وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 84769
ڈاؤنلوڈ: 3094

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84769 / ڈاؤنلوڈ: 3094
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

۱۔توسّل

توسّل اور اسکی اعتقادی جڑیں

توسل کا معنی انبیاء و آئمہ اور صالحین کو خداوند متعال کی بارگاہ میں واسطہ قرار دیناہے اسکی مشروعیت اور جواز کے بارے میں دو اعتبار سے بحث ہو سکتی ہے :

۱۔ قرآن کریم ۲۔ احادیث

قرآن کریم سے چند ایک آیات کو توسل کی مشروعیت وجواز کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے سورہ مائدہ میں پڑھتے ہیں :

( یا أیهاالذین آمنوا اتقواالله وابتغوا الیه الوسیلة وجاهدوا فی سبیله ) ( ۱ )

ترجمہ :اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو

دوسری آیت سورہ مبارکہ نساء کی ہے جس میں یوں بیان کیا گیاہے :

( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما. ) ( ۲ )

____________________

۱۔ سورہ مائدہ : ۳۵؛

۲۔سورہ نسا ء : ۶۴

۲۱

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے

تیسری آیت مبارکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندوں کے بارے میں ہے جب وہ اپنے عمل پر پشیمان ہوئے اوراپنے والد گرامی کے پاس پہنچے تاکہ وہ خدا وند متعال سے ان کی بخشش کی دعا کریں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی ان کی درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا : میں جلدپروردگارسے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا اس مطلب کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا :

( قالوایا أبانا استغفرلنا ذنوبنا انّا کنّا خاطئین قال سوف أستغفر لکم ربّی انّه هو الغفورالر حیم ) .( ۱)

ترجمہ: ان لوگوں نے کہا بابا جان! اب آپ ہمارے گناہوں کے لیے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے انھوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اورمہربان ہے .۔

____________________

۱۔سورہ یوسف : ۹۷ اور ۹۸.

۲۲

روایا ت میں بھی کثرت کے ساتھ توسل کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک نمونوں کو ذکر کر رہے ہیں :

۱۔توسّل حضرت آدم علیہ السلام :

جلال الدین سیوطی ( عالم اہل سنت ) لکھتے ہیں :

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم علیہ السلام نے خدا وند متعال کی بارگاہ میں یوں توسل کیا :

أللّهمّ انّی أسئلک بحق محمد وآل محمّد سبحانک لااله الّا أنت ، عملت سوئ، وظلمت نفسی ، فاغفرلی انّک أنت الغفور الرحیم ( ۱ )

خدایا ! تجھے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمد کا واسطہ دیتا تو پاک ومنزہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا .پس مجھے بخش دے کہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید اورپیشگوئی:

ایک دوسری روایت جو حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے اس میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں : رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کے بارے میں یوں فرمایا:

هم شرالخلق والخلیقة یقتلهم خیرالخلق والخلیقة ، وأقربهم عندالله وسیلة

خوارج بد ترین مخلوق ہیں جنہیں مخلوق کا بہترین فرد اور خدا کا نزدیک ترین وسیلہ قتل کرے گا( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر الدر المنثور ۱: ۶۰

۲۔ فرائد السمطین ۱:۳۶ ، ح۱

۲۳

۳۔ فرمان پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

ابوہریرہ کہتا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کے توسل کے بارے میں بیان فرمایا کہ خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا :یا آدم ! هؤلاء صفوتی فاذاکان لک لی حاجة فبهؤلاء توسّل یعنی اے آدم ! یہ میرے برگزیدہ بندے ہیں جب تجھے مجھ سے کوئی حاجت طلب کرنا ہو تو ان کے وسیلہ سے طلب کرنا

اس کے بعد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :نحن سفینة النّجاة ، ومن تعلّق بها نجا ومن حاد عنها هلک ، من کان له الی اللّٰه حاجة فلیسئلنا أهل البیت ( ۳ )

ہم کشتی نجات ہیں جو بھی ا س میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی کی ہلاک ہو گیا پس جس کسی کو خداوند متعال سے کوئی حاجت ہو وہ ہم اہل بیت کو واسطہ قرار دے ۔

۲۴

۴۔ تاکید حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

دختر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے خطبہ میں فرماتی ہیں :

وأحمد الله الذی بعظمتة ونوره یبتغی من فی السماوات والأرض ، الیه الوسیلة و نحن وسیلته فی خلقه

زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب تقرّب خدا کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں اور مخلوق خدا میں اس کا وسیلہ ہم ہیں ۔( ۱ )

۵۔صحابہ کرام کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کرنا:

عسقلانی فتح الباری میں لکھتا ہے : سند صحیح کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ خلیفہ دوم کے زمانہ میں خشک سالی ہوئی تو صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، بلال بن حارث قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہنچے اور عرض کیا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت ہلاک ہو گئی ہے خدا سے باران رحمت طلب کریں

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں خواب میں ملے اور فرمایا: باران رحمت کا نزول ہو گا( ۲ )

____________________

۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱: ۲۱۱ ؛ بلاغات النساء بغدادی : ۱۴؛ السقیفہ و فدک : ۱۰۱

۲۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری ۲: ۴۱۲؛ ۳۔ذہبی نے اس کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے :وہ شافعیوں کے علاّمہ اور شیخ ہیں یہ وہی شخص ہے جو شافعی قواعد و مبانی کے مطابق فتوٰ ی دیا کرتا اس کے شاگرد حاکم نیشاپوری کے بقول مذہب شافعی سے آشنائی میں وہ سب سے زیادہ آگاہ تھے اور ۳۸۴ ھ میں وفات پائی سیر أعلام النبلاء ۱۶: ۴۴۷.

۲۵

۶۔ توسّل ابوالحسین فقیہ شافعی :

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں میں نے ابوالحسین فقیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:ماعرض لی مهم من أمر الدین والدنیا فقصدت قبر الرضا علیه السلام لتلک الحاجة ودعوت عند القبر الّا قضیت لی تلک الحاجة و فرّ ج الله عنی تلک المهمّ وقد صارت الیّ هذه العادة أن أخرج الی ذلک المشهد فی جمیع ما یعرض لی ، فانّه عندی مجرّب ۔

مجھے جب بھی کوئی دینی یا دنیاوی مشکل پیش آتی تو حضرت رضاعلیہ السلام کی قبر کے پاس جاکر دعا کرتا تو میری وہ مشکل حل ہو جاتی ... یہاں تک کہ میری یہ عادت بن چکی تھی کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو ان کے مزار کی زیارت کو جاتا اس لیے کہ وہاں پر دعاکاقبول ہونا میرے لیے تجربہ شدہ تھا( ۱ )

۷۔ توسّل ابو الحسین بن ابی بکر فقیہ :

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں میں نے ابو الحسین فقیہ سے یہ کہتے ہوئے سنا :قد أجاب الله لی کل دعوة دعوته بها عند مشهد الرضا علیه السلام حتی انّی دعوت الله أن یرزقنی ولدا فرزقت ولدا بعد الیأس منه

میں نے امام رضاعلیہ السلام کی بارگاہ میں جو بھی دعا کی مستجاب ہوئی یہاں تک کہ میں نے خدا وند متعال سے فرزند کی دعا کی تو اس نے ناامیدی کے بعد مجھے فرزند عطاکیا( ۲ )

۸۔ حاکم نیشاپوری کا قبر امام رضا علیہ السلام سے توسّل کرنا:

حاکم نیشاپوری امام رضا علیہ السلام سے اپنے توسل کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :

خدا وند متعال نے مجھے امام رضا علیہ السلا م کی قبر شریف کی کرامات سے بھی آگاہ کیا چونکہ میں نے بہترین کرامات کو مشاہدہ کیا

نمونہ کے طور پر اپنے بارے میں بیان کرتا ہوں عرصہ دراز تک پاؤں کے درد میں مبتلا رہا یہاں تک کہ میرے لیے چلنا بھی دشوار ہو گیا تھا اسی حالت میں امام رضا علیہ السلام کی قبرکی زیارت کے لیے چلا ، رات وہاںپرگزاری ، جب صبح اٹھا تو درد کا اثر تک نہیں تھا اور صحیح وسالم نیشاپور واپس پلٹا( ۳ )

____________________

۱۔ فرائد السمطین ۲: ۲۲۰.

۲۔ حوالہ سابق ۲: ۲۲۰.

۳۔ حوالہ سابق ۲: ۲۲۰.

۲۶

۹۔ زید فارسی کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے متوسّل ہونا :

حاکم نیشاپوری نے دو واسطوں کے ساتھ زید فارسی سے نقل کیا ہے :

میں دوسال تک پاؤں کے درد میں مبتلا رہا یہاں تک کہ کھڑے ہوکر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا تھا ایک رات ایک شخص نے مجھے خواب میں کہا : تم امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے کیوں نہیں جاتے ؟ قبر کی خاک کو پاؤں پر مل کر اس کے درد سے شفاکی دعاکیوں نہیں کرتے ؟

جیسے ہی نیند سے اٹھا سواری کرائے پر لی اور طوس پہنچ گیا ،قبر شریف کی مٹی پاؤں پر ملی اور بیماری سے شفاکی دعا کی الحمد للہ شفا مل گئی اس وقت سے لے کر آج تک دو سال گزرچکے ہیں مگر کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی( ۱ )

____________________

۱۔حوالہ سابق ۲: ۲۱۹

۲۷

۱۰۔ابو نصر مؤذن نیشاپوری کا توسّل :

جوینی شافعی مؤلف فرائد السّمطین اپنی سند کے ساتھ سے ابو نصر نیشا پوری سے نقل کرتے ہیں :

میں ایک مرتبہ سخت بیماری میں مبتلا ہو گیا یہاں کہ میرے لیے کلام کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ قبر امام رضا علیہ السلا م کی زیارت کروں اور وہاں پر جا کر ان سے متوسل ہوں اور اپنی بیماری سے شفا کی دعا کروں

اسی قصد سے سفر شروع کیا ، قبر شریف کی زیارت کی اور سرکی طرف کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی ، دعا و تضرّع کے ساتھ صاحب قبر ( امام رضا علیہ السلام ) کو خدا کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتے ہوئے شفا کی دعا کی تو میری زبان میں بولنے کی قدرت پید اہو گئی

جب میں سجدہ کی حالت میں عاجزی کے ساتھ دعا کر رہا تھا تو میری آنکھ لگ گئی میں نے خواب میں دیکھا کہ چاند میں شگاف پیدا ہوا اور اس سے ایک شخص نکلا ، میرے پاس آکر کہا : اے ابا نصر ! کہہ : لا الہ الا اللہ

میں نے اشارے کے ساتھ جواب دیا کہ کیسے کہوں جب کہ میری زبان میں سکت ہی نہیں ہے

اس نے زور سے کہا : کیا قدرت خدا کا منکر ہے ؟! کہہ : لا الہ الااللہ

فورا میری زبان کھل گئی اور میں نے اس جملہ کو زبان پر جاری کیا. اور اسی جملے کا تکرار کرتے ہوئے نیند سے اٹھا اور پھر اس کاورد کرتے ہوئے گھر واپس پلٹا ، اس کے بعد ہمیشہ کے لیے میری مشکل دور ہو گئی(۱)

____________________

۱۔ حوالہ سابق ۲: ۲۱۷

۲۸

۱۱۔ امیر خراسان کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے توسّل :

جوینی شافعی نے تین واسطوں سے حمویہ بن علی امیر خراسان کے در بان سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :

ایک دن میں حمویہ کے ہمراہ بلخ کے بازار میں گیا تو وہاںپر اس نے ایک شخص کودیکھتے گرفتار کرنے اور ایک سوار ی اور غذا خریدنے کا حکم دیا.

جب واپس پلٹے تو اس شخص کو طلب کیا اور اس سے کہا : تو میرے ایک تھپڑ کا مقروض ہے جس کا قصاص دینا پڑے گا

اس شخص نے تعجب کرتے ہوئے انکار کر دیا

حمویہ نے اسے یاد دلایا کہ ایک دن ہم اکٹھے امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تھے اور تونے وہاں پریہ دعاکی :

اللّهمّ ارزقنی حمارا ومأتی درهم وسفرة فیها جبنة وخبزة

خدایا ! مجھے ایک سواری ، دو سو درہم اور ایک غذاجس میں نان و پنیر ہو ، عطافرما

اور میں نے دعا کی :

اللّهمّ ارزقنی قیادة خراسان

خدایا ! مجھے خراسان کی حکومت عطا فرما

تو فورا اپنی جگہ سے اٹھا اور مجھے ایک تھپڑ رسید کرکے کہا : ا یسی چیز کی دعا مت کرو جس کا ہونا ممکن نہیں ہے

جبکہ دیکھ رہے ہو کہ میری بھی دعا قبول ہو گئی اور تیری بھی لیکن حق قصاص باقی ہے( ۱ )

۱۲۔ ابو علی خلال کا قبر امام موسیٰ کا ظم سے توسّل:

خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں توسّل کے بارے میں حنبلیوں کے امام سے ایک داستان نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ما همّنی أمر فقصدت قبر موسیٰ بن جعفر فتوسّلت به الاّ سهل الله تعالی لی ما أحبّ .

مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو موسیٰ کاظم (علیہ السلام )کی قبر پر جاکر توسّل کرتا ، خداوند متعال میری مشکل کو آسان فرما دیتا.(۲ )

____________________

۱۔ حوالہ سابق ۲: ۲۱۹.

۲۔تاریخ بغداد ۱: ۱۲۰، باب ما ذکر فی مقابر بغداد

۲۹

۱۳۔اہل مدینہ کاقبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسّل کرنا :

مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :اتّصلت ولا یته بأهل المدینة ، فاجتمع الصغیر والکبیر بمسجد رسول الله صلی الله علیه وآله وضجّوا الی اللّٰه ، ولا ذوا بقبر النّبیّ ثلاثة أیّام ، لعلمهم بما هو علیه من الظلم والعسف ۔

۵۳ ہجری میں حاکم عراق زیاد بن ابیہ نے معاویہ کو ایک نامہ میں یوں لکھا : میں نے پورے عراق پر اپنے دائیں ہاتھ سے قبضہ کرلیا ہے اور میرا بایا ں ہاتھ خالی ہے یعنی مجھے مزید علاقوں کی حکومت سونپی جائے پس معاویہ نے حجاز کی حکومت بھی اس کے سپرد کر دی جب اہل مدینہ کو اس کی خبر ملی تو شہر کے تمام چھوٹے بڑے افراد مسجد النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع ہو کر گریہ وزاری اور دعاو فریاد کرنے لگے اور پھر تین دن تک قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جاکر ان سے توسّل کرتے رہے اس لیے کہ وہ اس کے ظلم وستم سے آگاہ تھے اس توسّل کی بدولت تین دن بعد زیاد بن ابیہ مر گیا( ۱ )

قارئین محترم !آپ خود توسّل کے جوازکے بارے میں بیان کیے گئے دلائل و شواہد کووہابیوں کی ادلّہ سے مقایسہ کریں جو اسے شرک اکبر قرار دیتے ہیں اور پھر خود ہی فیصلہ کریں ۔

ابن تیمیہ کہتا ہے (الشرک شرکان: أکبر وله أنواع ومنه طلب الشفاعة من المخلوق والتوسّل )( ۲ )

____________________

۱۔ مروج الذہب ۳: ۳۲.

۲۔ الکلمات النافعة فی المفکرات الواقعة : ۳۴۳ ، عبد اللہ بن محمد بن عبدالوہاب ضمن الجامع الفرید؛ التوصل الی حقیقة التوسل : ۱۲؛ مجموعة الرسائل والمسائل ۱: ۲۲.

۳۰

شرک دو طرح کا ہے : ایک شرک اکبر ہے جس کی انواع واقسام ہیں ان میں سے ایک مخلوق سے شفاعت و توسّل کا طلب کرنا ہے ۔

وہابیوں کے عقیدہ کے مطابق صدر اسلام سے لے کر آج تک کے تمام مسلمان مشرک ہیں اور تنہا نجدی وہابی قرن الشیطان ( شیطان کاسینگ )ہی حقیقی موحد ہیں

علاوہ از ایں ان کے نظریہ کے مطابق تمام دینی تعلیمات چاہے وہ قرآن ہو یا حدیث یا صحابہ کرام کی سیرت یہ سب مسلمانوں کو شرک اکبر کی طرف دعوت دینے والی ہیں!اور توحید کی دعوت دینے والے صرف نئے نبی و رسول یعنی ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب ہیں اور جنّت بھی برطانیہ کے انہی نمائندوں اور ان کے پیروکاروں أشدّ کفرا و نفاقا کے مصداق عربوں کے اختیار میں ہے(!)

۳۱

۲۔شفاعت

شفاعت کیا ہے ؟

شفاعت کا حقیقی معنیٰ کسی ایسے شخص کے لیے بخشش کی دعا کرنا ہے جو سزا کامستحق ہو البتہ مجازی طور پر اپنے منافع کو حاصل کرنے کی درخواست کرنے کے بارے میں بھی استعمال ہوا ہے

اس کے حقیقی معنیٰ یعنی مجرم سے سزا کے بر طرف ہونیکی درخواست کے بارے میں علماء کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے(۱) مثال کے طور پر شیخ طوسی فرماتے ہیں : ہمارے عقیدہ کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤمنین کی شفاعت کریں گے نیز خداوند متعال بھی ان کی شفاعت قبول کرے گا جس کے نتیجہ میں اہل نماز گنہگاروں سے عذاب برطرف کر دیا جائے گا

ہمارے نزدیک خدا وند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ان کے بہت زیادہ اصحاب ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور کئی ایک نیک مؤمنین کو شفاعت کی نعمت سے نوازا ہے( ۲ )

ابو حفص نسفی ( ت ۵۳۸ھ ) عالم اہل سنت نے بھی اس بارے میں لکھا ہے( ۳ ) : انبیاء اور صالحین کا گناہ کبیرہ کے مرتکب افراد کے لیے بخشش طلب کرنا بہت سی روایا ت سے ثابت ہے.

____________________

۱۔رسائل مرتضیٰ ۱: ۱۵۰؛ اور ۳: ۱۷.

۲۔ تفسیر تبیان : ۲۱۳

,۳۔ العقائد النسفیة : ۱۴۸

۳۲

مسلمان اور عقیدہ شفاعت

انجام شدہ تحقیقات کے مطابق تمام مسلمان مسئلہ شفاعت پر اعتقاد رکھتے ہیں .اس بارے ہم میں دو طرح کے نظریات بیان کر رہے ہیں.

۱۔ قاضی عیاض کہتے ہیں :

اہل سنت شفاعت کو عقلی اعتبار سے جائز اور شرعی ا عتبار سے واجب قرار دیتے ہیں اور اس کے وجوب کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت شریفہ ہے :

( یومئذ لا تنفع الشّفاعة الّا من أذن له الرّ حمٰن ورضی له قول ) ( ۱ )

اس دن کسی کی شفاعت کا م نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہواور ان کی بات سے راضی ہو

دوسری آیت میں ارشاد ہوا :( ولا یشفعون الّا لمن ارتضیٰ ) ( ۲ )

اور وہ کسی کی شفاعت بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسے پسند کرے

البتہ اس کے علاوہ بھی کئی ایک آیات ہیں جو شفاعت کے واجب ہونے پر دلالت کر رہی ہیں اور پھر بہت سی متواتر روایات میں بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قیامت کے دن گنہگار مؤمنین کی شفاعت کریں گے اور تمام اہل سنت علماء کا صدر اسلام سے لے کر آج تک اس کے صحیح ہونے پر اتفاق پایا جاتا ہے( ۳ )

____________________

۱۔ سورہ طہ : ۱۰۹.

۲۔ سورہ انبیاء : ۲۸.

۳۔ شرح صحیح مسلم نووی ۳: ۳۵، باب اثبات ا لشفاعةواخراج الموحّدین من النّار.

۳۳

۲۔ ناصرالدین مالکی اس بارے میں لکھتے ہیں :

جو شخص شفاعت کا انکار کرے بہتر یہی ہے کہ شفاعت اس کے شامل حال نہ ہو لیکن جو شخص اہل سنت کی طرح شفاعت پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے وہ خدا کی رحمت کاامید وار ہے اور معتقد ہے کہ شفاعت گنہگار مؤمنین کے لیے ہے .. جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

میں نے شفاعت کو اپنی امت کے ان لوگوں کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے جو گنا ہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں( ۱ )

____________________

۱۔ الا نتصاف فیما تضمّنہ من الکشّاف من الاعتزال یہ کتاب کشاف کے حاشیہ کے ساتھ چھپ چکی ہے ۱: ۳۱۴.

۳۴

اقسام شفاعت

شفاعت کے مفہوم کی وسعت کی بناء پر اسے چند قسمو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱۔ قیامت میں شفاعت :

شفاعت کی اس قسم سے مراد انبیاء ، آئمہ ، شھداء اور صالحین کامخلوق اور خدا کے درمیان واسطہ بننا ہے جس کے نتیجے میں گنہگار مؤمنین کے گناہ بخش دیے جائیں گے تمام مسلمان شفاعت کی اس قسم کو قبول کرتے ہیں یہاں تک کہ وہابی بھی ۔

۲۔ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا :

شفاعت کی اس قسم میں ہم اسی دنیا میں انبیاء ، آئمہ اور اولیاء الہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آخرت میں ہماری شفاعت کریں شفاعت کی اس قسم کو بھی تمام مسلمان قبول کرتے ہیں سوا ئے وہابیوں کے کہ وہ اسے شرک قرار دیتے ہیں

شفاعت کی پہلی قسم کو دو طرح سے ثابت کیاجا سکتا ہے :

۳۵

آیات کی روشنی میں

قرآن کریم کی اس آیت میں یوں وارد ہوا ہے :

( ومن اللیل فتهجد به نافلة لک عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا )

اور رات کا ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیںیہ آپ کے لیے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پرور دگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچا دے گا( ۱)

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھاہے کہ مقام محمود سے مراد وہی مقام شفاعت ہے

دوسری آیت میں فرمایا:( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ ) ( ۲ )

اور عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اس قدر عطا کر دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے

احادیث کی روشنی میں

جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ شفاعت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں سے صرف دو کو بیان کر رہے ہیں :

پہلی حدیث : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أعطیت خمسا....وأعطیت الشفاعة ، فأدّخر تها لأمتی لمن لا یشرک بالله شیئا ( ۳ )

مجھے پانچ چیزیں عطاکی گئی ہیں ان میں سے ایک شفاعت ہے جسے میں نے اپنی امت کے ان لوگوں کے لیے بچا رکھا ہے جو کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہراتے

____________________

۱۔سورہ اسراء : ۷۹

۲۔ سورہ ضحیٰ : ۵.

۳۔ مسند احمد ۱: ۳۰۱ ؛ سنن نسائی ۱: ۲۱۱.

۳۶

دوسری حدیث: اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أنا اوّل شافع و اوّل مشفع ( ۱ )

میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہو گی

علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں

علمائے اسلام نے شفاعت کے بارے میں اپنے نظریات کو یوں بیان کیا ہے :

۱۔ شیخ مفید فرماتے ہیں :

شیعہ اثنا عشریہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت ایک ایسے گروہ کی شفاعت کریں گے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں گے

نیز امیر المؤمنین علیہ السلام اور بقیہ آئمہ اطہار علیہم السلام بھی روز قیامت گنہگاروں کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت بھی سے بہت سے گنہگار نجات پائیں گے .( اوائل المقالات فی المذاھب والمختارات : ۲۹. اس کتاب میں یوں بیان ہوا ہے :اتفقت الامامیة علی أنّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یشفع یوم القیامة لجماعة من مرتکبی الکبائر من امته ، وأنّ امیر المؤمنین علیه السلام یشفع فی اصحابه الذنوب من شیعته ، وأنّ أئمة آل محمد علیهم السلام کذالک وینجی الله بشفاعتهم کثیرا من الخاطئین

۲۔ علا مہ مجلسی فرماتے ہیں :

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شفاعت ضروریات دین میں سے ہے ؛ اس معنیٰ میں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط اپنی ہی امت کی نہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کی بھی شفاعت کریں گے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سنن ترمذی ۵: ۲۴۸، باب ۲۲، حدیث ۳۶۹۵.

۲۔ بحارالأنوار ۸: ۲۹ اور ۶۳

۳۷

۳۔ فخر رازی لکھتے ہیں :

امت اسلام کے اجماع و اتفاق کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت شفاعت کا حق رکھتے ہیں اور خدا وند متعال کا یہ فرمان :( عسیٰ أن یبعثک ربّک مقاما محمودا ) اور( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ ) اسی بات پر دلالت کر رہا ہے( ۱ ) .

۴۔ ابو بکر کلا باذی (م ۳۸۰ھ) لکھتے ہیں :

علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شفاعت کے بارے میں جوکچھ بیان کیا ہے اس کا اقرار کرنا واجب ہے .اور اس کی دلیل یہ آیت ہے کہ خدا نے فرمایا : عنقریب تمہیں عطاکروں گا کہ خوش ہو جاؤ گے( ۲ )

قابل ذکرہے کہ ابن تیمہ اور محمد بن عبدالوہاب نے بھی شفاعت کی اس قسم کا اقرار کیا ہے اور وہ اسکا انکار نہیں کر سکتے( ۳ )

____________________

۱۔ مفاتیح الغیب ۳: ۵۵؛ اس میں یوں ذکر ہوا ہے : أجمعت الأمة علی أنّ لمحمد صلی الله علیه وآله شفاعة فی الآخرة و حمل علی ذلک قوله تعالی : عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا أو قوله تعالی : ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ

۲۔لتعرف مذھب اہل التصوف : ۵۴؛ تحقیق عبدالحلیم اس کتاب میں لکھاہے :أنّ العلماء قد اجتمعوا علی أنّ الاقرار بجملة ماذکرالله سبحانه وجائت به الروایات عن النبی صلی الله علیه وآله فی الشفاعة، واجب لقوله تعالی : ( ولسوف یعطیک ) وقال النبی صلی الله علیه وآله : ( شفاعتی لأهل الکبائر من امتی

۳۔مجموعة الرسائل الکبرٰی : ۴۰۳؛الھدیة السنیة ،الرسالة الثانیة : ۴۲.

۳۸

دنیا میں شفاعت

انبیاء و آئمہ طاہرین اور صالحین سے اسی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنے کے جوازوتائیدکے

بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی ایک روایات ہم تک پہنچی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے اس لیے کہ پیغمبر صلی اللہ کی ولادت سے پہلے ، آپ کی زندگی میں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد شفاعت کا طلب کرنا واقع ہوا ہے اور آپ نے اس کی تائید فرمائی ہے یا یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ کرام نے آپ کی رحلت کے بعد اس طرح شفاعت طلب کی یا ان کے سامنے شفاعت طلب کی گئی اور انہوں نے اس سے منع نہیں کیا

ولادت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ان سے شفاعت طلب کرنا

معتبر تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ تبع بن حسان حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت سے ہزار سال پہلے ایک نامہ میں ان سے شفاعت کی درخواست کی اور جب یہ نامہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اس کی تائید بھی کی اور یوں فرمایا : مرحبا بتبع الأخ الصالح آفرین اے نیک بھائی ) )

یہ تعبیر شفاعت کی در خواست کی تائید اور اس سے راضی ہونے کی حکایت کر رہی ہے اصل واقعہ کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر ابن اسحاق نے اپنی کتاب المبدأ و قصص الأنبیائ میں نقل کیا ہے اور حلبی( م ۱۰۴۴ھ) نے اسےالسیرة الحلبیة میں ابن اسحاق سے نقل کیا

۳۹

تبع بن حسّان نے اس نامہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یوں خطاب کیا ہے : اے محمد ! میں تمہارے پروردگار جس کی قدرت میں تمام مخلوقات ہیں اس پر اور ان تمام احکام پر ایمان رکھتا ہوں جو اس کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں پس اگر تمہاری رسالت کے زمانہ کو پا لیا تو بہت اچھا اور اگر درک نہ کر سکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری شفاعت کرنا اور اس دن مجھے فراموش نہ کرنا

ابن اسحاق مزید لکھتاہے : ابی لیلیٰ کے خاندان کے ایک فرد نے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران راستے میں یہ نامہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نامہ وصول کرنے کے بعد تین بار فرمایا :مرحبا بتبع الأخ الصالح

حلبی نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ تبع کے اس نامہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ تھا.( ۱ )

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا شرک کا باعث بنتا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شرک آلود کام کی تائید کریں اور اسکے انجام دینے والے کو بھائی سے تعبیر کریں .؟!

کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشرک شخص کو بھائی کہہ کر خطاب کر رہے ہیں ؟!

____________________

۱ السیرة الحلبیة ۲: ۲۷۹.اس کتاب میں یوں بیان هوا هے : امّا بعد یا محمد ! فانیّ آمنت بک و بربّک وربّ کلّ شیء وبکل ما جائک من ربّک من شرائع الاسلام والایمان و انّی قلت ذلک ، فان ادرکتک فیها ، وان لم ادرکک فاشفع لی یوم القیامة ولا تنسی

وکتب عنوان الکتاب الی محمد بن عبدالله خاتم النبیین والمرسلین ورسول ربّ العالمین ، من تبع الاول حمیر أمانة الله فی ید من وقع هذاالکتاب الی أن یدفعه الی صاحبه ودفعه الی رأس العلماء المذکورین

ثمّ وصل الکتاب الی النبی صلی الله علیه وآله وسلم علی ید بعض ولد العالم المذکور حین هاجر وهو بین مکة والمدینة و بعد قراء ة الکتاب علیه صلی الله علیه وآله وسلم قال : مرحبا بتبع الأخ الصالح ، ثلاث مرّات

. وکان بین تبع هذا أی بین قوله : انه آمن به وعلی دینه وبین مولد النبی صلی الله علیه وآله وسلم ألف سنة

۴۰