یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے
مقالات نوگانوی
تالیف : سیدپیغمبر عباس نوگانوی
حسینی انقلاب
از: سید پیغمبر عباس نوگانوی
اس بات کو سبھی مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ ۶۱ ھ میں امام حسین - نے اپنی اور اپنے جاں نثاروں کی شہادت پیش کرکے اسلام کو بنی امیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچالیا (آپ پر لاکھوں درود و سلام )
واقعہ کربلا حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ تھا جس میں حکومت اسلامی کو ملوکیت سے محفوظ رکھنا بھی شامل تھاتاکہ بنی امیہ ایسے بدکارو نا اہل، حکومت اسلامی کو خرد برد نہ کرسکیں اس راہ میں امام عالی مقام نے اپنا سب کچھ قربان کردیا،اور اسلامی حکومت و اس کے نااہل حاکم کے درمیان خط فاصل کھینچ دی حکومت کا حق صرف خدا وند عالم کو ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
کیا تم نہیں جانتے آسمان و زمین کی سلطنت بے شبہ خاص خدا ہی کے لئے ہے(سورہ بقرہ ،آیت ۱۰۷)
اور آسمان و زمین سب خدا ہی کا ملک ہے اور خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے(سورہ آل عمران ،آیت ۱۸۹)
اور سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب خدا ہی کی سلطنت ہے (سورہ مائدہ ،آیت ۱۷ ۔ ۱۸)
سارے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب خدا ہی کی سلطنت ہے اوروہی ہر چیز پر قادر ہے(سورہ مائدہ ،آیت ۱۲۰)
بے شک سارے آسمان و زمین کی حکومت خدا ہی کے لئے خاص ہے (سورہ توبہ،آیت ۱۱۶)
لہٰذاالٰہی حکومت کو صحیح طور پر چلانے کے لئے خداوند عالم نے اپنے خاص نمائندے بھیجے جو نبی یا امام کہلائے اور ساتھ میں کچھ قوانین بھی بھیجے جن کوہم شریعت کہتے ہیںچونکہ خداوند عالم کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے اس لئے اس کی طرف سے دنیا میں آنے والے حاکم (نبی یا امام ) بھی معصوم ہونے چاہئیں ،تاکہ قوانین الٰہی ہم تک صحیح و سالم پہنچ جائیں
پس معلوم ہوا کہ دنیا میں حکومت کا حق صرف اللہ کے نمائندوں کو ہے ،اِن کے علاوہ جو بھی حکومت اسلامی پر قابض ہو وہ غاصب ہے
یزید یا بنی امیہ کے دیگر افراد نے دھوکہ ،فریب ، ظلم اور لالچ کے ذریعہ لوگوں کی کچھ بھیڑ ضرور اکٹھا کرلی تھی لیکن وہ قطعی طور پر حکومت کے حق دار نہ تھے بلکہ غاصب تھے لہٰذا حکومت ملنے کے بعد پہلی فرصت میں حضرت علی -نے فاسد گورنروں کو معزول کرنے کے احکامات جاری کردیئے ، حالانکہ بعض اصحاب نے آپ کو مشورہ بھی دیا کہ اِن کے معزول کرنے میں جلدی نہ کریں لیکن آپ نے اسی نظریہ (کہ حکومت اسلامی اولیاء اللہ کا حق ہے ،لہٰذا ایسی حکومت کے گورنر وغیرہ بھی دین دار ہوں )کی بنیاد پر فاسد گورنروں کو فوراً معزول کردیا
اس کے علاوہ حضرت علی - نے معاویہ سے مطالبہ بیعت و اطاعت کے لئے بھیجے گئے اک خط میں بنی امیہ پر خلافت و حکومت کے ناجائز ہونے کو اس طرح بیان فرمایا تھاکہ:
اے معاویہ!تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا تعلق طلقاء (یعنی اسلام کے آزاد کردہ گروہ ) سے ہے جس کے لئے خلافت جائز نہیں ہے
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۳ ،صفحہ ۷۶ ، ناشر دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت ،لبنان ،دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۵ ء)
اور ابن عباس نے معاویہ کے اک خط کا جواب دیتے ہوئے اس طرح مخاطب کیا تھا کہ:
”(اے معاویہ!) تم اور خلافت ؟تم اسلام کے آزاد کئے ہوئے ہو اور مشرکین کی پارٹی کے سرغنہ (ابوسفیان) اور شہید بدر (حضرت حمزہ) کا جگر چبانے والی (ہندہ ) کے بیٹے ہو
(الامامة والسیاسة، جلد ۱ ،صفحہ ۹۸ ، مطبوعہ مصر ۱۳۲۸ ھ)
حضرت علی -اور جناب ابن عباس /کے مذکورہ خطوط سے بنی امیہ کی حکمرانی ناجائز قرار پاتی ہے
حضرت علی -کے بعد امام حسن - خلیفہ ہوئے ،آپ نے بھی لوگوں کے درمیان حکومت اسلامی کا اپنے کو سب سے زیادہ حق دار بتایا ،آپ نے اپنی حکومت کا آغاز اس خطبہ سے فرمایا:
”ہم حزب اللہ ہیں، اور ہم ہی غالب ہیں ،ہم عترت رسول ہیں، آپ کے اقرباء ہیں ،ہم رسول کے اہل بیت ہیں اور تمام گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ،امت کے درمیان رسول خدا نے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں اور فرمایا ہے:میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ،کتاب خدا اور میرے اہل بیت
اور ہم ہی کو اللہ کے رسول نے قرآن کا ہم پلہ اور عدیل قرار دیا ہے اور ہمیں قرآن کی تنزیل و تاویل کے علم سے مالا مال کیا ہے ،قرآن کے بارے میں ہم جو کہتے ہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں ،تخمین و ظن (اندازے) سے آیات قرآنی کی تاویل نہیں کرتے ،لہٰذا تم ہماری اطاعت کر و کہ خدا کی طرف سے تم پر واجب کی گئی ہے ،ہماری اطاعت کو خدا نے اپنی و رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم کی اطاعت سے مقرون کیا ہے:،ارشاد ہوتا ہے:اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور جو تم میں سے صاحبان ِ حکومت ہوں ان کی اطاعت کرو
(سورہ نساء ،آیت ۵۹)( جلا العیون ،صفحہ ۱۴۶ ، تالیف علامہ مجلسی ، مطبوعہ تہران ۱۳۱۴ ھ)
ان تمام تاکیدوں کے باوجود بے دینوں نے آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کیں،مگر امام حسن -اپنے حق سے دستبردار نہ ہوئے ،جب دشمنوں کی جانب سے حالات بدتر کردیئے گئے اور آپ کی فوج کا شیرازہ بکھرنے لگا اُس وقت آپ نے امت کو عظیم فتنہ سے محفوظ رکھتے ہوئے صلح فرمائی،اسی لئے آپ اپنے لشکر کی سستی اور جنگ نہ کرنے کی وجہ سے بہت رنجیدہ تھے ایک روز خطبہ کے دوران فرمایا کہ:
”اگر میرے ساتھی ایسے ہوتے جو دشمن خدا (معاویہ) سے جنگ کرتے تو ہرگز خلافت معاویہ کے ہاتھوں میں نہ جانے دیتا ، کیوں کہ خلافت بنی امیہ پر حرام ہے“
(جلا العیون ،علامہ مجلسی، جلد ۱ ، صفحہ ۳۴۵،۳۴۶ ناشر مکتبہ بصیرتی قم)
اور جب انتقال معاویہ کے بعد یزید نے والی مدینہ اپنے چچا زاد بھائی عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ اہل مدینہ بالخصوص امام حسین سے میرے لئے بیعت لے لے ،اگر انکار کریں تو سر قلم کرکے بھیج دے جب عتبہ نے یہ خبر امام حسین - کو پہنچائی تو آپ نے اپنے فضائل و کمالات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ :
”میں نے اپنے نانا رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ابوسفیان کی اولاد پر خلافت حرام ہے
(بحار الانوار ،جلد ۴۴ ، صفحہ ۳۱۲ ، ناشر موسسة الوفا، بیروت، لبنان، دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۳ ء)
امام حسن و امام حسین کے مذکورہ بیان کی روشنی میں بنی امیہ کا حکومت اسلامی پر قبضہ غاصبانہ تھا(لہٰذا اس غاصبانہ قبضہ کی مخالفت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی)
عالم اسلام کی اتنی معتبر اور عظیم شخصیات جب کسی حکومت کو ناجائز قرار دے دیں تو ایسی حکومت کو ایک لمحے کے لئے بھی قبول نہیں کیا جاسکتا اور مسلمانوں پر مذہبی و اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ بنی امیہ کو حکومت سے دور رکھتے ،اس ذمہ داری کو بھی سب سے زیادہ اہل بیت ہی نے محسوس کیا
کیا کوئی مسلمان یہ تصور کر سکتا ہے کہ بغیر حکومت کی پشت پناہی کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا رواج سماج میں کما حقہ ہوجائے گا؟ کیا بغیر حکومت و طاقت کے شریعت کا نفاذ ممکن ہے؟ نہیں !ہر گز نہیں، ایک دین دار حاکم ہی صحیح طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نفاذ کرسکتا ہے ورنہ افراط و تفریط کا اندیشہ رہتا ہے،پاکستان میں شراب کی کھلے عام دکانیں اور جسم فروشی کے اڈے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں چوراہوں پر ٹیلی ویژن توڑنا اورلڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کرناافراط و تفریط کی زندہ مثالیں ہیں
حکومت اسلامی کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امام حسن کی حکومت کو معاویہ کی جانب سے خطرہ بڑھا تو آپ نے اس کو بچانے کی خاطر ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ آپ نے جنگ سے بھی دریغ نہیں کیا، یہ الگ بات ہے کہ آپ کے پاس معاویہ جیسی اطاعت گزار فوج کی کمی تھی
جنگِ صفین کے موقع پرلشکر کی نافرمانی کا تلخ تجربہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے ، امام علی کے لشکر کی نافرمانی کی وجہ سے صفین کی جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی
اس کے علاوہ لشکر یا فوج کی اطاعت گزاری کے باعث فتح و کامرانی کی شیرینی ایران ولبنان میں چکھی جاچکی ہے ،جس کی وجہ سے اپنے زمانے کی سُپر پاورامریکہ و اسرائیل بھی ایران و لبنان کا اپنے دعوں کے مطابق کچھ نہ بگاڑ سکے ،جب کہ ایران و لبنانی حزب اللہ کی قیادت غیر معصومین کے ہاتھوں میں ہے اور صفین میں شیر خدا ،امام معصوم کے ہاتھ میں لشکر کی کمان تھی ،لیکن فوج اطاعت گزار نہ تھی ،اسی طرح نخیلہ میں بھی قیادت امام معصوم، حسن مجتبیٰ -کے ہاتھ میں تھی ،اور بہادری و شجاعت آپ کو ورثہ میں ملی تھی لیکن آپ کی فوج بھی نافرمان تھی ،جس کا اعتراف خود امام حسن نے اس طرح فرمایاکہ:
میں نے حکومت و زمام داری کو اس لئے معاویہ کے حوالے کردیا کہ میرے پاس معاویہ جیسی (اطاعت گزار) فوج نہیں تھی اور اگر ہوتی تو حکم خدا کے مطابق معاویہ سے رات دن فیصلہ کن جنگ کرتا
(بحا رالانوار ،جلد ۴۴ ، صفحہ ۱۴۷ ، علامہ مجلسی ،ناشر کتاب فروشی اسلامیہ ،تہران)
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عزت و کامرانی کا راز اپنے رہبر و قائد کی اطاعت ہی میں پوشیدہ ہے،لہٰذاہمیں اپنے رہبروں کی (جو کہ آج کل مراجع تقلید کی شکل میں ہیں )زیادہ سے زیادہ سے اطاعت کرنی چاہئے اسی صورت میں ہم دوسری قوموں سے ممتاز ہو سکتے ہیں
امام حسن مجتبیٰ کے مذکورہ بیان سے واضح ہے کہ آپ نے کاہلی یا سستی کی وجہ سے صلح کو ترجیح نہیں دی تھی،جیسا کہ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے رہتا ہے،بلکہ ایسی فوج کے ہوتے ہوئے فیصلہ کن جنگ کرنا ناممکن تھا ،کیونکہ آپ کا لشکر پانچ گروہوں پر مشتمل تھا:
حضرت علی -کے مخلص شیعہ
خوارج (جو ہر قیمت پر معاویہ سے جنگ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے اور یہ لوگ امام حسن کے لشکر میں صرف بغضِ معاویہ کی وجہ سے شامل ہوئے تھے امام کی محبت میں نہیں
مفاد پرست (جن کا مقصد صرف مال غنیمت تھا)
وہ لوگ جو امام حسن -کی عظمت میں شک کرتے تھے اور دوغلی پالیسی رکھتے تھے اور امام حسن -کو معاویہ پر ترجیح نہیں دیتے تھے
وہ لوگ جو دین کی خاطرنہیں بلکہ خاندانی تعصب کی بناء پر رئیس قبیلہ کی پیروی کرتے ہوئے امام حسن -کے لشکر میں شریک ہوئے تھے ،کیونکہ ان کے خاندانی مخالف و حریف معاویہ کے لشکر میں تھے
حضرت علی -کے شیعہ جنگ صفین و نہروان کے تھکے ہوئے تھے اور باقی چار گروہوں کی نظر میں حکم امام -کی کوئی اہمیت نہ تھی ،اور یہ لوگ عین جنگ کے وقت معاویہ سے جا ملے تھے اور بعض غیر جانبدار ہوکر امام -سے علیحدہ ہوگئے تھے اور کچھ نے معاویہ سے سازش کرلی تھی کہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیں گے یا شہید کردیں گے
اس سازش سے امام حسن -بخوبی واقف تھے ،آپ فرماتے ہیں کہ:
”بخدا اگر میں معاویہ سے بر سر پیکار ہوا تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیروں کی طرح مجھے معاویہ کے حوالے کردیں گے“
(ترجمہ الامام الحسن ،تالیف ابن عساکر،متوفی ۵۷۱ ھ، تحقیق الشیخ محمد باقر محمودی، ناشر مطبعة للطباعة والنشر ،بیروت ،لبنان، پہلا ایڈیشن ۱۹۸۰ ء)
اگر آپ گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیئے جاتے تو دو حال سے خالی نہ تھا :
یا تو معاویہ آپ کو بے دردی اور نہایت چالاکی سے شہید کر ڈالتے اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو اس خون سے بری الذمہ قرار دیتے ،اس طرح خون امام رائیگاں چلا جاتا
یا آپ پر احسان کرتے ہوئے مشروط طور پر آزاد کرادیتے اور بنی امیہ سے ”طلقاء“ (یعنی آزاد کئے ہوئے)کے دھبہ کو دھونے کی کوشش کرتے اور اس طرح اپنے اُن بزرگوں کا انتقام لے لیتے جن کو رسول خدا نے قیدی بنائے جانے کے بعد آزاد کردیا تھا
امام حسن -نے معاویہ سے صلح ضرور کی مگر اپنی اور اپنے شیعوں کی عزت کو مقدم رکھا اور صلح کے شرائط خود معین کئے جن میں سے ہم صرف ایک شرط کو ذکر کررہے ہیں تاکہ قارئین پریہ بات واضح ہوجائے کہ امام حسن - کی نگاہ میں حکومت اسلامی کے قیام و دوام کی کتنی اہمیت تھی، وہ شرط یہ ہے:
معاویہ کے بعد (امام) حسن خلیفہ ہوں گے اور اگر (امام) حسن کوکوئی حادثہ پیش آجائے تو (امام )حسین خلیفہ ہوں گے
(صلح امام حسن ، صفحہ ۳۵۸ ،تالیف شیخ راضی آل یاسین ،مطبوعہ ایران)
اس شرط میں امام حسن نے واضح کردیا کہ حکومت اسلامی پر حق صرف ہمارا ہے فتنہ فروکش کرنے کی خاطر اگر معاویہ کو حکومت واگزار کردی تو کیا ہوا،معاویہ یا اُن کا خاندان اس کے بعد حکومت کی آس نہ لگائیں اور یہ بھی واضح کردیا کہ یہ حکومت آلِ رسول ہی میں رہے گی، اسی لئے آپ نے اپنے بعد امام حسین کو حکومت اسلامی کے لئے نامزد فرمایا
اس صلح نامہ کی رو سے امیر معاویہ کا یزید کو حکومت کے لئے معین کرنا غیر قانونی ،غیر شرعی اور غیر اخلاقی تھا کیونکہ معاویہ مذکورہ شرط پر راضی تھے اور انہوں نے اس پر دستخط بھی کئے اور شام کے رووسا و بزرگ اس پر گواہ تھے
امام حسن -کی شہادت کے بعد مذکورہ صلح نامہ کی رو سے امام حسین -حکومت اسلامی کے بلا اختلاف حق دار تھے
یوں تو آپ نے اپنے اس حق کی بازیابی کی تیاریاں امیر معاویہ کے زمانے سے ہی سے شروع کردی تھیں اور قیام کا زمینہ ہموار کرنا شروع کردیا تھا
حالانکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے اہل کوفہ کے خطوط کی وجہ سے مدینہ سے ہجرت فرمائی ،یا یہ کہ اگر یزید آپ سے بیعت کا مطالبہ نہ کرتا تو آپ اس سے کوئی سروکار نہ رکھتے اور خاموشی سے ایام حیات پورے کرتے،ایسا سوچنا صحیح نہیں ہے،کیوں کہ:
آپ نے ۲۸ / رجب المرجب ۶۰ ھ کو مدینہ سے ہجرت فرمائی اور آپ مکہ تشریف لے گئے ،اہل کوفہ کا پہلا خط آپ کو مکہ میں ۱۰/ رمضان ۶۰ ھ کو موصول ہوا
(الارشاد،شیخ مفید ،جلد ۲ ،باب ۳ ،فصل ۲ صفحہ ۳۵ ، ترجمہ و شرح آقای حاج سید ہاشم رسولی محلاتی ،مطبوعہ تہران )
اگر امام عالی مقام کے قیام کا اصل سبب اہل کوفہ کے خطوط ہوتے تو آپ مدینہ سے ہجرت کوفہ سے خط ملنے کے بعد ہی فرماتے اور کوفہ کے حالات سے آگاہ ہونے کے بعد اپنا سفر جاری نہ رکھتے
اسی طرح امام حسین -کی امیر معاویہ کے زمانے میں کی گئی جد و جہد سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر یزید مطالبہ بیعت نہ کرتا تب بھی آپ بنی امیہ کی اس فاسد حکومت کے خلاف قیام فرماتے
چنانچہ جس وقت ۵۶ ھ میں معاویہ مدینہ پہنچے تاکہ اہل مدینہ خصوصاً امام حسین - سے یزید کی بیعت لیں ،مدینہ پہنچ کر معاویہ نے امام حسین -اور عبداللہ ابن عباس سے ملاقات کی اور اپنی گفتگو کے دوران یزید کی ولی عہدی کے مسئلہ کو بیان کیا تاکہ ان حضرات کی موافقت بھی حاصل ہوجائے ،تو امام حسین -نے معاویہ کی باتوں کا اس طرح جواب دیا:
(اے معاویہ)! جو کچھ تم نے یزید کے کمالات اور امت محمدی کا نظم و نسق چلانے کی اس کی لیاقت کو بیان کیا ہے،میں سمجھ گیا ! تم نے یزید کی تعریف اس طرح کی ہے گویا اس کی زندگی لوگوں پر پوشیدہ ہےنہ! یزید نے جس طرح اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے باطن کو آشکار کیا ہےاس کے بارے میں وہی کہو! یزید ایک ایسا جوان ہے جو کتوں اور کبوتروں سے کھیلتا ہے،بوالہوس ہے کہ اپنی عمر کو گانے بجانے اور عیش پرستی میں بسر کررہاہے ،یزید کی اِن رذائل کے ساتھ تعریف کرو اور بے فائدہ کوشش کو بالائے طاق رکھ دو،اس امت کے بارے میں جو گناہ تم نے اپنے اوپر لادے ہیں (تمہاری بربادی کے لئے)وہی کافی ہیں، ایسے کام نہ کرو جس سے پروردگار سے ملاقات کے وقت گناہوں کا بوجھ اس سے زیادہ ہوجائے ،تم نے اپنی باطل اور ظالمانہ روش کو جاری رکھا اور احمقانہ ظلم کے مرتکب ہوئے ہو،لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ،تمہارے اور موت کے درمیان چشم زدن سے زیادہ وقت باقی نہیں ہے ،آگاہ ہو کہ تمہارے اعمال پروردگار کے پاس محفوظ ہیں اور روز حساب جواب کے لئے تمہیں آمادہ رہنا چاہئے
( الامامة والسیاسة ، تالیف ابن قتیبہ دینوری،مطبوعہ مصر ۱۳۲۸ ھ)
امام حسین - کے اس جواب سے بنی امیہ کی فاسد حکومت کے خلاف آپ کی جد و جہد بخوبی آشکار ہے آپ حکومت اسلامی پر بنی امیہ کے قبضے سے ایک لمحہ کے لئے بھی راضی نہ تھے،چنانچہ آپ نے اعلانیہ طور پر معاویہ اور یزید کی آئندہ حکومت کی مخالفت کی اور یزید کے خلاف ایک مسلح قیام کے لئے زمین ہموار کرنا شروع کردی، اس مقصد کے لئے عمومی و خصوصی جلسوں میں بنی امیہ کے مظالم سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہےمعاویہ کے جاسوس اس سلسلہ میں معاویہ کو بڑھا چڑھا کر خبریں بھیجتے رہے جس سے معاویہ نے یہ سمجھا کہ امام حسین -کی تیاریاں اس کے خلاف ہیں ،ان خبروں سے فکر مند ہوکر معاویہ نے امام حسین - کو اس مضمون کا خط لکھاکہ :
”تمہاری سرگرمیوں اور فعالیت کے بارے میں مجھے خبریں مل رہی ہیں ،اگر یہ صحیح ہیں تو میں تمہاری شایان شان نہیں سمجھتا،خدا کی قسم ہر شخص جو عہد و پیمان کرے اس کو نہ توڑے اگر میری مخالفت کروگے تو میں بھی تمہاری مخالفت کروں گا اور اگر بدی کروگے تو بدی دیکھو گے،امت کے درمیان اختلاف پھیلانے سے پرہیز کرو
(الامامة والسیاسة، جلد ۱ ، صفحہ ۱۴۸ ، مطبوعہ مصر و بحارالانوار جلد ۴۴ ،صفحہ ۲۱۲ ، مطبوعہ تہران)
امام حسین - نے معاویہ کو اس خط کا تنبیہ آمیز جواب لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے:
”(اے معاویہ!) تمہیں جو خبریں مل رہی ہیں وہ چند بے بنیاد باتیں ہیں جو چاپلوسوں ،چغل خوروں ،تفرقہ پھیلانے والوں اور جھوٹے لوگوں نے اپنی طرف سے گڑھی ہیں ،یہ گمراہ و بے دین لوگوں نے جھوٹ بولا ہے ،میں نے تمہاری مخالفت میں نہ کوئی جنگی تیاری شروع کی ہے اورنہ مسلح قیام کا ارادہ رکھتا ہوں اے معاویہ ! تم نے لکھا ہے کہ میں اس امت کے درمیان اختلاف اور فتنہ نہ پھیلاوں ،میری نظر میں اس امت کے درمیان تمہاری حکومت سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے، جس وقت اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہوں اور دین و امت محمدی پر نظر کرتا ہوں تو اس سے بڑی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا کہ تم سے جنگ کروں اور یہ جنگ راہ خدا میں جہاد ہوگا
(الامامة والسیاسة ،جلد ۱ ،صفحہ ۱۴۹ ۔ ۱۵۰ ، بحار الانوار ،جلد ۴ ، صفحہ ۲۱۳ ، مطبوعہ تہران )
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی مثالیں ہیں جن سے تاریخ کا دامن بھرا ہوا ہے ،اگر ہم امام حسین - کے اس جواب پر دقت سے نگاہ کریں تو اُس پروپیگنڈے کی حقیقت خود بخود سامنے آجائے گی جس کو اکثر مورخین نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے ،اور بعض شیعہ حضرات بھی اس سے متاثر نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ:
”معاویہ نے یزید کو وصیت کی تھی کہ امام حسین - سے کچھ نہ کہنا بلکہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا “
معاویہ !جن کی نظر میں دین یا مذہب کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ وہ صرف حکومت کے خواہش مند تھے کس طرح یزید کی حکومت کے لئے امام حسین - کو خطرے کی صورت میں برداشت کرسکتے تھے؟
جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں معاویہ نے یزید کو اہل مدینہ کے بارے میں اس طرح وصیت کی تھی :
”اگر (تمہیں اپنی حکومت کے زمانے میں )اہل مدینہ کی بے چینی ،شورش یا بغاوت کا احساس (یا شک) ہوجائے تو ”بنی مرہ“ کے شریر(کانے) مسلم بن عقبہ کو (ان کی سرکوبی کے لئے) بھیج دینا “(الامامة والسیاسة،صفحہ ۱۷۲)
یزید نے معاویہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مسلم بن عقبہ کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے بھیجا ،مسلم بن عقبہ مدینہ میں داخل ہوا اور وہ انسانیت سوز اعمال انجام دیئے جس سے آسمان کو بھی زلزلہ آجائے ،مروان لشکر کی راہنمائی کررہاتھا اور مسلم بن عقبہ کا لشکر اس کے احکام کو نافذ کرکے بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام ،مسلم عورتوں کی آبرو ریزی اور ان کے اموال کو غارت کررہا تھا ،معاویہ ابن ابی سفیان کی وصیت پر عمل درآمد کا مختصر نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ میں :
اصحاب نبی سے ۸۰/ افراد قتل ہوئے
اہل بدر کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا
قریش اور انصار کے ۷۰۰ / افراد کا قتل ہوا
عوام الناس سے دس ہزار افراد قتل کئے گئے
(الامامة والسیاسة ،جلد ۱ ،صفحہ ۱۷۸ ،مطوعہ مصر ۱۹۰۸ ء)
اور تین دن تک عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی جس سے چار ہزار ناجائز بچے پیدا ہوئے
(بحار الانوار،جلد ۱۳۸ ،صفحہ ۱۹۳ ، مطبوعہ بیروت،لبنان۔ الطرائف ،جلد ۱ ، صفحہ ۱۶۶ ، تالیف سید علی بن طاوس حلی،مطبوعہ قم ۱۴۰۰ ھ)
یہاں صرف شک کی بنیاد پر اہل مدینہ کو تاراج کرنے کی وصیت کی جارہی ہے ، جبکہ امام حسین - تو علی الاعلان یزید کی آئندہ حکومت کی مخالفت کررہے تھے ،تو پھر کس طرح معاویہ یزید کو یہ وصیت کرسکتے ہیں کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا، بلکہ معاویہ ہی نے یزید کویہ وصیت کی ہوگی کہ پہلی فرصت میں امام حسین - کا کام تما م کردینا
امیر معاویہ ایسی وصیتیں اس لئے کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنا اور اپنے خاندان ”بنی امیہ“ کا اقتدار بہت عزیز تھاجس کے آگے وہ کسی بھی قانونی ،شرعی اور اخلاقی برائی کو جرم نہیں سمجھتے تھے،جس کا مشاہدہ اس وقت ہوتا ہے جب انہوں نے امام حسن سے صلح کرنے کے بعد (جس پر بڑی شدید قسمیں کھائی تھیں اور عہد و پیمان کیا تھا) حکومت کی لالچ و محبت میں اس طرح بیان دیتے ہیں:
اے اہل عراق! میں نے نماز روزہ اور حج و زکوٰة ادا کرنے (کرانے ) کے لئے تم سے جنگ نہیں کی ہے بلکہ تم سے میری جنگ فقط حکومت کے لئے تھی اور خدا نے مجھے میرے اس مقصد میں کامیاب کردیا ،اس کے باوجود کہ تم ایسا نہیں چاہتے تھے ،آگاہ ہوجاو صلح نامہ کی تمام شرطیں جو حسن بن علی + سے کی ہیں میرے پیروں کے نیچے ہیں
(صلح امام حسن ،صفحہ ۱۰۸ ،تالیف شیخ راضی آل یاسین ،مطبوعہ ایران)
بعض لوگ ائمہ معصومین کے اسم مبارک کے ساتھ لفظ حکومت کو اُن کی شان میں گستاخی تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام کو حکومت سے کیا مطلب !دنیا کے مال دولت اور حکومتیں تو ان کی ٹھوکروں میں رہتی ہیں ،یہ جذباتی نظریہ غلط ہے ،اگر ایسا مان لیا جائے تو غصب حکومت و خلافت کرنے والوں کی مذمت کیوں کی جاتی ہے؟
ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں لفظ حکومت آتے ہی ،مکر و فریب ،ظلم و تشدد اور ہر قسم کی بے راہ روی آتی ہو ،لیکن امام عالی مقام کے ہوتے ہوئے حکومت میں یہ تمام بدعنوانیاں تصور بھی نہیں کی جاسکتیں کیونکہ آپ و دیگر ائمہ ملوکیت کے شدید مخالف تھے آپ حضرات حکومتی طاقت کے ذریعہ اصلاح معاشرہ چاہتے تھے اور جس حکومت کی آپ بات کررہے تھے وہ الٰہی حکومت تھی جو اس قسم کی کثافتوں سے پاک و صاف ہوتی ہے
ایسی ہی حکومت اور اس کے حکمرانوں سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا (سورہ حج،آیت ۴۱)
یزید اِس پاک و صاف الٰہی حکومت ہی کو داغ دار کر رہا تھا تب ہی تو امام نے قیام فرمایا
آپ نے اپنے قیام کی وجہ بتاتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو اک وصیت میں اس طرف اشارہ فرمایا تھا :
میں خود خواہی اور سرکشی و ہوسرانی کی بناء پر مدینہ سے نہیں جارہاہوں ، بلکہ میرا مقصد اپنے نانا کی امت کی اصلاح ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت کو زندہ کرنا چاہتا ہوں“
امام نے اپنی وصیت کے پہلے حصہ میں ملوکیت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کی نفی فرمائی ہے جو اکثر حکمران حکومت ملنے کے بعد انجام دیتے ہیں یعنی خود خواہی،سرکشی ،ہوسرانی ،فساد اورظلم و تشدد کویہ حکمران اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں ،اسی وجہ سے حکومت کو اہل دین و تقویٰ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اپنی وصیت کے دوسرے حصہ میں امام نے اُن پسندیدہ صفات و کمالات کو اپنے لئے بیان فرمایا ہے جو ایک حاکم اور اس کی حکومت کے لئے ضروری ہے یعنی امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ، سیرت نبی و علی کو زندہ رکھنا اور اصلاح معاشرہ امام عالی مقام کو حکومت کی ضرورت انہیں کمالات کو معاشرے میں رواج دینے کے لئے تھی
وادی تبلیغ میں قدم رکھنے والے حضرات اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ،اگر دیندارحکومت کی پشت پناہی ہوتی ہے تو نفاذ شریعت بہت آسان ہوجاتا ہے
یزید کی حکومت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اٹھ چکا تھا ،سنت رسول اور سیرت علی - کو لوگ بھلا چکے تھے،اور رفتہ رفتہ دور جاہلیت کی طرف قدم بڑھ رہے تھے ،اس طرف سنی دانشور مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی نے اس طرح اشارہ کیا ہے:
” دنیا کی بد قسمتی تھی کہ خلفائے راشدین کے بعد دنیا کی راہنمائی کے منصبِ جلیل پر وہ لوگ حاوی ہوگئے تھے جنھوں نے اس کے لئے کوئی حقیقی تیاری نہیں کی تھی ارکانِ حکومت یہاں تک کہ بذاتِ خود خلفاء،دین و اخلاق کا کامل نمونہ نہیں تھے ، بلکہ ان میں سے بعض اشخاص میں جاہلی جراثیم اور میلانات پائے جاتے تھے،قدرتی طور پر ان کی روح اور نفسیات کا اثر قومی زندگی پر پڑ رہا تھا اور لوگ عموماً انھیں کے اخلاق و عادات و رجحانات کی تقلید کر تے تھے ،دین کی نگرانی ختم ہوچکی تھی،احتساب اٹھ چکاتھا ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا زور ختم ہوچکا تھا اس لئے کہ اس کی پشت پر کوئی طاقت اور حکومت کی حمایت نہیں تھی
( ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر“ تالیف مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ،صفحہ ۱۶۳ ۔ ۱۶۵ ، گیارہواں ایڈیشن ۱۹۹۲ ء، ناشر مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ،پوسٹ بکس ۱۱۹ ،لکھنو ، ہند )
لہٰذا امام حسین نے مذکورہ سماجی برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کربلا کے میدان میں انتہائی مصائب و آلام کے ساتھ اپنی اور اپنے اعزا و اقرباء کی قربانیاں پیش کردیںاِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
اگر ہم بھی اپنے سماج سے ایسی برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے جدو جہد کرتے رہیں تو حسینی کہلائیں گے اس کے برخلاف اگر اپنے سماج کی ایسی حالت دیکھ کر ہم تماشائی بنے رہیں اور اصلاح کی کوئی تدبیر نہ کریں ،لوگوں کو اچھائی کا حکم نہ دیں ،انہیں برائی سے نہ روکیں تو ہم حسینی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں
ہر سال ایام عزا میں چندرسومات کو بجالانا حسینی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ! مجلس و ماتم برپا کرکے ہم عزادار یا ماتم دار تو ہوسکتے ہیں لیکن حسینی نہیں، عزادار اور ماتم دار کا درجہ بھی اُس وقت ملے گا جب ہمارا یہ عمل خیر خلوص کے ساتھ ہو ،ریا کاری (دکھاوے)کی صورت میں کوئی اجرو ثواب نہ ہوگا
امام حسین -نے اپنی اور اپنے بیش بہا اقرباء و اصحاب کی قربانیاں اس لئے نہیں پیش کی تھیں کہ ہم پورے سال غفلت کی نیند سوئیں اور ایام عزا میں چند رسوماتب جالائیں اور بس! ،بلکہ امام عالی مقام کا مقصد مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ متحرک و فعال بنانا تھا تاکہ ایک مسلمان ہمیشہ اور ہر وقت اپنے سماج سے خبردار رہے
نوگانواں سادات میں مومنین ایام عزامیں امام حسین - کے نام پر تقریباً دو کروڑ روپئے خرچ کر ڈالتے ہیں ،ایسا ہی خرچ دوسری شیعہ بستیوں میں بھی ہوتا ہوگا ،لیکن سچ بتایئے ہم نے اس رقم سے کتنے لوگوں کوحسینی بنایا؟امام کے مشن کو کتنا آگے بڑھایا؟ امام کے نام پر کتنے رفاہی کام کئے ؟اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود! مقصد ِامام سے کوسوں دور !!اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صحیح خرچ نہیں کرتے ! کیا یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
اور یہ بھی یاد رکھئے ! اگر ایام عزا کی رسومات برپا کرتے وقت کوئی ایسا فعل سرزد ہوجائے جس سے حقوق انسانی کے تلف ہونے کا خطرہ ہو تو بھی اشکال سے خالی نہیں ہے، مثلاً شب بیداری کے دوران ایسے طاقتور لاوڈ اسپیکر استعمال کرنا جس سے عزا خانے کے ہمسایہ یا اہل محلہ بے چین رہیں ،باعث گناہ ہوسکتا ہے
آیئے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اپنے سماج کی بھلائی کی خاطر سچے حسینی بن کر امام حسین کے مشن کو آگے بڑھائیں گے،تاکہ دکھی سماج کو سکون میسر ہو جائے
منحو س کاروبار
قرآن مجید کی بہت ساری آیات اور سورے اکثرروحانی و جسمانی بیماریوں اور مشکلات میں مفید و کارآمد ہیں جن کی نشاندہی ائمہ معصومین نے کردی ہے اور خدا کے نیک بندے اِن آیتوں اور سوروں کے ذریعہ مومنین کا علاج کرتے رہتے ہیں ،جس کا بے حد ثواب ہے
لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کی نظر میں آیتوں کے تقدس سے زیادہ روپیہ پیسہ کی اہمیت ہوتی ہے جس کی خاطر یہ لوگ آیتوں کو فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھراتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ :فریب ،جھوٹ،فتنہ پروری،خداپر ایمان میں کمزوری ،شرک اور وسوسہ جیسی نحوستوں کے سہارے اپنے کاروبار کو آگے بڑھاتے ہیں
اس کاروبار میں نہ ہلدی لگتی ہے اور نہ پھٹکری(یعنی کوئی سرمایہ خرچ نہیں ہوتا)بلکہ معمولی کاغذ اور قلم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج اور نحوستیں بہت شدید ہوتی ہیں
اکثر یہ کاروبار کرنے والے جاہل مطلق ہوتے ہیں لیکن اب اس میں مساجد کے پیش نماز بھی اپنا دامن آلودہ کرنے لگے ہیں ،فقہ جعفری کی رو سے ایسے پیش نماز کے پیچھے نماز نہیں ہوگی ،کیوں کہ :
یہ کاروبار جھوٹ کے ذریعہ چلتاہے
اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ،ارشاد ہوتاہے :
( فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّٰهِ علیٰ الْکَاذِبِیْنَ )
(سورہ آل عمران،آیت ۶۱)
” جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں“
ان کے پاس جب کوئی مریض آتاہے تو یہ چند رَٹے رٹائے امراض اِن کے لئے تشخیص کرتے ہیں جو جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں ، مثلاً:
=کہتے ہیں کہ آپ پر خبیث،بھوت یا چڑیل ہے:
خبیث ،بھوت یا چڑیل جسم خارجی نہیں ہے بلکہ یہ کردار کے نام ہیں ،مریض اگر بد عمل ہے توخود بھی خبیث ،بھوت یا چڑیل ہوسکتاہے اور یہ علاج کرنے والا بھی خبیث وغیرہ ہوسکتاہے،اور اس کا علاج چند آڑی ٹیڑھی لکیروں سے نہیں بلکہ سیدھے راستے پر چلنے اور نیک اعمال بجالانے سے ہوتاہے
ایک صاحبہ ایک پیش نماز کے پاس گئیں اور کہا کہ :
”میری چھوٹی بہن بہت بیمار ہے اس کی فال دیکھ دیجئے پیش نماز کہنے لگے کہ تمہاری بہن کا علاج تو بعد میں ہوگا پہلے اپنا علاج کراو تمہارے اوپر خبیث ہے جو تمہارا سارا چین و سکون چھین لے گا یہاں تک کہ تمہاری شادی بھی نہیں ہونے دے گا“
یہ سن کر اِن صاحبہ کی ساتھیوں نے کہا کہ اِن کے توکئی بچے ہیں فوراً پیش نماز صاحب نے پینترا بدلا اور بولے کہ:
”پھر تو بہت ہی بڑا خبیث ہے کہ شادی شدہ پر آیا ہے؟!“
=کہتے ہیں کہ آپ پر ہوا کا اثر ہے :
ہوا کے اثر سے متعلق جب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ گندی روحوں کا اثریہ بات مسلمات میں سے ہے کہ تمام روحیں خدا وند عالم کے قبضہ میں ہوتی ہیں اسی لئے” قبض روح “کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی روحیں آزاد نہیں رہتیں کہ جو چاہے کرتی پھریں
جب مومن کی روح بغیر اذن پروردگارنہیں آجاسکتی تو گندی روحیں کس طرح مومنین کو ستانے کے لئے آزادنہ نکل پڑیں گی کیا خدا وند عالم گندی روحوں کو یہ اجازت دے گا کہ وہ مومنین کو ستائیں ؟ اور گندی روحیں تو اپنے بُرے اعمال کی سزا کاٹنے میں مصروف رہتی ہیں ،انہیں کسی کو ستانے کا ہوش کہاں رکھا ہے لہٰذا یہ بھی جھوٹ ہے کہ گندی روحیں مومنین یااللہ کے دیگر بندوں کو ستاتی ہیں
=کہتے ہیں کہ” چوکی“ چُھڑوادی ہے:
پوچھا ”چوکی “کیا چیز ہے تو کہنے لگے کہ ایک مٹی کی ہانڈی میں ہلدی ،مرچ وغیرہ رکھ کر مورد نظر شخص کا آٹے وغیرہ سے پُتلا بنا کر رکھا جاتاہے اور اس ہانڈی کو جنگل میں چھوڑ دیاجاتاہے ،ایسا کرنے سے جس کا پُتلا ہوتاہے وہ شخص یا تو مرجاتاہے یا بیمار رہنے لگتاہے
ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرکے اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہئے کیوں کہ اس عقیدہ سے کفر و شرک لاز م آتاہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے :
( اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْ اثُمَّ اَحْیَاهُمْ )
(سورہ بقرہ،آیت ۲۴۳)
”(اے رسول!) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال پر) نظر نہیں کی جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھر وں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مرجاو (اور وہ مرگئے) پھر خدا نے انھیں زندہ کیا“
مگر ”چوکی “پر عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک موت وحیات اس مٹی کی ہانڈی یا اس کو جنگل میں چھوڑنے والے سے وابستہ مان لی جاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی قدرت و طاقت سے زیادہ ”چوکی“چھوڑنے والے کی طاقت ہے ؟! (نعو ذ باللہ )بے شک اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے،ارشاد خداوندی ہوتاہے :
( لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْ الاَْرْضِ یُحْییْ وَ یُمِیْتُ وَهُوَ عَلٰیْ کُلِّ شَئیٍ قَدِیْرٌ )
(سورہ حدید ،آیت ۲)
”سارے آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے وہی زندہ کرتاہے وہی مارتا ہے اور وہی ہرچیز پر قادر ہے“
اس کے علاوہ اگر اِن باتوں میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو آج کل ملکوں میں کروڑوں اربوں روپئے فوج پر خرچ نہ کئے جاتے بلکہ جس ملک کے خلاف جب چاہتے ”چوکیاں“ جنگل میں چھوڑ دیاکرتے اور بس وہ ملک تباہ ہوجایا کرتا امریکہ کے صدر بُش نے پوری دنیا کا ناک میں دم کررکھاہے ،ایک ”چوکی“ اس کے لئے بھی کافی تھی عراقی شیعہ صدام کے ہاتھوں ۳۵/ سال تک نہ ستائے جاتے ،ایک ہی ”چوکی “ میں اس کا بھی کام تمام ہوجاتا
=کہتے ہیں کوکھ باندھ دی :
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس سے بچے پیدا ہونے بند ہوجاتے ہیں ،کتنا بُرا عقیدہ ہےخدا وند عالم تو چاہتاہے کہ میرا فلاں بندہ صاحب ِ اولاد ہوجائے اور کوکھ باندھنے والا اس کو صاحبِ اولاد نہیں ہونے دیتا اس عقیدہ سے اللہ کا مجبور ہونا لازم آتاہے اور جو مجبور ہو وہ خدا نہیں اور جومسلمان خدا کو مجبور مانے وہ مسلمان نہیں
مومنین حضرات ذرا سوچئے تو سہی یہ منحوس کاروبار کرنے والے آپ کا جسمانی علاج تو کیا کریں گے بلکہ یہ آپ کو کفر وشرک ایسے روحانی امراض میں مبتلا کررہے ہیں جس سے دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہیں
اس کاروبار میں دھوکہ دینا پڑتاہے:
جب کوئی مریض آیا تو کہنے لگے کہ اپنا پہنا ہوا کپڑا لاو ناپیں گے ناپ کر بتادیا کہ مثلاً چار انچ کم ہوگیا ہے یا بڑھ گیاہے مریض نے یقین کرلیا اور اسے پتہ بھی نہ چلا کہ اسے دھوکہ دے دیاگیا
لیکن جو حقیقت سے باخبر لوگ ہیں وہ دھوکہ میں نہیں بھی آتے چنانچہ ایک صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ایک مسجد کے پیش نماز نے مجھے اس طرح دھوکہ دینا چاہا،وہ کہتی ہیں کہ :
”میں سخت بیمار ہوگئی کچھ اعزأ مجھے پیش نماز صاحب کے پاس لے گئے ،انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اس پر تو خبیث ہے لہٰذا علاج ہوگامیں نے کہا کہ مجھ پر خبیث نہیں ہے بلکہ میں بیمار ہوں دوائی کی ضرورت ہے لیکن پیش نماز صاحب اسی پر اصرار کرتے رہے اور پھر ایک ضریح کے سامنے بٹھا کر کہا کہ اسے مضبوطی سے پکڑ لو” کچھ“ نظر آئے گا میں نے کہا مجھے کچھ بھی نظر نہیں آرہاہے مجھ پر” کچھ“ نہیں ہےمیں بیمار ہوں ،جتنا میں اصرار کرتی رہی وہ کہتے رہے بہت ضدی خبیث ہے بڑی مشکل سے پیچھا چھڑایا اور دہلی جا کرہسپتال میں اپنا علاج کرایا
اس کے علاوہ وہمی مریض کو پیاز کے عرق سے چند لکیریں سادے کاغذ پر کھینچ کر دے دیتے ہیں لیکن اس پر ظاہر نہیں ہونے دیتے بلکہ اس سے سادہ کاغذ ہی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے چراغ کے سامنے رکھنا اگر تم پر کسی چیز کا ”اثر“ ہوگا تو ظاہر ہوجائے گا ،آگ کی حرارت سے پیاز کا عرق رنگ تبدیل کرلیتا ہے اور لکیریں ابھر آتی ہیں ،جس سے دھوکہ کھانے والا یہ سمجھتاہے کہ کسی چیز کا ”اثر“ہے
اس کاروبار میں فتنہ پروری ہوتی ہے:
کیونکہ یہ کاروبار کرنے والے جب وہمی مریض سے کہتے ہیں کہ تمہیں کسی نے ”کچھ “کرادیا ہے ،تو کرانے والے کاحُلیہ بھی بیان کرتے ہیں جو کسی نہ کسی دوست یا رشتہ دار پر فٹ ہوجاتاہے اور اس طرح مریض اپنے قریبی رشتہ دار یا دوست سے قطع تعلق کرلیتا ہے ، مجھے میرے ایک عزیز نے اسی سے متعلق آپ بیتی سنائی تھی ،وہ کہتے ہیں کہ :
”میرا ایک دوست تھا جو مجھے بہت چاہتاتھا لیکن اچانک اس نے مجھ سے بغیر وجہ بتائے قطع تعلق کرلیا ، مجھے اُس کی اِس حرکت پر بہت تعجب ہوا ،میں نے اپنے دیگر دوستوں کے ذریعہ اس بابت معلومات حاصل کیں تو انکشاف ہوا کہ میرا یہ دوست کسی ایسے شخص سے ملا تھا( جس کا ”منحوس کاروبار “عروج پر تھا) اور اپنی پریشانی بیان کی تھی تو کاروباری شخص نے کہہ دیا کہ تمہارے لئے کسی نے بہت سخت ”کچھ “کرادیا ہے جس کا حُلیہ یہ ہے ،اتفاق سے بتایاگیا حُلیہ میرے اوپر فٹ ہوگیا اس لئے میرے دوست نے مجھ سے کنارہ کشی کرلی “
اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے واقعات میں نے سنے اور دیکھے ہیں جن میں بڑی اہم رشتہ داریاں اسی بنیاد پر ٹوٹ چکی ہیں
دیکھی آپ نے اس کاروبار کی نحوست !اسلام تو دلوں کو جوڑنے کی تاکید کرتاہے اور یہ بے دین لوگ جڑے ہوئے دلوں کوتھوڑے سے لالچ میں توڑ ڈالتے ہیں، فتنہ سے متعلق خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے کہ :
( اَلْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْل )
فتنہ قتل سے بھی بد تر ہے (سورہ بقرہ،آیت ۲۱۷)
لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا پڑتا ہے :
اِن کاروباری لوگوں کے پاس کوئی بھی چلاجائے ہر ایک کو یہی کہتے ہیں کہ تم پر خبیث ہے ،بھوت ہے ،چڑیل ہے ،گندی روحوں کا اثر ہے ،کوکھ بندھوادی ہے ،ترقی رکوادی ہے ،زبان بند کرادی ہے ،مَیْمْدَا چُھڑوادیاہے ،جنات کی حاضری ہے وغیرہ وغیرہ
حالانکہ اکثر حاضریاں ڈھونگ ہوتی ہیں ،کسی کو من پسند شادی نہ ہونے کی وجہ سے حاضری کاناٹک کرنا پڑتاہے،کوئی گھریلو ٹینشن کی وجہ سے حاضری بلاتاہے،کوئی پولس سے بچنے کے لئے تو کوئی قرض داروں کی وجہ سے ،اور کوئی والدین اور بھائی بہن کو پریشان کرنا چاہتا ہے تو کوئی بہو سسرال والوں سے عاجز آکر حاضری کا اقدام کرڈالتی ہے
میرے ایک دوست نے شہتوت کی قمچی سے کئی لڑکوں کی ایسی حاضریاں اتاریںکہ اِس کے بعد پھر کبھی اُن پر حاضری نہ آئی
اِس حاضری نے مذہب شیعہ کو جتنا بدنام کیاہے کسی چیز نے نہیں کیا ”کالی کے مندرمیں ہندووں کی حاضری “ ”شاہ مینا کے مزارپر اہل سنت کی حاضری“ اور ہمارے خود ساختہ مزاروں پرہماری حاضری ،اِن تینوں طریقہ حاضری میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر ہمارا وجہ امتیاز کیا ہوا ؟!
جس طرح حاضریاں اُن کے یہاں آتی ہیں اسی طرح ہمارے مزاروں اور درگاہوں پر ،بس یہی حاضری کے باطل ہونے کی دلیل ہے ، اس کے علاوہ آج سے ۲۵/ سال پہلے یہ حاضریاں کیوں نہیں آتی تھیں ؟یا ائمہ معصومین کے مقدس روضوں میں حاضریاں کیوں نہیں آتیں ؟ایران میں دس سالہ قیام کے دوران میں نے کسی روضہ پر اس قسم کی حاضریاں نہیں دیکھیں جیسی یہاں آتی ہیں ، توکیا یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے ؟! ہم کس کی پیروی کررہے ہیں ؟! کس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ؟! خدا وند عالم ہمیں جن و انس کے وسوسہ سے محفوظ رکھے ،وسوسہ سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلٰهیِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ اَلْخَنَّاسِ الَّذِی یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الجِنَّةِ وَالنَّاسِ ) (سورہ ناس)
”اے رسول! تم کہہ دو میں لوگوں کے پروردگار ،لوگوں کے بادشاہ ،لوگوں کے معبود کی (شیطانی ) وسوسہ سے پناہ مانگتاہوں جو (خدا کے نام سے )پیچھے ہٹ جاتاہے ،جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کرتاہے ،جنات میں سے ہو خواہ آدمیوں میں سے“
اس کاروبار کے ذریعہ مومنوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال کر ان کے ایمان کو کمزور کیاجاتاہے ،بندوں کا رابطہ اللہ سے توڑا جاتاہے اور یہ تمام چیزیں عدالت کے منافی ہیں اور غیر عادل کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں
لہٰذاایسے پیش نماز حضرات کو چاہئے کہ اگر وہ مذکورہ” تعویذ گنڈوں کا کاروبار“ نہیں چھوڑ سکتے تو جماعت کی امامت چھوڑدیں ، کیوں کہ یہ بات پیش نماز کے شایان ِشان نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بولے ،دھوکہ دے،فتنہ پروری کرے ،لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالے یا کسی کی بہو بیٹیوں کے کپڑے ناپے
مومنین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پیش نماز حضرات کی ضروریات کا پورا خیال رکھیں تاکہ وہ غیر شرعی طریقہ سے تلاش معاش نہ کریںدوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی مشکلات کا حل اس طرح تلاش کریں جس طرح ائمہ معصومین نے فرمایاہے
اگر مومنین طہارت کا خیال رکھیں،واجبات کو ادا کریں ، محرمات سے دور رہیں اور کم سے کم ہر شب چہار شنبہ دعائے توسل کا اہتمام کریں تو تمام مشکلات چاہے دنیاوی ہوں یا اُخروی خود بخود حل ہوجائیں گی کیوں کہ دعائے توسل میں خداوند عالم کے حضور اُن ہستیوں (چہاردہ معصو مین )کا واسطہ دیاگیا ہے جن کو خدا وند عالم سب سے زیادہ عزیز رکھتاہے