ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13661
ڈاؤنلوڈ: 2775

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13661 / ڈاؤنلوڈ: 2775
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

چوتھا حصہ قیامت اور موت کے بعد کی زندگی

۳۴ ۔ قیامت کے بغیر زندگی بے معنا ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد ایک معین دن میں سارے انسان زندہ کیے جائیں گے اور ان کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیک اور صالح عمل والے جنت الفردوس اور برے اور گناہ گارافراد دوزخ بھیجے جائیں گے۔

( الله لا اله الاهو لیجمعنکم الی یوم القیامة لا ریب فیه ) ۔

ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بے شک قیامت کے دن ، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ تم سب کو جمع کرے گا۔

(سورہ نساء آیہ ۸۷)

( فاما من طغی و اثر الحیوة الدنیا فان الجحیم هی الماوی، و اما من خاف مقام ربه و نهی النفس عن الهوی، فان الجنة هی الماوی ) ۔

ترجمہ: لیکن جن لوگوں نے سرکسی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا، بے شک ان کا ٹھکانہ جھنم ہے اور جو لوگ مقام عدالت پروردگار سے ڈرتے ہیں اور اپنے نفس کو ھوی و ھوس سے بچاتے ہیں، یقینا جنت ان کا مقام ہیں۔

(سورہ نازعات آیہ ۳۷ سے ۴۱)

ہماراعقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک پل کی طرح ہے جس پر سے تمام انسانوں کو گزرنا ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی دنیا کی طرف جانا ہے یا دوسرے لفظوں میں ، دنیا ایک ایسی گزرگاہ، یونیورسٹی ، بازار، تجارت یا کھیتی ہے، جس کو ذریعہ بنا کر انسان اپنے اصلی ھدف تک پہچتاہے۔

امیر المومنین علیہ السلام دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:

ان الدنیا دار صدق لمن صدقها و دارغناء لمن تذور منها ، و دار موعظة لمن اتعظ بها، مسجد احباء الله و مصلی ملائکة الله و مهبط وحی الله و متجر اولیاء الله ۔

ترجمہ: نے شک دنیا صدق وصداقت کا گھر ہے اس کے لیے جو اس کے ساتھ سچا ہو، بے نیازی کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے زاد راہ ذخیرہ کرے، آگاھی و بےداری کا گھر ہے اس کے لیے جو اس سے نصیحت لے، دنیا محبان خدا کے لیے سجدہ کرنے ، نماز پڑھنے اور وحی نازل ہونے کی جگہ اور دوستان خدا کے لیے تجارت گاہ ہے۔

(نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۱۳۱)

۳۵ ۔ قیامت کے دلائل واضح اور روشن ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کی دلیلیں اور نشانیاں نہایت واضح ہیں۔ اس لیے کہ ایک تو اس دنیاوی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلقت کا اصلی اور بنیادی مقصد نہیں ہو سکتی، کہ جس میں انسان چند روز کے لیے آئے اور ڈھیروں مشکلات کے ساتھ زندگی گزارے اور آخر میں سب کچھ ختم ہو جائے اور دنیا فنا ہو جائے۔( افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انکم الینا لا ترجعون ) ۔ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تمہیں بیکار پیدا کیا گیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آوگے۔

(سورہ مومنون آیہ ۱۱۵)

آیہ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اگر قیامت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا بیہودہ و بیکار ہوتی۔

دوسرے یہ کہ: عدل الہی کا تقاضا ہے کہاچھے اور برے افراد جو اس دنیا میں ایک یہ صف میں ہیں بلکہ برے لوگ آگے ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہوں اور سب کو ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا ملے۔( ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلهم کالذین آمنوا و عملوا الصالحات سواء محیاهم و مماتهم ساء ما یحکمون ) ۔

ترجمہ: یعنی جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرح قرار دیں گے جو ایمان لائیں ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں؟ اور ان کی زندگی اور موت ایک جیسی یوگی؟ وہ کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں۔

(سورہ جاثیہ ۲۱)

۳ ۔ خدا کی بے پناہ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے فیض اور نعمت کا سلسلہ انسان کی موت سے ختم نہ ہو ، بلکہ با صلاحیت اور اہل افراد کے تکامل کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے۔( کتب علی نفسه الرحمة یجمعنکم الی یوم القیامةلا ریب فیه ) یعنی خدا نے اپنے اوپر رحمت کو فرض کیا ہے وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

(سورہ انعام آیہ ۱۲)

جو لوگ قیامت کے سلسلہ میں شک و تردید کے شکار تھے ، قرآن ان سے کہتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں تم خدا کی قدرت میں شک کرو، حالانکہ تمہیں پہلی مرتبہ بھی اس نے ہی پیدا کیا ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کیا ہے وہی تمہیں ایک بار پھر دوسری زندگی کی طرف پلٹائے گا۔( افعیینا بالخلق الاول بل هم فی لبس من خلق جدید ) یعنی کیا پہلی خلقت سے تھک گیے(جو قیامت کی خلقت پر قادر نہ ہوں؟ لیکن وہ (ان واضح دلائل کے باوجود نئی خلقت کے متعلق شک کرتے ہیں۔

(سورہ ق آیہ ۱۵)

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:( وضرب لنا مثلا و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم ) ( قل یحیی الذی انشاء ها اول مرة و هو بکل خلق علیم )

یعنی اس نے ہمارے لیے ایک مثال پیش کی ، لیکن اپنی خلقت کو بھلا بیٹھا اور کہا کون ان پوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا؟ کہو کہ جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ہر مخلوق کے بارے میں علم رکھتا ہے۔

(سورہ یاسین آیہ ۷۸ ، ۷۹)

علاوہ از ایں کیا زمین و آسمان کی خلقت کے مقابلہ میں انسان کی خلقت کوئی بڑی بات ہے؟ جو ہستی یہ قدرت رکھتی ہے کہ اس قدر وسیع اور حیرت انگیز کائنات کو پیدا کرے وہ یہ طاقت بھی رکھتی ہے کہ موت کے بعد مردوں کو زندہ کر دے۔( اولم یرو ان الله الذی خلق السماوات والارض و لم یعیا بخلقهن بقادر علی ان یحیی الموتی بلی انه علی کل شی قدیر ) یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور جو ان کی خلقت سے عاجز نہیں ہوا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

(سورہ احقاف ۳۳)

۳۶ ۔ معادجسمانی

ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف انسان کی روح بلکہ جسم اور روح دونوں ہی دوسری دنیا میں جائیں گے اور ایک نئی زندگی شروع ہوگی۔کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ انجام پایا تھا وہ اسی روح اور جسم کے ذریعہ انجام پایا تھا، لہذا سزا اور جزا بھی دونوں کو ملنی چاہیے۔

قرآن مجید میں قیامت سے متعلق اکثر آیات میں ---معاد جسمانی کی بات کی گئی ہے اور مخالفین کے تعجب کا کہ پوسیدہ ہڈیاں کیسے نئی زندگی حاصل کریں گے، قرآن نے یہ جواب دیا ہے:( قل یحیی الذی انشاء ها اول مرة ) ) یعنی جس نے انسان کو پہلی بار خاک سے پیدا کیا ہے وہ اس طرح کے کام پر قادر ہے۔

(سورہ یاسین آیہ ۷۹)

( ا یحسب الانسان ان لن نجمع عظامه ) )( بل قادرین علی ان نسوی بنانه ) یعنی کیا انسان یہ گمان کر تا ہے کہ ہم اس کی (پوسیدہ ) ہڈیوں کو جمع (اور زندہ) نہیں کر پائیں گے؟ ہاں ہم قدرت رکھتے ہیں۔ اس کی (انگلیوں کے) پوروں کو بھی درست کر دیں۔(اور پہلی حالت میں پلٹا دیں۔)

(سورہ قیامت آیہ ۳،۴)

یہ آیات اور اس طرح کی دورسری آیات معاد جسمانی کو صریحا بیان کرتی ہیں۔

وہ آیات جو یہ کہتی ہیں کہ تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھایا جائے گا، وہ بھی واضح طور پر جسمانی معاد پر دلالت کر رہی ہیں۔

(سورہ یونس ۵۱ و ۵۲ آیت، سورہ قمر آیہ ۶۷ ، سورہ معارج آیہ ۴۲)

قرآن میں قیامت سے متعلق اکثر آیات روحانی معاد اور جسمانی معاد دونوں کو بیان کرتی ہیں۔

۳۷ ۔ موت اور بعد کی عجیب دنیا

ہمارہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد قیامت اور پھر بہثت و دوزخ کے سلسلہ میں جو کچھ رونما ہوگا اس کی عظمت کا ہم اس محدود دنیا میں اندازہ نہیں لگا سکتے ارشاد ربانی ہے -:( فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة آعین ) یعنی کہ کوئی نہیں جانتا --،ان (نیک لوگوں ) کے لئے کیسی نعمتیں رکھی گئی ہیں جو انکی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک کی بائث ہیں ۔(سورئہ سجدہ آیت ۷۱) نبی اکر م کی اک بہت ہی مشہور حدیث میں منقول ہے( الله يقول اعددت لعباد ی ا لصالحین ما لا عین رات ولا عذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ) یعنی خدا نے فرمیا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں ے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہے کہ جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں انکا خیال تک نہیں آیا ہے۔

(معروف محدثین مثلا بخاری اور مسلم اور مشھور مفسرین مشلا طبرسی،آلوسی اور قرطبی نے ےہ حدیث اپنی کتابوں مین نقل کی ہے۔)

حقیقت میں ہم اس دنیا میں اس جنین کی مانند ہیںجو شکم مادر کی محدود دنیا میں رہ رہا ہو۔ اگر فرضا جنین عقل اور حوش بھی رکھتا تو وہ ان حقائق کا ادراک نہیں کر سکتا جو رحم مادر کے باہر کی دنیا میں موجود ہے مثلا درخشان سورج اور چاند ،باد سحری کے چلنے پھولوں کے منظر اور سمندر کی لہروں کی آواز کو ہر گز درک نہیں کرتا ۔ قیامت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہی ہے جیسی دنیا کے مقابلہ میں جنین کی ۔ (اس نکتہ پر غور فرمائےے)

۳۸ ۔ قیامت اور نامئہ اعمال

ہمارہ عقیدہ ےہ ہے کہ :وہ اعمال نامے جو ہمارے اعمال کی نشاندہی کر رہے ہوں گے۔ اس دن ہمارے ہاتھ میں دئےے جا ئیں گے۔ نیک لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں جب کہ برے لوگوں کا نامئہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا۔نیک اورمومن لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر خوش ہوںگے جبکہ برے لوگ اپنا نامئہ اعمال دیکھ کر بہت غمگین اور پریشان ہوںگے۔قرآن نے بھی ےہ بیان فرمیا ہے :( فاما من اوتی کتابه بیمینه فیقول ها ٓ ام اقرؤاکتابیه )( انی ظننت انی ملاق حسابیه )( فهوفی ) ( عیشةراضیة ) ۔۔۔۔۔۔( و اما من اوتی کتابه بشماله فیقول یآلیتنی لم اوت کتابیه ) یعنی وہ شخص جس کا نامئہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جا ے گا (وہ خوشی سے ) پکارے گا کہ( اے اہل محشر)میرا نامئہ اعمال پکڑ کر پڑھو۔مجھے ےقین تھا کہا میں اپنے اعمال کا نتیجہ پاؤںگا۔وہ ایک پسندیدہ زندگی گزارے گا۔لیکن جس شخص کا نامئہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاوہ کہے گا کہ اے کاش میرا نامئہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ (سورئہ الحاقہ،آیت ۱۹ تا ۲۳)

البتہ ےہ بات واضح نہیں ہے کہ نامئہ اعمال کیا ہے اور کس طرح لکھا جاتا ہے،مگر اس کے اندر لکھی ہوئی باتوں کو کوئی شخص نہیں جھٹلا سکے گا۔چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ معاد اور قیامت کی کچھ ایسی خصوصیات اور جزئیات ہیںجن کا ادراک دنیا کے لوگوں کے لئے مشکل یا نا ممکن ہے۔البتہ قیامت کے بارے میں جو موٹی موٹی باتیں سب کو معلوم ہے اور ےہ ناقابل انکار ہیں۔

۳۹ ۔ قیامت کے گواہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ:قیامت کے دن علاوہ اس کے کہ اللہ خود ہمارے اعمال پر شاھد اور گواہ ہے،کچھ دوسرے گواہ بھی ہمارے اعمال پر گواہی دیں گے ۔ہمارے ہاتھ اور پاؤں ےہاں تک کہ ہمارے بدن کی جلد اور وہ زمین جس پرہم رہ رہے ہیں ،اس کے علاوہ دوسری تمام چیزیں ہمارے اعمال کی گواہ اورشاہد ہیں ۔

( الیوم نختم علی افواههم وتکلمنا ایدیهم وتشهد ارجلهم بماکانوایکسبون ) ) یعنی ہم آج (قیامت کے دن)ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور انکے ہاتھ ہمارے ساتھ گفتگو کریںگے اور ان کے پاؤں ان کے کاموں کی گواہی دیںگے ۔

(سورئہ یس ،آیت ۶۵)

( و قالو ا لجلودهم لم شهدتم علینا قالوا انطقناالله الزی انطق کل شئی ) یعنی وہ اپنے بدن کے چمڑے سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کےوں گواہی دی؟وہ جواب میں کہیں گے :جس خدا نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے اس نے ہمےں گویائی عطا کی ۔(اور تمہارے اعمال سےپردہ ہٹانے کی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے)۔

(سورئہ حم سجدہ ،آیت ۲۱)

( ویومئذ تحدث اخبارها )( بان ربک اوحی لها ) )یعنی اس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی کےونکہ تیرے رب نے اس پر وحی کی ہے(کہ ےہ ذمہ داری انجام دے)۔

(سورئہ زلزال ،آیت ۴ اور ۵)

۴۰ ۔ پل صراط اور میزان اعمال

ہم قیامت کے دن پل صراط اور میزان کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں۔

صراط وہی پل ہے جو جنم کے اوپر سے گزرتا ہے اورسب کو اس سے گزرنا ہوگا۔ ہاں جنت کا راستہ جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے۔

( وان منکم الا واردهاکان علی ربک حتما مقضیا )( لم ننجی الزین اتقواوتذرالظالمین فیها جثیا ) یعنی تم سب کے سب جہنم میں وارد ہوںگے ۔ےہ تمہارے پر وردگار کا ےقینی اور حتمی امر ہے ۔اس کے بعد متقی لوگوں کو ہم اس سے نجات دیں گے اور ظالموں کو اسکے اندر زانو کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

(سورئہ مریم ،آیات ۷۱ اور ۷۲)

اس خطرناک اور مشکل راستہ سے گزرنا ہمارے اعمال سے و ابستہ ہے۔چنانچہ ایک مشہور حدیث ہے:ِ”منهم من یمر مثل عدوالفرس،ومنهم من یمر حبوا،و منهم من یمر مشیا،ومنهم من یمرمتعلقا، و قد تاخز النار منه شئیاوتترک شیئا ---“یعنی کچھ لوگ بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے،کچھ ذمہ داری گھوڑے کی سی تیزی کے ساتھ ، بعض ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل،کچھ پیدل چلنے والوں کی طرح،اور بعض اس سے لٹک کر چلیںگے۔کبھی جہنم کی آگ ان سے کچھ چیزیں لے لے گیاور کچھ چیزیں چھوڑ دے گی۔( ےہ حدیث معمولی سے فرق کے ساتھ فریقین کی کتابوں میں آئی ہے مثلا کنزالعمال حدیث ۳۶ ۔ ۳۹ اور قرطبی جلد ۶ صفحہ ۴۱۷۵( سورئہ مریم کی آیت ۷۱ کے ذیل میں )،نیز شیخ صدوق نے اپنی آمالی میں حضرت امام جعفر صادق (ع) سے رواےت کی ہے ۔صحیح بخاری میں بھی ”الصراط جسر جهنم “کے عنوان سے ایک باب موجود

ہے ۔(دیکھئے صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۴۶)

” میزان “ جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے انسانوں کے اعمال جانچنے کاایک ذریعہ ہے۔ ہاں اس دن ہمارے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر عمل کے وزن اور قدر و قیمت کا علم ہو جائے گا۔

”وتضعالموازین القسط لیوم القیٰمة فلا تظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبة من خردل اتینابھا وکفٰیبنا حاسبین)یعنی ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو نصب کریںگے پھر کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اگرچہکسی کا عمل (اچھے اور برے اعمال)رائی کے دانہ کے برابر ہی کےوں نہ ہو ،ہم اسے حاضر کریں گے۔ اور ہم حساب کرنے کے واسطہ بہت کافی ہیں ۔

(سورئہ انبیاء آیت ۴۷)

( فاما من ثقلت موازینه ) )( فهوفی عیشه راضیة )( واما من خفت موازینه )( فامه حاویة ) یعنی البتہ وہ شخص جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہوگا وہ ایک خوشحال زندگی گزارے گا اور جس کے اعمال کا پلڑاہلکا ہوگا اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔

(سورئہ قارعہ،آیات ۶ تا ۹)

ہاں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی نجات اور کامیابی کا دارومدار اس کے اعمال پر ہے نہ اس کی آرزؤں اور تصورات پر۔ایک کو اسکے اعمال کا صلہ ملے گا ۔نیکی اور تقویٰ کے بغیر کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔(کل نفس بما کسبت رھینة)یعنی ہرکوئی اپنے اعمال کے بدلے گرو ی ہے۔

(سورئہ مدثر ،آیت ۳۸)

پل صراط اور میزان کے بارے میں ےہ ایک مختصر سی وضاحت تھی ،اگرچہ ان کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آخر ت کی دنیا اس دنیا سے بہت بڑی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں ۔لہذا اس عالم کی تمام باتوں کا ادراک ہم مادی دنیا کے قیدی انسانوں کے لئے مشکل یا ناممکن ہے۔

۴۱ ۔ قیامت کے دن شفاعت

ہمارا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن انبیاء ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیاء اللہ خدا کے اذن سے بعض گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے اور خدا کی بخشش انہیں نصیب ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ اجازت فقط ان لوگوں کے لیے ہوگی جنہوں نے اللہ اور اولیاء اللہ سے اپنا رابطہ قائم رکھا ہوگا۔ لہذا شفاعت مشروط ہے۔ےہ بھی ہماری نیتوں اور اعمال سے ایک طرح کا تعلق رکھتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے( ولایشفعون الا لمن ارتضیٰ ) یعنی وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جسکی شفاعت پر خدا راضی ہوگا ۔ (سورئہ انبیاء آیت ۲۸)

جس طرح پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ”شفاعت “انسانوں کی تربیت کا ایک ذریعہ اور گناہوں میں غوطہ زن ہونے سے روکنے کاایک ذریعہ ہے گویا ےہ انسان سے کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہو بھی گیا ہے تو یہیں سے لوٹ جاؤ اور اس سے زیادہ گناہ مت کرو۔

یقینی طور پر شفاعت عظمیٰ کا مقام پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل ہے ۔ ان کیابعد باقی انبیاء اور ائمہ معصومین (ع) ےہاں تک کہ شہداء ، علماء صاحب معرفت اور کامل مومنین ،نیز قرآن اور نیک مومنین بھی بعز افراد کی شفاعت کریں گے۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک حدیث میں مزکور ہے ”ما من احد من الاولین والاخرین الا وهو یحتاج الی شفات محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوم القیامة “‘یعنی اولین اور آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو قیامت کے دن حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفاعت کا محتاج نہ ہو۔(بحار الانوار،جلد ۸ صفحہ ۴۲)

کنزالعمال میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک حدیث ےوں کہتی ہے کہ ”الشفعاء خمسة :القرآن والرحم والامانة ونبیکم و اھل بیت نبیکم“ یعنی روز قیامت شفاعت کرنے والے پانچ ہوں گے ۔قرآن،صلئہ رحم ، امانت ،تمہارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمہارے نبی کے اھل بیت۔ (کنزالعمال ،حدیث ۲۹۰۴۱ جلد ۱۴ صفحہ ۲۹۰)

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ایک اور حدیث کچھ ےوں ہے : ”اذا کان یوم القیامة بعث الله العالم والعابد ،فاذا وقف بین یدی الله عز وجل قیل للعابد انطلق الیٰ الجنة و قیل للعالم قف تشفع الناس بحسن تادیبک لهم “ یعنی جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عالما ور عابد کو اٹھائے گا۔جب دونو ں خالق کی بارگاہ میں کھڑے ہوںگے تو عابد سے کہا جائے گا ، کھڑے رہو اور لوگوں کی جو اچھی تربیت تم نے کی تھی اس کی بنا پر اسکی شفاعت کرو۔(بحار الانوار،جلد ۸ صفحہ ۵۶ حدیث ۲۲)

ےہ حدیث شفاعت کے فلسفہ کی طرف بھی لطیف اشارہ کر رہی ہے۔

۴۲ ۔ عالم برزخ

ہمارا عقیدہ ہے کہ:اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک تیسری دنیا بھی موجود ہے جس کا نام” عالم برزخ “ہے۔ موت کے بعد اور قیامت تک تمام انسانوںکی روحیں اس میں ٹھہریںگی ۔

( ومن ورا ٓئهم برزخ الیٰ يوم يبعثون ) “ یعنی اور انکے پیچھے (موت کے بعد) قیامت تک ایک برزخ ہے۔ (سورئہ مومنون،آیت ۱۰۰)

البتہ ہم عالم برزخ کی جزئیات سے بھی زیادہ اگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ۔ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ نیک اور صالح لوگوں کی روحیں جو بلند درجات کی حامل ہے۔ (جیسے شھداء کی روحیں )عالم برزخ میں بہت سی نعمتوں سے بہرہ مند رہتی ہیں۔

( ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتا بل احیاء عند ربهم یرزقون ) یعنی ایسا ہرگز مت سوچو کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں ۔ (سورئہ آل عمران ،آیت ۱۶۹)

نیز ظالموں ،متکبروں اور انکے حامےوں کی روحیں عالم برزخ میں عزاب پائیںگی ۔ جس کہ قرآ ن نے فرعون اور آل فرعون کے بارے میں کہا ہے:( النار یعرضون علیها غدوا و عشیویوم تقوم الساعةادخلوا آل فرعون اشد العذاب ) یعنی (برزخ میں )ان کا عذاب (جہنم کی)

آگ ہے۔ انہیں صبح وشام اسکے آگے کیا جائے گا ۔ اور جب قیامت برپا ہوگی (تو ارشاد ہوگا)کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کر دو۔ (سورئہ مومن ،آیت ۴۶)

لیکن تیسرا گروہ جن کے گناہ تھوڑے ہیں وہ نہ اس گروہ کے ساتھ ہیں اور نہ ا س گروہ کے ساتھ۔وہ عذاب اور سزا س ے بچے رہیں گے۔ گویا وہ عالم برزخ میں نیند جیسی حالت میں رہیںگے اور قیامت کے دن بیدار ہوں گے۔

( ویوم تقو م الساعةیقسم المجرمون ما لبثوا غیرساعة )( وقال الذین اوتوالعلم والایمان لقدلبثتم فی کتاب الله الیٰ یوم البعث فهٰذا يوم البعث ولکنکم کنتم لایعلمون ) )یعنی اور جس دن قیامت آئے گی توگنہگار قسم کھائیںگے کہ وہ عالم برزخ میں ایک گھڑی ہی ٹہرے ہیں ۔لیکن وہ لوگ جنہیں علم اورایمان دیا گیا ہے۔(وہ مجرموں کو مخاطب کرکے کہیں گے )تم خدا کے حکم سے قیامت کے دن تک (برزخ کی دنیا میں )ٹھہرے ہوئے تھے ۔اب قیامت کا دن ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے۔ (سورئہ روم ،آیات ۵۵ اور ۵۶)

احادیث میں بھی ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمیا ہے کہ ”القبر روضة من ریاض الجنة او حفرة من حفرالنیران“یعنی قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔(دیکھئے صحیح ترمذی ،جلد ۴ ،کتاب صحیفةالقیامة،باب ۲۶ ،حدیث ۲۴۶۰ ۔شیعہ مآخذمیں ےہ حدیث کہیں امیرالمومنین(ع) سے اور کہیں امام علی ابن الحسین (ع)سے رواےت کی گئی ہے۔

۴۳ ۔مادی اور معنوی صلے

ہمارا عقیدہ ہے کہ :قیامت کے دن ملنے والا صلہ مادی پہلو بھی رکھتا ہے اور معنوی بھی،کیونکہ معاد،روحانی ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی بھی ہوگی۔

قرآن کریم اوراحادیث میں بہشت کے باغات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے درختوں کے نیچے نہرے جاری ہوں گی۔( جنات تجری من تحتهاالانهار ) (سورئہ توبہ ، آیت ۸۹) اور ےہ کہ جنت کے باغات کے پھل اور سائے ابدی ہوں گے( اکلها دائم وظلها ) (سورئہ رعد ،آیت ۳۵) اور مومن لوگوں کے لئے بہشت میں بیویاں موجود ہوںگی( ازواج مطهرة ) (سورئہ آل عمران آیت ۱۵) یاد رہے ےہ اور اسی طرح جہنم کی جلانے والی آگ اور اسکی دردناک سزاؤں کا جو تذکرہ آیا ہے وہ سب عالم آخرت کی جسمانی سزا اور جزا سے مربوط ہے۔

لیکن ان سے بڑھکر معنوی نعمتیں،معرفت الہی کے انوار ، پروردگار کا روحانی قرب اور اسکے جمال کے جلوے ہیں۔ےہ وہ لذتیں ہیں جو زبان اور بیان کے ذریعہ قابل وصف نہیں ہیں ۔

قرآن کی بعض آیات میں جنت کی بعض مادی نعمتوں،سرسبز وشاداب باغات ،اور پاکیزہ گھروں کے تذکرے کے بعد ارشاد ہوا ہے( ورضوان من الله اکبر ) یعنی خدا کی خشنودی اور رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے :(ذاٰلک ھو فوز العظیم)یعنی ےہی تو عظیم کامیابی ہے ۔(سورئہ توبہ آیت ۷۲)

جی ہاں ،اس سے بڑھ کر لذت بخش بات اور کونسی ہوگی کہ انسان ےہ محسوس کرے کہ اس کے عظیم اور پیارے معبود نے اسے اپنی بارگاہ میں شرف قبولےت بخشا ہے اور اسے اپنی خشنودی کے سائے میں جگہ دی ہے ؟

امام علی ابن الحسین (ع) سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ ”يقول (الله)تبارک وتعالیٰ رضای عنکم و محبتی لکم خیر و اعظم مما انتم فیه “ یعنی خدا وند متعال ان سے کہے گا کہ تم سے میری خوشنودی اور تم سے میری محبت ان نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں جو تمہیں حاصل ہیں ۔وہ سب ےہ بات سنیں گے اور اس بات کی تصدیق کریںگے۔ (تفسیر عیاشی ،سورئہ توبہ کی آیت ۷۲ کع ذیل میں ،برواےت المیزان جلد: ۹۱) سچ مچ اس سے بڑھکر اور کو نسی نعمت ہو سکتی ہے کہ انسان سے ےہ کہا جائے ۔( یا ایتهاالنفس المطمئنة )( ارجعی الیٰ ربک راضیةمرضیه )( فادخلی فی عبادی )( وادخلی جنتی ) یعنی اے نفس مطمئنة اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے ،پس میرے بندوں کی صف میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا ۔(سورئہ فجر ، آیات ۲۷ تا ۳۰)

پانچواں باب مسئلہء امامت

۴۴ ۔ امام کا وجود ہمیشہ ضروری ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے خداوند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کی ھدایت کے لیے انبیاء و رسل کوبھیجے، اسی طرح سے اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ہر عصر اور زمانہ میں انبیاء کے بعد امام اورھادی کو بھیجے ، جو انبیاء کی شریعتوں اور اللہ کے دین کو تحریف و تغییر سے بچائیں، لوگوں کو عصری تقاضوں سے با خبر کریں اور خدا کے احکام اور شریعت پر عمل کی دعوت دیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کی سعادت اور کامیابی ،جو انبیاء کے آنے کا مقصد ہے ، متحقق نہیں ہو سکے گا اور انسان راہ ھدایت سے دور ، انبیاء کی تبلیغ ضایع اور لوگ سرگردان رہ جائیں گے۔

مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظرہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی بھی عھد یا زمانہ امام کے وجود سے خالی نہیں رہا ہے( : یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله و کونوا مع الصادقین ) ۔ ترجمہ۔ اے ایمان والو، تقوی الہی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

یہ آیہء کریمہ کسی خاص زمانہ تک کے لیے محدود نہیں ہے اور اس میں بغیر کسی قید و شرط کے صادقین کے ساتھ ہونے کا بیان،ا س بات کی دلیل ہے کہ ہر عصر میں امام معصوم موجود ہوتا ہے جس کی پیروی کی جانی چاہیے، جیسا کہ بہت سے شیعہ سنی مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

۴۵ ۔امامت کیا ہے؟

ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت فقط ظاہری حکومت کا عہدہ نہیں ہے بلکہ ایک نہایت بلندروحانی اور معنوی منصب ہے۔امام، اسلامی حکومت کی قیادت کے ساتھ ساتھ دین و دنیا کے معاملہ میں ہمہ گیر حکومت کا بھی ذمہدار ہے۔ امام،لوگوں کی روحانی و فکری راہنمائی کرتا ار پیغمبر اسلام (ص) کی شریعے کو جملہ تحریفات اور تغےّر اور تبدل سے محفوظ رکھتا ہے۔ امام، ان اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے جن کے لئے پیغمبر اسلام (ص) مبعوث ہوئے تھے۔

یہ وہی عظیم منصب ہے جو خدا نے ابرا ہیم (ع) خلیل اللہ کو نبوت اور رسالت کا راستہ طے کرنے اور متعدد امتحانات میں کامیابی کے بعد عطا کیا ۔انہوںنے بھی خدا کے حضور اپنی ذریّت اور اولاد میں سے بعض کے لئے اس عظیم منصب کی درخواست کی اور انہیں یہ جواب ملا کہ ظالم اور گناہ گار لوگ ہر گز اس رتبے پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔

( واذابتلٰی ابراهیم ربه بکلمات فاتمهنّ قال انّی جاعلک للنّاس اماما قال ومن ذرّیتی قال لا ینال عهدی الظّالمین ) ) یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا نے ابراھیم (ع) کو مختلف چیزوں سے آزمایا اور وہ خدا کی آزمائش سے سرخ رو ہوکر نکلا ۔خدا نے فرمایا میں نے تجھے لوگوں کا امام بنایا ہے۔ ابراھیم (ع) نے عرض کی، میری نسل میں سے بھی امام بنائیے۔ خدا نے فرمایا میرا یہ عھدہ(امامت)ہرگز ظالموں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ (اور تیری نسل سے فقط معصوم لوگوں کو حاصل ہوگا)۔ (سورئہ بقرہ،آیت ۱۲۴)

واضح رہے کہ اتنا عظیم منصب صرف ظاہری حکومت سے عبارت نہیں ہو سکتا۔اگر امامت کا جلوہ وہ نہ ہو جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے تو مزکورہ بالا روایت کا کوئی واضح مفہوم نہیں ر ہے گا۔

ہمارہ عقیدہ ہے کہ: تمام اولوالعزم انبیاء کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا ۔جو کچھ انہوں نے اپنی رسالت کے ذریعہ پیش کیا اس پر خود عمل کیا۔ وہ لوگوں کے معنوی ، مادی ، ظاہری اور باطنی قائد تھے ۔خاص کرپیغمبر اسلام (ص) کو اپنی نبوت کے آگاز سے ہی امامت اور رہبری کے عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ان کا کام فقط خدا کے احکام کو آگے پہونچانا نہیں تھا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص)کے بعد امامت کا سلسلہ ان کی پاک ذریت کے درمیان جاری رہا ہے۔

امامت کی جو تعریف اوپر کی گئی ہے اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس ،قام تک رسائی دشوار شرائط کی حامل ہے۔خواہ تقویٰ (ہر گناہ سے معصوم ہونے کی حد تک) کے لحاظ سے ہو یا علم و دانش اور دین کے تمام معارف و احکامات کو جاننے نیز انسانوں کی شناخت اور ہر عصر میں ان کی ضروریات کو پہچاننے کے حوالے سے۔ (غور کیجئے)

۴۶ ۔امام ،گناہ اور غلطی سے محفوظ ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ:امام کو ہر گناہ اور غلطی سے معصوم ہونا چاہئے،کیونکہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں بیان شدہ بات کے علاوہ غیر معصوم شخص پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اس سے دین کے اصول وفروع اخذ نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے ہماراعقیدہ ہے کہ امام کی گفتگو اس کے افعال اور تقریر کی حجت اور شرعی دلیل ہے۔ (تقریر سے مراد یہ ہے کہ امامم کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اپنی خاموشی کے ذریعہ اسکی تائید کرے)

۴۷ ۔امام، شریعت کا محافظ

ہمارا عقیدہ ہے کہ :امام ہرگز اپنے ساتھ کوئی زریعت یا دین لیکر نہیں آتا بلکہ اسکی ذمہ داری پیغمبر (ص) کے دین کی حفاظت اور آپکی شریعت کی نگہبانی ہے۔اس کا کام دین کی تبلیغ ، تعلیم ،دین کی ھفاظت اور لوگوں کو اس دین کی طرف بلانا ہے۔

۴۸ ۔امام ،لوگوں میں سب سے زیادہ اسلام سے آگاہ ہے

نیز ہماراعقیدہ ہے کہ:امام کو اسلام کے تمام اصول و فروع،احکام وقوانین اور قرآن کے معانی و تفسیر سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہئے۔ان چیزوں کے متعلق اس کے علم کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے اور یہ علم پیغمبر و کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔

جی ہاں؛اس طرح کے علم پر ہی لوگوں کو مکمل اعتماد ہو سکتا ہے اور اسلام کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے اس پر ہی اعتماد کیا جا سکتاہے۔

۴۹ ۔امام کو منصوص ہونا چاہئے

ہمارا عقیدہ ہے کہ:امام (جانشین پیغمبر (ص)) کو منصوص ہونا چاہئے ،یعنی اسکی امامت پیغمبر (ص) کے صریح اور واضح پیغام کے مطابق ہونی چاہئے اور بعد والے امام کے لئے پہلے امام کی تصریح ضروری ہے۔بالفاظ دیگر امام بھی پیغمبر کی طرح خدا کی طرف سے(پیغمبر (ص) کے ذریعے) متعین ہوتا ہے۔ جس طرح ہم نے ابراہیم (ع) کی امامت سے متعلق آیت میں پڑھا:(انّی جاعلک للنّاس اماما)یعنی میں نے تجھے لوگوں کا امام قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ (عصمت کی حد تک)تقویٰ اور بلند علمی مقام(جو تمام احکامات اور تعلیمات الھٰی پر ایسے احاطہ کی صورت میں ہو جس میں غلطی اور اشتباہ کی گنجائش نہ ہو) کی موجودگی کا علم صرف خدا اور ر سول (ص) کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔

بنانبر ایں ہمارے عقیدہ کی رو سے معصوم اماموں کی امامت لوگوں کی رائے سے نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔