وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 22%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 100137 / ڈاؤنلوڈ: 5478
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

میں ادا کرتا اور پھر ضریح مبارک امام حسین علیہ السلام کی طرف منہ کر کے کہتا : اے میرے مولا ! میں آپ کا ہمسایہ ہوں نابینا ہو چکا ہوں ،خداوند متعال سے آپ کے وسیلہ سے طلب کرتا ہوں کہ میری بینائی پلٹا دے اگرچہ ایک ہی آنکھ کی ہو

ایک رات خواب میں دیکھتا ہے کہ ایک گروہ اس بارگاہ کی طرف آرہا ہے .اس نے جاکر پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟

تو جواب میں کہا گیا : یہ شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آتے ہیں .یہ شخص بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور وہی درخواست جو عالم بیداری میں کرتا تھا اب بھی امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں کی

امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ گرامی کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے عرض کیا:

اس شخص کی شفاعت فرمائیں

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی !اس کی آنکھ میں سرمہ لگا دو

انہوں نے اطاعت کرتے ہوئے سرمہ دانی نکالی اور اس شخص سے فرمایا :میرے نزدیک آتاکہ تمہاری آنکھ میں سرمہ لگاؤں

وہ شخص پاس آیاتو اس کی دائیں آنکھ میں سرمہ لگادیا.اس نے جلن کا احساس کیاتو زور سے چیخ ماری اورنیند سے اٹھ گیا جبکہ ابھی تک جلن کا احساس ہو رہا تھا .اسی کرامت سے اس کی دائیں آنکھ کی بینائی واپس پلٹ آئی اور جب تک زند ہ رہا اسی آنکھ سے دیکھتا رہا( ۱ )

____________________

۱۔ الاتحاف بحبّ الاشراف : ۷۵سے ۱۰۱؛ الغدیر ۵: ۱۸۷.

۸۱

۳۔ ابن حبّان کا قبر امام رضا علیہ السلام سے استغاثہ :

علمائے اہل سنّت میں سے ایک عالم دین جس نے اہل بیت علیہم السلام سے توسّل کیاابن حبّان ہیں اس کرامت کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس بزرگوار کی شخصیت اوراہل سنّت کے ہاں اس کے مقام کوبیان کر رہے ہیں

اہل سنّت کے علمائے علم رجال نے ابن حبّان کے بارے میں یوں لکھا ہے :

وہ امام ، علاّمہ، حافظ( ۱) اور خراسان کی بزرگ شخصیت تھے .وہ مشہور کتب کے مؤلف ہیں ۲۷۰ھ میں پیداہوئے ، کچھ مدّت سمر قند کے قاضی بھی رہے .وہ فقہاء اورسلف کے دینی آثار کی حفاظت کرنے والے تھے انہوں نے مسند صحیح کو الأنواع والتقاسیم کے نام سے تحریر کیا اور کتاب التاریخ اور الضعفائ بھی انہی کے آثار میں سے ہے.سمر قند کے لوگ ان سے علمی استفادہ کیا کرتے...

ابوبکر خطیب بغدادی نے انہیں قابل اعتماد اور ثقہ علماء میں سے شمار کرتے ہوئے کہا ہے: ابن حبّان قابل اعتماد ، برجستہ، سمجھ دار اورباریک بین انسان تھے

حاکم نیشاپوری ان کی تعریف میں لکھتے ہیں :

ابن حبّان علوم فقہ ولغت اور حدیث ووعظ سے سر شار اور صاحب فکر وسر شناس بزرگ افراد میں سے تھے اور ہمارے پاس نیشاپور میں مقیم رہے( ۲ )

ان تمام خصوصیات کے مالک ابن حبّان کئی بار امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے گئے

____________________

۱۔حافظ ایسے شخص کو کہاجاتا ہے جسے ایک لاکھ سے بھی زیادہ احادیث زبانی یاد ہوں

۲۔سیر أعلام النبلاء ۱۶: ۹۲؛ میزان الاعتدال : ۶: ۹۸؛ طبقات سبکی ۳: ۱۳۱؛ الأنساب ۲: ۱۶۴.

۸۲

اور ان سے استغاثہ کیا .کیا ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں میں یہ جرأت ہے کہ وہ ایسے شخص کی طرف کفر وشرک یا نادانی کی نسبت دیں ؟

وہ اما م علی بن موسٰٰٰی رضا علیہ السلام کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :

علی بن موسٰی رضا علیہ السلام مامون کی جانب سے زہریلا شربت پلانے کے سبب وہیں طوس میں شہادت پا گئے .ان کی قبر سناباد نوقان سے باہر اور مشہور زیارت گاہ ہے میں نے کئی بار وہاں پر ان کی قبر کی زیارت کی .جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو میں علی بن موسٰٰی رضا۔ خدا کا درود وسلام ہو ان پر اور ان کے جدّ پر۔ کی زیارت کے لئے جایا کرتا اور وہاں پہ اپنی مشکل کے برطرف ہونے کے لئے خدا سے دعا کرتااور میری دعا مستجاب ہو جاتی.جب تک طوس میں رہا میں نے اسے بارہا تجربہ کیا .خدا وند متعال ہمیں محبت مصطفٰی اور ان کے اہل بیت ۔ ان پر اور ان کے اہل بیت پر خداکا درود ہو ۔پر موت دے( ۱ )

۴۔ ابن خزیمہ کا قبر امام رضا علیہ السلام پر التماس کرنا:

محمد بن مؤمّل ( ۲)کہتے ہیں : میں امام اہل حدیث ابوبکر بن خزیمہ ، ان کے دوست ابن علی ثقفی اوراساتیذ و علماء کے ایک گروہ کے ہمراہ طوس میں علی بن موسٰی الرّضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت پر گیا.تواس زیارتی سفر میں دیکھا کہ ابن خزیمہ اس مقام کاخاص احترام.اور تواضع کر رہا

____________________

۱۔ کتاب الثقات ۸: ۴۵۶؛ الانساب سمعانی ۱: ۵۱۷.

۲۔ان کی شخصیت کو پہچاننے کے لئے سیر اعلام النبلاء ۱۶: ۲۳ کا مطالعہ کریں

۸۳

ہے اور اس کے نزدیک خاص طریقے سے التماس کررہا تھا جس سے ہمیں بہت تعجب ہوا( ۱)

ذہبی ابن خزیمہ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

ابن خزیمہ شیخ الاسلام ، امام الآئمہ ، حافظ ، حجّت ، فقیہ اورعلمی آثار کے مالک ہیں. وہ ۲۲۳ہجری میں پیدا ہوئے اور علم حدیث وفقہ میں اس قدر تجربہ حاصل کیا کہ علم وفن میں ضرب المثل بن گئے

امام بخاری اورامام مسلم نے اپنی صحیح کے علاوہ باقی کتب میں ان سے احادیث نقل کی ہیں(۲ )

ان کے بارے میں کہا گیا ہے : خداوند متعال ابو بکر بن خزیمہ کے مقام و عظمت کی وجہ سے اس شہر سے بلاؤں کو دور کرتا ہے

دار قطنی نے بھی ان کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے :

ابن خزیمہ ایسے پیشوا تھے جو علم کے اعتبار سے باریک بین اور بے نظیر تھے

باقی رجال شناس علماء نے ابن خزیمہ کے بارے میں کہا ہے : وہ سنّت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ کرنے والے ہیں احادیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ظریف نکات کونکالتے وہ ایسے علماء میں سے تھے جو اعتراض کی نگاہ سے احادیث کو دیکھتے اور احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے .وہ علم ودینداری ، نیز سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان عزّت ومقام رکھتے تھے( ۳ )

ابن ابی حاتم ،ابن خزیمہ کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی پیروی کی جاتی

____________________

۱۔تہذیب التہذیب ۷: ۳۳۹؛ فرائد السمطین ۲:۱۹۸.

۲۔سیر اعلام النبلائ۱۴: ۳۶۵.

۳۔ سیراعلام النبلائ۱۴: ۳۷۴۔۳۷۷.

۸۴

ہے ایسا شخص جس کا اہل سنّت کے ہاں اتنا بلند مرتبہ ہے وہ امام رضاعلیہ السلام سے استغاثہ بھی کر رہے ہیں اور ان کی قبر پرعاجزی والتماس بھی کر رہے ہیں. کیا ایسے شخص کے بارے میں ابن تیمیہ یا اس کے پیروکار یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرک یا کافر تھے ؟

کیاوہ ابن خزیمہ یاان جیسے دوسرے افراد کے بارے میں منفی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں؟! !

بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور سے استغاثہ

گزشتہ مطالب کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں کی سیرت میں استغاثے کی اہمیت معلوم ہو گئی کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے .اب ہم ان بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور کی طرف اشارہ کریں گے جن سے استغاثہ کیا گیا:

۸۵

۱۔قبر ابوایوب انصاری ( م۵۲ھ روم ):

حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں : لوگ ابو ایّوب انصاری کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور خشک سالی وقحط میں ان کی قبر پر جا کر باران رحمت کی التماس کرتے( ۱ )

۲۔ قبر ابوحنیفہ :

ابن حجر لکھتے ہیں : امام شافعی جب تک بغداد میں رہے ابوحنیفہ کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور ان سے توسّل کرتے ان کی ضریح کے پاس جاکر زیارت کیاکرتے،ان پر سلام بھیجتے اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجات کی برآوری کے لئے خدا سے متوسّل ہوتے

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں : نقل معتبر کے مطابق امام احمد بن حنبل امام شافعی سے توسّل کیا

کرتے .یہاں تک کہ ایک دن ان کے بیٹے اپنے باپ کے اس عمل سے تعجب کرنے لگے

____________________

۱۔ المستدرک علی الصحیحین ۳: ۵۱۸، حدیث ۵۹۲۹؛ صفة الصفوة ۱: ۴۷۰،ح۴۰.

۸۶

.احمد نے اس کے تعجب کو دیکھ کر کہا : شافعی لوگوں کے لیے خورشید کی مانند ہیں اور ان کا مقام وہی ہے جو بدن کے لئے سلامتی کا ہوتا ہے

اور جب امام شافعی کو یہ خبر دی گئی کہ مغرب کے لوگ امام مالک سے توسّل کرتے ہیں تو انہوں نے ان کے اس عمل کو برا بھلا نہیںکہا

شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ہر روز ان کی قبر پر جا تا ہوں اور اگر کوئی حاجت ہوتو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاکر خدا سے حاجت کی برآوری کی التماس کرتا ہوں.( ۱ )

۳۔ قبر احمد بن حنبل :

ا بن جوزی مناقب احمد میں لکھتے ہیں:

عبداللہ بن موسٰی کہتے ہیں : ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ احمد کی قبر کی زیارت کے لیے باہر نکلا تو آسمان پر سخت تاریکی چھا گئی میرے باپ نے مجھ سے کہا : آئیں ابن حنبل کے وسیلے سے خدا سے متوسّل ہوں تاکہ وہ ہم پر راستے کو روشن کردے .اس لئے کہ اسّی سال سے جب بھی میں نے ان سے توسّل کیا ہے تو میری حاجت پوری ہو تی رہی ہے( ۱ )

۴ ۔ قبرابن فورک اصفہانی( م ۴۰۶ھ) :

ابن فورک محمد بن حسن متکلمین کے استاد اور اشعری مذہب تھے .وہ حیرہ ( نیشاپور کے اطرف میں )دفن ہوئے ،انکی بارگاہ معروف اور ایک زیارتی مکان ہے .لوگ ان سے بارش طلب کرتے

____________________

۱۔ خلاصة الکلام : ۲۵۲؛ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۳؛ اخبار أبی حنیفہ : ۹۴.

۲۔ مناقب احمد : ۲۹۷.

۸۷

ہیں اور ان کی قبر پر دعاقبول ہوتی ہے( ۱ )

۵۔ قبر شیخ احمد بن علوان ( ت ۷۵۰ھ) :

یافعی کہتے ہیں : شیخ احمد بن علوان کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ جوفقہاء ان کے نظریے کے مخالف تھے وہ بھی مشکلات میں ان سے توسّل کرتے اور بادشاہ کے خوف سے ان کے ہاں پناہ لیتے( ۲ )

خاتمہ

ہم نے اس تحریر میں استغاثہ ، توسّل اور دعا کے بارے میں اختصار کے ساتھ تاریخی شواہدکوبیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام کی قبور پر مسلمان انجام دیتے آئے ہیں جیساکہ حنبلیوں کے امام ابوعلی خلال ہر مشکل میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسّل ہواکرتے.( ۳ )

ابن خزیمہ اور ابن حبّان امام رضا علیہ السلام سے توسّل کیا کرتے اور اپنی حاجات کی برآوری کے لئے امام عالی مقام سے استغاثہ کرتے

۔ احمد بن حنبل شافعی سے متوسّل ہواکرتے.

۔شافعی اپنی حاجات پوری کروانے کے لئے ابو حنیفہ سے متوسّل ہوتے ؛

۔اہل سمرقندبخاری کی قبر پر بارش کی دعا کیا کرتے

۔حضرت عائشہ مسلمانوںکو یہ حکم دیتیں کہ بارش کے لئے قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جاکر توسّل اور

____________________

۱۔وفیات الأعیان ۴: ۲۷۲؛ سیراعلام النبلاء ۱۷: ۲۱۵.

۲۔مرآة الجنان ۴: ۳۵۷.

۳۔تاریخ بغداد۱: ۱۲۰.

۸۸

ان سے استغاثہ کریں

صحابہ کرام اور اہل سنّت کے بزرگ علماء اور عوام الناس ؛ انبیاء وصحابہ اور صالح افراد کی قبور پر جاکر استغاثہ کیا کرتے

کیا واقعا ان تمام تر تاریخی دلا ئل و شواہد کے باوجود ابن تیمیہ میں اتنی جرأت ہے کہ وہ ان افراد پر شرک وکفر کی مہرلگائے ؟

شیخ سلامہ عزامی نے ابن تیمیہ کے افکار کے بارے میں بہت زیبا جملہ بیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں:

یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات کے بارے میں بھی جسارت کی،جہاں وہ کہتا ہے : جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کی نیّت سے سفر کرے تو اس نے گناہ کیا ہے اور جوکوئی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کی وفات کے بعدپکارے اوران سے استغاثہ کرے تو اس نے شرک کیا

ابن تیمیہ نے ایک مقام پر اسے شرک اصغر اور دوسرے مقام پر شرک اکبر قرار دیاہے جبکہ استغاثہ کرنے والا شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خالق حقیقی اور مؤثر واقعی خداوند متعال کی ذات ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف واسطہ ہیں حاجات کی بر آوری کے لئے .اس لئے کہ خدا نے انہیں بھلائی کا چشمہ قرار دیا ہے اور وہ ان کی شفاعت اور دعا کو قبول کرتا ہے .اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے.( ۱ )

ہاں ! ابن تیمیہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد انہیںپکارنے کو شرک سمجھتا ہے جبکہ ابوبکر کے

زمانہ میں مسیلمہ کذّاب کے ساتھ جنگ میں لشکراسلام کانعرہ یا محمداہ! تھا

____________________

۱۔ فرقان القرآن : ۱۳۳؛ الغدیر ۵: ۱۵۵.

۲۔ البدایة والنھایة ۶: ۳۲۶.

۸۹

۵۔زیارت قبور

وہابیوں کے نزدیک زیارت رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت ایک شرعی اور پسندیدہ عمل ہے پوری تاریخ اسلام میں مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور اس طرح مادی ومعنوی کمالات سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں

جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرناحرا م ہے اور باقی قبور کی زیارت بدرجہ اولیٰ حرام ہوگی .ابن تیمیہ نے اس فتوٰی کے لئے حدیث( شدّ الرّحال)کو دلیل قراردیا ہے.یہ حدیث قسطلانی نے ارشاد الساری( ۱ ) اور ابن حجر عسقلانی نے الجوہر المنظّم میں نقل کی ہے

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲: ۳۲۹.

۹۰

اس نظریے کا جواب

ہم سب سے پہلے حکم شرعی کی چار دلیلوں ( قرآن ،سنت، صحابہ کرام کی سیرت اور عقل) کے ذریعہ سے ابن تیمیہ کے نظریہ کے باطل ہونے کو ثابت کریں گے اور پھر حدیث شدّ الرّحال ) ) کی تحقیق اور اس پر اشکال کرتے ہوئے اس سے لئے جانے والے مفہوم کے نادرست ہونے کو بیان کریں گے .اور یہ ثابت کریں گے کہ چار دلیلوں کی رو سے زیارت ایک شرعی عمل ہے

۱۔قرآن کی نظر میں

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توّابا رحیما )

ترجمہ:اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفارکرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتاتو یہ خداکو بڑاہی توبہ کرنے والااو ر مہربان پاتے.( ۱ )

اس آیت کریمہ کی رو سے زیارت کا معنی جس کی زیارت کی جارہی اس کے پاس حاضر ہونا ہے ؛چاہے استغفار کی خاطر ہو یا کسی اور قصد سے جب حیات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس عمل کا پسندیدہ ہونا ثابت ہوگیا تو ان کی رحلت کے بعد بھی اسی طرح پسندیدہ ہوگا جیسا کہ ہم شفاعت کی بحث میں دلائل وشواہد کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت کے بعد بھی عالم برزخ میں زندہ ہیں اور زائر کے سلام کو سنتے ہیں اور اس کے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں

۲۔ احادیث کی نظر میں

خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی قبر مطہّر کی زیارت اور اس کی تعظیم کے بارے میں بہت زیادہ روایات بیان ہوئی ہیںاور اہل سنت کے علمائے رجال نے ان تمام راویوں کی تائید کی ہے ان معتبر احادیث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ زیارت کے بارے میں نقل کی گئی تمام تر روایات واحادیث کو جعلی قرار دینا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پربہت بڑی جھوٹی نسبت دینے کے مترادف ہے.اب ہم ان احادیث میں سے چند ایک کو بطورنمونہ پیش کر رہے ہیں :

۹۱

پہلی حدیث :

اہل سنت کی متعدد کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

من زار قبری وجبت له شفاعتی

جوشخص میری قبر کی زیارت کرے تو مجھ پر واجب ہے کہ اس کی شفاعت کروں

بہت سے حفاظ و محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جن میں سے ابن ابی الدنیا ، ابن خزیمہ ، دار قطنی ، دولابی ، ابن عساکر اور تقی الدین سبکی و... ہیں.( ۱ )

دوسری حدیث :

عبد اللہ بن عمر ایک مرفوع روایت( اہل سنت کے ہاں مرفوع روایت سے مراد صحیح اور معتبر روایت ہے.) میں بیان کرتے ہیںکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

( (من جائنی زائرا لا تعمله لا تحمله الاّ زیارتی کا ن حقّا علیّ أن أکون له شفیعا یوم القیامة

جو شخص فقط میری زیارت کی نیت سے میرے پاس آئے تو میرے لئے ضروری ہے کہ روز قیامت اس کی شفاعت کروں

یہ حدیث اہل سنت کی سولہ کتب میں بیان کی گئی ہے اور اسکے راویوں میں سے طبرانی ، حافظ بن سکن بغدادی،دار قطنی اور ابونعیم اصفہانی کا نام لیا جاسکتا ہے( ۲ )

۹۲

تیسری حدیث :

عبداللہ بن عمر ایک اور مرفوع روایت میں بیانکرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

من حجّ فزار قبری بعد وفاتی کان کمن زارنی فی حیاتی

جس نے حانہ کعبہ کا حج کیا اور میری رحلت کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہو

یہ حدیث اہل سنت کی پچیس کتب میں نقل ہوئی ہے جس کے راویوں میں سے شیبانی ، ابویعلی ، بغوی ، ابن عدی و... ہیں( ۱ )

چوتھی حدیث :

عبد اللہ بن عمر مزید ایک مرفوع روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

من حجّ البیت ولم یزرنی فقد جفانی

جو شخص خانہ کعبہ کا حجّ کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے مجھ پر جفا کی

اس حدیث کو بہت سے حفاظ و محدثین نے نقل کیا ہے جن میں سے سمہودی ، دارقطنی اور قسطلانی اور دیگر مؤلفین ہیں( ۲)

____________________

۱۔المعجم الکبیر ۱۲: ۴۰۶؛ سنن دار قطنی ۲: ۲۷۸.

۲۔نیل الأوطار ۵: ۱۸۰؛ المصنف عبدالرزاق ۳: ۵۶۹؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۴.

۹۳

۳۔ صحابہ کرام کی سیرت

زیارت کے جائز ہونے کی تیسری دلیل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ کرام کی سیرت اوران کا کردار ہے ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب عمر بن خطاب فتوحات شام سے مدینہ منورہ واپس پلٹے توسب سے پہلے مسجد میں گئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا( ۱)

اس واقعہ کو فتوح الشام میں یوں نقل کیا گیا ہے : جب عمر نے اہالیان بیت المقدس کے ساتھ صلح کی تو کعب الأحبار ان کے پاس آیا اور اسلام قبول کرلیا عمر اس کے اسلام لانے سے خوش ہوئے اور اس سے کہا: کیا تم میرے ساتھ مدینہ جاناپسند کرو گے تاکہ وہاں قبر پیغمبر کی زیارت کرکے اس سے فیضیاب ہو سکو ؟.

کعب الأحبار نے اسے قبول کرلیا اور جب عمر مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر ان پر سلام کیا( ۲ )

مزید ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی سفر سے واپس آتے تو قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر کہتے : السلام علیک یا رسول اللہ .( ۳ )

عبداللہ بن عمر ہمیشہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کنارے کھڑے ہو کر آنحضرت پر سلام بھیجا کرتے.(۴ )

____________________

۱۔شفاء السقام : ۱۴۴؛ یاد ر ہے کہ یہاں پر ہماری بحث جدلی ہے جبکہ ہمارے نزدیک فقط سیرت معصوم حجت ہے چاہے وہ صحابی ہو یا نہ ہو

۲۔فتوح الشام ۱: ۲۴۴.

۳۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۴۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۹۴

ایک اورروایت میں پڑھتے ہیں کہ ابن عون کہتے ہیں: ایک شخص نے نافع سے پوچھا : کیا عبداللہ بن عمر قبر پیغمبر پر کھڑے ہو کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام بھیجا کرتے ؟ تو نافع نے کہا: ہاں ، میں نے اسے ایک سو یااس سے بھی زیادہ مرتبہ دیکھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کنارے کھڑے ہو کر کہتے : سلام ہو اللہ کے رسول پر( ۱ )

حافظ عبدالغنی اور دیگر نے کہا ہے : حضرت بلال نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد فقط ایک بار اذان کہی اور وہ بھی اس وقت جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ گئے تھے( ۲ )

تقی الدین سبکی کہتے ہیں: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے جائز ہونے پر ہماری دلیل حضرت بلال کا خواب نہیں ہے بلکہ ان کا عمل ہے یہ عمل حضرت عمر کے دور خلافت میں اتنے سارے صحابہ کرام کی موجودگی میں انجام پایا. اور یہ امر ان پر پوشیدہ بھی نہیں تھا .اسی لئے انہوں نے حضرت بلال پر کوئی اعتراض نہیں کیا( ۳)

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۲۔ قاموس الرجال ۲: ۳۹۸. البتہ تاریخ میں جو چیز ثابت ہے وہ یہ کہ حضرت بلال نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد دو بار مدینہ میں اور ایک بار شام میں اذان کہی

۳۔شفاء السقام : ۱۴۲، باب سوم

۹۵

۴ ۔ عقل کی رو سے

زیارت کے جواز کے لئے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جسے خداوند متعال نے عظمت و بزرگی عطا کی ہے اس کی تعظیم کی جائے اور زیارت بھی ایک طرح کی تعظیم ہے پس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام شمار ہوتا ہے یہ شعائر الھی میں سے اور ایک پسندیدہ عمل ہے اگرچہ دشمنان اسلام اسے پسند نہیں کرتے.

وہابیوں کی دلیل کے بارے میں تحقیق

اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے حرام ہونے پر بخاری و مسلم میں منقول حدیث سے استدلال کرتے ہیںکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :لا تشد ّالرّحال الاّ الی ثلاثة : المسجد الحرام ومسجدی ومسجد الأقصیٰ

تین مکانوں کے علاوہ سفرکرنا حرام ہے : مسجد الحرام ، مسجد النبی ، مسجد الأقصیٰ( ۱ )

محمد بن عبدالوہاب اس حدیث سے غلط مفہوم لیتے ہوئے کہتا ہے :

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت مستحب ہے لیکن مسجد کی زیارت اور اس میں نماز کے قصد سے سفر کیا جائے نہ کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے قصد سے

محمد بن عبد الوہاب نے اس حدیث سے استنا د کرتے ہوئے زیارت قبور کو حرام قرار دیا ہے

ہم اس حدیث کی تحقیق کے بارے میں کہیںگے کہ عربی قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کے صحیح معنیٰ کو سمجھنے کے لئے کلمہ حصر (الاّ) سے پہلے ایک لفظ کو محذوف قرار دینا ہو گا اور ایسی صورت میں دو احتمال سامنے آئیں گے :

۱۔ لفظ محذوف مسجد ہے اور ایسی صورت میں اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ نماز ادا کرنے کے لئے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر مت کریں

۲۔ لفظ محذوف مکان ہے کہ ایسی صورت میں حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ ان تین مساجد

____________________

۱۔صحیح بخاری ۱: ۳۹۸،ح ۱۱۳۲؛ صحیح مسلم ۲: ۱۰۱۴.

۹۶

کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف سفر مت کریں

پہلے احتمال کے مطابق کلمہ حصر الاّ سے جومعنٰی سمجھا جا رہا ہے وہ حصر اضافی ہے یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام مبارک میں نفی واثبات کا محور مسجد ہے اور قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ابتداء ہی سے اس حدیث کے موضوع سے خارج ہے .اس لئے کہ حدیث شریف یہ کہہ رہی ہے کہ جس شہر میں جامع مسجد موجود ہو تو وہاں سے سفر کر کے دوسرے شہر جانا اور وہاں کی جامع مسجد یا غیر جامع میں نماز پڑھنے پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ دونوںجگہ مسجد کی اہمیت اور اس میں نمازادا کرنا برابر ثواب رکھتا ہے .لیکن مذکورہ بالا تین مسجدیں اس موضوع سے خارج ہیں اس لئے کہ وہاں پہ نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا حامل ہے

دوسری جانب تبادر عرفی ( عرف عام میں کسی لفظ کے سننے سے خاص معنٰی کا ذہن میں آنا ) اور حکم ( شدّ الرّحال )وموضوع کے درمیان تناسب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لفظ (مسجد ) ہی کو محذوف سمجھا جائے لہذا یہی احتمال درست ہوگا

جبکہ دوسرے احتمال کے مطابق ۔جوابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروںکے نظریہ سے مطابقت رکھتا ہے ۔ کلمہ الاّ سے جو حصر سمجھا جا رہا ہے وہ حصر حقیقی ہے یعنی ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف مت سفر کریں جبکہ تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ تجارت ، طلب علم ، جہاد، علماء کی زیارت یا سیر وسیاحت کے قصد سے سفر کرنا کوئی ممانعت نہیں رکھتا

اس لحاظ سے لفظ مکان کو محذوف ماننا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ سفر کرنا جائز نہ ہواور بدیہی ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجماع و اتفاق کے خلاف ہے.

۹۷

پس اس حدیث میں الاّ سے پہلے لفظ (مسجد ) کو محذوف ماننا پڑے گا یعنیلا یقصد بالسفر الی المسجد الاّ المساجد الثلاثة .اورا س صورت میں حدیث شریف میں کہیں بھی مقامات مقدّسہ اور خاص طور پر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے حرام ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا

قسطلانی نے بھی (ارشاد الساری)میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے.( ۱ )

علاوہ ازیں اگر لفظ محذوف مسجد ہو تو پھر بھی اس حدیث مبارکہ کے مضمون پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ پہلے احتمال کے مطابق حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ فقط انہی تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے اور ان کے علاوہ نماز ادا کرنے کے لئے کہیں سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے جبکہ روایات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا جایا کرتے تھے جبکہ یہ مسجد ان تین مساجد میں سے نہیں ہے .لہذا اس اعتبار سے مسجد قبا کی طرف سفر کرنا بھی حرام ہونا چاہئے جبکہ کوئی بھی مسلمان ایسی بات کرنے کو تیار نہیں.

ایک ورایت میں بیان ہوا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں:

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ہفتہ کے دن پید ل یا سوار ہوکر مسجد قبا جایا کرتے

اسی طرح عبد اللہ بن عمر خود بھی اس پر عمل کیا کرتے( ۲ )

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲:۳۳۲.

۲۔ صحیح بخاری ۲: ۳۹۹،ح ۱۱۳۵.

۹۸

ابن تیمیہ کے توہمات اور علمائے اہل سنت کا موقف

گذشتہ مطالب سے یہ روشن ہو گیا کہ ادلّہ اربعہ کی بناء پر زیارت ایک شرعی عمل ہے اور اس بارے میں ابن تیمیہ کے افکار کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے البتہ علمائے اہل سنت نے اس فاسد عقیدے کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے :

۱۔ قسطلانی کہتے ہیں : ابن تیمیہ سے جو مسائل نقل ہوئے ہیں ان میں سے بدترین مسئلہ اس کا قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کرنا ہے( ۱ )

۲۔ نابلسی کہتے ہیں : یہ پہلی مصیبت نہیں ہے کہ جس میں ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کار گرفتا رہوئے ہوں اس لئے کہ اس نے بیت المقدس کی زیارت کے لئے سفر کرنے کو بھی گناہ قرار دیا ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیا ئے الہی میں سے کسی کے وسیلے سے خدا وند متعال سے توسّل کرنے سے بھی منع کیا ہے

اس طرح کے فتوے جو اس کی کج فہمی کی دلیل ہیں یہ باعث بنے ہیں کہ علماء ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کے سامنے قاطعانہ قیام کریں .یہاں تک کہ حصنی دمشقی نے مستقل طور پر ایک کتاب لکھ کر اسے ردّ کیا اور اس کے کفرکو صراحتا بیان کیا( ۲)

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲: ۳۲۹.

۲۔الحضرة الانسیة فی الرحلة القدسیة : ۱۲۹.

۹۹

۳۔ غزالی کہتے ہیں : جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں انہیں دیکھ کر تبرک حاصل کیا کرتا اسے چا ہئے کہ ان کی رحلت کے بعد ان کی زیارت کرکے تبرّک حاصل کرے .( اسی طرح ) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیلئے سفر کرنا جائز ہے اور حدیث لا تشدّ الرحال اس کے لئے مانع نہیں بن سکتی(۱)

۴۔عزامی شافعی کہتے ہیں : ابن تیمیہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر بھی جسارت کی ہے اور کہا ہے کہ آنحضرت کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے( ۲ )

۵۔ ہیثمی شافعی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے جواز کو ادلّہ کے ساتھ ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے اور اعتراض کرے کہ تم نے کس طرح زیارت کے جواز پر علماء کے اتفاق کو دلیل قرار دیا ہے جبکہ ابن تیمیہ اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ابن تیمیہ کون ہے؟ اور اسکی کیا اہمیت ہے کہ اسے اتنا مقام دیا جائے یا دینی و اسلامی مسائل میں اسے مرجع کے طور پر پہچانا جائے تاکہ اس کے افکار علماء کے اجماع میں خلل ڈال سکیں .کئی ایک مسلمان دانشوروں نے اس کے ضعیف دلائل پر اعتراض کیا ہے اور اس کی احمقانہ لغزشوں اور نامناسب تخیّلات کو آشکار کیا ہے( ۳ )

مختصر یہ کہ اس بارے میں اہل سنت کے حفاظ ومحدثین نے جو روایات نقل کی ہیں وہ استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں علاوہ ازیں صحابہ کرام کا عمل اور ان کی سیرت نیز حضرت بلال کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبرمبارک کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا جو تمام صحابہ کی موجودگی میں انجام پایا اور اگر صحابہ کرام نے نہ بھی دیکھا ہوتا پھر بھی ان تک یہ بات پہنچ جاتی لیکن اس کے باوجود کسی ایک نے بھی انکے اس عمل پر اعتراض نہیں کیا

____________________

۱۔احیاء علوم الدین ۲: ۲۴۷.

۲۔ فرقان القرآن : ۱۳۳؛الغدیر ۵: ۱۵۵.

۳۔الجوہر المنظم فی زیارة القبر المکرّم : ۱۲؛ الغدیر ۵: ۱۱۶؛ کشف الارتیاب : ۳۶۹.

۱۰۰

اسی طرح حضرت عمر نے کعب الأحبار کو دعوت دی کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرے .جبکہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ زیارت کے جواز پر جو دلیلیںبیان کی گئی ہیں یہ محکم ترین اور قوی ترین ادلّہ ہیں جو خاص پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے جائز بلکہ مستحب ہونے کو بیان کر رہی ہیں اس لئے کہ بعض روایات میں زیارت کا حکم دیا گیا ہے اور اکثر علماء نے اس حکم سے مراد استحباب لیا ہے یہاں تک کہ ابن حزم اندلسی نے اس سے وجوب سمجھا ہے کہ ہر مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا واجب ہے( ۱ )

مقامات مقدسہ اور قبور کی زیارت

گذشتہ مطالب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت سے متعلق تھے اب ہم بقیہ قبور کی زیارت کے جواز کے بارے میں کچھ عرض کریں گے. ان قبور کی زیارت کے جواز میں بھی قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کی طرح کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے .خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبور کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور مسلمانوں کو اس امر کی ترغیب دلاتے .نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور مسلمانوں کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ دوسرے مسلمانوں کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے

البتہ اس بارے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں :

پہلی حد یث :رسول خد اصلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا :

ائتواموتاکم فسلّموا علیهم أو فصلّوافانّ بهم عبرة .( ۲ )

اپنے مردوں کے پاس جاؤ اور ان پر سلام یا درود بھیجو اس لئے کہ وہ تمہارے لئے باعث عبرت ہیں

____________________

۱۔ التاج الجامع للأصول ۲: ۳۸۲.

۲۔ اخبار مکہ ۲: ۵۲.

۱۰۱

۶۔عورت اورزیارت قبور

عورتوں کا قبور کی زیارت کرنا

زیارت کی بحث میں پیش آنے والے مسائل میں سے ایک خواتین کا قبور کی زیارت کرنا ہے سنن ( بخاری و مسلم کے علاوہ )کے مؤلفین نے اس بارے میں روایات نقل کی ہیں ایک روایت میں نقل کیا ہے : کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لعن الله زائرات القبور

خد اوند متعال نے زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے.( ۱ )

وہابی اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے عورتوں پر قبور کی زیارت کو حرام قرار دیتے ہیں

وہابی نظریہ کا ردّ

ہم اس نظریہ ۔جو ایک توہم کے سوا کچھ نہیں۔ کا جواب چار طرح سے دے سکتے ہیں :

اوّل: مندرجہ بالا حدیث ، حدیث بریدہ سے نسخ ہو جائے گی .برید ہ کہتے ہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :نهیتکم عن زیارة القبور،ألا فزوروا

میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا آگاہ ہو جاؤ! (آج کے بعد ) ان کی زیارت کیا کرو.

حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اسی طرح مندرجہ بالا حدیث اس حدیث مبارکہ سے بھی متعارض ہے جسے حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں :

نهی رسول الله عن زیارة القبور ثمّ أمر بزیارتها ( ۲ )

____________________

۱۔ المصنف عبد الرزاق۳: ۵۶۹.

۲۔السنن الکبرٰی ۴: ۷۸.

۱۰۲

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبور کی زیارت سے نہی فرمائی لیکن اس کے بعد ان کی زیارت کا حکم فرمایا

اس حدیث کو ذہبی نے المستدرک علی الصحٰحین کے حاشیہ پر نقل کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے

دوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ کی سیرت اور ان کے عمل سے بھی متعارض ہے اس لئے کہ وہ روایت جسے تھوڑی دیر پہلے نقل کر چکے اس کے مطابق وہ اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتیں

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن ۔ جسے حُبشی( جنوب مکہ) میں ناگہانی موت آئی۔ کی زیارت کی

اسی طرح کہتے ہیں : ایک دن میں نے حضرت عائشہ کو قبرستان جاتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبور کی زیارت سے منع نہیں فرمایا .تو انہوں نے جواب میں فرمایا: ہاں ، منع کیا تھا لیکن دوبارہ اس کا حکم دیا( ۱ )

کیاحضرت عائشہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کا ارادہ رکھتی تھیں؟ تاکہ ( نعوذ باللہ ) لعنت خدا کی مستحق قرار پاسکیں جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا؟

سوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی واضح سیرت اور ان کے عمل کے مخالف ہے اس وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی زیارت کیا کرتیں اور ہر جمعہ کے دن یا ہر ہفتے میں دوبار حضرت حمزہ علیہ السلام اور دیگر شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایا کرتیں

کیا یہ درست ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی کی سنت کی مخالفت کرنا چاہتی تھیں ؟

____________________

۱۔ السنن الکبرٰی ۴: ۱۳۱.

۱۰۳

یا یہ کہ شہزادی اپنے باپ کی سنت سے آگاہ نہیں تھیں ؟

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اہل بیت میں سے ہیں اور گھر کے اندر جو کچھ ہوتا ہے گھر والے اس سے بہتر آگاہ ہوتے ہیں.اس کے علاوہ وہ اپنے والد گرامی کی زندگی میں شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایاکرتیں اور سات سال تک زمانہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان کی یہی سیرت رہی پس کیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس عمل سے نہ روکا ؟

اسی طرح شہزادی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد انکی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں .جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

جب رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار کی قبر پر کھڑی ہوئیں ،مٹھی بھر خاک اُٹھا کر آنکھوں پرڈالی اور گریہ کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے

اگر واقعا قبروں کی زیارت عورتوں پر حرام تھی تو کیسے امیر المؤمنین علیہ السلا م یاصحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو اس عمل سے منع نہ فرمایا ؟

چہارم: ابن تیمیہ سے پہلے اور بعد کے علمائے اہل سنت نے عورتوں کے قبور کی زیارت کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا ہے اور اس حدیث میں لعنت کی وجہ عورتوں کا اپنے عزیزوں کی موت کی مصیبت پر صبر نہ کرنا بیان کیا ہے لیکن اگر کوئی عورت نامحرموں کے سامنے چیخ و پکار نہیں کرتی بلکہ صبر کرتی ہے تو اس کے قبر کی زیارت کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے.

البتہ بعض علمائے اہل سنت جیسے منصور علی ناصف نے اپنی کتابالتاج الجامع للأصول ، ملاّ علی قاری، نووی ، قرطبی، قسطلانی، ابن عبدالبرّ ، ابن عابدین اور ترمذی نے اس حدیث کواسی صورت پر منطبق کیا ہے یا اسے ضعیف قرار دیا ہے چونکہ اس کے تینوں واسطے جو حسان بن ثابت ، ابن عباس یا ابو ہریرہ تک پہنچتے ہیں. ان میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہل سنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے.اور شاید اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر نہیں کیا

ان اعتراضات واشکالات کے علاوہ فقہاء نے بھی اس حدیث کی شرح میں مردوں اور عورتوں کے قبور کی زیارت کے مستحب ہونے کا فتوٰی دیا ہے.( ۱ )

____________________

۱۔ التاج الجامع للأصول ۲: ۳۸۱؛ مرقاة المفاتیح ۴: ۲۱۵؛ التمہید ۳: ۲۳۴.

۱۰۴

۷۔قبروں پر دعا کرن

قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر قبور کے پاس دعاکرنااور نماز پڑھنا

جو ادلّہ بیان کی جائیں گی ان کے مطابق قبر مطہّر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر قبور کے پاس نماز پڑھنا اور دعاکرنا ایک جائز اور شرعی عمل ہے. طول تاریخ میں مسلمانوں کا یہی طریقہ کا ر رہا ہے اور اب بھی ہے. جبکہ اس بارے میں وہابیوں کا نظریہ باقی نظریات کے مانند تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مخالف ہے.

وہابیوں کا نظریہ

وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے اور دعا کرنے سے منع کرتے ہیں اور اسے شرک وکفر سمجھتے ہیں اس بارے میں ابن تیمیہ کہتا ہے:

صحابہ کرام جب بھی قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے تو ان پر سلام بھیجتے اور جب دعاکرنے لگتے تو قبر نبوی کی جانب سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرخداسے دعا کرتے اور باقی قبور پر بھی اسی طرح کرتے .

۱۰۵

اسی دلیل کی بناء پر گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی ایک نے قبور یا اولیاء کے مقدس مقامات پر نماز اداکرنے کے مستحب ہونے کے بارے میں نہیںکہا ہے. نیز یہ بھی نہیں کہا کہوہاں پر نما ز ادا کرنا یا دعاکرنا دوسرے مقامات سے افضل ہے بلکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ گھروں یا مساجد میں نماز ادا کرنا اولیاء وصالحین کی قبور کے پاس ادا کرنے سے افضل وبہتر ہے ،چاہے ان قبور کو مقدس مکان کا نام دیا جائے یا نہ( ۱ )

اس توہّم کا جواب

ہم ابن تیمیہ کے اس بے بنیاد نظریہ کا جواب چند طریقوں سے دے سکتے ہیں :

اوّل:روایات عامہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ کسی بھی مکان میں نماز اور دعا جائز ہے پس قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر انبیاء و صالحین کی قبور پر بھی نماز و دعا جائز ہوگی ہم ان عمومات واطلاقات کی بناء پر اس کے جواز کا حکم لگائیں گے

دوم: دین مبین اسلام سے جو کچھ سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ مکان جو شریعت کی نظر میں محترم و مکرم ہے وہاں پہ نماز ودعا اورمطلقا عبادات بھی فضیلت رکھتی ہیں

دوسری جانب ہر مکان کا احترام اسکے مکین سے ہوتا ہے اور ہر قبر کا مقام اس میں دفن ہونے

سوم: یہ آیت :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفرواالله ) ( ۲ )

ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے

____________________

۱۔ رسالہ زیارة القبور : ۲۸.

۲۔ نساء : ۶۴.

۱۰۶

اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لئے کہ لفظ جاؤوک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات وممات دونوں کو شامل ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام ان کی حیات وممات میں ایک جیسا ہے

قابل ذکر یہ ہے کہ امام مالک نے منصور کے ساتھ ملاقات میں اسی مطلب کی وضاحت کی( ۱ )

شمس الدین جزری کہتے ہیں : اگر قبر پیغمبر کا پاس دعا قبول نہیں ہو گی تو پھرکونسامکان ہے جہاں دعا قبول ہوگی ؟!

چہارم: حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت وہابیوں کے نظریہ کے بالکل مخالف ہے اس لئے وہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے جاتیں اور وہاں پہ نماز ادا کرتیں اور گریہ کیا کرتیں.( ۲ )

وہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جن کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے( ۳ ) کیا سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر مخفی تھی ؟

کیا قبور کی زیارت کرکے انہوں نے سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی؟ کیا واقعا یہ بات ابنتیمیہ پر مخفی تھی کہ وہ یہ ادّعا کررہا کہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے قبور یا بقعہ کے پاس نماز پڑھنے کے استحباب کا فتوٰی نہیں دیا ؟!

پنجم: زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لے کر آج تک مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ وہ صالحین ومؤمنین کی قبور کے پا س نماز بھی ادا کرتے اور وہاں پہ دعا بھی کیا کرتے .جس کے چند ایک نمونے مندرجہ ذیل ہیں :

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۶؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۹.

۲۔ المصنّف ۳: ۵۷۲؛ المستدرک علی الصحیحین ۱: ۵۳۳.

۳۔ فتح الباری ۷: ۱۳۱

۱۰۷

۱۔عمر بن خطاب کا طریقہ کار:

طبری ریاض النضرة میں لکھتے ہیں :

ایک مرتبہ جب حضرت عمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حج بجالانے کے لئے نکلے تو راستے میں ایک بوڑھے شخص نے ان سے مدد طلب کی جب حج سے واپس پلٹنے لگے تو ابواء کے مقام پر اس شخص کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو فو ت ہو چکا ہے جیسے ہی یہ خبر سنی بڑے بڑے قدم رکھتے ہوئے اس کی قبر پہ پہنچے .اس کے لئے نماز ادا کی اور قبرکو گلے لگا کر گریہ کیا( ۱ )

۲۔ امام شافعی کا قول :

امام شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے تبرّک حاصل کرتا ہوں ،جب مجھ پر کوئی مشکل آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جا کر خداوند متعال سے حاجت طلب کرتا ہوں( ۲ )

۳۔قبر معروف کرخی :

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ زہری کہتے ہیں :

معروف کرخی کی قبر کے پاس حاجات کا پورا ہونا تجربہ شدہ ہے اسی طرح کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی قبرکے پا س ایک سو مرتبہ ( قل ھو اللہ أحد ) کی تلاوت کرے اور پھر خد اسے حاجت طلب کرے تو اسکی حاجت پوری ہوگی( ۳ )

____________________

۱۔ ریاض النضرة ۲: ۲۳۰.

۲۔ صلح الأخوان : ۸۳؛ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۳.

۳۔تاریخ بغداد ۱: ۱۲۲.

۱۰۸

ابراہیم حربی کہتے ہیں :معروف کرخی کی قبرزہری کے لئے تجربہ شدہ پناہ گاہ تھی. ذہبی اس بارے میں کہتے ہیں : اس قبر پر درماندہ افراد کی دعا قبول ہوتی ہے چونکہ مبارک بقعوں کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے( ۱ )

احمد بن فتح کہتے ہیں : میں نے بشر تابعی سے معروف کرخی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا : جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو ان کی قبر پر جاکر دعا کرے ان شاء اللہ اس کی دعا قبول ہوگی( ۲ )

ابن سعد سے اس بارے میں یوں نقل کیا گیا ہے : معروف کرخی کی قبر سے بارش طلب کی جاتی ہے ان کی قبر آشکار ہے اور لوگ دن رات اس کی زیارت کے لئے آتے رہتے ہیں( ۳ )

۴۔ قبر شافعی :

جزری کہتے ہیں : شافعی کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے.( ۴ )

۵۔ قبر بکراوی حنفی ( ت ۴۰۳):

وہ قرافہ میں دفن ہوئے اوران کی قبر ایک معروف زیارت گاہ ہے لوگ اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں اورکہا گیا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے.( ۵ )

____________________

۱۔ سیر اعلام النبلاء ۹: ۳۴۳

.۲۔ صفة الصفوة ۲: ۳۲۴.

۳۔ طبقات الکبرٰی ۱: ۲۷.

۴۔غایة النھایة فی طبقات القرائ۲: ۹۷

۵۔ الجواہر المضیئة ۱: ۴۶۱.

۶۔ قبر حافظ عامری ( ت۴۰۳) :

۱۰۹

نقل کیا گیا ہے کہ لوگ رات کے وقت ان کی قبر پہ جمع ہوتے ہیں ، ان کے لئے قرآن کی تلاوت اور ان کے حق میں دعا کرتے ہیں.( ۱)

۷۔ قبر ابو بکر اصفھانی ( ت۴۰۶):

وہ نیشاپور کے اطراف میں حیرة کے مقام پر دفن ہوئے .ان کی بارگاہ وہاں پہ آشکار اور زیارتی مکان ہے.کہا گیا ہے کہ ان کی قبر سے باران رحمت کی دعا کی جاتی ہے اور دعا وہاں پہ قبول ہوتی ہے( ۲ )

۸۔ قبر نفیسہ خاتون :

سیدہ نفیسہ دختر ابو محمد ،حسن بن زید امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی اوالاد میں سے اور اسحاق بن امام صادق علیہ السلام کی زوجہ ہیں ابن خلکان کہتے ہیں : وہ درب السباع مصر میں دفن کی گئیں اور ان کی قبر دعاکے مستجاب ہونے میں معروف ہے اور یہ ایک تجربہ شدہ امر ہے.( ۳)

ششم : اہل سنت کے بزرگ علماء جلال الدین سیوطی نے معراج پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی داستان اور ابن تیمیہ کے شاگرد ابن جوزیہ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد زیارت کے حرام ہونے کے عقیدہ مخالفت کی ہے( ۴ )

____________________

۱۔البدایة والنھایة ۱۱: ۳۵۱.

۲۔ وفیات الأعیان ۴: ۲۷۲.

۳۔حوالہ سابق ۵: ۴۲۴.

۴۔کشف الارتیاب : ۳۴۰، نقل از زاد المعاد

۱۱۰

ابن تیمیہ کا دوسرا فتوٰی

ابن تیمیہ نے ایک اور فتوٰی میں صحابہ کرام کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ دعا کے وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے تھے بلکہ ان کی قبر سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرکے کھڑے ہوتے( ۱ )

اس ادّعا کا جواب

ہم اس ادّعا کا جواب تین طرح سے دیں گے:

اوّل: ابن تیمیہ نے اس بارے میں صحابہ کرام میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا کہ کس صحابی نے دعا کرتے وقت اپنا منہ قبر سے پھیر ا جبکہ اس کے ادّعا کے برعکس ثابت ہو چکا ہے.

عبداللہ عمر جوخود صحابی ہیں ابن تیمیہ کے نظریہ کے خلاف بیان کرتے ہیں: مستحبات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کے پاس دعا کرتے وقت قبر مبارک کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو.( ۲ )

دوم : اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا کرتے وقت قبر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اس لئے کہ آیت کریمہ یہ فرما رہی ہے :

أینما تولّو افثمّ وجه الله ( ۳ )

____________________

۱۔رسالة زیارة ا لقبور: ۲۶.

۲۔ فضل الصلاة علی النبی ّ : ۸۴، ح ۱۰۱؛ کشف الارتیاب : ۲۴۷و ۳۴۰؛ الغدیر ۵: ۱۳۴.

۳۔ سورہ بقرہ : ۱۱۵.

۱۱۱

سوم : فقہاء کا فتوٰی ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے قول کے خلاف ہے.نمونہ کے طور پر چند فتاوٰی نقل کر رہے ہیں :

۱۔فتوائے امام مالک:

جب منصور نے امام مالک سے پوچھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دعا کرتے وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی طرف رخ کروں یا قبلہ کی طرف ؟

تو امام مالک نے جواب میں فرمایا: کس لئے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روگردانی کرناچاہتے ہو جبکہ وہ تو تمہارے اور تمہارے باپ آدم کے بھی قیامت تک وسیلہ ہیں ؟ پس قبر رسول وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منہ کر ان سے شفاعت طلب کر ،خداانکی شفاعت قبول کرتا ہے( ۱)

یہ سوال وجواب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اور اس میں کسی قسم کی تردید نہیں تھی لیکن جو چیز منصور جاننا چاہ رہا تھا وہ یہ تھی کہ کیا دعا کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا قبر مبارک کی طرف ؟( ۲ )

۲ ۔ فتوائے خفاجی :

خفاجی کہتے ہیں : شافعی اور عام علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور قبر مطہّر کی طرف منہ ہونا چاہئے .اور ابو حنیفہ سے بھی یہی فتوٰی نقل ہواہے( ۳ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفیٰ ۴: ۱۳۷۶؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۹؛ الفروق ،صنہاجی۳: ۵۹.

۲۔ اشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی ۲: ۹۲؛ الغدیر ۵: ۱۳۵؛ کشف الارتیاب : ۲۴۰و ۲۵۵و ۲۶۱.

۳۔ شرح الشفاء ۳: ۵۱۷.

۱۱۲

۳۔ فتوائے محقق حنفی :

کمال بن حمام کہتے ہیں : ابو حنیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ دعا کے وقت قبلہ کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوتے جبکہ یہ قول مردود ہے اس لئے کہ عبداللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی جانب سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا جائیاور قبلہ کی طرف پشت اور قبر مبارک کی طرف منہ کریں اور ابوحنیفہ کے نزدیک یہ بات درست ہے کرمانی کا یہ کہنا کہ ابو حنیفہ کا مذہب اس مسئلہ میں اس کے علاوہ ہے یہ بات درست نہیں ہے چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ ہیں اور اپنے زائر کو دیکھتے ہیں .جس طرح اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قید حیات (ظاہری) میں ہوتے تو اپنے زائر کو جو قبلہ کی طرف پشت کئے ہوتا اس کو اپنے پاس بلاتے.( ۱ )

۴۔ فتوائے ابراہیم حربی:

وہ اپنی مناسک میں لکھتے ہیں : قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا کرتے وقت اپنی پشت قبلہ کی جانب اور قبر مبارک کے درمیان میں کھڑے ہوں( ۲)

۵۔ ابو موسٰی اصفہانی کا نظریہ :

ابو موسٰی اصفہانی سے نقل ہو اہے کہ مالک نے کہا : جو شخص قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر آنا چاہے تو اسے چاہئے کہ قبلہ کی جانب پشت اور قبر مبارک کی طرف رخ کر کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجے اور دعا کرے( ۳ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۸۷؛ المغنی لابن قدامہ ۳: ۲۹۸؛ الشرح الکبیر ۳: ۴۹۵.

۲۔شفاء السقام : ۱۶۹؛ شرح الشفاء ۳: ۵۱۷؛ کشف الارتیاب : ۳۶۲.

۳۔ المجموع ۸: ۲۰۱.

۱۱۳

۶۔ سمہودی کا نظریہ:

وہ کہتے ہیں : شافعی اور ان کے اصحاب وغیرہ سے نقل ہواہے کہ انہوں نے کہا : زائر کو چاہئے کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پشت اورضریح مبارک کی طرف اپنا چہرہ کرے ، نیز احمد بن حنبل کا بھی یہی نظریہ ہے( ۱)

۷۔ سختیانی کی رائے :

ابو حنیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہا کرتے : ایوب سختیانی قبلہ کی طرف پشت اور قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوئے اور گریہ کیا( ۲)

۸۔ فتوائے ابن جماعہ :

ابن جماعہ کہتے ہیں: ابو حنیفہ کے فتوٰی کے مطابق زائر کو چاہئے کہ اسقد ر قبر مطہّر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چکر کاٹے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس کے سامنے آکھڑا ہو اور پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام بھیجے

جبکہ کرمانی نے دوسرے کے بر عکس کہا ہے : زائر کو چاہئے کہ سلام کرنے کے لئے قبر کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو( ۳)

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸.

۲۔المعرفة والتاریخ ۳: ۹۷؛ کشف الارتیاب : ۲۶۱.

۳۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸.

۱۱۴

۹ ۔ ابن منکدر کا نظریہ:

ابراہیم بن سعد کہتے ہیں: میں نے ابن منکدر کو دیکھا کہ وہ مسجد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داخل ہونے کی جگہ نماز ادا کر رہے تھے .پھر وہاں سے اُٹھے اور تھوڑا چلنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ بلند کرکے دعا کی اس کے بعد قبلہ سے منہ موڑااور ہاتھوں کو ایسے بلند کیا جیسے شمشیر غلاف سے بلند کی جاتی ہے اور دعا کی اور مسجد سے نکلتے وقت بھی یہی عمل انجام دیا جیسے کسی کو خدا حافظی کی جاتی ہے( ۱)

چہارم : اس میں کیا عیب ہے کہ انسان اس مکان میں جہاں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدفون ہیں تبرّک کے طور پر نماز ادا کرے جیسا کہ اس پتھر پر نماز پڑھی جاتی جس پر حضرت ابراہیم کھڑتے ہوئے تھے اور یہ اس لئے ہے کہ وہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں مبارک کا نشان ہے جس کی وجہ سے وہ ( پتھر ) فضیلت و منزلت رکھتا ہے.خدا وند متعال اس بارے میں فرماتا ہے :

( و اتّخذوا من مقام ابراهیم مصلّیٰ ) ( ۲ )

ترجمہ : اور مقام ابراہیم کو مصلٰی قرار دو.

یہ ایک بے بنیاد بات ہے چونکہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے جبکہ ابن تیمیہ یہ ادّعاکر رہا ہے کہ تمام گزشتگان نے اسے واضح طور پر بیان کیا ہے

ابن تیمیہ کا ایک اور قول اور اس کا جواب

ابن تیمیہ کا ایک اور فتوٰی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :

گھر میں نماز ادا کرنا انبیاء و صالحین کی قبور کے پاس نماز ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۳ )

____________________

۱۔سیر اعلام النبلاء ۵: ۳۵۸؛ تاریخ دمشق ۵۶: ۴۸

۲۔ سورہ بقرہ : ۱۲۵.

۳۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۷۸؛ الزیارة ( ضمن مجموعة الجامع الفرید ) : ۴۵۴.

۱۱۵

اسکی دلیل کی تحقیق اور اس پرتنقید

وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے کے حرام ہونے پر چند احادیث سے استنادکرتے ہیں وہ نقل کرتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

لعن الله الیهود ! واتّخذوا قبور انبیائهم مساجد

خدا کی لعنت ہو یہودیوں پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا

دوسری حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

اللّهمّ لا تجعل قبری وثنا یعبد ، اشتدّ غضب الله علی قوم اتّخذوا قبور انبیائهم مساجد ( ۱ )

پرودگارا ! میری قبر کو بت قرار نہ دینا کہ اسکی عبادت کی جائے ، خدا وند متعال اس قوم پر اپنا غضب سخت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد قرار دیا

ہم اس دوسری حدیث کا چند جہات سے جواب دے رہے ہیں :

اوّل : یہ کہ اس حدیث کی سند میں اشکال ہے اس لئے کہ اس سند میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہلسنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے( ۲ )

ان راویوں میں سے ایک عبدالوارث ہے جسے علمائے رجال تائید نہیں کرتے اور نہ اس کے پیچھے نماز

____________________

۱۔ مسند احمد ۲: ۲۴۶؛ موطأامام مالک ۱: ۱۷۲.

۲۔ میزان الاعتدال ۴: ۴۳۰ ؛او ر ۲: ۳.

۱۱۶

پڑھا کرتے

دوم : یہ کہ یہ حدیث ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کے نظریہ پر دلالت نہیں کررہی اس لئے کہ وہ اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : قبور اور بقعوں کے پاس نماز پڑھنا ،نیز ان پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے .جبکہ حدیث کا ظاہر حبشہ کے کلیسوں رواج کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جب بھی یہودیوں کا کوئی نیک فرد مرتاتو وہ ا س کی قبر پر کلیسا بنادیتے .اور وہاں تصویریں بناکر لگاتے

اس بناء پر جو انبیاء کی قبور کو مساجد بناتے ان کی سر زنش کی گئی ہے چونکہ مساجد میں تصاویر لگا کر ان کی پرستش کیا کرتے ،ان کے لئے نماز ادا کرتے اور ان تصویروں اور قبور کی طرف منہ کر کے سجد ہ کیا کرتے

واضح ہے کہ قبور پر مساجد بنانے سے نہی کرنے کی یہی وجہ ہے ورنہ اگر کوئی شخص کسی قبر پر مسجد بنائے لیکن قبلہ رخ ہو کر خد اکے نماز ادا کرے تو اس میں کیا عیب ہے .جیسا کہ آج بھی مسلمان مسجد نبوی شریف یا مسجد جامع بنو امیہ دمشق میں ( کہ اس کے اندر حضرت زکریا علیہ السلام کہ قبر مبارکہے) نماز ادا کرتے ہیں.

سوم: یہ کہ قرطبی ، نووی ، قسطلانی اور بیضاوی نے اس حدیث سے جو مفہوم لیا ہے وہ ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کی رائے کے مخالف ہے. اور بعض جگہوں پر تو وہ معنی لیا ہے کہ جسے ہم پہلے بیان کر چکے( ۱ )

چہارم: یہ کہ فقہائے اہل سنت نے اپنے فتاوٰی میں وہابیوں کے توہم کے خلاف فتوٰی دیا ہے .اب ہم ان میں سے بعض کے نظریات کو بیان کر رہے ہیں:

____________________

۱۔ارشادالساری ۲: ۹۹؛ اور ۳: ۴۹۷؛ شرح صحیح مسلم ۷: ۲۷.

۱۱۷

۱۔امام مالک کا نظریہ :

امام مالک کے شاگرد ابن قاسم سے کہا گیا : کیا مالک کے نزدیک جائز ہے کہ ایک شخص قبر پر نما زاداکرے جبکہ اس پرغلاف موجود ہو ؟

تو انہوں نے کہا : مالک قبرستان میں نماز ادا کرنے پر اعتراض نہ کرتے اس لئے کہ وہ قبرستان میں نماز ادا کرتے جبکہ ان کے سامنے ،پیچھے اور دائیں ، بائیں قبریں ہوتیں.

مالک کہتے ہیں : قبرستان میں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے.

وہ کہا کرتے کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض صحابہ کرام قبرستان میں نماز اداکیا کرتے( ۱)

۲۔ عبدالغنی نابلسی کا نظریہ :

اگر کوئی شخص کسی نیک انسان کی قبر پر مسجدبنائے اور اسکی نیّت یہ ہو اس عبادت کا ثواب اس شخص کے شامل حال ہو اور نماز ادا کرتے وقت اس کی تعظیم یا اسکی طرف توجہ نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے

. جیسا کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حرم (جو خانہ کعبہ کے پاس مسجد الحرام کے اندرہے) میں نماز ادا کرنا باقی مکانوں کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۲ )

اسی طرح وہ کہتے ہیں : اگرقبروں کی جگہ مسجد بنا دی جائے یا راستہ میں ہو یا کوئی شخص وہاں پہ بیٹھا ہو ، یا یہ کہ کسی ولی خدا یا عالم محقق کی قبر ہو جس نے خدا کی رضا کی خاطر کوشش کی تو اس کی روح پر نور کے احترام کی خاطر۔جو خورشید کے مانند زمین پر چمک رہی ہے ۔اور یہ بتانے کے لئے کہ صاحب قب رولی

____________________

۱۔المدوّنة الکبرٰی ۱: ۹۰.

۲۔ الحدیقة الندبة ۲: ۶۳۱.

۱۱۸

خداہے اس سے تبرّک حاصل کیا جائے ا وراسکی قبر کے پاس دعاکی جائے تاکہ مستجاب ہو.تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے.اس لئے کہ انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے(۱)

۳۔ ابومالکی کا نظریہ :

کوثری کہتے ہیں : ابومالکی نے اپنانظریہ یوںبیان کیا : جو بھی کسی نیک انسان کی قبر پر مسجد بنائے یا اس کے مقبرہ میں نماز ادا کرے جبکہ اسکا مقصد اس شخص کے آثار سے تبرّک حاصل کرنا اور اسکی قبر کے پاس دعا مستاب کروانا ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسکی دلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مبارک ہے جو مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے پاس ہے اور اسمیں نماز ادا کرنا باقی مقامات پر ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے( ۲ )

۴۔بغوی کا نظریہ :

بغوی کہتے ہیں: بعض علما ء فرماتے ہیں کہ قبرستان میں یا قبور کے پاس نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ قبرستان میں نماز کی جگہ پاک ہو

ایک روایت میں بیان ہوا ہے: ایک دن عمر بن خطاب نیانس بن مالک کو ایک قبر کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : یہ قبر ہے ! یہ قبر ہے ! لیکن ان سے یہ نہیں کہا کہ دوبارہ نماز ادا کرو

حسن بصری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قبرستانوں میں نماز ادا کیا کرتے

مالک سے نقل کیا گیا ہے قبرستان میں نماز ادا کرنا کوئی عیب نہیں رکھتا

____________________

۱۔حوالہ سابق : ۶۳۰.

۲۔ المقالا ت کوثری ۲۴۶؛ شرح صحیح مسلم ۲: ۲۳۴.

۱۱۹

وہی کہتے ہیں : بعض مکانوں ( حمام اور قبرستان)میں نماز کرنے سے نہی کی دلیل یہ کہ وہاں پر غالبا نجاست پھینی جاتی ہے جیسے حمام .اسی وجہ سے وہاں نماز ادا کرنے کو مکروہ قرار دیاگیا ہے .اور قبرستان میں نماز اداکرنے سے اس لئے نہی کی گئی کہ وہاں کی مٹی مردوں کے خون اور ہڈیوں سے مخلو ط ہوتی ہے اور نہی نجاست سے متعلق ہے .لیکن اگر کوئی شخص اپک جگہ بنا لے تو وہاں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے( ۱ )

اب بھی بیان کردہ مطالب اور مقبروں میں نماز ادا کرنے کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنّت کے فتاوٰی کے باوجود وہابیوں کے پاس کوئی چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ مقبروں میں نماز ادا کرنے والوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائیں اور یہ کہیں کہ: یہ لوگ صاحب قبر کی عبادت کرتے ہیں جبکہ امام مالک اور حسن بصری قبروں کے درمیان میں نماز ادا کیا کرتے؟!

____________________

۱۔ شرح السنّة ۲: ۳۹۸.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179