کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ  75%

کربلا کی خاک پر سجدہ  مؤلف:
زمرہ جات: فقہ مقارن

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4946 / ڈاؤنلوڈ: 2683
سائز سائز سائز
کربلا کی خاک پر سجدہ

کربلا کی خاک پر سجدہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام: کربلا کی خاک پر سجدہ

مولف: سید رضا حسینی نسب

مترجم: محمد اصغر صادقی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

پیشکش: مہدی (عج) مشن

مقدمہ آیت اللہ جعفر سبحانی دامت برکاتہ

مٹی پر سجدہ کرنا روح عبادت ہے

اسلامی محققین اپنی بصیرت کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ تمام موجودات اپنے خالق سے ایک خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔ اگر اس رابطہ کو خالق سے توڑ دیا جائے۔ تو پھر ان موجودات کا وجود ہی فنا کی نذر ہو جائے گا ۔ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ” اے لوگو تم سب کے سب خدا کے محتاج ہو اور ( صرف ) خدا ہی (تمام لوگوں ) سے بے نیازاور حمد و ثنا کا مستحق ہے “(۱)

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اپنے کو پہچاننا خدا کو پہچاننا ہے کیونکہ حقیقت وجود انسان بھی اس ذات غنی و حمید سے مربوط ہے ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے کو پہچانے اور اس حقیقی رابطہ کو فراموش کر دے جو اس کے ا ور رب جلیل کے درمیاں موجود ہے ۔

لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ” خدا کو بھولنا خود کو فراموش کرنے کے مترادف ہے“ جیسا کہ قرآن مجید اس چیز کی طرف اس آیہ شریفہ میںاشارہ کررہا ہے (اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انھیں ایسا کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔(۲)

انسان کو ان لوگوں جیسا نہیں ہونا چاہئے جنھوں نے خدا کو بھلا دیا کیونکہ قرآن خود ان کو جواب دیتا ہے کہ انھوں نے اپنی ہستی کو بھلا دیا ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نمک کھائے اور نمک دان کو بھول جائے ؟!یہ ناشکری کی آخری حد ہے۔خالق و مخلوق کا رابطہ یہ وہ حقیقت ہے جس تک محققین دلیل و برہان کے ذریعہ پہنچے ہیں۔اور عرفاء سیر وسلوک کے ذریعہ کشف و شہود کی منازل کو طے کرنے کے بعد بصیرت کی نگاہوں سے اس رابطہ کا مشاہدہ کیا ہے۔جبکہ بہت سارے عام لوگوں نے بھی فطرت کی طرف رجوع کرکے اس حقیقت کو درک کیا ہے کہ انسانی وجود کا دارو مدار ہر لحاظ سے اسی بے نیازخدا سے رابطہ کے او پر قائم ہے ۔واضح ہے، کہ خدا کی پہچان انسان کے بدن میں ایک جنبہ روحی کی حیثیت سے تجلی اور خودنمائی کرتی ہوئی خدا کے سامنے فروتن و خاضع ہوتی ہے ۔اس لئے کہ تمام کی تمام شریعتیں اور عبادتیں مثلا نماز و روزہ اس لئے ضروری قرار دئے گئے ہیں کہ عقلاء فکر و تدبر سے اور عرفاء کشف و شھود سے اور ایک عام انسا ن ا پنی فطرت کی طرف رجوع کرکے خدا وند عالم کی بارگاہ میں سر بسجود ہو ۔ اسلام کا مقدس نظام گذشتہ شریعتوں کا خلاصہ ا ور نچوڑ ہے ۔

خود یہ نماز انسان کی حس اولیہ کو جلاء و روشنی بخشتی ہے، ہم اس کا احساس نہیں کرسکتے، کیونکہ نماز ایک عبادت توقیفی ہے۔ لہٰذا اسکی تمام خصوصیات کو خداوند عالم ہی جانتا ہے ۔

فقہ امامیہ میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نماز پڑھنے والا صرف زمین ( پتھر ا ور خاک ) اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرے ان شرائط کی پابندی کرنا علماء امامیہ کی نظر میں ضروری و لازمی ہے ، اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین ونباتات پرسجدہ فروتنی و خاکساری کی عظیم تجلی گاہ ہے جو نماز کا پہلا مقصد ہے کہ انسان خداوند جلیل کے سامنے اپنے کو ذلیل و حقیر اور پست و نادار شمار کرے جیسا کہ گذشتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔(فاطر ۱۵ )

اب سونے ،چاندی اور قیمتی کپڑے اور لباس پرسجدہ کرنا کیا فروتنی و انکسار ی کے ساتھ سازگاری رکھتا ہے ؟! اس لئے اہل بیت (ع) کے چاہنے والے ، کارخانہ ، مراکز ، مسافرت اور ہر وہ جگہ جہاں پر انکو یہ اندیشہ ہو کہ مٹی نہ ملے گی وہاں اپنے ساتھ پاک و پاکیزہ مٹی لے جاتے ہیں تاکہ نماز کے وقت خدا کے سامنے ( خاک ریز ہوں ) خاک پر سجدہ کریں لہٰذا ایسا کام بدعت اور اسلام میں نوآوری کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ عین فروتنی ہے، کیونکہ بزرگان ما سلف کے درمیان بھی ایسی ہی رسم موجود تھی ۔بلکہ واجب ہے کہ انسان ایسا کرے تاکہ نماز تمام شرائط کیسا تھ انجام دی جا سکے ۔ اور یہ بھی کتنی پیاری چیز ہے کہ بعض افراد اپنے گھروں میں ، جھولیوں میں تھوڑی خاک رکھے رہتے ہیں ،تاکہ مجبوری میں اس پر تیمم کر کے اپنے فریضہ سے سبکدوش ہو سکیں ۔ اس لئے کہ ہر وقت انسان کی دسترسی پاک مٹی تک نہیں ہوتی ہے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے: <صعیداً طیباً >پاک مٹی پر تیمم کر کے اپنے فریضہ کو انجام دو ۔ (کہنا پڑیگا ) علماء اہل سنت زمین اور اس سے اُگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کے فلسفہ سے آگاہی نہیں رکھتے بلکہ وہ صحابہ و تابعین کی سنت و سیرت سے بھی لا علم ہیں اس کتاب میں خاک پر سجدہ کرنے کا فلسفہ صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، اگر وہ لوگ اسکو دقت اور توجہ سے مطالعہ کریں تو مجبور ہو کر اپنے فریضہ کی ادائیگی میں تجدید نظر اور تبدیلی کی سونچ میں پڑ جائں گے ۔تعجب ہے بہت سارے نادان اور نام نہاد علماء کا خیال خام یہ ہے کہ شیعہ خود مٹی کی عبادت کرتے ہیں جبکہ یہ بات بدیہی اور واضح ہیکہ شیعہ خضوع و خشوع اور فروتنی کے لئے خاک پر سجدہ انجام دیتے ہیں ۔

جس طریقے سے مسلمانوں کے تمام فرقے کسی نہ کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں، (ہم نہیں کہتے کپڑے کی پوجا کرتے ہو ) اسی طرح ہم بھی دو چیزوں پر ( زمین اور اس سے اگنے والی چیز ) سجدہ کرتے ہیں ، جس طریقے سے وہ لوگ کپڑے و کتان پر سجدہ کرنے کو خودکپڑے کی عبادت نہیں کہتے تو ہم مٹی پر سجدہ کرتے ہیں کہاں سے مٹی کی عبادت ہو جائے گی! قارئین محترم آپ حضرات کے سامنے یہ تمام بحثیں وضاحت و تفصیل کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے ۔ پڑھیئے اور محظوظ ہویئے ۔ہم مولف عالیقدر حجةالاسلام و المسلمین جناب سید رضا حسینی نسب کے شکر گذار ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے لکھنے اور تحقیق و تتبع کرنے میں بڑی زحمت برداشت کی ۔ اور دوست عزیز جناب آقای حاجی حسن محمدی پرویزیان کے بھی شکر گذار ہیں کہ انکی بیکراں سفارش اور تاکید کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی اورحکم الدال علی الخیر کفاعله ( کار خیر کی راہنمائی مثل انجام دینے کے ہے ) کے مطابق وہ بھی اس ثواب عظیم و اجر جزیل میں مولف ارجمند کے ساتھ شریک ہیں ۔ درگاہ خدا میں دست بدعا ہیں کہ یہ رسالہ اتحاد و بھائی چارگی اور تمام مسلمانوں کے درمیان حسن تفاہم کا باعث بنے ۔

جعفر سبحانی

قم موسسہ امام صادق (ع)

۲۵ /۵/ ۱۳۶۹ مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۱ ھئ

____________________

(۱) فاطر/۱۵۔<یَا اَیهَا النَّاسُ اَنتُم الفُقرَاءُ اِلیَ اللّهِ وَاَللّهُ هُوَا الغَنیُّ الحَمِیدُ

(۲) حشر/۱۹ <وَلَا تَکُونوُا کَا لّذِینَ نَسُو اللَّهِ فَانَسَاهُم اَنفُسَهُم >

پیش گفتار

سجدہ اسلام اور اہل اسلام کی نگاہ میں انسان کا خالق کی بارگاہ میں نہایت فروتنی و بردباری کے ساتھ سر جھکا نے کا نام ہے جو آدمیت کے لئے ” عبودیت “ کی معراج ہے ۔ ا سی لئے قرآن مجید نہ فقط انسان کو ،بلکہ دنیا کی تمام چیزوں کو سجدہ کرنے والے کے عنوان سے تعبیر کرتا ہے ، جیسا کہ قول خداوند عالم ہے :( وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ، سب اس کیلئے سجدہ کرتے ہیں۔(۱)

اس بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے واجب اور فرض ہیں اورانھیں انجا م دینا ضروریات دین و اسلام میںسے ہے لیکن اسکی کیفیت اوراسے انجام دینے کے طریقے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔

تشیع : اس مذہب کے افراد سنت و سیرت نبی (ص)اور آپکے اہل بیت طاہرین (ع)و اصحاب آنحضرت (ص)اور تابعین کی عملی سیرت کی روشنی میں سجدہ اللہ کے لئے فقط زمین اور جو چیز ا س سے اگتی ہے ۔

(سوائے کھانے اور پینے والی چیزوں ) اس پر انجام دیتے ہیں ۔حقیقتاً آئندہ بحثوں سے اندازہ ہو جائیگا ، کہ یہی روش بندگی صحیح اور رسول (ص) و آل رسول (ع)و اصحاب کرام کی پسندیدہ ہے لہٰذا انکی اتباع و پیروی کرتے ہوئے ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں ۔

اہل سنت و الجماعت : اس مذہب کے افراد محل سجدہ کے بارے میں مزید وسعت کے قائل ہیں لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ سجدہ فقط زمین پر ضروری نہیں ہے بلکہ کھانے اور پہننے والی چیزوں پر بھی درست ہے ۔ بیان کردہ مطالب سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ سنی وشیعہ دونوں گروہ ، خدا کے سامنے فقط خضوع و خشوع اور اسکی رضا و خوشنودی کے لئے اسکی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہیں ، جس میں کوئی اختلا ف نہیں ہے لیکن بعض مولفین نے گمان کیا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مٹی کی عبادت ہے اور مٹی کی عبادت کرنا شرک ہے ، لہٰذا مٹی پر سجدہ کرنے والے مشرک ہیں جبکہ انکا یہ خیال بالکل بے بنیاد اور انکا یہ تصور باطل ہے ، جسکی حقیقت مثل سراب ہے ۔ ہم آیندہ بحثوں میں شیعہ امامیہ کے نظریات اور انکے دلائل قارئین کے سامنے پیش کریںگے انصاف خود اہل نظر کے ہاتھ ہے

و ما علینا الا البلاغ

مولف

____________________

(۱) سورہ رعد /۱۵<وَ ِللّٰهِ یَسجُدُ َمن ِفی السّمٰوَاتِ وَ الاَرضِ >

۱ ۔ شیعوں کا نظریہ

دوستداران اہل بیت (ع)، سنت اور سیرت معصومین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے صرف زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے ( لیکن کھانے اور پہننے والی نہ ہو ) اس پر سجدہ اللہ کے لئے کرتے ہیں ، اور درگاہ خدائے یکتا و لازوال میں مزیدخشوع و خضوع ا ور فروتنی کے لئے خاک کربلاپر سجدہ کرتے ہیں اس لئے کہ خدا کے سامنے خاک پر سجدہ کرنا انسان کی فروتنی و خاکساری کی دلیل ہے جس سے انسان مقام بندگی و عبودیت کے بلند مرتبے اور اپنی پیدائش کے پہلے مقصد سے قریب ہوتا ہے ۔

بعض نے یہ گمان کیا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنا خود مٹی کی عبادت ہے اور مٹی کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ ( پس مٹی پر سجدہ کرنے والے مشرک ہیں ) لہٰذا وہ مقام اعتراض میں یہ کہتے ہیںکہ شیعہ کیوں مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ؟ ان کے جواب میں ہم یہ بتانا چاہینگے کہ یہ دو جملے الگ الگ ہیں ۔

۱ ۔السجود لله یعنی سجدہ فقط اللہ کے لئے کرنا ۔

۲ ۔السجود علی الارض یعنی زمین پر سجدہ کرنا ،ان دونوں جملوں میں فرق واضح ہے لیکن جو معترض ہے وہ ان دو نوں جملوں میں فرق نہیں کرتا ہے ۔ جبکہ دونوںکے معنی روشن ہیں ایک ہے اللہ کے لئے سجدہ کرنا اور دوسرے کامطلب زمین پر سجدہ کرنایا دوسر ے الفاظ میں دونوں کو ملا کر کہیں ”زمین پر اللہ کے لئے سجدہ کرنا“ لہٰذا ہم ایسا ہی کرتے ہیں ( یعنی زمین پر اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہیں ) یہ بنیادی بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دنیا کے تمام مسلمان کسی نہ کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ ا ن کا سجدہ خداکے لئے ہوتا ہے اور اسی طرح تمام حاجی حضرات مسجد الحرام کے پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ انکامقصد خدا کے لئے سجدہ کرنا ہے ۔

اس بیان کی روشنی میں خاک ( مٹی ) اور گھانس پر سجدہ کرنے کا مطلب خود اسکو سجدہ کرنا نہیں ہے بلکہ عبادت و سجدہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے ہے ۔ یہیں سے دونوں جملوں کا فرق واضح ہو جاتا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنااور اللہ کے لئے سجدہ کرنا جدا ہے۔لہٰذا ہم اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لئے امام مکتب تشیع حضرت جعفر (ع) کے اقوال کا سہارا لیتے ہوئے اور وضاحت کرنا چاہتے ہیں :ہشام کہتے ہیں کہ میں نے جن چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح ہے ان کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا ۔ تو حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا : سجدہ فقط زمین اور جو چیز زمین سے اُگتی ہے ( سوائے کھانے اور پینے والی چیزوں کے ) اسی پر سجدہ کرنا چاہئے میں نے عرض کیا مولا آپ پر میری جان فدا ہو ۔ اس کی علت کیا ہے ؟ فرمایا: اس لئے کہ سجدہ خضوع و فروتنی اورعبادت پروردگار عالم ہے ، اور کھانے و پینے والی چیزوں میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کی اس سے خدا کی بارگاہ میں خضوع و فروتنی حاصل کی جا سکے ۔ اس لئے کہ اہل دنیا کھانے اور پینے کے غلام ہیں جبکہ انسان سجدہ کی حالت میں خدا کی عبادت کرتا ہے کیونکہ جو معبود اہل دنیا کو حیران اور سرگردان کئے ہو اسکے اوپر پیشانی رکھ کر خدا کی بارگاہ میں آئے بہتر نہیں ہے ( اس لئے کہ تذلل اور اپنے کو پست و بے تکبر خدا کے سامنے پیش کرنے کا نام سجدہ ہے ) زمین پر سجدہ کرنا بہتر ہے کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کے حضور میں خضوع و خشوع کے لئے یہی حا لت سب سے زیادہ بہترہے۔(۱)

امام علیہ السلام کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین اور مٹی پر سجدہ کرنا خدا کے حضور فروتنی و خضوع کی جہت سے ہے، اور فروتنی و تذلل و بے مایہ گی خدا کے سامنے اسکی عبادت سے بہت سادہ سازگاری اور نزدیکی رکھتی ہے ۔ لہٰذا علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اپنی کتاب ”سیر تنا وسنتنا “ میں اس حقیقت کو فاش کرتے ہیں ”سجدہ عظمت ِپروردگار کے سامنے فروتنی و تذلل کے ساتھ بجالانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے ، اس لئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ نماز میں سجدہ کے لئے زمین کو انتخاب کرے اور سجدہ کی حالت میں پیشانی و ناک کو زمین پر رکھے تاکہ اس کو اپنی حقیقت اور کم مائیگی و پست سرشت کی طرف یاد دہانی ہو سکے کہ مٹی سے بنا ہے اور پھر مٹی میں واپس لوٹ کر جانا ہے ، اور پھر اسی سے اٹھایا جائیگا اور خدا کی یاد تازہ رہے پند و نصیحت سے عبرت حاصل کرے اپنے کئے پر نادم و شرمندہ ہو تاکہ فروتنی اور خاکساری اور خواہش بندگی زیادہ سے زیادہ پیدا ہو سکے ، اور خود خواہی و سرکشی سے پرہیز یعنی تاریکی سے روشنی کی طرف نکل آئے ۔ کہ انسان دوست و قرین مٹی ہے خدا وندعالم کے سامنے ) ذلیل و پست و حاجتمند کے سواء اور کچھ نہیں ہے“(۲)

۲ ۔ زمین پر سجدہ کرنے کے دلائل

سوال : ایک سوال یہاں پر اور پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ فقط زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر ہی کیوںسجدہ کرتے ہیں ؟ اور دوسری کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے ؟ جواب : اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ جس طرح کسی بھی عبادت کے لئے ضروری ہے کہ خداوندعالم پیغمبر (ص)کے ذریعہ اس عبادت کو لوگوں تک پہونچائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے ،کہ اسکے شرائط و احکام بھی خدا اپنے رسول (ص) کے ذریعہ ہی لوگوں پہونچائے ۔ اس لئے کہ رسول خدا (ص) قرآن کے حکم کے مطابق تمام لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہیں ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں سے تمام دینی احکام کو سیکھیں ۔

اس بنا پر پیغمبر اسلام (ص) سے منقول متعدد حدیثیں اور آپ کی سیرت عملی اور آپ کے اصحاب و تابعین کے طریقہ عملی اور انکی روش جو عام طور سے اہل سنت کی روائی کتابوں میں موجود ہے انہیں ہم قارئین کرام کے سامنے انشاء اللہ تفصیل سے پیش کرینگے ۔ اور پھر ہرشخص یہ گواہی دینے پر مجبور ہو جائیگا کہ حقیقت کیا ہے؟ نیز یہ بھی واضح ہو جائگا کہ آنحضرت (ص) و آپ کے اہل بیت (ع) اور اصحاب و تابعین کا وطیر ہ یہ تھا کہ وہ زمین، یا ا س سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ کرتے تھے ،ٹھیک اسی طرح جیسے آج شیعہ حضرات اکی سیرت پر چلتے ہوئے پابند عمل ہیں ۔

۳ ۔ خاک پر سجدہ پیغمبر (ص) کی سنت ہے

حضور ختمی مرتبت (ص)کے اقوال و احادیث دنیا کے تمام مسلمانوں کی نگاہ میں حجت اور ایسے چشمے کے مانند ہیں کہ ہر شخص اس سے استفادہ کرنے اور اسے اپنی زندگی کا لائحہ عمل قرار دینے کو لازم و واجب سمجھتا ہے ۔

جس طرح شیعہ حضرات تمام امور زندگی میں بالخصواسلام کے بنیادی احکام کے استخراج کے سلسلہ میں اپنا مرکزو مآخذپیغمبر (ص)کی احادیث کو قرار دیتے ہیں اسی طرح سے سجدہ کے احکام میں بھی آنحضرت (ص)کے اقوال کی اتباع کرتے ہیں۔ علمائے اسلام نے زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کے متعلق بہت ساری روایتوں کو آنحضرت (ص) سے نقل فرمایا ہے جن میں سے ہم چند احادیث کو بطور تبرک نقل کرتے ہیں ۔

۱ ۔محدثین حضرات نے حضور پاک (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا:” زمین میرے لئے سجدہ کی جگہ اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے“(۳)

یہ روایت مختلف الفاظ میں حدیثوں کی متعدد کتابوں میںدرج ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔

۲ ۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا : تمام زمین ہمارے لئے سجدہ گاہ اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔(۴)

۳ ۔ بیہقی اپنی سنن میں حضور (ص)سے اسطرح نقل کرتے ہیں :زمین میرے لئے پاک و پاکیزگی اور سجدہ کی جگہ قرار دی گئی ہے ۔(۵)

۴ ۔ اور بحار الانوار میں اس طرح منقول ہے ۔” زمین آپ (ص)اور آپ کی امت کے لئے سجدہ گاہ اور پاک و پاکیزہ قرار دی گئی ہے“(۶)

۵ ۔ اور مصباح المسند میں مرقوم ہے حضور اکرم (ص) نے فرمایا : تمام زمین میرے اور میری امت کے لئے سجدہ گاہ اور پاک و پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے ۔(۷)

مذکور روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی سطح چاہے خاک اور پتھریا گھانس ہو اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور وہ پاکیزگی کا ذریعہ قرار دی گئی ہے ۔ (ہم اسکی و ضاحت آئندہ بیان کرینگے )لہٰذا بغیر کسی معقول عذر کے کسی کو اس حد سے تجاوز کا حق نہیں ہے ۔ یہاں پر لفظ ” جعل “ قانون بنانے کے معنی میں ہے جیسا کہ عبارت سے بخوبی روشن ہے ۔اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ زمین پر سجدہ کرنا اسلام کے پیروکاروں کے لئے خدا کا حکم ہے ۔ اور اس کی اتباع کرنا ہر مسلمان کے اوپر واجب ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۸۲/ص/۱۴۷ باب (ما یصح السجود علیہ)”وہ چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے“ طبع بیروت موسسہ الوفا سال ۱۴۰۳ھ۔ ۱۹۸۳نقل از(علل الشرایع):

عن هشام بن الحکم قال قلت لابی عبد الله (ع) : اخبرنی عما یجوز السجود علیه و عما لایجوز ؟ قال السجود لایجوز الا علیٰ الارض او ما انبتت الارض الا ما اکل او لبس فقلت له : جعلت فداک ، ما العلةفی ذالک ؟ قال : لاٴن السجود هو الخضوع للّه عزوجل فلا ینبغی ان یکون علی ما یوٴکل و یلبس ، لان اٴبناء الدنیا عبید ما یاکلون ویلبسون ، والساجد فی سجوده فی عبادة الله عزوجل ، فلا ینبغی ان یضع جبهة فی سجوده علی معبود اٴبناء الدنیا الذین اغتروا بغرورها ، والسجود علی الارض افضل ، لانه اٴبلغ فی التواضع و الخضوع لله عزوجل

(۲) سیرتنا وسنتنا ص/۱۲۵

والانسب بالسجدة التی ان هی الا التصاغر و التذلل تجاه عظمة المولی سبحانه ووجاه کبریائه : ان تتخذ الارض لدیها ،مسجدا یعفر المصلیٰ بها خده ویرغم اٴنفه لتذکر الساجد للّه طینته الوضعیة الخسیسة التی خلق منها و الیها یعود و منها یعاد تارة اخری ، حتی یتعظ بها ویکون علی ذکر من وضاعة اصله ، لیتاٴنی له خضوع روحی و ذل فی الباطن وانحطاط فی النفس واندفاع فی الجوارح الی العبود یة و تقاعس عن الترفّع و الانانیة ، ویکون علی بصیرة من ان المخلوق من التراب حقیق و خلیق بالذل و المسکنة لیس الا

(۳)صحیح بخاری ج/۱ کتاب الصلۃ ص ۹۱، سنن بیہقی ج/۱ص/۲۱۲،باب تیمم بالصعید الطیب، اقتضاء صراط المستقیم (ابنتیمیہ)ص/۳۳۲، صحیح مسلم ج/۱ ص/۳۷۱، سنن نسائی ج۱باب تیمم بالصعید ص۲۱۰ ،سنن ترمزی ج۲ ص ۱۳۱،۱۳۳ج۴ ص۱۲۳۔”جعلت لی الارض مس جداً و طهوراً

(۴) صحیح مسلم ج۱ ص۳۷۱و سیرتناو سنتنا میں نسائی ، ترمذی ، اور ابو داود سے نقل کرتے ہوئے :”جعلت لنا الارض کلها مسجداً و طهوراً

(۵)سنن بیہقی ج۶ ص۲۹۱: ”جعلت لی الارض طیبة و طهوراً و مسجداً

(۶) بحار الانوار ج/۸۳ ص/۲۷۷ : ”جعلت لک ولامتک الارض کلها مسجداً وطهوراً

(۷) مصباح المسند ، شیخ قوام الدین : ”وجعلت الارض کلها لی ولامتی مسجداً وطهوراً

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر

”دوسرا اعتراض“

< ۲>

کیا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟

جمع بین الصلاتین

خداوند عالم کی توفیق سے عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد جب میں حرم نبوی میں بیٹھاہوا تھا تو ایک پستہ قد،اُونچا لباس،اور لمبی داڑھی والا،زبان دراز عجیب الخلقت شخص بہت ہی طمراق اور سخت متکبرانہ لہجے میں میری طرف یہ کہتے ہوئے آگے بڑھا -: تم اہل تشیع اصلاََ نماز عصر اور عشاء کو انجام ہی نہیں دیتے ہو کیونکہ تم ان نمازوں کے وقت سے پہلے ان کوپڑھ لیتے ہواور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم ظہر و عصر،مغرب و عشاء ، کو ایک ساتھ (ایک وقت میں )پڑھتے ہو ،حالانکہ یہ حرام اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ اعتراض کا جواب:

میں نے فوراََ اسے یہ جواب دےا کہ آپ فتویٰ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ جلد بازی کرنا شیطانی عمل ہے ۔اور آپ کا یہ کہنا کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کا بیک وقت جمع کرناحرام ہے ،نیزقرآن ا و ر سنت رسول کے خلاف ہے۔اگر آپ کہیں تو میں اس کو دلیل سے ثابت کردوں،اور آپ کے سامنے حق و واقعیت کو پوری طرح واضح کر دوں،یا پھرآپ میرے مدعیٰ کے بر عکس قرآن و سنت سے دلیل پیش کریں۔ میری اس بات پر اس نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا اگرتمہارے پاس اس سلسلہ میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے تو اس کو پیش کرو۔

(پہلی دلیل)

”قرآن کی واضح و صریح آیت “

قرآن مجید کی ظاہری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:

( اقم الصلاه لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرء آن الفجرکان مشهودا ) ( ۲۱ )

ترجمہ“ (اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے۔

آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں :

۱ ۔ دلوک الشمس،( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظہروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔

۲ ۔ الیٰ غسق الیل،(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔

۳ ۔ قرآن الفجر ان قرآن الفجرکان مشھودا‘ اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گےا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں ۔

یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے۔

(دوسری دلیل)

”سنت رسول “

پیغمبر اکرم سے بہت زیادہ ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاہے وہ جمع تقدیمی ہوجیسے ظہر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ہو،جیسے نماز ظہر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔

اہلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ہوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں :

النووی کی صحیح مسلم جلد ۵ ص ۲۱۳ ،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ہوئی ہیں

( ۱) یحیٰ بن یحیٰ نے ہمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قرات کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں :رسول نے نماز ظہروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے“

( ۲) احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوںنے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کہتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظہرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کہا :میں نے یہی سوال ابن عباس سے کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر چاہتے تھے کہااپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے“

( ۳) ابو الربیع الزہرانی نے حمابن زید سے،انہوں نے عمر بن دینار سے،اور انہوں نے جابر بن زید سے ،اور انہوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں ظہروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں “

( ۴) بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے؛کہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔( ۲۲ )

( ۵) جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :کہ پیغمبر اکرم نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں ۔( ۲۳ )

( ۶) ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کہتے ہیں : پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظہر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کہتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر نے ایسا کیوں کیا ؟تو انہوں نے جواب دیا پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔( ۲۴ )

( ۷) نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظہر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھاادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ہو۔( ۲۵ )

( ۸) نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم نے بغیر کسی عذر کے نماز ظہر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انہوں نے مدینہ میں پیغمبر کی اقتداء میں نماز ظہرو عصر کے آٹھ سجدوںکو پے در پے ادا کیا ہے۔( ۲۶ )

( ۹) عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں ”پیغمبر اکرم نے ہمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دےاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سہولت وآسانی سے کسی ایک فرد ہی کو فائدہ پہونچے“( ۲۷ )

( ۱۰) البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے“( ۲۸ )

( ۱۱) الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر نے مدینہ میں ظہر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ہو“( ۲۹ )

(تیسری دلیل)

”فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے“

ہر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کہا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظہر کی فضیلت اور اسکے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شا خص کا سایہ اُس کے برابر ہو جائے۔اسی طرح نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہو جائے۔روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے ےعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نہیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ہو جائے)بجا نہ لائے۔

لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ہوئی ہے: پیغمبر اکرم نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظہر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہو ں نے جواب دیا: پیغمبر چاہتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ہو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔( ۳۰ )

دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اسطرح ہے:

( ۱) نماز ظہرو عصرکا مخصوص وقت۔نماز ظہر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظہر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ہونے سے پہلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ہی بجا لائی جا سکے ۔

نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت۔زوال کا وقت ہوتے ہی ظہر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظہر و عصر کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے ساتھ ہی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ہو جاتا ہے۔ان ہی اوقات سے ہم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔ پس اگرنماز ظہر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظہر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پہلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی ”جمع بین الصلاتین “ کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ہوتا ہے:

( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقر ء آن الفجر اَ ن قرآن الفجرکان مشهوداََ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھےرے تک نماز (ظہر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوںکی) گواہی ہوتی ہے“

(چوتھی دلیل)

پیغمبر اکرمکا فرمان ہے”۔صلّوا کما اُصلّی“نماز کو میرے طور طرےقے پر بجالاؤ۔رسول اکرم کے قول ،فعل،اور تقریر ( محضر رسول میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد خاموش رہیں ) کو سنت رسول کہا جاتا ہے۔ہر وہ بات جو پیغمبر کی زبان اقدس سے جاری ہو،اور ہر وہ کام جس کو رسول انجام دیں اور ہر وہ چیز جو پیغمبر کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ہو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول کی حثیت رکھتا ہے“

مذکورہ حدیث میں پیغمبر نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ہوں

“پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ہمیں ملتی ہے۔لہذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم سے منقول تیس( ۳۰) سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر نے اپنی نمازوں کو جمع بین الصلاتےن کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اہل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ہوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقہاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :

پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں ) ایوب نے کہا کہ پیغمبر نے شاید ایسا بارش ہونے کی وجہ کیا ہو؟جواب میں کہا گیا ممکن ہے ایسا ہی ہو۔( ۳۲ )

اس منقولہ روایت میں ہم واضح طور پر اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاہیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاہتے تھے،لہذٰا ”لعله فی لیلة مطیرة “کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ہو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بہت سی ر وایات واضح طور پر دو نمازوںکے جمع کے جواز کو بیان کر رہی ہیں ،اَور جناب ایوب یہ چاہتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّه فی لیلة مطیرة )کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ہونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے ایسا کیا ہے ۔جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے(لعلّه فی سفرِو مطرِ )کہ شاید پیغمبر نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ہو؟تو جواب دیا: ہاںشاید ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاہدہ کیا ۔لیکن ہم تو پیغمبر اعظم کے واضح و روشن حکم پر عمل کریںگے،اور ان کا واضح و روشن حکم وہی جواز جمع بین الصلاتےن ہے جو ےقینی حکم ہے اور ہم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر ےقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں ،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔

یہ( غلط)تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثر اہل سنت کے علماء مبتلاء ہونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدےتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں ،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :

( ما اتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۳۳ )

”جو تم کو رسول دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رہو“

مثلاََ اہل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوںکے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رہی ہےں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:

”اگر ہم لفظ ”الغسق“کے ظاہر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کا معنیٰ ”الظلمة“ رات کی تاریکی اور اندھیرا“ مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔

( ۱) زوال کا وقت ( ۲) مغرب کا اول وقت( ۳) فجر کا وقت ،اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظہر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لہذٰازوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ہو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ہوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظہرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ہر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نہیں لہذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔( ۳۴ )

اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت( اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل ) سے مطلقاَ نماز ظہر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظہار کیاہے اورپھر اچانک ہی اپنی رائے یہ کہتے ہوئے تبدیل کردی کہ ”الاّ انه دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز ؟“

(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رہی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ہو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے لہٰذ اجمع فقط سفراور بارش وغیر ہ جےسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)

ہم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سہارا لے رہے ہیں ؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رہی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم نے عملی طور پرایسا نہیں کیا؟لہٰذا فخر رازی کا یہ اجتہاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتہاد قرآن اورسنت رسول کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتہاد در مقابل نصّ ہے۔

”تیسرا اعتراض“

< ۳>

تقیہ کی شرعی حیثیت

کیا اسلام میں تقیہ کرنا جائز ہے ؟

کچھ مسموم قلم کے حامل افراد جن کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ،دشمنی اور بغض وکینہ ایجاد کرنا ہے حالانکہ ایسے افراد واضح طور پرقرآن کے اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں جس میں یہ ارشاد ہواہے:

( وتعاونوا علی البّر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان ) ( ۳۵ )

ترجمہ:نیکی اور پرھیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

جنہوں نے اپنے قلم کو مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگانے اور ان کی طرف بہتان اور خرافات وغیرہ کی نسبت دینے کےلئے وقف کر رکھا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ بڑا اچھا کام انجام دے رہے ہیں مثال کے طور پر احسان الہی ظہیر پاکستانی،عثمان خمیس ،اور محب الدین وغیرہ جیسے اہل تفرقہ وباطل افراد جنہوں نے شیعہ حضرات پر تہمتیں لگائیں اور ان کو کافر قرار دیا،فقط اس بناء پرکہ شیعہ اسلام میں تقیہ کے قائل ہیں اور ہمیں ان افترا ء پرداز افراد پر تعجب ہے کہ وہ ا پنے آپ کوتو اہل سنت کہلواتے ہیں جبکہ ان افراد نے نہ تو قرآن کو سمجھا ہے اور نہ ہی سنت رسول کو کیونکہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان( امیر شام) کی سنت کی پیروی کی ہے اور اسکے نقش قدم پر چلے ہیں اُنھوں نے سنت رسول اکرم کی اتباع نہیں کی ہے۔

ایسا ہی شوروغل کرنے والے ایک گروہ نے مسجد نبوی میں یہ کہتے ہوئے ہمیں گھیر لیا کہ تم( شیعہ) حضرات کا کوئی دین نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اسلام کا اظہار تقیہ کے طور پر کرتے ہو،کیونکہ تمہا رے نظریہ کے مطابق تقیہ پر عمل نہ کرنے والابے د ین ہوتاہے۔میں نے فوراََ اُن سے سوال کر لیا :اچھا یہ بتاؤ کہ کیاتم لوگ اسلام پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا!جی ہاںالحمداللہ،میں نے پوچھا کیا تم لوگ قرآن کو مانتے ہو؟انہوں نے کہا جی ہاں۔کیا تم سنت رسول پر ایمان رکھتے ہو؟انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتے ہیں ۔تو میں نے کہا :تم لوگ جھوٹ بولتے ہو،اگر تم اپنے اس ایمان میں سچے ہوتے تو کھبی بھی تقیہ پر اعتراض نہ کرتے۔کیا قرآ ن نے واضح طور پر تقیہ کو بیان نہیں کیا؟کیا پیغمبر اکرم نے تقیہ کے بارے میں ارشا د نہیں فرمایا؟پھر تم لوگ کس لیے اس چیز کا انکار کرتے ہو؟تمہارا یہ انکار قرآن و سنت کا انکار ہے اور جو شخص قرآن و سنت کا منکر ہو ،وہ بے دین ہے۔پھر میں نے اُن کے سامنے قرآن اور سنت رسول کی روشنی میں تقیہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہرمسلمان شخص کے لئے اپنے عقائدکا محور قرآن و سنت کو قرار دینا ضروری ہے۔ لہذٰاپہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقیہ کا حکم موجود ہے۔قرآن نے مجبور یا ایسا شخص جسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے اُسے تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے،اور متعدد آیات میں صاف طور پر اسکاذکر ہوا ہے،جیسے ارشاد خداوندی ہے:

( و قال رجل مومن من آ ل فرعون یکتم ایمانه اٴتقتلون رجلاََ ان یقول ربی الله و قد جاکم بالبینات من ربکم وان یک کاذباََفعلیه کذبه وان یک صادقاََ یصبکم بعض الذی یعدکم اِن الله لایهدی من هومسرف کذاب ) ( ۳۶ )

ترجمہ۔اور آل فرعون میں سے ایک ایماندارشخص(حزقیل) نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہو ئے تھا(لوگوںسے)کہا،کیا تم لوگ ایسے شخص کے قتل کے در پے ہوجو(صرف)یہ کہتا ہے کہ میرا پرورگاراللہ ہے،حالانکہ وہ تمہارے پرورگار کی طرف سے تمہارے پاس معجزے لے کر آیا ہے اور اگر( بالفرض)وہ شخص جھوٹا ہے تو اُسے اپنے جھوٹ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گااور اگر کہیں و ہ اپنی بات میں سچا نکلا تو جس (عذاب)کی تمہیں دھمکی دیتا ہے اُس سے دو چار ہو نا پڑے گا ،بیشک خدااس شخص کی ہداےت نہیں کرتا جو حد سے گزر نیوالا اور جھوٹا ہو“

پس مذکورہ آیت تقیہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے(( قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ) ) لہذایسی مصلحت کی خاطر کہ جس کا تقاضا ایمان کو چھپا ناہو ،اسی کوتقیہ کہا جاتا ہے۔

( ۲) قول خدا وندی ہے:

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الّا اٴن تتقوا منهم تقاةََ و یحذرکم الله نفسه و ا لی الله المصیر ) ( ۳۷ )

ترجمہ۔اور مومنین ،مومنین کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سر پرست نہ بنائیں،اور جو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں مگریہ کہ(اسطرح کی پیروی سے)وہ کسی طرح اُن (کے شرّ) سے بچنا چاہتا ہے تو (خیر)اَور خداتم کواپنے ہی سے ڈراتا ہے اورخداکی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قرآن کی یہ آیت کریمہ مومن کے لئے مومن کے علاوہ کسی کافر کو اپنا سرپرست معین کرنے کو حرام کہ رہی ہے،مگر یہ کہ جب اس کو یا دوسرے مومنین کو نقصان پہو نچ رہا ہو تو کافر کو سر پرست بنانا جائز ہے کیونکہ مفسدہ کو دور کرنا، حصول مصلحت پر مقدم ہے، جیسا کہ فقہاء نے بھی ا س سلسلہ میں یہی کہاہے۔

( ۳) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفرصدراََ فعلیهم غضبُ من الله ولهم عذاب عظیم ) ( ۳۸ )

ترجمہ۔اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو،لیکن جوشخص بھی ایمان لانے کے بعدکفر اختیار کرے بلکہ دل کھول کر کفر کو گلے لگا لے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا سخت عذاب ہے۔

پس اسلام نے مجبوری کی حالت میں ایک مسلمان کے لئے کفر کا جھوٹا اظہار کرناجائز قرار دیا ہے،جیسے کسی کو اپنی جان کا خوف ہویا ایسے ہی کسی دوسرے خطرے سے دوچار ہونے کا ڈر وغیرہ ہو تو اس صورت میں وہ کفار کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ اس کا دل ایمان کی طرف مطمئن ہو۔جیسا کہ خوداسلام نے گذشتہ ادوار میں بعض مخصوص واقعات و حالات میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی اور اُن کے لئے تقیہ جائز قرار دیا۔جیسے حضرت عمار یاسر کی مثال سب کے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقیہ اورسنت رسول

دوسرے یہ کہ تقیہ سنت رسول کے مطابق بھی جائز ہے اور اس کا حکم(احادیث نبوی)میں موجود ہے۔

مفسرین نے سورہ آ ل عمران کی آیت

( من کفر بالله من بعد ایمانه الّا مَن اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) ( ۳۹ )

”اُس شخص کے سواجو (کلمہ کفرپر)مجبور کر دیا جائے اور اُسکادل ایمان کیطرف سے مطمئن ہو“

کے نزول کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ جب مشرکین نے حضرت عمار یاسر اور ان کے ماں باپ، کو سخت عذاب سے دوچار کیااور ان کو اظہارکفر پر مجبور کیا توحضرت یاسر اور ان کی زوجہ حضرت سمّیہ اس دردناک عذاب کی وجہ سے دنیا سے چل بسے لیکن عمار یاسر نے مشرکین کی خواہش کے مطابق زبان سے کفر کا اظہار کر دیا،اس وقت جب عمار کے بارے میں یہ کہا جانے لگاکہ عمار نے کفر اختیار کر لیاجب یہ خبر پیغمبر اکرم کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے لوگوں کو منع کیا اور عمار یاسر کے ایمان کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے یوں فرمایا:خبردار!عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے،ایمان تو اس کے گوشت و خون میں رچ بس گیا ہے۔

اسی اثناء میں جب حضرت عمار یاسر گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :عمار!تجھ پر کیا گذری ہے ؟تو حضرت عمار نے جواب دیا بہت برا ہوا اے اللہ کے رسول ،میں نے مشرکین کے (جھوٹے)معبودوں کی تعریف کے بدلے نجات پائی ہے اور آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ،تو اس وقت پیغمبر اکرم نے عمار کے اشک رواں کو خشک کرتے ہوئے فرمایا اگر دوبارہ کبھی تم ایسی سنگین حالت سے دوچار ہوجاؤ تو ان کے سامنے ایسے ہی الفاظ کی تکرار کرنا ۔

پس یہ قرآن اور سنت رسول میں تقیہ کا ثبوت ہے،اور آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح قرآن و سنت نبوینے اس کو ثابت اور جائز قرار دیاہے لیکن یہ جاہل قسم کے افراد نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ ہی سنت رسول پر عمل کرتے ہیں ۔یہ شیعہ ہی ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے تقیہ کے قائل ہیں اَور اپنی جان،مال ،عزت وناموس نیز دین کو خوف وخطرے میں پڑ جانے کی وجہ سے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں ۔جیسا کہ شیعیان حیدر کرار نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت میں تقیہ سے کام لیا،جب معاویہ نے اپنی حکومت اور ظلم و ستم کے زمانے میں تمام شہروں میں اپنے تمام کارندوں اور گورنروںکو باقاعدہ اور رسمی طور پر یہ حکم جاری کیا: جس شخص کے بارے میں بھی تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ وہ علی اور اہل بیت علی علیھم السلام کا محب اور چاہنے والاہے،اُس کا نام وظیفہ اَور تنخواہ کے رجسٹر سے کاٹ دواور اس کی ساری مراعات ختم کر دو،اور ایسے افراد کے لیڈر کو عبرت ناک سزا دو اور اس کے گھر کو منہدم کر دو۔( ۴۰ )

لہذٰا قرآن و سنت کی روشنی میں تقیہ جائز ہے،مگر یہ کہ کسی اور اہم واجب سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔مثال کے طور پر امر بالمعروف ، نہی عن المنکر،جہاد نیزاسلام کے خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں اُس کے دفاع کا حکم،تقیہ پر مقدم ہے ۔(اس لئے کہ کسی اہم، احکام اسلام سے ٹکراؤ کی صورت میں تقیہ پر عمل نہیں کیا جائے گا)جیسا کہ سیدالشھداء امام حسین (ع) نے (کربلاء میں )یزید اَور اُس کے ساتھیوں ( جنہوں نے اسلامی احکام کے ساتھ ایک کھیل کھیلا)کے ساتھ تقیہ کے بجائے جنگ اور جھاد کے فریضہ کو مقدم قرار دیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول میں ہم تقیہ کے عمل کے مباح ہونے نیز اس کے جائز ہونے کا مشاہدہ کرتے ہیں ،جیسا کہ خود پیغمبر اکرم نے حضرت عمار بن یاسرکے تقیہ کے عمل کو جائز قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:

ان عادوا لک فعدلهم بما قلت “۔”اگر دوبارہ کبھی تم انکے ظلم و ستم کا نشانہ بنو تو ایسے ہی عقائد کا اظہار کرنا “

تقیہ کا مفہوم و مطلب یہی ہے جسے پیغمبر اکرم نے واضح انداز میں جائز قرار دیا ہے لیکن ابن تیمیہ، محب الدین الطبری ،احسان الہی ظہیر پاکستانی اور عثمان خمیس جیسے دوسرے عرب افراد جنہوں نے قرآن اور سنت رسولکی الف و با کو نہیں سمجھا، صرف اس بناء پر کہ شیعہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کرتے ہیں ،لہذا ان پریلغار کرتے ہیں اور اُن پر افتراء اور ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ،شیعوں کا سب سے بڑاگناہ اورقصور یہی ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

( ومانقمو منهم الّا اٴن یومنوا باالله العزیز الحمید ) ( ۴۱ )

ترجمہ“اور اُن کو مومنین کی یہ بات برُی لگتی ہے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر چیز پر غالب اور حمد کا سزاوار ہے“

مصادرو منابع

۱ ۔ قرآن کریم

۲ ۔ تفسیر کشاف زمخشری

۳ ۔ تفسیر رازی الکبیر

۴ ۔ تفسیر طبری

۵ ۔ تفسیر مجمع البیان(شیخ طبرسی)

۶ ۔ نہج البلاغہ شرح ابن ابی الحدید

۷ ۔ سنت نبویہ

۸ ۔ المستدرک حاکم نیشاپوری

۹ ۔ صحیح بخاری

۱۰ ۔ صحیح مسلم

۱۱ ۔ سنن ترمذی

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ القزوینی

۱۳ ۔ صواعق محرقہ ،ابن حجر شافعی

۱۴ ۔ کنز العمال

۱۵ ۔ مصحف عبد الرزاق

۱۶ ۔ مسند البزار

۱۷ ۔ مسند احمد بن حنبل

۱۸ ۔ معجم الکبیر


4