کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ  75%

کربلا کی خاک پر سجدہ  مؤلف:
زمرہ جات: فقہ مقارن

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4927 / ڈاؤنلوڈ: 2667
سائز سائز سائز
کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام: کربلا کی خاک پر سجدہ

مولف: سید رضا حسینی نسب

مترجم: محمد اصغر صادقی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

پیشکش: مہدی (عج) مشن

مقدمہ آیت اللہ جعفر سبحانی دامت برکاتہ

مٹی پر سجدہ کرنا روح عبادت ہے

اسلامی محققین اپنی بصیرت کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تمام موجودات اپنے خالق سے ایک خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔ اگر اس رابطہ کو خالق سے توڑ دیا جائے۔ تو پھر ان موجودات کا وجود ہی فنا کی نذر ہو جائے گا ۔ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ” اے لوگو تم سب کے سب خدا کے محتاج ہو اور ( صرف ) خدا ہی (تمام لوگوں ) سے بے نیازاور حمد و ثنا کا مستحق ہے “(۱)

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اپنے کو پہچاننا خدا کو پہچاننا ہے کیونکہ حقیقت وجود انسان بھی اس ذات غنی و حمید سے مربوط ہے ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے کو پہچانے اور اس حقیقی رابطہ کو فراموش کر دے جو اس کے ا ور رب جلیل کے درمیاں موجود ہے ۔

لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ” خدا کو بھولنا خود کو فراموش کرنے کے مترادف ہے“ جیسا کہ قرآن مجید اس چیز کی طرف اس آیہ شریفہ میںاشارہ کررہا ہے (اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انھیں ایسا کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔(۲)

انسان کو ان لوگوں جیسا نہیں ہونا چاہئے جنھوں نے خدا کو بھلا دیا کیونکہ قرآن خود ان کو جواب دیتا ہے کہ انھوں نے اپنی ہستی کو بھلا دیا ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نمک کھائے اور نمک دان کو بھول جائے ؟!یہ ناشکری کی آخری حد ہے۔خالق و مخلوق کا رابطہ یہ وہ حقیقت ہے جس تک محققین دلیل و برہان کے ذریعہ پہنچے ہیں۔اور عرفاء سیر وسلوک کے ذریعہ کشف و شہود کی منازل کو طے کرنے کے بعد بصیرت کی نگاہوں سے اس رابطہ کا مشاہدہ کیا ہے۔جبکہ بہت سارے عام لوگوں نے بھی فطرت کی طرف رجوع کرکے اس حقیقت کو درک کیا ہے کہ انسانی وجود کا دارو مدار ہر لحاظ سے اسی بے نیازخدا سے رابطہ کے او پر قائم ہے ۔واضح ہے، کہ خدا کی پہچان انسان کے بدن میں ایک جنبہ روحی کی حیثیت سے تجلی اور خودنمائی کرتی ہوئی خدا کے سامنے فروتن و خاضع ہوتی ہے ۔اس لئے کہ تمام کی تمام شریعتیں اور عبادتیں مثلا نماز و روزہ اس لئے ضروری قرار دئے گئے ہیں کہ عقلاء فکر و تدبر سے اور عرفاء کشف و شھود سے اور ایک عام انسا ن ا پنی فطرت کی طرف رجوع کرکے خدا وند عالم کی بارگاہ میں سر بسجود ہو ۔ اسلام کا مقدس نظام گذشتہ شریعتوں کا خلاصہ ا ور نچوڑ ہے ۔

خود یہ نماز انسان کی حس اولیہ کو جلاء و روشنی بخشتی ہے، ہم اس کا احساس نہیں کرسکتے، کیونکہ نماز ایک عبادت توقیفی ہے۔ لہٰذا اسکی تمام خصوصیات کو خداوند عالم ہی جانتا ہے ۔

فقہ امامیہ میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نماز پڑھنے والا صرف زمین ( پتھر ا ور خاک ) اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرے ان شرائط کی پابندی کرنا علماء امامیہ کی نظر میں ضروری و لازمی ہے ، اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین ونباتات پرسجدہ فروتنی و خاکساری کی عظیم تجلی گاہ ہے جو نماز کا پہلا مقصد ہے کہ انسان خداوند جلیل کے سامنے اپنے کو ذلیل و حقیر اور پست و نادار شمار کرے جیسا کہ گذشتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔(فاطر ۱۵ )

اب سونے ،چاندی اور قیمتی کپڑے اور لباس پرسجدہ کرنا کیا فروتنی و انکسار ی کے ساتھ سازگاری رکھتا ہے ؟! اس لئے اہل بیت (ع) کے چاہنے والے ، کارخانہ ، مراکز ، مسافرت اور ہر وہ جگہ جہاں پر انکو یہ اندیشہ ہو کہ مٹی نہ ملے گی وہاں اپنے ساتھ پاک و پاکیزہ مٹی لے جاتے ہیں تاکہ نماز کے وقت خدا کے سامنے ( خاک ریز ہوں ) خاک پر سجدہ کریں لہٰذا ایسا کام بدعت اور اسلام میں نوآوری کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ عین فروتنی ہے، کیونکہ بزرگان ما سلف کے درمیان بھی ایسی ہی رسم موجود تھی ۔بلکہ واجب ہے کہ انسان ایسا کرے تاکہ نماز تمام شرائط کیسا تھ انجام دی جا سکے ۔ اور یہ بھی کتنی پیاری چیز ہے کہ بعض افراد اپنے گھروں میں ، جھولیوں میں تھوڑی خاک رکھے رہتے ہیں ،تاکہ مجبوری میں اس پر تیمم کر کے اپنے فریضہ سے سبکدوش ہو سکیں ۔ اس لئے کہ ہر وقت انسان کی دسترسی پاک مٹی تک نہیں ہوتی ہے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے: <صعیداً طیباً >پاک مٹی پر تیمم کر کے اپنے فریضہ کو انجام دو ۔ (کہنا پڑیگا ) علماء اہل سنت زمین اور اس سے اُگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کے فلسفہ سے آگاہی نہیں رکھتے بلکہ وہ صحابہ و تابعین کی سنت و سیرت سے بھی لا علم ہیں اس کتاب میں خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، اگر وہ لوگ اسکو دقت اور توجہ سے مطالعہ کریں تو مجبور ہو کر اپنے فریضہ کی ادائیگی میں تجدید نظر اور تبدیلی کی سونچ میں پڑ جائں گے ۔تعجب ہے بہت سارے نادان اور نام نہاد علماء کا خیال خام یہ ہے کہ شیعہ خود مٹی کی عبادت کرتے ہیں جبکہ یہ بات بدیہی اور واضح ہیکہ شیعہ خضوع و خشوع اور فروتنی کے لئے خاک پر سجدہ انجام دیتے ہیں ۔

جس طریقے سے مسلمانوں کے تمام فرقے کسی نہ کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں، (ہم نہیں کہتے کپڑے کی پوجا کرتے ہو ) اسی طرح ہم بھی دو چیزوں پر ( زمین اور اس سے اگنے والی چیز ) سجدہ کرتے ہیں ، جس طریقے سے وہ لوگ کپڑے و کتان پر سجدہ کرنے کو خودکپڑے کی عبادت نہیں کہتے تو ہم مٹی پر سجدہ کرتے ہیں کہاں سے مٹی کی عبادت ہو جائے گی! قارئین محترم آپ حضرات کے سامنے یہ تمام بحثیں وضاحت و تفصیل کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے ۔ پڑھیئے اور محظوظ ہویئے ۔ہم مولف عالیقدر حجةالاسلام و المسلمین جناب سید رضا حسینی نسب کے شکر گذار ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے لکھنے اور تحقیق و تتبع کرنے میں بڑی زحمت برداشت کی ۔ اور دوست عزیز جناب آقای حاجی حسن محمدی پرویزیان کے بھی شکر گذار ہیں کہ انکی بیکراں سفارش اور تاکید کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی اورحکم الدال علی الخیر کفاعله ( کار خیر کی راہنمائی مثل انجام دینے کے ہے ) کے مطابق وہ بھی اس ثواب عظیم و اجر جزیل میں مولف ارجمند کے ساتھ شریک ہیں ۔ درگاہ خدا میں دست بدعا ہیں کہ یہ رسالہ اتحاد و بھائی چارگی اور تمام مسلمانوں کے درمیان حسن تفاہم کا باعث بنے ۔

جعفر سبحانی

قم موسسہ امام صادق (ع)

۲۵ /۵/ ۱۳۶۹ مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۱ ھئ

____________________

(۱) فاطر/۱۵۔<یَا اَیهَا النَّاسُ اَنتُم الفُقرَاءُ اِلیَ اللّهِ وَاَللّهُ هُوَا الغَنیُّ الحَمِیدُ

(۲) حشر/۱۹ <وَلَا تَکُونوُا کَا لّذِینَ نَسُو اللَّهِ فَانَسَاهُم اَنفُسَهُم >

پیش گفتار

سجدہ اسلام اور اہل اسلام کی نگاہ میں انسان کا خالق کی بارگاہ میں نہایت فروتنی و بردباری کے ساتھ سر جھکا نے کا نام ہے جو آدمیت کے لئے ” عبودیت “ کی معراج ہے ۔ ا سی لئے قرآن مجید نہ فقط انسان کو ،بلکہ دنیا کی تمام چیزوں کو سجدہ کرنے والے کے عنوان سے تعبیر کرتا ہے ، جیسا کہ قول خداوند عالم ہے :( وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ، سب اس کیلئے سجدہ کرتے ہیں۔(۱)

اس بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے واجب اور فرض ہیں اورانھیں انجا م دینا ضروریات دین و اسلام میںسے ہے لیکن اسکی کیفیت اوراسے انجام دینے کے طریقے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔

تشیع : اس مذہب کے افراد سنت و سیرت نبی (ص)اور آپکے اہل بیت طاہرین (ع)و اصحاب آنحضرت (ص)اور تابعین کی عملی سیرت کی روشنی میں سجدہ اللہ کے لئے فقط زمین اور جو چیز ا س سے اگتی ہے ۔

(سوائے کھانے اور پینے والی چیزوں ) اس پر انجام دیتے ہیں ۔حقیقتاً آئندہ بحثوں سے اندازہ ہو جائیگا ، کہ یہی روش بندگی صحیح اور رسول (ص) و آل رسول (ع)و اصحاب کرام کی پسندیدہ ہے لہٰذا انکی اتباع و پیروی کرتے ہوئے ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں ۔

اہل سنت و الجماعت : اس مذہب کے افراد محل سجدہ کے بارے میں مزید وسعت کے قائل ہیں لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ سجدہ فقط زمین پر ضروری نہیں ہے بلکہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر بھی درست ہے ۔ بیان کردہ مطالب سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ سنی وشیعہ دونوں گروہ ، خدا کے سامنے فقط خضوع و خشوع اور اسکی رضا و خوشنودی کے لئے اسکی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہیں ، جس میں کوئی اختلا ف نہیں ہے لیکن بعض مولفین نے گمان کیا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مٹی کی عبادت ہے اور مٹی کی عبادت کرنا شرک ہے ، لہٰذا مٹی پر سجدہ کرنے والے مشرک ہیں جبکہ انکا یہ خیال بالکل بے بنیاد اور انکا یہ تصور باطل ہے ، جسکی حقیقت مثل سراب ہے ۔ ہم آیندہ بحثوں میں شیعہ امامیہ کے نظریات اور انکے دلائل قارئین کے سامنے پیش کریںگے انصاف خود اہل نظر کے ہاتھ ہے

و ما علینا الا البلاغ

مولف

____________________

(۱) سورہ رعد /۱۵<وَ ِللّٰهِ یَسجُدُ َمن ِفی السّمٰوَاتِ وَ الاَرضِ >

۱ ۔ شیعوں کا نظریہ

دوستداران اہل بیت (ع)، سنت اور سیرت معصومین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے صرف زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے ( لیکن کھانے اور پہننے والی نہ ہو ) اس پر سجدہ اللہ کے لئے کرتے ہیں ، اور درگاہ خدائے یکتا و لازوال میں مزیدخشوع و خضوع ا ور فروتنی کے لئے خاک کربلاپر سجدہ کرتے ہیں اس لئے کہ خدا کے سامنے خاک پر سجدہ کرنا انسان کی فروتنی و خاکساری کی دلیل ہے جس سے انسان مقام بندگی و عبودیت کے بلند مرتبے اور اپنی پیدائش کے پہلے مقصد سے قریب ہوتا ہے ۔

بعض نے یہ گمان کیا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنا خود مٹی کی عبادت ہے اور مٹی کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ ( پس مٹی پر سجدہ کرنے والے مشرک ہیں ) لہٰذا وہ مقام اعتراض میں یہ کہتے ہیںکہ شیعہ کیوں مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ؟ ان کے جواب میں ہم یہ بتانا چاہینگے کہ یہ دو جملے الگ الگ ہیں ۔

۱ ۔السجود لله یعنی سجدہ فقط اللہ کے لئے کرنا ۔

۲ ۔السجود علی الارض یعنی زمین پر سجدہ کرنا ،ان دونوں جملوں میں فرق واضح ہے لیکن جو معترض ہے وہ ان دو نوں جملوں میں فرق نہیں کرتا ہے ۔ جبکہ دونوںکے معنی روشن ہیں ایک ہے اللہ کے لئے سجدہ کرنا اور دوسرے کامطلب زمین پر سجدہ کرنایا دوسر ے الفاظ میں دونوں کو ملا کر کہیں ”زمین پر اللہ کے لئے سجدہ کرنا“ لہٰذا ہم ایسا ہی کرتے ہیں ( یعنی زمین پر اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہیں ) یہ بنیادی بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دنیا کے تمام مسلمان کسی نہ کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ ا ن کا سجدہ خداکے لئے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام حاجی حضرات مسجد الحرام کے پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ انکامقصد خدا کے لئے سجدہ کرنا ہے ۔

اس بیان کی روشنی میں خاک ( مٹی ) اور گھانس پر سجدہ کرنے کا مطلب خود اسکو سجدہ کرنا نہیں ہے بلکہ عبادت و سجدہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے ہے ۔ یہیں سے دونوں جملوں کا فرق واضح ہو جاتا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنااور اللہ کے لئے سجدہ کرنا جدا ہے۔لہٰذا ہم اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لئے امام مکتب تشیع حضرت جعفر (ع) کے اقوال کا سہارا لیتے ہوئے اور وضاحت کرنا چاہتے ہیں :ہشام کہتے ہیں کہ میں نے جن چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح ہے ان کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا ۔ تو حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا : سجدہ فقط زمین اور جو چیز زمین سے اُگتی ہے ( سوائے کھانے اور پینے والی چیزوں کے ) اسی پر سجدہ کرنا چاہئے میں نے عرض کیا مولا آپ پر میری جان فدا ہو ۔ اس کی علت کیا ہے ؟ فرمایا: اس لئے کہ سجدہ خضوع و فروتنی اورعبادت پروردگار عالم ہے ، اور کھانے و پینے والی چیزوں میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کی اس سے خدا کی بارگاہ میں خضوع و فروتنی حاصل کی جا سکے ۔ اس لئے کہ اہل دنیا کھانے اور پینے کے غلام ہیں جبکہ انسان سجدہ کی حالت میں خدا کی عبادت کرتا ہے کیونکہ جو معبود اہل دنیا کو حیران اور سرگردان کئے ہو اسکے اوپر پیشانی رکھ کر خدا کی بارگاہ میں آئے بہتر نہیں ہے ( اس لئے کہ تذلل اور اپنے کو پست و بے تکبر خدا کے سامنے پیش کرنے کا نام سجدہ ہے ) زمین پر سجدہ کرنا بہتر ہے کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کے حضور میں خضوع و خشوع کے لئے یہی حا لت سب سے زیادہ بہترہے۔(۱)

امام علیہ السلام کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین اور مٹی پر سجدہ کرنا خدا کے حضور فروتنی و خضوع کی جہت سے ہے، اور فروتنی و تذلل و بے مایہ گی خدا کے سامنے اسکی عبادت سے بہت سادہ سازگاری اور نزدیکی رکھتی ہے ۔ لہٰذا علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اپنی کتاب ”سیر تنا وسنتنا “ میں اس حقیقت کو فاش کرتے ہیں ”سجدہ عظمت ِپروردگار کے سامنے فروتنی و تذلل کے ساتھ بجالانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے ، اس لئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ نماز میں سجدہ کے لئے زمین کو انتخاب کرے اور سجدہ کی حالت میں پیشانی و ناک کو زمین پر رکھے تاکہ اس کو اپنی حقیقت اور کم مائیگی و پست سرشت کی طرف یاد دہانی ہو سکے کہ مٹی سے بنا ہے اور پھر مٹی میں واپس لوٹ کر جانا ہے ، اور پھر اسی سے اٹھایا جائیگا اور خدا کی یاد تازہ رہے پند و نصیحت سے عبرت حاصل کرے اپنے کئے پر نادم و شرمندہ ہو تاکہ فروتنی اور خاکساری اور خواہش بندگی زیادہ سے زیادہ پیدا ہو سکے ، اور خود خواہی و سرکشی سے پرہیز یعنی تاریکی سے روشنی کی طرف نکل آئے ۔ کہ انسان دوست و قرین مٹی ہے خدا وندعالم کے سامنے ) ذلیل و پست و حاجتمند کے سواء اور کچھ نہیں ہے“(۲)

۲ ۔ زمین پر سجدہ کرنے کے دلائل

سوال : ایک سوال یہاں پر اور پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ فقط زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر ہی کیوںسجدہ کرتے ہیں ؟ اور دوسری کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے ؟ جواب : اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ جس طرح کسی بھی عبادت کے لئے ضروری ہے کہ خداوندعالم پیغمبر (ص)کے ذریعہ اس عبادت کو لوگوں تک پہونچائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے ،کہ اسکے شرائط و احکام بھی خدا اپنے رسول (ص) کے ذریعہ ہی لوگوں پہونچائے ۔ اس لئے کہ رسول خدا (ص) قرآن کے حکم کے مطابق تمام لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہیں ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں سے تمام دینی احکام کو سیکھیں ۔

اس بنا پر پیغمبر اسلام (ص) سے منقول متعدد حدیثیں اور آپ کی سیرت عملی اور آپ کے اصحاب و تابعین کے طریقہ عملی اور انکی روش جو عام طور سے اہل سنت کی روائی کتابوں میں موجود ہے انہیں ہم قارئین کرام کے سامنے انشاء اللہ تفصیل سے پیش کرینگے ۔ اور پھر ہرشخص یہ گواہی دینے پر مجبور ہو جائیگا کہ حقیقت کیا ہے؟ نیز یہ بھی واضح ہو جائگا کہ آنحضرت (ص) و آپ کے اہل بیت (ع) اور اصحاب و تابعین کا وطیر ہ یہ تھا کہ وہ زمین، یا ا س سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ کرتے تھے ،ٹھیک اسی طرح جیسے آج شیعہ حضرات اکی سیرت پر چلتے ہوئے پابند عمل ہیں ۔

۳ ۔ خاک پر سجدہ پیغمبر (ص) کی سنت ہے

حضور ختمی مرتبت (ص)کے اقوال و احادیث دنیا کے تمام مسلمانوں کی نگاہ میں حجت اور ایسے چشمے کے مانند ہیں کہ ہر شخص اس سے استفادہ کرنے اور اسے اپنی زندگی کا لائحہ عمل قرار دینے کو لازم و واجب سمجھتا ہے ۔

جس طرح شیعہ حضرات تمام امور زندگی میں بالخصواسلام کے بنیادی احکام کے استخراج کے سلسلہ میں اپنا مرکزو مآخذپیغمبر (ص)کی احادیث کو قرار دیتے ہیں اسی طرح سے سجدہ کے احکام میں بھی آنحضرت (ص)کے اقوال کی اتباع کرتے ہیں۔ علمائے اسلام نے زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کے متعلق بہت ساری روایتوں کو آنحضرت (ص) سے نقل فرمایا ہے جن میں سے ہم چند احادیث کو بطور تبرک نقل کرتے ہیں ۔

۱ ۔محدثین حضرات نے حضور پاک (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا:” زمین میرے لئے سجدہ کی جگہ اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے“(۳)

یہ روایت مختلف الفاظ میں حدیثوں کی متعدد کتابوں میںدرج ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔

۲ ۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا : تمام زمین ہمارے لئے سجدہ گاہ اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔(۴)

۳ ۔ بیہقی اپنی سنن میں حضور (ص)سے اسطرح نقل کرتے ہیں :زمین میرے لئے پاک و پاکیزگی اور سجدہ کی جگہ قرار دی گئی ہے ۔(۵)

۴ ۔ اور بحار الانوار میں اس طرح منقول ہے ۔” زمین آپ (ص)اور آپ کی امت کے لئے سجدہ گاہ اور پاک و پاکیزہ قرار دی گئی ہے“(۶)

۵ ۔ اور مصباح المسند میں مرقوم ہے حضور اکرم (ص) نے فرمایا : تمام زمین میرے اور میری امت کے لئے سجدہ گاہ اور پاک و پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے ۔(۷)

مذکور روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی سطح چاہے خاک اور پتھریا گھانس ہو اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور وہ پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے ۔ (ہم اسکی و ضاحت آئندہ بیان کرینگے )لہٰذا بغیر کسی معقول عذر کے کسی کو اس حد سے تجاوز کا حق نہیں ہے ۔ یہاں پر لفظ ” جعل “ قانون بنانے کے معنی میں ہے جیسا کہ عبارت سے بخوبی روشن ہے ۔اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ زمین پر سجدہ کرنا اسلام کے پیروکاروں کے لئے خدا کا حکم ہے ۔ اور اس کی اتباع کرنا ہر مسلمان کے اوپر واجب ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۸۲/ص/۱۴۷ باب (ما یصح السجود علیہ)”وہ چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے“ طبع بیروت موسسہ الوفا سال ۱۴۰۳ھ۔ ۱۹۸۳نقل از(علل الشرایع):

عن هشام بن الحکم قال قلت لابی عبد الله (ع) : اخبرنی عما یجوز السجود علیه و عما لایجوز ؟ قال السجود لایجوز الا علیٰ الارض او ما انبتت الارض الا ما اکل او لبس فقلت له : جعلت فداک ، ما العلةفی ذالک ؟ قال : لاٴن السجود هو الخضوع للّه عزوجل فلا ینبغی ان یکون علی ما یوٴکل و یلبس ، لان اٴبناء الدنیا عبید ما یاکلون ویلبسون ، والساجد فی سجوده فی عبادة الله عزوجل ، فلا ینبغی ان یضع جبهة فی سجوده علی معبود اٴبناء الدنیا الذین اغتروا بغرورها ، والسجود علی الارض افضل ، لانه اٴبلغ فی التواضع و الخضوع لله عزوجل

(۲) سیرتنا وسنتنا ص/۱۲۵

والانسب بالسجدة التی ان هی الا التصاغر و التذلل تجاه عظمة المولی سبحانه ووجاه کبریائه : ان تتخذ الارض لدیها ،مسجدا یعفر المصلیٰ بها خده ویرغم اٴنفه لتذکر الساجد للّه طینته الوضعیة الخسیسة التی خلق منها و الیها یعود و منها یعاد تارة اخری ، حتی یتعظ بها ویکون علی ذکر من وضاعة اصله ، لیتاٴنی له خضوع روحی و ذل فی الباطن وانحطاط فی النفس واندفاع فی الجوارح الی العبود یة و تقاعس عن الترفّع و الانانیة ، ویکون علی بصیرة من ان المخلوق من التراب حقیق و خلیق بالذل و المسکنة لیس الا

(۳)صحیح بخاری ج/۱ کتاب الصلۃ ص ۹۱، سنن بیہقی ج/۱ص/۲۱۲،باب تیمم بالصعید الطیب، اقتضاء صراط المستقیم (ابنتیمیہ)ص/۳۳۲، صحیح مسلم ج/۱ ص/۳۷۱، سنن نسائی ج۱باب تیمم بالصعید ص۲۱۰ ،سنن ترمزی ج۲ ص ۱۳۱،۱۳۳ج۴ ص۱۲۳۔”جعلت لی الارض مس جداً و طهوراً

(۴) صحیح مسلم ج۱ ص۳۷۱و سیرتناو سنتنا میں نسائی ، ترمذی ، اور ابو داود سے نقل کرتے ہوئے :”جعلت لنا الارض کلها مسجداً و طهوراً

(۵)سنن بیہقی ج۶ ص۲۹۱: ”جعلت لی الارض طیبة و طهوراً و مسجداً

(۶) بحار الانوار ج/۸۳ ص/۲۷۷ : ”جعلت لک ولامتک الارض کلها مسجداً وطهوراً

(۷) مصباح المسند ، شیخ قوام الدین : ”وجعلت الارض کلها لی ولامتی مسجداً وطهوراً

پہلی حدیث(١) :

رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے

اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:

( قل لااسئلکم علیه اجراًالاالمودة فی القربی )

(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار ہیں ۔(٥)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے

ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔

لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے

سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔

(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.

(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.

(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣

(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:

سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔

دوسری حدیث :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟

اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْه ، فی تفاسیرهم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت هذه الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک هولاء الذین وجبت علینا مودتُهم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداهما))

ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )

نازل ہوئی تولوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟

تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔

(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛

آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔

المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔

(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔

(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔

(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔

(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:

جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔

(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:

کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.

(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:

سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.

( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).

طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ )

ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔

محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.

ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.

ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.

قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.

قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں

تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.

تیسری حدیث :

حسنہ سے مراد آل محمد کی محبت ہے

اخرج ابن ابی حاتم،عن ابن عباس فی قوله تعالی:( وَمَنْ یَقْتَرِف حَسَنَةً ) قال : ((المودة لآل محمد )).

ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے اس آیہومن یقترف حسنة :اور جو شخص بھی ایک نیکی حاصل کرے گاہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے )(١)کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آیت میں ''حسنة ''سے مراد آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مودت ہے ۔(٢)

چوتھی حدیث :

ایمان کا دار و مدار آل محمدد کی محبت ومودت پر ہے

اخرج احمد ، والتِّرمذی و صححه ،والنسائی والحاکم ،عن المطلب بن ربیعة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((واﷲلا یدخل قلب امریء مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

احمد ،(٣)ترمذی (٤)( صحیح سند کے ساتھ )، نسائی (٥)اور حاکم(٦) نے مطلب بن ربیعہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

قسم بخدا کسی بھی مسلم مرد کے دل میںاس وقت تک'' ایمان''(٨) داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رضایت اور میری قرابتدار ی کی وجہ سے تم (اہل بیت) کو دوست نہ رکھے ۔ (٩)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)سورہ شوری آیت ٢٣.

(٢)مذکورہ حدیث علمائے اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

سیوطی ؛ تفسیر در منثور جلد ٦ ، ص ٧۔ تفسیر کشاف جلد ٣، ص ٤٦٨۔ الفصول المہمة ص٢٩۔ الجامع لا حکام القرآن جلد ١٦ ،ص ٢٤۔

قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں : اقتراف کے معنی حاصل اور اکتساب کرنے کے ہیں جس کا مادہ قرف بمعنی کسب ہے،اور اقتراف بمعنی اکتساب آیا ہے

الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ الشواہد التنزیل جلد ٢ ،ص ١٤٧۔ فضائل الخمسة ج ٢، ص ٦٧۔

(٣)ابو عبد اﷲ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ذہلی شیبانی مروزی بغدادی ؛ آپ ١٦٤ھ میں پیدا ہوئے، اور ٧٧ سال گزار کر ٢٤١ھ میں شہر بغداد میں چل بسے ، آپ کو اہل سنت کے فقہی چاروں اماموں میں سے ایک جلیل القدر امام کے طور پر مانا اور پہنچانا جاتاہے ، آپ ایک بلند پایہ کے حافظ اور محدث تھے ،یہاں تک کہ دس لاکھ حدیثیں آ پ کو یاد تھیں، آ پ کی اہم ترین کتاب ''المسند'' ہے، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

شذرات الذہب ، جلد ٢ ، ص ٩٨ ،٩٦. تذکرة الحفاظ ج ٢ ، ص ٤٤٢، ٤٤١.

(٤)ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی ترمذی ؛ آپ جلیل القدر محدث، نابینااور امام بخاری کے خاص شاگرد تھے ،آپ ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٧٩ ھ میں شہر ترمذ میں گزر گئے ، اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، اوردیگر شہروں وغیرہ کا سفر کیا ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٤٣٥ ، ٤٣٣۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٦١٦۔ میزان الاعتدال ج ٣، ص ١١٧۔لباب ابن اثیر ج ١، ص ١٧٤۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص ١٩٣۔ النجوم الزاہرہ ج ٣، ص٧١۔ تہذیب التہذیب ج ٩، ص ٣٨٧۔

(٥)ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی؛ آپ ٢١٥ ھ میں شہر نسائ(خراسان کا ایک شہر) میں متولد ہوئے ،اور ٣٠٣ ھ میں ٨٨سال کے سن میں فلسطین میں وفات پائی ،کہا جاتا ہے کہ آ پ کے جنازے کو فلسطین سے مکہ لاکر وہاں دفن کیا گیا ، آپ اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، حجاز ، شام اور مصر کے علماء کی خدمت میں گئے، اور ان سے حدیث کے بارے میں کسب فیض کیا ،آ پ کا بزرگ علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ، آپ ایک مدت تک مصر میں قیام پذیر رہے ، اس کے بعد دمشق میں سکونت اختیار کی ، آ پ کی مشہور کتابیں'' السنن اور الخصائص'' ہیں ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

طبقات الشافعیةج ٣، ص ١٦، ١٤۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٢٤١،٢٣٩۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٢٥۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص٢٤۔ تہذیب التہذیب ج١٠، ص٣٦۔

(٦)حاکم ابو عبد اﷲ محمد بن محمد بن حمد ویہ بن نعیم طہمانی نیشاپوری ؛ آپ ٣١٢ھ میں پیدا ہوئے، او ر ٤٠٥ ھ میں وفات ہوئی ، آپ علم کے اشتیاق میں ٢٠ سال کے سن سے ہی عراق چلے گئے تھے، اس کے بعد خراسان اور ماورای النہر سفرکیا ، آپ ایک مدت تک شہر نسا ء کے قاضی رہے ، لیکن بعد میں اس عہدے سے استعفا ء دیدیا ،بہر حال آپ متعدد مرتبہ آل بویہ کی حکومت میں اہم منصب پر فائز رہے، آپ سے دار قطنی ، بیہقی اور دیگر بڑے محدثین نے روایتیں نقل کی ہیں،آپ کی مشہور کتابیں یہ ہیں : مستدرک الصحیحین ،اور المدخل الی العلم الصحیح ،اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ، ص ١٠٤٩، ١٠٤٥۔ وفیات الاعیان ج ٤، ص ٤٠٨۔ اعلام المحدثین ٣٢٤۔

(٧) آپ مطلب بن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب بن ہاشم ہاشمی یعنی ربیعہ (بن حرث) اور ام الحکم( بنت زبیر بن عبد المطلب) کے بیٹے ہیں ،آپ نے رسول اور علی سے احادیث نقل کی ہیں ، اور جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ یہ حضرات ہیں : خود آپ کے بیٹے عبد اﷲ اور عبد بن حرث بن نوفل ہیں ، علمائے انساب نے آپ کو مطلب کے نام سے یاد کیا ہے حالانکہ بعض محدثین آپ کو عبد المطلب کے نام سے جانتے ہیں ، آپ پہلے مدینہ میں پھر شام میں رہنے لگے ، اور یہیں ٦٢ ھ میں وفات پائی ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے:

الاصابة جلد ٤ ، ص١٩١۔ نیز جلد ٦، ص ١٠٤۔ الاستیعاب جلد ٣، ص ٤١٣۔

(٨)مذکورہ حدیث نقل کئے گئے حوالوں کے بعض نسخوں میں کلمہ ایمان نہیں آیا ہے لہٰذا اس صورت میں حدیث کے معنی اس طرح ہوںگے : خدا کسی مسلمان کے دل میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ تم کو خدا کیلئے اور میری قرابت کی خاطر دوست نہ رکھے

(٩) مذکورہ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: ایک مرتبہ جناب عبا س یعنی رسول کے چچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اﷲ! کچھ مقامات پر میں نے دیکھا کہ قریش آپس میں باتیں کررہے تھے ،لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ سب خاموش ہوگئے ،یہ سنکر رسول بہت نا راض ہوئے اور فرمایا:

((واﷲ لا یدخل قلب امری مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

المسند جلد ٣، ص٢١٠،حدیث نمبر :١٧٧۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح ج ٣، ص ٣٠٥ ، ٣٠٤۔ باب مناقب عباس ابن عبد المطلب.

(ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے). سیوطی ؛ الدر المنثور ج ٦ ،ص ٧۔(سیوطی نے اس حدیث کو آیہ مودت کے ذیل میں نقل کیا ہے) طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٩ ۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج ٦، ص ٢١٨۔ خطیب تبریزی ؛مشکاة المصابیح ج ٣، ص ٢٥٩ ، ٢٥٨۔

پانچویں حدیث :

اہل بیت کے بارے میں خدا کا لحاظ کرو

اخرج مسلم ، والترمذی والنسائی ،عن زید بن ارقم ؛ ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:(( اذکرکم اﷲ فی اهل بیتی ))

مسلم (١)، ترمذی اور نسائی نے زید بن ارقم (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا : اے میری امت والو! میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،(ان کا خیال رکھنا کیونکہ میں قیامت میں تم سے ان کے بارے میں سوال کروں گا اگر تم نے ان سے نیکی کی تو خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہوگی اور اگر تم نے انھیں ستایا تو اس کے عذاب سے ڈرو،اقتباس از احادیث ) (٣)

چھٹی حدیث:

کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک ضروری ہے

اخرج الترمذی و حسنه ، والحاکم ،عن زید بن ارقم ؛قال: قال رسولﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی تارک فیکم ماان تمسکتم به لن تضلوا بعدی ،کتاب اﷲ ، وعترتی اهل بیتی و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیهما))

ترمذی ( حسن سند کے ساتھ)اور حاکم نے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور دیکھو !یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہر گز جدا نہ ہوںگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے،(لہٰذااچھی طرح اور خوب سمجھ بوجھ لو! )تم میرے بعد ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ؟ (٤)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) آپ کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری ہے آپ ٢٠٢ھ (یا٢٠٦)میں متولد ہوئے ، او ر ٢٦١ ھ میں (دیہات)نصر آباد ،ضلع نیشاپور میں وفات ہوئی ،آپ نے بغداد کے کئی مرتبہ سفر کئے ، آپ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح (صحیح مسلم )ہے، اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ١٥٠۔طبقات الحنابلہ ص٢٤٦۔ مرآة الجنان ج ٢ ص١٧٤۔ وفیات الاعیان ج٢، ص١١٩۔ تاریخ بغداد ج ٣، ص ١٠٠۔بستان المحدثین ص ١٠٤۔

(٢) زید بن ارقم بن زید انصاری خزرجی؛ ذہبی نے آپ کو بیعت رضوان والوں میں شمار کیا ہے ، موصوف نے تقریباً ١٧ غزووں(جنگوں) میںرسول اسلام کے ساتھ شرکت کی ، اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت فرمائی ، او ر ٦٦ ھ میں جناب مختار کے دور حکومت کوفہ میں وفات پائی ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج١، ص ٤٥۔الاصابة ج ٣،ص ٢١۔ الاستیعاب ج ١ص ٥٦٦،٥٧٨۔

(٣)مذکورہ حدیث کو سیوطی نے اس جگہ اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، لیکن امام مسلم نے اس حدیث کوتفصیل کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیه، قال له حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، رأیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، وسمعت حدیثه،وغزوت معه،و صلیت خلفه، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! ما سمعت من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال یابن اخی:واللّٰه لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عهدی،و نسیت بعض الذی أعِی من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا،فلاتکلفونیه ثم قال:قام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یوما فینا خطیباًبِمائٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰه َو اَثْنیٰ علیه و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ :الَاَ یا ایها الناس! فانما انا بشر یوشک ان یأتِیَ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِک فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُهُماَ کتاَبُ اللّٰه ،فِیْهِ الهُدیٰ وَ النُّورُ فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ به، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰه وَ رَغَّبَ فِیْهِ، ثم قاَلَ: وَ اَهْلُ بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فی اَهْلِ بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰه فیِ اَهْلِ بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰه فِی اَهْلِ بَیْتی ثلَاَثا،فقال له حصین :و من اهل بیته؟ یازید !أَلَیس نسائُه من اهل بیته؟ قال: نسائه من اهل بیته، و لکن اهل بیته من حُرِم الصّدقة بعده ،قال :و من هم؟ قال: هم آلُ عَلی ،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل هٰؤلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم.''

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کہتے ہیں: ایک مرتبہ میںاور حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، اور حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:''اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، کیو نکہ تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے فیض حاصل کرچکاہے، اور تونے رسول کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، اس طرح تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، لہٰذا جو تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کہتے ہیں: اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بہت کچھ کلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میںفراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رہا ہوں اسے قبول کرلینا،اور جہاں سکوت کرلوں تو اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کہتے ہیں: ایک روز رسول اسلام مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے، اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمایا: اے لوگو !میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے ،اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رہو، اور اس سے بہرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیت ہیں ،اور میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے خوف کرنا ،اور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا).

زید نے جب تمام حدیث بیان کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں؟

زید ابن ارقم نے کہا: ہاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں مگر ان اہل بیت میں نہیں جن کی سفارش رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمارہے ہیں، بلکہ یہ وہ اہل بیت ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟

زید بن ارقم نے کہا :وہ اولاد علی ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں!

حصین نے کہا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کہا: ہاں.

عرض مترجم: اس حدیث کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حالانکہ حدیث غدیر کے سینکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم ہیںجو یہ کہتے تھے :''اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علی کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا و آقا ہیں، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ، اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ ''

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے اہل بیت کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حالانکہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت سے مراد آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا تھا.

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے:

مسند احمد بن حنبل ج ٤، ص ٤٦٧ ،٤٦٦۔ کنزالعمال ج ١، ص ١٥٩، ١٥٨۔ سیوطی؛ در منثور ج٦،ص٧۔

(مذکورہ حدیث سیوطی نے اس کتاب میںترمذی اور مسلم سے نقل کی ہے).

اکلیل ص ١٩٠۔ القول الفصل ج ١،ص٤٨٩۔ عین المیزان ص ١٢ فتح البیان ج٧، ص ٢٧٧۔

(٤)مذکورہ حدیث کو ترمذی نے باب مناقب اہل بیت میں نقل کیا ہے ، اور حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے

دیکھئے : الجامع الصحیح(ترمذی شریف) ج ٢ ، ص٣٠٨۔

البتہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے مقام پرٹھہر نے کا حکم دیا اور کہا یہاں سائبان لگایا جائے، پھر فرمایا:

کانی قد دعیت فاجبت،انی تارک فیکم الثقلین احدهمااکبر من الآخر کتاب اﷲ ، وعترتی، فانظرواکیف تخلفونی فیهما،و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،ثم قالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ان اﷲ عز وجل مولای و انا مولی کل مومن ،ثم اخذ بید علی فقال:صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''من کنت مولاه فهذاولیه، اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه.

گویا میرے لئے خدا کی طرف سے دعوت ہونے والی ہے جسے مجھے یقیناً قبول کرنا ہوگا،میں تمھارے درمیا ن دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک؛ د وسرے سے اکبر ہے(یعنی ایک ثقل اکبر ہے اور دوسری ثقل اصغر) اوریہ کتاب خدا ہے اور میری عترت ، پس دیکھو کہ تم میرے بعد کیا ان کے ساتھ سلوک کرتے ہو، یعنی ان کا احترام کرتے ہو یا نہیں ؟ یقیناً وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے،اور میرے پاس حوض کوثر پروارد ہونگے،اس وقت فرمایا :بیشک میرا مولااور سر پرست خدا ہے، اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں ، پھر علی ـ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا ولی اور آقا علی ہے اے میرے خدا !تو دوست رکھ اسکو جو علی کو دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : مذکورہ حدیث شرط شیخین(بخاری اور مسلم) کی روشنی میں صحیح ہے

ایک وضاحت :

امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ حدیثوں کونقل کیا ہے،ممکن ہے ایک حدیث ان حضرات کے نزدیک صحت( اور صحیح ہونے)کے شرائط پر نہ اترے لیکن دوسرے محدثین کے نزدیک صحیح ہو ،یا ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو لیکن دوسروں کی نزدیک ضعیف ہو، اور نیز خود ان حضرات کے درمیا ن بھی حدیث کے شرائط صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ مسلم نے احادیث کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے :

١۔ وہ احادیث جن کے راوی اعتقاد کے اعتبارسے درست اور نقل روایت میں متقن ہوں،اور ان کی روایتوں میں نہ کسی قسم کی فاحش غلطی اور نہ ہی ان روایتوں کے اندر کوئی شدید اختلاف پایا جاتاہو

٢۔وہ احادیث جن کے راوی حفظ اور اتقان میں پہلے درجہ تک نہ پہنچیں

٣۔وہ احادیث جن کے راوی اکثر محدثین کے نزدیک کذب بیانی میں متہم ہوں

مسلم نے اپنی کتاب میں مذکورہ تیسرے طبقے سے روایت نقل نہیں کی ہے

امام بخاری کی شرط صحت کے بارے میں حافظ ابو الفضل بن طاہر کہتے ہیں :

احادیث کے تمام راوی موثق ہوں ، اور ان کی وثاقت تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہونے کے ساتھ ان کی سند بھی متصل ہو ، نیز سند مشہور صحابہ میں سے کسی ایک تک منتہی ہوتی ہو

حافظ ابو بکر حازمی کہتے ہیں : شرط صحت بخاری کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے تمام اسناد متصل ہوں ، اور راوی مسلمان اور صادق ہو، اور ان میں کسی طرح کی خیانت اور غش نہ پائی جائے ، اور عادل ، حافظہ قوی اورعقیدہ سالم ہو،نیزہر قسم کے اشتباہات سے دور ہو ں

مزید معلومات کیلئے حسب ذیل کتابیں دیکھئے :

صحیح مسلم ج ١، ص٢ ۔فتح ا لباری شرح صحیح ا لبخاری ج ١، ص٧۔ مترجم.

نسائی نے بھی مذکورہ حدیث کو الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ،اور حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کیا ہے کہ زید سے جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس حدیث کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: ایسا کوئی فردنہیں جو اس سائبان کے نیچے ہواور اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو

قارئین کرام !مذکورہ کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج ١،ص ١٥٤۔ذخائر العقبی باب فضائل اہل بیت ۔ مسند احمد بن حنبل ، ج ٣ ، ص ١٧و ج٤ص ٣٦٦۔ سنن بیہقی ج ٢، ص ١٤٨، ج ٧،ص ٣٠ .سنن دارمی ج ٢ ،ص ٤٣١۔ مشکل الآثار ج ٤، ص ٣٦٨۔ اسد الغابة ج ٢، ص ١٢ ۔ مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٠٩و ص ١٤٨۔ مجمع الزوائد جلد ١،ص ١٦٣۔و جلد ١٠، ص ٣٦٣۔ طبقات ابن سعد جلد ٢، ص ٢ ۔ حلیة الاولیاء جلد ١ ،ص٣٥٥۔ تاریخ بغداد جلد ٨، ص ٤٤٢۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ الریاض النضرة جلد٢، ص ١٧٧ ۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ینابیع المودة، ص ٣١۔ مصابیح السنة ص ٢٠٥۔ جامع الاصول جلد١ ،ص ١٨٧۔ المواہب اللدنیة جلد٧، ص ٧۔

پہلی حدیث(١) :

رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے

اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:

( قل لااسئلکم علیه اجراًالاالمودة فی القربی )

(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار ہیں ۔(٥)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے

ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔

لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے

سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔

(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.

(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.

(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣

(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:

سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔

دوسری حدیث :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟

اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْه ، فی تفاسیرهم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت هذه الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک هولاء الذین وجبت علینا مودتُهم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداهما))

ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )

نازل ہوئی تولوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟

تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔

(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛

آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔

المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔

(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔

(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔

(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔

(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:

جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔

(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:

کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.

(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:

سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.

( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).

طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ )

ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔

محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.

ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.

ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.

قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.

قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں

تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.

تیسری حدیث :

حسنہ سے مراد آل محمد کی محبت ہے

اخرج ابن ابی حاتم،عن ابن عباس فی قوله تعالی:( وَمَنْ یَقْتَرِف حَسَنَةً ) قال : ((المودة لآل محمد )).

ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے اس آیہومن یقترف حسنة :اور جو شخص بھی ایک نیکی حاصل کرے گاہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے )(١)کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آیت میں ''حسنة ''سے مراد آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مودت ہے ۔(٢)

چوتھی حدیث :

ایمان کا دار و مدار آل محمدد کی محبت ومودت پر ہے

اخرج احمد ، والتِّرمذی و صححه ،والنسائی والحاکم ،عن المطلب بن ربیعة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((واﷲلا یدخل قلب امریء مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

احمد ،(٣)ترمذی (٤)( صحیح سند کے ساتھ )، نسائی (٥)اور حاکم(٦) نے مطلب بن ربیعہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

قسم بخدا کسی بھی مسلم مرد کے دل میںاس وقت تک'' ایمان''(٨) داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رضایت اور میری قرابتدار ی کی وجہ سے تم (اہل بیت) کو دوست نہ رکھے ۔ (٩)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)سورہ شوری آیت ٢٣.

(٢)مذکورہ حدیث علمائے اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

سیوطی ؛ تفسیر در منثور جلد ٦ ، ص ٧۔ تفسیر کشاف جلد ٣، ص ٤٦٨۔ الفصول المہمة ص٢٩۔ الجامع لا حکام القرآن جلد ١٦ ،ص ٢٤۔

قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں : اقتراف کے معنی حاصل اور اکتساب کرنے کے ہیں جس کا مادہ قرف بمعنی کسب ہے،اور اقتراف بمعنی اکتساب آیا ہے

الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ الشواہد التنزیل جلد ٢ ،ص ١٤٧۔ فضائل الخمسة ج ٢، ص ٦٧۔

(٣)ابو عبد اﷲ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ذہلی شیبانی مروزی بغدادی ؛ آپ ١٦٤ھ میں پیدا ہوئے، اور ٧٧ سال گزار کر ٢٤١ھ میں شہر بغداد میں چل بسے ، آپ کو اہل سنت کے فقہی چاروں اماموں میں سے ایک جلیل القدر امام کے طور پر مانا اور پہنچانا جاتاہے ، آپ ایک بلند پایہ کے حافظ اور محدث تھے ،یہاں تک کہ دس لاکھ حدیثیں آ پ کو یاد تھیں، آ پ کی اہم ترین کتاب ''المسند'' ہے، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

شذرات الذہب ، جلد ٢ ، ص ٩٨ ،٩٦. تذکرة الحفاظ ج ٢ ، ص ٤٤٢، ٤٤١.

(٤)ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی ترمذی ؛ آپ جلیل القدر محدث، نابینااور امام بخاری کے خاص شاگرد تھے ،آپ ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٧٩ ھ میں شہر ترمذ میں گزر گئے ، اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، اوردیگر شہروں وغیرہ کا سفر کیا ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٤٣٥ ، ٤٣٣۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٦١٦۔ میزان الاعتدال ج ٣، ص ١١٧۔لباب ابن اثیر ج ١، ص ١٧٤۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص ١٩٣۔ النجوم الزاہرہ ج ٣، ص٧١۔ تہذیب التہذیب ج ٩، ص ٣٨٧۔

(٥)ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی؛ آپ ٢١٥ ھ میں شہر نسائ(خراسان کا ایک شہر) میں متولد ہوئے ،اور ٣٠٣ ھ میں ٨٨سال کے سن میں فلسطین میں وفات پائی ،کہا جاتا ہے کہ آ پ کے جنازے کو فلسطین سے مکہ لاکر وہاں دفن کیا گیا ، آپ اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، حجاز ، شام اور مصر کے علماء کی خدمت میں گئے، اور ان سے حدیث کے بارے میں کسب فیض کیا ،آ پ کا بزرگ علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ، آپ ایک مدت تک مصر میں قیام پذیر رہے ، اس کے بعد دمشق میں سکونت اختیار کی ، آ پ کی مشہور کتابیں'' السنن اور الخصائص'' ہیں ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

طبقات الشافعیةج ٣، ص ١٦، ١٤۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٢٤١،٢٣٩۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٢٥۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص٢٤۔ تہذیب التہذیب ج١٠، ص٣٦۔

(٦)حاکم ابو عبد اﷲ محمد بن محمد بن حمد ویہ بن نعیم طہمانی نیشاپوری ؛ آپ ٣١٢ھ میں پیدا ہوئے، او ر ٤٠٥ ھ میں وفات ہوئی ، آپ علم کے اشتیاق میں ٢٠ سال کے سن سے ہی عراق چلے گئے تھے، اس کے بعد خراسان اور ماورای النہر سفرکیا ، آپ ایک مدت تک شہر نسا ء کے قاضی رہے ، لیکن بعد میں اس عہدے سے استعفا ء دیدیا ،بہر حال آپ متعدد مرتبہ آل بویہ کی حکومت میں اہم منصب پر فائز رہے، آپ سے دار قطنی ، بیہقی اور دیگر بڑے محدثین نے روایتیں نقل کی ہیں،آپ کی مشہور کتابیں یہ ہیں : مستدرک الصحیحین ،اور المدخل الی العلم الصحیح ،اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ، ص ١٠٤٩، ١٠٤٥۔ وفیات الاعیان ج ٤، ص ٤٠٨۔ اعلام المحدثین ٣٢٤۔

(٧) آپ مطلب بن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب بن ہاشم ہاشمی یعنی ربیعہ (بن حرث) اور ام الحکم( بنت زبیر بن عبد المطلب) کے بیٹے ہیں ،آپ نے رسول اور علی سے احادیث نقل کی ہیں ، اور جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ یہ حضرات ہیں : خود آپ کے بیٹے عبد اﷲ اور عبد بن حرث بن نوفل ہیں ، علمائے انساب نے آپ کو مطلب کے نام سے یاد کیا ہے حالانکہ بعض محدثین آپ کو عبد المطلب کے نام سے جانتے ہیں ، آپ پہلے مدینہ میں پھر شام میں رہنے لگے ، اور یہیں ٦٢ ھ میں وفات پائی ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے:

الاصابة جلد ٤ ، ص١٩١۔ نیز جلد ٦، ص ١٠٤۔ الاستیعاب جلد ٣، ص ٤١٣۔

(٨)مذکورہ حدیث نقل کئے گئے حوالوں کے بعض نسخوں میں کلمہ ایمان نہیں آیا ہے لہٰذا اس صورت میں حدیث کے معنی اس طرح ہوںگے : خدا کسی مسلمان کے دل میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ تم کو خدا کیلئے اور میری قرابت کی خاطر دوست نہ رکھے

(٩) مذکورہ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: ایک مرتبہ جناب عبا س یعنی رسول کے چچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اﷲ! کچھ مقامات پر میں نے دیکھا کہ قریش آپس میں باتیں کررہے تھے ،لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ سب خاموش ہوگئے ،یہ سنکر رسول بہت نا راض ہوئے اور فرمایا:

((واﷲ لا یدخل قلب امری مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

المسند جلد ٣، ص٢١٠،حدیث نمبر :١٧٧۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح ج ٣، ص ٣٠٥ ، ٣٠٤۔ باب مناقب عباس ابن عبد المطلب.

(ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے). سیوطی ؛ الدر المنثور ج ٦ ،ص ٧۔(سیوطی نے اس حدیث کو آیہ مودت کے ذیل میں نقل کیا ہے) طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٩ ۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج ٦، ص ٢١٨۔ خطیب تبریزی ؛مشکاة المصابیح ج ٣، ص ٢٥٩ ، ٢٥٨۔

پانچویں حدیث :

اہل بیت کے بارے میں خدا کا لحاظ کرو

اخرج مسلم ، والترمذی والنسائی ،عن زید بن ارقم ؛ ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:(( اذکرکم اﷲ فی اهل بیتی ))

مسلم (١)، ترمذی اور نسائی نے زید بن ارقم (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا : اے میری امت والو! میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،(ان کا خیال رکھنا کیونکہ میں قیامت میں تم سے ان کے بارے میں سوال کروں گا اگر تم نے ان سے نیکی کی تو خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہوگی اور اگر تم نے انھیں ستایا تو اس کے عذاب سے ڈرو،اقتباس از احادیث ) (٣)

چھٹی حدیث:

کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک ضروری ہے

اخرج الترمذی و حسنه ، والحاکم ،عن زید بن ارقم ؛قال: قال رسولﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی تارک فیکم ماان تمسکتم به لن تضلوا بعدی ،کتاب اﷲ ، وعترتی اهل بیتی و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیهما))

ترمذی ( حسن سند کے ساتھ)اور حاکم نے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور دیکھو !یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہر گز جدا نہ ہوںگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے،(لہٰذااچھی طرح اور خوب سمجھ بوجھ لو! )تم میرے بعد ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ؟ (٤)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) آپ کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری ہے آپ ٢٠٢ھ (یا٢٠٦)میں متولد ہوئے ، او ر ٢٦١ ھ میں (دیہات)نصر آباد ،ضلع نیشاپور میں وفات ہوئی ،آپ نے بغداد کے کئی مرتبہ سفر کئے ، آپ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح (صحیح مسلم )ہے، اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ١٥٠۔طبقات الحنابلہ ص٢٤٦۔ مرآة الجنان ج ٢ ص١٧٤۔ وفیات الاعیان ج٢، ص١١٩۔ تاریخ بغداد ج ٣، ص ١٠٠۔بستان المحدثین ص ١٠٤۔

(٢) زید بن ارقم بن زید انصاری خزرجی؛ ذہبی نے آپ کو بیعت رضوان والوں میں شمار کیا ہے ، موصوف نے تقریباً ١٧ غزووں(جنگوں) میںرسول اسلام کے ساتھ شرکت کی ، اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت فرمائی ، او ر ٦٦ ھ میں جناب مختار کے دور حکومت کوفہ میں وفات پائی ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج١، ص ٤٥۔الاصابة ج ٣،ص ٢١۔ الاستیعاب ج ١ص ٥٦٦،٥٧٨۔

(٣)مذکورہ حدیث کو سیوطی نے اس جگہ اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، لیکن امام مسلم نے اس حدیث کوتفصیل کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیه، قال له حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، رأیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، وسمعت حدیثه،وغزوت معه،و صلیت خلفه، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! ما سمعت من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال یابن اخی:واللّٰه لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عهدی،و نسیت بعض الذی أعِی من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا،فلاتکلفونیه ثم قال:قام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یوما فینا خطیباًبِمائٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰه َو اَثْنیٰ علیه و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ :الَاَ یا ایها الناس! فانما انا بشر یوشک ان یأتِیَ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِک فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُهُماَ کتاَبُ اللّٰه ،فِیْهِ الهُدیٰ وَ النُّورُ فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ به، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰه وَ رَغَّبَ فِیْهِ، ثم قاَلَ: وَ اَهْلُ بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فی اَهْلِ بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰه فیِ اَهْلِ بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰه فِی اَهْلِ بَیْتی ثلَاَثا،فقال له حصین :و من اهل بیته؟ یازید !أَلَیس نسائُه من اهل بیته؟ قال: نسائه من اهل بیته، و لکن اهل بیته من حُرِم الصّدقة بعده ،قال :و من هم؟ قال: هم آلُ عَلی ،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل هٰؤلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم.''

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کہتے ہیں: ایک مرتبہ میںاور حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، اور حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:''اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، کیو نکہ تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے فیض حاصل کرچکاہے، اور تونے رسول کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، اس طرح تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، لہٰذا جو تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کہتے ہیں: اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بہت کچھ کلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میںفراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رہا ہوں اسے قبول کرلینا،اور جہاں سکوت کرلوں تو اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کہتے ہیں: ایک روز رسول اسلام مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے، اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمایا: اے لوگو !میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے ،اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رہو، اور اس سے بہرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیت ہیں ،اور میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے خوف کرنا ،اور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا).

زید نے جب تمام حدیث بیان کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں؟

زید ابن ارقم نے کہا: ہاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں مگر ان اہل بیت میں نہیں جن کی سفارش رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمارہے ہیں، بلکہ یہ وہ اہل بیت ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟

زید بن ارقم نے کہا :وہ اولاد علی ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں!

حصین نے کہا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کہا: ہاں.

عرض مترجم: اس حدیث کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حالانکہ حدیث غدیر کے سینکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم ہیںجو یہ کہتے تھے :''اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علی کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا و آقا ہیں، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ، اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ ''

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے اہل بیت کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حالانکہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت سے مراد آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا تھا.

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے:

مسند احمد بن حنبل ج ٤، ص ٤٦٧ ،٤٦٦۔ کنزالعمال ج ١، ص ١٥٩، ١٥٨۔ سیوطی؛ در منثور ج٦،ص٧۔

(مذکورہ حدیث سیوطی نے اس کتاب میںترمذی اور مسلم سے نقل کی ہے).

اکلیل ص ١٩٠۔ القول الفصل ج ١،ص٤٨٩۔ عین المیزان ص ١٢ فتح البیان ج٧، ص ٢٧٧۔

(٤)مذکورہ حدیث کو ترمذی نے باب مناقب اہل بیت میں نقل کیا ہے ، اور حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے

دیکھئے : الجامع الصحیح(ترمذی شریف) ج ٢ ، ص٣٠٨۔

البتہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے مقام پرٹھہر نے کا حکم دیا اور کہا یہاں سائبان لگایا جائے، پھر فرمایا:

کانی قد دعیت فاجبت،انی تارک فیکم الثقلین احدهمااکبر من الآخر کتاب اﷲ ، وعترتی، فانظرواکیف تخلفونی فیهما،و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،ثم قالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ان اﷲ عز وجل مولای و انا مولی کل مومن ،ثم اخذ بید علی فقال:صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''من کنت مولاه فهذاولیه، اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه.

گویا میرے لئے خدا کی طرف سے دعوت ہونے والی ہے جسے مجھے یقیناً قبول کرنا ہوگا،میں تمھارے درمیا ن دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک؛ د وسرے سے اکبر ہے(یعنی ایک ثقل اکبر ہے اور دوسری ثقل اصغر) اوریہ کتاب خدا ہے اور میری عترت ، پس دیکھو کہ تم میرے بعد کیا ان کے ساتھ سلوک کرتے ہو، یعنی ان کا احترام کرتے ہو یا نہیں ؟ یقیناً وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے،اور میرے پاس حوض کوثر پروارد ہونگے،اس وقت فرمایا :بیشک میرا مولااور سر پرست خدا ہے، اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں ، پھر علی ـ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا ولی اور آقا علی ہے اے میرے خدا !تو دوست رکھ اسکو جو علی کو دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : مذکورہ حدیث شرط شیخین(بخاری اور مسلم) کی روشنی میں صحیح ہے

ایک وضاحت :

امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ حدیثوں کونقل کیا ہے،ممکن ہے ایک حدیث ان حضرات کے نزدیک صحت( اور صحیح ہونے)کے شرائط پر نہ اترے لیکن دوسرے محدثین کے نزدیک صحیح ہو ،یا ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو لیکن دوسروں کی نزدیک ضعیف ہو، اور نیز خود ان حضرات کے درمیا ن بھی حدیث کے شرائط صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ مسلم نے احادیث کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے :

١۔ وہ احادیث جن کے راوی اعتقاد کے اعتبارسے درست اور نقل روایت میں متقن ہوں،اور ان کی روایتوں میں نہ کسی قسم کی فاحش غلطی اور نہ ہی ان روایتوں کے اندر کوئی شدید اختلاف پایا جاتاہو

٢۔وہ احادیث جن کے راوی حفظ اور اتقان میں پہلے درجہ تک نہ پہنچیں

٣۔وہ احادیث جن کے راوی اکثر محدثین کے نزدیک کذب بیانی میں متہم ہوں

مسلم نے اپنی کتاب میں مذکورہ تیسرے طبقے سے روایت نقل نہیں کی ہے

امام بخاری کی شرط صحت کے بارے میں حافظ ابو الفضل بن طاہر کہتے ہیں :

احادیث کے تمام راوی موثق ہوں ، اور ان کی وثاقت تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہونے کے ساتھ ان کی سند بھی متصل ہو ، نیز سند مشہور صحابہ میں سے کسی ایک تک منتہی ہوتی ہو

حافظ ابو بکر حازمی کہتے ہیں : شرط صحت بخاری کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے تمام اسناد متصل ہوں ، اور راوی مسلمان اور صادق ہو، اور ان میں کسی طرح کی خیانت اور غش نہ پائی جائے ، اور عادل ، حافظہ قوی اورعقیدہ سالم ہو،نیزہر قسم کے اشتباہات سے دور ہو ں

مزید معلومات کیلئے حسب ذیل کتابیں دیکھئے :

صحیح مسلم ج ١، ص٢ ۔فتح ا لباری شرح صحیح ا لبخاری ج ١، ص٧۔ مترجم.

نسائی نے بھی مذکورہ حدیث کو الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ،اور حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کیا ہے کہ زید سے جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس حدیث کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: ایسا کوئی فردنہیں جو اس سائبان کے نیچے ہواور اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو

قارئین کرام !مذکورہ کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج ١،ص ١٥٤۔ذخائر العقبی باب فضائل اہل بیت ۔ مسند احمد بن حنبل ، ج ٣ ، ص ١٧و ج٤ص ٣٦٦۔ سنن بیہقی ج ٢، ص ١٤٨، ج ٧،ص ٣٠ .سنن دارمی ج ٢ ،ص ٤٣١۔ مشکل الآثار ج ٤، ص ٣٦٨۔ اسد الغابة ج ٢، ص ١٢ ۔ مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٠٩و ص ١٤٨۔ مجمع الزوائد جلد ١،ص ١٦٣۔و جلد ١٠، ص ٣٦٣۔ طبقات ابن سعد جلد ٢، ص ٢ ۔ حلیة الاولیاء جلد ١ ،ص٣٥٥۔ تاریخ بغداد جلد ٨، ص ٤٤٢۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ الریاض النضرة جلد٢، ص ١٧٧ ۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ینابیع المودة، ص ٣١۔ مصابیح السنة ص ٢٠٥۔ جامع الاصول جلد١ ،ص ١٨٧۔ المواہب اللدنیة جلد٧، ص ٧۔


4