ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے0%

ہمارے عقیدے مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہمارے عقیدے

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13814
ڈاؤنلوڈ: 2892

تبصرے:

ہمارے عقیدے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13814 / ڈاؤنلوڈ: 2892
سائز سائز سائز
ہمارے عقیدے

ہمارے عقیدے

مؤلف:
اردو

۶۲ ۔ کائنات کا نظام سب سے بہترین نظام ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ کائنات عالی ترین نظام کا نظارہ پیش کر رہی ہے ۔یعنی اس کائنات کا موجودہ نظام ممکنہ نظاموں میں سب سے بہتر نظام ہے۔ہر چیز حساب کتاب کے مطابق ہے اس میں حق ،عدل ،انصاف اور نیکی کی منافی کوئی بات موجود نہیں ہے۔اگر انسانی معاشرہ میں کوئی برائی نظر آرہی ہے تو یہ خود انکی طرف سے ہیں۔

ہم یہ بات دہراتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے کائنات کے بارے میں اسلامی نظریہ کہ ایک اصلی بنیاد عدل الہٰی ہے۔اس کے بغیر توحید ،نبوّت اور معاد کا نظریہ بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے،ذرا غور کیجئے۔

ایک حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پہلے فرمایا”انّ اساس الدین التوحید والعدل “یعنی دین کی بنیاد توحید اور عدل ہیں ۔اس کے بعد فرمایا”امّا التوحید فان لا تجوزعلیٰ ربّک ما جاز علیک و امّا العدل فان لا تنسب الیٰ خٰالقک ما لامک علیہ“یعنی توحید یہ ہے کہ جو باتیں تیرے کئے روا نہیں ہیں ،انہیں خدا کے لئے روا نہ سمجھ۔(اسے ممکنات کی تمام صفات سے پاک و منزہ سمجھو)اور عدل یہ ہے کہ تم خدا کی طرف کسی ایسے کام کی نسبت نہ دوجسے اگر تم انجام دو تو وہ اس پر تمہاری مذمت کرے۔غور کیجئے(بحار الانوار ،جلد ۵ صفحہ ۱ حدیث ۲۳)

۶۳ ۔فقہ کے چار ماخذ

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہمارے فقہی منابع(ماخذ)چار ہیں ۔

۱ ۔”کتاب اللہ“یعنی قرآن مجید جو اسلامی معارف اور احکام کی بنیاد ہے۔

۲ ۔پیغمبر اسلام (ص) اور آئمّہ معصومین علیہم السلام (اہل بیت) کی سنت۔

۳ ۔علماء اور فقہاکا اجماع و اتفاق جو معصوم کی رائے کا مظہر ہو۔

۴ ۔عقل،عقل یا دلیل عقلی سے مراد ےقینی اور قطعی دلیل عقلی ہے۔جو دلیل عقلی ظنّی ہو(مثلا قیاس ،استحسان وغیرہ )وہ ہمارے نذدیک کسی بھی فقہی مسئلہ میں قابل قبول نہیں ہے ۔لہٰذا اگر فقیہ اپنے گمان کے مطابق کسی چیز میں مصلحت دیکھے لیکن اس کے مطابق قرآن اور سنت میں کوئی مخصوص حکم نہ ہو تو وہ اپنے گمان کو حکم خدا کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔اسی طرح شرعی احکام اخذ کرنے کے لئے ظنّی قیاسات اور اس طرح کی چیزوں کا سہارا لینا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔لیکن جن مقامات پر انسان کو ےقین حاصل ہو جائے (جیسے ظلم،جھوٹ ،چوری اور خیانت کی برائی کا ےقین)تو ان مقامات پر عقل کا حکم معتبر ہے۔عقل کا یہ قطعی حکم ”کلّ ما حکم به العقل حکم به الشرع “(عقل جس چیز کا حکم دے شرع کا حکم بھی وہی ہوگا) کے قاعدہ کے تحت حکم شرعی محسوب ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ عبادتی،سیاسی ،اقتصادی اور سماجی امور میں مکلّف لوگوں کے لئے ضروری مسائل کے متعلق پیغمبر (ص) اور آئمّہ علیہم السلام کی احادیث ہمارے یہاں موجود ہیں اور ظنّ اور گمان پر مشتمل دلیلوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مسائل مستحدثہ (یعنی وہ مسائل جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو پیش آتے ہیں ) کی پہچان کے سلسلہ میں بھی کتاب خدا نیز رسول (ص) اور آئمّہ (ع) کی سنت میں اصول اور ضوابط بیان کر دئے گئے ہیں،جن کے بعد ہمیں اس طرح کے ظنّی مسائل کی ضرورت نہیں رہتی ۔یعنی ان قواعد اور ضوبط کی طرف رجوع کرنے سے مسائل مستحدثہ کا حکم معلوم ہو جاتا ہے۔(اس مسئلہ می تفصیل بیان کرنے کی گنجائش اس مختصر سی کتاب میں نہیں ہے،کتاب ”المسائل المستحدثة“میں ہم نے یہ بات تفصیل سے بیان کی ہے )۔

۶۴ ۔اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ:شریعت کے تمام مسائل میں اجتھاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہو ا ہے۔تمام صاحب نظر فقہاء مذکورہ بالا چار فقہی ماخذ سے احکام خداوندی کا استنباط کر سکتے ہیں جو استنباط کی قدرت نہیں رکھتے ،اگر چہ انکی آراء سے بطور کامل مطابقت نہ رکھتی ہوں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ:جو لوگ فقہ میں صاحب نظر نہیں ان کو ہمیشہ ایسے زندہ فقہاء کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو زمانہ کے تقاضوں اور مسائل سے آگاہ ہوں ۔یعنی انکی تقلید کریں ۔فقہ ست نا بلد لوگوں کا فقہ کے ماہرین کی طرف رجوع کرنا ہمارے نزدیک ایک بدیہی ضرورت ہے۔ان فقہاء کو مرجع تقلید کہتے ہیں ،اسی طرح ہم مرد ہ فقیہ کی تقلید ابتدائی طور پر جائز نہیں سمجھتے۔لوگوں کو زندہ فقیہ کی تقلید کرنی چاہئے تاکہ فقہ ہمیشہ ترقی اور تکامل کی طرف رواں دواں رہے۔

۶۵ ۔قانون سازی کی ضرورت نہیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ:اسلام میں قانونی خلا موجود نہیں ہے۔یعنی اسلام نے قیامت تک کے لوگوں کے لئے ضروری احکام بیان کر دئے ہیں ،البتّہ گاہے خاص صورت میں اور کبھی ایک عام اور کلّی حکم کے ضمن میں ۔اسی وجہ سے ہمارے نزدیک فقہاء کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ۔بلکی ہم انکی ذمّہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا چال ماخذ سے احکام اخذ کریں اور سب کے سامنے رکھیں ۔کیا خود قرآن نے سورئہ مائدہ (جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہونے والی آخری سورت یا آخری سورتوں میں سے ایک ہے)میں یہ نہیں فرمایا( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ) یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کر دی اور اسلام کو تمہارے دین کے طور پر قبول کر لیا (سورئہ مائدہ ،آیت ۳) اگر اسلام تمام زمانوں اور ادوارکے لئے مکمل فقہی احکام کا حامل نہ ہو تو وہ کامل دین کیسے ہو سکتا ہے؟

کیا ہم پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّمکی یہ حدیث نہیں دیکھتے”یا ایّها النّاس والله ما من شئی یقرّبکم من الجنّةو یباردکم عن النّار الّا وقد امرتکم به وما من شئی یقرّبکم من النّار و یباعد کم عن الجنّة الّا و قد نهیتکم عنه “یعنی اے لوگوں ؛ہر وہ چیز جو تمکو بہشت سے نزدیک کرتی ہے اور دوزخ کی آگ سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے اور ہر وہ چیز جو تمہیں جہنم کی آگ سے نزدیک کرتی ہے اور جنت سے دور کرتی ہے میں نے تمہیں اس سے روکا ہے۔(اصول کافی ،جلد ۲ صفحہ ۷۲ اور بحار الانوار ،جلد ۶۷ صفحہ ۹۶) ۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ایک مشہور حدیث ہے ”ما ترک علیّ شئیاالّا کتبه حتّیٰ ارش الخدش “یعنی حضرت علی (ع) نے اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں چھوڑا جسے آپ نے (حضور کے حکم سے اور آپ کے لکھوانے پر)لکھ نہ لیا ہو ۔یہاں تک کہ ایک معمولی سی خراش (کہ جو انسانی بدن پر آتی ہے) کی دیت بھی(جامع الاحادیث ،جلد اول ،صفحہ ۱۸ حدیث ۱۲۷ ،اسی کتاب میں اس سلسلہ کی اور بھی روایات مذکور ہیں )۔

بنابریں ظن وگمان پر مبنی دلائل اور قیاس و استحسان کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

۶۶ ۔تقیہ اور اس کا فلسفہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ:جب بھی انسان متعصب ،ہٹ دھرم اور غیر معقول افراد کے درمیان اس طرح پھنس جائے کہ ان کے درمیان اپنے عقیدہ کا اظہار اس کے لئے جانی یا مالی خطرہ کا باعث ہو اور عقیدہ کے اظہارکا کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں اس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے اور نہ اپنی جان گنوائے۔اس عمل کا نام” تقیہ “ ہے۔ہم نے یہ بات قرآن مجید کی دو آیتوں اور عقلی دلیل سے اخذ کی ہے۔

قرآن مومن آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔( وقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه ا تقتلو ن رجلاان یقول ربّی الله و قد جآئکم بالبینآت من رّبکم ) )یعنی آل فرعون میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا (موسیٰ(ع) کا دفاع کرتے ہوئے ) کہا :کیا تم اس مرد کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے؟حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح دلائل لیکر آیا ہے۔(سورئہ مومن ،آیت ۲۸)

ےکتم ایمانہ کا جملہ صریح الفاظ میں تقیہ کا مسئلہ بیان کر رہا ہے ۔کیا یہ درست تھا کہ مومن آل فرعون اپنا ایمان ظاہر کرتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے جبکی کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا؟

صدر اسلام کے بعض مجاہد اور مبارز مومنین کو جو متعصب مشرکین کے چنگل میں پھنس چکے تھے ،ا ن کو تقیہ کا حکم دیتے ہوئے قرآن یوں فرماتا ہے( لا یتخذ المومنون الکافرین اولیآء من دون المومنین و من یفعل ذٰلک فلیس من الله فی شئی الّا ان تتّقوا منهم تقاة ) یعنی با ایمان لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کریگا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا مگر یہ کہ (تم خطرہ کے وقت)ان سے تقیہ کرو۔(سورئہ آل عمران ،آیت ۲۸)

بنابر ایں تقیہ (یعنی عقیدہ کو چھپانا)وہاں جائز ہے جہاں انسان کی جان ، مال اور عزت کو متعصب اور ہٹ دھرم دشمنوں سے خطرہ ہو اور وہاں عقیدہ کے اظہار کا فائدہ بھی کچھ نہ ہو۔ایسے موقعہ پر بلا وجہ انسان کو خطرہ میں ڈالنا اور افردای قوّت کو ضائع کرنا صحیح اور معقول نہیں ہے۔بلکہ اسے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔اسی لئے حضرت امام جعفر صادق (ع) کی مشہور حدیث ہے۔”التقیة ترس المومن“یعنی تقیہ مومن کی ڈھال ہے(وسائل ،جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۱ حدیث ۶ باب ۲۴ ۔بعض احادیث میں ”ترس اللہ فی الارض“یعنی زمین میں خدا کی ڈھال کے الفاظ مذکور ہیں۔)

یعنی ترس(ڈھال ) کا استعمال اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ تقیہ دشمن کے مقابلہ میں دفاع کا ایک ذیعہ ہے۔

مشرکین کے مقابلہ میں عمار یاسر کے تقیہ کرنے اور پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے اس پر ان کی تائےد فرمانے کا واقعہ بہت مشہور ہے۔(بہت سے مفسرین، مورّخین اور ارباب حدیث نے اپنی مشہور کتاب میں یہ حدیث بیان کی ہے ۔واحدی نے اسباب النزول میں اور طبری ،قرطبی ،زمخشری ،فخر رازی ،بیضاوی اور نیشاپوری نے اپنی تفسیر کی کتابوں میں ،سورئہ نحل کی آیت ۱۰۶ کے ذیل میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔)

جنگ کے میدانوں میں دشمن سے اسلحہ اور سپاہیوں کو چھپانا اور جنگی رازوں کو مخفی رکھنا وغیرہ سب کے سب انسانی زندگی میں ایک قسم کا تقیہ ہیں۔بہر حال جہاں حقیقت کا اظہار خطرہ کا یا نقصان کا باعث ہو اور اظہار کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو وہاں تقیہ کرنا (یعنی چھپانا)ایک عقلی اور شرعی حکم ہے جس پر نہ فقط شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمان ،بلکہ دنیا کے تمام عقلاء ضرورت کے وقت عمل پیرا ہوتے ہیں ۔

اس کے باوجود تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ تقیہ کو شیعوں اور مکتب اہل بیت کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں اور اسے ان کے خلاف ایک اہم اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ بات بالکل واضح ہے۔تقیہ کا سرچشمہ قرآن ،سنّت ،نبی (ص)کے صحابہ کی سیرت اور دنیا کے تمام عقلاء کا طرز عمل ہے۔

۶۷ ۔تقیہ کہاں حرام ہے؟

ہمارا عقیدہ ہے کہ:مذکورہ بدگمانیوں کی وجہ ،شیعہ عقائد سے نا آگاہی یا شیعہ دشمن عناصر سے شیعہ عقائداخذ کرنے کا عمل ہے۔ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ بالا وضاحت سے بات مکمل طور پر صاف ہو گئی ہو گی۔

البتّہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض جگہوں پر تقیہ حرام ہے۔یہ وہاں ہے جہاں تقیہ کرنے سے دین،اسلام اور قرآن کی بنیاد یا اسلامی نظاموں کو خطرہ لاحق ہو جائے ۔ایسی جگہوں پر عقیدہ کا اظہار ضروری ہے۔اگر چہ انسان اس اظہار عقیدہ کی وجہ سے جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اسی نظرئے پر عمل کیاکیونکہ بنی امیہ کے حکمرانوں نے اسلام کی اساس کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔امام حسین علیہ السلام کے قیام نے ان کے کرتوتوں کا پردہ چاک کردیا اور اسلام کو خطرہ سے بچا لیا۔

۶۸ ۔ اسلامی عبادات قرآن و سنت نے جن عبادتوں پر زور دیا ہے ہم ان پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے پابند ہیں ، مثلا نماز پنجگانہ جوخالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ کی کڑی ہے ۔اسی طرح رمضان المبارک کے روزے جو ایمان کی تقویت ،تزکیہ نفس اور تقویٰ کا بہترین ذریعہ ہے اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کا ہتھیار ہیں۔

ہم صاحب استطاعت افراد پر زندگی میں ایک بار حج خانہ خدا کو واجب سمجھتے ہیں جو تقویٰ اختیار کرنے اور باہمی محبت کے بندھنوں کو مضبوط کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے نیز مسلمانوں کی عزت کا باعث ہے ۔ہم زکات المال ،خمس ،امر بالمعروف ،نہی عن المنکر نیز اسلام اور مسلمانوں پر حمل ور ہونے والوں کے خلاف جھاد کو بھی مسلمات میں شمار کرتے ہیں ۔

ہمارے اور بعض دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان ان مسائل کے بعض جزئیات میں اختلاف ہے ،بالکل اسی طرحجس طرح اہل سنت کے چار فرقے بھی عبادات میں اور دوسرے احکامات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔

۶۹ ۔دونمازوں کو ساتھ پڑھنا

ہمارا عقیدہ ہے کہ : نمازظھر و عصر یا مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے(اگرچہ انہیں انہیں الگ الگ وقت میں پڑھنا افضل اور بہتر ہے) ہمارا عقیدہ ہے کہ :نبی اکرم (ص)کی طرف سے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ان لوگوں کی حالت کے پیش نظر ہے جو مشکلات سے روبرو ہیں۔

صحیح ترمزی میں ابن عباس سے یوں منقول ہوا ہے کہ”’جمع رسول الله (ص)بین الظهر والعصر و بین المغرب والعشاء بالمدینةمن غیر خوف والمطر،قال تقول لابن عباس ما اراد بذٰلک ؟قال اراد ان لا یحرج امته “‘یعنی مدینہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے ظھر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھیں حالانکہ نہ کوئی خطرہ تھا اور نہ بارش تھی ۔ابن عباس سے دریافت کیا گیا کہ اس کام سے آنحضرت کا کیا مقصد تھا ؟ تو اس نے جواب دیا تاکہ اپنی امت کو مشکل میں نہ ڈالیں(یعنی جس مقام پر دو نوں نماز وں کو ایک ساتھ پڑھنا زحمت کا باعث ہو وہاں اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے)(سنن ترمزی ،جلد ا صفحہ ۳۵۴ باب ۱۳۸ اور سنن بیہقی،جلد ۳ صفحہ ۶۷ ۔)

خاص کر موجودہ دور میں جب کہ معاشرتی زندگی خاص کر کارخانوں اور مصروف صنعتی مراکز میں بڑی پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے اور پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی پابندی کی شرط کے باعث بعض لوگوں نے نماز کو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے یہ جو اجازت عطا فرمائی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے نماز کو زیادہ پابندی سے ادا کیا جا سکتا ہے۔

۷۰ ۔خاک پر سجدہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ :مٹی یا زمین کے دوسرے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہوں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی نیز دیگر پودوں پر سوائے ان چیزوں کے جو کھائی جاتی ہیں یا پہننے کے کام آتی ہیں۔

لہذٰا قالین وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ہم مٹی پر سجدہ کرنے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ،اسی لئے آسانی کی وجہ سے بہت سے شیعہ سانچے میں ڈھلے ہوئے پاک مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے پاس رکھتے ہیں جسے سجدہ گاہ کہتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں ۔یہ پاک بھی ہے اور مٹی بھی۔

اس سلسلہ میں ہماری دلیل نبی اکرم (ص) کی یہ مشہور حدیث ہے۔-”جعلت لی الارض مسجدا و طهورا “ہم یہاں لفط مسجد کو ”سجدہ کی جگہ“کے معنی میں لیتے ہیں ۔ یہ حدیث اکثر کتب صحاح اور دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔(بخاری نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم (جلد ا صفحہ ۹۱) میں ،نسائی نے اپنی صحیح میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے باب التےمم بالصعید میں اسے ذکر کیا ہے۔مسند احمد میں یہ حدیث ابن عباس سے منقول ہے ۔دیکھئے جلد ۱ صفحہ ۳۰۱ ،شیعہ کتب میں بھی پیغمبر اکرم (ص)سے یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نماز کی جگہ ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے عمل کی نفی کرتی ہے جو صرف ایک مخصوص مقام پر نماز پڑھتے ہیں ۔لیکن اس بات کے پیش نظر کہ یہاں طہور یعنی ”تےمم کی مٹی“کی بات آئی ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اس مسجد سے مراد سجدہ کی جگہ ہے۔یعنی زمین کی مٹی طہور بھی ہے اور سجدہ کرنے کی جگہ بھی۔

اس کے علاوہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں مٹی اور پتھر وغیرہ کو سجدہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔

۷۱ ۔انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت

ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،آئمہ اہل بیت علیہم السلام ،عظیم علماء ،دانشمندوں اور راہ حق کے شہیدوں کے مزارات کی زیارت سنت موکدہ ہے۔

اہل سنت کی کتابوں میں نبی اکرم (ص) کے روضہ مبارک کی زیارت کرنے کے بارے میں بے شمار روایات موجود ہیں ۔شیعہ کتابوں میں بھی یہ بات مذکور ہے۔اگر ان روایتوں کو اکٹھا کر دیا جائے تو ایک الگ کتاب بن سکتی ہے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے ،اسی طرح زیارت کے سلسلہ میں بزرگوں کے کلمات اور حالات دیکھنے کے لئے الغدیر ،جلد ۵ ،صفحہ ۹۳ تا ۲۰۷ کی طرف رجوع کریں ۔)

ہر دور میں تمام بڑے علماء اور لوگوں کے طبقوں نے اس کو اہمیت دی ہے۔کتابیں ان لوگوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔جو رسول اکرم (ص)یا دوسرے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے۔(ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے نیز زیارت کے بارے میں بزرگوں کے اقوال اور حالات کے مطالعہ کے لئے سابقہ ماخز کی طرف رجوع کریں۔)بہر حال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ زیارت اور عبادت کے درمیان فرق کو نہیں بھولنا چاہئے ۔عبادت و پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے جبکہ زیارت کا مقصد بزرگان دین کا احترام ،ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور خدا کے حضور ان سے شفاعت طلب کرنا ہے۔یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آنحضرت (ص) اہل قبور کی زیارت کے لئے جنت البقیع جاتے اور ان کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔(یہ روایات صحیح مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ، مسند احمد ،صحیح ترمذی اور سنن بیہقی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔)

بنابر ایں اسلامی فقہ کے نقطئہ نظر سے اس کام کے جواز میں کسی شخص کو شک نہیں کرنا چاہئے ۔

۷۲ ۔مراسم عزا داری کا فائدہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ-:شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔اسی لئے ہم مختلف دنوں بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں عزا داری مناتے ہیں جو رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کے لخت جگر ،بہشت کے جوانوں کے سردار (”الحسن والحسین سيدا شباب اهل الجنة “حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔یہ حدیث صحیح ترمذی جلد ۲ صفحہ ۳۰۹،۳۰۷ ، میں ابو سعید خدری اوٖر حذیفہ سے منقول ہے۔نیز صحیح ابن ماجہ باب فضائل اصحاب رسول اللہ (ص) مستدرک الصحیحین ،حلیةالاولیاء ،تاریخ بغداد ،اصابة ابن حجر ،کنز العمال ،ذخائر اعقبی اور دوسری بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔)امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں۔ہم ان کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔

ےزید ایک فاجر،خود سراور اسلام سے بیگانہ شخص تھا ۔لیکن بد قسمتی سے اسلامی خلافت پر قابض تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے سن ۶۱ ہجری میں اس کے خلاف قیام کیا۔اگر چہ وہ اور ان کے تمام ساتھی عراق میں کربلا نامی سرزمین پر شہید کر دئے گئے اور انکی خواتین قیدی بنا لی گئیں لیکن انکے خون نے اس دور کے تمام مسلمین میں ایک حیرت انگیز جزبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔بنی امیہ کے خلاف ےکے بعد دیگر بغاوتیں ہونے لگیں۔ان بغاوتوں نے بنی امیہ کے ظلم وستم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔آخر کار انکا ناپاک وجود ختم ہو گیا ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ واقعہ عاشورہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جتنی بغاوتیں ہوئیں سب کا عنوان ”الرضا لآل محمد “اور ”يالثارات الحسین “کے نعرے تھے ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نعرے تو بنی عباس کے ابتدائی دورر حکومت میں بھی بلند ہوتے رہے۔(ابو مسلم خراسانی جس نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا،اس نے مسلمانوں کی بعد ہم دردیاں حاصل کرنے کے لئے الرضا لآل محمد کا نعرہ لگایا ۔کامل ا بن اثیر ،جلد ۵ صفحہ ۳۷۲ ۔توابین کا قیام بھی”یا لثارات الحسین “کے نعرہ سے شروع ہوا۔الکامل ،جلد ۴ صفحہ ۱۷۵ ۔مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کا قیام بھی اسی نعرہ کے ساتھ ہوا تھا،جلد ۴ صفحہ ۲۸۸ ۔بنی عباس کے خلا ف جن لوگوں نے قیام کیا ان میں سے ایک حسین ابن علی شہیدفتح ہیں۔انہوں نے اپنا مقصد ایک جملے میں اس طرح بیان کیا ۔”و ادعوکم الیٰ الرضا من آل محمد “یعنی مین تمہیں آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۲۹۹ اور تاریخ طبری ،جلد ۸ صفحہ ۱۹۴)

امام حسین علیہ السلام کا خونچکاں قیام آج ہم شیعوں کے لئے ہر قسم کی استبدادیت یا سینہ زوری اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نمونئہ عمل اور لا ئحہ عمل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ”ھیھات منّاالذلّة“(ہم ہر گزذلت قبول نہیں کرتے )اور ”انّ الحیاة عقیدة و جھاد “(زندگی ایمان اور جھاد ہے) کے نعروں نے،جو کربلا کی خونین تحریک کا عطیہ ہےںہماری ہمیشہ مدد کی ہے تاکہ ہم ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سےد الشہدا ء امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی پیروی کرتے ہوئے ظالم کے شر کو دفع کریں ۔(انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نعرہ ہر طرف دکھائی دیتے ہیں )۔

مختصر یہ کہ شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ یہ ہے ان واقعات کو زندہ رکھنے اور ہر سال عزاداری کا سلسلہ باقی رکھنے کا فلسفہ ۔

ممکن ہے بعض لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ہم عزاداری کے مراسم میں کیا کرتے ہیں اور وہ اسے ایک ایسا تاریخی واقعہ سمجھے کہ جس پر عرصہ سے فراموشی کی گرد و غبار پڑی ہو۔لیکن ہم خود جانتے ہیں کہ ان واقعات کی یاد زندہ رکھنے سے ہمارے کل ،آج اور آئندہ کی تاریخ پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور ہوں گے۔

غزوہ احد کے بعد سےد الشہداء حضرت حمزہ پر پیغمر اکرم ْ(ص) اور مسلمانو ں کے سوگ منانے کا واقعہ تاریخ کی سب مشہور کتابوں میں درج ہے ۔ رسول اکرم (ص) انصار کے ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے ۔ آپ (ص) نے گریہ اور نوحہ کی آواز سنی۔ آپ کی آنکھیں بھی برسنے لگی اور چہرئہ اقدس سے آنسوں بہنے لگے ۔ آپ (ص) نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں ہے۔سعد بن معاز نے جب یہ بات سنی تو وہ قبیلہ بنی عبد الاشہل کے بعض لوگوں کے پاس گئے اور انکی عورتوں کو حکم دیا :آنحضرت (ص) کے چچا کے گھر جاؤ اور سےد الشہدا ء حمزہ کا سوگ مناؤ(کامل ابن اثیر ،جلد ۲ صفحہ ۱۶۳ و سیرہ ابن ہشام ،جلد ۳ صفحہ ۱۰۴) ۔

واضح ہے کہ یہ کام حضرت حمزہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ باقی تمام شہداء کے معاملہ میں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے انکی یاد زندہ رکھیں اور اس طریقہ سے مسلمانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑاتے رہیں ۔اتفاقا آج جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں عاشورہ کا دن ہے( ۱۰ محرم الحرام ۱۴۱۲ ہجری)۔

آج پورے عالم تشیع میں سچ مچ ایک عظیم ولولہ موجزن ہے۔جوان ،نوجوان اور بوڑھے سب مل کر سیاہ کپڑے پہنے ہوئے امام حسین (ع) اور شہدا ء کربلا کا سوگ منا رہے ہیں ۔ ان سب کے دلوں اور ذہنوں میں ایک ایسا انقلاب برپا ہے کہ اگر انہیں اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کہا جائے تو سب اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر جائیں گے اور کسی قسم کی قربانی اور جاں نثاری سے دریغ نہیں کریں گے۔گویا سب کی رگوں میں شہادت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس وقت اور اس گھڑی حضرت امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو اسلام کی قربان گاہ کربلا میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔

ان پر شکوہ مراسم میں جو ولولہ انگیز اشعار پڑھے جاتے ہیں وہ استعمار اور استکبار کے خلاف دندان شکن نعروں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔