ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13819
ڈاؤنلوڈ: 2895

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13819 / ڈاؤنلوڈ: 2895
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

۵۰ ۔اماموں کا تعین،رسول (ص) کے ذیعے

ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے بعد والے اماموںکومتعین فرمایا ہے۔حدیث ثقلین (جو مشہور و معروف ہے)میں حضور (ص)نے اماموں ک اجمالی ذکر کیا ہے۔

صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ”خم “نامی جگہ پر پیغمبر اکرم (ص) نے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا ۔ اس کے بعد فرمایا:میں عنقریب تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا۔(انّی تارک فیکم الثّقلین،اوّلھما کتاب اللہ فیہ الھدیٰ والنّورواھل بیتی،اذکرکم اللہ فی اھل بیتی)”یعنی میں تمہارے درمیان دو ران قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ا ن میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں نور اور ہدایت ہے اور (دوسری چیز)میرے اھل بیت ہیں ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوںکہ میرے اھل بیت کے سلسلے میں خدا کو فرماوش نہ کرناْ (آنحضرت (ص)نے یہ جملہ تین بار دہرایا)۔(صحیح مسلم ،جلد ۴ صفحہ ۱۸۷۳) ۔

صحیح ترمذی میں بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے اور صریحا مذکور ہے کہ اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہر گزگمراہ نہ ہوگے۔(صحیح ترمذی ،جلد ۵ صفحہ ۶۶۲) یہ حدیث سنن دارمی ، جلد ۲ صفحہ ۴۴۲۲ ،خصائص نسائی صفحہ ۲۰ ، مسند احمد،جلد ۵ صفحہ ۱۸۲ اور کتاب کنز العمال جلد ۱۰ صفحہ ۱۸۵ حدیث ۹۴۵ اور دیگر مشہور و معروف اسلامی کتب میں مذکور ہے۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت میں اس ھدیچ کا شمار ان متواتر احادیث میں ہوتا ہے جن کا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ مختلف مواقع پر یہ حدیث بیان فرمائی ہے۔

وااضح سی بات ہے کہپیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت کے سارے لوگ اس عظیم مرتبے کے حامل اور قرآن کے ہم پلّہ نہیں ہو سکتے۔لہٰذا یہ پیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت میں سے فقط معصوم اماموں کی طرف اشارہ ہے(یاد رہے کہ صرف کمزور اور مشکوک احادیث میں اہل بیتی کی جگہ لفط سنّتی مذکور ہے)۔

اس سلسلے میں ہم ایک اور معروف حدیچ سے استدلال کریں گے (جو صحیح بخاری ،صحیح مسلم،صحیح ترمذی،صحیح ابوداؤد ۔مسند حنبل اور دیگر کتب میں مذکور ہے)۔پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے:(لا يزال الّذین قائما حتّیٰ تقوم السّاعة او يکون علیکماثنٰی عشر خلیفة کلّهم من قریش ) یعنی دین اسلام قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت اآجائے یا بارہ خلیفہ تم پر حکومت کریں،یہ خلفاء سب کے سب قریش سے ہوں گے۔(صحیح مسلم ،جلد ۳ صفحہ ۱۴۵۳ میں یہ عبارت ---” جابر ابن سمرہ“نے نبی اکرم سے نقل کی ہے۔یہی عبارت مختصر سے فرق کے ساتھ مذکورہ بالا کتب میں مذکور ہے۔دیکھئے صحیح بخاری،جلد ۴ صفحہ ۱۰۱ ،صحیح ترمذی،جلد ۴ صفحہ ۵۰۱ اورصحیح ابی داؤد،جلد ۴ کتاب المہدی)

ہمارا عقیدہ ہے کہ :ان روایا ت کی قابل قبول تفسیر صرف وہی ہو سکتی ہے جو بارہ اماموں کے متعلق شیعہ امامیہ نے کی ہے۔ذرا غور فرمائیں کہ کیا اسکے علاوہ کوئی معقول تفسیر ہو سکتی ہے؟

۵۱ ۔پیغمبر اکرم کے ذریعہ،حضرت علی (ع)کا تعین

ہمارا عقیدہ ہے کہ :پیغمبر اسلام (ص) نے متعدد جگہوں پرحضرت علی (ع) کو بالخصوص اپنے جانشین کے طور پر (خدا کے حکم سے)معین فرمایا ہے۔چنانچہ ایک دفعہ حجةالوداع سے لوٹتے وقت صحابہ کے ایک عظیم اجتماع میں غدیر خم (جحفہ کے نزدیک ایک جگہ) کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:(ایهاالنّاس الست اولٰی بکم من انفسکم قالوا بلیٰ،قال فمن کنت مولاه فعلی مولاه ) یعنی اے لوگوں کیا میں تم پر تمہاری بہ نسبت زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟انہوںنے کہا،کیوں نہیں ۔آپ (ص) نے فرمایا :بس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی (ع) مولا ہے)۔(یہ حدیث متعدد اسناد کے ذریعہ نبی اکرم (ص) سے نقل ہوئی ہے ۔حدیث کے راویوں کی تعداد ۱۱۰ اصحاب اور ۸۴ تابعین سے زیادہ ہے۔ ۳۶۰ سے زیادہ مشہور اسلامی کتابوں میں یہ حدیث منقول ہے جس کی تفصیل اس مختصر سی کتاب میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ دیکھئے پیام قرآن ،جلد ۹ صفحہ ۱۸۱ اور مابعد۔)

یہاں چونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ان عقائد کی مزید دلائل بیان کریں اور بحث اور تمحیص کو طول دیں لہٰذایہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ایک عام سی خوشنودی یا محبت کے اظہار کا عنوان دیا جا سکتا ہے جبکہ پیغمبر اسلام (ص) نے اتنے بڑے اہتمام اور تاکید کے سا تھ اسے بیان کیا ہے۔

کیا یہ وہی چیز نہیں ہے جس کا ابن کثٰیر نے اپنی تاریخ ”الکامل“میں ذکر کیا ہے؟کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی تبلیغ کے آغاز میں قرآنی آیت(انذر عشیرتک الاقربین) کے نزول کے بعد اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور انکے سامنے اسلام پیش کرنے کے بعد فرمایا:

(ایّکم یوازرنی علیٰ هٰذاالامر علیٰ ان یکون اخی و وصیّی و خلیفتی فیکم ) یعنی تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ و جانشین ہو؟

حضرت علی (ع) کے سوا کسی نے پیغمبر (ص) کی بات کا جواب نہیں دیا ۔حضرت علی (ع) نے عرض کیا-:(انا یا نبیّ الله اکون وزیرک علیه ) یعنی اے اللہ کے نبی میں اس کام میں آپ کا وزیر اور مددگار بنوں گا۔

پیغمبر اکرم نے انکی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:(انّ هٰذا اخی و وصیّی وخلیفتی فیکم )یعنی بہ تحقیق یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے۔(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۶۳ ، مطبوعہ بیروت /دارصادرم، مسند احمد بن حنبل،جلد ۱ صفحہ ۱۱ ،شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۳ صفحہ ۲۱۰ و دیگر مئولفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں یہی بات بیان کی ہے۔)

کیا وہ مسئلہ نہیں ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام (ص)اپنی عمر کے آخری حصّہ میں ایک بار پھر کرنا چاہتے تھے اور اسکی تاکید کرنا چاہتے تھے؟صحیح بخاری کے بقول آنحضرت (ص)نے حکم ددیا:(ایتونی اکتب کتابا لن تضلّوا بعده ابدا ) یعنی کوئی چیز (کاغز و قلم ) لے آؤتاکہ تمہارے لئے ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم ہر گز گمراہ نہ ہوں گے۔اسی حدیث میں مذکور ہے کہ بعض حضرات نے اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی مخالفت کی یہاں تک کہ بہت ہی توہین آمیز بات کی اور رکاوٹ بن گئے۔(بخاری نے جلد ۵ صفحہ ۱۱ باب ”مرض النبی“ میں یہ حدیث بیان کی ہے۔اس سے زیادہ واضح صحیح مسلم ،جلد ۳ صفحہ ۱۲۵۹ میں مذکور ہے۔)

ہم ایک بار پھر اس بات کی تکرار کریں گے کہ یہاں ہمارا مقصد عقائد کو مختصر سے استدلال کے ساتھ بیان کرنا ہے اور زیادہ تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے،وگرنہ گفتگو کا انداز کچھ اور ہوتا۔

۵۲ ۔ہر امام کی تاکید،اپنے بعد والے امام کے بارے میں

ہمارا عقیدہ ہے کہ :بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی تائید اس سے پہلے والے امام کے ذریعہ ہوتی ہے۔سب سے پہلے امام ھضرت علی علیہ السلام ہیں ان کے بعد انکے بیٹے امام حسن علیہ السلام ،ان کے بعد امام علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے سےدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام محمد باقی علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے امام جعفربن محمد الصادق علیہ السلام،انکے بعد انکے بیٹے امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے علی ابن موسیٰ الرّضا علیہ السلام،پھر انکے بیٹے محمد ابن علی التقی علیہ السلام ،ان کے بعد انکے بیٹے علی ابن محمد النقی علیہ السلام،ان کے بعد ان کے بیٹے ھسن ابن علی العسکری علیہ السلاماور سب سے آخری امام محمد بن الحسن المھدی علیہ السلام ہیں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں لیکن لوگوں کی نظر وں سے غائب ہیں۔

البتہ حضرت مہدی علیہ السلام (جو دنیا کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی) کے وجود پر ایمان صر ف ہمارے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔بعض سنی علماء نے حضرت امام مہدی علیہ السلام سے متعلق روایات کے متواتر ہونے پر الگ کتابیں لکھی ہیں۔(رابطةالعالم الاسلامی) کی طرف سے شائع ہونے والے رسالے میں چند سال قبل امام مہدی علیہ السلام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امام (ع) کے ظہور کو حتمی قرار دیاگیا تھا اور ساتھ ہی امام حضرت مہدی علیہ السلام کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) کی مشہور و مستند روایات کے کافی سارے اسناد کا ذکر ہوا تھا(یہ خط ۲۴ شوال ۱۳۹۶ ہجری کو ”رابطةالعالم الاسلامی“ سے ” مجمع الفقہ الاسلامی“ کے ڈائرکٹرمحمدالمنتصرالکتانی کے دستخط کے ساتھ شائع ہوا ہے۔) البتہ ان میں بعض اس بات کے قائل ہیںکہ حضرت مہدی علیہ السلام آخری زمانے میں متولد ہوں گے۔لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ بارہویں امام ہیں اب بھی زندہ ہیں اور جب خداانہیں زمین سے ظلم و جور کاخاتمہ کرنے ا ور حکومت عدل الھٰی قائم کرنے کا حکم دے گا تو وہ خروج کریں گے۔

۵۳ ۔حضرت علی (ع) سب صحابہ سے افضل ہیں ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ:حضرت علی علیہ السلام سب صحابہ سے افضل ہیں ۔پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اسلامی امت میں ان کا مقام سب سے بڑا ہے۔اس کے باوجود ان کے بارے میں ہر قسم کا غلو حرام ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی علیہ السلام کے لئے مقام الوہیت اور ربوبیت یا اس طرح کی کسی بات کے قائل ہیں وہ کافر اور مسلمانوں کے زمرے سے خارج ہیں۔ ہم ان کے عقائد سے بےزار ہیں ۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شیعوں کے ساتھ انکا ملتا جلتا نام اس سلسلے میں غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔حالانکہ علماء شیعہ امامیہ نے ہمیشہ اپنی کتابوں میں اس گروہ کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔

۵۴ ۔صحابہ،عقل اور تاریخ کی عدالت میں

ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر (ص) کے اصحاب میں بڑے عظیم،جاں نثار اور عظمت والے لوگ تھے ۔قرآن و حدیث نے انکی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تمام اصحاب پیغمبر (ص) کو معصوم سمجھنے لگیں اور کسی استثناء کے بغیر ان کے اعمال کو درست قرار دیں ۔کیونکہ قرآن نے بہت سی آیات (سورئہ توبہ،سورئہ نور ،اور سورئہ منافقین کی آیات)میں ایسے منافقین کا تذکرہ کیا ہے جو اصحاب پیغمبر (ص) میں شامل تھے۔ظاہری طور پر وہ ان کا حصّہ تھے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کی بہت زیادہ مذمت کی ہے۔دوسری طرف سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبر (ص) کے بعد مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکائی،انہوں نے وقت کے امام اور خلیفہ کی بیعت توڑ دی اور دسیوں ہزار مسلمانوں کا خون بہایا۔ کیا ہم یہ کہ سکتے ہیںکہ یہ افراد ہر لحاظ سے پاک و منزّہ تھے؟

بالفاظ دیگر نزاع اور جنگ(مثلا جنگ جمل و صفین) کے دونوں فریقوں کو کس طرح صحیح اور درست قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ تضاد ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔کچھ لوگ اس کی توجیہ کے لئے ”اجتہاد“ کے بہانے کو کافی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک فریق حق پر تھا اور دوسرا خطا کار لیکن چونکہ اس نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ہے لھذٰا خدا کے نزدیک اسکا عذر قابل قبول ہے،،بلکہ اسکو صواب ملے گا ۔ہمارے لئے اس استدلال کو قبول کرنا مشکل ہے۔

اجتہاد کا بہانہ بنا کر پیغمبر (ص) کے جانشین کی بیعت کیسے توڑی جا سکتی ہے؟ اور پھر جنگ کی آگ بھڑکا کر بے گناہ لوگوں کا خون کیسے بہایا جا سکتا ہے؟اگراجتہاد کا سہارا لیکر اس قدر بے تہاشا خونریزی کی توجیہ کی جا سکتی ہے تو پھر کون سا ایسا کام ہے جسکی توجیہ نہ ہو سکے؟

ہم واضح طور پر کہیں گے کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے تمام انسانوں ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی اچھائی برائی کا سار و مدار انکے اعمال پر ہے۔قرآن کا یہ زرّین اصول( انّ اکرمکم عند الله اتقٰیکم ) یعنی خدا کے نزدیک تم سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے(سورئہ حجرات آیت ۱۲) ان کو بھی شامل ہے۔

لھٰذا ہمیں ان کے اعمال سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یوں ہم ان سب کے بارے میں ایک منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے کہ سکتے ہیں کہ جو لوگ آنحضرت (ص) کے دور میں مخلص اصحاب کی صف میں شامل تھے اور پیگمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد بھی وہ اسلام کی حفاظت میں کوشاں رہے اور قرآن کے ساتھ اپنے وعدہ کو نبھاتے رہے،ہم ان کو اچھا سمجھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن جو لوگ آنحضرت لے دور میں منافقین کی صف میں شامل تھے اور انہوں نے ایسے کام کئے جن سے پیغمبر (ص) کا دل دکھایا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور ایسے کام کئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ تھے تو ہم انہیں نہیں مانتے۔ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے( لا تجد قوما یومنون بالله والیوم الآخر یوآدّون من حآدّالله ورسوله ولوکانوا آبائهم او ابنائهم او اخوانهم اوعشیرتهم اولٰٓئک کتب فی قلوبهم الایمان ) یعنی آپ خدا اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو خدا اور رسول (ص) کے ساتھ نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے، اگر چہ وہ ان کے باپ ،اولاد ،بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ ہیں جن کے صفحات قلوب پر اللہ نے ایمان کو لکھ دیا ہے۔(سورئہ مجادلہ ،آیت ۲۲)

جی ہاں ؛جو لوگ پیغمبر (ص) کی زندگی میں یا حضور کی ر حلت کے بعد پیغمبر (ص) کو تکلیف پہونچاتے رہے وہ ہمارے عقیدہ کے مطابق احترام کے قابل نہیں ہیں۔

لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پیغمبر (ص) کے بعض اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں انجام دی ہیں ۔ خدا نے بھی ان کی تعریف و تمجید کی ہے۔اسی طرح جو لوگ ان کے بعد آئے یا دنیا کے خاتمہ تک آتے رہیں گے اگر وہ حقیقی اصحاب کے راستہ پر چلتے ہوئے ان ک کے مشن کو آگے بڑھائیں تو وہ بھی تعریف اور تمجید کے لائق ہیں ۔ارشاد ہوتا ہے( السّابقون الاوّ لون من المهاجرین والانصار والّذین اتّبعوهم باحسان رضی الله عنهم و رضوا عنه ) یعنی مھاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اوّلین افراد نیز نیکیوں میں انکی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں ۔(سورئہ توبہ ،آیت ۱۰۰)

یہ ہے پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب کے متعلق ہمارے عقیدہ کا خلاصہ ۔

۵۵ ۔اہل بیت ،علوم پیغمبر (ص) سے ماخوز ہیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ :چونکہ متواتر روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے ہمیں اہل بیت کے متعلق حکم دیا ہے کہ ہم ان دونوں کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ ہم ہدایت پائیں،نیز چونکہ ہم آئمّہ اہل بیت (ع) کو معصوم سمجھتے ہیں ،اس لئے ان کی ہر بات اور ان کا ہر عمل ہمارے لئے حجت اور دلیل ہے ۔اسی طرح ان کی تقریر (یعنی ان کے سامنے کوئی کام انجام پائے اور وہ اس سے منع نہ کریں ) بھی حجت ہے۔بنا بریں قرآن و سنت کے بعد ہمارا ایک فقہی ماخذ آئمہ اہل بیت (ع) کا قول،فعل اور تقریر ہے۔

اور چونکہ متعدد اور معتبر روایات کے مطابق آئمّہ اہل بیت (ع) نے فرمایا ہے کہ ان کے فرامین رسول اللہ (ص) کی احادیث ہیں جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ،بنابر ایں واضح ہے کہ حقیقت میں ان کے فرامین پیغمبر (ص) کی روایات ہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے ثقہ اور با اعتماد شخص کی روایت علمائے اسلام کے نزدیک قابل قبول ہے۔

امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے جابر سے فرمایا(یا جابر انّالو کنّانحدّثکم براٴینا و هو ان ا لکنّا من الهالکین ،ولکن نحدّثکم باحادیث نکنذها عن رسول الله صلّی الله علیه وآله وسلّم )یعنی اے جابر ؛اگر ہم اپنی رائے اور خواہشات نفسانی کی بناء پر تمہارے لئے کوئی بات بیان کریں تو ہم تباہ ہونے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ لیکن ہم تمہارے لئے ایسی احادیچ نقل کرتے ہیں جو ہم نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے خزانہ کی صورت میں جمع کی ہیں ۔

(جامع احادیث الشیعہ ،جلد ۱ صفحہ ۱۸ از مقدمات ،حدیث ۱۱۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ کسی نے امام (ع) سے سوال کیا اور حضرت (ع) نے جواب دیا ۔ اس شخص نے امام کی رائے تبدیل کرنے کی غرض سے بحث شروع کر دی تو امام صادق (ع) نے فرمایا :(ما اجبتک فیه من شئی فهو عن رسول الله )یعنی میں نے تجھے جو جواب دیا ہے وہ پیغمبر (ع) سے منقول ہے(اور اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے)۔(اصول کافی ،جلد ۱ صفحہ ۵۸ حدیث ۱۲۱)

قابل غور اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حدیث کے سلسلہ میں ہمارے پاس کافی،تحذیب،استبصار، من لا ےحضرہ الفقیہ اور دوسری معتبر کتابیں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہر روایت ہماری نظر میں قابل قبول ہے بلکہ روایات سے متعلق کتب کے ساتھ ہمارے پاس علم رجال کی کتب بھی موجود ہیں ،جن میں ہر طبقہ کے راویان احادیث پر بحث کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ روایت قابل قبول ہے،جس کی سند میں مذکور تمام افراد ثقہ اور قابل اطمینان ہوں ۔لہٰذا ان مشہور اور معتبر کتب میں جو روایات اس شرط کی حامل نہ ہوں وہ ہماری نظر میں قابل قبول نہیں ۔

علاوہ از ایں ممکن ہے کہ کوئی روایت ایسی ہو جس کا سلسلہ سندبھی معتبر ہو لیکن ابتداء سے لے کر آج تک ہمارے بڑے بڑے علماء اور فقہاء نے اسے نظر انداز کیا اور اس پر عمل نہ کیا ہو ا ور انہیں اس میں کچھ دیگر نقائص نظر آتے ہو ں ۔ اس قسم کی روایت کو ہم ”معرض عنھا“ کہتے ہیں ۔ یہ ہماری نظر میں معتبر نہیں ۔

بنابر ایں یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ ہمارا عقیدہ جاننے کے لئے فقط اور فقط ان کتب میں موجود کسی ایک روایت یا مختلف روایات کا سہارا لیتے ہیں،بغیر اس کے کہ روایت کی سند کے بارے میں کوئی تحقیق کریں انکا طریقہ کار غلط ہے۔

بعض معروف اسلامی فرقوں میں ”’صحاح “کے نام سے کتابیں موجود ہیں ،جن میں موجود روایات کا صحیح ہونا ان کتابوں کے مصنّفین کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز دوسرے لوگ بھی ان روایات کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے نزدیک موجود معتبر کتابیں اس طرح نہیں ہیں ۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کے مصنّفین معروف اور قابل اعتماد شخصیات ہیں ۔ لیکن ان کتابوں میں موجود روایات کی سند کا صحیح ہونا علم رجال کی کتب کی روشنی میں راویوں کی تحقیق پر موقوف ہے۔

مذکورہ بالا نکتے کی طرف توجہ ہمارے عقائد کے متعلق پیدا ہونے والے بہت سے سوالوں کا جواب دے سکتی ہے ۔ جس طرح اس سے بے توجہی ہمارے عقائد کی پہچان کے سلسلے میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔

بہر حال قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص)کی احادیث کے بعد ہماری نظر میں بارہ اماموں (ع) کی احادیث معتبر ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام سے ان احادیث کا صدور معتبر طریقہ سے ثابت ہو۔

مختلف مسائل

گزشتہ ابواب میں ذکر ہونے والے مباحث میں نے دین اسلام کی بنیادوں سے متعلق ہمارے نظریاتی وا عتقادی اصولوں کو واضح کیا۔ان کے ساتھ ساتھ ہمارے عقائد کی کچھ اورخاص باتیں ہیں جواس باب میں بیان کی جاتی #ہیں۔

۵۶ ۔حسن و قبح کا مسئلہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ انسانی عقل بہت سی اشیاء کی خوبی و بدی اور حسن و قبح کا ادراک کر سکتی ہے ۔ یہ خو ب و بد کی پہچان ،اس طاقت کی بدولت ہے جو خدا نے انسان کو عطا کی ہے۔بنابر ایں آسمانی شریعتوں کے نازل ہونے سے پہلے بھی بعض امور عقل کی بدولت انسانوں کے لئے واضح تھے۔مثلا عدل اور نیکی کی خوبی ، ظلم و ستم کی برائی نیز ہدایت ،امانت، شجاعت اور سخاوت جیسی بہت سی اخلاقی صفات کی اچھائی اسی طرح جھوٹ ،خیانت ،بخل اور اس طرح کی دوسری صفات کی برائی و قباحت،ان امور میں سے ہیں جنہیں عقل درک کرتی ہے۔ لیکن چونکہ عقل تمام اشیاء کی اچھائی اور برائی کو سمجھنے سے عاجز ہے اور انسان کی معلومات بہر حال محدود ہیں اس لئے ادیان الھٰی،آسمانی کتب اور انبیاء ،خدا کی طرف سے اس امر کی تکمیل کے لئے بھیجے گئے ،تاکہ وہ عقلی ادراکات کی بھی تاکید کریں اور ان تاریک گوشوں کو بھی نمایاں کریں جن کے ادراک سے عقل عاجز ہے۔

اگر حقائق کی پہچان کے سلسلے میں ہم عقل کی ذاتی صلاحیت کے سرے سے ہی منکر ہوجائیںتو پھر توحید ،خدا شناسی اور آسمانی ادیان کی بات ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ وجود خدا کا اثبات اور بعثت انبیاء کی حقانیت صرف عقل کے ذریعہ ہی قابل اثبات ہے۔یہ بات واضح ہے کہ شرعی تعلیمات اس صورت میں قابل قبول ہیں جب یہ دو اصول (توحید و نبوت)پہلے عقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ہو چکے ہوں ۔صرف شرعی دلیل کے ذریعہ ان دونوں موضوعات کا اثبات نا ممکن ہے۔

۵۷ ۔عدل الھٰی

مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پرہم خدا کے عادل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس بات کو محال سمجھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں پر ظلم کرے یا بلا وجہ کسی کو سزا دے یا بلا وجہ کسی کو معاف کر دے ۔یہ محال ہے کہ وہ اپنا وعدہ وفا نہ کرے اور محال ہے کہ برے اور خطاکار شخص کو اپنی طرف سے نبوت اور رسالت کا مقام عطا فرمائے اور اسے معجزات سے نوازے۔

نیز یہ بھی محال ہے کہ اس نے اپنے جن بندوں کو سعادت کا راستہ طے کرنے کے لئے پیدا کیا ہے،انہیں کسی راہنما اور رہبر کے بغیر سرگرداں چھوڑ دے،کیونکہ یہ سبکام برے اور قبیح ہیں ۔قرآنی آیات ایسی آیات سے بھری پڑی ہیں جو عقل اور عقلی دلائل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔جادئہ توحید پر گامزن ہونے کے لئے قرآ ن نے ارباب عقل و خرد کو زمین اور آسمان میں موجود خدا کی نشانیوں کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی ہے۔( انّ فی خلق السّمٰوات والارض واختلا ف ا للّیل والنّهار لآیات لاولی الالباب ) )(سورئہ آل عمران ،آیت ۱۹۰)

دوسری طرف سے انسانی عقل و شعور میں اضافہ کو خدا کی نشانیوں کے بیان کا ہدف قرار دیا۔(انظر کیف نصرّف الآیات لعلّھم یفقھون )یعنی دیکھو کہ ہم مختلف تعبیروں سے کس طرح اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ لیں ۔(سورئہ انعام ،آیت ۶۵)

تیسرا نکتہ :ان دونوں باتوں کے علاوہ تمام انسانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ نیکیوں اور برائیوں میں تمیز کریں۔ اور اس سلسلہ میں قوت فکر سے کام لیں ۔ارشاد ہوتا ہے کہ( قل هل یستوی الاعمی والبصیر افلا تتفکّرون ) )یعنی کیا نابینا اور بینا(نادان اور دانا )برابر ہیں ؟کیا تم فکر نہیں کرتے ؟(سورئہ انعام ،آیت ۵۰)

چوتھا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ :جو لوگ اپنے کانوں ،آنکھوں اورزبان سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل و خرد سے استفادہ نہیں کرتے انہیں زمین پر چلنے والوں میں سب سے بد ترین حیوان قرار دیا گیا ہے۔(انّ شرّ الدّوآب عند اللہ الصمّ البکم الّذین لا یعقلون)یعنی خدا کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں سب سے برے وہ بہرے اور گونگے افراد ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے(سورئہ انفال ،آیت ۲۲) اور بھی متعدد آیات اس بات کو بیان کرتی ہیں ۔

ان دلائل کی موجودگی میں اسلام کے اصول و فروع کے حوالے سے ہم عقل و خرد اورتفکر کی قوّت سے کیسے چشم پوشی کر سکتے ہیں ؟

خدا وند عالم کے لئے برے اور قبیح کام کا امکان نہیں ہے۔

آزادی انسان

۵۹ ۔فقہ کا ایک ماخذ عقل ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ:دین اسلام کا ایک بنیادی ماخذ مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں عقل ہے۔یعنی یہ کہ عقل ےقینی طور پر کسی چیز کو درک کرے اور اسکے بارے میں فیصلہ کرے۔مثال کے طور پر اگر( بطورفرض)قرآن اور سنت میں ظلم و خیانت ،جھوٹ ،قتل،چوری اور لوگوں کے حقوق پامال کرنے کی حرمت پر کوئی دلیل ہی نہ ہوتی و ہم دلیل عقلی کے ذریعہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے اور ےقین رکھتے کہ اس عالم اور حکیم خدا نے ہم پر یہ چیزیں حرام کر دی ہیں اور وہ ان کی انجام دہی پر راضی نہیں ہے۔عقل کا یہ حکم ہمارے اوپر حجت محسوب ہوتا۔

۶۰ ۔عدل الھٰی پر ایک نظر

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ہم خدا کے عادل ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ ےقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے کسی بندہ پر کوئی ظلم نہیں کرتا کیونکہ ظلم ایک برا اور نا پسندیدہ کام ہے اور خدا کی ذات اس طرح کے کام سے پاک اور منزہ ہے(ولا یظلم ربّک احدا)یعنی تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا۔(سورئہ کہف ،آیت ۴۹)

اگر دنیا اور آخرت میں بعض افراد کو سزا ملے گی تو اس کااصل سبب وہ خود ہیں۔( فما کان الله لیظلمهم ولکن کانوا انفسهم یظلمون ) )یعنی خدا نے عذاب الہٰی میں مبتلا ہونے والی گزشتہ (اقوام )پر ظلم نہیں کیا (سورئہ توبہ،آیت ۷۰) بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے۔

نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی خدا ظلم نہیں کرتا ۔( وما الله یرید ظلما للعالمین ) یعنی خدا اہل عالم پر ظلم کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۱۰۸) یاد رہے کہ یہ تمام آیات حکم عقل کی طرف راہنمائی کر رہی ہے اور اسی کی تاکید کر رہی ہیں۔

تکلیف مالا یطاق

تکلیف مالا یطاق کی نفی مذکورہ وجوہات کی بنا پر ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہر گز تکلیف مالا یطاق (انسان کی طاقت سے باہر کاموں ) کا حکم نہیں دیتا( لایکلّف الله نفسا الّا وسعها ) (سورئہ بقرہ،آیت ۲۸۶)

۶۱ ۔المناک حادثات کا فلسفہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں جو المناک واقعات رو نما ہوتے ہیں (مثلا زلزلے ، مصیبتیںاور مشکلات)مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں وہ کبھی تو خدا کی طرف سے سزا کے طور پر واقع ہوتے ہیں جیسا کہ قوم لوط کے متعلق فرمایا ہے( فلمّا جآء امرنا جعلنا عٰالیها سافلها وامطرنا علیهم حجارة من سجّیل منضود ) یعنی جب عذاب کے بارے میں ہمارا حکم آگیا تو ہم نے انکے شہروں کو ملیا میٹ کر دیا اور ان پر پتھروں کی موسلا دھار بارش نازل کر دی۔(سورئہ ہود ،آیت ۸۲)

اور ”سبا“ کے سرکش اور ناسپاس لوگوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے(فاعرضوا فارسلنا علیھم سیل العرم)(سورئہ سبا ،آیت ۱۶) یعنی انہوں نے خدا کی اطاعت سے منہ موڑ لیا اور ہم نے تباہ کن سیلاب انکی طرف بھیج دیا۔

نیز ان میں سے نعض واقعات انسانوں کو بیدار کرنے کے لئے ہوتے ہیں تاکہ وہ حق کے راستے کی طرف لوٹ آئیں ۔( ظهر الفساد فی البرّ والبحر بما کسبت اید النّاس لیذیقهم بعض الّذی عملوا لعلّهم یرجعون ) خشکی اور سمندروں میں لوگوں کے کاموں کی وجہ سے خرابی آشکار ہو گئی۔خدا چاہتا ہے کہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے ۔شاےد وہ لوٹ آئیں۔(سورئہ روم ،آیت ۴۱) لہٰذا اس طرح کی مصیبتیں حقیقت میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ ہیں۔

بعض مصیبتیں ایسی ہیں جو انسان خود اپنے لئے ڈھونڈ لاتا ہے۔با الفاظ دیگر وہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔( انّ الله لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسهم ) یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔(سورئہ رعد ،آیت ۱۱)

( ما اصابک من حسنة فمن الله وما اصابک من سیّئة فمن نفسک ) یعنی جو نیکی تجھے نصیب ہو وہ خدا کی طرف سے ہے (اور اس کی مدد سے ہے)اور جو برائی تجھے لاحق ہو وہ خود تیری طرف سے ہے۔(سورئہ نساء،آیت ۷۹)