• ابتداء
  • پچھلا
  • 9 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5421 / ڈاؤنلوڈ: 3799
سائز سائز سائز
مکہ اور مدینہ منورہ میں  مناظرات

مکہ اور مدینہ منورہ میں مناظرات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب: مکہ اور مدینہ منورہ میں مناظرات

مؤلف: حجة الاسلام آقای عبد الکریم الحسینی القزوینی

مترجم: عمران سہیل

ناشر: موسسئہ امام علی

طبع: اول

تعداد ۲۰۰۰

سال چاپ: ۱۴۲۷ ھ ق ( ۱۳۸۵ ش)

چاپخانہ : ستارہ

موسسئہ امام علی

مقدمہ

محترم قارئین ، آپ کے ہاتھوں میں موجود کتابچہ اس سلسلہ معارف کی چوتھی کڑی ہے جن کو اب تک ہم نے خدا وند متعال کی توفیق و مدد سے آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا ہے اَور یہ کتابچہ ایک ایسے آزاد مکتب ومنبر کی حیثیت رکھتاہے جو اَپنے نہایت ہی سلیس اورآسان اسلوب بیان سے ایسے افراد سے مخاطب ہے ،جو روشن فکر اور عقل سلیم کے مالک ہیں کیو نکہ اسکے مخاطب امت محمدی (ص) کے ایسے افراد ہیں جو اَپنی وحدت ویگانگت ، روشن فکری،اَور دوراندیشی کی بنا پر خالصانہ فکر کے مالک ہیں اَور ان خصوصیات کی وجہ سے خداوند عالم نے انہیں تمام امتوں کے درمیان حاکم، قاضی اَورزمین و آسمان کے درمیان رسالت وسطیٰ پر فائز قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:

( وکذالک جعلناکم امةوسطاََ لتکونوا شهداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شهیداََ ) ( ۱ )

ِِ”اس طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول(ص)تمھارے مقابلہ میں گواہ بنیں“

یہ موجودہ کتابچہ اُن شبہات اَور اعتراضات کا جواب ہے جوایسے افراد کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں جو دین و عقل جیسی خدا کی نعمت سے خا لی اورحتی کہ نر و مادہ کے درمیان تفریق سے بھی عاجز ہیں ۔گویا خدا وند عالم نے انہیں اہلبیت(ع) کے مذھب پراعتراضات وشبہات کرنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ان کے اس افتراء و کذب کا کام اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اَب اِن شبہات کو علی الاعلان پرٹیلی ویژن،انٹرنیٹ، اور حج عمرہ کے ایام میں بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔

اس وجہ سے ہم نے ان حضرات کے شبہات سننے اور ان کا تسلی بخش جواب دینے کے بعد، اس کو اس کتابچہ کی صورت میں نشر کرنے کا اہتمام کیا تاکہ ہم فکری جمود کے شکار اس گروہ کے اعتراضات کا جواب دیںاور بحث و مناظرہ کا ایسا طریقہ اختیار کریں کا جس کا قرآن نے حکم دیا ہے، اُن کے اذھان و ا فکارسے ان شبہات کو زائل کریں شاید یہ لوگ راہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں،

( اٴدع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتی هی احسن ) ( ۲ )

”(اے رسول)تم (لوگوںکو)اپنے پرورگار کے راستہ کی طرف حکمت اَور اَ چھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت دو اوربحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طرےقہ سے جو (لوگوںکے نزدیک)سب سے اچھا ہو، “

ا ب یہ تین اعتراضات اور انکے جوابات آپ کی پیش خدمت ہیں ۔

”پہلا اعتراض“

< ۱>

<ستفترق امتی الی ثلاثةوسبعین فرقةََ کلها فی النار الاّفرقة واحدةهی الناجیه ( النبیی الکریم)

”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سب کا ٹھکانہ جھنم ہے سوائے ایک فرقہ کے، وہی فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا)ہے

”کون سا فرقہ ، فرقہ ناجیہ( نجات یافتہ)ہے“؟

مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ میں حج و عمرہ کرنے والے شخص کا سامنا تنگ نظر، جاہل واحمق نیز جھوٹ اوربہتان باندھنے والے ایسے افراد سے ہوتا ہے جن کے نزدیک اسلام کی تعریف صرف لمبی داڑھی، اُونچا پا ئجامہ،اور منہ میں مسواک رکھنا ہے۔جبکہ اسلام کی دوسری اہم و چیدہ تعلیمات و احکام کووہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔اس کے باوجود وہ اپنے خیال خام میں یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام انجام دے رہے ہیں ۔

خدا وند کریم نے ایسے افراد کو قرآن میں ان الفاظ سے یاد کیا ہے:

( الذین ضلّ سعیهم فی الحیوة الدنیا و هم یحسبون انهم یحسنون صنعاََ ) ( ۳ )

”وہ ایسے لوگ (ہیں )جن کی دنیاوی زندگی کی سعی وکو شش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں “

لیکن اُن کا یہ عمل اور مومنین کرام پر افتراء و بہتان انہیں ذیل کی آیت کا مصداق بناتا ہے۔

( اَنه کان فاحشةومقتاََ و ساء سبیلاََ ) ( ۴ )

” وہ بد کاری اور( خدا کی) نا خوشی کی بات ضرور تھی اور بہت براطریقہ تھا“

بہتان وافتراء ایسی مذموم صفت ہے جس کے بارے میں قرآن یوں خبر دیتا ہے:

( انما یفتری الکذب الذین لا یومنو ن بآیات الله واولٓئک هم الکاذبون ) ( ۵ )

”جھوٹ و بہتان تو پس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آےات پرایمان نہیں رکھتے اور (حقیقت امر یہ ہے کہ)یہی لوگ جھوٹے ہیں “

میرے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ جب میں مکہ مکرمہ کے مسجد الحرام میں عبادت میں مصروف تھا،کہ ایک شخص جس کی داڑھی لمبی اواُنچا کرتا ،منہ میں مسواک چباتا ہوا، بغیر سلام کیے میرے پہلو میں آ بیٹھا، جبکہ سلام کرنا تمام مسلمانوں کے نزدیک سنت نبوی ہے اُس کا نفرت آمیزکریہ المنظرچہرہ اُس کے پنہان کینے کی نشاندہی کر رہا تھااس نے مخاطب ہوکر کہا کیا تم شیعہ عالم دین ہو؟

میں نے جواب میں کہا :خداوند متعال نے مجھے اپنے احکام وتعلیمات کا متعلم قرار دیا ہے۔

تو اس نے کہا تم لوگ گمراہی پر ہو۔

میں نے اُس سے استفسار کیا:تم کو یہ کیسے معلوم کہ ہم لوگ گمراہی پر ہیں ؟ تو اُس نے جواب دیاکیونکہ پیغمبر نے فرمایا:

<ستفترق اُمتی الی ثلاثةو سبعین فرقة کلها فی النار الّا واحدة هی الناجیة >( ۶ )

”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سوائے ایک فرقہ کے سب کا ٹھکانہ جھنم ہے وہی ایک فرقہ ، فرقہ نا جیہ(نجات پانے والا ہے)( ۷ )

پھراس نے کہا ہم ہی وہ فرقہ ناجیہ( نجات پانے والا) ہیں ۔

میں نے اس سے کہا : میں کہتا ہوں وہ فرقہ ناجیہ ہم ہیں ۔ہر فرقہ اورہر گروہ کا یہی دعوی ہے کہ نجات پانے والے گروہ کا تعلق اس سے ہے۔صوفیت، وہابیت،قادیانیت،اہل سنت،اور شیعہ میں ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ فرقہ ناجیہ ہم ہیں لہٰذا یہ کوئی مسئلہ کا حل نہیں ۔جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

”کل یدعی وصلاََ بلیلیٰ ولیلیٰ لا تقر لهم بذاکا

”ہرایک کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی لیلیٰ تک رسائی ہے،درحالانکہ لیلیٰ نے کسی مدعی کے لیے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ میں اس کی ہوں “

جب آپ ےہ جاننا چاہتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیں تو ضروری ہے کہ اُس قرآن کی طرف رجوع کیا جائے جو ہمارے دین کی اصل ہے،اُس وقت یہ اللہ کی کتاب ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرےگی کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیں اُس شخص نے پوچھا وہ کےسے؟میں نے کہا قرآن کا یہ ارشاد ہے :

( فاِن تنازعتم فی شیءِ فردوه الی الله والرسول اِن کنتم تومنون بالله والیوم الآخرذلک خیر و احسن تاویلا ) ( ۸ )

ٓٓٓ ”اَگرتم کسی بات پر جھگڑا کروپس اگرتم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا اور اُ س کے رسول کی طرف رجوع کرو پس (تمہارے حق میں )بہتر ہے اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے“

اس آیت کریمہ میں ہمیں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس بنا پر ہم خدا وند عالم سے ہی اس چیز کی وضاحت چاہیں گے کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون سا فرقہ ہے؟تو اس وقت ہمیں خدا کی مقدس وغالب کتاب سے یہ جواب ملے گا

( مااٴتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۹ )

”جو تم کو رسو ل دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اُس سے باز رہو“

اس آےت میں خدا ئے تعالیٰ نے رسول اکرم کیطرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ آپ ہی الہٰی بیان کے رسمی اور قانونی نمائندے ہیں ۔اسی وجہ سے آپ وحی خدا کے بغیر اَپنی زبان کو جنبش نہیں دیتے تھا اوراللہ کا ارشاد ہے:

( وما ینطق عن الهویٰ اِن هو الّا وحی یوحی ) ( ۱۰ )

” اَور وہ تو اَپنی خواہشات نفسانی سے کچھ بولتے ہی نہیں وہ تو بس وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے“۔

تو بس اب ہم پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں دست بستہ یہ عرض کریں گے کہ اے اللہ کے رسول !خدا وند عالم نے ہمیں آپ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ آ پ ہمارے لئے یہ معین اور واضح فرما دےں کہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟

اس سوال کے جواب میں پیغمبر اپنے متعدد واضح اور روشن فرامین کے ذریعہ ہمارے لئے فرقہ ناجیہ کا تعین فرماتے ہیں ، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:

(حدیث اول)

<مثل اهل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح من رکبها نجا و من تخلّف عنها غرق وهوٰی >( ۱۱ )

”تمہارے درمیان میرے اہل بیت (ع) کی مثال حضرت نوح(ع) کی کشتی کے مانند ہے،جو اس پر سوار ہو گیا نجات پا گیا ،اور جس نے اس کشتی پر سوار ہونے سے رو گردانی کی وہ غرق و ہلاک ہو گیا “

پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث مبارک سے درجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:

۱ ۔ فرقہ ناجیہ کا تعلق صرف اہلبیت(ع) کے مذہب کے ساتھ ہے۔کیونکہ پیغمبر نے فرمایا:”من رکبھا نجا“جو اس کشتی اہل بےت (ع) پر سوار ہوگا وہ نجات پا ئے گا ۔لہٰذا نجات کا دارو مداراہلبیت(ع) کی اتباع وپیروی پر ہے۔

۲ ۔ اہلبی(ع)ت کے مذہب سے اختلاف ہونے کی صورت میں بھی اہلبیت (ع)کے علاوہ کسی دوسرے کی اتباع و پیروی کرنا جائز نہیں ،کیونکہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:”ومن تخلّف عنھا غرق وھوٰی“جس نے اس کشتی نجات سے روگردانی کی اور سوار ہونے سے انکار کیا وہ ہلاک ہو گیا“

لہٰذا اختلاف کی صورت میں بھی کسی طرح ان ہستیوں کے علاوہ کسی سے تمسک کرنا جائز نہیں ہے۔اس بنا پر اگر حنفی،شافعی،مالکی،اور حنبلی کا مذہب اہلبیت (ع) کے ساتھ احتلاف ہو جانے کی صورت میں کسی بھی طرح ایک ایسا مسلمان جوخود کوقرآن و سنت رسولکا پیرو کہتاہے اسکے لئے پیغمبر کے اس واضح و روشن فرمان کہ جس کی حقانیت میں اصلاََ کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، مخالفت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول نے اہلبیت(ع) سے تخلّف و دوری کو ”غرق و ھوٰی “ (غرق وہلاکت ) سے تعبیر فرمایا ہے۔

(دوسری حدیث)

پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا:

<النجوم اَمان لاهل الارض من الغرق واهل بیتی اَمان من الاختلاف فی الدین فاذا خالفتها قبیلة من العرب اختلفوا فصاروا من حزب ابلیس >( ۱۲ )

”(آسمان ) کے ستارے اہل زمین کے لئے ،تباہی وہلاکت سے امان کا سبب ہیں اَور میرے اہلبیت(ع) ان کے لئے دین میں اختلاف سے امان کا سبب ہیں پس جب کوئی عرب کا قبیلہ ان اھلبیت (ع) کی مخالفت کرے گا تو وہ پراگندگی کا شکار ہو کرشیطان کے گروہ کا حصہ بن جائے گا“۔

رسول اعظم کے اس پاک کلام سے درجہ ذیل نکات کا استفادہ ہوتا ہے۔

۱ ۔ اہل بیت(ع) کے قول وگفتار پر عمل اُمت کے درمیان اختلاف سے امان کاسبب ہے۔جب سب لوگ پیغمبر کے اس فرمان”اہل بیتی امان من الاختلاف“ پر عمل پیرا ہو جائیں تویہ وحدت اور اتحاد بین المسلمین کا سبب ہو گا۔

۲ ۔ مذہب اہل بیت (ع) سے دوری اور انکی مخالفت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے خود اس کی طرف ان الفاظ میں ”فاذا خالفتهاقبیلة من العرب اختلفوا “ (جب عرب کا کوئی قبیلہ اہلبیت(ع) رسول کی مخالفت کرے گا وہ پراگندگی واختلاف کا شکار ہو جائے گا) ،ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔

۳ ۔ مذہب اہلبیت(ع) کی مخالفت اور انسے دوری خدا اُور اس کے رسول سے دوری کاسبب ہے ۔ جو شخص خدا اُور اس کے رسول سے دور ہو جائے تو وہ شیطان کا قرین اورساتھی ہے،جیسا کہ خود رسول اکرم نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”فصارو من حزب ابلیس“(اختلاف کی صورت)میں شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے گا“۔

(حدیث سوم)

پیغمبر اکرم (ص) کا فرمان ذیشان ہے۔

<انی مُخلف اَو تارک فیکم الثقلین ،کتاب الله وعترتی اهل بیتی مااِن تمسکتم بهما لن تضلّو بعدی اَبداََ >

”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اللہ کی کتاب اورمیری عترت جو میرے اہل بیت(ع) ہیں اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔“

کتاب مسند احمد بن حنبل میں یہی حدیث درجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔

<عن ابی السعید الخدری قال:قال رسول الله صلّی الله علیه وآله انی قدترکت فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا بعدی:احدهما اکبر من الآخر، کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی الّا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علیَّ الحوض >( ۱۳ )

(ترجمہ)”حضرت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہو گے، ان میں سے ایک دوسرے سے افضل وبرتر ہے،( ایک)اللہ کی کتاب جو اللہ کی رسی ہے اور آسمان سے لیکر زمین تک کھینچی ہوئی ہے (دوسرے)میرے اہل بیت علیہم السلام، یہ دونوں اس وقت تک جدا نہیں ہو ں گے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہنچ جائیں“۔( ۱۴ )

اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:

۱ ۔ قرآن اور اہلبیت(ع) سے تمسک کی صورت میں گمراہی و ضلالت سے نجات کی ضمانت موجود ہے جیساکہ پیغمبر نے فرمایا: ”ماان تمسکتم بهما لن تضلّوا بعدی ابدا( ۱۵ )

”جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز تم میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے“

۲ ۔ قرآن اور اہل بیت (ع) کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اوریہی تعلق اور پیوند ضلالت وگمراہی سے نجات کاذریعہ ہے۔لہٰذا کوئی بھی رسول خدا کے اس قول کی روشنی میں ان دونوں کے درمیان تفرقہ وجدائی نہیں ڈال سکتا:

اَنهمالن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض “ یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

رسول اکرم کی حدیث کے اسی جملہ کو حضرت مہدی(ع) کے وجود اقدس پر دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس زمانے میں قرآن کے قرین ا ہلبیت(ع) میں سے حضرت قائم آل محمد(ع) ہیں ،مثلاََ اسی چیز کو پیغمبر اکرم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

و انهما لن یفترقاحتی یردا علیَّ الحوض “یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے حاضر ہوں گے۔

۳ ۔ رسول کا یہ جملہ”انی مخلف فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی“کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں،ایک قرآن اور دوسرے میری عتر ت جو میرے اہلبیت ہیں “رسول کی زبان سے یہ کلام کسی قلبی میلان یادلی خواہش کی بنا پر جاری نہیں ہوا،کیونکہ آپ تو وحی کے بغیرکلام ہی نہیں کرتے تھے۔( وما ینطق عن الهویٰ ان هو الّا وحی یوحیٰ ) ( ۱۶ )

” اَور وہ تو اَپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ وہی بولتے ہیں جو ان کی طرف وحی ہوتی ہے“

۴ ۔ پیغمبر اکرم کی نظر میں اہل بیت علیھم السلام کے علاوہ قرآ ن کا قرین اور محافظ کوئی اور نہیں تھا ۔اگر کوئی اور ہوتا تو آپ ضرور اُ س کا ہم سے تعارف کراتے۔

۵ ۔ نبی اکرم نے فرقہ ناجیہ کی وضاحت کے سلسلہ میں فقط ا نہیں احادیث پر اکتفا نہیں فرمایا،بلکہ مختلف مقامات پر متعدد احادیث میں نجات پانے والے فرقہ کے متعلق صاف طور پر تاکیدفرمائی ہے۔ جیسا کہ کنز العمال میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا :

”جب لوگ اختلاف اور تشطّط(تفرقہ) کا شکار ہو جائیںتو ایسی حالت میں یہ(علی) اور ان کے اصحاب حق پر ہو ں گے۔( ۱۷ )

۶ ۔ صاحب کنز العمال نے پیغمبر اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد فتنہ وفساد برپا ہو گا،جب ایسا ہو توعلی ابن ابی طالب سے متمسک رہناکیونکہ وہ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں ۔( ۱۸ )

۷ ۔ کنز العمال میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اے عمار!اَگرتم یہ دیکھوکہ علی(ع) کا راستہ، لوگوں کے راستے سے جدا ہے تو علی(ع) کی پیروی کرتے ہوئے اُن ہی کا راستہ اختیار کرنا اور لوگوں کو چھوڑ دینا،کیونکہ علی کبھی بھی تمہیں گمراہ نہیں کریں گے اور ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے“۔( ۱۹ )

اس کے علاوہ بھی پیغمبرسے متعدد احادیث منقول ہیں جو فرقہ ناجیہ کی تشخیص و تعیین کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ۔

پھر میں نے اس معترض شخص کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ اگرتم نجات پانے والے فرقہ کے راستہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو توتجھے اس سلسلہ میں قرآن اور سنت رسول کی پیروی کرناچاہیے،اگر تو نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا تو نجات کا راستہ اختیارکر لیا ہے ورنہ تیرا شمار اُن افراد میں ہو گا جن کو خداوندعالم نے اس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے:

( واذاقیل لهم تعالو الی ما انزل الله و الی الرسول راٴیتَ المنافقین یصدون عنک صدوداََ ) ( ۲۰ )

ترجمہ”اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کتاب خدا (وہ کتاب جو اللہ نے نازل کی ہے) اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو تو تم منافقین کی طرف دیکھتے ہو کہ جو تم سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں “

سورہ بنی اسرائیل (اسراء)

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

(۱) پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے

(۲) اور ہم نے موسٰی کو کتاب عنایت کی اور اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ خبردار میرے علاوہ کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا

(۳) یہ بنی اسرائیل ان کی اولاد ہیں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایاتھا جو ہمارے شکر گزار بندے تھے

(۴) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور خوب بلندی حاصل کرو گے

(۵) اس کے بعد جب پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے تمہارے اوپر اپنے ان بندوں کو مسلّط کردیا جو بہت سخت قسم کے جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے دیار میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا

(۶) اس کے بعد ہم نے تمہیں دوبار ان پر غلبہ دیا اور اموال و اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے گروہ والا بنادیا

(۷) اب تم نیک عمل کرو گے تو اپنے لئے اور برا کرو گے تو اپنے لئے کرو گے-اس کے بعد جب دوسرے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے دوسری قوم کو مسلّط کردیا تاکہ تمہاری شکلیں بگاڑ دیں اور مسجد میں اس طرح داخل ہوں جس طرح پہلے داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر بھی قابو پالیں اسے باقاعدہ تباہ و برباد کردیں

(۸) امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کردے لیکن اگر تم نے دوبارہ فساد کیا تو ہم پھر سزا دیں گے اور ہم نے جہنم ّکو کافروں کے لئے ایک قید خانہ بنادیا ہے

(۹) بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے

(۱۰) اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے ہم نے ایک دردناک عذاب مہیا ّکر رکھا ہے

(۱۱) اور انسان کبھی کبھی اپنے حق میں بھلائی کی طرح برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے

(۱۲) اور ہم نے رات اور دن کو اپنی نشانی قرار دیا ہے پھر ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں اور دن کی نشانی کو روشن کردیتے ہیں تاکہ تم اپنے پروردگار کے فضل و انعام کو طلب کرسکو اور سال اور حساب کے اعداد معلوم کرسکو اور ہم نے ہر شے کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے

(۱۳) اور ہم نے ہر انسان کے نامئہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے

(۱۴) کہ اب اپنی کتاب کو پڑھ لو آج تمہارے حساب کے لئے یہی کتاب کافی ہے

(۱۵) جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں

(۱۶) اور ہم نے جب بھی کسی قریہ کو ہلاک کرنا چاہا تو اس کے ثروت مندوں پر احکام نافذ کردئے اور انہوں نے ان کی نافرمانی کی تو ہماری بات ثابت ہوگئی اور ہم نے اسے مکمل طور پر تباہ کردیا

(۱۷) اور ہم نے نوح کے بعد بھی کتنی اّمتوں کو ہلاک کردیا ہے اور تمہارا پروردگار بندوں کے گناہوں کا بہترین جاننے والا اور دیکھنے والا ہے

(۱۸) جو شخص بھی دنیا کا طلب گار ہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنمّ ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا

(۱۹) اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قرار دی جائے گی

(۲۰) ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے ِن کی اور اُن کی سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے

(۲۱) آپ دیکھئے کہ ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور پھر آخرت کے درجات اور وہاں کی فضیلتیں تو اور زیادہ بزرگ و برتر ہیں

(۲۲) خبردار اپنے پروردگار کے ساتھ کوئی دوسرا خدا قرار نہ دینا کہ اس طرح قابل همذمّت اور لاوارث بیٹھے رہ جاؤ گے اور کوئی خدا کام نہ آئے گا

(۲۳) اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا

(۲۴) اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے

(۲۵) تمہارا پروردگار تمہارے دلوں کے حالات سے خوب باخبر ہے اور اگر تم صالح اور نیک کردار ہو تو وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بہت بخشنے والا بھی ہے

(۲۶) اور دیکھو قرابتداروں کو اور مسکین کو اور مسافر غربت زدہ کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا

(۲۷) اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی بند ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بہت بڑا انکار کرنے والا ہے

(۲۸) اگر تم کو اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کے تم امیدوار ہو ان افراد سے کنارہ کش بھی ہونا پڑے تو ان سے نرم انداز سے گفتگو کرنا

(۲۹) اور خبردار نہ اپنے ہاتھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہ بالکل پھیلا دو کہ آخر میں قابلِ ملامت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاؤ

(۳۰) تمہارا پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو وسیع یا تنگ بنا دیتا ہے وہ اپنے بندوں کے حالات کا خوب جاننے والا اور دیکھنے والا ہے

(۳۱) اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا کہ ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے

(۳۲) اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری ہے اور بہت برا راستہ ہے

(۳۳) اور کسی نفس کو جس کو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا کہ جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں لیکن اسے بھی چاہئے کہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھ جائے کہ ِس کی بہرحال مدد کی جائے گی

(۳۴) اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طرح جو بہترین طریقہ ہے یہاں تک کہ وہ توانا ہوجائے اور اپنے عہدوں کو پورا کرنا کہ عُہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا

(۳۵) اور جب ناپو تو پورا ناپو اور جب تولو تو صحیح ترازو سے تولو کہ یہی بہتری اور بہترین انجام کا ذریعہ ہے

(۳۶) اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قواُ قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا

(۳۷) اور روئے زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کہ نہ تم زمین کو شق کرسکتے ہو اور نہ سر اٹھا کر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہو

(۳۸) یہ سب باتیں وہ ہیں جن کی برائی تمہارے پروردگار کے نزدیک سخت ناپسند ہے

(۳۹) یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہارے پروردگار نے تمہاری طرف کی ہے اور خبردار خدا کے ساتھ کسی اور کو خدا نہ قرار دینا کہ جہنمّ میں ملامت اور ذلّت کے ساتھ ڈال دیئے جاؤ

(۴۰) کیا تمہارے پروردگار نے تم لوگوں کے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو

(۴۱) اور ہم نے اس قرآن میں سب کچھ طرح طرح سے بیان کردیا ہے کہ یہ لوگ عبرت حاصل کریں لیکن ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہورہا ہے

(۴۲) تو آپ کہہ دیجئے کہ ان کے کہنے کے مطابق اگر خدا کے ساتھ کچھ اور خدا بھی ہوتے تو اب تک صاحب هعرش تک پہنچنے کی کوئی راہ نکال لیتے

(۴۳) وہ پاک اور بے نیاز ہے اور ان کی باتوں سے بہت زیادہ بلند و بالا ہے

(۴۴) ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو. پروردگار بہت برداشت کرنے والا اور درگذر کرنے والا ہے

(۴۵) اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں

(۴۶) اور ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں کو بہرہ بنادیتے ہیں اور جب تم قرآن میں اپنے پروردگار کا تنہا ذکر کرتے ہو تو یہ الٹے پاؤ ں متنفر ہوکر بھاگ جاتے ہیں

(۴۷) ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو کیا سنتے ہیں اور جب یہ باہم راز داری کی باتیں کرتے ہیں تو ہم اسے بھی جانتے ہیں یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ تم لوگ ایک جادو زدہ انسان کی پیروی کررہے ہو

(۴۸) ذرا دیکھو کہ انہوں نے تمہارے لئے کیسی مثالیں بیان کی ہیں اور اس طرح ایسے گمراہ ہوگئے ہیں کہ کوئی راستہ نہیں مل رہا ہے

(۴۹) اور یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈی اور خاک ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ نئی مخلوق بناکر اٹھائے جائیں گے

(۵۰) آپ کہہ دیجئے کہ تم پتھر یا لوہا بن جاؤ

(۵۱) یا تمہارے خیال میں جو اس سے بڑی مخلوق ہوسکتی ہو وہ بن جاؤ پس عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ واپس لاسکتا ہے تو کہہ دیجئے کہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے پھر یہ لوگ استہزائ میں سر ہلائیں گے اور کہیں گے کہ یہ سب کب ہوگا تو کہہ دیجئے کہ شاید قریب ہی ہوجائے

(۵۲) جس دن وہ تمہیں بلائے گا اور تم سب اس کی تعریف کرتے ہوئے لبیک کہو گے اور خیال کرو گے کہ بہت تھوڑی دیر دنیا میں رہے ہو

(۵۳) اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں ورنہ شیطان یقینا ان کے درمیان فساد پیدا کرنا چاہے گا کہ شیطان انسان کا کِھلا ہوا دشمن ہے

(۵۴) تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے بہتر واقف ہے وہ چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا اور چاہے گا تو عذاب کرے گا اور پیغمبر ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا ہے

(۵۵) اور آپ کا پروردگار زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور ہم نے بعض انبیائ کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے

(۵۶) اور ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ خدا کے علاوہ جن کا بھی خیال ہے سب کو بلالیں کوئی نہ ان کی تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ان کے حالات کے بدلنے کا

(۵۷) یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے اور سب اسی کی رحمت کے امیدوار اور اسی کے عذاب سے خوفزدہ ہیں یقینا آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے

(۵۸) اور کوئی نافرمان آبادی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے برباد نہ کردیں یا اس پرشدید عذاب نہ نازل کردیں کہ یہ بات کتاب میں لکھ دی گئی ہے

(۵۹) اور ہمارے لئے منہ مانگی نشانیاں بھیجنے سے صرف یہ بات مانع ہے کہ پہلے والوں نے تکذیب کی ہے اور ہلاک ہوگئے ہیں اور ہم نے قوم ثمود کو ان کی خواہش کے مطابق اونٹنی دے دی جو ہماری قدرت کو روشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لئے بھیجتے ہیں

(۶۰) اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل هلعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے

(۶۱) اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے

(۶۲) کیا تو نے دیکھا ہے کہ یہ کیا شے ہے جسے میرے اوپر فضیلت د ے دی ہے اب اگر تو نے مجھے قیامت تک کی مہلت دے دی تو میں ان کی ذریت میں چند افراد کے علاوہ سب کا گلا گھونٹتا رہوں گا

(۶۳) جواب ملا کہ جا اب جو بھی تیرا اتباع کرے گا تم سب کی جزا مکمل طور پر جہنمّ ہے

(۶۴) جا جس پر بھی بس چلے اپنی آواز سے گمراہ کر اور اپنے سوار اور پیادوں سے حملہ کردے اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے خوب وعدے کر کہ شیطان سوائے دھوکہ دینے کے اور کوئی سچا وعدہ نہیں کرسکتا ہے (۴۶

(۶۵) بیشک میرے اصلی بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے

(۶۶) اور آپ کا پروردگار ہی وہ ہے جو تم لوگوں کے لئے سمندر میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل و کرم کو تلاش کرسکو کہ وہ تمہارے حال پر بڑا مہربان ہے

(۶۷) اور جب دریا میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو خدا کے علاوہ سب غائب ہوگئے جنہیں تم پکار رہے تھے اور پھر جب خدا نے تمہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیا تو تم پھر کنارہ کش ہوگئے اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے

(۶۸) کیا تم اس بات سے محفوظ ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی ہی میں دھنسادے یا تم پر پتھروں کی بوچھاڑ کردے اور اس کے بعد پھر کوئی کارساز نہ ملے

(۶۹) یا اس بات سے محفوظ ہوگئے ہو کہ وہ دوبارہ تمہیں سمندر میں لے جائے اور پھر تیز آندھیوں کو بھیج کر تمہارے کفر کی بنا پر تمہیں غرق کردے اور اس کے بعد کوئی ایسا نہ پاؤ جو ہمارے حکم کا پیچھا کرسکے

(۷۰) اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے

(۷۱) قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا

(۷۲) اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا

(۷۳) اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنالیتے

(۷۴) اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے

(۷۵) اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر رَہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے

(۷۶) اور یہ لوگ آپ کو زمین مکہّ سے دل برداشتہ کررہے تھے کہ وہاں سے نکال دیں حالانکہ آپ کے بعد یہ بھی تھوڑے دنوں سے زیادہ نہ ٹھہر سکے

(۷۷) یہ آپ سے پہلے بھیجے جانے والے رسولوں میں ہمارا طریقہ کار رہا ہے اور آپ ہمارے طریقہ کار میں کوئی تغیر نہ پائیں گے

(۷۸) آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے

(۷۹) اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا

(۸۰) اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور میرے لئے ایک طاقت قرار دے دے جو میری مددگار ثابت ہو

(۸۱) اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے

(۸۲) اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو صاحبان ایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالمین کے لئے خسارہ میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہ ہوگا

(۸۳) اور ہم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ہیں تو وہ پہلو بچا کر کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جب تکلیف ہوتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے

(۸۴) آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے تو تمہارا پروردگار بھی خوب جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے راستہ پر ہے

(۸۵) اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے

(۸۶) اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے اسے اُٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے

(۸۷) مگر یہ کہ آپ کے پروردگار کی مہربانی ہوجائے کہ اس کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے

(۸۸) آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں

(۸۹) اور ہم نے اس قرآن میں ساری مثالیں اُلٹ پلٹ کر بیان کردی ہیں لیکن اس کے بعد پھر بھی اکثر لوگوں نے کفر کے علاوہ ہر بات سے انکار کردیا ہے

(۹۰) اور ان لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ جاری کردو

(۹۱) یا تمہارے پاس کھجور اور انگور کے باغ ہوں جن کے درمیان تم نہریں جاری کردو

(۹۲) یا ہمارے اوپر اپنے خیال کے مطابق آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرادو یا اللہ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لاکر کھڑا کردو

(۹۳) یا تمہارے پاس سونے کا کوئی مکان ہو یا تم آسمان کی بلندی پر چڑھ جاؤ اور اس بلندی پر بھی ہم ایمان نہ لائیں گے جب تک کوئی ایسی کتاب نازل نہ کردو جسے ہم پڑھ لیں آپ کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار بڑا بے نیاز ہے اور میں صرف ایک بشر ہوں جسے رسول بناکر بھیجا گیا ہے

(۹۴) اور ہدایت کے آجانے کے بعد لوگوں کے لئے ایمان لانے سے کوئی شے مانع نہیں ہوئی مگر یہ کہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے کسی بشر کو رسول بناکر بھیج دیا ہے

(۹۵) تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین میں ملائکہ اطمینان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملک ہی کو رسول بناکر بھیجتے

(۹۶) کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ بننے کے لئے خدا کافی ہے کہ وہی اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی کیفیات کا دیکھنے والا ہے

(۹۷) اور جس کو خدا ہدایت د ے دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی مددگار نہ پاؤ گے اور ہم انہیں روز قیامت منہ کے بل گونگے اندھے بہرے محشور کریں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ّہوگا کہ جس کی آگ بجھنے بھی لگے گی تو ہم شعلوں کو مزید بھڑکا دیں گے

(۹۸) یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کا انکار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ہم ہڈیاں اور مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے تو کیا دوبارہ ازسر هنو پھر پیدا کئے جائیں گے

(۹۹) کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس کا جیسا دوسرا بھی پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس نے ان کے لئے ایک مدّت مقرر کردی ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے مگر ظالموں نے کفر کے علاوہ ہر چیز سے انکار کردیا ہے

(۱۰۰) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے پروردگار کے خزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے خوف سے سب روک لیتے اور انسان تو تنگ دل ہی واقع ہوا ہے

(۱۰۱) اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو کہ جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہہ دیا کہ میں تو تم کو سحر زدہ خیال کررہا ہوں

(۱۰۲) موسٰی نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ سب معجزات آسمان و زمین کے مالک نے بصیرت کا سامان بناکر نازل کئے ہیں اور اے فرعون میں خیال کررہا ہوں کہ تیری شامت آگئی ہے

(۱۰۳) فرعون نے چاہا کہ ان لوگوں کو اس سرزمین سے نکال باہر کردے لیکن ہم نے اس کو اس کے ساتھیوں سمیت دریا میں غرق کردیا

(۱۰۴) اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہوجاؤ پھر جب آخرت کے وعدہ کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے

(۱۰۵) اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیاہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے

(۱۰۶) اور ہم نے قرآن کو متفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور ہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے

(۱۰۷) آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اس کے پہلے علم دے دیا گیا ہے ان پرتلاوت ہوتی ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں

(۱۰۸) اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ یقینا پورا ہونے والا ہے

(۱۰۹) اور وہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اوروہ قرآن ان کے خشوع میں اضافہ کردیتا ہے

(۱۱۰) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس طرح بھی پکارو گے اس کے تمام نام بہترین ہیں اور اپنی نمازوں کو نہ چلاکر پڑھو اورنہ بہت آہستہ آہستہ بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ نکالو

(۱۱۱) اور کہو کہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اورنہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کاسرپرست ہے اورپھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو


3