وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 33%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 100110 / ڈاؤنلوڈ: 5468
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

٨۔ کافر

مسئلہ ١٠٧ کافر یعنی وہ شخص جو خدا یا حضرت خاتم الانبياء(ص) کی رسالت یا قيامت کا منکر ہو یا خدا اور رسول(ص) ميں شک رکھتا ہو، یا کسی کو خدا کا شریک گردانتا ہو یا خدا کے ایک ہونے کے بارے ميں مشکوک ہو، نجس ہے ۔

اسی طرح خوارج یعنی وہ افراد جو امام معصوم عليہ السلام کے خلاف خروج کریں، غلات یعنی وہ افراد جو کسی بھی امام عليہ السلام کی خدائی کے قائل ہوں یا یہ کہتے ہوں کہ خدا ان ميں حلول کر گيا ہے اور نواصب یعنی ہر وہ فرد جو کسی بھی امام عليہ السلام یا جناب سيدہ حضرت فاطمہ زهرا عليهاالسلام کا دشمن ہو(نجس ہيں ) اور (اسی طرح) ہر وہ فرد جو ضروریات دین مثلاً نماز اور روزے ميں سے کسی کا یہ جاننے کے باوجود کہ ضروریاتِ دین ميں سے ہے ، منکر ہوجائے نجس ہے ۔

اور اہل کتاب یعنی یهودی اور عيسائی اقویٰ یہ ہے کہ پاک ہيں ، اگر چہ احوط یہ کہ ان سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ١٠٨ کافر کا تمام بدن حتیٰ اس کے بال، ناخن اور رطوبتيں بھی نجس ہيں ۔

مسئلہ ١٠٩ اگر نابالغ بچے کے باپ، ماں، دا دا اور دادی کافر ہوں تو وہ بچہ بھی نجس ہے سوائے اس کے کہ مميز ہو اور اسلام کا اظهار کرتا ہواور اگر ان ميں سے ایک بھی مسلمان ہو تو بچہ پاک ہے مگر یہ کہ مميز ہو اور کفر کا اظهار کرتا ہو۔

مسئلہ ١١٠ جس شخص کے متعلق يہ علم نہ ہو کہ مسلمان ہے یا نہيں تو وہ پاک مانا جائے گا ليکن اس پر اسلام کے دوسرے احکام کا اطلاق نہيں ہوگا، مثلاًنہ ہی وہ مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان ميں دفن کيا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ١١١ جو شخص چودہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی ایک کو بھی دشمنی کی بناپر گالی دے، نجس ہے ۔

٩۔ شراب

مسئلہ ١١٢ شراب اور نشہ آور نبےذ نجس ہے ۔ اس کے علاوہ بهنے والی نشہ آور چيزوں ميں سوائے فقاّع کے کہ جس کا حکم بعد ميں آئے گا، احتياط مستحب اجتناب ہے ا ور اگر بهنگ و چرس کی طرح بهنے والی نہ ہوں تو پاک ہيں چاہے ان ميں کوئی چيز ڈال کر انہيں رواں بنا دیا جائے۔

مسئلہ ١١٣ صنعتی الکحل جو دروازے، کهڑکياں، ميزیں اورکرسياں وغيرہ رنگنے کے لئے استعمال ہوتی ہيں ان کی تمام قسميں پاک ہيں ۔

مسئلہ ١١ ۴ اگر انگور یا انگور کے رس ميں پکانے پر ابال آجائے تو پاک ہيں ليکن ان کا کھانا پينا حرام ہے اور اگر آگ کے علاوہ کسی اور چيز سے ابال آجائے تو ان کا کھانا پينا حرام ہے اور احتياط کی بنا پر نجس ہيں ۔

۲۱

مسئلہ ١١ ۵ کھجور، منقیٰ، کشمش اور ان کے رس ميں اگرچہ ابال بھی آجائے، پاک ہيں اور ان کا کھانا حلال ہے ۔

١٠ ۔ فقاّع (جوَ کی شراب)

مسئلہ ١١ ۶ فقّاع جو کہ جَوسے تيار ہوتی ہے اور اسے آبِ جوَکہتے ہيں نجس ہے ليکن وہ پانی جو طب کے قاعدے کے مطابق جَو سے حاصل کيا جاتا ہے اور ماء الشعير کهلاتا ہے پاک ہے ۔

مسئلہ ١١٧ جو شخص فعل حرام سے جنب ہوا ہو اس کاپسينہ پاک ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اس کے ساته نماز نہ پڑھی جائے اور حالت حيض ميں بيوی سے صحبت کرنا بھی حرام سے جنب ہونے کا حکم رکھتا ہے ۔

مسئلہ ١١٨ اگر کوئی شخص ان اوقات ميں بيوی سے جماع کرے جن ميں جماع حرام ہوتا ہے ، مثلاً رمضان المبارک ميں دن کے وقت، تو اس کا پسينہ پاک ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اس کے ساته نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ ١١٩ اگر حرام سے جنب ہونے والا غسل کے بجائے تيمم کرے اور تيمم کے بعد اسے پسينہ آجائے تو احتياط واجب کی بنا پراس پسينے کا حکم وهی ہے جو تيمم سے پهلے والے پسينے کا تھا۔

مسئلہ ١٢٠ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوجائے اور پھر اس عورت سے جماع کرے جو اس کے لئے حلال ہے تو اس کے لئے احتياط واجب یہ ہے کہ اس پسينے کے ساته نماز نہ پڑھے، اور اگر پهلے اس عورت سے جماع کرے جو حلال ہو اور بعد ميں حرام کا مرتکب ہو تو اس کا پسينہ حرام سے جنب ہونے والے کے پسينے کا حکم نہيں رکھتا۔

مسئلہ ١٢١ انسانی نجاست کھانے والے اونٹ کا پسينہ احتياط کی بنا پر نجس ہے ۔ اس کے علاوہ ہر اس حيوان کا پسينہ جسے انسانی نجاست کھانے کی عادت ہو اگر چہ پاک ہے ليکن ان ميں سے کسی کے ساته نماز جائز نہيں ہے ۔

نجاست ثابت ہونے کے طريقے

مسئلہ ١٢٢ کسی بھی چيز کی نجاست تين طریقوں سے ثابت ہوتی ہے :

١)یہ کہ خود انسان کو یقين یا اطمينان ہوجائے کہ فلاں چيز نجس ہے اور اگر کسی چيز کے متعلق گمان ہو کہ نجس ہے تو اس سے پرہيز کرنا ضروری نہيں ہے ، لہذایسے قهوہ خانوں اور ہوٹلوں سے کھانا کھانے ميں ، جهاں لاپروا اور نجاست و طهارت کا لحا ظ نہ رکھنے والے افراد بھی کھانا کھاتےہوں، جب تک انسان کو اطمينان نہ ہو جائے کہ اس کے لئے لایا جانے والا کھانا نجس ہے ، کوئی حرج نہيں ۔

۲۲

٢)جس شخص کے اختيار ميں کوئی چيز ہو وہ اس کے بارے ميں کهے کہ نجس ہے جب کہ وہ جھوٹا نہ سمجھا جاتا ہو مثلاً کسی شخص کی بيوی یا نوکر یاملازمہ جب کہ وہ جھوٹے نہ ہوں کہيں کہ برتن یا کوئی دوسری چيز جو ان کے اختيار ميں ہے نجس ہے ۔

٣)دو عادل مرد کہيں کہ ایک چيز نجس ہے تو وہ نجس ہوگی، بلکہ ایک عادل شخص یا ایک قابل اعتماد شخص جو خواہ عادل نہ بھی ہو کسی چيز کے بارے ميں کهے کہ نجس ہے ا ور اس کی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو تو اس چيزسے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٢٣ اگر کوئی شخص مسئلے سے عدم واقفيت کی بنا پر یہ نہ جان پائے کہ ایک چيز نجس ہے یا پاک مثلاً اسے یہ علم نہ ہو کہ خون پاک ہے یا نجس توضروری ہے کہ مسئلہ پوچه لے اور مسئلہ معلوم ہونے تک احتياط کرے، ليکن اگر مسئلہ جانتا ہو اور کسی چيز کے بارے ميں صرف شک ہو کہ پاک ہے یا نہيں مثلاً اسے شک ہو کہ وہ چيز خون ہے یا نہيں یا یہ تو جانتا ہو کہ خون ہے ليکن یہ نہ جانتا ہو کہ مچہر کا خون ہے یا انسان کا،تو وہ چيز پاک ہوگی اور اس کے بارے ميں چھان بين کرنا یا پوچهنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۴ اگر کسی نجس چيز کے بارے ميں شک ہو کہ پاک ہوئی ہے یا نہيں تو وہ نجس ہے اور اگر کسی پاک چيز کے بارے ميں شک ہو کہ نجس ہوگئی ہے یا نہيں تو وہ پاک ہے اور اگر کوئی شخص ان چيزوں کے نجس یا پاک ہونے کے متعلق معلوم بھی کر سکتا ہو تو تحقيق ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٢ ۵ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ جو دو برتن یا دو کپڑے وہ استعمال کرتا ہے ان ميں سے ایک نجس ہو گيا ہے ليکن اسے یہ علم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سا نجس ہوا ہے تو ضروری ہے کہ دونوں سے اجتناب کرے اور مثال کے طور پر اگر یہ نہ جانتا ہو کہ خود اس کا کپڑا نجس ہوا ہے یا کسی دوسرے کا جو اس کے زیر اختيار نہيں ہے اور کسی دوسرے شخص کی ملکيت ہے تو اپنے کپڑے سے اجتناب کرنا ضروری نہيں ہے ۔

پاک چيز کيسے نجس ہوتیہے

مسئلہ ١٢ ۶ اگر ایک پاک چيز ایک نجس چيز سے متصل ہوجائے اور دونوں یا ان ميں سے ایک اس قدر تر ہو کہ ایک کی رطوبت دوسری تک پهنچ جائے تو پاک چيز بھی نجس ہوجائے گی، ليکن اگر تری اتنی کم ہو کہ رطوبت ایک شے سے دوسری شے تک نہ پهنچے تو پھر پاک چيز نجس نہ ہوگی۔

اور مشهور قول ہے کہ جو چيز نجس ہو گئی ہو وہ خود دوسری چيز کو مطلقاً نجس کر دیتی ہے ، ليکن یہ حکم پهلے واسطے کے علاوہ، جب کہ آب قليل یا دوسرے مایعات کے علاوہ کسی اور چيز سے ملاقات کرے، محل اشکال ہے اوردوسرے اور تيسرے واسطے کے ذریعے نجس ہونے والی چيزسے احتياط کی مراعات ترک نہ کی جائے۔

۲۳

مسئلہ ١٢٧ اگر کوئی پاک چيز کسی نجس چيز کو لگ جائے اورشک ہو کہ آیا یہ دونوں یاان ميں سے کوئی ایک تر تھی یا نہيں ، تو پاک چيز نجس نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٢٨ اگر دو چيزوں کے بارے ميں یہ علم نہ ہو کہ ان ميں سے کون سی پاک ہے اور کون سی نجس، جب کہ علم نہ ہو کہ پهلے یہ دونوں نجس تہيں اور پھر ان ميں سے کسی ایک کے ساته ایک پاک اور تر چيز مس ہو جائے تو وہ نجس نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١٢٩ اگر زمين اور کپڑا یا انهی جيسی اور چيزوں ميں منتقل ہونے والی رطوبت ہو تو ان کے جس جس حصے کو نجاست لگے گی وہ نجس ہو جائے گا اور باقی حصہ پاک رہے گا۔ یهی حکم کهيرے، خربوزے اور ان جيسی چيزوں کے بارے ميں ہے ۔

مسئلہ ١٣٠ جب شيرے، تيل، گهی یا ایسی ہی کسی اور چيز کی صورت ایسی ہو کہ اگر اس کی کچھ مقدار نکال لی جائے تو اس کی جگہ خالی نہ رہے تو جوں ہی وہ ذرہ بھر بھی نجس ہوگا سارے کا سارا نجس ہو جائے گا، ليکن اگر اس کی صورت ایسی ہو کہ نکالنے کے مقام پر جگہ خالی رہے اگرچہ بعد ميں پر ہوجائے، تو صرف وهی حصہ نجس ہوگا جسے نجاست لگی ہے ، لہٰذا اگر چوهے کی مينگنی اس ميں گر جائے تو جهاں وہ مينگنی گری ہے وہ جگہ نجس اور باقی پاک ہوگی۔

مسئلہ ١٣١ اگر مکهی یا اس جيسی کوئی اور جاندار چيزایک ایسی تر چيز پر بيٹھے جو نجس ہو اور بعد ازاںایک تراور پاک چيز پر جا بيٹھے اور یہ یقين ہوجائے کہ اس جاندار کے ساته نجاست تھی تو پاک چيز نجس ہو جائے گی اور اگر یقين نہ ہو تو پاک رہے گی۔

مسئلہ ١٣٢ اگر بدن کے کسی حصے پر پسينہ ہو اور وہ حصہ نجس ہوجائے اور پھر پسينہ اس جگہ سے بہہ کر بدن کے دوسرے حصوں تک چلا جائے تو جهاں جهاں پسينہ بهے گا بدن کے وہ حصے نجس ہوجائيں گے، ليکن اگر پسينہ آگے نہ بهے تو باقی بدن پاک رہے گا۔

مسئلہ ١٣٣ جوگاڑھی اخلاط (بلغم) یا غير بلغم ناک یا گلے سے خارج ہوتی ہيں اگر ان ميں خون ہو تو وہ مقام جهاں خون ہوگا نجس اور باقی حصہ پاک ہوگا لہٰذا اگر یہ اخلاط ناک یا ہونٹوں کے باہر لگ جائيں تو بدن کے جس مقام کے بارے ميں یقين ہو کہ نجاست والا حصہ وہاں پهنچا ہے وہ نجس ہوگا اور جس مقام کے بارے ميں شک ہو کہ وہاں نجاست والا حصہ پهنچا ہے یا نہيں وہ پاک ہوگا۔

مسئلہ ١٣ ۴ اگر ایک ایسا لوٹا جس کے پيندے ميں سوراخ ہو نجس زمين پر رکھ دیا جائے اور اس کا پانی بهنا بند ہو کر لوٹے کے نيچے اس طرح جمع ہو جائے کہ اسے اور لوٹے کے پانی کو ایک ہی پانی سمجھا جائے تو لوٹے کا پانی نجس ہو جائے گاليکن اگر لوٹے کا پانی تيزی سے بہتا رہے تو نجس نہيں ہوگا۔

مسئلہ ١٣ ۵ اگر کوئی چيز بدن ميں داخل ہو کر نجاست سے جاملے ليکن بدن سے باہر آنے پر نجاست سے آلودہ نہ ہو تو وہ چيز پاک ہے ، چنانچہ اگر انيما کا سامان یا اس کاپانی پاخانہ کے مخرج ميں داخل کيا جائے یا سوئی، چاقو یا کوئی اور

۲۴

ایسی چيز بدن ميں گهس جائے اور باہر نکلنے پر نجاست سے آلودہ نہ ہو تو نجس نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر تهوک اور ناک کا پانی جسم کے اندر خون سے جاملے ليکن باہر نکلنے پر خون آلودہ نہ ہو پاک ہے ۔

احکام نجاسات

مسئلہ ١٣ ۶ قرآن مجيد کی تحریر اور ورق کو نجس کرنا جب کہ یہ فعل قرآن مجيد کی بے حرمتی کا باعث ہو بلا شبہ حرام ہے اور اگر نجس ہوجائے تو فوراً پاک کرنا ضروری ہے ، بلکہ اگر بے حرمتی کا پهلو نہ بھی نکلے تب بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٣٧ اگر قرآن مجيد کی جلد نجس ہو جائے اور اس سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہو توضروری ہے کہ جلد کو پاک کيا جائے۔

مسئلہ ١٣٨ قرآن مجيد کو کسی خشک عين نجس پر رکھنا اگر بے حرمتی کا سبب ہو تو حرام ہے اور اسے اٹھ انا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٣٩ قرآن مجيد کو نجس روشنائی سے لکھنا خواہ ایک حرف ہی کيوں نہ ہو اسے نجس کرنے کا حکم رکھتا ہے ، اور اگر لکھا جا چکا ہو تو اسے پانی سے دهو کر یا ایسے ہی کسی اور طریقے سے مٹانا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ٠ اگر کافر کو قرآن مجيد دینا قرآن مجيد کی بے حرمتی کا باعث ہو تو حرام ہے اور اس سے قرآن مجيد لے لينا واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۴ ١ اگر قرآن مجيد کا ورق یا کوئی ایسی چيز جس کا احترام ضروری ہو مثلاً ایسا کاغذ جس پر الله تعالیٰ، پيغمبر اکرم صلی الله عليہ و آلہ وسلم یا معصومين عليهم السلام ميں سے کسی کا نام لکھا ہوا ہو، بيت الخلاء ميں گر جائے تو اس کا باہر نکالنا اور اسے دهونا واجب ہے خواہ اس پر کچھ رقم ہی کيوں نہ خرچ کرنی پڑے اور اگر اس کا باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس وقت تک اس بيت الخلاء کو استعمال نہ کيا جائے جب تک یہ یقين نہ ہوجائے کہ وہ گل کر ختم ہو گيا ہے ۔

اسی طرح اگر خاک شفا بيت الخلاء ميں گرجائے اور اس کا نکالنا ممکن نہ ہو تو جب تک یہ یقين نہ ہو جائے کہ وہ بالکل ختم ہو چکی ہے اس بيت الخلاء کو استعمال نہيں کيا جاسکتا۔

مسئلہ ١ ۴ ٢ کسی عينِ نجس یا نجس شدہ چيز کا کھانا پينا حرام ہے ۔ یهی حکم کسی اور کو کهلانے پلانے کا ہے ليکن بچے یا پاگل کو کهلانا جائزهے اور اگر بچہ یا دیوانہ شخص نجس غذا کھائے یا پئے یا نجس ہاتھ سے غذا کو نجس کردے اور کھائے تو اسے روکنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۴ ٣ ایسی نجس چيز کا بيچنا یا عاریةً دینا جو پاک ہو سکتی ہو اشکال نہيں رکھتا، ہاں اگر عاریةً لينے والا یا خریدار اس کو کھانے پينے جيسی چيزوں ميں استعمال کرنے والا ہو تو اسے نجاست کے بارے ميں بتانا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۴ اگر ایک شخص کسی دوسرے کو نجس چيز کھاتے یا نجس لباس سے نماز پڑھتے دیکھے تو اسے اس بارے ميں کچھ کهنا ضروری نہيں ۔

۲۵

مسئلہ ١ ۴۵ اگر کسی کے گھر کا کوئی حصہ یا فرش نجس ہو اور وہ دیکھے کہ اس کے گھر آنے والوں کا بدن، لباس یا کوئی اور چيز تری کے ساته نجس جگہ سے جا لگی ہے تو اگر صاحب خانہ اس کا سبب ہو اور ممکن ہو کہ نجاست کھانے پينے کی چيزوں ميں سرایت کر جائے گی تو ان لوگوں کو اس بارے ميں آگاہ کردینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۴۶ اگر ميزبان کو کھانا کھانے کے دوران پتہ چلے کہ غذا نجس ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مهمانوں کو اس کے متعلق آگاہ کردے ليکن اگر مهمانوں ميں سے کسی کو اس بات کا علم ہو جائے تو اس کے لئے دوسروں کو بتانا ضروری نہيں ، البتہ اگر وہ ان کے ساته یوں گهل مل کر رہتا ہو کہ ان لوگوں کے نجس ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی نجس کھانے پينے ميں مبتلا ہوجائے گا توضروری ہے کہ کھانا کها چکنے کے بعد انہيں اطلاع دے دے۔

مسئلہ ١ ۴ ٧ اگر کوئی ادهار لی ہوئی چيز نجس ہو جائے اور اس کا مالک اسے کھانے پينے ميں استعمال کرتا ہو جيسے برتن تو ادهار لينے والے پر واجب ہے کہ مالک کو اس کے نجس ہوجانے کے متعلق بتادے، ليکن اگر اس چيز کی نوعيت لباس کی ہو تو اس کے نجس ہونے کی اطلاع مالک کو دینا ضروری نہيں خواہ یہ علم ہو کہ وہ اس لباس کے ساته نماز پڑھتا ہے سوائے اس کے کہ لباس کا مالک واقعی پاک لباس کے ساته نماز پڑھنا چاہے کہ اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ نجاست کی اطلاع دے دی جائے۔

مسئلہ ١ ۴ ٨ اگر بچہ کهے کہ کوئی چيز نجس ہے یا یہ کہ اس نے کسی چيز کو دهوليا ہے تو اس کی بات پر اعتبار نہيں کيا جا سکتا ليکن اگر بچہ مميز ہو اور کهے کہ اس نے ایک چيز پانی سے دهوئی ہے جب کہ وہ بچہ قابل اعتماد ہو اور اس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو تو اس کی بات قبول کر لی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی چيز کی نجاست کی اطلاع دے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مطهرات

مسئلہ ١ ۴ ٩ بارہ چيزیں نجاست کو پاک کرتی ہيں اور انہيں مطهرات کها جاتاہے :

(١) پانی

(٢) زمين

(٣) سورج

( ۴) استحالہ

( ۵) انقلاب

( ۶) انتقال

(٧) اسلام

۲۶

(٨) تبعيت

(٩) عين نجاست کا زائل ہو جانا

(١٠) نجاست خور جانور کا استبراء

(١١) مسلمان کا غائب ہو جانا

(١٢) ذبح کئے گئے جانور کے بدن سے معمول کے مطابق خون کا نکل جانا۔

ان سب کے تفصيلی احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ پانی

مسئلہ ١ ۵ ٠ پانی چار شرائط کے ساته نجس چيز کو پاک کرتاہے :

١)پانی مطلق ہو، لہذامضاف پانی جيسے گلاب کا پانی یا عرقِ بيد نجس چيز کو پاک نہيں کر سکتا ہے ۔

٢)پانی پاک ہو۔

٣)نجس چيز کو دهونے کے دوران پانی مضاف نہ بن جائے اور جس دهونے کے بعد مزید دهونا ضروری نہ ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ جائے،ليکن آخری دهونا نہ ہونے کی صورت ميں پانی کے بدل جانے ميں کوئی حرج نہيں ، مثلاًاگر کسی چيز کو دو مرتبہ دهونا ضروری ہو تو خواہ پانی کا رنگ، بویا ذائقہ پهلی مرتبہ دهونے کے وقت بد ل جا ئے ليکن دوسری مرتبہ استعمال کئے جانے والے پانی ميں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو وہ چيز پاک ہو جائے گی۔

۴) نجس چيزکوپاک کرنے کے بعد اس ميں عين نجاست کے ذرات باقی نہ رہيں ۔

نجس چيز کو قليل پانی یعنی ایک کرُسے کم پانی سے پاک کرنے کی کچھ اور شرائط بھی ہيں جن کا ذکر بعد ميں کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۵ ١ نجس برتن کے اندرونی حصے کو قليل پانی سے تين مرتبہ دهونا ضروری ہے ،جب کہ کرُ یا جاری پانی ميں ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ليکن وہ برتن جس ميں سے کتے نے کوئی سياّل(بهنے والی)چيز پی ہو تو پهلے ضروری ہے کہ اسے پاک مٹی سے مانجه کرمٹی ہٹالی جائے اور پھر پانی ملی ہوئی مٹی سے مانجها جائے۔ ان دونوں طریقوں کو اختيار کرنااحتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے اور اس کے بعد پانی ڈال کر برتن سے مٹی صاف کر ليں اورپہر کرُ یا جاری پانی سے ایک مرتبہ یا احتياط واجب کی بنا پرقليل پانی سے دو مرتبہ دهوئيں۔

کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو پاک کرنے کے لئے بھی احتياط واجب کی بناپریهی طریقہ اختيار کرنا ضروری ہے ۔

۲۷

مسئلہ ١ ۵ ٢ جس برتن ميں کتے نے منہ ڈالا ہو اگر اس کامنہ اتنا تنگ ہو کہ اسے مٹی سے مانجهانہ جا سکتا ہو، چنانچہ ممکن ہو تو کپڑا یا اسی طرح کی کوئی چيز لکڑی پر لپيٹ کراس کی مدد سے برتن کو مٹی سے مانجهے، پھر اس مٹی کو صاف کر کے دوبارہ پانی ملی ہوئی مٹی سے مانجهے، (خيال رہے)ان دونوں طریقوں کو اختيار کرنا احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر مٹی برتن ميں ڈال کر زور سے هلانے کے ذریعے اس طریقے پر عمل کریں، پھرپچهلے مسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق برتن کو دهوليں۔

مسئلہ ١ ۵ ٣ جس برتن ميں سؤرنے کوئی سيال (بهنے والی) چيز پی ہو یا صحرائی چوہا مر گيا ہو، اسے سات مرتبہ دهونا ضروری ہے ، خواہ قليل پانی سے دهویا جائے یا کرُ یا جاری پانی سے اور بنابر احتياط واجب یهی حکم اس برتن کا ہے جسے سؤر نے چاٹا ہو۔

مسئلہ ١ ۵۴ شراب سے نجس شدہ برتن کو تين مرتبہ دهونا ضروری ہے ۔ اس ميں قليل، کرُ اور جاری پانی ميں کوئی فرق نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ سات مرتبہ دهوئے۔

مسئلہ ١ ۵۵ جو کوزہ نجس مٹی سے بنایا گيا ہو یا ا س ميں نجس پانی سرایت کر گيا ہو، تو اسے کرُ یا جاری پانی ميں ڈالنے پر جهاں جهاں پانی پهنچے گا، کوزہ پاک ہو جائے گا اور اگر کوزے کے اندرونی اجزاء کو بھی پاک کرنا مقصود ہو تو اسے کرُیا جاری پانی ميں اتنی دیر تک پڑے رہنے دینا ضروری ہے کہ پانی تمام کوزے ميں سرایت کر جائے اور اگر اس کوزے ميں کوئی ایسی رطوبت ہو جو پانی کو کوزے کے اندرونی حصوں تک نہ پهنچنے دے تو ضروری ہے کہ اسے خشک کرنے کے بعد کرُیا جاری پانی ميں ڈالا جائے۔

مسئلہ ١ ۵۶ نجس برتن کو قليل پانی سے دو طریقے سے دهویا جا سکتا ہے :

١)برتن کو تين مرتبہ پانی سے بهرا جائے اور ہر مرتبہ خالی کر دیا جائے۔

٢)برتن ميں تين بار مناسب مقدار ميں پانی ڈاليں اور ہر بار پانی کو اس ميں یوں گهمائيں کہ وہ تمام نجس مقامات تک پهنچ جائے اور پھر اسے پھينک دیں۔

مسئلہ ١ ۵ ٧ اگر ایک بڑا برتن مثلاًدیگ یا مرتبان نجس ہو جائے تو تين بار پانی سے بهرنے اور هربار خالی کرنے کے بعد پاک ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر اس ميں تين مرتبہ اوپر سے اس طرح پانی اُنڈیليں کہ اس کی تمام نجس اطراف تک پهنچ جائے اور ہر بار اس کی تہہ ميں جمع شدہ پانی کو باہر نکال دیں تو پاک ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ دوسری اور تيسری بار جس برتن کے ذریعے پانی باہر نکالنا ہو،اسے بھی دهو ليا جائے۔

مسئلہ ١ ۵ ٨ نجس تانبے وغيرہ کو، جنہيں پگهلایا جاتا ہے ، اگر پانی سے دهو ليا جائے تو اس کا ظاہری حصہ پاک ہو جائے گا۔

۲۸

مسئلہ ١ ۵ ٩ پيشاب سے نجس شدہ تنور ميں اگر اوپر سے اس طرح پانی ڈالا جائے کہ اس کی تمام نجس اطراف تک پهنچ جائے تو تنور پاک ہو جائے گا اور اگر تنور پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو تو نجاست دور کرنے کے ساته مذکورہ طریقے کے مطابق اس ميں ایک بار پانی ڈالنا کافی ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ عين نجاست کو زائل کرنے کے بعد پانی ڈالا جائے اور بہتر یہ ہے کہ تنور کی تہہ ميں ایک گڑھا کهود ليا جائے جس ميں پانی جمع ہو سکے، پھر اس پانی کو نکال ليا جائے اور گڑھے کوپاک مٹی سے پُر کر دیا جائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٠ اگر کسی نجس چيز کو کُر یا جاری پانی ميں ایک مرتبہ یوں ڈبو دیاجائے کہ پانی اس کے تمام نجس مقامات تک پهنچ جائے تو وہ پاک ہو جائے گی اور قالين اور لباس وغيرہ کو نچوڑنا یا اس جيسا کوئی طریقہ جيسے ملنا یا پاؤں مارناضروری ہے اور اگر لباس یا اسی طرح کوئی اور چيز پيشاب سے نجس ہو جائے تو جاری یا کرُ پانی سے ایک مرتبہ دهونا کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ١ پيشاب سے نجس شدہ چيز کو اگر قليل پانی سے دهونا مقصود ہو تو جب اس پر ایک مرتبہ پانی ڈالا جائے اور وہ اس سے جدا ہو جائے اس طرح کہ پيشاب اس چيز کے اندر باقی نہ رہے تو دوسری مرتبہ اس کے اوپر پانی ڈالنے سے وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن لباس اور قالين وغيرہ ميں ضروری ہے کہ ہر بار نچوڑنے یا ایسے ہی کسی طریقے سے اس کا غسالہ نکالا جائے۔ ( غسالہ یا دهوون اس پانی کو کہتے ہيں جو کسی دهوئی جانے والی چيز سے دُهلنے کے دوران یا دهل جانے کے بعد خود بخود، نچوڑنے یا اس جيسے کسی طریقے سے نکلتا ہے )

مسئلہ ١ ۶ ٢ جو چيز ایسے شيرخوار بچے کے پيشاب سے جس نے کوئی غذا کھانا شروع نہ کی ہو، نجس ہو جائے اگر اس پر ایک مرتبہ اس طرح پانی ڈالا جائے کہ نجس مقامات تک پهنچ جائے تو وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ مزید ایک بار اس پر پانی ڈالا جائے اور لباس و قالين وغيرہ کو نچوڑنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ جو چيز پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو جائے، اسے قليل پانی سے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عين نجاست زائل کرنے کے ساته ایک مرتبہ اس پر پانی ڈال دیں جو اس چيز سے نکل جائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ پانی عين نجاست کو زائل کرنے کے بعد ڈالا جائے، جب کہ لباس جيسی چيزوں ميں نچوڑنے وغيرہ کے ذریعے غسالہ نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ دهاگوں سے بنی ہوئی نجس چٹائی کو پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نچوڑنے یا اس جيسے کسی طریقے سے اس کا غسالہ نکال دیا جائے، خواہ اسے کُر یا جاری پانی سے پاک کيا جائے یا قليل پانی سے۔

مسئلہ ١ ۶۵ اگر گندم، چاول یا صابن وغيرہ کا ظاہری حصہ نجس ہو جائے تو وہ کرُ یا جاری پانی ميں ڈبونے سے پاک ہو جاتاہے ، ليکن اگر ان کا اندرونی حصہ نجس ہو جائے تو ان کے پاک کرنے کا طریقہ نجس کوزے کو پاک کرنے کے طریقے کی طرح ہے جو مسئلہ نمبر” ١ ۵۵ “ ميں بيان ہو چکا ہے ۔

۲۹

مسئلہ ١ ۶۶ اگر انسان شک کرے کہ نجس پانی صابن کے اندر پهنچا ہے یا نہيں تو اس کا اندرونی حصہ پاک ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ اگر چاول یا گوشت یا ایسی ہی کسی چيز کا ظاہری حصہ پيشاب کے علاوہ کسی اور چيز سے نجس ہو جائے اور اسے ایک پاک طشت ميں رکھ کر، اس پر پانی ڈاليںاور اس پانی کو بها دیں تو وہ چيز اور طشت دونوں پاک ہو جائيں گے، اور اگر یہ چيزیں پيشاب سے نجس ہوئی ہوں تو دو مرتبہ پانی ڈال کر بهانا ضروری ہے ۔

ان دونوں صورتوں ميں اگر برتن پيالہ یا اس جيسی کوئی چيز ہو تو بنا براحتياط واجب تين مرتبہ پانی ڈال کر بهانا ضروری ہے اور وہ چيزیںجن کو پاک کرنے کے لئے نچوڑنا ضروری ہے جيسے لباس تو ضروری ہے کہ اسے نچوڑ کر ا س کا غسالہ نکال ليا جائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ جس نجس لباس کو نيل یا اس جيسی کسی چيز سے رنگا گيا ہو، اگر کرُ یا جاری پانی ميں ڈبو یا جائے یا قليل پانی سے دهویا جائے اور نچوڑتے وقت اس سے مضاف پانی نہ نکلے تو پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ اگر کپڑے کو کرُ یا جاری پانی ميں دهویا جائے او رمثال کے طور پر بعد ميں کائی وغيرہ کپڑے ميں نظر آئے اور یہ احتمال نہ ہو کہ یہ کپڑے کے اندر پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ بنی ہے تو وہ کپڑا پاک ہے ۔

مسئلہ ١٧٠ اگر لباس یا اس سے ملتی جلتی چيز کے دهونے کے بعد اس ميں مٹی یا صابن کے ذرات نظر آئيں تو وہ پاک ہے ، ليکن اگر نجس پانی مٹی یا صابن کے اندر پهنچ چکا ہو تو مٹی اور صابن کا ظاہر پاک اور ان کا باطن نجس رہے گا۔

مسئلہ ١٧١ جب تک کہ کسی چيز سے عين نجاست کو ہٹا نہ دیا جائے وہ پاک نہيں ہو سکتی ہے ، ليکن اگر نجاست کی بویا رنگ باقی رہ جائے تو اس ميں کوئی اشکال نہيں ہے ، لہٰذا اگر خون کو لباس سے بر طرف کر دینے اور پانی سے دهونے کے بعد بھی اس ميں خون کا رنگ باقی رہے تو وہ پاک ہو جائے گا، ليکن اگر کسی چيز ميں بو یا رنگ کی وجہ سے یہ احتمال پيدا ہو کہ اس ميں نجاست کے ذرّے باقی رہ گئے ہيں تو وہ چيز نجس ہو گی۔

مسئلہ ١٧٢ اگر کرُ یاجاری پانی ميں بدن کی نجاست کو دور کيا جائے تو بدن پاک ہو جاتا ہے یهاں تک کہ پيشاب کی نجاست ميں بھی ایک سے زیادہ بار دهونا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ اگر نجس غذا دانتوں کے ریخوں ميں رہ جائے اور پانی منہ ميں بھر کر یوں گهمایاجائے کہ تمام نجس غذا تک پهنچ جائے تو غذا کا ظاہر پاک ہو جائے گا۔

مسئلہ ١٧ ۴ اگر سر اور چھرے کے بالوں کو قليل پانی سے دهویا جائے تو اس سے غسالہ کا نکلنا ضروری ہے ۔

۳۰

مسئلہ ١٧ ۵ اگر بدن یا لباس کا کوئی حصہ قليل پانی سے دهویا جائے تو نجس مقام کے پاک ہونے سے اس مقام سے متصل وہ جگہيں بھی پاک ہو جائيں گی جن تک دهوتے وقت عموماًپانی پهنچ جاتا ہے یعنی نجس مقام کی اطراف کو عليحدہ سے دهونا ضروری نہيں بلکہ وہ نجس مقام کو دهونے کے ساته ہی پاک ہو جاتے ہيں ۔ اسی طرح اگر ایک پاک چيز ایک نجس چيز کے برابر رکھ دیں اور دونوں پر پانی ڈاليں تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ نجس گوشت یا چربی کو دوسری عام چيزوں کی طرح پانی سے دهویا جائے گا۔ یهی صورت اس بدن اور لباس کی ہے جس پر تهوڑی بہت چکنائی ہو جو پانی کو بدن یا لباس تک پهنچنے سے نہ روکے۔

مسئلہ ١٧٧ اگر مثلاًبرتن یا بدن نجس ہو جائے اور بعد ميں اتنا چکنا ہو جائے کہ پانی اس تک نہ پهنچ سکے اور اس برتن یا بدن کو پاک کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ پهلے چکنائی کو دور کيا جائے تاکہ پانی برتن یا بدن تک پهنچ سکے۔

مسئلہ ١٧٨ جس نجس چيز ميں عين نجاست نہ ہو، کرُ پانی سے متصل نل کے نيچے ایک مرتبہ دهونے سے پاک ہو جاتی ہے ، اسی طرح اگر عين نجاست اس کے اندر موجود ہو ليکن نل کے نيچے پانی سے یاکسی اور چيز کے ذریعے اس کی عين نجاست بر طرف ہو جا ئے ا ور اب جو پانی اس چيز سے گرے اس کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل نہ رہا ہو تو نل کے پانی کے سے وہ چيز پاک ہو جائے گی، ليکن اگر اس چيز سے گرنے والے پانی کی بو، رنگ یا ذائقہ نجاست کی وجہ سے بدل جائے تو ضروری ہے کہ نل کا پانی اس کے اوپر اتنا ڈاليں کہ اب جو پانی اس سے جدا ہو اس ميں نجاست کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ ہو۔

مسئلہ ١٧٩ اگر کسی چيز کو پانی سے دهوئے اور یقين ہو جائے کہ پاک ہو گئی ہے اور بعد ميں شک کرے کہ عين نجاست کو اس سے برطرف کيا تھا یا نہيں تو ضروری ہے کہ اسے دوبارہ دهوئے اور یقين یا اطمينان حاصل کرے کہ عين نجاست بر طرف ہو چکی ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ایسی زمين جس کے اندر پانی جذب ہو جاتا ہے مثلاً ریتيلی زمين، اگر نجس ہو جائے تو قليل پانی سے پاک ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٨١ اگر وہ زمين جس کا فرش پتّھریا اینٹوں کا ہو یاکوئی اور سخت زمين جس ميں پانی جذب نہ ہوتا ہو نجس ہو جائے تو قليل پانی سے پاک ہو سکتی ہے ، ليکن ضروری ہے کہ اس پر اتنا پانی ڈالاجائے کہ بهنے لگے۔ اب جو پانی اس کے اوپر ڈالا گيا تھا اگر کسی سوراخ (یا نالی وغيرہ)سے نکل جائے تو ساری زمين پاک ہو جائے گی اور اگر پانی باہر نہ نکل سکے بلکہ کسی جگہ جمع ہو جائے تو باقی زمين پاک ہو جائے گی ليکن یہ جگہ نجس رہے گی اور اس جگہ کو پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی پاک چيز کے ذریعے جمع شدہ پانی کو نکال ليا جائے اور بہتر یہ ہے کہ پانی جمع کرنے کے لئے گڑھا کهود ليا جائے تاکہ پانی اس ميں جمع ہو جائے اور اس کے بعد پانی کو اس سے نکال کر گڑھے کو پاک مٹی سے پر کر دیا جائے۔

۳۱

مسئلہ ١٨٢ اگر نمک کی کان کے پتّھر یا اس جيسی کسی اور چيز کاظاہری حصہ نجس ہو جائے تو قليل پانی سے اس صورت ميں پاک ہو سکتا ہے کہ پانی مضاف نہ ہوجائے۔

مسئلہ ١٨٣ اگر پگھلی ہوئی نجس شکر سے قندبناليں اور اسے کرُ یا جاری پانی ميں ڈال دیں تو وہ پاک نہيں ہوتی۔

٢۔ زمين

مسئلہ ١٨ ۴ زمين تين شرائط کے ساته پاؤں کے نچلے حصے اورجوتے کے تلوے جو کہ نجس زمين پر چلنے یا پاؤں رکھنے کی وجہ سے نجس ہو گئے ہوں، پاک کرتی ہے :

١)زمين پاک ہو

٢)خشک ہو

٣)عين نجاست مثلاً خون اور پيشاب یا نجس شدہ چيزمثلاًنجس کيچڑجو پاؤں یا جوتے کے تلوے ميں لگا ہوا ہو راستہ چلنے یا زمين پر رگڑنے کی وجہ سے ہٹ جائے۔ زمين ميں یہ بھی ضروری ہے کہ یا مٹی ہو یا پتّھر، اینٹ یا اس جيسی چيزوں سے بنی ہو۔ قالين، گهاس، چٹائی یا ان ہی جيسی کسی چيزپر چلنے سے پاؤں اور جوتے کے تلوے پاک نہيں ہوتے۔

مسئلہ ١٨ ۵ پاؤں یا جوتے کے نجس تلوے کا ڈامر یا لکڑی کے بنے ہوئے فرش پر چلنے سے پاک ہو نا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ پاؤں یا جوتے کے تلوے کو پاک کرنے کے لئے بہتر ہے کہ پندرہ ہاتھ یا اس سے زیادہ فاصلہ زمين پر چلے خواہ پندرہ ہاتھ سے کم چلنے یا پاؤں زمين پر رگڑنے سے نجاست دور ہو گئی ہو۔

مسئلہ ١٨٧ پاک ہونے کے لئے پاؤںيا جوتے کے نجس تلوے کا تر ہونا ضروری نہيں بلکہ خشک بھی ہوں تو زمين پر چلنے سے پاک ہو جاتے ہيں ۔

مسئلہ ١٨٨ جب پاؤں یا جوتے کا نجس تلوا زمين پر چلنے سے پاک ہو جائے تو اس کے اطراف کے اتنے حصے بھی جنہيں عموماً کيچڑ لگ جاتی ہے پاک ہو جاتے ہيں ۔

مسئلہ ١٨٩ اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھ کی ہتھيلی یا گھٹنا نجس ہو جائے جو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا ہو تو اس کے راستہ چلنے سے اس کی ہتھيلی یا گھٹنے کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

یهی صورت لاٹھ ی اور مصنوعی ٹانگ کے نچلے حصے، چوپائے کے نعل، موٹر گاڑیوں اور تانگے وغيرہ کے پهيوں کی ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ اگر زمين پر چلنے کے بعد نجاست کی بو یا رنگ یا باریک ذرے جو نظر نہيں آتے، پاؤں یا جوتے کے تلوے سے لگے رہ جائيں تو کوئی حرج نہيں اگر چہ احتياط مستحب کہ ہے کہ زمين پر اس قدر چلا جائے کہ وہ بھی زائل ہو جائيں۔

۳۲

مسئلہ ١٩١ جوتے کا اندرونی حصہ زمين پر چلنے سے پاک نہيں ہوتا اور زمين پر چلنے سے موزے کے نچلے حصے کا پاک ہونا محل اشکال ہے ۔

٣۔ سورج

مسئلہ ١٩٢ زمين، عمارت اور دروازہ و کهڑکی کی طرح وہ چيزیں جو عمارتوں ميں استعمال ہوتی ہيں اور اسی طرح دیوار کے اندر ٹھ ونکی ہوئی کيل کو پانچ شرطوں کے ساته پاک کرتا ہے :

١)نجس چيز گيلی ہو، لہٰذا اگر خشک ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی طرح تر کر ليا جائے تاکہ سورج اسے خشک کرے۔

٢)اگر اس چيز ميں عين نجاست ہو تو اس سے پهلے کہ وہ جگہ سورج کے ذریعے خشک ہو،عين نجاست کو ہٹادیا جائے۔

٣)کوئی چيز دهوپ پڑنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے، پس اگر دهوپ پردے، بادل یا ایسی ہی کسی چيز کے پيچهے سے نجس چيزپرپڑے اوراسے خشک کر دے تو وہ چيزپاک نہيں ہو گی، البتہ اگر رکاو ٹ اتنی نازک ہو کہ دهوپ کو نہ روکے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

۴) سورج اکيلا ہی نجس چيز کہ خشک کرے، لہٰذا مثال کے طور پر اگر نجس چيز ہوا اور دهوپ سے خشک ہو تو پاک نہيں ہوتی۔ ہاں، اگرہوا اتنی هلکی ہو کہ یہ نہ کهاجاسکے کہ نجس چيز کو خشک کرنے ميں اس نے بھی کوئی مدد کی ہے تو پھر کوئی حرج نہيں ۔

۵) عمارت کے جتنے حصے ميں نجاست سرایت کرگئی ہے دهوپ اسے ایک ہی مرتبہ ميں خشک کردے، پس اگرایک مرتبہ دهوپ نجس زمين اور عمارت پر پڑے اور اس کا سامنے والا حصہ خشک کرے اور دوسری مرتبہ نچلے حصے کو خشک کرے تو اس کا سامنے والا حصہ پاک ہو جائے گااور نچلا حصہ نجس رہے گا۔

مسئلہ ١٩٣ سورج سے نجس چٹائی اورزمين ميں اگے ہوئے درخت وگهاس وغيرہ کاپاک ہونامحل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۴ اگر دهوپ نجس زمين پر پڑے اور اس کے بعد انسان شک کرے کہ دهوپ پڑنے کے وقت زمين تر تھی یا نہيں ، یا تری دهوپ کے ذریعے خشک ہوئی یا نہيں تو وہ زمين نجس ہو گی، اسی طرح اگر شک کرے کہ دهوپ پڑنے سے پهلے عين نجاست بر طرف ہوئی تھی یا نہيں يا یہ کہ کوئی چيز دهوپ کے پهنچنے ميں رکاوٹ تھی یا نہيں تو پھر بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۵ اگر دهوپ نجس دیوار کے ایک طرف پڑے اور اس کے اس حصے کو بھی خشک کر دے جس پر دهوپ نہيں پڑی تو دیوار کی دونوں اطراف پاک ہو جائيں گی۔

۳۳

۴ ۔ استحالہ

مسئلہ ١٩ ۶ اگر کوئی نجس چيز پاک چيز کی صورت ميں یوں تبدیل ہو جائے کہ عرف کی نگاہوں ميں اس کی حقيقت ہی بدل جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے ، مثال کے طور پر لکڑی جل کر راکه ہو جائے یا کتا نمک کی کان ميں گر کر نمک بن جائے، ليکن اگر اس چيز کی حقيقت نہ بدلے مثلاً گيہوں کو پيس کر آٹا بنا ليا جائے یا روٹی پکا لی جائے تو وہ پاک نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٩٧ مٹی کا کوزہ اور دوسری چيزیں جو نجس مٹی سے بنائی جائيں نجس ہيں اور وہ کوئلہ جسے نجس لکڑی سے تيار کيا گيا ہو احوط یہ ہے کہ اس سے اجتناب کيا جائے۔

مسئلہ ١٩٨ ایسی نجس چيز جس کے متعلق علم نہ ہو کہ آیا اس کا استحالہ ہوا یا نہيں تو اگر شک کی بنياد یہ ہو کہ موضوعِ نجس باقی ہے یا نہيں ، نجس ہے ۔

۵ ۔ انقلاب

مسئلہ ١٩٩ اگر شراب خود بخود یا کوئی چيزمثلاًسرکہ یا نمک ملانے سے سرکہ بن جائے تو پاک ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠ وہ شراب جو نجس انگور یا اس جيسی چيز سے بنائی جائے اور وہ اسی برتن ميں سرکہ بن جائے تو وہ پاک نہيں ہو گی اور اگر اس کو کسی دوسرے پاک برتن ميں ڈال دیں اور پھر سرکہ بن جائے تب بھی بنا بر احتياط پاک نہيں ہو گی اور یهی حکم اس وقت ہے جب شراب ميں کوئی اور نجاست مل جائے اور اس ميں مل کر ختم ہو جائے۔

مسئلہ ٢٠١ وہ سرکہ جو نجس انگور، کشمش یا کھجور سے تيا ر کيا جائے نجس ہے ۔

مسئلہ ٢٠٢ اگر انگور یا کھجور کے باریک چھلکے بھی ساته ہوں اور ان ميں سرکہ ڈال دیا جائے تو کوئی حرج نہيں بلکہ اسی ميں کهيرے اور بينگن وغيرہ ڈالنے ميں بھی اشکال نہيں ہے خواہ انگور یا کھجور کے سرکہ بننے سے پهلے ہی ڈالے جائيں سوائے اس کہ کے سرکہ بننے سے پهلے جان لے کہ یہ نشہ آور ہو چکے ہيں ۔

مسئلہ ٢٠٣ اگر انگور کے رس ميں آگ پر رکھنے سے ابال آجائے تو وہ حرام ہو جاتا ہے اور اگر وہ اتنا ابل جائے کہ اس کا دو تھائی حصہ ختم ہو جائے اور ایک تھائی باقی ر ہ جائے تو حلال ہو جاتا ہے اور مسئلہ ” ١١ ۴ “ ميں بتایا جا چکا ہے کہ انگور کا رس آگ کے ذریعے ابلنے سے نجس نہيں ہوتا،ہاں اگر بغير آگ کے ابال آجائے تو وہ حرام اور بنا بر احتياط نجس بھی ہو جاتاہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سرکہ بنے بغير پاک اور حلال نہيں ہو سکتا۔

مسئلہ ٢٠ ۴ اگر انگورکے رس کا دو تھائی حصہ بغير ابال آئے کم ہو جائے اور جو پانی بچے اس ميں ابال آجائے تو وہ حرام ہے ۔

۳۴

مسئلہ ٢٠ ۵ اگر انگور کے رس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اس ميں ابال آیاہے یا نہيں تو وہ حلال ہے ليکن اگر اُبال آجائے تو جب تک یہ یقين نہ ہو کہ اس کا دو تھائی کم ہو چکاہے ، حلال نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢٠ ۶ اگر کچے انگور کے خوشے ميں کچھ پکے انگور بھی ہوں اور جو رس اس خوشے سے ليا جائے اسے لوگ انگور کا رس نہ کہيں اور اس ميں ابال آجائے تو رس کا پينا حلال ہے ۔

مسئلہ ٢٠٧ اگر انگور کا ایک دانہ کسی ایسی چيز ميں گر جائے جو آگ پر ابل رہی ہو اور وہ بھی ابلنے لگے ليکن وہ اس چيز ميں حل نہ ہو تو فقط اس دانے کا کھانا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢٠٨ اگر چند دیگوں ميں شيرہ پکایا جائے تو جو کفگير ابال ميں آئی ہو ئی دیگ ميں ڈالا جا چکا ہو اس کا ایسی دیگ ميں ڈالنا بھی جائز ہے جس ميں ابهی ابال نہ آیا ہو۔

مسئلہ ٢٠٩ جس چيز کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ یہ کچا انگور ہے یا پکا، اگر اس ميں ابال آجائے تو حلال ہے ۔

۶ ۔ انتقال

مسئلہ ٢١٠ اگر انسان یا خون جهندہ رکھنے والے حيوان کے بدن کا خون ایسے حيوان کے بدن ميں چلا جائے جو خون جهندہ نہ رکھتا ہو اور اس کے بدن کا حصہ سمجھا جانے لگے تو وہ خون پاک ہو جائے گا۔ اس کو انتقال کہتے ہيں ۔

اسی طرح باقی تمام نجاسات بھی اگر اس حيوان کے بدن کا حصہ بن جائيں جس کے بدن ميں منتقل ہوئی ہيں تو اسی حيوان کے اجزاء کا حکم ان پر جاری ہو گا، ليکن اگر حيوان کے بدن کا حصہ نہ بنيں بلکہ حيوان اس نجاست کے لئے ظرف کی طرح بن جائے تو نجس ہيں ، اسی لئے وہ خون جو جونک انسان کے بدن سے چوستی ہے چونکہ وہ جونک کا خون نہيں کهلاتابلکہ اسے انسان کا خون کہتے ہيں ، نجس ہے ۔

مسئلہ ٢١١ اگر کوئی شخص اپنے بدن پر بيٹھے ہوئے مچہر کو مار دے اور نہ جانتا ہو کہ اس مچہر سے نکلا ہو ا خون مچہر ہی کا ہے یا اس کا اپنا چوسا جانے والا خون ہے ، پاک ہے اور یهی حکم اس وقت ہے جب انسا ن جانتا ہو کہ اگرچہ یہ خون اس سے چوسا گياہے ليکن مچہر کے بدن کا حصہ بن چکا ہے ، ہاں اگر خون چوسے جانے اور مچہر مارنے کے درميان فاصلہ اتنا کم ہو کہ اسے انسان کا خون ہی کها جائے یا معلوم نہ ہو سکے اسے مچہر کا خون کها جائے گا یا انسان کا تو وہ خون نجس شمار ہوگا۔

۳۵

٧۔ اسلام

مسئلہ ٢١٢ اگر کوئی کافر کسی بھی زبان ميں خدا کی وحدانيت اور خاتم الانبياء حضرت محمدمصطفی(ص) کی نبوت کی گواہی دے دے تو مسلمان ہو جاتا ہے اور اگرچہ وہ مسلمان ہونے سے پهلے نجس کے حکم ميں تھا ليکن مسلمان ہو جانے کے بعد اس کا بدن، تهوک، ناک کا پانی اور پسينہ پاک ہو جاتا ہے ، ہاں مسلمان ہونے کے وقت اگر اس کے بدن پر کوئی عين نجاست ہو تو ضروری ہے کہ اسے دور کرے اور اس مقام کو دهولے بلکہ اگر مسلمان ہونے سے پهلے ہی عين نجاست دور ہو چکی ہو تب بھی احتياط واجب یہ ہے کہ اس مقام کو دهولے۔

مسئلہ ٢١٣ اگر کافر کے مسلمان ہونے سے پهلے اس کا لباس اس کی رطوبت سے اس کے بدن سے مس ہو ا ہو اور اس کے مسلمان ہوتے وقت وہ لباس اس کے بدن پر نہ ہو نجس ہے بلکہ اگر وہ لباس اس کے بدن پر ہو تب بھی احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے اجتناب کرے۔

مسئلہ ٢١ ۴ اگر کافر شهادتين پڑھ لے اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ دل سے مسلمان ہو اہے یا نہيں تو وہ پاک ہے ۔ اسی طرح اگریہ علم ہو بھی کہ وہ دل سے مسلمان نہيں ہوا ليکن ایسی کوئی بات اس سے ظاہر نہ ہوئی ہو جو توحيد اور رسالت کی شهادت کے منافی ہو تو وہ پاک ہے ۔

٨۔ تبعيت

مسئلہ ٢١ ۵ تبعيت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نجس چيز، کسی دوسری چيز کے پاک ہونے کی وجہ سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ٢١ ۶ اگر شراب سرکہ بن جائے تو اس کا برتن بھی اس جگہ تک جهاں تک شراب ابل کر پهنچی ہو پاک ہو جاتا ہے اور اگر کپڑا یا کوئی دوسری چيز بھی نجس ہوئی ہو جو عموماًاس پر رکھی جاتی ہے وہ بھی پاک ہو جاتی ہے ، ليکن اگر برتن کی بيرونی سطح اس شراب سے آلودہ ہو جائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے بعدا س سے پرہيز کيا جائے۔

مسئلہ ٢١٧ کافر کابچہ تبعيت کےذریعے دو صورتوں ميں پاک ہو جاتا ہے :

١)جو کافر مرد مسلمان ہو جائے اس کا بچہ طهارت ميں اس کے تابع ہے اور اسی طرح بچے کا دادا یا بچے کی ماں یا دادی مسلما ن ہو جائيں تب بھی یهی حکم ہے ۔

٢)کافر کا بچہ کسی مسلمان کے ہاتھوں قيدی بناہو اوراس کے باپ یا اجدادميں سے کوئی اس بچے کے ساته نہ ہو۔

اور ان دونوں صورتوں ميں بچے کے تبعيت کی بنا پر پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ مميز ہونے کی صورت ميں اظهارِکفر نہ کرے۔

۳۶

مسئلہ ٢١٨ وہ تختہ یا سل جس پر ميت کوغسل دیا جائے اور وہ کپڑا جس سے ميت کی شرمگاہ ڈهانپی جائے نيز غسال کے ہاتھ، یہ تمام چيزیں جو ميت کے ساته ہی دهل گئی ہيں ، غسل مکمل ہونے کے بعد پاک ہو جاتی ہيں ۔

مسئلہ ٢١٩ اگر کوئی شخص کسی چيز کو پانی سے دهوئے تو اس چيز کے پاک ہونے پر اس شخص کا وہ ہاتھ بھی جو اس چيز کے ساته ہی دهل چکا ہے ، پاک ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠ اگر لباس یا اس جيسی کسی چيز کو قليل پانی سے دهویا جائے اور معمول کے مطابق نچوڑ دیا جائے تاکہ جس پانی سے اسے دهویا گيا ہے وہ نکل جائے تو جو پانی اس ميں رہ جائے وہ پاک ہے ، اور اس لباس سے جدا ہو جانے والے پانی کا حکم مسئلہ نمبر” ٢٧ “ميں گذر چکا ہے ۔

مسئلہ ٢٢١ جب نجس برتن کو قليل پانی سے دهویا جائے تو جو پانی برتن کو پاک کرنے کے ليے اس پر ڈالا جائے اس کے بہہ جانے کے بعدجو پانی معمول کے مطابق اس ميں باقی رہ جائے، پاک ہے اور وہ پانی جو اس سے جدا ہو اس کا حکم مسئلہ نمبر” ٢٧ “ميں بيا ن ہو چکاہے۔

٩۔ عين نجاست کا دور ہونا

مسئلہ ٢٢٢ اگر کسی حيوان کا بدن عين نجاست مثلاً خون یا نجس شدہ چيز مثلاًنجس پانی سے آلودہ ہو جائے تو اس نجاست کے دور ہوتے ہی حيوان کا بدن پاک ہو جاتا ہے ۔ یهی صورت انسانی بدن کے اندرونی حصوں مثلاًمنہ اور ناک کے اندر کی ہے مثال کے طور پر اگر مسوڑہوں سے خون نکلے اور لعاب دهن ميں گهل کر ختم ہو جائے تو منہ کے اندرونی حصے کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ، ليکن اگر مصنوعی دانتوںسے منہ کا خون لگ جائے تو احتياط واجب کی بنا پر انہيں پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣ اگر دانتوں کے ریخوں ميں غذا رہ جائے اور پھر منہ کے اندر خون نکل آئے تو اگر انسان نہ جانتا ہو کہ خون غذا تک پهنچا ہے تو وہ غذا پاک ہے ، ليکن اگر خون غذا تک پهنچ جائے تو بنا بر احتياط نجس ہو جائے گی۔

مسئلہ ٢٢ ۴ ہونٹوں اور آنکه کی پلکوں کے وہ حصے جو بند کرتے وقت ایک دوسرے سے مل جاتے ہيں اور وہ مقامات بھی جن کے بارے ميں انسان کو یہ علم نہ ہو کہ آیا انہيں اندرونی حصہ سمجھا جائے یا ظاہری اور ان پر نجاست لگ جائے تو بنا بر احتياط پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢ ۵ اگر نجس گردوغبار خشک کپڑے، قالين یا ایسی ہی کسی چيز پر بيٹھ جائے چنانچہ کپڑے وغيرہ کو یوں جهاڑ ليا جائے کہ نجس مٹی یا خاک اس سے الگ ہو جائے تو اس کے بعد اگر کوئی تر چيزکپڑے وغيرہ کو مس ہو جائے تو وہ نجس نہيں ہوگی۔

۳۷

١٠ ۔ نجاست کھانے والے حيوان کا استبرا

مسئلہ ٢٢ ۶ جس حيوان کو انسانی نجاست کھانے کی عادت پڑ گئی ہو اس کا پيشاب اور پاخانہ نجس ہے اور اگر اسے پاک کرنا چاہيں تو ضروری ہے کہ اس کا استبرا کيا جائے یعنی اتنے عرصے تک اسے نجاست نہ کھانے دیں اور بنابر احتياط پاک غذا دیں کہ پھر اسے نجاست کھانے والا نہ کها جاسکے۔

هاں، احتياط واجب یہ ہے کہ نجاست کھانے والے اونٹ کے ساته چاليس، گائے کے ساته بيس، بھيڑ کے ساته دس، مرغابی کے ساته پانچ اور گھریلو مرغی کے ساته تين دن اس طریقے پر عمل کيا جائے اور اگر مقررہ مدت گزر نے کے بعد بھی انہيں نجاست خورکھاجائے تومزید اتنے عرصے تک مذکورہ طریقے پرعمل ضروری ہے کہ پھرانہيں نجاست خورنہ کها جائے۔

١١ ۔ مسلمان کا غائب ہوجانا

مسئلہ ٢٢٧ اگر کسی مسلمان کے بدن یا لباس یا دوسری اشياء کے بارے ميں جو اس کے اختيا ر ميں ہو ں مثلاً برتن، قالين وغيرہ، نجاست کا یقين ہو جائے اور پھر وہ مسلمان وہاں سے غير حاضر ہو جائے تو یہ اشيا ء اس شرط کے ساته پاک ہيں کہ انسان احتمال دے کہ اس شخص نے ان اشياء کو پاک کر ليا ہو گا اور بنابر احتياط واجب ان شرائط کا خيا ل ر کهنا ضروری ہے -:

١) جس چيز نے اس مسلمان کے لباس یا بدن کو نجس کيا ہے وہ خود بھی اسے نجس سمجھتا ہو، لہٰذا اگر مثال کے طور پر اس کا لباس رطوبت کے ساته کافر کے بدن سے مس ہو گيا ہو ليکن وہ اسے نجس ہی نہ سمجھتا ہو تو اس کے چلے جانے کے بعد اس کے لباس کو پاک نہيں سمجھا جا سکتا۔

٢) اسے علم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس چيز سے لگ گيا ہے اور نجاست و طهارت کے معاملے ميں لا پروا بھی نہ ہو۔

٣) انسان اس مسلمان کو وہ چيز ایسے کام ميں استعمال کرتے ہو ئے دیکھے کہ جس ميں اس کا پاک ہونا شرط ہو، مثلاً اسے اس لباس کے ساته نماز پڑھتے ہوئے یا اس برتن ميں کھانا کھاتے ہوئے دیکھے ۔

۴) اس بات کا احتمال ہو کہ وہ مسلمان جانتا ہے کہ اس چيز کے ساته جس کام کو وہ انجام دے رہا ہے اس ميں طهارت شرط ہے ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر وہ مسلمان یہ نہيں جانتا کہ نمازپڑھنے والے کا لباس پاک ہونا ضروری ہے اور اس لباس کے ساته ہی نماز پڑھ رہا ہوجو نجس ہو گيا تھا تو اس لباس کو پاک نہيں سمجھا جا سکتا۔

۵) يہ کہ وہ مسلمان بالغ ہو۔

۳۸

مسئلہ ٢٢٨ اگر کسی انسان کو یقين یا اطمينان ہوجائے کہ جوچيزنجس ہوگئی تھی اب پاک ہوگئی ہے یا دو عادل یا ایک عادل شخص اس کے پاک ہونے کی خبر دے، اسی طرح اگر ایک قابل اعتماد شخص جس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو، کسی چيزکے پاک ہونے کی خبر دے تو وہ چيز پاک ہے ۔

اور یهی حکم اس نجس چيز کے بارے ميں ہے جو کسی شخص کے اختيار ميں ہو اور وہ اس کے پاک ہونے کی خبر دے، جب کہ وہ شخص نجاست وطهارت کے مسئلے ميں لاپروا نہ سمجھا جاتا ہو یا کسی مسلمان نے نجس چيز کو پاک کر ليا ہو اگرچہ معلوم نہ ہو کہ صحيح طرح پاک کيا ہے یا نہيں ۔

مسئلہ ٢٢٩ جس شخص کو لباس دهونے کے لئے وکيل بنایا گيا ہو اور وہ کهے کہ ميں نے کپڑے دهو دئے ہيں اور اس کے کهنے سے اطمينان حاصل ہوجائے یا وہ شخص قابل اعتماد ہو او ر اس کی کهی ہوئی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہو تو وہ لباس پاک ہے ، ليکن اگر لباس اس کے اختيار ميں ہو جب کہ اس پر نجاست وطهارت کے مسئلے ميں لا پر وائی کا الزام بھی نہ ہو تو اطمينان کا حاصل کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٠ اگر کسی شخص کی یہ حالت ہوجائے کہ اسے کوئی نجس چيز دهوتے وقت یقين یا اطمينان ہی نہ آتا ہو تو وہ طهارت کے مسئلے ميں عام افراد کے درميان رائج طریقے پر اکتفا کر سکتا ہے ۔

١٢ ۔ معمول کے مطابق ذبيحہ کے خون کا بہہ جانا

مسئلہ ٢٣١ جيسا کہ مسئلہ ” ٩٨ “ميں بيان کيا جا چکاہے کہ جب کسی جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد اس کے بدن سے معمول کے مطابق خون نکل جائے تو اس کے بدن کے اندر باقی رہ جانے والا خون پاک ہے ۔

مسئلہ ٢٣٢ مذکورہ بالا حکم صرف حلال گوشت جانوروں کے بارے ميں ہے ، اور حرام گوشت جانوروں ميں جاری نہيں ہوگا۔

برتنوں کے احکام

مسئلہ ٢٣٣ جو برتن کتّے، سو رٔ یا مردار کی کھال سے بنایا جائے اس ميں کسی چيز کا کھانا پينا جب کہ تری اس کی نجاست کا موجب بنی ہو، حرام ہے اور اس برتن کو وضو، غسل اور ایسے دوسرے کاموں ميں استعمال نہيں کيا جا سکتا جنہيں پاک چيز سے انجام دینا ضروری ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کتے، سو رٔاور مردار کے چمڑے کو خواہ وہ برتن کی شکل ميں نہ بھی ہو استعمال نہ کيا جائے۔

۳۹

مسئلہ ٢٣ ۴ سونے اور چاندی کے برتنوں ميں کھانا پينا حرام ہے اور بنا بر احتياط واجب ان برتنوں کا کسی بھی طرح کا استعمال یهاں تک کہ کمرے کو زینت دینا بھی جائز نہيں ہے ليکن انہيں سنبهالنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ البتہ سونے اور چاندی کے برتن بنانا، ان برتنوں کو بنانے کی اجرت لينا اور خرید وفروخت کرنا جائز ہے ، مگر یہ کہ زینت کے لئے بنائے جائيں کہ وہ محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۵ پيالی کا کنڈا جو سونے اور چاندی سے بنا ہوا ہو، اگر اسے پيالی سے جدا کرنے کے بعد برتن کها جائے تو ا س پر سونے اور چاندی کے برتنوں کا حکم جاری ہوگا، ليکن اگر جدا کرنے کے بعد اسے برتن نہ کها جائے تو اس کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ایسے برتنوں کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں جن پر سونے اور چاندی کا پانی چڑھایا گيا ہو، ليکن جس برتن پر چاندی کا کام کيا گيا ہو اس برتن کے چاندی کے کام والے مقام سے نہ کوئی چيز کھائے، نہ پئے۔

مسئلہ ٢٣٧ اگرکسی دهات کو سونے اور چاندی ميں مخلوط کر کے برتن بنائے جائيں اور دهات اتنی مقدار ميں ہو کہ اس برتن کو سونے اورچاندی کا برتن نہ کها جائے تو اس کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣٨ اگر غذا سونے چاندی کے برتنوں ميں رکھی ہو اور کوئی شخص اس نيت سے کہ سونے چاندی کے برتنوں ميں کھانا پينا حرام ہے اسے دوسرے برتنوں ميں انڈیل لے تو لوگوں کی نگاہوں ميں دوسرے برتنوں ميں کھانا، اگر پهلے برتن کا استعمال نہ سمجھا جاتا ہو تو ایسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩ حقےّ کے چلم کا سوراخوں والا ڈهکنا، تلوار، چھری یا چاقو کا ميان اور قرآن مجيد رکھنے کا ڈبہ اگر سونے چاندی سے بنے ہوں تو کوئی حرج نہيں ہے ۔ تاہم احتياط مستحب یہ ہے کہ سونے چاندی کی بنی ہوئی عطردانی، سرمہ دانی اور افيم دانی استعمال نہ کی جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ مجبوری کی حالت ميں سونے چاندی کے برتنوں ميں ضرورت پوری ہونے کی حد تک کھانے پينے ميں کوئی حرج نہيں ، ليکن اس سے زیادہ کھانا پينا جائز نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ایسے برتن کے استعمال ميں کوئی حرج نہيں جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ یہ سونے چاندی کا ہے یا کسی اور چيز سے بنا ہوا ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اسی طرح حضرت عمر نے کعب الأحبار کو دعوت دی کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرے .جبکہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ زیارت کے جواز پر جو دلیلیںبیان کی گئی ہیں یہ محکم ترین اور قوی ترین ادلّہ ہیں جو خاص پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے جائز بلکہ مستحب ہونے کو بیان کر رہی ہیں اس لئے کہ بعض روایات میں زیارت کا حکم دیا گیا ہے اور اکثر علماء نے اس حکم سے مراد استحباب لیا ہے یہاں تک کہ ابن حزم اندلسی نے اس سے وجوب سمجھا ہے کہ ہر مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا واجب ہے( ۱ )

مقامات مقدسہ اور قبور کی زیارت

گذشتہ مطالب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت سے متعلق تھے اب ہم بقیہ قبور کی زیارت کے جواز کے بارے میں کچھ عرض کریں گے. ان قبور کی زیارت کے جواز میں بھی قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کی طرح کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے .خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبور کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور مسلمانوں کو اس امر کی ترغیب دلاتے .نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور مسلمانوں کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ دوسرے مسلمانوں کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے

البتہ اس بارے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں :

پہلی حد یث :رسول خد اصلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا :

ائتواموتاکم فسلّموا علیهم أو فصلّوافانّ بهم عبرة .( ۲ )

اپنے مردوں کے پاس جاؤ اور ان پر سلام یا درود بھیجو اس لئے کہ وہ تمہارے لئے باعث عبرت ہیں

____________________

۱۔ التاج الجامع للأصول ۲: ۳۸۲.

۲۔ اخبار مکہ ۲: ۵۲.

۱۰۱

۶۔عورت اورزیارت قبور

عورتوں کا قبور کی زیارت کرنا

زیارت کی بحث میں پیش آنے والے مسائل میں سے ایک خواتین کا قبور کی زیارت کرنا ہے سنن ( بخاری و مسلم کے علاوہ )کے مؤلفین نے اس بارے میں روایات نقل کی ہیں ایک روایت میں نقل کیا ہے : کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لعن الله زائرات القبور

خد اوند متعال نے زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے.( ۱ )

وہابی اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے عورتوں پر قبور کی زیارت کو حرام قرار دیتے ہیں

وہابی نظریہ کا ردّ

ہم اس نظریہ ۔جو ایک توہم کے سوا کچھ نہیں۔ کا جواب چار طرح سے دے سکتے ہیں :

اوّل: مندرجہ بالا حدیث ، حدیث بریدہ سے نسخ ہو جائے گی .برید ہ کہتے ہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :نهیتکم عن زیارة القبور،ألا فزوروا

میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا آگاہ ہو جاؤ! (آج کے بعد ) ان کی زیارت کیا کرو.

حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اسی طرح مندرجہ بالا حدیث اس حدیث مبارکہ سے بھی متعارض ہے جسے حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں :

نهی رسول الله عن زیارة القبور ثمّ أمر بزیارتها ( ۲ )

____________________

۱۔ المصنف عبد الرزاق۳: ۵۶۹.

۲۔السنن الکبرٰی ۴: ۷۸.

۱۰۲

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبور کی زیارت سے نہی فرمائی لیکن اس کے بعد ان کی زیارت کا حکم فرمایا

اس حدیث کو ذہبی نے المستدرک علی الصحٰحین کے حاشیہ پر نقل کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے

دوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ کی سیرت اور ان کے عمل سے بھی متعارض ہے اس لئے کہ وہ روایت جسے تھوڑی دیر پہلے نقل کر چکے اس کے مطابق وہ اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتیں

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن ۔ جسے حُبشی( جنوب مکہ) میں ناگہانی موت آئی۔ کی زیارت کی

اسی طرح کہتے ہیں : ایک دن میں نے حضرت عائشہ کو قبرستان جاتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبور کی زیارت سے منع نہیں فرمایا .تو انہوں نے جواب میں فرمایا: ہاں ، منع کیا تھا لیکن دوبارہ اس کا حکم دیا( ۱ )

کیاحضرت عائشہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کا ارادہ رکھتی تھیں؟ تاکہ ( نعوذ باللہ ) لعنت خدا کی مستحق قرار پاسکیں جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا؟

سوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی واضح سیرت اور ان کے عمل کے مخالف ہے اس وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی زیارت کیا کرتیں اور ہر جمعہ کے دن یا ہر ہفتے میں دوبار حضرت حمزہ علیہ السلام اور دیگر شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایا کرتیں

کیا یہ درست ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی کی سنت کی مخالفت کرنا چاہتی تھیں ؟

____________________

۱۔ السنن الکبرٰی ۴: ۱۳۱.

۱۰۳

یا یہ کہ شہزادی اپنے باپ کی سنت سے آگاہ نہیں تھیں ؟

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اہل بیت میں سے ہیں اور گھر کے اندر جو کچھ ہوتا ہے گھر والے اس سے بہتر آگاہ ہوتے ہیں.اس کے علاوہ وہ اپنے والد گرامی کی زندگی میں شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایاکرتیں اور سات سال تک زمانہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان کی یہی سیرت رہی پس کیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس عمل سے نہ روکا ؟

اسی طرح شہزادی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد انکی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں .جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

جب رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار کی قبر پر کھڑی ہوئیں ،مٹھی بھر خاک اُٹھا کر آنکھوں پرڈالی اور گریہ کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے

اگر واقعا قبروں کی زیارت عورتوں پر حرام تھی تو کیسے امیر المؤمنین علیہ السلا م یاصحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو اس عمل سے منع نہ فرمایا ؟

چہارم: ابن تیمیہ سے پہلے اور بعد کے علمائے اہل سنت نے عورتوں کے قبور کی زیارت کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا ہے اور اس حدیث میں لعنت کی وجہ عورتوں کا اپنے عزیزوں کی موت کی مصیبت پر صبر نہ کرنا بیان کیا ہے لیکن اگر کوئی عورت نامحرموں کے سامنے چیخ و پکار نہیں کرتی بلکہ صبر کرتی ہے تو اس کے قبر کی زیارت کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے.

البتہ بعض علمائے اہل سنت جیسے منصور علی ناصف نے اپنی کتابالتاج الجامع للأصول ، ملاّ علی قاری، نووی ، قرطبی، قسطلانی، ابن عبدالبرّ ، ابن عابدین اور ترمذی نے اس حدیث کواسی صورت پر منطبق کیا ہے یا اسے ضعیف قرار دیا ہے چونکہ اس کے تینوں واسطے جو حسان بن ثابت ، ابن عباس یا ابو ہریرہ تک پہنچتے ہیں. ان میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہل سنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے.اور شاید اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر نہیں کیا

ان اعتراضات واشکالات کے علاوہ فقہاء نے بھی اس حدیث کی شرح میں مردوں اور عورتوں کے قبور کی زیارت کے مستحب ہونے کا فتوٰی دیا ہے.( ۱ )

____________________

۱۔ التاج الجامع للأصول ۲: ۳۸۱؛ مرقاة المفاتیح ۴: ۲۱۵؛ التمہید ۳: ۲۳۴.

۱۰۴

۷۔قبروں پر دعا کرن

قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر قبور کے پاس دعاکرنااور نماز پڑھنا

جو ادلّہ بیان کی جائیں گی ان کے مطابق قبر مطہّر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر قبور کے پاس نماز پڑھنا اور دعاکرنا ایک جائز اور شرعی عمل ہے. طول تاریخ میں مسلمانوں کا یہی طریقہ کا ر رہا ہے اور اب بھی ہے. جبکہ اس بارے میں وہابیوں کا نظریہ باقی نظریات کے مانند تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مخالف ہے.

وہابیوں کا نظریہ

وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے اور دعا کرنے سے منع کرتے ہیں اور اسے شرک وکفر سمجھتے ہیں اس بارے میں ابن تیمیہ کہتا ہے:

صحابہ کرام جب بھی قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے تو ان پر سلام بھیجتے اور جب دعاکرنے لگتے تو قبر نبوی کی جانب سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرخداسے دعا کرتے اور باقی قبور پر بھی اسی طرح کرتے .

۱۰۵

اسی دلیل کی بناء پر گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی ایک نے قبور یا اولیاء کے مقدس مقامات پر نماز اداکرنے کے مستحب ہونے کے بارے میں نہیںکہا ہے. نیز یہ بھی نہیں کہا کہوہاں پر نما ز ادا کرنا یا دعاکرنا دوسرے مقامات سے افضل ہے بلکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ گھروں یا مساجد میں نماز ادا کرنا اولیاء وصالحین کی قبور کے پاس ادا کرنے سے افضل وبہتر ہے ،چاہے ان قبور کو مقدس مکان کا نام دیا جائے یا نہ( ۱ )

اس توہّم کا جواب

ہم ابن تیمیہ کے اس بے بنیاد نظریہ کا جواب چند طریقوں سے دے سکتے ہیں :

اوّل:روایات عامہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ کسی بھی مکان میں نماز اور دعا جائز ہے پس قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر انبیاء و صالحین کی قبور پر بھی نماز و دعا جائز ہوگی ہم ان عمومات واطلاقات کی بناء پر اس کے جواز کا حکم لگائیں گے

دوم: دین مبین اسلام سے جو کچھ سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ مکان جو شریعت کی نظر میں محترم و مکرم ہے وہاں پہ نماز ودعا اورمطلقا عبادات بھی فضیلت رکھتی ہیں

دوسری جانب ہر مکان کا احترام اسکے مکین سے ہوتا ہے اور ہر قبر کا مقام اس میں دفن ہونے

سوم: یہ آیت :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفرواالله ) ( ۲ )

ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے

____________________

۱۔ رسالہ زیارة القبور : ۲۸.

۲۔ نساء : ۶۴.

۱۰۶

اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لئے کہ لفظ جاؤوک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات وممات دونوں کو شامل ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام ان کی حیات وممات میں ایک جیسا ہے

قابل ذکر یہ ہے کہ امام مالک نے منصور کے ساتھ ملاقات میں اسی مطلب کی وضاحت کی( ۱ )

شمس الدین جزری کہتے ہیں : اگر قبر پیغمبر کا پاس دعا قبول نہیں ہو گی تو پھرکونسامکان ہے جہاں دعا قبول ہوگی ؟!

چہارم: حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت وہابیوں کے نظریہ کے بالکل مخالف ہے اس لئے وہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے جاتیں اور وہاں پہ نماز ادا کرتیں اور گریہ کیا کرتیں.( ۲ )

وہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جن کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے( ۳ ) کیا سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر مخفی تھی ؟

کیا قبور کی زیارت کرکے انہوں نے سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی؟ کیا واقعا یہ بات ابنتیمیہ پر مخفی تھی کہ وہ یہ ادّعا کررہا کہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے قبور یا بقعہ کے پاس نماز پڑھنے کے استحباب کا فتوٰی نہیں دیا ؟!

پنجم: زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لے کر آج تک مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ وہ صالحین ومؤمنین کی قبور کے پا س نماز بھی ادا کرتے اور وہاں پہ دعا بھی کیا کرتے .جس کے چند ایک نمونے مندرجہ ذیل ہیں :

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۶؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۹.

۲۔ المصنّف ۳: ۵۷۲؛ المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۳۳.

۳۔ فتح الباری ۷: ۱۳۱

۱۰۷

۱۔عمر بن خطاب کا طریقہ کار:

طبری ریاض النضرة میں لکھتے ہیں :

ایک مرتبہ جب حضرت عمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حج بجالانے کے لئے نکلے تو راستے میں ایک بوڑھے شخص نے ان سے مدد طلب کی جب حج سے واپس پلٹنے لگے تو ابواء کے مقام پر اس شخص کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو فو ت ہو چکا ہے جیسے ہی یہ خبر سنی بڑے بڑے قدم رکھتے ہوئے اس کی قبر پہ پہنچے .اس کے لئے نماز ادا کی اور قبرکو گلے لگا کر گریہ کیا( ۱ )

۲۔ امام شافعی کا قول :

امام شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے تبرّک حاصل کرتا ہوں ،جب مجھ پر کوئی مشکل آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جا کر خداوند متعال سے حاجت طلب کرتا ہوں( ۲ )

۳۔قبر معروف کرخی :

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ زہری کہتے ہیں :

معروف کرخی کی قبر کے پاس حاجات کا پورا ہونا تجربہ شدہ ہے اسی طرح کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی قبرکے پا س ایک سو مرتبہ ( قل ھو اللہ أحد ) کی تلاوت کرے اور پھر خد اسے حاجت طلب کرے تو اسکی حاجت پوری ہوگی( ۳ )

____________________

۱۔ ریاض النضرة ۲: ۲۳۰.

۲۔ صلح الأخوان : ۸۳؛ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۳.

۳۔تاریخ بغداد ۱: ۱۲۲.

۱۰۸

ابراہیم حربی کہتے ہیں :معروف کرخی کی قبرزہری کے لئے تجربہ شدہ پناہ گاہ تھی. ذہبی اس بارے میں کہتے ہیں : اس قبر پر درماندہ افراد کی دعا قبول ہوتی ہے چونکہ مبارک بقعوں کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے( ۱ )

احمد بن فتح کہتے ہیں : میں نے بشر تابعی سے معروف کرخی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا : جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو ان کی قبر پر جاکر دعا کرے ان شاء اللہ اس کی دعا قبول ہوگی( ۲ )

ابن سعد سے اس بارے میں یوں نقل کیا گیا ہے : معروف کرخی کی قبر سے بارش طلب کی جاتی ہے ان کی قبر آشکار ہے اور لوگ دن رات اس کی زیارت کے لئے آتے رہتے ہیں( ۳ )

۴۔ قبر شافعی :

جزری کہتے ہیں : شافعی کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے.( ۴ )

۵۔ قبر بکراوی حنفی ( ت ۴۰۳):

وہ قرافہ میں دفن ہوئے اوران کی قبر ایک معروف زیارت گاہ ہے لوگ اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں اورکہا گیا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے.( ۵ )

____________________

۱۔ سیر اعلام النبلاء ۹: ۳۴۳

.۲۔ صفة الصفوة ۲: ۳۲۴.

۳۔ طبقات الکبرٰی ۱: ۲۷.

۴۔غایة النھایة فی طبقات القرائ۲: ۹۷

۵۔ الجواہر المضیئة ۱: ۴۶۱.

۶۔ قبر حافظ عامری ( ت۴۰۳) :

۱۰۹

نقل کیا گیا ہے کہ لوگ رات کے وقت ان کی قبر پہ جمع ہوتے ہیں ، ان کے لئے قرآن کی تلاوت اور ان کے حق میں دعا کرتے ہیں.( ۱)

۷۔ قبر ابو بکر اصفھانی ( ت۴۰۶):

وہ نیشاپور کے اطراف میں حیرة کے مقام پر دفن ہوئے .ان کی بارگاہ وہاں پہ آشکار اور زیارتی مکان ہے.کہا گیا ہے کہ ان کی قبر سے باران رحمت کی دعا کی جاتی ہے اور دعا وہاں پہ قبول ہوتی ہے( ۲ )

۸۔ قبر نفیسہ خاتون :

سیدہ نفیسہ دختر ابو محمد ،حسن بن زید امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی اوالاد میں سے اور اسحاق بن امام صادق علیہ السلام کی زوجہ ہیں ابن خلکان کہتے ہیں : وہ درب السباع مصر میں دفن کی گئیں اور ان کی قبر دعاکے مستجاب ہونے میں معروف ہے اور یہ ایک تجربہ شدہ امر ہے.( ۳)

ششم : اہل سنت کے بزرگ علماء جلال الدین سیوطی نے معراج پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی داستان اور ابن تیمیہ کے شاگرد ابن جوزیہ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد زیارت کے حرام ہونے کے عقیدہ مخالفت کی ہے( ۴ )

____________________

۱۔البدایة والنھایة ۱۱: ۳۵۱.

۲۔ وفیات الأعیان ۴: ۲۷۲.

۳۔حوالہ سابق ۵: ۴۲۴.

۴۔کشف الارتیاب : ۳۴۰، نقل از زاد المعاد

۱۱۰

ابن تیمیہ کا دوسرا فتوٰی

ابن تیمیہ نے ایک اور فتوٰی میں صحابہ کرام کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ دعا کے وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے تھے بلکہ ان کی قبر سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرکے کھڑے ہوتے( ۱ )

اس ادّعا کا جواب

ہم اس ادّعا کا جواب تین طرح سے دیں گے:

اوّل: ابن تیمیہ نے اس بارے میں صحابہ کرام میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا کہ کس صحابی نے دعا کرتے وقت اپنا منہ قبر سے پھیر ا جبکہ اس کے ادّعا کے برعکس ثابت ہو چکا ہے.

عبداللہ عمر جوخود صحابی ہیں ابن تیمیہ کے نظریہ کے خلاف بیان کرتے ہیں: مستحبات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کے پاس دعا کرتے وقت قبر مبارک کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو.( ۲ )

دوم : اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا کرتے وقت قبر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اس لئے کہ آیت کریمہ یہ فرما رہی ہے :

أینما تولّو افثمّ وجه الله ( ۳ )

____________________

۱۔رسالة زیارة ا لقبور: ۲۶.

۲۔ فضل الصلاة علی النبی ّ : ۸۴، ح ۱۰۱؛ کشف الارتیاب : ۲۴۷و ۳۴۰؛ الغدیر ۵: ۱۳۴.

۳۔ سورہ بقرہ : ۱۱۵.

۱۱۱

سوم : فقہاء کا فتوٰی ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے قول کے خلاف ہے.نمونہ کے طور پر چند فتاوٰی نقل کر رہے ہیں :

۱۔فتوائے امام مالک:

جب منصور نے امام مالک سے پوچھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دعا کرتے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی طرف رخ کروں یا قبلہ کی طرف ؟

تو امام مالک نے جواب میں فرمایا: کس لئے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روگردانی کرناچاہتے ہو جبکہ وہ تو تمہارے اور تمہارے باپ آدم کے بھی قیامت تک وسیلہ ہیں ؟ پس قبر رسول وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منہ کر ان سے شفاعت طلب کر ،خداانکی شفاعت قبول کرتا ہے( ۱)

یہ سوال وجواب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اور اس میں کسی قسم کی تردید نہیں تھی لیکن جو چیز منصور جاننا چاہ رہا تھا وہ یہ تھی کہ کیا دعا کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا قبر مبارک کی طرف ؟( ۲ )

۲ ۔ فتوائے خفاجی :

خفاجی کہتے ہیں : شافعی اور عام علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور قبر مطہّر کی طرف منہ ہونا چاہئے .اور ابو حنیفہ سے بھی یہی فتوٰی نقل ہواہے( ۳ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفیٰ ۴: ۱۳۷۶؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۹؛ الفروق ،صنہاجی۳: ۵۹.

۲۔ اشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی ۲: ۹۲؛ الغدیر ۵: ۱۳۵؛ کشف الارتیاب : ۲۴۰و ۲۵۵و ۲۶۱.

۳۔ شرح الشفاء ۳: ۵۱۷.

۱۱۲

۳۔ فتوائے محقق حنفی :

کمال بن حمام کہتے ہیں : ابو حنیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ دعا کے وقت قبلہ کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوتے جبکہ یہ قول مردود ہے اس لئے کہ عبداللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی جانب سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا جائیاور قبلہ کی طرف پشت اور قبر مبارک کی طرف منہ کریں اور ابوحنیفہ کے نزدیک یہ بات درست ہے کرمانی کا یہ کہنا کہ ابو حنیفہ کا مذہب اس مسئلہ میں اس کے علاوہ ہے یہ بات درست نہیں ہے چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہیں اور اپنے زائر کو دیکھتے ہیں .جس طرح اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قید حیات (ظاہری) میں ہوتے تو اپنے زائر کو جو قبلہ کی طرف پشت کئے ہوتا اس کو اپنے پاس بلاتے.( ۱ )

۴۔ فتوائے ابراہیم حربی:

وہ اپنی مناسک میں لکھتے ہیں : قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرتے وقت اپنی پشت قبلہ کی جانب اور قبر مبارک کے درمیان میں کھڑے ہوں( ۲)

۵۔ ابو موسٰی اصفہانی کا نظریہ :

ابو موسٰی اصفہانی سے نقل ہو اہے کہ مالک نے کہا : جو شخص قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا چاہے تو اسے چاہئے کہ قبلہ کی جانب پشت اور قبر مبارک کی طرف رخ کر کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجے اور دعا کرے( ۳ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۸۷؛ المغنی لابن قدامہ ۳: ۲۹۸؛ الشرح الکبیر ۳: ۴۹۵.

۲۔شفاء السقام : ۱۶۹؛ شرح الشفاء ۳: ۵۱۷؛ کشف الارتیاب : ۳۶۲.

۳۔ المجموع ۸: ۲۰۱.

۱۱۳

۶۔ سمہودی کا نظریہ:

وہ کہتے ہیں : شافعی اور ان کے اصحاب وغیرہ سے نقل ہواہے کہ انہوں نے کہا : زائر کو چاہئے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پشت اورضریح مبارک کی طرف اپنا چہرہ کرے ، نیز احمد بن حنبل کا بھی یہی نظریہ ہے( ۱)

۷۔ سختیانی کی رائے :

ابو حنیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہا کرتے : ایوب سختیانی قبلہ کی طرف پشت اور قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوئے اور گریہ کیا( ۲)

۸۔ فتوائے ابن جماعہ :

ابن جماعہ کہتے ہیں: ابو حنیفہ کے فتوٰی کے مطابق زائر کو چاہئے کہ اسقد ر قبر مطہّر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چکر کاٹے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس کے سامنے آکھڑا ہو اور پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام بھیجے

جبکہ کرمانی نے دوسرے کے بر عکس کہا ہے : زائر کو چاہئے کہ سلام کرنے کے لئے قبر کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو( ۳)

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸.

۲۔المعرفة والتاریخ ۳: ۹۷؛ کشف الارتیاب : ۲۶۱.

۳۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸.

۱۱۴

۹ ۔ ابن منکدر کا نظریہ:

ابراہیم بن سعد کہتے ہیں: میں نے ابن منکدر کو دیکھا کہ وہ مسجد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داخل ہونے کی جگہ نماز ادا کر رہے تھے .پھر وہاں سے اُٹھے اور تھوڑا چلنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ بلند کرکے دعا کی اس کے بعد قبلہ سے منہ موڑااور ہاتھوں کو ایسے بلند کیا جیسے شمشیر غلاف سے بلند کی جاتی ہے اور دعا کی اور مسجد سے نکلتے وقت بھی یہی عمل انجام دیا جیسے کسی کو خدا حافظی کی جاتی ہے( ۱)

چہارم : اس میں کیا عیب ہے کہ انسان اس مکان میں جہاں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدفون ہیں تبرّک کے طور پر نماز ادا کرے جیسا کہ اس پتھر پر نماز پڑھی جاتی جس پر حضرت ابراہیم کھڑتے ہوئے تھے اور یہ اس لئے ہے کہ وہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں مبارک کا نشان ہے جس کی وجہ سے وہ ( پتھر ) فضیلت و منزلت رکھتا ہے.خدا وند متعال اس بارے میں فرماتا ہے :

( و اتّخذوا من مقام ابراهیم مصلّیٰ ) ( ۲ )

ترجمہ : اور مقام ابراہیم کو مصلٰی قرار دو.

یہ ایک بے بنیاد بات ہے چونکہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے جبکہ ابن تیمیہ یہ ادّعاکر رہا ہے کہ تمام گزشتگان نے اسے واضح طور پر بیان کیا ہے

ابن تیمیہ کا ایک اور قول اور اس کا جواب

ابن تیمیہ کا ایک اور فتوٰی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :

گھر میں نماز ادا کرنا انبیاء و صالحین کی قبور کے پاس نماز ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۳ )

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۵: ۳۵۸؛ تاریخ دمشق ۵۶: ۴۸

۲۔ سورہ بقرہ : ۱۲۵.

۳۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸؛ الزیارة ( ضمن مجموعة الجامع الفرید ) : ۴۵۴.

۱۱۵

اسکی دلیل کی تحقیق اور اس پرتنقید

وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے کے حرام ہونے پر چند احادیث سے استنادکرتے ہیں وہ نقل کرتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

لعن الله الیهود ! واتّخذوا قبور انبیائهم مساجد

خدا کی لعنت ہو یہودیوں پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا

دوسری حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

اللّهمّ لا تجعل قبری وثنا یعبد ، اشتدّ غضب الله علی قوم اتّخذوا قبور انبیائهم مساجد ( ۱ )

پرودگارا ! میری قبر کو بت قرار نہ دینا کہ اسکی عبادت کی جائے ، خدا وند متعال اس قوم پر اپنا غضب سخت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد قرار دیا

ہم اس دوسری حدیث کا چند جہات سے جواب دے رہے ہیں :

اوّل : یہ کہ اس حدیث کی سند میں اشکال ہے اس لئے کہ اس سند میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہلسنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے( ۲ )

ان راویوں میں سے ایک عبدالوارث ہے جسے علمائے رجال تائید نہیں کرتے اور نہ اس کے پیچھے نماز

____________________

۱۔ مسند احمد ۲: ۲۴۶؛ موطأامام مالک ۱: ۱۷۲.

۲۔ میزان الاعتدال ۴: ۴۳۰ ؛او ر ۲: ۳.

۱۱۶

پڑھا کرتے

دوم : یہ کہ یہ حدیث ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کے نظریہ پر دلالت نہیں کررہی اس لئے کہ وہ اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : قبور اور بقعوں کے پاس نماز پڑھنا ،نیز ان پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے .جبکہ حدیث کا ظاہر حبشہ کے کلیسوں رواج کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جب بھی یہودیوں کا کوئی نیک فرد مرتاتو وہ ا س کی قبر پر کلیسا بنادیتے .اور وہاں تصویریں بناکر لگاتے

اس بناء پر جو انبیاء کی قبور کو مساجد بناتے ان کی سر زنش کی گئی ہے چونکہ مساجد میں تصاویر لگا کر ان کی پرستش کیا کرتے ،ان کے لئے نماز ادا کرتے اور ان تصویروں اور قبور کی طرف منہ کر کے سجد ہ کیا کرتے

واضح ہے کہ قبور پر مساجد بنانے سے نہی کرنے کی یہی وجہ ہے ورنہ اگر کوئی شخص کسی قبر پر مسجد بنائے لیکن قبلہ رخ ہو کر خد اکے نماز ادا کرے تو اس میں کیا عیب ہے .جیسا کہ آج بھی مسلمان مسجد نبوی شریف یا مسجد جامع بنو امیہ دمشق میں ( کہ اس کے اندر حضرت زکریا علیہ السلام کہ قبر مبارکہے) نماز ادا کرتے ہیں.

سوم: یہ کہ قرطبی ، نووی ، قسطلانی اور بیضاوی نے اس حدیث سے جو مفہوم لیا ہے وہ ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کی رائے کے مخالف ہے. اور بعض جگہوں پر تو وہ معنی لیا ہے کہ جسے ہم پہلے بیان کر چکے( ۱ )

چہارم: یہ کہ فقہائے اہل سنت نے اپنے فتاوٰی میں وہابیوں کے توہم کے خلاف فتوٰی دیا ہے .اب ہم ان میں سے بعض کے نظریات کو بیان کر رہے ہیں:

____________________

۱۔ارشادالساری ۲: ۹۹؛ اور ۳: ۴۹۷؛ شرح صحیح مسلم ۷: ۲۷.

۱۱۷

۱۔امام مالک کا نظریہ :

امام مالک کے شاگرد ابن قاسم سے کہا گیا : کیا مالک کے نزدیک جائز ہے کہ ایک شخص قبر پر نما زاداکرے جبکہ اس پرغلاف موجود ہو ؟

تو انہوں نے کہا : مالک قبرستان میں نماز ادا کرنے پر اعتراض نہ کرتے اس لئے کہ وہ قبرستان میں نماز ادا کرتے جبکہ ان کے سامنے ،پیچھے اور دائیں ، بائیں قبریں ہوتیں.

مالک کہتے ہیں : قبرستان میں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے.

وہ کہا کرتے کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض صحابہ کرام قبرستان میں نماز اداکیا کرتے( ۱)

۲۔ عبدالغنی نابلسی کا نظریہ :

اگر کوئی شخص کسی نیک انسان کی قبر پر مسجدبنائے اور اسکی نیّت یہ ہو اس عبادت کا ثواب اس شخص کے شامل حال ہو اور نماز ادا کرتے وقت اس کی تعظیم یا اسکی طرف توجہ نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے

. جیسا کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حرم (جو خانہ کعبہ کے پاس مسجد الحرام کے اندرہے) میں نماز ادا کرنا باقی مکانوں کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۲ )

اسی طرح وہ کہتے ہیں : اگرقبروں کی جگہ مسجد بنا دی جائے یا راستہ میں ہو یا کوئی شخص وہاں پہ بیٹھا ہو ، یا یہ کہ کسی ولی خدا یا عالم محقق کی قبر ہو جس نے خدا کی رضا کی خاطر کوشش کی تو اس کی روح پر نور کے احترام کی خاطر۔جو خورشید کے مانند زمین پر چمک رہی ہے ۔اور یہ بتانے کے لئے کہ صاحب قب رولی

____________________

۱۔المدوّنة الکبرٰی ۱: ۹۰.

۲۔ الحدیقة الندبة ۲: ۶۳۱.

۱۱۸

خداہے اس سے تبرّک حاصل کیا جائے ا وراسکی قبر کے پاس دعاکی جائے تاکہ مستجاب ہو.تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے.اس لئے کہ انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے(۱)

۳۔ ابومالکی کا نظریہ :

کوثری کہتے ہیں : ابومالکی نے اپنانظریہ یوںبیان کیا : جو بھی کسی نیک انسان کی قبر پر مسجد بنائے یا اس کے مقبرہ میں نماز ادا کرے جبکہ اسکا مقصد اس شخص کے آثار سے تبرّک حاصل کرنا اور اسکی قبر کے پاس دعا مستاب کروانا ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسکی دلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مبارک ہے جو مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے پاس ہے اور اسمیں نماز ادا کرنا باقی مقامات پر ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۲ )

۴۔بغوی کا نظریہ :

بغوی کہتے ہیں: بعض علما ء فرماتے ہیں کہ قبرستان میں یا قبور کے پاس نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ قبرستان میں نماز کی جگہ پاک ہو

ایک روایت میں بیان ہوا ہے: ایک دن عمر بن خطاب نیانس بن مالک کو ایک قبر کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : یہ قبر ہے ! یہ قبر ہے ! لیکن ان سے یہ نہیں کہا کہ دوبارہ نماز ادا کرو

حسن بصری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قبرستانوں میں نماز ادا کیا کرتے

مالک سے نقل کیا گیا ہے قبرستان میں نماز ادا کرنا کوئی عیب نہیں رکھتا

____________________

۱۔حوالہ سابق : ۶۳۰.

۲۔ المقالا ت کوثری ۲۴۶؛ شرح صحیح مسلم ۲: ۲۳۴.

۱۱۹

وہی کہتے ہیں : بعض مکانوں ( حمام اور قبرستان)میں نماز کرنے سے نہی کی دلیل یہ کہ وہاں پر غالبا نجاست پھینی جاتی ہے جیسے حمام .اسی وجہ سے وہاں نماز ادا کرنے کو مکروہ قرار دیاگیا ہے .اور قبرستان میں نماز اداکرنے سے اس لئے نہی کی گئی کہ وہاں کی مٹی مردوں کے خون اور ہڈیوں سے مخلو ط ہوتی ہے اور نہی نجاست سے متعلق ہے .لیکن اگر کوئی شخص اپک جگہ بنا لے تو وہاں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے( ۱ )

اب بھی بیان کردہ مطالب اور مقبروں میں نماز ادا کرنے کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنّت کے فتاوٰی کے باوجود وہابیوں کے پاس کوئی چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ مقبروں میں نماز ادا کرنے والوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائیں اور یہ کہیں کہ: یہ لوگ صاحب قبر کی عبادت کرتے ہیں جبکہ امام مالک اور حسن بصری قبروں کے درمیان میں نماز ادا کیا کرتے؟!

____________________

۱۔ شرح السنّة ۲: ۳۹۸.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179