• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4986 / ڈاؤنلوڈ: 1941
سائز سائز سائز
مقالات نوگانوی

مقالات نوگانوی

مؤلف:
اردو

ساباط و کربلا ایک ہی مقصد کے دونام

ساباط و کربلا عراق کے وہ تاریخی مقام ہیں جہاں پر رسول خدا کے معصوم فرزندوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین نے مردانہ وار باطل کا مقابلہ کیا اور باط چہرے سے ہمیشہ کے لئے اسلام کا نقاب اتار دیا اور تدبر و حکمت ،عقل و فراست اور اسلامی سیاست کی وہ مثال قائم کی جس سے باطل کبھی بھی اسلامی نقاب پہن کر اسلامی حکومت کو پائمال کرنے کی جرأ ت نہیں کرے گا ،ساباط میں امام حسن نے امیر معاویہ سے صلح فرماکر اسلامی اقدار کو بچایا تو کربلا میں امام حسین نے اپنی اور اپنے اعزأ و اقرباء کی عظیم قربانی پیش کرکے ہمیشہ کے لئے دین کو مستک

امام حسن نے ۱۵رمضان المبار ک ۳ہجری کو اپنے وجود مبارک سے دنیا کو زینت بخشی ،آپ کے والد شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ اور والدہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا تھیں، آپ کے بھائی شہید کربلا حضرت امام حسین اور علمدار کربلا حضرت عباس تھے اور نانا شفیع محشر حضرت محمد مصطفیٰ ہیں، آپ بہت بہادر اور شجاع تھے ،آپ نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے بابا سے دادِ شجاعت حاصل کی تھی،آپ۲۱رمضان۴۰ہجری میں امام علی کی شہادت کے بعد شرعی و قانونی خلافت پر جلوہ افروز ہوئے ،اور اس طرح آل محمد کی دوسری بار لوگوں نے اپنی مرضی سے آزادانہ بیعت کی ،امام حسن نے اپنی حکومت کا آغاز اس فصیح و بلیغ خطبے سے فرمایا: ہم حزب اللہ ہیں ،ہم ہی غالب ہیں ،ہم عترت رسول ہیں، ہم رسول کے اہل بیت ہیں اور تمام گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں اور ہم ہی کو اللہ کے رسول نے قرآن کا ہم پلہ اور عدیل قرار دیا ہے اور ہمیں قرآن کی تنزیل و تاویل کے علم سے مالا مال کیا ہے ،قرآن کے بارے میں ہم جو کہتے ہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں اندازے سے قرآنی آیات کی تاویل نہیں کرتے، لہٰذا تم ہماری اطاعت کرو کہ خدا کی طرف سے تم پر فرض کی گئی ہے الخ(جلا العیون ،علامہ مجلسی، صفحہ ۱۴۶ ،مطبوعہ تہران، ۱۳۱۴ ھ)امام حسن کی بیعت بڑے ہی پر آشوب زمانہ میں ہوئی تھی ،

حضرت علی کے بعد سوئے ہوئے فتنے جاگ گئے تھے اور مملکت میں جال بچھانے کی سازش اپنے عروج پر تھی ،کوفہ میں اشعث ابن قیس ،عمرو ابن حریث، شیث بن ربعی وغیرہ کھلم کھلا فساد و عناد کا مظاہرہ کررہے تھے تو دوسری جانب شامی جاسوس مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرکے افتراق کے بیج بو رہے تھے ،ادھر امیر شام نے اہل کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنا ہم نوا بنالیا اور اس کے بعد ایک بڑا لشکر امیر شام نے عراق پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا،

جس وقت امام حسن کو یہ خبر ملی تو آپ نے لوگوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا اور ان کے سامنے خطبہ دیا جس میں امیر شام کی لشکر کشی کی خبر دی اور لوگوں کو راہِ خدا میں جہاد اور میدان کارزار میں ڈٹ جانے کی ترغیب دلائی اور اس راہ میں صبر و تحمل و فدا کاری کی تلقین کی اور پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کیا امام حسن کو لوگوں کی سستی کی وجہ سے یہ خوف تھا کہ کہیں دعوت جہاد کو قبول کرنے میں پس و پیش نہ کریں اتفاق سے ایسا ہی ہوا اور حضرت کے اس جنگی خطبے کے ختم ہونے کے بعد سب لوگوں پر سکوت طاری تھا اس سعی و کوشش کے بعد امام حسن چند اصحاب کے ساتھ کوفہ سے روانہ ہوئے تاکہ دوسرے لوگوں میں جذبہ جہاد بیدار ہوجائے اور کوفہ کے پاس ”نُخَیْلَہ“ میں اپنا کیمپ لگایا ،آپ نے یہاں تازہ دم فوج کے انتظار میں دس روز قیام کیا لیکن صرف چار ہزار لوگ ہی حضرت کے پاس پہنچے ،اس لئے امام حسن نے کوفہ کا دوبارہ رخ کیا تاکہ مزید فوج اکٹھا کریں ،فوج تواکٹھا ہوگئی مگر اس میں اتحاد اور جذبہ جہاد کی کمی تھی کیونکہ یہ فوج پانچ گروہوں پر مشتمل تھی: =حضرت علی کے مخلص شیعہ=خوارج، جو ہر قیمت پر امیر شام سے جنگ کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے اور یہ لوگ امام حسن کے لشکر میں فقط بغضِ امیر شام کی وجہ سے شامل ہوئے تھے ،

امام کی محبت یا پیروی میں نہیں=مفاد پرست، جن کا ہدف صرف مال غنیمت تھا =وہ لوگ جو امام حسن کی عظمت میں شک کرتے تھے اور دوغلی پالیسی رکھتے تھے اور امام حسن کو امیر شام پر ترجیح نہیں دیتے تھے=وہ لوگ جو دین کی خاطر نہیں بلکہ خاندانی تعصب کی بناء پر رئیس قبیلہ کی پیروی کرتے ہوئے امام حسن کے لشکر میں شریک ہوئے تھے کیونکہ اِن کے خاندانی حریف امیر شام کے لشکر میں تھے(جہاد حسین ،تالیف شیخ محمد مہدی شمس الدین،صفحہ ۱۳۹ ،ترجمہ محسن علی نجفی ،دوسرا ایڈیشن ۱۴۰۵ ھ، ملنے کا پتہ نجفی ہاوس ممبئی)ایسی فوج امیر شام کی ۶۰ہزار متحد فوج کے مقابلہ میں کیا کرسکتی تھی سوائے اس کے کہ شکست سے دوچار ہو،صرف امام علی کے شیعہ تھے جو دل سے امام حسن کی پیروی کررہے تھے مگر یہ لوگ جنگ جمل و صفین اور نہروان میں خستہ ہوچکے تھے اور اِن کی تعداد بھی لشکر شام کے مقابلہ بہت کم تھی ،بقیہ چار گروہوں کی نظر میں حکم امام کی کوئی اہمیت نہ تھی ،لہٰذا یہ لوگ عین جنگ کے وقت امیر شام سے جا ملے تھے اور بعض غیر جانبدار ہوکر امام سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بعض زندگی کے طالب تھے کسی بھی صورت میں مرنا نہیں چاہتے تھے

چنانچہ جب امام حسن نے اہل عراق کے سامنے مدائن میں دو راستے رکھے :ایک یہ کہ اگر راہ خدا میں قتل ہو نا چاہتے ہو تو اٹھ کھڑے ہوو اور شامیوں کو تلواروں سے جواب دو اور اگر عافیت و زندگی چاہتے ہو تو اعلان کردو تاکہ میں تمہاری درخواست کو قبول کرلوں، امام کی تقریر جب یہاں تک پہنچی تو اِن لوگوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ” اَلْبُقْیَہ“” اَلْبُقْیَہ“یعنی ہمیں زندگی چاہئے، ہمیں زندگی چاہئےیہ جواب اُن لوگوں کے سوال کے لئے بھی کافی ہے جو یہ پوچھتے ہیں کہ امام حسین نے جنگ کیوں کی اور امام حسن نے صلح کیوں فرمائی؟ امام حسین کے ساتھیوں نے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے کربلا میں امام حسین سے کہا تھا کہ: خدا کی قسم اگر ہمیں قتل کردیا جائے ،پھر زندہ کیا جائے پھر ہمیں قتل کیا جائے اور ہمارے جسموں کو راکھ بنا کر ہوا میں اڑادیا جائے

اور اس عمل کو ۷۰مرتبہ دہرایا جائے تب بھی آپ سے جدا نہیں ہوں گے تا وقتیکہ آپ کی راہ میں اپنی جان قربان نہ کردیں ، کتنا فرق ہے دونوں کے ساتھیوں میں ،امام حسن کے ساتھی تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں زندگی چاہئے ہم جنگ نہیں کریں گے اور امام حسین کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ۷۰مرتبہ بھی قتل کئے جائیں تب بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے بہر حال امام حسن کے بعض فوجیوں نے امیر شام سے سازش کرلی تھی کہ امام حسن کو گرفتار کرکے امیر شام کے حوالے کردیں گے یا شہید کردیں گے ،اس سازش سے آپ بخوبی واقف تھے ،آپ فرماتے ہیں کہ ”خدا کی قسم اگر میں معاویہ سے بر سر پیکار ہوا تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیروں کی طرح مجھے معاویہ کے حوالے کردیں گے(ترجمہ الامام الحسن ،تالیف ابن عساکر متوفی ۵۷۱ ھ ،تحقیق الشیخ محمد باقر محمودی ،ناشر المطبعة للطباعة والنشر ،بیروت لبنان ،پہلا ایڈیشن ۱۹۸۰ ء)اگر آپ کوگرفتار کرکے امیر شام کے حوالے کردیا جاتا تو دوحال سے خالی نہ تھا :=یا تو آپ کو بے دردی اور چالاکی سے شہید کردیا جاتا اور عوام کے سامنے اہل شام اپنے کو اس خون سے بری الذمہ قرار دیتے ،جس سے خون امام رائیگاں چلا جاتا= یا آپ پر احسان کرتے ہوئے آپ کو شرط و شروط کے ساتھ آزاد کردیا جاتا اور اس طرح بنی امیہ اپنے بزرگوں سے ”طلقاء“ کے دھبے کو دھونے کی کوشش کرتے اور اپنے اُن بزرگوں کا انتقام لے لیتے جن کو رسول خدا نے گرفتار کرانے کے بعد آزاد کردیا تھا

اس کے علاوہ آپ کے کمانڈر تک آپ کا ساتھ چھوڑ کر امیر شام سے جا ملے تھے ”عُبید اللہ بن عباس“ آپ کے خاندانی اور عزیز تھے امام حسن نے انہیں ۱۲ہزار سپاہ کا طلایہ دار مقرر کیا اور قیس بن سعد اور سعید بن قیس کو عبیداللہ کا نائب و معاون مقرر کیا اور عبیداللہ سے یہ تاکید فرمائی کہ جس مقام پر بھی لشکر شام سے سامنا ہوجائے اُسے وہیں روکے رکھنا اور آگے نہ بڑھنے دینا ،عبیداللہ نے ۱۲ہزار سپاہ کے ساتھ حرکت کی اور ”مَسْکِنْ“کے مقام پر لشکر شام سے روبرو ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد ۱کروڑ درہم میں امیر شام سے سودا طے ہوگیا اور اُسی رات عبید اللہ بن عباس ۸ہزار فوج کے ساتھ لشکرِ شام سے جاملے (تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۳۵۵ ،تالیف احمد بن ابی یعقوب،ترجمہ مولانا اختر فتحپوری،ناشر نفیس اکیڈمی،کراچی )غور وفکر کا مقام ہے! اگر۱۲ہزار فوج سے ۸ہزارفوج غداری کرکے مد مقابل سے جاملے تو بقیہ ۴ہزار کے حوصلے کس قدر پست ہوں گے ؟!حکم ِ امام کے مطابق ۴ہزار لشکر کی کمان قیس بن سعد نے سنبھال لی اور اپنی ولولہ انگیز تقریروں کے ذریعہ لشکر کے حوصلے بلند کئے رہے ،قیس بن سعد کا شمار امام حسن کے بہترین جانباز وفاداروں میں ہوتاتھا ،امیر شام نے قیس کو بھی خریدنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے لئے بھی ۱کروڑ درہم کی پیش کش کی(تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۳۵۵ ،تالیف احمد بن ابی یعقوب،ترجمہ مولانا اختر فتحپوری،ناشر نفیس اکیڈمی،کراچی )لیکن کامیابی نہ ملی تو لشکر شام نے دوسرا حربہ اپنایا اور امام حسن کے لشکر میں اپنے جاسوسوں سے یہ افواہ پھیلائی کہ قیس بن سعد بھی مع لشکر امیر شام سے جا ملے ہیں اور قیس کے لشکر میں یہ جھوٹی خبر پھیلادی کہ امام حسن نے امیر شام سے صلح کرلی ہے اور اس مقصد کے لئے امیر شام نے مغیرہ بن شعبہ،عبداللہ بن عامربن کریز اور عبد الرحمن بن الحکم کو حضرت امام حسن کے پاس (فرضی ملاقات کرنے) کے لئے بھیجا اور وہ آپ کے پاس آئے ،آپ اس وقت مدائن میں اپنے خیمے میں تھے پھر وہ (بغیر کچھ کہے) آپ کے پاس سے چلے گئے اور لوگوں کے سامنے کہنے لگے کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے (مسلمانوں کو)رسول اللہ کے بڑے بیٹے کے ذریعہ خوں ریزی سے بچالیا ہے

اور آپ کے ذریعہ فتنہ کو ٹھنڈا کردیا ہے اور آپ نے صلح قبول کرلی ہے ،پھر کیا تھا اس افواہ کے نشر ہوتے ہی امام کی فوج میں افراتفری مچ گئی اور لوگوں نے ان باتوں پر یقین کرلیا اور بغیر تحقیق کئے حضرت امام حسن پر حملہ کردیا اور ان کے خیموں کو سامان سمیت لوٹ لیا اور امام حسن کے خلاف بغاوت کردی ( شرح نہج البلاغہ، شارح سنی عالم ابن ابی الحدید ،جلد ۴ ، صفحہ ۷۰۲ ،ناشر منشورات دار مکتبة الحیاة ،بیروت، لبنان ۱۹۸۳ و تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۳۵۵ ،تالیف احمد بن ابی یعقوب،ترجمہ مولانا اختر فتحپوری،ناشر نفیس اکیڈمی،کراچی )،ان تمام حالات کے پیش نظر مصلحت کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ امیر شام کے صلح کے پیغام کو قبول کرلیں خود امام حسن نے اِس صلح کی وجہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ : ”میں نے حکومت و زمام داری کو اس لئے معاویہ کے حوالے کردیا کہ میرے پاس معاویہ جیسی (اطاعت گزار) فوج نہیں تھی اور اگر ہوتی تو حکم خدا کے مطابق معاویہ سے رات دن فیصلہ کن جنگ کرتا ،میں کوفیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں ،ان کو بارہاآزمایہ ہے یہ ایسے فاسد لوگ ہیں جن کی اصلاح نہیں ہوسکتی ،یہ لوگ نہ تو با وفا ہیں اور نہ عہد و پیمان کے پابند ،ظاہراً میری اطاعت کا اظہار کرتے ہیں اور عملی طور پر معاویہ کے ساتھ ہیں (بحار الانوار،جلد ۴۴ ،تالیف علامہ مجلسی ،ناشر کتاب فروشی اسلامیہ ،تہران) اسلام میں صرف جنگ و جہاد ہی کا قانون نہیں ہے بلکہ جس طرح اسلام نے مخصوص حالات میں دشمن سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح اگر جنگ سے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو صلح کے ذریعہ ان کو حاصل کرنا چاہئے ،ہمارے سامنے رسول اللہ کی سیرت ہے کہ آپ نے بدر و احد جیسی جنگیں بھی کیں اور حدیبیہ کے مقام پر صلح بھی فرمائی (تاریخ یعقوبی، جلد ۲ ، صفحہ ۴۰ ، ناشر مطبعة الغریٰ ،نجف اشرف ،عراق، ۱۳۵۸ ھ)امام حسن کی حُسن تدبیر کا اندازہ اس صلح نامہ کی شرطوں سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے بغیر کسی جنگ کے اپنے بلند مقاصد تک پہنچنے کا کیسا بہترین انتظام کیا تھا ،اگر امیر شام آپ کی تمام شرطوں پر عمل کرلیتے تو آپ کے وہ تمام مقاصد پورے ہوجاتے جو جنگ کے ذریعہ ہوتے ،

صلح کے شرائط کچھ اس طرح ہیں جو امام حسن نے معین کئے تھے :=حکومت اس شرط کے ساتھ معاویہ کے حوالے کی جاتی ہے کہ معاویہ کتابِ خدا اور سنت ِ پیغمبر اور نیک خلفاء کی سیرت پر عمل کریں گے=معاویہ کے بعد (امام ) حسن خلیفہ ہوں گے اور اگر (امام ) حسن کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو (امام ) حسین خلیفہ ہوں گے=معاویہ نماز میں حضرت علی پر سبّ و شتم نہیں کریں گے اور برا نہیں کہیں گے بلکہ نیکی سے یاد کریں گے=کوفہ کے بیت المال میں جو پچاس لاکھ درہم ہیں وہ مستثنیٰ ہوں گے

اور حکومت معاویہ کو نہیں دیئے جائیں گے،اس کے علاوہ معاویہ سالانہ۲۰لاکھ درہم امام حسین کے لئے بھیجیں گے ،ہدیہ دینے اور بخشش کرنے میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر مقدم رکھیں گے اور ۱۰لاکھ درہم جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کی ہمراہی میں شہید ہونے والوں کے پسماندگان کے درمیان تقسیم کریں گے جوکہ قدیم فارس کے ایک علاقہ ”دارابجرد“ کے خراج کی آمدنی سے ادا کرنے ہوں گے=سبھی لوگ جہاں بھی آباد ہیں امامن میں رہیں گے،معاویہ ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کریں گے اور کسی سے بھی گزشتہ خطاوں پر مواخذہ نہیں کیاجائے گا ،اصحاب علی جہاں بھی ہوں امن و امان میں رہیں ،شیعیان علی کو نہ ستایاجائے اور علی کے ساتھی اپنے مال اور عیال کی طرف سے بے فکر رہیں کوئی بھی ان کا تعاقب نہیں کرے گا (امام ) حسن اور (امام ) حسین و دیگر اہل بیت کی جان کے درپے ہونے کے لئے کھلم کھلا یا خفیہ طور پر کوئی سازش نہ کی جائے گی

اس کے بعد عبداللہ بن عامر (امیر شام کے نمائندے)نے مذکورہ شرائط کو امیر شام کے پاس بھیج دیا ،امیر شام نے ان تمام شرطوں کو ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھا اور دستخط کرکے اپنی مہر لگائی اس پر بہت سخت عہد و پیمان اور قسموں کا اضافہ کیا اور شام کے تمام روسا و بزرگوں کو گواہ کرکے اس دستاویز کو اپنے نمائندے عبداللہ بن عامر کے پاس واپس بھیج دیا ،عبد اللہ بن عامر نے اس کاغذ کو امام حسن کی خدمت میں پیش کردیا (صلح حسن ،صفحہ ۳۵۸ ،تالیف شیخ راضی آل یاسین ،ترجمہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ،ناشر موسسات انتشارات آسیا، ایران)امام حسن کے ذریعہ امیر شام سے لئے گئے عہد و پیمان کا خلاصہ پانچ احکام میں ہوتا ہے

قانون کی حفاظت= میراث کے ذریعہ زمام داری کی نفی=آزادی کا احترام=حق طلب لوگوں کا تحفظ(تاریخ اسلام ۲ ،سیرت امیرالمومنین و معصومین ،مولف اہل قلم کی ایک جماعت،ترجمہ و تصحیح نثار احمد زین پوری،ناشر انصاریان پبلیکیشنز،قم)=اقتصادی اصلاح ،۱پہلی شق میں امام حسن قانون کی قدرو قیمت پر زور دیتے ہیں کہ زمام دار کے لئے ضروری ہے کہ قانون کو نافذ کرے اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ کتاب خدا اور سنت رسول قانون ہیں اور روش ِ خلفاء سے کنایتاً روشِ علی مراد ہے جو اجراء قانون کابہترین نمونہ ہے۱دوسری شق میں زمام دار کے انتخاب کا معیار بیان کیا ہے یعنی زمام دار کے لئے ضروری ہے کہ اُس میں علم و تقویٰ کے ساتھ شجاعت بھی پائی جائے ،اسلام نے کلی طور پر میراث کے ذریعہ زمام داری کی نفی کی ہے یعنی کوئی بھی زمام دار میراث کے طور پر حکومت کو اپنی اولاد میں منتقل نہیں کرسکتا ،

اس شق کے ذریعہ حضرت امام حسن نے قیامت تک کے لئے معیار مقرر فرمادیا اور یہ شق امیر شام کے علاوہ ایسے سبھی لوگوں پرلاگو ہوگی جو زمامداری کو میراث کے ذریعہ اپنی اولاد میں منتقل کرنے کے قائل ہیں ،اسی کے ساتھ یہ شق مسجد میں نماز جماعت اور نماز جمعہ کی امامت پر بھی لاگو ہوگی

،یعنی کوئی بھی امام جماعت و جمعہ اپنے بعد اپنے نا اہل بیٹے کو امام جماعت یا جمعہ کے طور پر نامزد نہیں کرسکتا، اِس دوسری شق کے ذریعہ امام حسن امیر شام سے یہ عہد لینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بعد کسی کو زمام دار معین نہیں کریں گے ،کسی سے مراد یزید ہے ،امام حسن امیر شام کے ایسے تمام راستے بند کردینا چاہتے تھے جس سے کل وہ اپنے بیٹے یزید کو مسند خلافت پر نہ بٹھائیں اور اپنے بعد حکومت کی زمام اس کے اختیار میں نہ دے دیں۱تیسری شق میں امام حسن سبھی کی آزادی کا دفاع کرتے ہوئے امیر شام سے یہ عہد لیتے ہیں کہ اُن کی حکومت میں سبھی لوگ اپنے امور میںآ زادرہیں گے اور سب کا تحفظ کیاجائے گااور کسی کو بُرا بھلا نہ کہا جائے گا۱چوتھی شق میں حق طلب و حریت پسند لوگوں کی جان و عزت سے بحث ہے یہ لوگ حضرت علی کا اتباع کرنے والے تھے ،آپ کے مکتب سے انہوں نے آزادی اور آزادی مانگنے کا درس لیاتھا ،

امام حسن امیر شام سے یہ عہد لینا چاہتے ہیں کہ پیروانِ علی جہاں بھی ہیں ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھاجائے گا(تاریخ اسلام ۲ ،سیرت امیرالمومنین و معصومین ،مولف اہل قلم کی ایک جماعت،ترجمہ و تصحیح نثار احمد زین پوری،ناشر انصاریان پبلیکیشنز،قم)۱ پانچویں شق میں زمام دار کے لئے بیت المال کو خورد برد نہ کرنے کی تاکیدہے ،آپ اس شق کے ذریعہ امیر شام کو بیت المال کی عادلانہ تقسیم پرپابند کررہے ہیں، اس شق کے ذریعہ امام حسن بیت المال کو صرف اسلام و مسلمانوں کے امور پر خرچ کرنے کا عہد لے رہے ہیں ،اوراپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے بیت المال کے سیاسی استعمال پر پاندی عائد کرنا چاہتے ہیں وہ لوگ جو جذباتی احساسات رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ امام حسن کو امیر شام کے ساتھ جنگ ہی کرنی چاہئے تھی ،ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت امام حسن نے جو کچھ کیا وہ ایک ذلت آمیز شکست تھی جس کے نتیجے میں امیر شام آسانی سے اقتدار پر قابض ہوگئے

شیخ محمد مہد ی شمس الدین اپنی معرکة الآرا کتاب ”جہاد حسین “ میں صفحہ ۱۴۱ پر تجزیہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ : اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام حسن کے پاس نہ فکر و تدبر کی کمی تھی اور نہ آپ جاہ طلب تھے اور نہ کسی قبیلے کے سردار کہ وہ قبیلے کی محدود سوچ سے کام لیتے بلکہ آپ ایک نظریئے اور طرز فکر کے داعی اور ایک الٰہی و ابدی مشن کے حامل تھے ،لہٰذا انہی بنیادوں پر امام کو قدم اٹھانا تھا اور جو موقف آپ نے اختیار کیا وہ اپنے مقاصد کے مطابق تھا اگرچہ یہ موقف خود امام کے لئے بھی بارگراں تھا اور ان حالات میں تین صورتوں میں سے کوئی بھی ایک صورت اختیار کرنا ناگزیر تھی := ان نامساعد حالات کے باوجود اور نتائج سے چشم پوشی کرتے ہوئے امیر شام کے ساتھ جنگ کی جائے =حکومت ،امیر شام کے حوالے کردی جائے اور خود گوشہ نشین ہوجائیں اور اپنے مقاصد کو چھوڑ کر صرف ذاتی مفاد پر اکتفا کرلی جائے

ان نا مساعد حالات کے پیش نظر وقتی طور پر مسلح جد و جہدترک کردی جائے اور نہ صرف یہ کہ حالات پر نظر رکھی جائے بلکہ اس جد و جہد کو کوئی دوسرا میدان فراہم کرنے کے لئے حالات کا رخ اپنے بلند مقاصد کے مفادکی طرف موڑ دیا جائے امام حسن اپنی عظیم ذمہ داریوں کی وجہ سے پہلی صورت کا انتخاب نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ اگر ان نا مساعد حالات میں امیر شام سے جنگ لڑتے تو اپنے یاور و انصار سے محروم ہوجاتے جن کی آپ کو شدید ضرورت تھی اور اس میں شک نہیں ہے کہ اس صورت میں امام حسن جہاد اور استقامت کی ایک عظیم مثال قائم کردیتے ،مگر پھر بھی ایسے قیام کا نتیجہ عالم اسلام کے لئے یقینا مفید نہ رہتا۱ حضرت امام حسن کے لئے دوسری صورت اختیار کرنا بھی ممکن نہ تھا کیونکہ امام معصوم سے بعید ہے کہ وہ ہر چیز سے ہاتھ اٹھا کر ،

قوم کی رہنمائی اور اجتماعی امور میں دلچسپی لینے کو ترک کرکے عیش و آرام کی زندگی گزاریں کیونکہ یہ بات خدا وند عالم سے کئے گئے عہد و پیمان کے خلاف ہے ۱ تیسری صورت ہی ایسا راستہ تھا جسے امام حسن اختیار کرسکتے تھے اور وہ یہ کہ وقتی طور پر امیر شام کے ساتھ جنگ بندی قبول کرلی جائے تاکہ معاشرے کو انقلاب کے لئے آمادہ کیا جاسکے اور اگر ہم یہ خیال کریں کہ امام حسن نے اپنے آپ کو زحمتوں اور تکلیفوں سے بچانے کے لئے صلح کا راستہ اختیار کیا ہے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی ،حضرت امام حسن نے عیش و آرام کے لئے صلح نہیں کی تھی بلکہ اس لئے صلح فرمائی تھی

کہ نئے سرے سے جہاد شروع کیا جائے البتہ کسی اور مقام پر اُسی دوسرے مقام کا نام کربلا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ جہاد آپ کے بجائے آپ کے بھائی امام حسین نے انجام دیا ،لیکن امام حسین کے ساتھیوں کا کربلا میں یہ جملہ دہرانا کہ:” اگرہمیں ۷۰مرتبہ قتل کرکے دوبارہ زندہ کیاجائے تب بھی ہم آپ (امام حسین )کا ساتھ نہ چھوڑیں گے “امام حسن کا صلح کے بعد لوگوں میں فکری انقلاب پیدا کرنے کے باعث ہی ہوسکا تھا ،کیونکہ امام حسن تا حیات جب بھی امیر شام کی طرف سے صلح نامہ کی کسی شرط بالخصوص یزید کو ولیعہد نہ کرنے کے عہد کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھتے تو فوراً عوام کے سامنے تقریریں کرکے صلح نامہ کی شرطیں یاد دلاتے اور کربلا کے قیام کا زمینہ فراہم کرتے ،اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”ساباط“ (عراق میں وہ مقام جہاں امام حسن نے صلح فرمائی تھی )اور ”کربلا“ ایک ہی مقصد کے دونام ہیں

اسلامی جہاد معاشرے کی اصلاح کا بہترین ذریعہ

دنیا میں ہر حاکم کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی رعایا سب سے اچھی ہو اور انسانی و اخلاقی اقدار سے دور نہ ہوجائے ،

جو حاکم صالح نہیں بھی ہوتے وہ بھی بظاہر ایسا ہی دکھاوا کرتے ہیں حتی کہ غیر مذہبی حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان کی رعایا اور معاشرہ اخلاقی اقدار کو گم نہ کردیں کیونکہ جس معاشرے میں اخلاقی زوال آجاتا ہے وہ منتشر ہوکر برباد ہوجاتا ہے

شہروں ،بستیوں ،قصبوں اور دیہاتوں میں امن کمیٹیاں اور سماج سدھار تنظیمیں اور پولس و انتظامیہ کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی اس کی اہمیت کو بیان کرتی ہے

پوری دنیا کے اصلاح معاشرہ کے لئے یہ اقدامات ایک طرف اور اسلامی جہاد ایک طرف ،اسلامی جہاد سے معاشرہ جیسا صاف ستھرا اور پُر امن رہتا ہے ایسا کسی بھی ذریعہ سے نہیں رہ سکتا ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جس کی بدولت خود بخود ہر انسان اپنے آپ پر نگاہ رکھتا ہے اور اپنا محاسبہ کرکے آلودگیوں سے بچنے کے راستے فراہم کرتا ہے ،

اسے ہم جہاد بالنفس کہتے ہیں ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جس کی وجہ سے ہر مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے قلم کو معاشرے کی اصلاح و بھلائی میں استعمال کرے ،اسے جہاد بالقلم کہا جاتاہے ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جو انسانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے برائیوں کو نہ پھیلنے دیں اسے جہاد بااللسان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،یہ اسلامی جہاد ہی ہے جو معاشرے پر ہر قسم کے اٹیک کو ڈفینس کے ذریعہ روکنے کی تاکید کرتا ہے،ڈفینس صرف تلوار یا دیگر اسلحہ سے ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے پر چاہے اقتصادی حملہ ہو یا مخرب اخلاق فلموں اور سیریلوں کے ذریعہ ثقافتی یلغار ہو دفاع کرنا ضروری ہے ،

بعض نادان لوگ مخرب اخلاق فلمیں دکھانے والے سینما گھروں کے مالکوں کو دھمکیاں دیتے ہیں یاپھر بم سے اڑادیتے ہیں یہ طریقہ کار اسلامی جہاد کے منافی ہے،اس کے دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اخلاقی قدروں پر مبنی فلموں ،سیریلوں اور لٹریچر کی معاشرے میں فراوانی کردی جائے لوگوں نے جہاد کو بغیر سمجھے اسے بدنام کرنا شروع کردیا، بدنام کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جو اسلامی جہاد کے فلسفے سے اچھی طرح آشنا تھے مگر معاشرے میں اخلاقی اصول و ضوابط کو پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے لہٰذا انہوں نے اسلامی جہاد کی مخالفت کرکے اسے دہشت گردی کا نام دے دیا ،

ایسے یہودی یا عیسائی نظریہ پرداز اگر تنہا خود یہ کام انجام دیتے تو اتنا کامیاب نہ ہوتے جتنا مٹھی بھر جاہل مسلمانوں کو استعمال کرکے ہوئے کیونکہ ان مسلمانوں نے جو بھی غیر اخلاقی و غیر انسانی کام انجام دیئے وہ جہاد ہی کے نام پر دیئے جس سے پوری دنیا میں جہاد جیسا معاشرہ ساز فریضہ نفرت میں تبدیل ہوگیا اور ڈر ہے کہ کہیں اس مقدس فریضہ کو جرم نہ بنا دیا جائے اور پھر اس کے لئے کوئی دفعہ بھی ایجاد کرلی جائےڈکشنری میں جہاد کے معنی کوشش کے ہیں اور یہ کوشش چاہے کسی بھی کام کے لئے کی جائے جہاد کہلائے گی اور اصطلاح میں معاشرے سے برائیوں کو جڑ سے ختم کرنے کی راہ میں کوشش کرنا جہاد کہلاتا ہے ،اسی لئے اسلامی روایات میں جہاد کی درجہ بندی میں سب سے اوپر جہاد بالنفس(اپنے نفس سے جہاد کرنا)رکھا گیا ہے یعنی اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی اور برائیوں سے روکنا ،

روایات میں اسے ”جہاد اکبر “کا نام دیاگیا ہے یعنی سب سے بڑا جہاد ،جب ہر انسان اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کو برائیوں اور خواہشات کی پیروی سے دور رکھنے کے لئے جد و جہد کرے گا تو یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا نہ پولس کی ضرورت ہوگی نہ عدالتوں پر کروڑوں خرچ کرنے پڑیں گے، جہاد بالنفس سے خود بخودپورا معاشرہ مہذب اور با اخلاق ہو کر راحت و سکون کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرے گا ،اسلامی روایات میں جہاد باللسان کو دوسرے درجہ میں رکھا گیا ہے یعنی برائی کو دیکھ کر انسان خاموش نہ رہے بلکہ برائی کو برا ضرور کہے،اس جہاد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں ،زمانہ اتنا دگر گوں ہوگیا ہے کہ برائی کرنے والے کو برائی سے کوئی نہیں روکتا بلکہ سب اسی کو برا بھلا کہتے ہیں جو برے کو برا کہتا ہے ،

ایک طرف تو معاشرہ علماء پر یہ الزام تراشی کرتا ہے کہ علماء حضرات معاشرے کو سدھارنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے دوسری جانب اگر کوئی شخص کسی شخص کی برائی پر نگاہ رکھتا ہے اور اسے ٹوکتا ہے تو یہی معاشرہ کہتا ہے کہ میاں تمہیں کیا مطلب ؟ جو کر رہاہے کرنے دو ،اس کو اگر برائی پر ٹوکو گے تو معاشرے میں اس سے انتشار پھیلے گا ،یہ منطق برائی کوسماج میں پھیلانے کے لئے ایجاد کی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کے سو فی صد خلاف ہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ” ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون“اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں ،یہ جہاد اسلام کے نظام کا ایسا جزو ہے جو خود بخود معاشرے کی نگرانی کرتا ہے ،

ہر انسان اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو اس کے اعمال و رفتار سے آگاہ کرتا ہے اور یہاں یہ مثل صادق آتی ہے کہ : ”مومن ،مومن کا آئینہ ہے“اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں برائیوں کو روکنے اور اچھائیوں کو پھیلانے کا ایسا طریقہ نہیں پایا جاتا ،یہ شرف تو صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں ہر قسم کے فساد کا مخالف ہے جو اس دنیا میں ہر صالح حکومت اورحاکم کی تمنا ہوتی ہے،اس کے بعد جہاد بالقلم یعنی معاشرے کو سدھارنے کے لئے قلم کے ذریعہ کوشش کی جائے ،اس جہاد کے بھی بے حد ثواب ہیں اور اس کا درجہ تلوار کے جہاد سے بڑا ہے ،قول معصوم ہے کہ : ”عالم کے قلم کی سیاہی کا قطرہ شہید کے خون سے افضل ہے“ اس روایت میں واضح طور پر جہاد بالسیف یعنی تلوار کے جہاد پر قلم کے جہاد کی فضیلت کو بیان کیاگیا ہے ،قلم کے ذریعہ کیاگیا جہاد سب سے زیادہ دیر پا ہوتا ہے ،

تقریریں ذہنوں سے محو ہو سکتی ہیں لیکن قلمی کاوشیں کتابوں اور لٹریچر کی شکل میں زیادہ عرصہ تک محفوظ رہتی ہیں،جس سے کئی کئی نسلیں استفادہ کر سکتی ہیں اسی لئے جہاد بالقلم کی بہت تاکید ہے اس کے بعد جہاد مالی ہے یعنی مال کے ذریعہ معاشرے کی فلاح و بہبود کا انتظام کرنا تاکہ معاشرے میں جرائم کا گراف بڑھ نہ جائے ،تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معاشرے میں جرائم فقر و ناداری کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں،لہٰذا اس راہ میں صاحب استطاعت لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرکے ایسے جرائم کو روک سکتے ہیں ،مال خرچ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ تھوڑا بہت دے کر فقیری کی لت کو پروان چڑھایا جائے بلکہ نادار شخص کو اس کے پیروں پر کھڑا کردیا جائے ،ایسا کرنے سے معاشرہ خود بخود پر سکون ہوجائے گا،سب سے نچلے طبقے میں جہاد بالسیف یعنی معاشرے کی اصلاح اور اُس پر ہونے والے حملوں کے دفاع میں اسلحہ اٹھانا ،

اگر ہم تاریخ یعقوبی ،الامامہ والسیاسہ، وقعہ صفین ،شرح نہج البلاغہ، بحار الانوار ،تاریخ طبری، مروج الذہب وغیرہ تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بزرگان اسلام کے لکھے ہوئے سیکڑوں خطوط اور کئی گئی تقریریں مل جائیں گی جو اِن بزرگوں نے معاشرے کے دفاع اور راہ خدا میں تلوار چلانے سے پہلے مد مقابل سے جہاد بالقلم اور جہاد بااللسان کے طور پر کیں بالخصوص امام حسین نے میدان کربلا میں تو اس کا بہت زیادہ اہتمام کیا ۱۰محرم ۶۱ہجری سے پہلے تک آپ برابر جہاد بااللسان اور جہاد بالقلم فرماتے رہے حتی کہ جب آپ تنہا رہ گئے

اُس وقت بھی آپ نے ان جہادوں کو ترک نہ فرمایا اور آخری مرتبہ یزیدی فوج کو مخاطب کرکے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ : ”ابھی بھی اگر تم راہ راست پر آجاو تو میں اپنے اصحاب اور اولاد کی دردناک شہادت کو بھلا سکتا ہوں “امام عالی مقام نے اس وقت تلوار چلائی جب یزیدی فوج نے کسی بھی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،

عالم اسلام میں اس سے اچھی مثال جہاد بالسیف کے نچلے پائیدان میں ہونے کی نہیں مل سکتی ،اور یہ اجازت بھی اسلام نے شاید اس لئے دے دی کہ اس کی نظر میں اصلاح معاشرہ بہت اہم ہے اسلام دشمن عناصر اس جہاد کو قتل و غارت گری سے تشبیہ دیتے ہیں جو کہ غلط ہے، چونکہ اسلام عالم انسانیت کے لئے امن کا پیغام لے کر آیا تھا

لہٰذا وہ طاقتیں جو معاشرے کے کمزور لوگوں کا خون چوس رہی تھیں اور ان کو سودی قرضوں میں جکڑ کر غلام بنا چکی تھیں اسلام کے اس پیغام سے بوکھلا گئیں اور ہر طرح کی مخالفت شروع کردی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ،

لہٰذا اسلام نے بھی مسلمانوں کو اپنے دفاع کا حق دیاہے جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے ۔