وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 84763
ڈاؤنلوڈ: 3093

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84763 / ڈاؤنلوڈ: 3093
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یا عمر دعهن فان العین دامعة والنفس مصابة والعهد قریب

اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا( ۱ )

ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت

تاریخ او رسیرت ہمیں یہ بتارہی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و۔۔۔۔۔ کی موت پر گریہ کیا۔

حضرت ابراہیم پر گریہ کے وقت پوچھا گیا ۔ کس لئے ابراہیم پر رورہے ہیں ؟ فرمایا:

تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الرب ( ۲ )

____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین ۱: ۳۸۱، مسند احمد ۲: ۴۴۴.

۲۔عقد الفرید ۳: ۱۹، سنن ابن ماجہ ۱:۵۰۶.

۱۶۱

آنکھیں گریہ کنا ں ہیں ، دل غمگین ہے اور میں ایسی بات نہیں کرتا جو ناراضگی پروردگار کاباعث بنے ۔

نقل کیا گیا ہے کہ جب عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے میت کا بوسہ لیا اور گریہ کیا ۔( ۱)

صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت

صحابہ کرام اور تابعین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر گریہ کیا کرتے ۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے ۔

کہ جب امیر المومنین کو مالک اشتر کی شہا دت کی خبر ملی تو گفتگو کے درمیان فرمایا:

علی مثله فلتبک البواکی ( ۲ )

گریہ کرنے والوں کیلئے شائستہ یہ ہے کہ اس جیسے پر آنسوبہائیں۔

عباد کہتے ہیں : حضرت عائشہ فرمایا کرتیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا اور دوسری عورتوں کے ہمراہ سینے اور منہ پر پیٹا۔( ۳ )

عثمان کہتے ہیں : جب میں نے عمر کو نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر دی تو اس نے اپنا ہاتھ سر پر رکھااور گریہ کیا ۔( ۴ )

جب محمد بن یحی ذہلی نیشاپوری نے احمد ابن حنبل کی وفات کی خبر سنی توکہا : مناسب ہے کہ تما م اہل بغداد اپنے اپنے گھروں میں نوحہ خوانی کی مجالس برپا کریں ۔

____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۱۴.

۲۔سیر اعلام النبلاء ۴: ۳۴؛ الکامل فی التاریخ ۳: ۲۲۷.

۳۔سیرة النبوة ۶: ۷۵؛ مسند احمد ۶: ۲۷۴.

۴۔المستدرک علی الصحیحین ۳: ۳۳۲ ؛ المصنف لابن ابی شیبہ ۳: ۴۵؛ مسند احمد ۶:۲۷۴؛ السیرة النبویة ۶:۷۵.

۱۶۲

گلی کوچوں پر عزاداری

گلی کوچوں او رسڑکوں پر عزاداری کرنا ان امورمیں سے ہے کہ جو مسلمانوں کے درمیان رائج تھے ۔

نسفی کہتے ہیں : میں اہل سنت کے حافظ بزرگ ابو یعلی عبدالمومن بن خلف (ت ۳۴۶ھ) کے جنازے میں شریک تھا کہ اچانک چار سو طبلوںکی آواز گونجنے لگی۔( ۱ )

ذہبی کہتے ہیں : جوینی نے ۲۵ ربیع الثانی ۴۷۸ھ میں وفات پائی ۔ لوگ اسکے منبر کوتوڑ کر تبرک کے طور پر لے گئے ، اس کے سوگ میں دکانوں کو بند کردیا اور مرثیے پڑھے ۔ اس کے چار سو شاگرد تھے جنہوں نے اس کے فراق میں قلم ودوات توڑ ڈالے اور ا س کے لئے عزا برپا کی ۔ انہوں نے ایک سال کے لئے عمامے اتار دیئے اور کسی کی جرئت نہ تھی کہ سر کوڈھانپے ۔ طلاب شہر میں پھرتے ہوئے نوحہ وفریاد اور گریہ وزاری میں مشغول رہتے ۔( ۲ )

اس کے بعد افکار ابن تیمیہ کا پروردہ ذہبی نرم زبانی میں کہتاہے : ایسے اعمال عجمیوں کی رسومات میں سے ہیں او رسنت نبوی کی پیروی کرنے والے علماء ایسے اعمال انجام نہیں دیتے ۔

لیکن وہی دوسرے مقام پر ۳۵۱ھ میں معز الدولہ کے دوران حکومت میں بغداد میں امام حسین کی عزاداری کے سلسلہ میں بازروں کے بند ہونے اور لوگوں کے سروسینہ پر ماتم کرنے و۔۔ ۔۔۔ کے بارے میں اپنے کینہ کی بناپر بے شرمی سے کہتاہے ۔

خدایا! ہماری عقلوں کو مضبوط بنا ۔( ۳ )

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۱۵: ۴۸۰ ؛ تاریخ ابن عساکر ۱۰ : ۲۷۲.

۲۔سیر اعلام النبلاء ۱۸:۴۶۸ ؛ تاریخ بغداد ۹۳ ؛ وفیات الاعیان ۳ : ۱۴۹.

۳۔العبر ۳: ۸۹ ؛ تاریخ الاسلام : ۱۱ ؛ حوادث سال ۳۵۱ھ.

۱۶۳

یہ امر روشن ہے کہ ذہبی کا یہ جملہ تعصب کے سواکچھ نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سنت نے اسے جواب دیا ۔ علمائے اہل سنت میں سے سبکی ، ذہبی کے جواب میں کہتے ہیں : نہ تو امام نے خود ایسے اعمال انجام دیئے اور نہ ہی وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد ایسا کیا جائے لیکن وہ اس قدر بزرگ شخصیت تھے کہ ان کے شاگردوں سے اس کی مصیبت برداشت نہ ہوسکی۔( ۱ )

تعجب ہے سبکی پر ! کیسے امام جوینی کی بات آئی تو ذہبی کو محکوم کیا لیکن جوانان جنت کے سردار امام حسین بن علی کی عزاداری کے بارے میں جب اس نے جانبداری اختیار کی تونہ سبکی اور نہ ہی ان کے دوسرے علماء میں سے کسی نے کسی طرح کا رد عمل ظاہر کیا۔

خالد ربعی عمر بن عبدالعزیز کی عزاداری کے بارے میں کہتاہے :

تورات میں بیان ہوا ہے کہ عمر ابن عبد العزیز کی موت پر چالیس دن تک زمین وآسمان گریہ کریں گے. ۲

عزاداری امام حسین

ابن کثیر (البدایة والنہایة ) میں لکھتے ہیں ؛

ملک ناصر (حاکم حلب) کے زمانے میں یہ درخواست کی گئی کہ روز عاشوراء کربلا کے مصائب بیان کئے جائیں ۔ سبط بن جوزی منبر پر گئے ، کافی دیر سکوت کے بعد عمامہ سر سے اتارا اورشدید گریہ کیا۔ اور پھر یہ اشعار پڑھے :

ویل لمن شفعاء خصمائه

والصور فی نشر الخلائق ینفخ

لا بد ان ترد القیامة فاطم

وقمیصها بدم الحسین ملطخ

____________________

۱۔طبقات الشافعیة ۵: ۱۸۴.

۲۔تاریخ الخلفاء ، سیوطی ۱: ۲۴۵.

۱۶۴

افسوس ہے ان پر جن کی شفاعت کرنے والے جب میدان محشر میں صور پھونکاجائیگا تو ان کے دشمن ہونگے ۔ اورفاطمہ روز قیامت ضروراپنے فرزند حسین کے خون میں لتھڑی ہوئی قمیص لے کر میدان محشر میں وارد ہونگی۔

یہ کہہ کرمنبر سے اترے اور اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے ۔( ۱ )

واضح روایات او رتاریخی شواہد کی روشنی میں مجالس ، ماتم وسوگواری ، نوحہ خوانی ، گریہ وعزاداری ، عزیزوں کے فراق میں بے تابی ، منہ اور سینے پر پیٹنا ، دکانوں کا بند رکھنا او رغم واندوہ کی دیگر علامات طول تاریخ مسلمین میں رائج رہی ہیں۔

مردوں پر رونا

جو لوگ مردوں پر رونے کو حرام سمجھتے ہیں وہ اس حکم پر چند دلیلیں پیش کرتے ہیں

اول: وہ احادیث جو عمر، عبداللہ بن عمر او ردیگر سے نقل ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے ۔ (عزیزوں کے گریہ کی وجہ سے مردے پر عذاب نازل ہوتاہے )( ۲ )

لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے نقل کرتے وقت اشتباہ کیا ہے یا بطور کلی روایت کے متن کو بھول بیٹھا ہے ۔

ابن عباس کہتے ہیں : عمر کی وفات کے بعد جب یہ حدیث عائشہ کے سامنے پیش کی گئی توفرمایا: خداکی رحمت ہو عمر پر ، خدا کی قسم ! رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

ان الله لیزیدالکافر عذابا ببکاء اهله

____________________

۱۔البدایة والنھایة ۱۳: ۲۰۷.

۲۔جامع الاصول ۱۱: ۹۹؛ ح ۸۵۷؛ السیرة النبویة ۳:۳۱۰؛ سننن ابن ماجہ ۱:۵۰۶ ، ح ۱۵۸۹.

۱۶۵

بیشک خداوند متعال کافر کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے اس پر عذاب بڑھادیتاہے ۔

اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں :ولاتزر وازرة وزر اخری ( ۱ )

ترجمہ: (اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوںکا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔)

عبدا للہ ابن عمر بھی وہاں پر موجود تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے جواب میں کچھ نہ کہا۔( ۲ )

ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب عبد اللہ بن عمر کی یہ روایت حضرت عائشہ کے سامنے نقل ہوئی توفرمایا: خداوند متعال عبد اللہ بن عمر کو بخش دے ۔ اس نے جھوٹ نہیں کہا ۔بلکہ یا توبھول بیٹھا ہے یا نقل کرنے میں اشتباہ کیاہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک یہود ی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا اس کے رشتہ دار اس پر رورہے ہیں توفرمایا:

انهم لیبکون علیها وانها لتعذب فی قبرها

وہ اس پر رورہے ہیں جبکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہاہے ۔

روایات کی توجیہ

علمائے اہل سنت نے اس بارے میں ان روایات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ وہ گریہ کے ہمراہ ایسی صفات وخصوصیات کا ذکر کرتے کہ جو شریعت میں حرام ہیں ۔ مثال کے طورپر کہا کرتے : اے گھروں کو ویران کرنے والے! اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے !و۔۔۔۔

ابن جریر ، قاضی عیاض اور دیگر نے ان روایات کی توجیہ میں کہا ہے کہ : رشتہ داروں کاگریہ سننے سے میت

____________________

۱۔سورة فاطر : ۱۸.

۲۔المجموع ۵: ۳۰۸ ؛ صحیح بخاری ۱: ۴۳۲.

۱۶۶

کا دل جلتاے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے ۔

مزید ایک توجیہ حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے جو انہوں نے اس حدیث کے معنی میں بیان فرمائی ہے کہ جب رشتہ دار گریہ کرتے ہیں تو کافر یا غیر کافر پر اس کے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتاہے نہ کہ عز یزوں کے گریہ کی وجہ سے ۔( ۱ )

علامہ مجلسی اس بارے میں (بحار الانوار میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں حرف (باء ) مع کے معنی میں ہے یعنی جب میت کے رشتہ دار اس پر گریہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوتاہے( ۲ )

دوم : میت پر گریہ کرنے کی حرمت پر دوسری دلیل وہ روایت ہے کہ جو متقی ہندی نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے ۔ کہ انہوںنے کہا :

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ او رعبد اللہ رواحہ کی شہادت کی خبر ملی تو چہر ہ مبارک پرغم واندوہ کے آثار طاری ہوئے ۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اچانک ایک شخص آیا او رعرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! عورتیں جعفر پر گریہ کر رہی ہیں ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :فارجع الیهن فاسکتهن ، فان ابین فاحث فی وجوههن (افواههن ) التراب)

ان کے پاس جاؤ او رانہیں خاموش کراؤ۔ پس اگر وہ انکار کریں تو ان کے منہ پر خاک پھینکو۔( ۳ )

____________________

۱۔المجموع ۵: ۳۰۸.

۲۔بحار الانوار ۷۹: ۱۰۹.

۳۔کنزالعمال ۱۵: ۷۳۲ ؛ المصنف لابن ابی شیبہ ۳: ۲۶۵.

۱۶۷

یہ روایت چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے ۔

(رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں او شہداء پر گریہ کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے کہ حمزہ اورجعفر و۔۔۔ پر گریہ کریں اور پھر جب حضرت عمر نے عورتوں کو گریے سے منع کیا۔ تو فرمایا : انہیں چھوڑ دو، آنکھیں گریہ کناں ہیں اور...۔( ۱ )

۲ ۔ اس حدیث کے روایوں میں سے ایک محمد ابن اسحاق بن یسار بن خیار ہے ۔ جس کے بارے میں علمائے رجال میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ابن نمیر کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور باطل احادیث کو نقل کرتاہے ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن اسحاق احادیث میں تدلیس کیا کرتا اور ضعیف احادیث کو قوی ظاہر کرتا.( ۲ )

سوم: گریے کے حرام ہونے پر تیسری دلیل حضرت عمر کا عمل ہے ۔ نصر بن ابی عاصم کہتے ہیں : ایک رات عمر نے مدینے میں عورتوں کے گریے کی صدا سنی تو ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک عورت کو تازیانے مارے ، یہاں تک کہ اس کے سرکے بال کھل گئے ۔ لوگوں نے کہا : اس کے بال ظاہر ہوگئے ہیں ۔ کہا : اس کا کوئی احترام نہیں( ۳ ) اس روایت میں چند لحاظ سے غور کرنے کی ضرورت ہے :

۱۔ حضرت عمر نے ایسے گھرپر حملہ کیا جس میں نامحرم عورتیں موجود تھیں او رپھر اسی تلخ واقعہ کا تکرار خانہ وحی پر حملہ کرکے کیا ۔( ۴ )

____________________

۱۔سنن نسائی ۴: ۹۱ ؛ مسند احمد ۳: ۳۳۳ ؛ا لمستدرک علی الصحیحین ۱: ۳۸۱.

۲۔تہذیب الکمال ۱۶: ۷۰.

۳۔کنزالعمال ۵: ۷۳۱ ؛ المصنف عبدالرزاق ۳: ۵۵۷ ح ۶۶۸۲.

۴۔خانہ وحی وہ گھر ہے جس میں حضرت فاطمہ موجود تھیں اس پر حملہ کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اور رپھر اپنے اس عمل کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان عورتوں کا کوئی احترام نہیں ہے ) کیا اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ عورتیں مسلمان نہیں تھیں یا پھر ماننا پڑے گاکہ عمرنے ان کی حرمت کا کوئی خیال نہ رکھا ؟

۱۶۸

۲۔ کیا حضرت عمر کا عمل حجت ہے ؟ کیا وہ معصوم ہیں ؟ جبکہ کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیاکہ وہ معصوم ہیں ۔ امام غزالی نے ابوبکر وعمر کے قول کی حجیت کوبے اساس قرار دیاہے اورکہا ہے : بے بنیاد اصولوں میں سے دوسری اصل قول صحابی کا حجت ہوناہے ۔ بعض کہتے ہیں : صحابی کی رائے بطور کلی حجت ہے اور بعض کہتے ہیں : صحابی کی رائے اگر قیاس کے مخالف ہوتو حجت ہے و۔۔۔۔۔

اس کے بعد غزالی کہتے ہیں :یہ سب اقوال باطل ہیں ۔ چونکہ جو شخص عصمت نہیں رکھتااو راس کے عمداً یا سہواً اشتباہ کرنے کا احتمال موجود ہے تواس کا قول کسی طرح بھی حجت نہیں ہوسکتا۔( ۱ )

۳۔ وہ موارد جن میں خلیفہ کی رائے سنت وفعل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سراسر مخالف ہے ان میں سے یہ

عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں : میں ابوبکر کی عیادت کیلئے گیا ۔ توکہنے لگے ۔ اے کاش! میں نے تین کام انجام نہ دیئے ہوتے ۔وہ تین کا م کونسے ہیں؟

۱۔ فاطمہ کے گھر کی حرمت پامال نہ کی ہوتی او رانہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہوتااس روایت کو بہت سے اہل سنت علماء نے نقل کیاہے جن میں سے ابن ابی شیبہ نے المصنف ۲: ۵۷۲ ؛ بلاذری نے انساب الاشراف ۱: ۵۸۶؛ طبری نے اپنی تاریخ ۲: ۴۴۳ ؛ ابن عبدالبر نے استیعاب ۳: ۹۷۵ و۔۔۔۔۔ میں نقل کیا ہے ۔

____________________

۱۔المستصفی ۱؛ ۲۶۰ ؛ دراسات فقہیة فی مسائل خلافیة : ۱۳۸.

۱۶۹

روایت بھی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمر سے فرمایا : اے عمر! ان عورتوں کو چھوڑ دو۔( ۱ )

اور اسی طرح حضرت عائشہ کا یہ قول کہ فرمایا:

خدا رحمت کرے عمر پر یا تو فراموش کربیٹھا ہے یااس سے نقل کرنے میں اشتباہ ہواہے ۔(۲ )

جوکچھ بیان کیا گیاہے یہ ان ادلہ کا خلاصہ ہے جو وہابیوں کے ادعاء کو رد کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیں اورہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں اس لئے کہ جو شخص سننے والے کان رکھتاہے اس کے لئے یہی کافی ہے ۔

الحمد لله رب العالمین

____________________

۱۔مسند احمد ۳: ۳۲۳.

۲۔المجموع ، نووی ۵: ۲۰۸.

۱۷۰

فہرست

مشخصات کتاب ۴

انتساب ۵

موضوعات ۶

مقدمہ مترجم ۷

مقدّمہ مؤلف ۸

۱۔توسّل ۲۱

توسّل اور اسکی اعتقادی جڑیں ۲۱

۱۔ قرآن کریم ۲۔ احادیث ۲۱

۱۔توسّل حضرت آدم علیہ السلام : ۲۳

۲۔ پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید اورپیشگوئی: ۲۳

۳۔ فرمان پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ۲۴

۴۔ تاکید حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ۲۵

۵۔صحابہ کرام کا قبر پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کرنا: ۲۵

۶۔ توسّل ابوالحسین فقیہ شافعی : ۲۶

۷۔ توسّل ابو الحسین بن ابی بکر فقیہ : ۲۶

۸۔ حاکم نیشاپوری کا قبر امام رضا علیہ السلام سے توسّل کرنا: ۲۶

۹۔ زید فارسی کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے متوسّل ہونا : ۲۷

۱۰۔ابو نصر مؤذن نیشاپوری کا توسّل : ۲۸

۱۱۔ امیر خراسان کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے توسّل : ۲۹

۱۷۱

۱۲۔ ابو علی خلال کا قبر امام موسیٰ کا ظم سے توسّل: ۲۹

۱۳۔اہل مدینہ کاقبر پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسّل کرنا : ۳۰

۲۔شفاعت ۳۲

شفاعت کیا ہے ؟ ۳۲

مسلمان اور عقیدہ شفاعت ۳۳

۱۔ قاضی عیاض کہتے ہیں : ۳۳

۲۔ ناصرالدین مالکی اس بارے میں لکھتے ہیں : ۳۴

اقسام شفاعت ۳۵

۱۔ قیامت میں شفاعت : ۳۵

۲۔ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا : ۳۵

آیات کی روشنی میں ۳۶

احادیث کی روشنی میں ۳۶

علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں ۳۷

۱۔ شیخ مفید فرماتے ہیں : ۳۷

۲۔ علا مہ مجلسی فرماتے ہیں : ۳۷

۳۔ فخر رازی لکھتے ہیں : ۳۸

۴۔ ابو بکر کلا باذی (م ۳۸۰ھ) لکھتے ہیں : ۳۸

دنیا میں شفاعت ۳۹

ولادت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ان سے شفاعت طلب کرنا ۳۹

پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے شفاعت کا طلب کرنا ۴۱

۱۷۲

۱۔انس کی روایت: ۴۱

۲۔سواد بن قارب کی روایت: ۴۲

آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعدان سے شفاعت کی درخواست ۴۳

۱۔ حضرت علی علیہ السلام کا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا : ۴۳

۳۔ اعرابی کا صحابہ کی موجودگی میں شفاعت طلب کرنا: ۴۴

حیات انبیاء ۴۵

استغفارآیات کی روشنی میں ۴۸

شفاعت کے بارے میں وہابی نظریہ ۴۹

اس نظریہ کا جواب ۵۰

حرمت شفاعت پردوسری دلیل ۵۳

خاک مدینہ سے علاج ۵۵

تبرّک اور اہل سنّت فقہاء کا نظریہ ۵۶

پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مس شدہ سکوں سے تبرّک ۵۹

وہ قبور اور جنازے جن سے تبرّک حاصل کیا گیا ۶۱

باعظمت چیزوں سے تبرّک حاصل کرنا ۶۳

۴۔استغاثہ ۶۵

حاجت کی درخواست ۶۵

وہابی نظریہ کی تحقیق اور اس پر اعتراض ۶۶

فقہاء کی نظر میں استغاثہ اور مددطلب کرنا ۷۰

۱۔ علاّمہ قسطلانی(م ۹۲۳ھ) کہتے ہیں: ۷۱

۱۷۳

۲۔ علاّمہ مراغی(م۸۱۶ھ) کہتے ہیں: ۷۱

۳۔ قیروانی مالکی ( م ۷۳۷ھ ) زیارت قبور کے بارے میں ایک الگ فصل میں لکھتے ہیں: ۷۱

استغاثے کے نمونے ۷۳

۱۔نابینا شخص کا پیغمبر سے استغاثہ : ۷۳

۲۔ حضرت عائشہ اور عمر کا پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر سے استغاثے کا حکم دینا : ۷۵

اہل بیت کی قبور سے استغاثہ ۷۹

۱۔ قاہرہ میں مقام امام حسین سے استغاثہ : ۷۹

۲۔ نابینا شخص کا بارگاہ امام حسین علیہ السلام سے توسّل : ۸۰

۳۔ ابن حبّان کا قبر امام رضا علیہ السلام سے استغاثہ : ۸۲

۴۔ ابن خزیمہ کا قبر امام رضا علیہ السلام پر التماس کرنا: ۸۳

بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور سے استغاثہ ۸۵

۱۔قبر ابوایوب انصاری ( م۵۲ھ روم ): ۸۶

۲۔ قبر ابوحنیفہ : ۸۶

۳۔ قبر احمد بن حنبل : ۸۷

۴ ۔ قبرابن فورک اصفہانی( م ۴۰۶ھ) : ۸۷

۵۔ قبر شیخ احمد بن علوان ( ت ۷۵۰ھ) : ۸۸

خاتمہ ۸۸

ان سے استغاثہ کریں ۸۹

۵۔زیارت قبور ۹۰

وہابیوں کے نزدیک زیارت رسو ل صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹۰

۱۷۴

اس نظریے کا جواب ۹۱

۱۔قرآن کی نظر میں ۹۱

۲۔ احادیث کی نظر میں ۹۱

پہلی حدیث : ۹۲

دوسری حدیث : ۹۲

تیسری حدیث : ۹۳

چوتھی حدیث : ۹۳

۳۔ صحابہ کرام کی سیرت ۹۴

۴ ۔ عقل کی رو سے ۹۶

وہابیوں کی دلیل کے بارے میں تحقیق ۹۶

ابن تیمیہ کے توہمات اور علمائے اہل سنت کا موقف ۹۹

مقامات مقدسہ اور قبور کی زیارت ۱۰۱

۶۔عورت اورزیارت قبور ۱۰۲

عورتوں کا قبور کی زیارت کرنا ۱۰۲

وہابی نظریہ کا ردّ ۱۰۲

۷۔قبروں پر دعا کرن ۱۰۵

قبر پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر قبور کے پاس دعاکرنااور نماز پڑھنا ۱۰۵

وہابیوں کا نظریہ ۱۰۵

اس توہّم کا جواب ۱۰۶

۱۔عمر بن خطاب کا طریقہ کار: ۱۰۸

۱۷۵

۲۔ امام شافعی کا قول : ۱۰۸

۳۔قبر معروف کرخی : ۱۰۸

۴۔ قبر شافعی : ۱۰۹

۵۔ قبر بکراوی حنفی ( ت ۴۰۳): ۱۰۹

۷۔ قبر ابو بکر اصفھانی ( ت۴۰۶): ۱۱۰

۸۔ قبر نفیسہ خاتون : ۱۱۰

ابن تیمیہ کا دوسرا فتوٰی ۱۱۱

اس ادّعا کا جواب ۱۱۱

۱۔فتوائے امام مالک: ۱۱۲

۲ ۔ فتوائے خفاجی : ۱۱۲

۳۔ فتوائے محقق حنفی : ۱۱۳

۴۔ فتوائے ابراہیم حربی: ۱۱۳

۵۔ ابو موسٰی اصفہانی کا نظریہ : ۱۱۳

۶۔ سمہودی کا نظریہ: ۱۱۴

۷۔ سختیانی کی رائے : ۱۱۴

۸۔ فتوائے ابن جماعہ : ۱۱۴

۹ ۔ ابن منکدر کا نظریہ: ۱۱۵

ابن تیمیہ کا ایک اور قول اور اس کا جواب ۱۱۵

اسکی دلیل کی تحقیق اور اس پرتنقید ۱۱۶

۱۔امام مالک کا نظریہ : ۱۱۸

۱۷۶

۲۔ عبدالغنی نابلسی کا نظریہ : ۱۱۸

۳۔ ابومالکی کا نظریہ : ۱۱۹

۴۔بغوی کا نظریہ : ۱۱۹

۸۔تعمیر قبور ۱۲۱

وہابیوں کا نظریہ اور ان کے فتاوٰی کے نمونے ۱۲۱

۱۔ صنعانی کہتا ہے : ۱۲۱

۲۔ ابن تیمیہ کاشاگرد ابن قیم کہتا ہے : ۱۲۱

۳۔ علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں یوں بیان ہواہے: ۱۲۱

اس فتوی کا رد ۱۲۲

اس حدیث پر اعتراض ۱۲۳

سیرت صحابہ کرام ومسلمین ۱۲۷

صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مقبروں کی تعمیر نو ۱۲۸

صحابہ کرام اور دیگر افراد کی قبور ۱۲۹

ابو زبیر کی حدیث سے استناد ۱۳۰

اس حدیث پر اعتراضات ۱۳۱

مقبروں کے آثار ۱۳۳

۹۔قبور پر چراغ روشن کرنا ۱۳۵

قبور پر چراغ روشن کرنا ۱۳۵

اس نظریہ کارد ۱۳۵

۱۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ۔ ۱۳۵

۱۷۷

۴۔ سیر ت مسلمین : ۱۳۷

۱۰۔ نذر ۱۳۸

غیر خدا کیلئے نذر ۱۳۸

اس نظریے کا ردّ ۱۳۹

نذر سے متعلق سیرت مسلمین ۱۴۲

علماء کے فتاوٰی ۱۴۳

۱۱۔غیر خدا کی قسم ۱۴۵

غیر خدا کی قسم کھانا ۱۴۵

اس نظر یے کا جواب ۱۴۶

اول :یہ کہ غیر خدا کی قسم کھا نا ۱۴۶

ب)روایات میں غیر خدا کی قسم کھانا: ۱۴۷

ایک اعتراض ۱۴۸

اعتراض کا جواب ۱۴۹

قسمِ ابوطالب اور تائیدِ پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۴۹

عمل صحابہ ۱۵۰

حدیث عبداللہ بن عمر پر اعتراض ۱۵۰

۱۲۔جشن منانا ۱۵۳

جشن منانا ۱۵۳

اس حدیث پر اعتراضات ۱۵۴

علماء کے اقوال کے نمونے ۱۵۶

۱۷۸

مذکورہ حدیث پر اعتراض ۱۵۷

۱۳۔گریہ و مجالس عز ۱۶۰

گریہ ومجالس عزا کا برپا کرنا ۱۶۰

پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت ۱۶۱

صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت ۱۶۲

گلی کوچوں پر عزاداری ۱۶۳

عزاداری امام حسین ۱۶۴

مردوں پر رونا ۱۶۵

روایات کی توجیہ ۱۶۶

۱۷۹