وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 22%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 99119 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

وہابی افکار کا ردّ

(تیرہ موضوعات پر مشتمل مستند کتاب)

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی

مترجم :ناظم حسین اکبر

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں

۳

مشخصات کتاب

نام کتاب ...................................................................وہابی افکار کا ردّ

نام مؤلف ..................................................................الشیخ نجم الدین طبسی

نام مترجم.....................................................................ناظم حسین اکبر

نظر ثانی .........................................................................محمد عباس ہاشمی

تعداد صفحات ....................................................................۱۹۷

تعداد.............................................................................۳۰۰۰

اشاعت ........................................................................اوّل ،نومبر ۲۰۰۹ئ

کمپوزنگ .......................................................................محمد اسماعیل

ناشر..........................................................ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور

۴

انتساب

ظالم وہابیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پارا چنار کے بے گناہ مومنین خاص طور پر شہید لائق حسین کے نام

۵

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

موضوعات

توسّل

شفاعت

تبرّک

استغاثہ

زیارت قبور

عورت اور زیارت قبور

قبروں پر دعا اور نماز

تعمیر قبور

قبور پر چراغ روشن کرنا

نذر

غیر اللہ کی قسم

جشن منانا

گریہ ومجالس عزا

۶

مقدمہ مترجم

وہابیت مسلمانوں کے سینے پر ایسا ناسور ہے جس کی بد بو سے پوراعالم اسلام سسک رہا ہے ابتداء ہی سے اس فرقہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مصیبت ہے جس کی پشت پناہی سعودی خاندان کررہا ہے ظلم یہ کہ حج جیسی عظیم عبادت کے موقع پر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے زائرین خانہ خدا کے عقیدوں کو خراب کیا جاتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اکثر مسلمان جہالت و نادانی کی وجہ سے اس گروہ کے عزائم اور نقصانات سے بے توجہی برت رہے ہیں

زیر نظر کتاب ٫٫ وہابی افکار کی ردّ ،، ایک جلیل القدر عالم دین جناب شیخ نجم الدین طبسی دام ظلّہ العالی کی محققانہ تالیف ہے جس میں انہوں نے وہابیت کے انحرافی عقائد کو محکم ادلّہ کے ذریعہ سے ردّ کیا ہے.

ہم تمام مسلمانوں سے یہ التماس کرتے ہیںکہ وہ اس فرقہ کے عقائدکا بخوبی مطالعہ کریں اور ناسمجھ و فریب خوردہ افراد کو آگاہ کریں نیز ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے اہل سنت اور شیعہ کے عظیم علماء کی شہادتوں کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں تاکہ خود اور اپنی نوجوان نسل کو اس فکری بیماری سے محفوظ رکھ سکیں

آخر میں دعا گو ہوں کہ خدا وند متعال ہمیں حقیقی معارف اسلام کی صحیح تبلیغ کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یا ربّ العالمین

والسلام علی من اتّبع الھدی

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر )

ابو طالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور۱۵رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ

۷

مقدّمہ مؤلف

خداوند متعال کی بے شمار حمد وثناء اور پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خاندان گرامی پر بے نہایت درود و سلام ہو جو انسانوں کو چشمہ فضیلت کی طرف ہدایت وراہنمائی کرنے والے ہیں.

دین مبین اسلام کے نورانی معارف اب بھی آسمان فکر پرروشن ہیںانکی نورانیت ایسی ہے کہ پورے عالم پر چھا جائے گی البتہ حج کے موقع پر ان معارف کا جلوہ الگ طریقہ سے ہوتا ہے جو قابل مشاہدہ ہے ایک گروہ الگ تفکر کے ذریعہ سے ان معارف کے حقیقی چہرے کو بدلنے کی کوشش میں مصروف نظرآتا ہے ۔

اسی سال ۲۰۰۸ئ میں جب حج جیسے نورانی سفر کی توفیق نصیب ہوئی تو اس معنوی سفر میں ایک عجیب اور انتہائی دلچسپ واقعہ پیش آیا جسے اس مقدمہ سے پہلے بیان کر رہا ہوں :

ایک رات ہم چار افراد جس میں علمائے اہل سنت بھی موجود تھے مکہ مکرمہ کے ایک وہابی عالم سے ملاقات کے لیے اس کے پاس پہنچے اگرچہ کوشش یہی رہی کہ دوستانہ فضا بر قرار رہے اور اس دو گھنٹے کی ملاقات میں ایسے ہی ہوا لیکن جیسے ہی بحث و گفتگو کی نوبت آئی تو اس اسّی سالہ وہابی عالم نے شیعوں پر لگائی جانے والی بے بنیاد تہمتوں کو بیان کیا اور خود اس کے بقول ان کا واضح و مستدل جواب لینے کے بعد جو اس کے لیے بھی تعجب آور اور جالب تھا کہنے لگا :کیا تم ایرانی شیعہ اب بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے استغاثہ ( طلب حاجت )کرتے ہو اور کہتے ہو : یا رسول اللہ !

۸

میں نے فورا جواب دیتے ہوئے کہا :صرف ہم ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب نہیں کرتے بلکہ صحابہ کرام بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاجت طلب کیا کرتے اور یوںہی کہا کرتے تھے.

کہنے لگے : ہاں ، مگر وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے حاجت طلب کیا کرتے تھے

میں نے کہا : نہیں ، وہ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی یوں ہی کہاکرتے

اس نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے ! کس دلیل کی بنا پر آپ ایسی بات کی نسبت صحابہ کی طرف دے رہے ہیں ؟

میں نے کہا : ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں اہل ردّہ کے ساتھ جنگ میں لشکر اسلام کا شعار یا محمد اہ تھا

کہنے لگے : یہ بات ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہے تو دلیل لائیں ؟

میں نے کہا : ابن کثیر جو ابن تیمیہ کے شاگرد تھے ا نہوں نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں اس مطلب کو نقل کیا ہے کہنے لگے : وہاں پر تو کوئی ایسا مطلب نقل نہیں ہوا

میں نے کہا : کتاب البدایہ والنہایہ منگوائیں جب کتاب لائی گئی تو میں اس کی چھٹی جلد کھول کر یہ عبارت پڑھنا شروع کی جس میں یہ لکھا تھا :

وکان شعارهم یومئذ یا محمداه !( ۱ ) اس دن ان کا شعار یا محمداہ تھا

____________________

۱۔البدایہ والنہایہ ۶: ۳۲۹، دارالکتب العلمیة بیروت.

۹

جیسے اس وہابی عالم نے اس حقیقت کو دیکھا تو فورا بات بدلتے ہوئے کہا : اس روایت کی سند ضعیف ہے

میں نے کہا : یہ شرک کی تہمت کے علاوہ دوسری بات ہے بنا برایں آپ نے اس کا تاریخ میں ثابت ہونا قبول کر لیا ہے رہا مسئلہ یہ کہ آپ اس کی سند کے ضعیف ہونے کا دعویٰ ر ہے ہیں تو ممکن ہے کہ کوئی شخص آپ کے بر عکس یہ دعویٰ کرے کہ اس کی سند صحیح اور معتبر ہے علاوہ بر ایں اگر استغاثہ وتوسل شرک اکبر ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ابن کثیر۔اگرچہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو ۔ اس عمل کی نسبت صحابہ کرام کی طرف دے ؟

جیسے ہی بات یہاں تک پہنچی تو اس وہابی عالم کے بیٹے نے ہماری بات کو قطع کرتے ہوئے کہا : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ ( طلب حاجت ) شرک نہیں ہے !!

میں نے کہا : پھر ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہو ؟

اس وہابی عالم نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ایک اور موضوع پر گفتگو شروع کر دی

۱۰

جو کچھ بیان کیا گیا یہ ایک ایسے وہابی عالم کا طرز تفکر ہے جو وہابیت اور محمد بن عبد الوہاب کے دفاع اور ان کی تعریف میں کتاب تالیف کر چکا یہ تفکر ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال ایجاد کرتا ہے کہ کیا واقعا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ وتوسل شرعی اعتبار سے اشکال رکھتا ہے ؟ کیا واقعا استغاثہ کرنے والے کو مشرک ، خارج از دین اور مرتد قرار دے کر اسے قید کر کے چند دن کی مہلت دی جائے تاکہ توبہ کرلے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے پھانسی دے دی جائے ؟!( ۱ )

دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ طریقہ کار زمانہ رسالت( ۲ ) سے لے کر آج تک مسلمانوں کے درمیان رائج ہے البتہ اسی کتاب میں ہم اس موضوع پر مفصل گفتگو کریں گے لیکن یہاں پر بطورنمونہ چند ایک موارد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

____________________

۱۔اس بارے میں وہابی کہتے ہیں :دعاء النبی صلی الله علیه وآله ونداؤه والاستغاثة بعد موته فی قضاء الحاجات و کشف الکربات شرک أکبر یخرج من ملّة الاسلام سواء کان ذلک عند قبره أم بعیدا عنه ، کأن یقول : یا رسول الله ! أو ردّ غائبی أو نحو ذلک فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۳: ۱۷۰ . نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حاجات پوری کروانے یا مشکلات کے حل کے لئے انہیں پکارنا اور ان سے حاجت طلب کرنا شرک اکبر ہے جو انسان کو ملّت اسلام سے خارج کر دیتا ہے چاہے یہ ان کو پکارنا اور ان سے حاجت طلب کرنا ان کی قبر کے پاس ہو یا دور سے مثال کے طور پر کہا جائے: یا رسول اللہ! یا غائب کو واپس لوٹا دے یااسی طرح کے دیگر کلمات

۲۔ المعجم الکبیر ۹: ۳۲.

۱۱

۱۔خلافت عثمان میں صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عثمان بن حنیف کا ایک مسلمان کومشکل کے حل کے لیے( قبر) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہونے کا حکم دینا.( ۱ )

۲۔ اہل مدینہ کا حضرت عائشہ کے حکم پر باران رحمت کے نزول کے لیے قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہونا( ۲ )

۳۔ بعض اصحا ب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ دوم کے زمانہ میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہونا( ۳ )

۴۔۵۳ ہجری اور معاویہ بن سفیان کے زمانہ حکومت میں اہل مدینہ کامعاویہ کی جانب سے منصوب حاکم مدینہ کے ظلم و ستم سے چھٹکارا پانے کی خاطر تین دن تک قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جاکر پناہ لینا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ کرنا( ۴ )

۵۔ حنبلیوں کے رہبر ابو علی خلال کا تقریبا ہزار سال پہلے اپنی مشکلات کے حل کی خاطرامام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسل ہونا( ۵ )

۶۔ چوتھی اور پا نچویں صدی ہجری میں لوگوں کا بخاری کی قبر سے متوسل ہونا( ۶ )

____________________

۱۔ مسند احمد۴:۱۳۸؛ سنن ترمذی ۵: ۵۶۹؛ سنن ابن ماجہ ۱: ۴۴۱.

۲۔ سنن دارمی ۱: ۱۵۶؛ سبل الھدی والرشاد ۱۲: ۳۴۷.

۳۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری ۲: ۵۷۷ ، وفاء الوفاء ۴: ۱۳۷۲

۴۔ مروّج الذہب ۳: ۲۳.

۵۔ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۰.۷ ؛

۱۲

واضح ہے کہ اس موضوع پر کتب اہل سنت میں دسیوں بلکہ سینکڑوں نمونے موجود ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو کئی جلدوں پر مشمل ایک مستقل کتاب تالیف ہو سکتی ہے

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ محمد بن عبد الوہاب جو ۱۱۱۵ہجری میں پیدا ہوا اور ۱۱۴۳ ہجری میں باقاعدہ طور پر اپنے عقائد کا اظہار کیا اور آل سعود کی حمایت اور شمشیر کے زور پر نجد کے بادیہ نشینوں کو اپنے عقائد کی پیروی پر مجبور کیا اس نے اپنے ان عقائد کو کہاں سے لیا اور اسلام کی طرف نسبت دے دی ؟!

البتہ چونکہ وہ ابن تیمیہ کی پیروی کا مدعی ہے لہذا ممکن ہے کہ اس نے ان افکار و عقائد کو اسی سے لیا ہو ، لیکن ہمارا ان دونوں سے یہ سوال ہے کہ کیاجب مسلمان گیارہویںاور بارہویں ہجری میں خلیفہ اول کے زمانہ میں مسیلمہ کذّاب سے جنگ کے لیے جارہے تھے توان کا شعار ( یامحمداہ) نہیں تھا؟!( ۱ )

۔کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب کافر و مشرک تھے !

۔کیا اہل مدینہ جو زیاد بن ابیہ کے خوف سے تین دن تک قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہوتے رہے ، سب مشرک ہو گیے تھے ؟!

مدینہ منورہ میں ہزاروں صحابہ کرام موجود تھے کیا وہ سب قبرپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متوسل ہونے کی وجہ سے مشرک ہو چکے تھے ؟ !

۔کیا زوجہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( حضرت عائشہ ) مسلمانوں کو نزول رحمت کے لئے قبر پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متوسل ہونے کا حکم دینے کی وجہ سے مشرک ہو گئی تھیں(نعوذ بالله من ذلک ) ؟!

۔کیا ابن حبان ، ابو علی خلال ، طبرانی ، ابو الشیخ ، حاکم نیشاپوری ، ابوبکر فقیہ شافعی ،محب الدین طبری اور مذاہب اربعہ کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں علماء اپنی مشکلات کو دور کروا نے کے لئے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی قبور سے متوسل ہونے کی وجہ سے مشرک ہو گئے تھے ؟

ہاں ، جیسا کہ بیان کیا جائے گا کہ توسل اور استغاثہ کے بہت زیادہ نمونے کتب اہل سنت میں موجود ہیں جو ہمیں اس امر پر مجبور کرتے ہیں کہ اس خطر ناک تفکّر کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اس کی حقیقت تک پہنچا جائے

____________________

۱۔ البدایہ والنہایہ ۶: ۳۲۹.

۱۳

چونکہ آج وہابی قبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ بقیع کے پاس جانے سے سختی سے منع کرتے ہیں انہوں نے ان قبور کو خاک کے ٹیلے میں تبدیل کر دیا ہے اور ان کے زائرین کو گالیاں ، تھپڑ، توہین اور انہیں گرفتار کر کے روحانی و جسمانی اذیتیں پہنچا کر توسل و استغاثہ اور یا رسول اللہ ! کہنے سے روکتے ہیں وہ مسلسل اس جملے کو دہراتے ہوئے یہ شعار بلند کر رہے ہوتے ہیں :

یہ پتھر کے سوا کچھ نہیں اور بوسیدہ ہڈیاں ہیں

کیا واقعا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آئمہ ہدیٰ ، شھداء اور...شھادت ووفات کے بعد پتھر اور گلی سڑی ہڈیاں ہیں ؟!

خداوند متعال قرآن کریم میں لوگوں کو توبہ اور گناہوں سے بخشش کے لیے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمارہا ہے :

( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدواالله توّابا رحیما ) ( ۱ )

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑاہی توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے

کیا خداوند متعال نے لوگوں کو پتھر اور گلی سڑی ہڈیوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے ؟! صدر اسلام کے مسلمان( صحابہ و تابعین) جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل بھی کرتے اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجات بھی طلب کیا کرتے ، کیا وہ حقیقتا پتھر ، لکڑی اور بوسیدہ ہڈیوں سے استغاثہ کیا کرتے تھے ؟!

____________________

۱۔سورہ نساء : ۶۴.

۱۴

کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے لے کر محمد بن عبدالوہاب کے زمانہ یعنی ۱۱۴۳ھ تک سارا اسلامی معاشرہ مشرک ہو چکا تھا اور صرف محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار وہابی ہی حقیقی مسلمان ، خداکے سچے نمائندے ، شعب اللہ المختار اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں ؟

کیا حقیقی اسلام کوسمجھنا صرف انہیں میں منحصر ہے ؟ یا یہ کہ حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ اسلام سے شکست کھانے والے اسلام کی قیمتی تعلیمات کو مسخ کرنے کی خاطرایسا تفکر پیش کر رہے ہیں .یہ تفکر چہرہ بدل کر اسلام کا اظہار کرتے ہوئے اسلام سے انتقام لینے کے لئے اس طرح کے خطرناک افکار کی ترویج کر رہاہے یہی چیز باعث بنتی ہے کہ ہم اس تفکر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کریں تاکہ اس کی حقیقت تک پہنچ سکیں اور یہ جان سکیں کہ یہ نعرے سب سے پہلے کس زبان سے نکلے؟!

جی ہاں! مسند احمد بن حنبل اور الکامل المبرد پر ایک ہی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوگیا کہ سب سے پہلے یہ نا شائستہ جملے مروان بن حکم اموی سے سنے گئے جب اس نے ایک صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابو ایوب انصاری کو قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھنے کی وجہ سے سختی سے پیش آتے ہوئے اٹھا دیا اور قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پتھر سے تعبیر کیا جبکہ ابو ایوب انصاری نے اسے جواب دیتے ہوئے دو بار کہا :

میں پتھر کے پاس نہیں آیا بلکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا ہوں .میں پتھر کے پاس نہیں آیا( ۱ )

مروان کے بعد یہی قبیح جملہ حجاج بن یوسف ثقفی کی زبان پرجاری ہوا جب اسے یہ خبر ملی کہ کوفہ کے کچھ لوگ ایک کاروان کی صورت میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس نے سخت ملامت کرتے ہوئے کہا : یطوفون بأعوادورمة بالیة لکڑیوں اور بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کر تے ہیں؟( ۲ )

____________________

۱۔ مسند احمد ۵: ۴۲۲؛ المستدرک علی الصحیحین ۴: ۵۶۰.

۲۔الکامل ۱: ۱۸۵؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۵: ۲۴۲

۱۵

البتہ مروان اموی سے اس کے سوا کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ؛ اس لیے کہ یہ وہ شخص ہے جس کا تعلق شجرہ ملعونہ سے ہے( ۱ )

وہ اسی حکم بن ابوالعاص کا بیٹاہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا امام حسن علیہ السلام کے جنازے پر تیر چلانے والوں کا سردار وہی تھا وہ امام حسن مجتبیٰ ، امیرالمؤمنین علی اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتا اور کہا کرتا :أنتم اهل البیت ملعونون !! تم اہل بیت ملعون ہو

یہی وہ شخص ہے جس نے امام حسین علیہ السلام کے کربلاروانہ ہونے سے پہلے ہی ان کو مدینہ میں قتل کر دینے کا مشورہ دیا تھا( ۲ )

یہ وہی ہے جب جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوا تو آنحضرت کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو امیر المؤمنین نے فرمایا :انّها کفّ یهودیة ، ستلقی الأمة منه ومن ولده یوما أحمر .( ۳ )

____________________

۱۔ جامع البیان ۹: ۱۴۱ ؛ عمدة القاری ۱۹: ۳۰؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۶: ۲۸۵.

۲۔ سیر اعلام النبلاء ۳: ۴۷۸؛

۳۔ الطبقات الکبری۵:۳۷ ۳۔نہج البلاغہ،خطبہ ۷۳

۱۶

یہ یہودی ہاتھ ہیں امت اسلام اس اور اس کی اولادسے سرخ دن دیکھے گی

جی ہاں! اس تفکر کا آغاز بنوامیہ سے ہوایعنی وہ جنہوں نے ظلم وتشدد ، شمشیر و خونریزی، بے رحمی و سفاکی کے ذریعے لوگوں اپنا تسلط جمایا اور کئی سال تک اسلام کے نام پر اسلامی عقائد کو مسخ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی سلطنت کا چراغ بجھ گیا

اب بھی دنیائے اسلام میں جہاں کہیں آتش فتنہ و تفرقہ پایا جاتا ہے اس کے پیچھے اسی تفکر کے پیروکاروں کا ہاتھ اور ان کی منافقانہ سازش کار فرما ہے

البتہ ہمارا مقصد وہابیوں کے ان مظالم کو بیان کرنا نہیں ہے جو انہوں نے طول تاریخ وہابیت میں انجام دیئے ہیں اس لیے کہ اس کے لیے الگ تحریر کی ضرورت ہے اس کتاب میں ہمارا مقصد ان کے باطل افکار اور بے ارزش نظریات کو رد ّ کرنا ہے اس لیے کہ وہ اپنی اس تحریک کے آغاز ہی سے رسوا ہو چکے ہیں یہا ں تک کہ ان ہم پیمان لوگوں نے بھی انہیں رسوا و ذلیل کیا جیسے عبداللہ قصیمی جو کئی سال تک ان کے دستر خوان پر پلتا رہا اور ان کی حمایت میں ( (الثورة الوهابیة البروق النجدیة ، الصّراع بین الاسلام و الوثنیة جیسی کتب تالیف کیں ؛ لیکن جیسے ہی اس گروہ کے موہوم افکار کے بارے میں تحقیق کی تو اس گروہ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اورهذه هی الأغلال و...جیسی کتب تالیف کر کے اس گروہ کو عام و خاص میں رسوا کیا جو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے اس گروہ کی حماقت ولجاجت اور ان کے غرور و تکبر سے بخوبی آگاہ ہو جائے گا ۔

۱۷

لیکن یقینا عبداللہ قصیمی ہی پہلا اور آخری شخص نہیں ہے جس نے بنو امیہ کے اس باقیماندہ گروہ کو رسوا کیا ہو بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں دس ایسی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جن میں اس گروہ کی مخالفت کی گئی ہے محمد بن عبدالوہاب کا باپ جو نجد کے حنبلی علماء میں سے تھا اس نے بھی بارہا اپنے بیٹے کی مخالفت کی ، اس کے بھائی سلیمان بن عبدالوہاب نے اس کے خلافالصواعق الالهیه فی الرد علی الوهابیه کے عنوان سے ایک لکھ کر اسے رسواکیا.( ۱ )

حرمین شریفین ( مکہ و مدینہ ) کے علماء جو اس کے معاصر تھے انہوں نے ان سے بحث و مناظرہ کے بعد ان کے دین کا پابند نہ ہونے ، بے دین اور کافرہونے کا فتوٰٰی دیا

امام کعبہ ، شافعی فقیہ و مؤرخ سید احمد زینی دحلان ۱۲۹۹ھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

محمد بن عبدالوہاب نے ۱۱۴۶، ۱۱۶۵اور ۱۱۸۶ھ میں حج ادا کرنے کی غرض سے اپنے نمائندوں کو مکہ بھیجا لیکن علماء اہل سنت نے انہیں کافر قرار دیتے ہوئے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا(. ۲)

____________________

۱۔یہ کتاب ارد و زبان میں ابو طالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور کی جانب سے ترجمہ و تحقیق کے ساتھ چھپ چکی ہے.

۲۔ الدر ر السنیة فی الرد علی الوھابیة : ۲۹و۳۰، طبع مصر سال ۱۲۹۹ھ

۱۸

ہم نے اس کتاب میں ان کے عقائد ونظریات کو ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی جوابات بھی نقل کر دیے ہیں تاکہ تمام لوگوں پر یہ واضح ہو جائے کہ ان کے ان افکار کا تعلق نہ تو عقل سے ہے اور نہ ہی نقل سے اور زینی دحلان کے بقول علماء حرمین نے یہ فیصلہ دیا :

وجدوهم ضحکة ومسخرة کحمر مستنفرة فرّت من قسورة ( ۱ )

____________________

۱۔حوالہ سابق

۱۹

انہوں نے مناظرہ کے بعد یہ جان لیا کہ یہ کم عقل لوگ ہیں جو شیروں کے سامنے بھاگ نکلنے والے ہیں.

امید ہے کہ مسلمان بھائی آگاہی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی منافقانہ سرگرمیوں سے بچنے اور انہیں اسلامی معاشرے سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے

آخر میں برادر فاضل ودانشمند حجة الاسلا م جناب انصاری اور جناب اسفند یاری کا صمیم قلب سے شکر گذار ہوں جنہوں نے کتابروافدالایمان کا خلا صہ کرنے میں بہت زحمت اٹھائی امید وار ہوں کہ ان دو عزیزوں کی زحمت اور بندہ ناچیز کی کوشش ولی نعمت حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے لطف و کرم کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ

قم المقدسہ ۴محرم الحرام ۱۴۳۰ہجری قمری

نجم الدّین طبسی

۲۰

۱۔توسّل

توسّل اور اسکی اعتقادی جڑیں

توسل کا معنی انبیاء و آئمہ اور صالحین کو خداوند متعال کی بارگاہ میں واسطہ قرار دیناہے اسکی مشروعیت اور جواز کے بارے میں دو اعتبار سے بحث ہو سکتی ہے :

۱۔ قرآن کریم ۲۔ احادیث

قرآن کریم سے چند ایک آیات کو توسل کی مشروعیت وجواز کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے سورہ مائدہ میں پڑھتے ہیں :

( یا أیهاالذین آمنوا اتقواالله وابتغوا الیه الوسیلة وجاهدوا فی سبیله ) ( ۱ )

ترجمہ :اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو

دوسری آیت سورہ مبارکہ نساء کی ہے جس میں یوں بیان کیا گیاہے :

( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما. ) ( ۲ )

____________________

۱۔ سورہ مائدہ : ۳۵؛

۲۔سورہ نسا ء : ۶۴

۲۱

ترجمہ : اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے

تیسری آیت مبارکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندوں کے بارے میں ہے جب وہ اپنے عمل پر پشیمان ہوئے اوراپنے والد گرامی کے پاس پہنچے تاکہ وہ خدا وند متعال سے ان کی بخشش کی دعا کریں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی ان کی درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا : میں جلدپروردگارسے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا اس مطلب کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا :

( قالوایا أبانا استغفرلنا ذنوبنا انّا کنّا خاطئین قال سوف أستغفر لکم ربّی انّه هو الغفورالر حیم ) .( ۱)

ترجمہ: ان لوگوں نے کہا بابا جان! اب آپ ہمارے گناہوں کے لیے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے انھوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اورمہربان ہے .۔

____________________

۱۔سورہ یوسف : ۹۷ اور ۹۸.

۲۲

روایا ت میں بھی کثرت کے ساتھ توسل کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک نمونوں کو ذکر کر رہے ہیں :

۱۔توسّل حضرت آدم علیہ السلام :

جلال الدین سیوطی ( عالم اہل سنت ) لکھتے ہیں :

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم علیہ السلام نے خدا وند متعال کی بارگاہ میں یوں توسل کیا :

أللّهمّ انّی أسئلک بحق محمد وآل محمّد سبحانک لااله الّا أنت ، عملت سوئ، وظلمت نفسی ، فاغفرلی انّک أنت الغفور الرحیم ( ۱ )

خدایا ! تجھے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمد کا واسطہ دیتا تو پاک ومنزہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا .پس مجھے بخش دے کہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے

۲۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید اورپیشگوئی:

ایک دوسری روایت جو حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے اس میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں : رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کے بارے میں یوں فرمایا:

هم شرالخلق والخلیقة یقتلهم خیرالخلق والخلیقة ، وأقربهم عندالله وسیلة

خوارج بد ترین مخلوق ہیں جنہیں مخلوق کا بہترین فرد اور خدا کا نزدیک ترین وسیلہ قتل کرے گا( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر الدر المنثور ۱: ۶۰

۲۔ فرائد السمطین ۱:۳۶ ، ح۱

۲۳

۳۔ فرمان پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

ابوہریرہ کہتا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کے توسل کے بارے میں بیان فرمایا کہ خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا :یا آدم ! هؤلاء صفوتی فاذاکان لک لی حاجة فبهؤلاء توسّل یعنی اے آدم ! یہ میرے برگزیدہ بندے ہیں جب تجھے مجھ سے کوئی حاجت طلب کرنا ہو تو ان کے وسیلہ سے طلب کرنا

اس کے بعد رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :نحن سفینة النّجاة ، ومن تعلّق بها نجا ومن حاد عنها هلک ، من کان له الی اللّٰه حاجة فلیسئلنا أهل البیت ( ۳ )

ہم کشتی نجات ہیں جو بھی ا س میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی کی ہلاک ہو گیا پس جس کسی کو خداوند متعال سے کوئی حاجت ہو وہ ہم اہل بیت کو واسطہ قرار دے ۔

۲۴

۴۔ تاکید حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا

دختر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے خطبہ میں فرماتی ہیں :

وأحمد الله الذی بعظمتة ونوره یبتغی من فی السماوات والأرض ، الیه الوسیلة و نحن وسیلته فی خلقه

زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب تقرّب خدا کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں اور مخلوق خدا میں اس کا وسیلہ ہم ہیں ۔( ۱ )

۵۔صحابہ کرام کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسل کرنا:

عسقلانی فتح الباری میں لکھتا ہے : سند صحیح کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ خلیفہ دوم کے زمانہ میں خشک سالی ہوئی تو صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، بلال بن حارث قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہنچے اور عرض کیا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت ہلاک ہو گئی ہے خدا سے باران رحمت طلب کریں

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں خواب میں ملے اور فرمایا: باران رحمت کا نزول ہو گا( ۲ )

____________________

۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱: ۲۱۱ ؛ بلاغات النساء بغدادی : ۱۴؛ السقیفہ و فدک : ۱۰۱

۲۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری ۲: ۴۱۲؛ ۳۔ذہبی نے اس کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے :وہ شافعیوں کے علاّمہ اور شیخ ہیں یہ وہی شخص ہے جو شافعی قواعد و مبانی کے مطابق فتوٰ ی دیا کرتا اس کے شاگرد حاکم نیشاپوری کے بقول مذہب شافعی سے آشنائی میں وہ سب سے زیادہ آگاہ تھے اور ۳۸۴ ھ میں وفات پائی سیر أعلام النبلاء ۱۶: ۴۴۷.

۲۵

۶۔ توسّل ابوالحسین فقیہ شافعی :

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں میں نے ابوالحسین فقیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:ماعرض لی مهم من أمر الدین والدنیا فقصدت قبر الرضا علیه السلام لتلک الحاجة ودعوت عند القبر الّا قضیت لی تلک الحاجة و فرّ ج الله عنی تلک المهمّ وقد صارت الیّ هذه العادة أن أخرج الی ذلک المشهد فی جمیع ما یعرض لی ، فانّه عندی مجرّب ۔

مجھے جب بھی کوئی دینی یا دنیاوی مشکل پیش آتی تو حضرت رضاعلیہ السلام کی قبر کے پاس جاکر دعا کرتا تو میری وہ مشکل حل ہو جاتی ... یہاں تک کہ میری یہ عادت بن چکی تھی کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو ان کے مزار کی زیارت کو جاتا اس لیے کہ وہاں پر دعاکاقبول ہونا میرے لیے تجربہ شدہ تھا( ۱ )

۷۔ توسّل ابو الحسین بن ابی بکر فقیہ :

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں میں نے ابو الحسین فقیہ سے یہ کہتے ہوئے سنا :قد أجاب الله لی کل دعوة دعوته بها عند مشهد الرضا علیه السلام حتی انّی دعوت الله أن یرزقنی ولدا فرزقت ولدا بعد الیأس منه

میں نے امام رضاعلیہ السلام کی بارگاہ میں جو بھی دعا کی مستجاب ہوئی یہاں تک کہ میں نے خدا وند متعال سے فرزند کی دعا کی تو اس نے ناامیدی کے بعد مجھے فرزند عطاکیا( ۲ )

۸۔ حاکم نیشاپوری کا قبر امام رضا علیہ السلام سے توسّل کرنا:

حاکم نیشاپوری امام رضا علیہ السلام سے اپنے توسل کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :

خدا وند متعال نے مجھے امام رضا علیہ السلا م کی قبر شریف کی کرامات سے بھی آگاہ کیا چونکہ میں نے بہترین کرامات کو مشاہدہ کیا

نمونہ کے طور پر اپنے بارے میں بیان کرتا ہوں عرصہ دراز تک پاؤں کے درد میں مبتلا رہا یہاں تک کہ میرے لیے چلنا بھی دشوار ہو گیا تھا اسی حالت میں امام رضا علیہ السلام کی قبرکی زیارت کے لیے چلا ، رات وہاںپرگزاری ، جب صبح اٹھا تو درد کا اثر تک نہیں تھا اور صحیح وسالم نیشاپور واپس پلٹا( ۳ )

____________________

۱۔ فرائد السمطین ۲: ۲۲۰.

۲۔ حوالہ سابق ۲: ۲۲۰.

۳۔ حوالہ سابق ۲: ۲۲۰.

۲۶

۹۔ زید فارسی کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے متوسّل ہونا :

حاکم نیشاپوری نے دو واسطوں کے ساتھ زید فارسی سے نقل کیا ہے :

میں دوسال تک پاؤں کے درد میں مبتلا رہا یہاں تک کہ کھڑے ہوکر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا تھا ایک رات ایک شخص نے مجھے خواب میں کہا : تم امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے کیوں نہیں جاتے ؟ قبر کی خاک کو پاؤں پر مل کر اس کے درد سے شفاکی دعاکیوں نہیں کرتے ؟

جیسے ہی نیند سے اٹھا سواری کرائے پر لی اور طوس پہنچ گیا ،قبر شریف کی مٹی پاؤں پر ملی اور بیماری سے شفاکی دعا کی الحمد للہ شفا مل گئی اس وقت سے لے کر آج تک دو سال گزرچکے ہیں مگر کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی( ۱ )

____________________

۱۔حوالہ سابق ۲: ۲۱۹

۲۷

۱۰۔ابو نصر مؤذن نیشاپوری کا توسّل :

جوینی شافعی مؤلف فرائد السّمطین اپنی سند کے ساتھ سے ابو نصر نیشا پوری سے نقل کرتے ہیں :

میں ایک مرتبہ سخت بیماری میں مبتلا ہو گیا یہاں کہ میرے لیے کلام کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ قبر امام رضا علیہ السلا م کی زیارت کروں اور وہاں پر جا کر ان سے متوسل ہوں اور اپنی بیماری سے شفا کی دعا کروں

اسی قصد سے سفر شروع کیا ، قبر شریف کی زیارت کی اور سرکی طرف کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی ، دعا و تضرّع کے ساتھ صاحب قبر ( امام رضا علیہ السلام ) کو خدا کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتے ہوئے شفا کی دعا کی تو میری زبان میں بولنے کی قدرت پید اہو گئی

جب میں سجدہ کی حالت میں عاجزی کے ساتھ دعا کر رہا تھا تو میری آنکھ لگ گئی میں نے خواب میں دیکھا کہ چاند میں شگاف پیدا ہوا اور اس سے ایک شخص نکلا ، میرے پاس آکر کہا : اے ابا نصر ! کہہ : لا الہ الا اللہ

میں نے اشارے کے ساتھ جواب دیا کہ کیسے کہوں جب کہ میری زبان میں سکت ہی نہیں ہے

اس نے زور سے کہا : کیا قدرت خدا کا منکر ہے ؟! کہہ : لا الہ الااللہ

فورا میری زبان کھل گئی اور میں نے اس جملہ کو زبان پر جاری کیا. اور اسی جملے کا تکرار کرتے ہوئے نیند سے اٹھا اور پھر اس کاورد کرتے ہوئے گھر واپس پلٹا ، اس کے بعد ہمیشہ کے لیے میری مشکل دور ہو گئی(۱)

____________________

۱۔ حوالہ سابق ۲: ۲۱۷

۲۸

۱۱۔ امیر خراسان کا قبر امام رضاعلیہ السلام سے توسّل :

جوینی شافعی نے تین واسطوں سے حمویہ بن علی امیر خراسان کے در بان سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے :

ایک دن میں حمویہ کے ہمراہ بلخ کے بازار میں گیا تو وہاںپر اس نے ایک شخص کودیکھتے گرفتار کرنے اور ایک سوار ی اور غذا خریدنے کا حکم دیا.

جب واپس پلٹے تو اس شخص کو طلب کیا اور اس سے کہا : تو میرے ایک تھپڑ کا مقروض ہے جس کا قصاص دینا پڑے گا

اس شخص نے تعجب کرتے ہوئے انکار کر دیا

حمویہ نے اسے یاد دلایا کہ ایک دن ہم اکٹھے امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تھے اور تونے وہاں پریہ دعاکی :

اللّهمّ ارزقنی حمارا ومأتی درهم وسفرة فیها جبنة وخبزة

خدایا ! مجھے ایک سواری ، دو سو درہم اور ایک غذاجس میں نان و پنیر ہو ، عطافرما

اور میں نے دعا کی :

اللّهمّ ارزقنی قیادة خراسان

خدایا ! مجھے خراسان کی حکومت عطا فرما

تو فورا اپنی جگہ سے اٹھا اور مجھے ایک تھپڑ رسید کرکے کہا : ا یسی چیز کی دعا مت کرو جس کا ہونا ممکن نہیں ہے

جبکہ دیکھ رہے ہو کہ میری بھی دعا قبول ہو گئی اور تیری بھی لیکن حق قصاص باقی ہے( ۱ )

۱۲۔ ابو علی خلال کا قبر امام موسیٰ کا ظم سے توسّل:

خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں توسّل کے بارے میں حنبلیوں کے امام سے ایک داستان نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :

ما همّنی أمر فقصدت قبر موسیٰ بن جعفر فتوسّلت به الاّ سهل الله تعالی لی ما أحبّ .

مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو موسیٰ کاظم (علیہ السلام )کی قبر پر جاکر توسّل کرتا ، خداوند متعال میری مشکل کو آسان فرما دیتا.(۲ )

____________________

۱۔ حوالہ سابق ۲: ۲۱۹.

۲۔تاریخ بغداد ۱: ۱۲۰، باب ما ذکر فی مقابر بغداد

۲۹

۱۳۔اہل مدینہ کاقبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توسّل کرنا :

مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :اتّصلت ولا یته بأهل المدینة ، فاجتمع الصغیر والکبیر بمسجد رسول الله صلی الله علیه وآله وضجّوا الی اللّٰه ، ولا ذوا بقبر النّبیّ ثلاثة أیّام ، لعلمهم بما هو علیه من الظلم والعسف ۔

۵۳ ہجری میں حاکم عراق زیاد بن ابیہ نے معاویہ کو ایک نامہ میں یوں لکھا : میں نے پورے عراق پر اپنے دائیں ہاتھ سے قبضہ کرلیا ہے اور میرا بایا ں ہاتھ خالی ہے یعنی مجھے مزید علاقوں کی حکومت سونپی جائے پس معاویہ نے حجاز کی حکومت بھی اس کے سپرد کر دی جب اہل مدینہ کو اس کی خبر ملی تو شہر کے تمام چھوٹے بڑے افراد مسجد النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع ہو کر گریہ وزاری اور دعاو فریاد کرنے لگے اور پھر تین دن تک قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جاکر ان سے توسّل کرتے رہے اس لیے کہ وہ اس کے ظلم وستم سے آگاہ تھے اس توسّل کی بدولت تین دن بعد زیاد بن ابیہ مر گیا( ۱ )

قارئین محترم !آپ خود توسّل کے جوازکے بارے میں بیان کیے گئے دلائل و شواہد کووہابیوں کی ادلّہ سے مقایسہ کریں جو اسے شرک اکبر قرار دیتے ہیں اور پھر خود ہی فیصلہ کریں ۔

ابن تیمیہ کہتا ہے (الشرک شرکان: أکبر وله أنواع ومنه طلب الشفاعة من المخلوق والتوسّل )( ۲ )

____________________

۱۔ مروج الذہب ۳: ۳۲.

۲۔ الکلمات النافعة فی المفکرات الواقعة : ۳۴۳ ، عبد اللہ بن محمد بن عبدالوہاب ضمن الجامع الفرید؛ التوصل الی حقیقة التوسل : ۱۲؛ مجموعة الرسائل والمسائل ۱: ۲۲.

۳۰

شرک دو طرح کا ہے : ایک شرک اکبر ہے جس کی انواع واقسام ہیں ان میں سے ایک مخلوق سے شفاعت و توسّل کا طلب کرنا ہے ۔

وہابیوں کے عقیدہ کے مطابق صدر اسلام سے لے کر آج تک کے تمام مسلمان مشرک ہیں اور تنہا نجدی وہابی قرن الشیطان ( شیطان کاسینگ )ہی حقیقی موحد ہیں

علاوہ از ایں ان کے نظریہ کے مطابق تمام دینی تعلیمات چاہے وہ قرآن ہو یا حدیث یا صحابہ کرام کی سیرت یہ سب مسلمانوں کو شرک اکبر کی طرف دعوت دینے والی ہیں!اور توحید کی دعوت دینے والے صرف نئے نبی و رسول یعنی ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب ہیں اور جنّت بھی برطانیہ کے انہی نمائندوں اور ان کے پیروکاروں أشدّ کفرا و نفاقا کے مصداق عربوں کے اختیار میں ہے(!)

۳۱

۲۔شفاعت

شفاعت کیا ہے ؟

شفاعت کا حقیقی معنیٰ کسی ایسے شخص کے لیے بخشش کی دعا کرنا ہے جو سزا کامستحق ہو البتہ مجازی طور پر اپنے منافع کو حاصل کرنے کی درخواست کرنے کے بارے میں بھی استعمال ہوا ہے

اس کے حقیقی معنیٰ یعنی مجرم سے سزا کے بر طرف ہونیکی درخواست کے بارے میں علماء کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے(۱) مثال کے طور پر شیخ طوسی فرماتے ہیں : ہمارے عقیدہ کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤمنین کی شفاعت کریں گے نیز خداوند متعال بھی ان کی شفاعت قبول کرے گا جس کے نتیجہ میں اہل نماز گنہگاروں سے عذاب برطرف کر دیا جائے گا

ہمارے نزدیک خدا وند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ان کے بہت زیادہ اصحاب ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور کئی ایک نیک مؤمنین کو شفاعت کی نعمت سے نوازا ہے( ۲ )

ابو حفص نسفی ( ت ۵۳۸ھ ) عالم اہل سنت نے بھی اس بارے میں لکھا ہے( ۳ ) : انبیاء اور صالحین کا گناہ کبیرہ کے مرتکب افراد کے لیے بخشش طلب کرنا بہت سی روایا ت سے ثابت ہے.

____________________

۱۔رسائل مرتضیٰ ۱: ۱۵۰؛ اور ۳: ۱۷.

۲۔ تفسیر تبیان : ۲۱۳

,۳۔ العقائد النسفیة : ۱۴۸

۳۲

مسلمان اور عقیدہ شفاعت

انجام شدہ تحقیقات کے مطابق تمام مسلمان مسئلہ شفاعت پر اعتقاد رکھتے ہیں .اس بارے ہم میں دو طرح کے نظریات بیان کر رہے ہیں.

۱۔ قاضی عیاض کہتے ہیں :

اہل سنت شفاعت کو عقلی اعتبار سے جائز اور شرعی ا عتبار سے واجب قرار دیتے ہیں اور اس کے وجوب کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت شریفہ ہے :

( یومئذ لا تنفع الشّفاعة الّا من أذن له الرّ حمٰن ورضی له قول ) ( ۱ )

اس دن کسی کی شفاعت کا م نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہواور ان کی بات سے راضی ہو

دوسری آیت میں ارشاد ہوا :( ولا یشفعون الّا لمن ارتضیٰ ) ( ۲ )

اور وہ کسی کی شفاعت بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسے پسند کرے

البتہ اس کے علاوہ بھی کئی ایک آیات ہیں جو شفاعت کے واجب ہونے پر دلالت کر رہی ہیں اور پھر بہت سی متواتر روایات میں بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قیامت کے دن گنہگار مؤمنین کی شفاعت کریں گے اور تمام اہل سنت علماء کا صدر اسلام سے لے کر آج تک اس کے صحیح ہونے پر اتفاق پایا جاتا ہے( ۳ )

____________________

۱۔ سورہ طہ : ۱۰۹.

۲۔ سورہ انبیاء : ۲۸.

۳۔ شرح صحیح مسلم نووی ۳: ۳۵، باب اثبات ا لشفاعةواخراج الموحّدین من النّار.

۳۳

۲۔ ناصرالدین مالکی اس بارے میں لکھتے ہیں :

جو شخص شفاعت کا انکار کرے بہتر یہی ہے کہ شفاعت اس کے شامل حال نہ ہو لیکن جو شخص اہل سنت کی طرح شفاعت پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے وہ خدا کی رحمت کاامید وار ہے اور معتقد ہے کہ شفاعت گنہگار مؤمنین کے لیے ہے .. جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

میں نے شفاعت کو اپنی امت کے ان لوگوں کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے جو گنا ہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں( ۱ )

____________________

۱۔ الا نتصاف فیما تضمّنہ من الکشّاف من الاعتزال یہ کتاب کشاف کے حاشیہ کے ساتھ چھپ چکی ہے ۱: ۳۱۴.

۳۴

اقسام شفاعت

شفاعت کے مفہوم کی وسعت کی بناء پر اسے چند قسمو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱۔ قیامت میں شفاعت :

شفاعت کی اس قسم سے مراد انبیاء ، آئمہ ، شھداء اور صالحین کامخلوق اور خدا کے درمیان واسطہ بننا ہے جس کے نتیجے میں گنہگار مؤمنین کے گناہ بخش دیے جائیں گے تمام مسلمان شفاعت کی اس قسم کو قبول کرتے ہیں یہاں تک کہ وہابی بھی ۔

۲۔ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا :

شفاعت کی اس قسم میں ہم اسی دنیا میں انبیاء ، آئمہ اور اولیاء الہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آخرت میں ہماری شفاعت کریں شفاعت کی اس قسم کو بھی تمام مسلمان قبول کرتے ہیں سوا ئے وہابیوں کے کہ وہ اسے شرک قرار دیتے ہیں

شفاعت کی پہلی قسم کو دو طرح سے ثابت کیاجا سکتا ہے :

۳۵

آیات کی روشنی میں

قرآن کریم کی اس آیت میں یوں وارد ہوا ہے :

( ومن اللیل فتهجد به نافلة لک عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا )

اور رات کا ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیںیہ آپ کے لیے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پرور دگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچا دے گا( ۱)

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھاہے کہ مقام محمود سے مراد وہی مقام شفاعت ہے

دوسری آیت میں فرمایا:( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ ) ( ۲ )

اور عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اس قدر عطا کر دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے

احادیث کی روشنی میں

جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ شفاعت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں سے صرف دو کو بیان کر رہے ہیں :

پہلی حدیث : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أعطیت خمسا....وأعطیت الشفاعة ، فأدّخر تها لأمتی لمن لا یشرک بالله شیئا ( ۳ )

مجھے پانچ چیزیں عطاکی گئی ہیں ان میں سے ایک شفاعت ہے جسے میں نے اپنی امت کے ان لوگوں کے لیے بچا رکھا ہے جو کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہراتے

____________________

۱۔سورہ اسراء : ۷۹

۲۔ سورہ ضحیٰ : ۵.

۳۔ مسند احمد ۱: ۳۰۱ ؛ سنن نسائی ۱: ۲۱۱.

۳۶

دوسری حدیث: اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أنا اوّل شافع و اوّل مشفع ( ۱ )

میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہو گی

علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں

علمائے اسلام نے شفاعت کے بارے میں اپنے نظریات کو یوں بیان کیا ہے :

۱۔ شیخ مفید فرماتے ہیں :

شیعہ اثنا عشریہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت ایک ایسے گروہ کی شفاعت کریں گے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں گے

نیز امیر المؤمنین علیہ السلام اور بقیہ آئمہ اطہار علیہم السلام بھی روز قیامت گنہگاروں کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت بھی سے بہت سے گنہگار نجات پائیں گے .( اوائل المقالات فی المذاھب والمختارات : ۲۹. اس کتاب میں یوں بیان ہوا ہے :اتفقت الامامیة علی أنّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یشفع یوم القیامة لجماعة من مرتکبی الکبائر من امته ، وأنّ امیر المؤمنین علیه السلام یشفع فی اصحابه الذنوب من شیعته ، وأنّ أئمة آل محمد علیهم السلام کذالک وینجی الله بشفاعتهم کثیرا من الخاطئین

۲۔ علا مہ مجلسی فرماتے ہیں :

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شفاعت ضروریات دین میں سے ہے ؛ اس معنیٰ میں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط اپنی ہی امت کی نہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کی بھی شفاعت کریں گے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سنن ترمذی ۵: ۲۴۸، باب ۲۲، حدیث ۳۶۹۵.

۲۔ بحارالأنوار ۸: ۲۹ اور ۶۳

۳۷

۳۔ فخر رازی لکھتے ہیں :

امت اسلام کے اجماع و اتفاق کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت شفاعت کا حق رکھتے ہیں اور خدا وند متعال کا یہ فرمان :( عسیٰ أن یبعثک ربّک مقاما محمودا ) اور( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ ) اسی بات پر دلالت کر رہا ہے( ۱ ) .

۴۔ ابو بکر کلا باذی (م ۳۸۰ھ) لکھتے ہیں :

علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شفاعت کے بارے میں جوکچھ بیان کیا ہے اس کا اقرار کرنا واجب ہے .اور اس کی دلیل یہ آیت ہے کہ خدا نے فرمایا : عنقریب تمہیں عطاکروں گا کہ خوش ہو جاؤ گے( ۲ )

قابل ذکرہے کہ ابن تیمہ اور محمد بن عبدالوہاب نے بھی شفاعت کی اس قسم کا اقرار کیا ہے اور وہ اسکا انکار نہیں کر سکتے( ۳ )

____________________

۱۔ مفاتیح الغیب ۳: ۵۵؛ اس میں یوں ذکر ہوا ہے : أجمعت الأمة علی أنّ لمحمد صلی الله علیه وآله شفاعة فی الآخرة و حمل علی ذلک قوله تعالی : عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا أو قوله تعالی : ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ

۲۔لتعرف مذھب اہل التصوف : ۵۴؛ تحقیق عبدالحلیم اس کتاب میں لکھاہے :أنّ العلماء قد اجتمعوا علی أنّ الاقرار بجملة ماذکرالله سبحانه وجائت به الروایات عن النبی صلی الله علیه وآله فی الشفاعة، واجب لقوله تعالی : ( ولسوف یعطیک ) وقال النبی صلی الله علیه وآله : ( شفاعتی لأهل الکبائر من امتی

۳۔مجموعة الرسائل الکبرٰی : ۴۰۳؛الھدیة السنیة ،الرسالة الثانیة : ۴۲.

۳۸

دنیا میں شفاعت

انبیاء و آئمہ طاہرین اور صالحین سے اسی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنے کے جوازوتائیدکے

بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی ایک روایات ہم تک پہنچی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے اس لیے کہ پیغمبر صلی اللہ کی ولادت سے پہلے ، آپ کی زندگی میں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد شفاعت کا طلب کرنا واقع ہوا ہے اور آپ نے اس کی تائید فرمائی ہے یا یہ کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ کرام نے آپ کی رحلت کے بعد اس طرح شفاعت طلب کی یا ان کے سامنے شفاعت طلب کی گئی اور انہوں نے اس سے منع نہیں کیا

ولادت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے ان سے شفاعت طلب کرنا

معتبر تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ تبع بن حسان حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت سے ہزار سال پہلے ایک نامہ میں ان سے شفاعت کی درخواست کی اور جب یہ نامہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اس کی تائید بھی کی اور یوں فرمایا : مرحبا بتبع الأخ الصالح آفرین اے نیک بھائی ) )

یہ تعبیر شفاعت کی در خواست کی تائید اور اس سے راضی ہونے کی حکایت کر رہی ہے اصل واقعہ کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر ابن اسحاق نے اپنی کتاب المبدأ و قصص الأنبیائ میں نقل کیا ہے اور حلبی( م ۱۰۴۴ھ) نے اسےالسیرة الحلبیة میں ابن اسحاق سے نقل کیا

۳۹

تبع بن حسّان نے اس نامہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یوں خطاب کیا ہے : اے محمد ! میں تمہارے پروردگار جس کی قدرت میں تمام مخلوقات ہیں اس پر اور ان تمام احکام پر ایمان رکھتا ہوں جو اس کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں پس اگر تمہاری رسالت کے زمانہ کو پا لیا تو بہت اچھا اور اگر درک نہ کر سکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری شفاعت کرنا اور اس دن مجھے فراموش نہ کرنا

ابن اسحاق مزید لکھتاہے : ابی لیلیٰ کے خاندان کے ایک فرد نے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران راستے میں یہ نامہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نامہ وصول کرنے کے بعد تین بار فرمایا :مرحبا بتبع الأخ الصالح

حلبی نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ تبع کے اس نامہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ تھا.( ۱ )

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا شرک کا باعث بنتا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شرک آلود کام کی تائید کریں اور اسکے انجام دینے والے کو بھائی سے تعبیر کریں .؟!

کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشرک شخص کو بھائی کہہ کر خطاب کر رہے ہیں ؟!

____________________

۱ السیرة الحلبیة ۲: ۲۷۹.اس کتاب میں یوں بیان هوا هے : امّا بعد یا محمد ! فانیّ آمنت بک و بربّک وربّ کلّ شیء وبکل ما جائک من ربّک من شرائع الاسلام والایمان و انّی قلت ذلک ، فان ادرکتک فیها ، وان لم ادرکک فاشفع لی یوم القیامة ولا تنسی

وکتب عنوان الکتاب الی محمد بن عبدالله خاتم النبیین والمرسلین ورسول ربّ العالمین ، من تبع الاول حمیر أمانة الله فی ید من وقع هذاالکتاب الی أن یدفعه الی صاحبه ودفعه الی رأس العلماء المذکورین

ثمّ وصل الکتاب الی النبی صلی الله علیه وآله وسلم علی ید بعض ولد العالم المذکور حین هاجر وهو بین مکة والمدینة و بعد قراء ة الکتاب علیه صلی الله علیه وآله وسلم قال : مرحبا بتبع الأخ الصالح ، ثلاث مرّات

. وکان بین تبع هذا أی بین قوله : انه آمن به وعلی دینه وبین مولد النبی صلی الله علیه وآله وسلم ألف سنة

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179