• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4983 / ڈاؤنلوڈ: 1940
سائز سائز سائز
مقالات نوگانوی

مقالات نوگانوی

مؤلف:
اردو

ہماری کہانیاں

دنیا میں انسانوں کے درمیان صحیح تبلیغ نہ ہونے کی وجہ سے ہی غلط رسم و رواج اور عقیدے جنم لیتے ہیں ،اور ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں وجود میں آتی ہیں جن کا مذہب اور عقل و منطق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتااور یہ باتیں اکثرتوحید کے منافی یا اس سے متصادم ہوتی ہیں

دوسرے مذاہب کی نسبت شیعہ مذہب نے عقل و منطق کو اہمیت دے کر افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی تاکید کی ہے

اشاعرہ یااہل حدیث کے یہاں صرف حدیث کافی ہے چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو ،عقل کا کوئی دخل نہیں ہے ،جب کہ معتزلہ کے یہاں عقل ہی سب کچھ ہے ، یہ لوگ حدیث کی تاویل بھی اپنی عقل کے مطابق کر ڈالتے ہیںلیکن شیعوں کے یہاں اعتدال پایا جاتا ہے

مگر دنیا پرستوں نے اعتدال کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی ایسی باتیں بنام دین سماج میں رائج کردیں جو عقل و منطق ،کتاب و سنت دونوں کے منافی ہوتی ہیں اور عوام انہیں کو دین سمجھنے لگتے ہیںاگر کوئی مُصلح اصلاح کی بات کرتاہے تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی مخالفت ہورہی ہے لہٰذا اصلاحی تحریک کی مخالفت شروع کردی جاتی ہے ،عوام تو عوام ہیں لیکن جب بعض طلاب اور نام نہاد مولوی اصلاحی تحریکوں کی مخالفت کرتے ہیں تو حالات اور بھی بدتر ہوجاتے ہیں اورمعاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے لگتا ہے

اصلاحی تحریکوں کی مخالفت کے باعث ہمارا شیعہ معاشرہ فکری طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے ،اس کا بخوبی اندازہ جوگی پورہ میں ہوا، جہاں سالانہ مجالس کے موقع پر ہندوستانی شیعوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے ،ہم نے سَن ۲۰۰۳ ء سے ۲۰۰۶ ء تک ہر سال اِس اجتماع کے موقع پرعلمی و اصلاحی لٹریچر کا اسٹال لگایا ،جس میں سبھی عمر کے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے افکار و عقائد کی اصلاح کے لئے کتابوں کا انتخاب کیاگیا تھا ،مگر افسوس کہ اسٹال پر ۵۰/ فی صد مراجعین قصے کہانیوں کی کتابوں کا مطالبہ کرتے تھے ، ۳۰ فی صد مراجعین ان نوحوں کی کتابوں کو مانگتے تھے جن کی دھنیں کیسٹوں کے ذریعہ اُن تک پہنچ چکی تھیں اور ۲۰ فی صد میں باقی دوسری کتابیں غرض کہ جوگی پورہ آنے جانے کا کرایہ جیب سے دے کر یہ کتابیں اسی طرح واپس لانا پڑیں

اگر فکری جمود کی اور مثال دیکھنی ہو تو لکھنو میں دیکھئے جہاں سے ”جدید شریعت“ اور ”کشف الحقائق“ جیسی ضدِروحانیت و مذہب ،گمراہ کنندہ کتابیں شائع ہوگئیں اور کسی نے اعتراض تک نہ کیا

کیا معاشرے میں کج فکری کی اس سے بڑی کوئی مثال ہوسکتی ہے کہ ہمارا سماج ائمہ معصومین کی تعلیم کی ہوئی دعاوں کے بجائے من گھڑت قصے کہانیوں سے حاجت طلب کرتا ہے!اسی لئے تو قصے کہانیوں کی کتابوں کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے، جن میں سے چند مشہور یہ ہیں :

جناب سیدہ کی کہانی ،دس بیبیوں کی کہانی، چٹ پٹ بی بی کی کہانی،سُگت اماں بی بی شہر بانو کی کہانی، تیسرے چاند کی کہانی،بی بی سگٹ کی کہانی، حضرت عباس کی کہانی، مولا مشکل کشا کی کہانی ،جناب ام کلثوم کی کہانی اور اب آگئی ”سولہ سیدوں کی کہانی“

بک سیلر حضرات تو معاشرے کے بجائے اپنا فائدہ دیکھتے ہیں لہٰذا وہ تو ایسی کتابیں شائع کراتے ہیں جو زیادہ فروخت ہوں،چاہے معاشرے کا کچھ بھی حشر ہویہ بات لکھنو کے کئی بک سیلروں نے مجھ سے خود کہی کہ ہم تو تاجر ہیں مذہب کے خادم نہیں ہیں!

ان سب کہانیوں میں جناب سیدہ کی اُس کہانی کا کتابوں میں ضرور تذکرہ ملتا ہے جس میں جناب سیدہ یہودی کے یہاں شادی میں تشریف لے گئی تھیں اور جنتی لباس زیب تن فرمایا تھا لیکن اس میں بھی بہت سی چیزیں اضافہ کرلی گئیں ،البتہ سند کے اعتبار سے یہ بھی ضعیف ہے کیوں کہ اس کے راوی کا نام معلوم نہیں ہے ،علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار کی جلد ۴۳ ،صفحہ ۳۰( مطبوعہ بیروت) میں اس واقعہ کو ”رُوِیَ“سے شروع کیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ”روایت کی گئی ہے“اور جو قول ”قِیْلَ“ سے اور روایت”رُوِیَ“ سے شروع ہوتی ہے وہ سند کے اعتبار سے ضعیف مانی جاتی ہے

باقی جو کہانیاں ہیں وہ عوام ہی میں سے کسی کی ذہنی اختراع ہیں،چونکہ عوام میں علمی شعور نہیں ہوتا اس لئے ان کی وضع کی ہوئی کہانیاں بھی انہی کے جیسی ہوں گی جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن افسوس تو ضلع میرٹھ کے اُس نام نہادطالب علم پر ہے جو وطن عزیز اور اعزأ و اقرباء کو چھوڑ کر علم دین حاصل کرنے کی غرض سے ملکِ شام پہنچا اور اُس پر رقومات شرعیہ بھی خرچ ہوئیں لیکن اُس نے اپنی کسی بھی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا اورمال کے لالچ میں ”سولہ سیدوں کی کہانی “تالیف کرڈالی

یوں تو یہ کہانی کسی سُنّی کی لکھی ہوئی ہے ،کیوں کہ سب سے پہلے ”چمن بک ڈپو“ ، ۹۱۴ گلی چاہ شیریں فراشخانہ ،دہلی “ سے یہ کہانی شائع ہوئی تھی لیکن اِس طالب علم نے شاید لفظوں میں رد و بدل کرکے اِسے اپنے نام سے شائع کرایا ہے ،چونکہ اپنے مقدمہ میں صفحہ ۴ پر اِس طالب علم نے خود اعتراف کیا ہے کہ :

”جس وقت اس عظیم کہانی یا عظیم معجزے کا مجھ کو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تو مجھ کو مطالعے کے بعد بڑی خوشی محسوس ہوئی اور میں نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ سہی ہے کہ یہ عظیم معجزہ یا کہانی اپنے مکمل مفہوم کے ساتھ موجود ہے لیکن اگر مزید ترتیب کے ساتھ اس کوبار دیگر الفاظی و ادبی نقطہ نظر سے شائع کردیا جائے تو بہتر ہوگا“

اس طالب علم نے کہانی کے آخر میں اپنا” علمی بیان “دے کر جہالت و گمراہی کا ثبوت ہی دے دیا، یہ من گھڑت کہانی اور اس پر نام نہاد ”علمی بیان“ کتابچہ کی شکل میں مارچ ۲۰۰۷ ء میں شام سے شائع ہوا ہے

مجھے تعجب ہے !کیا ملکِ شام میں حوزہ علمیہ پر کسی بزرگ عالم دین کی نظارت نہیں ہے؟ تاکہ طلاب عزیز ،دین و مذہب کے خلاف کسی فعالیت میں شریک نہ ہوں!

کہانی تو یہ بھی لائق تبصرہ نہیں ہے ،لیکن ایک طالب علم نے عوام کو گمراہ کرنا چاہا ہے لہٰذا اس سے متعلق چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ضروری ہیں:

۱ ۔ کوئی بھی تالیف تحقیق پر مبنی ہوتی یعنی ایک مولف جب کوئی بات پیش کرتا ہے تو استدلالی ،عقلی،منطقی اور مستند ہوتی ہے ،لیکن سولہ سیدوں کی کہانی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،مثلاً اس کہانی کی ابتدأ اس طرح ہوتی ہے:

”کسی شہر میں ایک بادشاہ رہتا تھا“

شہر کا نام کیا تھا ؟کس ملک میں واقع تھا؟وہ کس مذہب کا پیرو تھا؟ اس قسم کی کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، جب کہ یہ ساری معلومات ضروری تھیں

۲ ۔ اس کہانی کے صفحہ ۴،۵ پر

” اس من گھڑت کہانی کو ”عظیم معجزہ یا کہانی “ لکھا ہے“

ایک طالب علم سے بعید ہے کہ وہ ایسی بات لکھے جو جاہل مطلق کے علاوہ کوئی نہیں لکھ سکتا ،معجزہ اور کرامت صرف انبیاء و ائمہ معصومین سے مخصوص ہے ،یہ کونسا معجزہ ہے جو من گھڑت کہانی کے مترادف ہوگیا ؟ اور اِس طالب علم نے صفحہ ۵ پر یہ بات کہاں سے لکھ دی کہ ”جو بھی( اس من گھڑت)قصے کوسنے وہ اپنی مرادیں محمد و آل محمد کے صدقے میں پائے گامحمد وآل محمد تو جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں تو پھر اِس جھوٹے قصے سے کس طرح مرادیں پوری کریں گے؟ غور وفکر کامقام ہے!

۳ ۔ اس من گھڑت قصے میں لکھا ہے کہ:

”سائل نے منھ پھیر لیا اور بادشاہ سے وہ تھالی لئے بغیر چل دیا سائل سے انکار کا سبب دریافت کیا تو سائل نے کہا کہ :میں بانجھ گھروں سے کچھ نہیں لیتا“

اگر سائل کو یہ معلوم تھا کہ بادشاہ بے اولاد ہے اور بے اولاد کے ہاتھ سے بھیک نہیں لینا چاہئے ،تو وہ بادشاہ کے یہاں آیاکیوں ؟ اور اگر اُسے معلوم نہیں تھا تو پھر بغیر بھیک لئے واپس کیوں چلا گیا جب کہ کسی نے اُسے بتایا بھی نہ تھا کہ بادشاہ بے اولاد ہے؟!

دوسرے یہ کہ اسلام نے بے اولاد کو کبھی بھی منحوس نہیں سمجھا ہے بلکہ یہ ہمارے سماج پر اغیار کا اثر ہے جس سے ہم بے اولاد کومنحوس سمجھتے ہیں ،اسی وجہ سے سائل نے بھی بے اولاد کو منحوس سمجھا یاتو سائل خود غیر شیعہ تھا یا وہ غیر شیعوں کے کلچر سے متاثر تھا ،دونوں صورتوں میں سائل اللہ یا ولی اللہ کا نمائندہ نہیں ہوسکتا،اور نام نہاد طالب علم نے اپنے ”علمی بیان “کے صفحہ ۲۱ پر بغیر تحقیق کئے سائل کو اللہ اور ولی اللہ کا نمائندہ لکھ دیا؟!

۴ ۔ اس قصہ میں لکھا ہے کہ:

” شاہی لباس کو اُس (بادشاہ) نے اپنے تن سے اتار دیا اور اس کے عوض میں فقیری لباس پہن کر اپنی بیوی سے یہ کہتا ہوا کہ اگر رب العزت میری عزت رکھے گا(یعنی صاحب اولاد کرے گا) تو واپس آوں گا ،محل سے جنگل کی طرف روانہ ہوگیا“

اولاد کا نہ ہونا بے عزتی نہیں ہے،دوسرے یہ کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے اہل و عیال اورکاروبارِ زندگی کو چھوڑ کر جنگل میں چلے جانا انتہائی مذموم ہے اور یہ عیسائیوں کا وطیرہ ہے،قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

( وَ رَهْبَانِیَّةَابْتَدَعُوْهَا مَاکَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ )

”اور رہبانیت (لذات سے کنارہ کشی) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے اُن کو اس کا حکم نہیں دیا تھا“(سورہ حدید،آیت ۲۷)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوجب یہ اطلاع دی گئی کہ اصحاب کے ایک گروہ نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑدیا ہے اور گوشہ نشین ہوکر عبادت میں مشغول ہوگیا ہے توآنحضرت نے شدید سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ :

”میں تمہارا پیغمبر ہوں لیکن میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا ہے“ (نہج البلاغہ کی سیر،صفحہ ۲۹۲ ،تالیف شہید مطہری،ترجمہ و کتابت شعبہ اردو مجمع جہانی اہل بیت ایران،ناشر مجمع جہانی اہل بیت ،ایران)

اس کے علاوہ جب عثمان بن مظعون /اپنے بیٹے کی وفات سے حد درجہ رنجیدہ ہوئے اور کاروبارِ زندگی کو چھوڑ کر مسجد میں صرف عبادت کرنے لگے اور اس کی خبر رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایاکہ :

”یَا عثمان! اِنَّ اللّٰهَ تبارک و تعالیٰ لم یکتب علینا الرهبانیة ،انّما رهبانیة اُمّتی الجهاد فی سبیل اللّٰه

”اے عثمان! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لئے رہبانیت کا حکم نہیں دیا ہے ،بتحقیق میری امت کے لئے کوشش کرنا ہی رہبانیت ہے

یعنی ناامید ہوکر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اللہ کی راہ میں برابر کوشش کرتے رہنا چاہئے ،چاہے یہ کوشش تلوار کے ساتھ ہو یا قلم کے ساتھ،زبان کے ساتھ ہویا کسی اور ذریعہ سے جو لوگ کاروبارِ زندگی چھوڑ کر صرف اللہ کی عباد ت کرنا چاہتے تھے رسول خدا نے ان کی بھی سرزنش فرمائی ،تو پھر وہ بادشاہ !جو کہ پوری رعایا کا ذمہ دار ہوتاہے اور بجائے مسجد کے جنگل میں جارہاتھا سرزنش کا اور بھی زیادہ مستحق قرار پائے گا،ایسے شخص کو جس نے اسلام کے فلسفہ حیات کی مخالفت کی ہو اُسے اِس طالب علم نے اپنے نام نہاد”علمی بیان“میں صفحہ ۲۲ پر بغیر تحقیق کئے مومن ہونے کی سندبھی دے دی!کیوں؟

۵ ۔ اس قصے میں لکھا ہے کہ :”راستے میں سولہ تشریف فرما تھے“

لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ سولہ سید کون تھے؟کس امام کی اولاد تھے؟ وہاں پر کیا کررہے تھے؟شیعہ تھے یا سنی؟کس ملک کے کس شہر سے ان کا تعلق تھا؟ اور کیا یہ سولہ سید علم غیب بھی جانتے تھے ؟اور ان کی تعداد سولہ ہی کیوں تھی؟یہ تمام باتیں تحقیق طلب ہیں

نام نہاد طالب علم نے اپنے ”علمی بیان“میں صفحہ ۲۱ پر سائل کے بارے میں تو لکھ دیا کہ:

”بادشاہ کے دروازے پر آنے والا یہ سائل علم غیب بھی رکھتا تھا“

لیکن سولہ سیدوں کے بارے میں نہ لکھاکہ یہ بھی علم غیب جانتے تھے یا نہیں؟،حالانکہ سائل کے بارے میں بھی جھوٹ بول کر گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ،ورنہ علم غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے ،ارشاد ہوتاہے:

( وَعِنْدَه مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَااِلَّا هُوَ )

اور اُس(خدا) کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا(سورہ انعام ،آیت ۶۰)

اب رہا سوال یہ کہ خدا کے علاوہ نبی یا امام بھی تو علم غیب جانتے ہیں ،تو یہ چیز خدا وند عالم نے انہیں اسلحہ کے طور پر عطا کی ہے ،اور اللہ ہی اپنی مرضی سے اسے استعمال کراتا ہے،اس کی مثال بلا تشبیہ اس طرح دی جا سکتی ہے :پولس کو جو اسلحہ ملتا ہے وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو اُسے پولس اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتی بلکہ اپنے حاکم کے حکم سے استعمال کرتی ہے

یہ مثال حجة الاسلام محسن قرائتی صاحب نے قم میں ایک کلاس کے دوران ہمیں بتائی تھی ،جب اُن سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ: آٹھویں امام نے زہر آلود انگورکیوں نوش فرمائے،جب کہ آپ کو علم غیب سے معلوم تھا کہ یہ انگور زہر آلود ہیں ؟

تو موصوف نے جواب میں یہی کہا تھا کہ ائمہ کو خدا وند عالم نے علم غیب اسلحہ کے طور پر دیا ہے جب اُس کی مرضی ہوتی ہے علم غیب سے استفادہ کرتے ہیں اور جب اُس کی مرضی نہیں ہوتی تو پھر علم غیب سے استفادہ نہیں کرتے ،ہو سکتا ہے جب زہر آلود انگور نوش فرمائے ہوں خدا کی مرضی سے علم غیب سے استفادہ نہ کیا ہو

۶ ۔ اس قصے میں صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ:

”کل پندرہویں تاریخ ہے ،تم قربةً الی اللہ غسل کرنا اور سحری تناول فرماکر سولہویں کا روزہ رکھنا اور چاررکعت نماز سولہ سیدوں کے نام سے ادا کرنا“

کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نماز ادا کرنا جائز ہے؟ نہیں! عبادت صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور اسی کے نام پرہوتی ہے ،ارشاد ہوتاہے :

( وَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ )

اور اس کے لئے نری کھری عبادت کرکے اس سے دعا مانگو (ترجمہ ،مولانا فرمان علی صاحب)سورہ اعراف، آیت ۲۹)

یعنی اگر دعا بھی کرنی ہو تو اللہ سے اور اُس کی خالص عبادت کے بعد، نہ جانے طالب علم نے یہ بات کیسے لکھ دی کہ :

”چار رکعت نماز سولہ سیدوں کے نام کی ادا کرنا“

۷ ۔ اس فرضی قصے میں لکھا ہے کہ(سولہ سیدوں نے کہا ) :

” اور پانچ پیسے کی شیرینی منگاکر ہماری کہانی سننا“

بالفرض اگر کوئی شخص اِس نام نہاد طالب علم کے بہکائے میں آکر سولہ سیدوں کی کہانی سننے لگے تو کتنے پیسے کی شیرینی منگائے ؟کیونکہ نہ تو پانچ پیسے کا سکہ رائج ہے اور نہ ہی پانچ پیسے کی شیرینی کوئی دوکاندار دینے پر راضی ہوگا

۸ ۔ اس قصے میں :

”سید بھی سولہ،روزہ رکھنے کی تاریخ بھی سولہ،روزہ رکھنے کے مہینے بھی سولہ تحریر کئے ہیں“

جس سے اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ کہانی کسی سنی کی لکھی ہوئی ہے،ہمارے یہاں کسی عمل میں عدد کی یہ مماثلت نہیں بتائی گئی ہے ،بلکہ خلوص نیت پر زور دیاگیاہے

عدد کی مماثلت پر اہل سنت کے یہاں زور دیاجاتا ہے ،مثلاً ربیع الآخر کی گیارہ تاریخ کو اِن کے یہاں شیخ عبد القادر جیلانی کی فاتحہ آتی ہے چونکہ یہ فاتحہ گیارہ تاریخ کو آتی ہے اس لئے اسے گیارہویں شریف کہتے ہیں اور جن چیزوں پر فاتحہ آتی ہے وہ بھی عدد کے اعتبار سے گیارہ ہوتی ہیں مثلاً:روٹی بھی گیارہ ،کباب بھی گیارہ ،کوفتے بھی گیارہ ،کیلے بھی گیارہ ،آم بھی گیارہ ،فرنی کی پیالیاں بھی گیارہ،اور فاتحہ کہنے اور کھانے والے بھی گیارہ

یہ کہانی سب سے پہلے ”چمن بک ڈپو“ ، ۹۱۴ گلی چاہ شیریں فراشخانہ ،دہلی نے شائع کی یہ ادارہ اہل سنت کی کتابیں ہی شائع کرتاہے،البتہ اس ادارہ نے اتنی احتیاط ضرور کی کہ کتابچہ کے اوپر لکھ دیا ”اختراعی داستان“لیکن شیعوں نے اتنی بھی زحمت نہ کی اس کے بعد جلال پور ،ضلع امبیڈکر نگر سے بظاہر ایک مولوی صاحب نے اسے شائع کرایااور اب ملکِ شام سے بھی اتفاقاً یا عمداً ایک مولوی صاحب نے ہی شائع کرایا ہے

۹ ۔ اس قصے میں لکھاہے کہ:

”بڑھیا نے جواب میں فرمایا کہ سب سولہ سیدوں کے نام پر روزہ رکھنے کی برکت کا نتیجہ ہے (جومکان اور مال دولت مجھے ملا ہے )

اسلام میں صرف اللہ کے نام پر روزہ رکھنا جائز ہے ،اس کے علاوہ کسی کے نام پر روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے

دوسرے یہ کہ اللہ کے نام پر ماہ رمضان کے ۳۰ روزے رکھنے والے غریب مسلمان بھی سحری ،افطاری اور اُخروی ثواب کے حقدار ہوتے ہیں،بہترین مکانوں اور ثروت کے مالک نہیں بنتے ،تو پھر سولہ سیدوں کے نام پر سولہ روزے رکھنے سے بڑھیا کس طرح مالدار بن گئی،وہ بھی ایک ہی دن میں؟!اِس منھ بولے طالب علم نے ایسا لکھ کر مومنین کو خدا سے دور کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ،اگر کوئی غربت کامارا مسلمان مال کے لالچ میں بجائے خدا کے سولہ سیدوں کے نام پرروزہ رکھ لے تو اِس کاعذاب اِسی طالب علم کوہوگا

۱۰ ۔ اس قصے میں لکھا ہے کہ:

”لکڑہارا شیرینی منگواکر کہانی سننا بھول گیا(جس کی وجہ سے لکڑہارے کے ہاتھ میں لوٹاشہزادے کاکٹا ہوا سر بن گیااور قاتل سمجھ کر بادشاہ نے لکڑہارے کو قید خانہ میں ڈال دیاابھی قید خانہ میں اس کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہی سولہ سید اس سے کہہ رہے ہیں کہ اے غافل تونے شیرینی منگاکر ہماری کہانی نہیں سنی“

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اکثر و بیشتر ہماری کہانیوں کے ہیرو لکڑہارے صاحب ہی ہوتے ہیں،بہر حال اسلام میں بھول چوک پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ،مثلاً ”نماز کے واجبات میں سے بعض اس کے رکن ہیں یعنی اگر انسان انہیں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا عمداً ہو یا غلطی سے ہو نماز باطل ہوجاتی ہے“ (توضیح المسائل آیت اللہ سیستانی،صفحہ ۱۵۲ ،مسئلہ نمبر ۹۵۱)

نماز کا واجب رکن چھوٹ جانے پر بھی سزا نہیں ہے صرف نماز دوبارہ پڑھنا پڑے گیتو پھر سولہ سیدوں کی من گھڑت کہانی سہواً یا عمداً نہ سننا کس لئے باعثِ سزا بنا ؟!

۱۰ ۔ اس قصے میں :

”جھوٹے واقعات پر پانچ جگہ محمد و آل محمد پر درود بھی بھیجا گیا “

کیا اس عمل سے اہل بیت خوش ہوں گے ؟! نہیں بلکہ ناراض ہوں گے،کیوں کہ اِسی درود کا سہارا لے کر اہل سنّت کے گڑھے ہوئے قصے کو شیعوں میں رواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے اورساتھ ہی تقدس بھی بخشا جارہا ہے ،ورنہ جو قصہ ”چمن بک ڈپو “ دہلی یا جلال پور امبیڈکر نگر سے شائع ہوا ہے اس میں تو ایک جگہ بھی درود نہیں ہے!

۱۱ ۔ اس قصے کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ :

”لکڑہارے نے جواب دیا کہ : میں شیرینی منگاکر سولہ سیدوں کی کہانی سناکر شیرینی تقسیم کرنا بھول گیا تھا ،جس کی وجہ سے مجھ پر عذاب نازل ہوا“

خدا وند عالم نے گناہوں پر عذاب کا وعدہ فرمایا ہے،شیرینی تقسیم نہ کرنا یا بھول جانا گناہ نہیں ہے تو پھر سولہ سید کس طرح عذاب نازل کررہے ہیں ؟ کیا انہیں یہ اختیار ہے کہ کسی پر عذاب نازل کریں؟!

سولہ نہیں اگر سولہ کروڑ سید بھی مل کر چاہیں کہ کسی پر عذاب نازل کریں تو نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کام صرف اللہ سے مخصوص ہے اور یہ اختیار صرف اللہ کو ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ:

”یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُ“

”(خدا ہر چیز پر قادر ہے) جس پر چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے“(سورہ عنکبوت ،آیت ۲۱)

۱۲ ۔ سولہ سیدوں کی من گھڑت کہانی میں :”کہیں بھی کسی بھی لفظ سے یہ بو نہیں آتی کہ لکڑہارے یا اس کہانی کے کسی دوسرے کردارنے اہل بیت کا واسطہ دے کر دعا کی ہو ؟!تو پھر بزعم خود ”علمی بیان “میں صفحہ ۲۴ پر کس طرح یہ بات لکھ دی:

”سولہ سیدوں کی اس مبارک کہانی میں بادشاہ کے بعد بڑھیا اور بڑھیا کے بعد لکڑہارے کی مراد کا پورا ہونا عالم انسانیت کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ جو بھی انسان سچے دل سے محمد وآل محمد کا دامن تھامتا ہے تو خداوند عالم اس کی طلب کو رد نہیں کرتا؟!“

اِس قسم کی کہانیوں کو شیعہ معاشرے میں رائج کرانے کے پیچھے اُس شیعہ دشمن طاقت کا ہاتھ تلاش کرنا چاہئے جس نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ:

”ایسے شیعہ افراد کو تلاش کرکے ان کی مالی مدد کی جائے جو اپنی تحریروں کے ذریعہ شیعہ عقائد اور مراکز پر ضرب لگائیں اور شیعہ بنیادوں کو منہدم کرتے ہوئے اسے شیعہ مراجع تقلید کی اختراع قرار دیں“(ڈاکٹر مائیکل برانٹ ،امریکی سی آئی اے میں شیعہ سیکشن کے سابق انچارج)کا اعتراف،ماخوذ ”دین اور سیاست “تالیف سید پیغمبر عباس نوگانوی ، صفحہ ۱۸۹ ،ناشر المنتظر ثقافتی مرکز نوگانواں سادات)

ایسی کہانی پڑھ کر دعائیں مانگنا ،اہل بیت کے طریقہ دعا سے بالکل مختلف ہے ،ہمیں اہل بیت سے محبت بھی ہے اور ہم اُن کے طریقہ دعا کو بھی نہیں اپناتے؟ ! جیسا دعا کا طریقہ ہمارے رہبروں نے بتایا ہے ایسا تو کسی بھی مذہب کے پیشواوں نے نہیں بتایا ،مگر یہ ہماری بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے اس طریقہ کو چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اپنالیا ہے

اس قوم کو کیا کہئے کہ جس کے پاس ایسے امام و رہبر ہوں جن کی دعائیں اور مناجاتیں قبولیت دعا کی ضمانت ہوں اور وہ پھر بھی ان سے استفادہ نہ کرے ،کیا امام علی کی دعائے مشلول و دعائے کمیل کی تعلیم ہمارے لئے نہ تھی؟ کیا امام زین العابدین - کی دعاوں کا مجموعہ ”صحیفہ سجادیہ “ ہمارے لئے نہیں ہے؟ کیا دعائے نور و دعائے ندبہ سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچے گا؟ کیا زیارت عاشورہ کا عمل کرکے حاجت بر آنے کی ضمانت ائمہ معصومین نے نہیں لی ہے ؟اگر ایسا ہے تو پھر شیعہ سماج میں ائمہ معصومین سے منسوب دعاوں اور مناجاتوں کو چھوڑ کر عوام کی گھڑی ہوئی کہانیوں کے ذریعہ حاجت طلب کیوں کی جاتی ہے ؟!

کیا یہی اہل بیت کی پیروی ہے ؟ کیا کبھی آپ نے سنا اور پڑھا ہے کہ ہمارے ائمہ یا فقہائے عظام نے ان کہانیوں کے ذریعہ حاجت طلب کی ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں؟کس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ؟کیا ہم ان من گھڑت کہانیوں کے ذریعہ آل محمد اور اُن کے فلسفے سے دور نہیں ہورہے ہیں ؟

آئیے ہم سب مل کر یہ کوشش کریں کہ شیعہ سماج میں ائمہ معصومین سے منسوب دعاوں اور مناجاتوں کو رواج دیں تاکہ معاشرے کی دینی و دنیوی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں

حضرت عباس کی صفات کمالیہ

قرآن مجید کے سورہ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے،حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے،ہندوستانی علماء نے حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی لثانی،کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے ۲۶/ جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران ۴ شعبان پر متفق ہیں،جو مطابق ہے ۱۸/ مئی ۶۴۷ ء بروز منگل،آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا،

عباس عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا،ترش رو ہونا،چیں بجبیں ہونا ہے اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منھ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا،جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت علی مسلسل حضرت عباس سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے ،تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اورر کچھ نہیں ہے ،ایک بار جناب ام البنین مادر حضرت عباس تشریف فرما تھیں اور حضرت عباس کا بچپن تھا

مولائے کائنات نے اپنے فرزند عباس کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازووں کو بوسے دینے لگے،ام البنین نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کی :مولا !یہ کیسا طریقہ محبت ہے یہ بازووں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں ،یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے

،آپ نے فرمایا: ام البنین !تمہارا یہ لال کربلا میں شہید ہوگا،اس کے شانے قلم ہوں گے،پروردگار اسے دوپر عنایت کرے گا جس سے یہ جعفر طیار کی طرح جنت میں پروز کرے گا،یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف جنت الفردوس ،مولائے کائنات حضرت عبا س کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہوکر قربانی نہیں دیاکرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں ،جب شب عاشور زہیر قین نے یاد دلایا اور کہا عباس !آپ کو یاد ہے کہ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کو کس دن کے لئے مہیا کیاہے؟

تو حضرت عباس نے اس طرح انگڑائی لی کہ رکابیں ٹوٹ گئیں اور فرمایا: اے زہیر آج کے دن شجاعت دلارہے ہو،عاشور کی رات تمام ہونے دو اور صبح کا وقت آنے دو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ بیٹے نے باپ کے مقصد کو کس انداز سے پورا کیا ہے اور عباس اپنے عہد و فا پر کس طرح قائم ہے ،دشمن کو میدان میں تلوار کا پانی پلانا واقعاً شجاعت ہے

لیکن جب جذبات تلوار چلانے پر پوری طرح آمادہ ہوں تو اس وقت اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے تلوار نہ چلانا اس سے بھی بڑی شجاعت ہے ،جناب عباس نے صرف صفین کی جنگ میں تلوار چلائی باقی موقعوں پر آپ نے اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی تلوار نیام ہی میں رکھی ،امام حسن کے جنازے کی بے حرمتی،والد بزرگوار کی شان میں منبر سے گستاخی ،مخلصین کا بے دردی سے قتل ،کربلا میں فرات سے خیمے ہٹائے جانے کا مطالبہ یہ تمام وہ مواقع تھے جہاں حضرت عباس کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی تھے لیکن آپ نے ان موقعوں پر بھی اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شجاعت کی مثال قائم کردی ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کمالات و اوصاف سے حضرت عباس متصف تھے جو آپ کو معصوم علی جیسے امام سے ورثہ میں ملے تھے،

ان کمالات کا احصاء کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ،یہ توہم تذکرہ کے طور پر تبرکاً تحریر کر رہے ہیں،اسلامی لشکر کی علمداری،پیاس کی شدت سے انسانوں کی جان بچا نے کو سقائی اور عبد صالح کا خطاب وہ صفات ہیں جن میں حضرت عباس کو کمال حاصل تھا،لشکر کی علمبرداری ہی کو لے لیجئے ہر قوم اپنے پرچم یا علم کو اپنی عزت و عظمت کا نشان سمجھتی ہے بالخصوص میدانِ کارزار میں جنگ کے درمیان دونوں فوجیں اپنا اپنا علم بلند رکھتی ہیں جس کا پرچم بلند رہتا ہے اُ س لشکر کو فتح مند قرار دیاجاتاہے اور جس فوج کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے

وہ شکست خوردہ سمجھی جاتی تھی،اسی لئے علمدار کا باقاعدہ انتخاب کیاجاتاتھا اور علم اس شخص کو دیاجاتاتھا جس میں ایک ماہر اوربہادر کمانڈر کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں ،جسے علم مل جاتا تھا اُس کا سر افتخار سے بلند رہتاتھا ،علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہیں : علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہئے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے

اور شدائد کا مقابلہ کرسکے وہی محافظ کہاجاسکتاہے اور جو محافظت کا اہل ہوتاہے وہی پرچم کے گردو پیش رہتاہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتاہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ،وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کردیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں“ امام علی کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع،بہادر،محافظ، غیرت دار،ثابت قدم، مستقل مزاج اورصابر انسان ہوتا ہے ،کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین حضرت عباس کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم ،مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کررہے تھے

،حضرت عباس کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے،سقائی یعنی پانی پلانا،کسی کو پانی پلاکر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لئے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خدا وند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیاہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ،اور ہم نے آسمان سے پانی اس لئے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں اور رسول اسلام فرماتے ہیں :جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ،اب اگر پانی پلاکر کسی کی زندگی کو بچالیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا،پانی پلاکر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے

جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہوسکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہاہو تو وضو کا پانی پلاکر جاندار کی زندگی بچالی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ،حضرت عباس ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں ،سن ۳۴ ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی کوثر حضرت علی نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے

،یہاں بھی حضرت عباس کی عمر اگرچہ ۸ سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی،تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیاتھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھاگیا تھا ،جن لوگوں نے حضرت عثمان اوران کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو حضرت عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا ،

اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے،بہر حال اسی طرح سن ۶۰ ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں ،گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین نے جناب عباس کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھاکر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی

،حضرت عباس نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کردیااور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منھ نہ پھیر لیا،لیکن ۶۱ ہجری میں حضرت عباس نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچادیا ،علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت علی سے ورثہ میں ملی تھی ،حضرت علی کو ساقی کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا لیکن عباس کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے ،سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے،حضرت علی نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ،اس مقصد کے لئے آپ نے کربلا میں متعدد کنوئیں کھودے لیکن پانی نہ نکلا،ادھر امام حسین کے ۶ماہ کے بچے علی اصغر پیاس کی وجہ سے لب دم ہیں

،مچھلی جب پانی سے باہر آجاتی ہے تو اس کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ بہت زیادہ تڑپتی ہے اور دوسری کیفیت وہ جب اس کی تڑپ اور حرکت میں کمی آجاتی ہے اور تیسری کیفیت یہ کہ اُس سے تڑپا بھی نہیں جاتا وہ صرف منھ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرتی ہے ،روز عاشور کربلا میں حضرت علی اصغر کی یہی کیفیت تھی ،آپ بے حس و حرکت پیاس کی شدت اور تکلیف سے اسی طرح برداشت کررہے تھے،بچوں کی یہ حالت جناب عباس سے نہ دیکھی گئی،ادھر آپ کی بھتیجی سکینہ نے آپ سے پانی کا مطالبہ بھی کردیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آ پ نے امام حسین سے اجازت طلب کی ،اجازت ملنے کے بعد آپ دریا پر پہنچے ،دریا پر قبضہ کرنے کے بعد بھی آپ نے پانی لبوں کو نہ لگایا،

بچوں کے لئے مشکیزہ بھر لیا لیکن پانی بچوں تک نہ پہنچ سکا اور آپ نے پانی مہیا کرنے پراپنی جان بھی قربان کردی اس سقائی کی حسرت آپ کے دل ہی میں رہ گئی ،حضرت عباس کی تیسری صفت کمالیہ ”عبد صالح“ کا وہ خطاب ہے جو تمام انبیاء کو بھی نصیب نہ ہوا ،قرآن مجید میں اللہ نے حضرت داود، حضرت ابراہیم ،حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب،حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کو عبد صالح کا خطاب دیا ہے،غیر انبیاء اور ائمہ میں صرف حضرت عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام جعفر صادق نے زیارت حضرت عباس میں دی ہے ،اس کی روایت ابو حمزہ ثمالی نے کی ہے ،

حضرت عباس کے لئے امام جعفر صادق فرماتے ہیں : السلام علیک ایھا العبد الصالحیعنی اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو ،ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں (عباد الصالحین) پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین یعنی ہمارے اوپر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو

،اس سلام میں انبیاء اور ائمہ کے ساتھ ساتھ حضرت عباس بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں