: اے بريدہ! کيا تم نے ميرے بعد منافقت سے کام ليا، مسند طيالسي، ص ۳۶۰ ، حديث ۲۷۵۲

ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول نے حضرت علي سے کہا: ”تم ميرے بعد ہر مومن کے والي و وارث ہو“

استيعاب ميں ابن عبد البر نے بعينہ روايت کو ج ۳ ، ص ۱۰۹۱ پر نقل کيا ہے اور کہا ہے کہ اس کے سندوں ميں کوئي جھول نہيں ہے اس کي صحت اور نقل حديث کي ثقہ ميں کسي نے اعتراض نہيں کيا ہے، ابن ابي شيبہ نے المصنف ميں ج ۱۲ ، ص ۸۰ پر عمران بن حصين سے روايت کي ہے کہ رسول نے فرمايا: ”تم علي سے کيا چاہتے ہو تم علي سے کيا چاہتے ہو علي مجھ سے ہيں اور ميں علي سے ہوں اور ميرے بعد ہر مومن کے مولا ہيں“

احمد نے اپني مسند ميں اس کو نقل کيا ہے ج ۴ ، ص ۴۳۸ ، ج ۵،۳۵۶ علي کو چھوڑ دو علي کو چھوڑ دو (علي کي عيب جوئي نہ کرو) علي مجھ سے ہيں اور ميں علي سے ہوں وہ ميرے بعد ہر مومن کے مولا ہيں، جامع ترمذي، ج ۵ ، ص ۶۳۲ ؛ خصائص نسائي، ص ۱۰۹ ؛ مسند ابي يعليٰ، ج ۱ ، ص ۲۹۳ ، حديث ۳۵۵ ؛ اس کے محقق نے نظريہ ديا ہے کہ اس کے راوي حضرات سب صحيح ہيں؛ کنز العمال، ج ۱۳ ، ص ۱۴۲ ؛ الرياض النضرة، ج ۳ ، ص ۱۲۹ ؛ تاريخ بغداد، ج ۴ ، ص ۳۳۹ ؛ تاريخ دمشق، ج ۴۲ ، ص ۱۰۲ ؛ اسد الغابہ، ج ۳ ، ص ۶۰۳ ؛ کنز العمال، ج ۱۱ ، ص ۶۰۸

تاج پوشي

ديني مرجعيت اور ہر زمانے کي حکومت کے درميان جو ايک گہرا ربط تھا اس کي رسول نے بڑي تاکيد کي تھي اور اس بات کي کوشش کي تھي کہ امت مسلمہ اس کي مکمل حفاظت کرے، اس بات کے پيش نظر رسول نے امت کے سامنے اہلبيت کو پہچنوايا تھا اور يہ وہ افراد تھے جو دو عظيم، بھاري بھرکم چيزوں کي نظارت کي اہليت رکھتے تھے ايک تو شريعت الٰہيہ کي حفاظت دوسرے اس نوجوان دور حکومت کي زمامداري جس کو نبي نے حيات بخشي تھي۔

اسي بنا پر متعدد مقامات اور مناسبتوں پر رسول نے اہلبيت اور علي کي ولايت کے مسئلہ کو بيان کيا تھا کيونکہ رسول کے بعد مرکز اہلبيت حضرت علي ہي تھے ، ۱۰ ھء ميں نبي کے حجة الوداع کے موقع پر اس مسئلہ کي اور وضاحت ہوئي۔

حديث ثقلين کے ضمن ميں ہم نے يہ بات عرض کي تھي کہ رسول نے فرمايا: مجھے خدا کي جانب طلب کيا گيا ہے اور ميں نے اجابت کرلي ہے اور ميں تم لوگوں کے درميان دو بيش بہا چيزيں چھوڑ کر جارہا ہوں ايک اللہ کي کتاب دوسرے ميري عترت، لطيف و باخبر خدا نے ہم کو اس بات کي خبر دي ہے کہ يہ دونوں ايک دوسرے سے بالکل جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کريں گے لہٰذا ديکھو تم لوگ ان دونوں کے سلسلہ ميں ميري خلافت کا کس حد تک خيال رکھتے ہو۔

اس کے بعد فرمايا: خدائے عزوجل ميرا مولا ہے اور ميں ہر مومن کا مولا ہوں اس کے بعد حضرت علي کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمايا: ”جس جس کا ميں مولا ہوں يہ (علي) اس کے مولا ہيں، خدايا! تو اس کو دوست رکھ جواس کو دوست رکھے، تو اس کو دشمن شمار کر جو اس کو دشمن سمجھے “( ۳۷ )

اس کے بعد رسول کھڑے ہوئے اور اپنے ”سحّاب“ نامي عمامہ کے ذريعہ حضرت علي کي تاج پوشي کي اور ان سے کہا: ”اے علي عمامے عرب کے تاج ہيں“

مرجعيت کے لئے حضرت علي کے اہليت

رسول کا اپنے بعد پوري ملت مسلمہ کا حضرت علي ابن ابي طالب کو مرجعيت کي ذمہ داري سونپنا، نہ ہي بلاسبب تھا اور نہ ابن العم (چچازاد بھائي) ہونے کے ناطے تھا، نہ يہ پہلو دخيل تھا کہ يہ رسول کے داماد ہيں کيونکہ رسول کسي فعل کو انجام نہيں ديتے تھے اور نہ ہي کوئي کلام کرتے تھے جب تک وحي پروردگار کا نزول نہ ہوجائے ہر امر ميں حکم خدا کے تابع تھے، امور امت مسلمہ سے زيادہ ان کي نظر ميں اقرباء پروري اہميت نہيں رکھتي تھي، جس کي پائيداري اوراستحکام و استقامت کے لئے ايک طويل عرصہ سے جانفشاني کي تھي جو تقريباً چوتھائي صدي پر محيط تھا اس کے لئے انھوں نے بہت سارے معرکہ حل کئے ہيں اور ناگفتہ بہ مشکلات کو جھيلا ہے تب جاکر اس حکومت ميں پائيداري آئي ہے جس کے منشورات ميں سے يہ تھا کہ انسانيت دنيا ميں خير و صلاح کے مسلک پر گامزن ہوجائے تاکہ آخرت ميں کاميابي سے ہمکنار ہوسکے۔

جب کہ نبي کريم امت مسلمہ کے سلسلہ ميں بہت حساس اور محتاط تھے اور اپني حيات طيبہ ہي ميں اس بات کے لئے کوشاں تھے اور بيحد فکر مند تھے تو کيا صرف يہ سوچ اور فکر ہي کافي ہوگي؟ اوراپنے بعد امت کو يوں ہي کسي دلدل ميں چھوڑ ديں گے اور صراط مستقيم کي رہنمائي نہيں کريں گے جو ان کو راہ ابن جزري نے اسس المطالب کے ص ۴۸ پر کہا ہے کہ اس رخ سے حديث ”حسن“ ہے اور کئي ساري وجہوں سے صحيح ہے امير المومنين سے متواتر ہے اور رسول سے بھي متواتر ہے، لوگوں کي ايک کثير تعداد نے ايک جم غفير سے اس کي روايت کي ہے ۔

ابن حجر مکي نے صواعق محرقہ ص ۱۷۷ ، کہا ہے کہ تيس صحابيوں نے اس کو رسول سے نقل کياہے اور بہت سارے طرق سے يہ صحيح و حسن ہے۔

راست سے بھٹکنے سے بچاسکے اور گمراہي کي تاريکيوں سے باہر نکال سکے، نبي کے بارے ميں ايسا تصور کرنا بھي گناہ ہے کيونکہ قرآن کا اعلان ہے کہ:( عَزِيزٌ عَلَيهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيکُمْ بِالْمُو مِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ ) ( ۳۸ ) اس پر ہماري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے وہ تمہارے ہدايت کے بارے ميں حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پر شفيق و مہربان ہے۔

ايسي صورت ميں رسول کا حضرت علي کو منتخب کرنا يقيناً ارادہ خداوندي کے تحت تھا، جس طرح سے خدا کا انتخاب حضرت طالوت کے بارے ميں تھا کيونکہ وہ علم و جسم دونوں ميں نابغہ روزگار تھے۔

يہ با ت بالکل مسلم ہے کہ خدا کا انتخاب ممتاز حيثيت رکھتا ہے کيونکہ خدا بہتر جانتا ہے کہ بندوں کي قيادت کي باگ ڈور کس کے سپرد کي جائے۔

لہٰذا اب ان معروضات کے پيش نظر ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ حضرت علي کي ذات والا صفات وہ ہے جواپنے زمانے ميں سب سے زيادہ علم و شجاعت کے لحاظ سے قيادت کي اہليت و صلاحيت رکھتي تھي، اور تاريخي حقائق اس بات پر گواہ ہيں، کيونکہ دراز مدت سے ہي نبي اپنے اقوال و افعال کي شکل ميں ان نعمتوں کے حامل تھے۔

____________________

[۳۰] السيرة النبويہ ابن ہشام، ج۱، ص۲۴۶؛ المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص۵۲۶؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد، ج۱۳، ص ۱۹۸؛ تاريخ طبري، ج۲، ص ۳۱۳

[۳۱] شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد، ج۱۳، ص ۱۹۷، خطبہ ۱۹۰، ترجمہ مفتي جعفر صاحب قبلہ

[۳۲] تاريخ طبري، ج۲، ص۳۱۹؛ الکامل لابن اثير، ج۲، ص ۶۲؛ جيسا کہ بعض مورخين و تاريخ نويسوں نے بعض الفاظ کو بدل کر نقل کيا ہے، جيسے ان کا کہنا ہے: ”يا بني عبد المطلب، اني قد جئتکم بامر الدنيا و الآخرة “ جيسا کہ تاريخ اسلام، السيرة للذہبي، ص ۱۴۵؛ دلائل النبوة، البيہقي، ج۱، ص ۳۲۸؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۱۳؛ اور بعض نے يوں کہا ہے: ”فايکم يوازرني علي هذا الامر علي ا ٴن يکون اخي “ المنتظر لابن جوزي، ج۲، ص۳۷۶، اور بعض ميں نے اس طرح نقل کيا ہے: ”علي ان يکون اخي و کذا و کذا“ البدايہ و النہايہ ابن کثير، ج۳، ص ۵۳، تفسير ابن کثير تحت آيہ انذار سورہ شعراء محمد حسين ہيکل نے (حيات محمد) کي پہلي طباعت ميں اس کا تذکرہ کيا ہے ليکن بعد ميں اس کو حذف کرديا۔

[۳۳] السيرة النبويہ، ج۱، ص۵۰۴؛ جامع ترمذي، ج۵، ص ۵۹۵، حديث ۳۷۲۰؛ المستدرک علي الصحيحين، ج۳، ص۱۶؛ حديث ۴۲۸۹؛ الطبقات الکبريٰ، ج۲، ص۶۰؛ سيرہ حلبيہ ج۲، ص۲۰؛ مصابيح السنہ، ج۴، ص ۱۷۳، حديث ۴۷۶۹؛ مشکوة المصابيح، ج۳، ص ۳۵۶، حديث ۲۶۰۹؛ الرياض النضرة، ج۳، ص ۱۱۱، ۱۶۴؛ فضائل احمد بن حنبل، ص۹۴، حديث ۱۴۱؛ تاريخ دمشق، ج۱۲، ص ۱۳۶؛ تذکر الخواص، ص ۲۴؛ کنز العمال، ج۱۳، ص۱۰۶، حديث ۳۶۳۴۵؛ مسند ابي يعليٰ، ج۱، ص ۳۴۷، حديث۴۴۵۔

[۳۴] تاريخ طبري، ج۳، ص۱۰۳؛ الکامل لابن الاثير، ج۲، ص ۲۷۸؛ صحيح بخاري، کتاب بدؤالخلق باب مناقب علي ابن ابي طالب؛ صحيح مسلم کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل علي بن ابي طالب؛ صحيح ترمذي، ج۲، ص ۳۰۰؛ مسند الطيالسي، ج۱، ص ۲۹؛ حلية الاولياء، ج۷، ص۱۹۵؛ تاريخ بغداد، ج۱، ص ۳۲۴، ج۴، ص۲۰۲و ج۹، ص۳۹۴؛ خصائص نسائي، ج۱۴،ص۱۵؛ المستدرک علي الصحيحين، ج۲، ص۳۳۷؛ مسند احمد، ج۱، ص۱۷۰، ۱۷۵، ۱۷۷، ۱۸۴، ۳۳۰، و ج۶، ص ۳۶۹؛ الطبقات الکبريٰ لابن سع، ج۳، قسم ۱، ص۱۴، و ۱۵؛ اسد الغابہ، ج۵، ص۸؛ کنز العمال، ج۲، ص۱۵۴، و ج۵، ص ۴۰، و ج۶، ص ۱۵۴و ۱۵۶و ۳۹۵و ۴۰۵و ج۸، ص ۲۱۵؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱؛ الرياض النضرة، ج۲، ص ۱۶۲، ۱۶۴، ۱۹۵؛ ذخائر العقبيٰ، ۱۲۰

[۳۵] خصائص نسائي، ص۲۰؛ صحيح ترمذي، ج۵، ص ۲۵۷، حديث ۳۰۹۱؛ مسند احمد، ج۳، ص ۲۸۳، ج۱، ص۳، ۱۵۱، ۳۳۰؛ الرياض النضرة، ج۳، ص۱۱۹؛ البدايہ و النہايہ، ج۵، ص۴۴؛ حوادث ۹ ہجري؛ السنن الکبريٰ للنسائي، ج۵، ص۱۲۸، حديث ۸۴۶۱؛ الاموال، لابي عبيد، ص ۲۱۵، حديث ۴۵۷؛ تاريخ دمشق؛ ترجمة الامام علي، ص ۸۹۰؛ الدر المنثور، ج۴، ص ۱۲۵؛ مختصر تاريخ دمشق، ج۱۸، ص۶؛ شرح نہج البلاغہ، ج۱۲، ص۴۶، خطبہ ۲۲۳؛ المنتظم لابن الجوزي، ج۳،ص۳۷۲

[۳۶]المعجم الاوسط للطبراني، ج۶، ص۲۳۲؛ تاريخ دمشق لابن عساکر، ج۴۲، ص ۱۹۱

[۳۷] حافظ نے بدايہ و النہايہ کي ج۵، ص۲۱۴ پر ذہبي سے اس کو نقل کيا ہے اور کہا ہے کہ صدر حديث متواتر ہے اور يقين ہے کہ رسول نے فرمايا ہے ليکن (اللّٰہم وال من والاہ) سند کے حساب سے زيادہ قوي ہے۔۔۔

[۳۸] سورہ توبہ، آيت ۱۲۸