• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5629 / ڈاؤنلوڈ: 2158
سائز سائز سائز
کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ

مؤلف:
اردو

۴ ۔ حکم رسول خدا (ص) زمین پر سجدہ کرو

حضور اکرم (ص) سے منقول بہت زیادہ روایتیں اس دلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص) مسلمانوں کو زمین پر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے جس کے ثبوت کے لئے چند احادیث کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

۱ ۔ زوجہ رسول (ص) ام سلمہ نقل کرتی ہیں :کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: اپنے چہرے کو اللہ کی عبادت کے لئے زمین پر رکھو ۔(۱)

۲ ۔ صاحب المصنف، خالد جہمی سے نقل کرتے ہیں-- - : پیغمبر (ص) نے صہیب کو دیکھاکہ خاک پر سجدہ کرنے سے گریز کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا :اے صہیب! اپنے چہرے کو زمین پر رکھ ۔(۲)

۳ ۔ کتاب ارشاد الساری میں ہے کہ پیغمبر ختمی مرتبت (ص) نے معاذ سے یہ فرمایا :” اپنے چہرے کو خاک پر رکھا کرو“(۳)

۴ ۔ کنز العمال، الاصابہ، اور اسدا لغابہ میں منقول ہے کہ پیغمبر (ص) نے ( رباح نامی شخص سے) فرمایا : اے رباح اپنی پیشانی خاک پر رکھا کرو ۔(۴)

اسی کے مثل اور بہت کثرت سے روایات فریقین ( سنی و شیعہ ) کی کتابوں میں موجود ہیں جن میں لفظ ۔

” ترب “ ( جو ارشاد پیغمبر (ص) میں ذکر ہوا ہے ) سے دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں ۔

۱ ۔انسان کو چاہئے کہ سجدہ کی حالت میں پیشانی ” تراب “ خاک پر رکھے

۲ ۔ حضور (ص) کا حکم ہے کہ زمین پر سجدہ کرو۔ جس پر تمام حالات میں عمل ضروری ہے ا س لئے کہ” ترب “ تراب سے بنایا گیا ہے جسکے معنی ہیں خاک(مٹی) اور حضرت (ص) نے اسکو امر کے طور پراستعمال کیا ہے یعنی خاک پر پیشانی رکھو ۔ خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان نہایت فروتنی و خضوع کے ساتھ درگاہ خدا میں اپنے سر کو سجدہ میں رکھ دے یہ روش انسان کو تکبر و غر ور اور خودپسندی و سرکشی سے نجات دلاتی ہے ۔

حضور سرورکائنات (ص) نے ارشاد فرمایا :جب بھی تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے ،اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھے تاکہ خدا کے سامنے انسان کی ناتوانی اور ذلت و کمزوری ظاہر ہوسکے ۔(۵)

سجدے کی حالت میں عمامہ ہٹانے کا حکم

زمین پر سجدہ کرنے کے دلائل میں سے حضور ختمی مرتبت (ص) کا وہ حکم بھی ہے جو آپ نے سجدہ کی حالت میں پیشانی سے دستار ہٹانے کے بارے میں دیا تھا، محدثین نے کثرت سے ایسی حدیثوں کو ذکر کیا ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت (ص) نے ان لوگوں کو جو حالت سجدہ میں (عمامہ ) پگڑی کے کناروں کا سہارا لیا کرتے تھے ، ان کو سختی سے منع فرمایا ،لہٰذا قارئین محترم کی سہو لت کے لئے چند روایتوں کو بطور تبرک پیش کرتے ہیں ۔

۱ ۔ صالح سبائی کہتے ہیں: کہ رسول خدا (ص) نے اپنے پہلو میں ایک شخص کو سجدے کی حالت میں پیشانی پر عمامہ باندھے ہوئے دیکھا تو اس کی پیشانی سے عمامہ ہٹا دیا ۔(۶)

۲ ۔ عیاذ بن عبد اللہ قرشی کہتے ہیں : حضرت (ص) نے ایک شخص کو عمامے کے کناروں پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے عمامے کو اتار دے اور پھر پیشانی کی طرف اشارہ فرمایا ۔(۷)

۳ ۔ کنز العمال اور سنن بیہقی میں امیر المومنین علی (ع) سے منقول ہے کہ جب بھی تم میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سجدہ میں پیشانی سے عمامہ کو ہٹالے ۔(۸)

۴ ۔ بحار الانوار میں دعائم الاسلام سے یہ نقل ہے کہ روایات میں ذکر ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے نماز پڑھنے والوں کو کپڑے اور عمامہ کے کناروں پر سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(۹)

ان تمام روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت (ص) کے زمانہ میں بھی کپڑوں پر سجدہ کرنا ممنوع اور زمین پر سجدہ کرنا واجب تھا ۔ اس لئے اگر کوئی شخص پگڑی یا دامن کے کناروں پر سجدہ کر تا تھا تو اسکو آنحضرت (ص) اس کام سے منع فرماتے تھے ورنہ اگر سجدہ تمام چیزوں پر صحیح ہوتا تو آنحضرت (ص) کی طرف سے ایسی نہیں اور ممانعت نہ ہوئی ہوتی۔

سجدہ حضور (ص) کی نگاہ میں

تمام مسلمانوں کو یقین ہے کہ نبی کریم (ص) تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں اور آپ (ص) کا طور طریقہ ، رفتارگفتار و اخلاق بھی دنیا کے تمام لوگوں سے اچھا اور پسندیدہ ہونا چاہئے تاکہ ہر کلمہ گو کے لئے ان کی سیرت صاف و شفاف پانی کی طرح صاف اور روز کی طرح روشن اور اندھیری رات میں روشن چراغ کے مانند فروزاں رہے اور ہر انسان اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں اس پاک و پاکیزہ سیرت سے درس حاصل کرسکے جیساکہ قرآن مجید آنحضرت (ص) کے اخلاق حسنہ کی توصیف اسطرح کر رہا ہے ۔

( لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ اُسوَة حَسَنَة لِمَن کَانَ یَرجُوا اللّٰه والیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰه کَثِیراً ) (۱۰) ۔

”مسلمانوں تمہارے واسطے تو خود رسول ایک اچھا نمونہ تھے ( مگر ہاں ) یہ اس شخص کے واسطے ہے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو “

لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہر چیز کی طرح زمین پر سجدہ کے مسئلہ میں بھی آنحضرت (ص) کی سیرت اور آپکی روش کی پیروی کریں اور انکے طریقہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں ۔ لہٰذا اب احادیث کی روشنی میں اہل سنت کی کتابوں سے ہم حضرت (ص) کی عملی سیرت بیان کر رہے ہیں ۔

جو روایات اس بارے میں موجود ہیں ان سے استفادہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) زمین اور اس سے اگنے والی چیزیں جیسے گھانس یا چٹائی وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔ شیعہ حضرات نے جو راہ اختیار کی ہے ، یہ وہی راستہ جو نبی کریم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کی پیروی سے حاصل ہوا ہے اس بنا پر ہم متعلقہ روایتوں کو دو حصوں میں بیان کریں گے۔

پہلا حصہ : وہ حدیثیں جنمیں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) زمین اور خاک وغیرہ پر سجدہ کرتے تھے ۔

دوسرا حصہ : وہ حدیثیں جنمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت (ص) گھانس اور اس سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ کرتے تھے ۔

پہلی قسم کی روایتیں : اس قسم کی چند روایتوں کو آپکی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔

۱ ۔ وائل بن حجر کہتے ہیں : کہ حضرت (ص) جس وقت سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھا کرتے تھے ۔(۱۱)

۲ ۔ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر (ص) نے پتھر پر سجدہ کیا ہے ۔(۱۲)

۳ ۔ ام المومنین عائشہ سے منقول ہے کہ میں نے کبھی بھی حضرت (ص) کو (سجدہ کی حالت میں) پیشانی پر کوئی چیز رکھتے نہیں دیکھا ۔(۱۳)

حضرت عائشہ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (ص) نے ہمیشہ زمین پر سجدہ کیا اور جو بھی چیز زمین اور پیشانی کے درمیان فاصلہ ہو ئی اس سے اجتناب فرمایا ہے۔

۴ ۔ احمد بن شعیب نسائی اپنی سنن میں ابو سعید خدری ( نبی (ص) کے صحابی ) سے نقل کرتے ہیں : کہ میں نے اپنی ان دونوں آنکھوں سے آنحضرت (ص) کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے اثرات دیکھے ہیں ۔(۱۴)

اس مضمون سے ملتی جلتی متعدد حدیثیں صحیح بخاری ،سنن بیہقی ، سنن ابی داود وغیرہ میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔

ان جیسی دیگر حدیثوں سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) بارش کے موسم میں بھی ( دیگر تمام چیزوں پرسجدہ کرنے بجائے ) زمین پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوا پانی اور مٹی کے اثرات آپکی پیشانی مقدس پر نقش ہو جاتے تھے ۔

۵ ۔ صاحب مجمع الزوائد ،ابن زہرہ سے نقل کرتے ہیں :کہ ایک دن بارش کے موسم میں آنحضرت (ص) نے ایسا سجدہ کیا کہ پانی اور مٹی کے اثرات کو میں نے ان کی پیشانی پر مشاہدہ کیا ۔(۱۵)

اور دوسری روایتیں ایسی بھی وارد ہوئی ہیں :کہ آنحضرت (ص) شدید جاڑے یا بارش کے موسم میں اپنی عبا یا لباس کوفقط اپنے ہاتھوں یا پیروں کی جگہ رکھتے تھے۔ ان احادیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ آپ (ص) حالت اضطرار ( جیسے شدید جاڑے اور برسات کے موسم ) میں بھی اپنی پیشانی اور زمین کے درمیان کسی کپڑے وغیرہ سے فاصلہ نہیں قرار دیتے تھے ۔ کیونکہ ہمیں ایسی کوئی حدیث دیکھنے کو نہیں ملی جس میں یہ ذکر ہو کہ حضرت (ص) نے جاڑے اور بارش کی وجہ سے پیشانی پر عمامہ باندھ کر نماز پڑ ھی ہے۔

۶ ۔ابن عباس کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ رسولخدا (ص) صبح کی ٹھنڈک ، سفید چادر میں ( لپٹے ہوئے ) نماز پڑھ رہے تھے ، اور اسی عبا کے ذریعہ اپنے ہاتھو ں اورپیروں کو اس شدید سردی اور زمین کی ٹھنڈک سے بچاتے تھے ۔(۱۶)

۷ ۔دوسرے مقام پر کہتے ہیں : میں نے آنحضرت (ص) کو بارش کے موسم میں( نماز کی حالت میں) دیکھا کہ آپ سجدہ کرتے وقت گیلی مٹی سے بچنے کیلئے اپنے دونوں ہاتھوں کو عبا پر رکھ لیا کرتے تھے۔(۱۷)

۸ ۔ابن ماجہ اپنی سنن میں عبداللہ بن عبد الرحمن سے نقل کرتے ہیں:کہ رسول خدا (ص) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے ساتھ مسجد بنی عبد الاشہل میں نماز پڑھی سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو چادر پر رکھ لیا کرتے تھے ۔(۱۸)

۹ ۔اسی طرح چند واسطوں کے ذریعہ ثابت بن صامت سے یہ نقل کرتے ہیں کہ پیامبر گرامی (ص) مسجد بنی عبد الاشہل میں عبا اوڑھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے سجدہ کی حالت میں ٹھنڈے پتھروں سے اپنے ہاتھوں کو محفوظ رکھنے کے لئے انھیںچادر پر رکھ لیا کرتے تھے۔(۱۹)

دوسری قسم کی روایتیں : یہ وہ روایتیں ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ” حضرت گھانس یا اس سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ ادا کرتے تھے“ اس طرح کی روایتوں کو سنی اور شیعہ دونوں علمائوں نے اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ یہاں ۱ پر ہم اہلسنت کی معتبر کتابوں سے کچھ حدیثوں کو پیش کررہے ہیں۔

۱ ۔ ابو سعید کہتے ہیں :میں حضور کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ چٹائی پر نمازپڑھ رہے تھے ۔(۲۰)

۲ ۔ انس بن مالک و ابن عباس اور آنحضرت (ص) کی بعض بیبیاں جیسے ام المومنین عائشہ جناب و ام سلمہ و حضرت میمونہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر (ص) خمرہ (ایک قسم کی چٹائی ہے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے ) پر سجدہ کرتے تھے۔(۲۱)

۳ ۔ ابو سعید خدری سے یہ بھی نقل ہے کہ :میں نے آنحضرت (ص) کو چٹائی پرنماز پڑہتے ہوئے اور اسی پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(۲۲)

۴ ۔ فتح الباری میں زوجہ رسول عائشہ سے مروی ہے کہ آنحضرت (ص) کے پاس ایک چٹائی تھی جسے بچھا کر آپ اسکے او پر نماز پڑھا کرتے تھے ۔(۲۳)

۵ ۔ بحار الانوار میں حضرت علی بن ابی طالب (ع) سے منقول ہے : کہ آنحضرت (ص) نے چٹائی پر نماز پڑھی ۔(۲۴)

۶ ۔ انس کہتے ہیں حضور اکرم (ص) خمرہ ( چٹائی) پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کیاکرتے تھے ۔(۲۵)

۷ ۔ صحیح مسلم اور دوسری کتابوں میں انس سے منقول ہے کہ آنحضرت (ص) سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے ،اگرکبھی نماز کا وقت ہوتا اور آپ ہمارے گھرمیں ہوتے تو حکم کرتے کہ زمین پر بچھی چٹائی کو صاف کریں اور پانی چھڑکیں پھر آپ نماز پڑھاتے تھے اور ہم آپکی امامت میں نماز پڑھتے تھے وہ چٹائی کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی تھی ۔(۲۶)

۸ ۔ مسلم بن حجاج و احمد بن حنبل و ابو عبد اللہ بخاری اور دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں: ” وہ چٹائی جو پرانی ہونے کی وجہ سے کالی ہو گئی تھی میں نے اسے پانی سے صاف کیا اور اس وقت حضرت (ص) نے اس پر کھڑے ہو کر نماز پڑھی“ ۔(۲۷)

۹ ۔مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں : کہ ابو سعید خدری کہتے ہیں :میں آنحضرت (ص) کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اورجس چٹائی پر نماز پڑھ رہے ہیں اسی پر سجدہ (بھی) کر رہے ہیں ۔(۲۸)

۱۰ ۔ انس بن مالک سے روایت ہے ، پیغمبر (ص) جب کبھی ام سلیم کی ملاقات کے لئے تشریف لاتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو ہمارے فرش پرکہ جو چٹائی کا تھا پانی چھڑک کر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔(۲۹)

مندرجہ ذیل روایات کی روشنی میں حضرت رسو ل خدا (ص) کی سیرت اور آپ کا وطیرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے ، کہ آپ ہمیشہ زمین( مٹی) اور گھانس یا جو چیزیں اس سے بنائی جاتی ہے جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ کیا کرتے تھے ، اوردوسرے یہ کہ ان روایات میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ آنحضرت (ص) نے کسی کھائی اور پہنے جانے والی چیزوں پر سجدہ کیا ہو ۔

یہ وہی طریقہ ہے جس کو شیعہ حضرات نے اختیار کیا ہے ، اور وہ اسی کے اوپر گامزن ہیں اس لئے کہ شیعہ حضرات وحی الٰہی اور قرآن مجیدکے بعد سرورکائنات اور ائمہ اطہار (ع) کی سنت و سیرت کے پابند ہیں اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی پیروی کریں اور ان کے حدود سے خارج نہ ہوں ۔

____________________

(۱) کنز العمال ،ج۷،طبع حلب ،ص۴۶۵،کتاب الصلۃ ۔”ترّب وجهک لللّه

(۲) المصنف ،ج۱،ص۳۹۲ ۔ ”رآی النّبی (ص) صهیباً یسجد کانّه یتّقی التّراب فقال له النّبی (ص) : ترّب وجهک یا صهیب ‘ ‘

(۳)ارشاد الساری ، ج۱ ص۴۰۵ ۔ ”قال (ص) لمعاذ : عفّر وجهک فی التّراب

(۴) کنز العمال ج۴/ص۹۹/۲۱۲دوسرا طبع، ج۷/ص۳۲۴ ،الاصابۃ ج۱/ص/۵۰۲،شمارہ /۲۵۶۲۔اسد الغابۃ ج۲/ ص/۱۶۱ ۔ ”قال النّبی (ص) یا رباح ترّب

(۵) النھایۃ (ابن اثیر ) ج۲ مادہ رغم ۔ ”اذا صلیٰ احدکم فلیلزم جبهته و انفه الارض حتیٰ تخرج منه الرغم ان یظهر ذله وخضوعه

(۶) سنن بیہقی ج۲/ص۱۰۵۔ ”ان رسول اللّه (ص) رای رجلاً یسجد بجنبه وقد اعتم علیٰ جبهته،فحسر رسول اللّه (ص) عن جبهته “۔

(۷) سنن بیہقی ج۲/ص۱۰۵۔ ”رای رسول اللّه (ص)رجلاً یسجد علیٰ کور عمامته فاوما بیده: ارفع عمامتک و اوما الیٰ جبهته

(۸) کنز العمال ج۴/ص۲۱۲ ۔ ط دیگر ج۸/ ص۸۶ سنن بیہقی ج۲/ ص ۱۰۵۔ ”اذا کان احدکم یصلی فلیحسر العمامة عن وجهه

(۹) بحار الانوار ج۸۵/ص۱۵۶۔ ”عن النبی (ص)انه نهیٰ ان یسجد المصلی علیٰ ثوبه او علیٰ کمه او علیٰ کور عمامته

(۱۰) سورہ احزاب آیت ۲۱ <لَقَدکَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اَللّه اُسوَة حَسَنَة لِمَن کَانَ یَرجُوا اللّهِ وَ اَلیَومِ الآخِرَ وَ ذِکرُ اللّهَ کَثِیراً >

(۱۱) احکام القرآن (جصاص حنفی ) ج۳/ص/۲۰۹طبع بیروت۔ ”رایت النبی (ص) اذا سجد وضع جبهته و انفه علیٰ الارض

(۱۲) سنن بیہقی ، ج۲/ ص/۱۰۲: ” ان النبی (ص)سجد علی الحجر “

(۱۳) المصنف ج۱/ ص/ ۳۹۷ وکنز العمال ج۴/ ص/ ۲۱۲ دوسری طبع میں :ج۸ /ص/۸۵ : ”ما راٴیت رسول اللّه (ص) متقیا وجهه بشیء “ تعنی فی السجود

(۱۴) سنن نسائی ج۲ /ص/ ۲۰۸ ، السجود علی الجبین : ”بصرت عینای رسول اللّه (ص) علی جبینه واٴنفه اٴثر الماء والطین

(۱۵)مجمع الزوائد ،ج۲/ ص/ ۱۲۶ : ”سجد رسول اللّٰه (ص) فی یوم مطیر حتی انی لا انظر الی اٴثر ذلک فی جبهته وارنبته

(۱۶)سنن بیہقی ،ج۲/ ص/۱۰۶: ”راٴیت رسول اللّه (ص) یصلی فی کساء اٴبیض فی غدة باردة یتقی بالکساء برد الارض بیده ورجلہ “

(۱۷) سیرتنا وسنتنا (ص) ۱۳۲ ۔احمد ابن حنبل کے حوالہ سے ”لقد راٴیت رسول اللّه (ص) فی یوم مطیر وهو یتقی الطین اذا سجد بکساء علیه یجعله دون یدیه الی الارض اذا سجد

(۱۸)سنن ابن ماجہ ج/۱باب السجود علی الثیاب فی الحر و البرد ،ص۳۲۸ ”جائنا النبی (ص) فصلی بنا فی مسجد بنی عبد الاشهل ، فراٴیته واضعاً یدیه علی ثوبه اذا سجد

(۱۹)سنن ابن ماجہ ، ج/ ۱ ص/ ۳۲۸ ۔”ان رسول اللّه (ص) فی بنی عبد الاشهل وعلیه کساء متلفف به ، یضع یدیه علیه یقیه برد الحصی

(۲۰) سنن بیہقی ، ج۲/ ص/ ۴۲۱ ،کتاب الصلات ، باب الصلة علی الحصیر ” دخلت علی رسول اللّٰه (ص) وهو یصلی علی حصیر

(۲۱)سنن ابن ماجہ ، ج۱ باب الصلۃ علی الخمرۃ ،ص ۳۲۸و سنن بیہقی ،ج/۲ص/ ۴۲۱ و مسند احمد ، ج۱: ”کان رسول اللّٰه (ص) یصلی علی الخمرة

(۲۲)سیرتنا وسنتنا ،ص ۱۳۰ ۔ بحوالہ صحیح مسلم۔ ”فراٴیته یصلی علی حصیر یسجد علیه

(۲۳)فتح الباری ،ج۱ ص/۴۱۳۔ ”ان النبی (ص) کان له حصیر یبسطه ویصلی علیه

(۲۴)بحار الانوار ج۸۵ ص/ ۱۵۷۔”ان رسول الله (ص) صلی علی حصیر

(۲۵)معجم اوسط و صغیر طبرانی۔ ”کان رسول اللّه (ص) یصلی علی الخمرة ویسجد علیها

(۲۶)صحیح مسلم ج۱ص ۴۵۷ و سنن بیہقی ج۲ص/ ۴۳۶ و مسند احمد ج۳ ص/ ۲۱۲ غیرہ ”کان رسول اللّه(ص) احسن الناس خلقا فربما تحضر الصلة وهو فی بیتنا فیاٴمر بالبساط الذی تحته فیکنس ثم ینضح ثم یوٴم رسول اللّه (ص) ونقوم خلفه فیصلی بنا وکان بساطهم من جرید النخل

(۲۷)صحیح مسلم ج۱ص۴۵۷ وصحیح بخاری ج۱ ص ۱۰۷ ۔۲۱۸ و مسند احمد ج۳ ص۱۳۰ وغیرہ :” قال انس بن مالک : فقمت الی حصیر لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بماء فقام علیه رسول اللّٰه (ص) فصلّی لنا “

(۲۸) صحیح مسلم ج۱ص۴۵۸ ”عن ابی سعید الخدری:انه دخل علیٰ رسول اللّّٰه (ص) فوجده یصلّی علیٰ حصیر یسجد علیه

(۲۹)طبقات الکبریٰ ج۸ ص۳۱۲ و سنن ابی داود ج۱ ص ۱۷۷:وعن انس بن مالک قال :”کان النبی (ص) یزور ام سلیم احیاناً فتدرکه الصلة فیصلی علی بساط لنا وهو حصیر ینضحه بالماء “

۵ ۔ اصحاب پیغمبر کا طریقہ

اصحاب کے بیانات :

صحابہ کرام کا وطیرہ بھی یہی تھا کہ وہ لوگوں کو زمین پر سجدہ کرنے کا حکم دیتے اور پہنی جانے والی چیزوں پر سجدہ کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ لہٰذا ہم فقط دو اصحاب پیغمبر (ص) کے اقوال آپ حضرات کے سامنے پیش کرنے پر اکتفاکرینگے ۔

۱ ۔ سنن کبر ائے بیہقی میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے یہ حدیث منقول ہے: کہ حضرت (ع) نے فرمایا جب کوئی سجدہ میں جانا چاہے تو عمامہ کو پیشانی سے ہٹالے ۔(۱)

۲ ۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں اور بیہقی نے سنن الکبریٰ میں ابن عباس سے یہ نقل کیا ہے کہ جو شخص سجدہ کی حالت میں اپنی پیشانی اور ناک کو زمین سے نہ لگائے اسکی نماز صحیح اور قابل قبول نہیں ہے ۔(۲)

اصحاب کی سیرت

تمام اسلامی علماء اور محدثین نے احادیث کی کتابوں میں سجدہ سے متعلق اصحاب اور تابعین پیغمبر (ص) کی عملی سیرت کو کم و بیش بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصحاب و تابعین اختیاری حالت میں زمین ( حتیٰ پتھر و خاک ) پر سجدہ کیا کرتے تھے اور لباس یا کپڑے وغیرہ پر سجدہ کرنے سے گریز کرتے تھے ۔ اس ضمن میں بعض احادیث قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں ۔

۱ ۔ نافع کہتے ہیں : کہ عبداللہ بن عمر سجدہ میں پیشانی کو زمین تک پہونچانے کے لئے عمامہ اتارتے تھے(۳)

۲ ۔ ابن سعد اپنی کتاب طبقات الکبریٰ میں نقل کرتے ہیں : کہ مسروق بن اجدع سفر کے دوران مٹی کے ٹھیکرے کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ کشتی میں پر سجدہ کر سکیں ۔(۴)

واضح ر ہے کہ مسروق بن اجدع تابعین رسول اور ابن مسعود کے خاص اصحاب میں سے تھے ، اور صاحب طبقات الکبریٰ نے انکو اہل کوفہ کے راویوں میں طبقہ اولیٰ کی فہرست میںذکر کیا ہے کہ جنھوں نے رسول ا سلام (ص) کے بعد ابو بکر و عمر و عثمان و علی اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ سے بالمشافحہ روایت نقل کی ہے ۔

صدر اسلام کی شخصیتوں کا یہ طریقہ کار ان لوگوں کی باتوں کو کہ جو خاک کربلا ساتھ رکھنے کو بدعت اور شرک سے تعبیر کرتے ہیں بے بنیاد قرار دیتا ہے اور ان بزرگان اسلام کا ہمیشہ مٹی پر سجدہ کرنا اور سفر میں اسے ساتھ لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ، ورنہ معروف و مشہور تابعی مسروق بن اجد ع ٹھیکرے کے ٹکڑے کو اپنے ساتھ کیوں رکھتے ؟کیا شیعوں کے علاوہ صدر اسلا م ان بزرگو ں کی پیروی کوئی اور کرتا ہے ؟!

۳ ۔ رزین کہتے ہیں : علی بن عبد اللہ بن عباس نے میرے پاس لکھا : کہ میرے لئے کوہ مروہ کے پتھر کی ایک تختی بھیجدے تاکہ میں اسپر سجدہ کیا ۔(۵)

علی بن عبد اللہ بن عباس جو تابعین سے ہیں انکے خط سے دو چیزیں معلوم ہوتی ہیں ۔

الف : علی بن عبد اللہ بن عباس کا پتھر پر سجدہ کرنے کا پابند ہونا جو زمین کا جزء ہے،اور اپنے ساتھ اس کو رکھنا توحیدا ور خدا کی عبادت کے عین مطابق ہے اور یہ باعث شرک نہیں اور نہ پتھر کی پوجا ہے ۔

ب : ان کے علاوہ صدر اسلام کی بزرگ شخصیتیں پاک اور مقدس سر زمین کے ٹکڑے ( جیسے مروہ ) کو اپنے ساتھ رکھتی تھیں اور وہ اس پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے ، اور اس کو بطور تبرک مس کرتے اور چومتے تھے ۔

اس بنا پر جو لوگ شیعوں کو زمین پر سجدہ کرنے اور خاک شفاء کو اپنے ساتھ رکھنے کی بنا پر مشرک اور اس عمل کو غیر خدا کی عبادت کہتے ہیں ، ان کی یہ باتیں بے بنیاد ہیں اور وہ ایسے جاہل ہیںجو حضور اکرم (ص) کے اصحاب اور تابعین کے حالات سے بھی آگاہی نہیں رکھتے ہیں ۔

۴ ۔ ابی امیہ کہتا ہے : ابو بکر زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے ( یا نماز پڑھا کرتے تھے)(۶)

۵ ۔ ابو عبیدہ کہتا ہے: ابن مسعود زمین کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے( یا نماز نہیں پڑھتے تھے)(۷)

۶ ۔ عبد اللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے: کہ وہ عمامہ کے کنارے پر سجدہ کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اسے ہٹا دیتے تھے ۔(۸)

۷ ۔ بیہقی عبادہ بن ثابت کے متعلق کہتے ہیں : کہ جب بھی وہ نماز پڑھتے تو اپنی پیشانی سے عمامہ کو ہٹالیتے تھے۔(۹)

مذکورہ روایات سے معلوم اور بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب سجدہ کا حکم نازل ہوا تو، تمام مسلمان اور بالخصوص آنحضرت (ص) زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے ، اور اگر کوئی سجدہ کی حالت میں زمین یا پیشانی پر کپڑا رکھتا تو آنحضرت (ص) سختی سے اسے منع فرماتے تھے ۔ لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ آنحضرت (ص) کی سیرت ، صحابہ کا طریقہ، اور تابعین کی روش، یہی تھی کہ وہ زمین کے اجزاء خاک اور پتھر یا گھانس کی بنی ہوئی چٹائی پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔

اس بارے میں اور بہت سی روایات بھی موجود ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ گرمی کے موسم میں عرب کی شدید گرمی ، بدن جھلسا دینے والی سورج کی تپش اور تپتی ہوئی زمین، اور پتھروںپر اس حال میں سجدہ کرنا نہایت دشوار ہے ، ایسے حالات میں بھی صحابہ کرام پتھرا رو زمین پر سجدہ کرنے کے پابند تھے اسی لئے جلتے ہوئے پتھر کو ہاتھ میں لے کر ٹھنڈا ہی سجدہ کر تے تھے ۔ اس مقام پرہم قارئین کرام کے لئے صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت اور اکرتے ، یا پھر کسی دوسرے طریقہ سے ٹھنڈا کر کے اس پر سجدہ کر تے تھے ، ورنہ پھر اسی تپتی ہوئی زمین پرنکے سجدہ کے طریقے پر مشتمل چند روایات پیش کررہے ہیں ۔ ۸ ۔ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں :کہ میں حضور سرور کائنات (ص) کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے کے لئے ایک مٹھی پتھرلیکر ٹھنڈا کر تا تھا تا کہ اس پر سجدہ کر سکوں۔(۱۰)

یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔ جیسے احمد بن حنبل کی مسند ، سنن بیہقی ، کنز العمال ، سنن نسائی ، و سنن داود اور مختلف الفاظ و عبارت کے ساتھ جابر اور انس وغیرہ سے منقول ہے ۔

بیہقی اپنی سنن میں مذکورہ روایت کو انس سے نقل کرنے کے بعد اپنے استاد سے اسطرح نقل کرتے ہیں :استاد نے فرمایا: اگرپہنے ہوئے لباس پر سجدہ جائز ہوتا تو ہاتھ سے پتھر ٹھنڈا کرنے سے زیادہ آسان یہی تھا کہ اپنے لباس پر ہی سجدہ کر لیا جائے۔(۱۱)

یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسلام کے مسلمانوں اور اصحاب آنحضرت (ص) لباس و پوشاک پر سجدہ کرنے کو جائز نہیں جانتے تھے ، ورنہ سجدہ کے لئے کنکروں کو ٹھنڈا کرنے پر کوئی وجہ نہ ہوتی کہ پتھر کو ہاتھ میں لیکر ٹھنڈا کریں اور پھر اسی پر سجدہ بجالائیں اگر کپڑوں پر سجدہ جائز ہوتا تو ہر ایک مسلمان و صحابی جلتی ہوئی زمین پر کپڑے رکھکر نماز پڑھ لیتا اور پتھرٹھنڈا کرنے کی نوبت بھی نہ آتی ۔

۹ ۔ انس کہتے ہیں : میں آنحضرت (ص) کے ساتھ گرمی میں نمازپڑھتے تھے تو ہم میں سے ایک شخص ہاتھ میں کچھ کنکر لیکر اسے ٹھنڈا کر دیتا تھا تا کہ اس کے سرد ہونے پر سجدہ کرسکیں ۔(۱۲)

اس بارے میں بہت زیادہ روایتیں موجود ہیں کہ اصحاب پیغمبر (ص) زمین کی شدید گرمی سے تنگ آکر رسول (ص) کی خدمت میں شکایت لیکر حاضر ہوئے تاکہ آنحضرت (ص) زمین کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت دیدیں ، مگر حضور (ص) نے زمین کے علاوہ اور کسی چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ہر منصف مزاج انسان کو معلوم ہے اگر کپڑے موکٹ و قالین پر سجدہ کرنا جائز ہوتا تو بیشک آنحضرت (ص) مسلمانوں کو اس پر سجدہ کرنے کی اجازت دیدیتے ۔

ہم یہاں پر ایسی کثیر روایتوں میں سے فقط چند حدیثوں کو بطور نمونہ پیش کرنا چاہیں گے تاکہ اپنا مدعی ( شیعہ حق پر ہیں ) ثابت ہو جائے ۔

۱۰ ۔ بیہقی نے خباب بن ارت سے سیہ روایت نقل کی ہے : ہم نے شدید گرمی اور پیشانی و ہاتھوں کے جلنے کی شکایت ، آنحضرت (ص) کی خدمت میں پیش کی مگر حضرت (ص) نے ہماری فریاد کو قبول نہ کیا ۔(۱۳)

۱۱ ۔ مسلم بن حجاج نے بھی خباب بن ارت سے یہ روایت کی ہے : ہم نے حضور پاک (ص) کی خدمت میں جھلسا دینے والی شدید گرمی کی شکایت کی مگر حضرت (ص) نے ہماری شکایت قبول نہ فرمائی۔

( یعنی کوئی دوسرا راہ حل نہ نکالا )۔(۱۴)

____________________

(۱) السنن الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۵۔ ”اذا کان احدک(م یصلی فلیحسر العمامة عن جبهته

(۲) مستدرک حاکم ج۱ ص ۲۷۰ و سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۳،۱۰۴۔ ”من لم یلزق اٴنفه مع جبهته الارض اذا سجد لم تجز صلاته

(۳) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵ طبع ۱ (حیدرآباد دکن )کتاب الصلة ، باب الکشف عن السجدة فی السجود ” ان ابن عمر کان اذا سجدو علیه العمامة یرفعها حتی یضع جبهته بالارض “

(۴) الطبقات الکبری ، ج۶ ص ۷۹ طبع بیروت :مسروق بن اجدع کے احوال میں : ”کان مسروق اذا خرج یخرج بلبنة یسجد علیها فی السفینة

(۵) اخبار مکۃ ( ازرقی ) ج۳ ص ۱۵۱ :(رزّین کے حوالے سے ) ”کتب الی علی بن عبد اللّه بن عباس ان ابعث الیّ بلوح من احجار المروة اٴسجد علیه

(۶) المصنف ج ۱ ص ۳۹۷ ۔”ان ابا بکر کان یسجد او یصلی علی الارض ۔۔۔۔“

(۷) المصنف ج۱ ص ۳۶۷ و مجمع الزوائد ج ۲ ص ۵۷ :بحوالہ طبرانی ۔”ان ابن مسعود لا یسجد او قال : لا یصلی الا علی الارض

(۸) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵ و المصنف ج۱ ص ۴۰۱۔”عن عبد اللّه بن عمر انه کان یکره ان یسجد علی کور عمامته حتی یکشفها

(۹) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵۔”انه کان اذا قام الی الصلة حسر العمامة عن جبهته

(۱۰)مسند احمد ج۱/ ص ۳۸۸ ۔۴۰۱ ۔ ۴۳۷ ۔ ۴۶۲۔”کنت اصلی مع رسول اللّٰه (ص) الظهر فآخذ قبضة من حصی فی کفی لتبرد حتی اسجد علیها من شدة الحر “ اور اس کی مثل سنن بیہقی ج/۱ ص/ ۴۳۹ ، میں وارد ہوئی ہے ۔

(۱۱) سنن بیہقی ج۲ /ص ۱۰۵ ، ۱۰۶: ”قال الشیخ : ولو جاز السجود علی ثوب متصل به ، لکان ذلک اسهل من تبرید الحصی فی الکف ووضعها للسجود

(۱۲)سنن بیہقی ج۲/ ص ۱۰۶۔ ”کنا نصلی مع رسول الله (ص) فی شدة الحر فیاٴخذ احدنا الحصباء فی یده فاذا برد وضعه وسجد علیه

(۱۳) سنن بیہقی ج۱/ص ۴۳۸ و ج ۲/ ص ۱۰۵ ۔ ۱۰۷۔ ”شکونا الی رسول اللّٰه (ص) شدة الرمضاء فی جباهنا واٴکفنا فلم یشکنا

(۱۴) صحیح مسلم ج۱/ ص۴۳۳۔ ”عن خباب قال : اٴتینا رسول اللّٰه (ص) فشکونا الیه حّر الرّمضاء فلم یشکنا