تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 4%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82128 / ڈاؤنلوڈ: 6178
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

( ۵) خدا نے شیطان کو کیو ں پیدا کیا ہے :

بہت سے لوگ پو چھتے ہیں کہ شیطان جس کا کا م ہی گمرا ہی کر نا ہے آخر اسے کیو ں پیدا کیا گیا اور اس کے وجود کا فلسفہ کیاہے ۔اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں ۔

اول تو خدانے شیطان کو شیطان نہیں پیدا کیا یہی وجہ ہے سالہاسال تک وہ ملائکہ کا ہم نشین رہا اور پاک فطرت پر رہا لیکن پھر اس نے اپنی آز اد ی سے غلط فائد ہ اٹھا یااور بغاوت وسرکشی کی بنیا د ر کھی لہٰذ ا وہ ابتداء میں پاک وپاکیزہ پیدا کیاگیا اس کی کجروی اس کی اپنی خواہش پر ہوئی ۔

دوم یہ کہ نظام خلقت کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صاحبان ایمان اور وہ لوگ جو راہ حق پر گامزن رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے نہ صرف یہ کہ شیطان کا وجود مضر اور نقصان دہ نہیں بلکہ ان کی پیش رفت اور تکامل کاذریعہ ہے ۔کیو نکہ ترقی اور کمال ہمیشہ متضاد چیزوں کے درمیان ہی صورت پذیر ہو تے ہیں ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک انسا ن طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوکبھی بھی اپنی قوت واستعداد اور مہارت کو پیش نہیں کرسکتا اور نہ اسے کا م میں لا سکتا ہے یہی طا قت ور دشمن کا وجود انسان کے زیادہ تحرک اور جنبش کا سبب بنتا ہے اوراس کے نتیجے میں اسے ترقی اور کمال نصیب ہو تا ہے

معاصرین میں سے ایک بہت بڑا فلسفی “ٹو آئن بی “کہتاہے

”دنیا میں کو ئی رو شن تمدن اس وقت تک پیدانہیں ہوا جب تک کو ئی ملت کسی خارجی طاقت کے حملے کا شکار نہیں ہوئی ۔اس حملے اور یلغا ر کے مقابلے میں وہ اپنی مہارت اور ااستعداد کو بروئے کار لائی اور پھر کسی درخشاں تمدن کی د ا غ بیل پڑی ۔“

آیات ۳۷،۳۸،۳۹

( فتلقی یاٰآدم من ربه کلمٰت فتاب علیه ط انه هواتواب الرحیم ) ۳۷ ۔

( قلنااهبطوامنهاجمیعاََ فاما یا تینکم منی هدی فمن تبع هدای فلا خوف علیهم ولاهم یحزنون ) ۳۶ ۔

( والذین کفرو اوکذبواباٰیاٰتنااولٰئک اصحٰب النار جهم فیها خٰلدون ) ۳۹ ۔

ترجمہ

۳۷ ۔پھر آدم نے اپنے پر ودگا ر سے کچھ کلمات حا صل کئے اور (ان کے ذریعہ)توبہ کی اور خدا وندعالم نے ان توبہ قبو ل کرلی ،خداوند عالم تواب اور رحیم ہے ۔

۳۸ ۔ہم نے کہا سب کے سب(زمین کی طرف )اتر جاو ۔جس وقت میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی اس وقت جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔

۳۹ ۔اورجو لوگ کافر ہو جائیں گے اور ہمار ی آیات کی تکذیب کریں وہ اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔

خدا کی طرف آدم کی بازگشت

وسوسہ ابلیس اور آدم کے جنت سے نکلنے کے حکم جیسے و اقعات کے بعدآدم متوجہ ہوئے کہ واقعاََ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اس اطمینان بخش اور نعمتوں سے مالامال جنت سے شیطانی فریب کی وجہ سے نکلنا پڑ ااور اب زحمت اور مشقت سے بھری ہوئی زمین میں رہیں گے ۔اس وقت آدم اپنی غلطی کی تلافی کی فکر میں پڑے اور مکمل جا ن ودل سے پروردگار کی طرف متوجہ ہوئے ا یسی توجہ جو ندامت وحسرت کاایک پہاڑ ساتھ لئے ہوئے تھی ۔اس وقت خداکا لطف وکرم بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھا اور جیسا کہ قرآن مندرجہ بالا آیات میں کہتا ہے : آدم نے اپنے پرور دگار سے کچھ کلمات حاصل کئے جو بہت مو‌ ثر اور انقلاب خیز ان کے ساتھ توبہ کی اور خدا نے بھی ان کی توبہ قبول کرلی( فتلقیٰ آدم من ربه کلمات فتاب علیه ) کیونکہ وہ تواب اور رحیم ہے

” توبہ“کے اصلی معنی ہیں ”باز گشت “اور قر آن کی زبان میں گناہ سے واپسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ اس صورت میں ہے جب توبہ کا لفظ کسی شخص گنہگار کے لئے استعمال کیا جائے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ اللہ کی طرف بھی منسوب ہوتاہے وہاں اس کا مفہو م ہے رحمت کی طرف بازگشت ،یعنی وہ رحمت جو ارتکاب گناہ کی وجہ سے بندے سے سلب کرلی گئی تھی ۔اب اطاعت وبندگی کے راستے کی طرف اس کی واپسی کی وجہ سے اسے لوٹا دی جاتی ہے ا سی لئے خدا کے لئے تواب (بہت زیادہ رحمت کی طرف لوٹنے والا )کا لفظ استعمال کیا جا تا ہے ۔

بہ الفاط دیگر توبہ خدا اور بندے کے درمیان ایک لفظ مشترک ہے ۔جب یہ صفت بندوں کے لئے ہو تو اس کامفہو م ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف پلٹتے ہیں کیونکہ ہر گنا ہ کرنے والا در اصل اپنے پر وردگار سے بھا گتا ہے اور پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی طرف لوٹ آتا ہے ۔گناہ کے وقت خدا بھی ان سے منہ موڑ لیتا ہے اور جب یہ صفت خد اکے لئے استعمال ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ ا پنے لطف ، ورحمت اور محبت کی نظر ان کی طرف لوٹادیتا ہے(۱)

یہ صحیح ہے کہ حضرت آدم نے حقیقت میں کوئی فعل حرا انجام نہیں دیاتھا لیکن یہی ترک ِاولی ٰان کے لئے نافرمانی شمار ہوتا ہے ۔وہ حضرت فوراََاپنی کیفیت وحالت کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹے ۔

”کلمات“سے کیا مراد ہے ،اس کے بارے میں اس بحث کے اختتام پر گفتگو کریں گے۔

بہر حال جو کچھ نہیں ہونا چاہیئے تھا وہ ہوا اور با وجودیکہ آدم کی تو بہ قبو ل ہوگئی لیکن اس کا اثر وضعی یعنی زمین کی طرف اتر نایہ متغیر نہ ہوا ۔جیسا کہ مندر جہ بالا آیا ت کہتی ہیں :ہم نے ان سے کہا کہ تم سب (آدم وحوا )زمین کی طرف اتر جاو ۔جب تمہیں ہماری طرف سے ہدایت پہنچے اس وقت جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے خوف ہے نہ وہ غمگین ہو ں گے( وقلنا اهبطوامنها جمیعاِِ فاما یا تینکم منی هدی فمن اتبع هدای ولا خوف علیهم فلا هم یحزنون ) ۔

لیکن جو لوگ کافر ہو گئے اور انہونے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے( والذین کفرواوکذبوا باٰیاٰتنااولٰئک اصحاب النارهم فیها خٰلدون )

____________________

(۱) یہی وجہ ہے کہ لفظ توبہ جب بندے کی طرف منسوب ہوتو لفظ ”الی “آتا ہے اور خدا کی طرف منسو ب ہو تو ”علی “آتا ہے ۔پہلی صورت میں ” تاب الیہ“اور دوسری صورت میں ”تاب علیہ “کہا جا تا ہے (تفسیر کبیر اور تفسیر صافی زیر نظر آیت کے ذیل میں )

( ۱) خدانے جو کلما ت آدم پر القا کئے وہ کیا تھے :

توبہ کے لئے جو کلمات خدا نے آدم کو تعلیم فرمائے تھے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان ا ختلا ف ہے

مشہور ہے کہ وہ جملے یہ تھے جو سورہ اعراف آیہ ۲۳ میں ہیں :

( قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنالنکونن من الخاسرین )

ان دونو ں نے کہا خدایا!ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ا گر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم زیاکاروں اور خسارے میں رہنے والو ں میں سے ہو جائیں گے ۔

بعض کہتے ہیں کلمات سے مراد یہ دعا وزاری تھی :

اللهم لاالٰه الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفر لی انک خیر الغافرین

اللهم لاالٰه الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین

اللهم لاالٰه الا انت سبحنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ۔

پرور دگارا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ومنزہ ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے کہ تو بہترین بخشنے والا ہے

خدایا !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ، توپاک ومنزہ ہے ،میں تیری تعریف کر تا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ،تو مجھ پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کر نے والاہے

بارالٰہا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ومنزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اپنی رحمت کو میرے شامل حال قرار دے اور میری توبہ قبول کرلے کہ تواب ورحیم ہے ۔

امام محمد باقر سے منقول ایک روایت میں بھی یہ موضوع اسی طر ح وارد ہو اہے، ۱

اسی قسم کی تعبیرات قرآن کی دوسری آیات میں حضرت یونس وموسی کے بارے میں بھی ہیں :

حضرت یونس خدا سے بخشش کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیںسبحٰنک انی کنت من الظالمین

خدایا !تو پاک ہے ،میں ان میں سے ہوں جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔(انبیاء ۔ ۸۷)

حضرت موسٰی کے بارے میں ہے :قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرله

انہو ں (حضرت موسٰی) نے عرض کیا :پروردگارا!میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے اور خدا نے انہیں بخش دیا (القصص۔ ۱۶)

کئی ایک روایا ت جو طرق اہل بیت سے منقول ہیں میں ہے کہ کلمات سے مراد خداکی بہترین مخلوق کے ناموں کی تعلیم تھی (یعنی محمد ،علی فاطمہ ،حسن ،حسین علیھم السلام اور آدم نے ان کلمات کے وسیلے سے درسگاہ الٰہی سے بخشش چاہی اور خدانے انہیں بخش دیا ۔

یہ تین قسم کی تفاسیر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کو ان سب کلمات کی تعلیم دی گئی ہو تاکہ ان کلمات کی حقیقت اور باطنی گہر ائی پر غو ر کر نے سے آدم میں مکمل طور پر انقلاب روحانی پیدا ہو اور خدا انہیں اپنے لطف وہدایت سے نوازے ۔

( ۲) لفظ اھبتوا کاتکرار کیوں :

زیر بحث اور ان سے پہلی آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ توبہ سے پہلے اوربعد بھی حضرت آدم اور ان کی زوجہ حوا کو خطاب ہوا کہ زمین کی طرف اتر جاو ۔یہ تکرار آیا تا کید کے لئے ہے یا کسی اور مقصد کی طرف اشارہ ہے ۔اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے

لیکن ظاہر ہے کہ دوسری مرتبہ یہ لفظ اس واقعیت وحقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں آدم یہ گمان نہ کریں کہ ان کی توبہ قبول ہو جانے کے بعد زمین کی طرف اتر نے کا حکم بھی واپس لے لیا گیا ہے بلکہ انہیں اس راستے کی طرف ہر حال میں جانا ہے یا اس لحاظ سے کہ در اصل وہ پیدا ہی اس مقصد کے لئے ہوئے تھے یاپھر اس نظر سے کہ یہ اترنااس عمل کا وضعی ہے اور یہ توبہ سے نہیں بدلا۔

( ۳)” اھبتوا“ میں کون مخاطب ہیں

”اھبتوا“صیغہ جمع کے ساتھ آیا ہے جب کہ آدم وحوا جو اس گفتگو کے اصلی مخاطب ہیں وہ دو سے زیادہ نہیں ہیں لہٰذا انکے لئے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہیئے تھا لیکن اس بناء پر جمع کا صیغہ آیا کہ آدم وحواکے زمین پر اتر نے کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی نسل کو بھی زمین میں رہنا تھا لہٰذا جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔

____________________

۱مجمع البیان ،آیات زیر بحث کے ذیل میں ۔

آیت ۴۰

( یٰبنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوابعهدی اوف بعهدکم وایای فارهبون ) ۴۰ ۔

ترجمہ

۴۰ ۔اے اولاد اسرئیل !جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں انہیں یا درکھو اور میرے ساتھ جو تم نے عہد وپیما ن با ندھا ہے ۔اسے پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ کئے ہو ئے عہد و پیما ن کو پو را کروں (اور ذمہ داری کی انجام دہی نیز عہد وپیمان کی پابندی میں )صرف مجھ سے ڈراکرو۔

خدا کی نعمتوں کو یاد کرو

زمین پر خلافت آدم کی داستان ۔ملائکہ کی طرف سے ان کی تعظیم کا واقعہ ،آدم کا عہدوپیما ن الٰہی کو بھول جانے کا ذکر اور پھر ان کی توبہ کا تذکرہ یہ سب کچھ ہم گذشتہ آیا ت میں پڑھ چکے ہیں ۔

اس و اقعے سے یہ حقیقت و اضح ہوئی کہ اس دنیا میں ہمیشہ دو مختلف طاقتیں ،حق و باطل ایک دوسرے سے بر سر پیکا ر ہیں جس شخص نے شیطان کی پیروی کی اس نے باطل کی راہ کو انتخاب کیا جس کا انجام ہے جنت اور جہنم سے دوری اور رنج وتکلیف میں مبتلا ہو نااوراس کے بعد پشیمانی ہے ۔اس کے خلاف جو فرمان خداوندی کی راہ پر چلتا رہا اور اس نے شیاطین اور باطل پرستوں کے وسوسوں کی پرواہ نہ کی وہ پا ک وپاکیزہ اور رنج وغم سے آسودہ زندگی بسرکرے گا ۔ بنی اسرئیل نے فر عونیوں کے چنگل سے نجات پائی ، زمین میں خلیفہ ہوئے پھر پیمان الٰہی کو بھو ل گئے اور دوبارہ رنج وبد بختی میں پھنس گئے چونکہ یہ واقعہ حضر ت آدم کے واقعے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے اسی اصل کی ایک فرع شمار ہو تا ہے لہٰذ اخداوند عالم زیر بحث اور اسکے بعد دسویں آیت میں بنی اسرائل کے مختلف نشیب وفراز اور ان کی سر نوشت بیان کرتا ہے تاکہ وہ ترتیبی درس جو سر نوشت آدم سے شروع ہو اتھاان مباحث میں مکمل ہوجائے ۔ بنی اسرایل کی طرف ا س طرح ر وئے سخن ہے :اے بنی اسرائیل !ہماری ان نعمتون کو یاد کروجو ہم نے تمہیں بخشی ہیں اورمجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کئے ہوئے عہد سے وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو( یابنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوبعهدی اوف بعهدکم وایای فارهبون ) ۔

در حقیقت یہ تین دستور او راحکا م کی (خداکی عظیم نعمتوں کو یاد کرنا ،عہد پرور دگار کو پورا کرنااور اس کی نافرمانی سے ڈرنا )خدا کے تمام پروگر ا موں کی تشکیل کرتے ہیں ۔

اس کی نعمتوں کو یاد کرنا ۔انسا ن کو اس کی معرفت کی دعوت دیتا ہے اور انسان میں شکر گزاری کا احساس ابھار تا ہے اس کے بعد اس نکتے کی طرف توجہ کی یہ نعمتیں بغیر کسی شر ط و قید کے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ خدانے عہد وپیمان لیا ہے یہ انسا ن اس کی الٰہی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتاہے اور اس کا انجام یہ ہے کہ انسان ذمہ داری کی راہ میں کسی شخص یا ہستی سے نہ ڈرے ۔یہ سبب بنتا ہے کہ انسان اس راستے کی تمام رکا وٹوں کو دور کر دے اور اپنی ذمہ داریوں اور عہد وپیمان کو پوراکرے کیونکہ اس راستے کی اہم رکاوٹوں میں سے ایک بلا وجہ اِس سے اور اس سے ڈرنا ہے خصوصا بنی سرئیل جو سالہاسال تک فرعون کے زیر تسلط رہے تھے ۔خوف ان کے بدن کا جزء بن چکا تھا۔

( ۱) یہودی مدینہ میں :

یہ بات قابل غور ہے کہ بعض مئورخین ِ قرآن کی تصریح یہ ہے کہ سورہ بقرہ پہلی سورت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔ اس کا اہم حصہ یہودیوں کے بارے میں ہے کیونکہ اہل کتا ب کے پیروکاروں کی زیادہ مشہور جماعت وہاں پر یہودیوں ہی کی تھی ۔ وہ ظہور پیغمبر سے پہلے اپنی مذہبی کتب کی روشنی میں اس قسم کے ظہور کے منتظر تھے اور دوسرں کو بھی اس کی بشارت دیتے تھے ۔ اقتصادی حالت بھی ان کی بہت ااچھی تھی خلاصہ یہ کہ مدینہ میں ان کا گہرا اثر ورسوخ تھا ۔

جب اسلام کا ظہور ہوا تو اسلام ان کے غیر شرعی منافع کے راستون کو بند کرتا تھا اور ان کے غلط رویوں او ر خود سری کو روکتا تھا ۔ان میں اکثر نے نہ صرف یہ اکہ اسلا م کی دعوت کو قبول کیا بلکہ علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر اس کے خلا ف صف آراء ہوگئے ۔چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام سے ان کا یہ مقابلہ ابھی تک جاری ہے

مندرجہ بالا اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں اورسخت ترین سر زنشوں کے تیر یہودیو ں پر چلائے گئے اور ان کی تاریخ کے حساس حصو ں کو اس باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس نے ان کو ہلاکررکھ دیا ان میں سے جو بھی تھو ڑی سی حق جوئی کی روح رکھتا تھا وہ بیدار ہو کر اسلام کی طرف آگیا علاوہ ازیں مسلمانوں کے لئے بھی یہ ایک ترتیبی درس تھا ۔

انشاء اللہ آنے والی آیات میں آپ بنی اسرائیل کے نشیب وفرازپڑھیں گے جس میں ان کافرعون کے چنگل سے نجات پانا ،دریا کا شق ہونا،فرعون اور فرعونیون کا غرق ہو نا ،کوہِ طور حضرت موسی ٰکی وعدہ گاہ ،حضرت موسیٰ کی غیبت کے زمانے میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی ،خونی توبہ کاحکم ،خداکی مخصوص نعمتو ں کاان پر نزول اور اس کے دیگر واقعات جن میں سے ہرایک واقعہ اپنے اندر ایک یا کئی عبر تناک درس لئے ہو ئے ہے ۔

( ۲) یہودیوں سے خدا کے بارہ معاہدے:

جس طرح آیات قر آنی سے ظاہرہوتا ہے :وہ معاہد ے یہ تھے :ایک اکیلئے خدا کی عبادت کرنا،ماں باپ ،عزیز واقارب ،یتیموں اور مدد طلب کرنے والوں سے نیکی کر نا ،لوگو ں سے اچھا سلوک کرنا ،نماز قائم کرنا ،زکوٰةدینا اور اذ یت وآزاری اور خون ریزی سے دور رہنا ۔

اس با ت کی شاہد اسی سورہ کی آیت ۸۳ اور ۸۴ ہے ۔

( واذاخذنامیثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الاالله وباالٰولدین احسان وذی القربی ٰوالیتٰمی ٰوالمساکین وقولوا للناس حسناواقیموالصلٰوة واٰتوالزکٰوةواذااخذنامیثا قکم لا تسفکون دماء کم ولاتخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقرتم وانتم تشهدون )

در اصل یہ دو آیات د س معاہدو ں کی نشان دہی کرتی ہیں جو خدا نے یہودیوں سے کئے تھے اورسو رہ مائدہ کی آیت ۱۲ جو یہ ہے :

( ولقد اخذالله میثاق بنی اسرائیل وقال الله انی معکم لئن اقمتم الصلٰوة واٰتیتم الزکٰوةواٰمنتم برسلی وعزرتموهم ) ۔

اس میں سے دوسرے عہد وپیمان جن میں انبیاء پر ایمان لانا اور انہیں تقویت پہنچانا شامل ہیں ظاہر ہو تے ہیں ۔

اس سے واضح ہو تا ہے کہ انہو ں نے خدا کی بڑی بڑ ی نعمتیں کچھ معاہدو ں کی بنیا د پر حاصل کی تھیں اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان معاہدوں کے وفادار ہوگے تو تمہیں جنت کے با غوں میں بھی جگہ دی جا ئے گی جس کی نہریں اس کے قصروں اور درختوں کے نیچے جا ری ہوں گی :( لادخلنکم جنا ت تجری من تحتها الانهٰر )

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے آخر کار یہ عہد وپیمان پاؤں تلے روند ڈالے اور اب اس زمانے میں بھی اپنی پیمان شکنی جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ منتشر و پرو گندہ ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھا تے پھرتے ہیں اور جب تک ان کی یہ پیمان شکنیاں جاری رہیں گی ، ان کی یہ کیفیت بھی جاری رہے گی یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوسروں کی پناہ میں نشو نما پارہے ہیں تو یہ ہرگز ان کی کامیابی کی دلیل نہیں اور ہم اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ جس دن اسلام کے غیور بیٹے اور قومی رجحانات و میلانات سے دور ہو کر صرف قرآن کے سائے میں اٹھ کھڑاے ہوئے وہ اس شور اور ہنگامے کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔

( ۴) خدا بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا :

خدا کی نعمتیں کبھی قید اور شرط کے بغیر نہیں ہوتیں اور ہر نعمت کے پہلو میں ایک ذمہ دار ی اور شرط پنہاں ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

( اوف بعهدکم ) سے مراد یہ ہے کہ اپنے عہد کو پورا کروں گا اور تمہیں جنت میں لے جاؤں گا ۔ ۱

اس حدیث کے ایک حصے میں ولایت علی پر ایمان لانا بھی اس عہد کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے عہد وپیمان کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ انبیاء خدا کی رسالت پر ایمان لائیں گے اور ان کو تقویت پہنچائیں گے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ان کے جانشینوں کو بھی ماننا اسی مسئلہ رہبری و ولایت کا ضمیمہ ہے جو ہر زمانے میں اس کی مناسبت سے تحقیق پذیر ہوتا رہا ہے ۔ حضرت مو سیٰ کے زمانے میں اس منصب پر فائز خود حضرت موسیٰ تھے ۔ اور نبی اکرم کے زمانے میں خود آنحضرت ہی تھے اور بعد والے زمانے میں حضرت علی ۔

ضمنی طور پر جملہ ایای فارھبون ( صرف میری سزا سے ڈرو ) اس امر کی تاکید ہے کہ خدا سے ایفائے عہد اور اطاعت ِ احکام کی راہ میں میں کسی چیز اور کسی شخص سے خوف و وحشت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لفظ ایای فارھبون سے مقدم ہے سے یہ مطلب حاصل ہوتا ہے۔

____________________

۱ نورالثقلین ج ،۱ ص۷۲

( ۵) حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کیوں کہتے ہیں :

حضرت یعقوب جو حضرت یوسف کے والد تھے ان کا ایک نام ” اسرائیل “ بھی ہے ۔حضرت یعقوب نے اپنا یہ نام کیوں رکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم مئورخین نے ایسی باتیں لکھی ہیں جو خرافات کا پلندہ ہیں جیسے ” کتاب مقدس “ میں لکھا ہے :

”اسرائیل کا معنی وہ شخص ہے جو خدا پر غالب اور کامیاب ہو گیا ہو “

وہ مزید لکھتا ہے :

” یہ لفط یعقوب بن اسحاق کا لقب ہے جنہیں خدا کے فرشتوں نے کشتی لڑتے وقت یہ لقب ملا تھا “

اسی کتاب میں یہ لفظ یعقوب کے نیچے لکھا ہے :

” جب انہوں نے اپنے اثبات و استقا مت ایمان کو ظاہر کیا تو خدا وند نے اس کا نام بدل کر اسرائیل رکھ دیا اور وعدہ کیا کہ وہ عوام کے گروہوں کے باپ ہوں گے ۔ خلاصہ یہ کہ وہ انتہائی کمال کے ساتھ اس دنیا سے گئے اور دنیا کے کسی بادشاہ کی طرح دفن نہ ہوئے اور اسم یعقوب و اسرائیل ان کی پوری قوم کے لئے بولا جاتا ہے “

لفظ ”اسرائیل “ کے ذیل میں لکھتاہے :

اس نام کے بہت سے موارد ہیں چنانچہ کبھی اس سے مراد نسل اسرائیل و نسل یعقوب بھی ہوتی ہے۔(۱)

علماء اسلام اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاََ مشہور طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں :

”اسرائیل وہی فرزند اسحاق بن ابراہیم ہیں “

وہ لکھتے ہیں :’

’اس ، کے معنی عبد ، اور ئیل ، کے معنی ، اللہ ، لہذا ، اسرائیل ، کے معنی ، عبداللہ ، یعنی اللہ کا بندہ “

واضح ہے کہ اسرائیل کی فرشتوں سے کشتی لڑنے کی داستان جیسے کہ تحر یف شدہ تورات میں اب بھی موجود ہے ایک خود ساختہ اور بچگانہ کہانی ہے جو آسمانی کتاب کی شان سے بعید ہے اور یہی داستان موجودہ تورات کے تحریف شدہ ہونے کی دلیل و مدرک ہے۔

____________________

(۱) قاموس کتاب مقدس ص ۵۳، و ۹۵۷

آیات ۴۱،۴۲،۴۳

( وآمنو ابما انزلت مصد قا لما معکم ولاتکو نوآاول کافر به ولاتشترواباٰیٰتی ثمناقلیلاوایای فاتقون ) ۴۱ ۔

( ولاتلبسواالحق باالباطل وتکتمواالحق وانتم تعلمون ) ۴۲ ۔

( واقیموا الصلاةواتوالزکٰوةوارکعوا مع الرٰکعین ) ۴۳ ۔

ترجمہ

۴۱ ۔جو کچھ میں نے نازل کیا ہے (قرآن)اس پر ایما ن لے آو جب کہ اس کی پیش کر دہ نشانیاں جو کچھ تمہاری کتابوں میں ہے اس سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور اب تم اس کے پہلے منکر نہ بنو اور میری آیا ت کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو ،تھوڑ ی سی آمدنی کے لئے ان نشانیوں کو مت چھپاو(جو قرآن اور پیغمبر اسلام کے متعلق تمہاری کتابوں میں مو جود ہیں ) اور (لوگوں سے ڈرنے کے بجائے )صرف مجھ سے (میرے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے )ڈرو ۔

۴۲ ۔اور حق کو باطل سے نہ ملاو اور حقیقت جاننے کے باجود نہ چھپاو۔

۴۳ ۔اور نماز قائم کرو زکٰوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں ساتھ رکوع کرو( یعنی نماز جماعت کے ساتھ پڑھو )۔

شان نزول

زیرنظرآیات میں سے شروع کی آیتوں کے بارے میں بعض بزرگ مفسرین نے امام محمدباقرسے یوں نقل کیا ہے:

حی بن احطب ، کعب بن اشرف اوور یہودیوں کی ایک جماعت کے لئے یہودیوں کی طرف سے ہر سال ایک زرق برق دعوت کا احتمام کیا جاتا تھا ۔ یہ لوگ خوف زدہ تھے کہ کہیں رسول اسلام کے قیام کی وجہ سے یہ چھوٹا سا فائدہ جاتا نہ رہے اس وجہ سے او ر کچھ دیگر وجوہ کی بنا ء پر ) انہوں نے تورات کی ان آیات میں تحریف کردی جو اوصاف پیغمبر کے بارے میں تھیں یہ وہی ”ثمن قلیل “ اور کم قیمت ہے جس کی طرف قرآن نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے

یہودیوں کی دولت پرستی

خدا نے یہودیوں سے جو پیمان لئے تھے ان میں انبیاء الٰہی پر ایمان لانا اور ان کے فرامین کی اطاعت کرنا بھی شامل تھا ۔

زیر نظر تین آیات میں ان احکام و قوانین کے نو حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو یہودیوں کو دیئے گئے تھے ۔

پہلا یہ کہ ان آیات پر ایمان لاؤ جو پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی ہیں جب کہ یہ آیات ان اوصاف سے ہم آہنگ ہیں جو تمہاری توریت میں موجود ہیں( وآمنو بما انذلت مصدقالما معکم )

قرآن اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس موجود ہے یعنی وہی بشارتیں جو تورات اور گذشتہ انبیاء نے اپنے پیروکار کو دی ہیں اور بتایا ہے کہ ان اوصاف کا نبی ظہور کرے گا اور اس کی آسمانی کتاب ان خصوصیات کی حامل ہوگی ۔ اب تم دیکھ رہے ہو کہ اس پیغمبر کی صفات اور قرآن پاک کی خصوصیات ان بشارتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں جو تمہاری کتب میں موجود ہیں ۔ اس ہر قسم کی مطابقت کے بعد اب تم کیوں اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

پھر کہا گیا ہے کہ تم آسمانی کتاب کا انکار کرنے والوں میں پہل نہ کرو( ولا تکونو اول کافر به ) ۔

اگر مشرک اور عرب کے بت پرست کافر ہوجائیں تو زیادہ تعجب کی بات نہیں تعجب تو تمہارے کفر و انکار پر ہے اور مخالفت میں پہل کے لحاظ سے تم پیش پیش بھی ہو جب کہ تم ان کی زیادہ اطلاعات رکھتے ہو اور اہل کتاب بھی ہو ۔اس قسم کے پیغمبر کے بارے میں تمہاری آسمانی کتب میں سب بشار تیں دی جاچکی ہیں ۔ اسی بناء پر تو تم ان کے ظہور سے پہلے ان کے بارے میں منادی کیا کرتے تھے ۔ اب کیا ہو گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے ظہور کے بعد تم ان پر ایمان لانے والوں میں پہل کرتے تم نے کفر میں پہل کی ہے ۔ بہت سے یہودی اصولی طور پر لیچڑ قسم کے تھے اور اگر ان میں یہ ضدی پن نہ ہوتا تو بظاہر انہیں دوسروں کی نسبت پہلے ایمان لانا چاہیئے تھا ۔

تیسری بات یہ ہے کہ تم میری آیات کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو اور ایک سالانہ دعوت سے اس کا تقابل نہ کرو( ولا تشتروا با ٰیتیٰ ثمنا قلیلا ) ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی آیات کو کسی قیمت پر بھی نہیں بیچنا چاہیئے چاہے کم ہو یا زیادہ لیکن یہ جملہ حقیقت میں ان یہودیوں کی کم ظرفی کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے چھوٹے چھوٹ منافع کے لئے ہر چیز کو بھلا دیا اور وہ لوگ جو پیغمبر اسلام کے قیام اور ان کی آسمانی کتا ب کے بارے میں بشارت دیا کرتا تھے جب اپنے منافع کو خطرے میں دیکھا تو سب بشارتوں کا انکار کرنے لگے اور آیات تورات میں تحریف کردی کیونکہ وہ سمجھنے لگے تھے کہ اگر لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوگیا تو ان کی سرداری کا محل زمین بوس ہوجائے گا ۔

اصولا یہ پوری دنیا بھی اگر کسی کو ایک آیت الہٰی کے انکار کے بدلے دے دی جائے تو واقعا یہ قیمت بہت تھوڑی ہے ۔

کیونکہ یہ زندگی تو بہر حال نابود ہونے والی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے لہذا ایک انسان کس طرح ان آیات الہٰی کو حقیر فوائد پر قربان کردے۔

چوتھا حکم ہے کہ صرف مجھ سے ڈرو( و ایای فاتقون ) ۔

اس بات سے نہ ڈرو کہ تمہاری روزی منقطع ہوجائے گی اور اس سے بھی نہ ڈرو کہ یہودیوں کی متعصب جماعت تم سرداروں کے خلاف قیام کرے گی بلکہ صرف مجھ سے یعنی میرے حکم کی مخالفت سے ڈرو ۔

پانچواں حکم ہے کہ حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو تاکہ کہیں لوگ اشتباہ میں نہ پڑ جائیں( ولاتلبسو الحق بالباطل ) ۔

چھٹے فرمان میں حق کو چھپانے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حق کو نہ چھپاؤ جب کہ تم اسے جانتے اور اس سے آگاہ ہو( وتکتمو ا الحق و انتم تعلمون ) ۔

جس طرح حق کو چھپانا جرم اور گناہ ہے اسی طرح حق کو باطل سے ملانا اور ایک دوسرے سے مخلوط کرنا بھی حرام اور گناہ ہے کیونکہ نتیجے کے اعتبار سے دونوں عمل برابر ہیں ۔ حق بات کرو چاہے تمہارے لئے نقصان دہ ہو اور باطل کو حق سے نہ ملاؤ چاہے تمہارے جلد ضائع ہوجانے والے منافع خطرے میں پڑ جائیں ۔

آخر میں ساتویں ، آٹھویں اور نویں حکم کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے : نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو اور خصوصاََ اجتماعی عبادت کو فراموش نہ کرتے ہوئے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو( وا اقیمو ا الصلوٰة و آتو الذکوٰة وارکعو ا مع الراکعین ) ۔

آخری حکم اگرچہ با جماعت نماز کے بارے میں ہے لیکن نماز کے تمام افعال میں سے صرف رکوع کو بیان کرتے ہوئے کہنا کہ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ ، شاید اس بناء پر کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع بالکل نہیں یہ صرف مسلمانوں کی نماز ہے جس کے بنیادی ارکان میں رکوع شامل ہے ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ نماز پڑھو بلکہ :( اقیموا لصلوٰة ) ( نماز قائم کرو ) یعنی فقط یہ نہ ہو کہ تم نماز پڑھتے رہو بلکہ ایسا کرو کہ آئین نماز معاشرے میں قائم ہوجائے اور لوگ عشق و وارفتگی کے ساتھ اس کی طرف جائیں ۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” اقیموا “اس طرف اشارہ ہے کہ تمہاری نماز صرف اذکار و اوراد ہی نہ ہو بلکہ اسے پورے طور پر قائم کرو جس میں سے سب سے اہم قلبی توجہ ، دل کا بارگاہ خدا میں حاضر ہونا اور نماز کا انسان کی روح اور جان پر اثر انداز ہونا ہے(۱)

در حقیقت ان آخری تین احکام کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلا فرد کا خالق سے رشتہ بیان کرتا ہے ، ( یعنی نماز ) دوسرا مخلوق کا مخلوق سے ناتا قائم کرتا ہے ( یعنی زکٰوة )اور تیسرا سب لوگوں کا خدا سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔

____________________

۱ المنار ج، ۲ ص ۲۹۳ و مفردات ِ راغب ، مادہ ” قوم “

خدا کی دیگر صفات بسم اللہ میں کیوں مذکور نہیں ؟

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتیں (سوائے سورہ برات کے جس کی وجہ بیان ہوچکی ہے)بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں اوربسم اللہ میں مخصوص نام ”اللہ“ کے بعد صرف صفت رحمانیت کا ذکر ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر باقی صفات کا ذکر کیوں نہیں ۔

اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ کریں تو اس سوال کاجواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کام کی ابتداء میں ضروری ہے کہ ایسی صفت سے مدد لی جس کے آثار تمام جہان پر سایہ فگن ہوں ، جو تمام موجودات کا احاطہ کئے ہو اورعالم بحران میں مصیبت زدوں کونجات بخشنے والی ہو۔ مناسب ہے کہ اس حقیقت کوقرآن کی زبان سے سنا جائے۔ ارشاد الہی ہے :( و رحمتی وسعت کل شئی ) میری رحمت تمام چیزوں پر محیط ہے (اعراف ، ۱۵۶)

ایک اور جگہ ہے حاملان عرش کی ایک دعاء خدا وند کریم نے یوں بیان فرمایا ہے :( ربنا وسعت کل شئی رحمة ) پروردگار! تو نے اپنا دامن رحمت ہر چیز تک پھیلا رکھا ہے (المومن، ۷) ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام نہایت سخت اور طاقت فرسا حوادث اور خطرناک دشمنوں کے چنگل سے نجات کے لئے رحمت خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں قوم موسی فرعونیوں کے ظلم سے نجات کے لئے پکارتی ہے :( و نجنا برحمتک ) ۔ خدایا ہمیں (ظلم سے) نجات دلا اور اپنی رحمت (کا سایہ) عطا فرما۔ (یونس ، ۸۶) ۔

حضرت ہود (ع) اوران کے پیروکاروں کے سلسلے میں ارشاد ہے :( فانجیناه والذین معه برحمة منا ) ۔ ہود(ع) اور ان کے ہمراہیوں کو ہم نے اپنی رحمت کے وسیلے سے نجات دی (اعراف ، ۷۲) ۔

اصول یہ ہے جب ہم خداسے کوئی حاجت طلب کریں تو مناسب ہے کہ اسے ایسی صفات سے یاد کریں جو اس حاجت سے میل اور ربط رکھتی ہوں ۔ مثلا حضرت عیسی مائدہ آسمانی (مخصوص غذا) طلب کرتے ہیں تو کہتے ہیں :( اللهم ربنا انزل علینا مائدة من السماء و ارزقنا و انت خیر الرازقین ) ۔

بار الہا ! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما اورہمیں روزی عطا فرما اور توبہترین روزی رساں ہے۔(مائدہ، ۱۱۴) ۔

خدا کے عظیم پیغمبر حضرت نوح(ع) بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں ۔ وہ جب ایک مناسب جگہ کشتی سے اترنا چاہتے ہیں تو یوں دعا کرتے ہیں :

( رب انزلنی منزلا مبارکا و انت خیرالمنزلین ) ۔ پروردگار ! ہمیں منزل مبارک پر اتارکہ تو بہترین اتارنے والا ہے (مومنین، ۲۹) ۔

حضرت زکریا (ع) خدا سے ایسے فرزند کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان کاجانشین و وارث ہو اس کی خیر الوارثین سے توصیف کرتے ہیں :

( رب لا تذرنی فردا و انت خیر الوارثین ) ۔ خداوند ! تنہا نہ چھوڑ تو توبہترین وارث ہے (انبیاء ، ۸۹) ۔

کسی کام کو شروع کرتے وقت جب خدا کے نام سے شروع کریں تو خدا کی وسیع رحمت کے دامن سے وابستگی ضروری ہے ایسی رحمت جو عام بھی ہو اور خاص بھی۔ کاموں کی پیش رفت او رمشکلات میں کامیابی کے لئے کیا ان صفات سے بہتر کوئی اور صفت ہے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ و ہ توانائی جو قوت جاذبہ کی طرح عمومیت کی حامل ہے جو دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے وہ یہی صفت رحمت ہے لہذا مخلوق کااپنے خالق سے رشتہ استوار کرنے کے لئے بھی اسی صفت رحمت سے استفادہ کرنا چاہئے۔ سچے مومن اپنے کاموں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر تمام جگہوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنےدل کو صرف خدا سے وابستہ کرتے ہیں اور اسی سے مدد و نصرت طلب کرتے ہیں وہ خدا جس کی رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے اور کوئی موجود ایسا نہیں جو اس سے بہرہ ور نہ ہو۔

بسم اللہ سے واضح طور پر یہ درس حاصل کیا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم کے ہر کام کی بنیاد رحمت پر ہے اور بدلہ یا سزا تو استثنائی صورت ہے جب تک قطعی عوامل پیدا نہ ہوں سزا متحقق نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں : ۔ اے وہ خدا کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے(۱) ۔

انسان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے پروگرام پر یوں عمل پیرا ہو کہ ہر کام کی بنیاد رحمت و محبت کو قرار دے اور سختی و درشتی کو فقط بوقت ضرورت اختیار کرے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۱۱۳ کی ابتداء رحمت سے ہوتی ہے اور فقط ایک سورہ توبہ ہے جس کا آغاز بسم اللہ کی بجائے اعلان جنگ اور سختی سے ہوتا ہے۔

____________________

۱۔ دعائے جوشن کبیر۔

۲ ۔( الحمد لله رب العالمین )

حمد وثنا اس خدا کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار و مالک ہے

سارا جہاں اس کی رحمت میں ڈوبا ہو ا ہے۔

بسم اللہ جو سورت کی ابتداء ہے اس کے بعد بندوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عالم وجود کے عظیم مبداء اور اس کی غیر متناہی نعمتوں کو یاد کریں ۔ وہ بے شمار نعمتیں جنہوں نے ہمارے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ پروردگار عالم کی معرفت کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔ بلکہ اس راستے کا سبب ہی یہی ہے کیونکہ کسی انسان کو جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو وہ فورا چاہتا ہے کہ اس نعمت کے بخشنے والے کو پہچانے اور فرمان فطرت کے مطابق اس کی سپاس گزاری کے لئے کھڑا ہو اور اس کے شکریے کا حق ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء علم کلام (عقاید) اس علم کی پہلی بحث میں جب گفتگو معرفت خدا کی علت و سبب کے متعلق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ فطری و عقلی حکم کے مطابق معرفت خدا اس لئے واجب ہے چونکہ محسن کے احسان کا شکریہ واجب ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ معرفت کی رہنمائی اس کی نعمتوں سے حاصل ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (مبداء) خدا کو پہچاننے کا بہترین اور جامع ترین راستہ اسرار آفرینش و خلقت کا مطالعہ کرنا ہے ان میں خاص طور پر ان نعمتوں کا وجود ہے جو نوع انسانی کی زندگی کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہیں ۔ ان دو وجوہ کی بناء پر سورہ فاتحہ کتاب( ”الحمد لله رب العالمین ) “ سے شروع ہوتی ہے، اس جملے کی گہرائی اورعظمت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حمد، مدح اور شکر کے درمیان فرق اور اس کے نتائج کی طرف توجہ کی جائے۔

حمد : نیک اختیاری کام یا نیک صفت کی تعریف کو عربی زبان میں حمد کہتے ہیں یعنی جب کوئی سوچ سمجھ کر کوئی اچھا کام انجام دے یا کسی اچھی صفت کو انتخاب کرے جو نیک اختیاری اعمال کاسر چشمہ ہو تو اس پر کی گئی تعریف و توصیف کو حمد و ستائش کہتے ہیں ۔

مدح : مدح کا معنی ہے ہر قسم کی تعریف کرنا چاہے وہ کسی اختیاری کام کے مقابلے میں ہو یا غیر اختیاری کام کے مثلا اگر ہم کسی قیمتی موتی کی تعریف کریں تو عرب اسے مدح کہیں گے۔

دوسرے لفظوں میں مدح کا مفہوم عام ہے جب کہ حمد کا مفہوم خاص ہے۔

شکر : شکر کا مفہوم حمد اور مدح دونوں سے زیادہ محدود ہے ۔ شکر فقط انعام و احسان کے مقابلے میں تعریف کو کہتے ہیں انعام و احسان بھی وہ جو کسی دوسرے سے اس کی رضا و رغبت سے ہم تک پہنچے(۱) ۔

اب اگر ہم اس نکتے کی طرف توجہ کریں کہ اصطلاحی مفہوم میں ”الحمد“ کا الف اور لام جنس ہے اور یہاں عمومیت کا معنی دیتا ہے تو نتیجہ نکلے گا کہ ہر قسم کی حمد و ثنا مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا مالک و پروردگار ہے یہاں تک کہ جو انسان بھی خیر و برکت کا سرچشمہ ہے، وہ پیغمبر او رخدائی راہنما نور ہدایت سے دلوں کو منور کرتا ہے اور درس دیتا ہے ، جو سخی بھی سخاوت کرتا ہے اور جو کوئی طبیب جان لیوا زخم پر مرہم پٹی لگاتا ہے ان کی تعریف کا مبداء بھی خدا کی تعریف ہے اور ان کی ثنا در اصل اسی کی ثناء ہے بلکہ اگر خورشید نور افشانی کرتا ہے، بادل بارش برساتا ہے اور زمین اپنی برکتیں ہمیں دیتی ہے تو یہ سب کچھ بھی اس کی جانب سے ہے لہذا تمام تعریفوں کی بازگشت اسی ذات با برکات کی طرف ہے دوسرے لفظوں میں ”الحمد للہ رب العالمین“ ، توحید ذات، توحید صفات اور توحید افعال کی طرف اشارہ ہے (اس بات پر خصوص غور کیجئے)۔

یہاں اللہ کی توصیف”رب العالمین“ سے کی گئی ہے اصولی طور پر یہ مدعی کے ساتھ دلیل پیش کی گئی ہے۔ گویا کوئی سوال کر رہا ہو کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے کیوں مخصوص ہیں تو جواب دیا جارہا ہے کہ چونکہ وہ رب العالمین ہے یعنی تمام جہانوں میں رہنے والوں کا پروردگار ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے : الذی احسن کل شئی خلقہ ۔ یعنی خدا وہ ہے جس نے ہر چیز کی خلقت کو بہترین صورت میں انجام دیا (سجدہ، ۷) ۔

نیز فرمایا :( وما من دابة فی الارض الا علی الله رزقها ) ۔ زمین میں چلنے والے ہر کسی کی روزی خدا کے ذمے ہے (ہود، ۶) ۔

کلمہ حمد سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ خدا وند عالم نے یہ تمام عطیات اور نیکیاں اپنے ارادہ و اختیار سے ایجاد کی ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے نقطہ نظر کے خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خدا بھی سورج کی طرح ایک مبداء مجبور فیض بخش ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حمد صرف ابتدائے کار میں ضروری نہیں بلکہ اختتام کار پر بھی لازم ہے جیسا کہ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے۔

اہل بہشت کے بارے میں ہے۔( دعواهم فیها سبحانک اللهم و تحیتهم فیها سلام و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمین ) ۔

پہلے تو وہ کہیں گے کہ اللہ تو ہر عیب و نقص سے منزہ ہے، ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت سلام کہیں گے او رہر بات کے خاتمے پر کہیں گے( ”الحمد لله رب العالمین“ ) (سورہ یونس ، ۱۰) ۔

کلمہ ”رب “ کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کا مالک یا صاحب جو اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہو۔ کلمہ ”ربیبہ“ کسی شخص کی بیوی کی اس بیٹی کو کہتے ہیں جو اس کے کسی پہلے شوہر سے ہو، لڑکی اگر چہ دوسرے شوہر سے ہوتی ہے لیکن منہ بولے باپ کی نگرانی میں پرورش پاتی ہے۔

لفظ ”رب“ مطلق اور اکیلا تو صرف خدا کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اگر غیر خدا کے لئے استعمال ہو تو ضروری ہے کہ اضافت بھی ساتھ ہو مثلا ہم کہتے ہیں رب الدار (صاحب خانہ) یا رب السفینة (کشتی والا)( ۲) ۔

تفسیر مجمع البیان میں ایک اور معنی بھی ہیں : بڑا شخص جس کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہو۔ بعید نہیں کے دونوں معانی کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہو( ۳) ۔

لفظ ”عالمین“ عالم کی جمع ہے اور عالم کے معنی ہیں مختلف موجودات کا وہ مجموعہ جو مشترکہ صفات کا حامل ہو یاجن کا زمان و مکان مشترک ہو، مثلا ہم کہتے ہیں عالم انسان، عالم حیوان یا عالم گیاہ یا پھر ہم کہتے ہیں عالم مشرق، عالم مغرب، عالم امروز یا عالم دیروز۔ لہذا عالم اکیلا جمعیت کا معنی رکھتا ہے اورجب عالمین کی شکل میں جمع کا صیغہ ہو تو پھر اس سے اس جہان کے تمام مجموعوں کی طرف اشارہ ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ” ی اور ن“ والی جمع عموما ذی العقول کے لئے آتی ہے جب کہ اس جہان کے سب عالم تو صاحب عقل نہیں ہیں اسی لئے بعض مفسرین یہاں لفظ عالمین سے صاحبان عقل کے گروہوں اور مجموعوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ مثلا فرشتے، انسان اورجن۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جمع تغلیبی ہو(جس کا مقصد مختلف صفات کے حامل مجموعے کو بلند تر صنف کی صفت سے متصف کیا جانا ہے)۔

صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں ہمارے جد امام صادق(ان پر اللہ کا رضوان ہو) سے منقول ہے کہ عالمین سے مراد صرف انسان ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بھی عالمین اسی معنی کے لئے آیا ہے جیسا کہ لیکون للعالمین نذیرا۔ یعنی خدا وند عالم نے قرآن اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ عالمین کو ڈرائے۔ (فرقان، ۱) ۔

لیکن اگر عالمین کے موارد استعمال قرآن میں دیکھے جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر چہ بہت سے مقامات پر لفظ عالمین انسانوں کے معنی میں آیا ہے تاہم بعض موارد میں اس سے وسیع تر مفہوم کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جہاں اس سے انسانوں کے علاوہ دیگر موجودات بھی مراد ہیں ۔ مثلا :فلله الحمد رب السموات و رب الارض رب العالمین ۔تعریف و ستائش مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو آسمانوں اور زمین کا مالک و پروردگار ہے، جو مالک و پروردگار ہے عالمین کا۔ (الجاثیہ، ۳۶) ۔ایک اور مقام پر ارشاد ہے :( قال فرعون و مارب العالمین قال رب السموات والارض و ما بینهما ) ۔

فرعون نے کہا عالمین کا پروردگار کون ہے۔ موسی نے جواب دیا آسمانوں ، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا پروردگار۔ (شعراء، ۲۴ ، ۲۳) ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک روایت میں جو شیخ صدوق نے عیون الاخبار میں حضرت علی(ع) سے نقل کی ہے اس میں ہے کہ امام نے الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا :رب العالمین هم الجماعات من کل مخلوق من الجمادات والحیوانات ۔رب العالمین سے مراد تمام مخلوقات کا مجموعہ ہے چاہے وہ بے جان ہوں یا جاندار( ۴) ۔

یہاں یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئے کہ شاید ان روایات میں کوئی تضاد ہے کیونکہ لفظ عالمین کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے لیکن تمام موجودات عالم کا سہرا مہرہ انسان ہے لہذا بعض اوقات اس پر انگشت رکھ دی جاتی ہے اور باقی کائنات کو اس کا تابع اور اس کے زیر سایہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اگر امام سجاد(ع) کی روایت میں اس کی تفسیر انسان کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مجموعہ کائنات کا اصلی ہدف و مقصد انسان ہی ہے۔یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض نے عالم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے عالم کبیر اور عالم صغیر۔ عالم صغیر سے ان کی مراد انسان کا وجود ہے کیونکہ ایک انسان کا وجود مختلف توانائیوں اور قوی کا مجموعہ ہے اور اس بڑے عالم پر حاکم ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان تمام کائنات میں ایک نمونہ اور ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ہم نے عالم سے یہ جو وسیع مفہوم مراد لیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ لفظ عالمین جملہ الحمد للہ کے بعد آیا ہے ۔ اس جملہ میں تمام تعریف و ستائش کو خدا کے ساتھ مختص قرار دیاگیا ہے اس کے بعد رب العالمین کو بطور دلیل ذکر کیا گیا ہے گویا ہم کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں مخصوص ہیں خدا کے لئے کیونکہ ہر کمال، ہر نعمت اور ہر بخشش جو عالم میں وجود رکھتی ہے اس کا مالک و صاحب اور پروردگار وہی ہے۔

____________________

۱۔ البتہ ایک جہت سے شکر میں عمومیت بھی کیونکہ شکریہ زبان و عمل دونوں سے ہوتا ہے۔ جب کہ حمد ومدح عموما فقط زبان سے ہوتی ہے۔

۲۔ قاموس اللغات، مفردات راغب، تفسیر مجمع البیان، تفسیر البیان۔

۳۔ یاد رہے کہ رب کا مادہ ”رب ب“ ہے نہ کہ ”رب“ یعنی یہ مضاعف ہے ناقص نہیں لیکن رب کے اصلی معنی میں پرورش اور تربیت ہے اسی لئے فارسی میں عموما اس کا ترجمہ پروردگار کرتے ہیں ۔

۴۔ تفسیر الثقلین، جلد ۱ ص ۱۷۔

۱ ۔ تمام ارباب انواع کی نفی :

تاریخ ادیان و مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح توحید سے منحرف لوگ ہمیشہ اس جہان کے لئے ارباب انواع کے قائل تھے۔ اس غلط فکر کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق موجودات کی ہر نوع ایک مستقل رب نوع کی محتاج ہے جو اس نوع کی تربیت و رہبری کرتا ہے گویا وہ خدا کو ان انواع کی تربیت کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ عشق، عقل، تجارت اور جنگ جیسے امور کے لئے بھی رب نوعی کے قائل تھے۔ یونانی بارہ بڑے خداؤں کی عبادت کرتے تھے(جن میں سے ہر کوئی رب النوع تھا)۔ یونانیوں کے بقول وہ المپ کی چوٹی، بزم خدائی سجائے بیٹھے تھے ان میں سے ہر ایک انسان کی ایک صفت کا مظہر تھا(۱) _

ملک آشور کے پایہ تخت کلاہ میں لوگ پانی کے رب نوع، چاند کے رب نوع، سورج کے رب نوع اور زہرہ کے رب نوع کے قائل تھے۔ انہوں نے ہر ایک کیلئے الگ الگ نام رکھ رکھا تھا اور ان سب کے اوپر ماردوک کو رب الارباب سمجھتے تھے روم میں بھی بہت سے خدا مروج تھے۔ شرک تعدد خدا اور ارباب انواع کا بازار شاید وہاں سب سے زیادہ گرم تھا۔

اہل روم تمام خداؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے : گھریلو خدا اور حکومتی خدا۔ خدایان حکومت سے لوگوں کو زیادہ لگاؤ نہ تھا (کیونکہ وہ ان کی حکومت سے خوش نہ تھے)۔ ان خداؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی کیونکہ ہر خدا کی ایک خاص پوسٹ( post ) تھی اور وہ محدود معاملات میں دخیل ہوتا تھا۔عالم یہ تھا کہ گھر کے دروازے کا ایک مخصوص خدا تھا بلکہ ڈیوڑھی اور صحن خانہ کا بھی الگ الگ رب النوع تھا۔

ایک مورخ کے بقول اس میں تعجب کی بات نہیں کہ رومیوں کے ۳۰ ہزار خدا ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کے خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گذر گاہوں اور محافل میں وہ افراد قوم سے زیادہ ہیں ۔ ان خداؤں میں سے زراعت، باورچی خانہ، غلہ خانہ، گھر، گیس، آگ، میوہ جات، دروازہ، درخت، تاک، جنگل، حریق، شہر روم کے بڑے دروازے اور قومی آتشکدہ کے رب نوع شمار کئے جاسکتے ہیں(۲)

خلاصہ یہ کہ گذشتہ زمانے میں انسان قسم قسم کے خرافات سے دست و گریباں تھا جیسا کہ اب بھی اس زمانے کی یادگار بعض خرافات باقی رہ گئے ہیں ۔

نزول قرآن کے زمانے میں بھی بہت سے بتوں کی پوجا اور تعظیم کی جاتی تھی اور شاید وہ سب یا ان میں سے بعض پہلے ارباب انواع کے جانشین بھی ہوں ۔

علاوہ از ایں بعض اوقات تو خود انسان کو بھی عملی طور پر رب قرار دیاجاتا رہا ہے ۔ جیسا کہ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے جو احبار(علماء یہود) اور رہبانیوں (تارک الدنیا مرد اور عورتیں ) کو اپنا رب سمجھتے تھے قرآن کہتا ہے :اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله ۔

انہوں نے خدا کو چھوڑ کر علماء اور راہبوں کو خدا بنا رکھا تھا۔ (توبہ، ۳۱) ۔

بہرحال علاوہ اس کے کہ یہ خرافات انسان کو عقلی پستی کی طرف لے گئے تھے۔ تفرقہ پسندی، گروہ بندی، اور اختلافات کاسبب بھی تھے ۔ پیغمبران خدا بڑی پامردی سے ان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بسم اللہ کے بعد پہلی آیت جو قرآن میں آئی ہے وہ سی سلسلے سے تعلق رکھتی ہےالحمد لله رب العالمین یعنی تمام تعریفیں مخصوص ہیں اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس طرح قرآن نے تمام ارباب انواع پر خط تنیسیخ کھینچ دیا اور انہیں ان کی اصلی جگہ وادی عدم میں بھیج دیا اور ان کی جگہ توحید و یگانگی اور ہمبستگی و اتحاد کے پھول کھلائے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ ہے کہ وہ روزانہ اپنی شب وروز کی زنمازوں میں کم از کم دس مرتبہ یہ جملہ پڑھیں اور اس اللہ کے سایہ رحمت میں پناہ لیں جو ایک اکیلا خدا ہے جو تمام موجودات کا مالک، رب، سرپرست اور پرورش کرنے والا ہے تاکہ کبھی توحید کو فراموش نہ کریں اور شرک کی پر پیچ راہوں میں سرگرداں نہ ہوں ۔

____________________

۱) اعلام القرآن، ص ۲۰۲۔

۲)تاریخ آلبر مالہ، ج۱ فصل ۴، تاریخ زم۔

۲ ۔ خدائی پرورش،

خدا شناسی کا راستہ : کلمہ ”رب“ در اصل مالک و صاحب کے معنی میں ہے لیکن ہر مالک و صاحب کے لئے نہیں بلکہ وہ جو تربیت و پرورش بھی اپنے ذمہ لے اسی لئے فارسی میں اس کا ترجمہ پروردگار کیاجاتاہے ۔

زندہ موجودات کی سیر تکامل اور بے جان موجودات کا تحول و تغیر نیز موجودات کی پرورش کے لئے حالات کی سازگاری و اہتمام جو ان میں نہاں ہے اس پر غور و فکر کرنا خدا شناسی کے راستوں میں سے ایک بہترین راستہ ہے۔

ہمارے اعضائے بدن میں ایک ہم آہنگی ہے جوزیادہ تر ہماری آگاہی کے بغیر قائم ہے یہ بھی ہماری بات پر ایک زندہ دلیل ہے۔ ہماری زندگی میں جب کوئی اہم حادثہ پیش آتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ ہم پوری توانائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ایک مختصر سے لحظے میں ہمارے تمام اعضاء و ارکان بدن کو ہم آہنگی کا حکم ملتا ہے تو فورادل دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ سانس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، بدن کے تمام قوی مجتمع ہوجاتے ہیں ،غذا اور آکسیجن خون کے راستے فراوانی سے تمام اعضاء تک پہنچ جاتی ہے، اعصاب آمادہ کار، عضلات اور پٹھے زیادہ حرکت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، انسان میں قوت تحمل بڑھ جاتی ہے۔ درد کااحساس کم ہوجاتا ہے، نیند آنکھوں سے اڑ جاتی ہے اور اعضاء میں سے تکان اور بھوک کا احساس بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

کون ہے جو یہ عجیب و غریب ہم آہنگی اس حساس موقع پر اس تیزی کے ساتھ وجود انسانی کے تمام ذرات میں پیدا کردیتا ہے؟ کیایہ پرورش خدائے عالم و قادر کے سوا ممکن ہے۔ اس پرورش و تربیت کے سلسلے میں بہت سی قرآنی آیات ہیں جو انشاء اللہ اپنی اپنی جگہ پر آئیں گی اور ان میں سے ہر ایک معرفت خدا کی واضح دلیل ہے۔

۳ ۔( الرحمن الرحیم )

وہ خدا جو مہربان اور بخشنے والا ہے (اس کی عام وخاص رحمت نے سب کو گھیر رکھا ہے)۔

تفسیر

رحمان و رحیم کے معنی و مفہوم کی وسعت اور ان کا فرق ہم اللہ کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔اب تکرار کی ضرورت نہیں ۔

جس نکتے کا یہاں اضافہ ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ دونوں صفات جو اہم ترین اوصاف خدا وندی ہیں ہر روز کی نمازوں میں کم ازکم ۳۰ مرتبہ ذکر ہوتی ہیں (دو مرتبہ سورہ حمد میں اور ایک مرتبہ بعد والی سورت میں )اس طرح ۶۰ مرتبہ ہم خدا کی تعریف صفت رحمت کے ساتھ کرتے ہیں ۔در حقیقت یہ تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندگی میں ہر چیز سے زیادہ اس اخلاق خدا وندی کے ساتھ متصف کریں ۔ علاوہ ازیں واقعیت کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ اگر ہم اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں تو ایسانہ ہو کہ بے رحم مالک اپنے غلاموں سے جوسلکوک روا رکھتے ہیں ہماری نگاہ میں جچنے لگے۔

غلاموں کی تاریخ میں ہے کہ ان کے مالک ان سے عجیب قساوت و بے رحمی سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی غلام ان کی خدمات کی انجام دہی میں معمول سی کوتاہی کرتا تو اسے سخت سزا سے دوچار ہونا پڑتا، اسے کوڑے مارے جاتے، بیڑیوں میں جکڑا جاتا، چکی سے باندھا جاتا، کان کنی پر لگایا جاتا، زیر زمین او رتاریک و ہولناک قید خانوں میں رکھا جاتا اور اس کا جرم زیادہ ہوتا تو سولی پر لٹکا دیا جاتا(۱) ۔

ایک اور جگہ رکھا ہے کہ محکوم غلاموں کو درندوں کے پنجروں میں پھینک دیا جاتا اگر وہ جان بچا لیتے تو دوسرے درندہ کے پنجرہ میں داخل کردیا جاتا۔یہ تو تھا نمونہ، مالکوں کے اپنے غلاموں سے سلوک کا لیکن خدا وند عالم بار بار قرآن میں انسانوں کو یہ فکر دیتا ہے کہ اگر میرے بندوں نے میرے قانون کو خلاف عمل کیا ہو اور وہ پشیمان ہوجائیں تو میں انہیں بخش دوں گا، انہیں معاف کردوں گا کہ میں رحیم اور مہربان ہوں ۔ ارشاد الہی ہے :

( قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله یغفرالذنوب جمعیا ) ۔

کہئے کہ اے میرے وہ بندوں جنہوں نے (قانون الہی سے سرکشی کرکے)خود اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ خدا تمام گناہوں سے در گذر فرمائےگا(یعنی توبہ کرو رحمت خدا کے بے پایاں دریا سے بہرہ مند ہوجاؤ)۔ (زمر، ۵۳) ۔لہذا( رب العالمین ) کے بعد( ”الرحمن الرحیم“ ) کو لانا اس نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم قدرت کے باوجود جو کہ ہماری عین ذات ہے، اپنے بندوں پر مہربانی اور لطف وکرم کرتے ہیں ۔ یہ بندہ نوازی اور لطف بندے کو خدا کا ایسا شیفتہ و فریفتہ بنا دیتا ہے کہ وہ انتہائی شغف سے کہتا ہے( ”الرحمن الرحیم“ ) ۔

یہاں سے انسان اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم کے اپنے بندوں سے اور مالکوں کے اپنے ماتحتوں سے سلوک میں کس قدر فرق ہے۔ خصوصا غلامی کے بد قسمت دور میں ۔

____________________

۱۔ تاریخ آلبر مالہ تاریخ رم جلد ۱ ص۱۵۔

۴ ۔( مالک یوم الدین )

وہ خدا جو روز جزا کا مالک ہے۔

قیامت پر ایمان دوسری اصل ہے۔

یہاں اسلام کی دوسری اہم اصل یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورفرمایا گیا ہے وہ خدا جوجزا کے دن کا مالک ہے( مالک یوم الدین ) اس طرح محور اور مبداء و معاد جوہر قسم کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کی بنیاد ہے، وجود انسانی میں اس کی تکمیل ہوتی ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں قیامت خدا کی ملکیت سے تعبیر کی گئی ہے اور یہ بات اس دن کے لئے خدا کے انتہائی تسلط اور اشیاء و اشخاص پر اس کے نفوذکو مشخص کرتی ہے وہ دن کہ جب تمام انسان اس بڑے دربار میں حساب کے لئے حاضر ہوں گے۔ لوگ اپنے مالک حقیقی کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اپنی تمام کہی ہوئی باتیں ، کیے ہوئے کام یہاں تک کہ سوچے ہوئے افکار کو اپنے موجود پائیں گے۔ حتی کہ سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی بات نابود نہ ہوگی۔اور فراموش نہ کی گئی ہوگی ۔ اب وہ انسان حاضر ہے جسے اپنے تمام اعمال و افعال کی جواب دہی کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا نا ہوگا۔ نوبت یہ ہوگی کہ جن امور کو وہ خود بجا نہیں لایا بلکہ کسی طریقہ یا پروگرام کا بانی تھا اس میں بھی اسے اپنے حصے کی جواب دہی کا سامنا ہوگا۔

اس میں شک و شبہ نہیں کہ خدا وند عالم کی یہ مالکیت اس طرح سے اعتباری نہیں جس طرح اس دنیا میں چیزیں ہماری ملک ہیں ، کیونکہ ہماری مالکیت تو ایک قرار داد کی بناء پر ہے یا اعزازی و اسنادی ہے۔ دوسرے اسناد و اعزاز کے ساتھ یہ مالکیت ختم بھی ہوسکتی ہے لیکن جہان ہستی کے لئے خدا کی مالکیت حقیقی ہے اور موجودات کا خدا کے ساتھ ایک ربط ہے جوایک لحظہ کیلئے منقطع ہوجائے تو نابود ہوجائیں جیسے بجلی کے قمقموں کا رابطہ اپنے بجلی گھر سے ٹوٹ جائے تو اسی لمحہ روشنی ختم ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مالکیت خالقیت اورربوبیت کا نتیجہ ہے وہ ذات جس نے موجودات کو خلق کیا، اپنی رحمت کے زیر نظر ان کی پرورش کی اور لمحہ بہ لمحہ انہیں فیض وجود ہستی بخشا وہی موجودات کا حقیقی مالک ہے۔

ایک حقیر سا نمونہ مالکیت حقیقی کا ہم اپنی ذات میں اپنے اعضاء بدن کے بارے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ ہم آنکھ، کان، دل اور اپنے اعصاب کے مالک ہیں ، اس سے مراد اعتبار ی مالکیت نہیں بلکہ ایک قسم کی حقیقی مالکیت ہے جس کا سرچشمہ ربط، تعلق اور احاطہ ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اس جہان کا مالک نہیں ؟ اگر ہے تو پھر کیوں ہم اسے مالک روز جزا کہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ایک نکتے کی طرف متوجہ ہونے سے واضح ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی مالکیت اگر چہ دونوں جہانوں پر محیط ہے لیکن اس مالکیت کا ظہور قیامت کے دن بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس دن تمام مادی رشتے اوراعتباری ملکیتیں ختم ہوجائیں گی۔ اس دن کسی شخص کی کوئی چیز نہیں ہوکی۔ یہاں تک کہ شفاعت بھی فرمان خدا سے ہوگی۔

یوم لا تملک نفس لنفس شیئا والامر یومئذ للہ۔

وہ دن کے جب کوئی شخص کسی چیز کا مالک نہ ہوگا کہ اس کے ذریہ کسی کی مدد کرسکے اور تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہوں گے۔ (الانفطار، ۱۹) ۔

دوسرے الفاظ میں اس دنیا میں انسان دوسرے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ کبھی زبان سے کبھی مال سے، کبھی افرادی قوت سے اور کبھی مختلف کاموں سے دوسرے کو اپنی حمایت و مدد فراہم کرتا ہے لیکن اس دن ان امور میں سے کوئی چیز بھی نہ ہوگی اسی لئے تو جب لوگوں سے سوال ہوگا:

لمن الملک الیوم ؟ آج کس کی حکومت ہے، تو جواب آئے گا :لله الواحد القهار ۔

(صرف خدائے یگانہ، کامیاب و کامران کی حکمرانی ہے) المومن ، ۱۶ ۔قیامت کے دن پر اور اس بڑی عدالت گاہ پر ایمان کہ جس میں تمام چیزوں کا بڑی باریک بینی سے حساب لیا جائے گا انسان کو غلط اور ناشائستہ اعمال سے روکنے کے لئے بہت موثر ہے۔ نماز کے قبیح اور برے اعمال سے روکنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایک تو یہ انسان کون مبداء کی یاد دلاتی ہے جو اس کے تمام کاموں سے واقف ہے اوردوسرے عدل خدا کی بڑی عدالت کو بھی یاد دلاتی ہے۔روز قیامت خدا کی مالکیت پر ایمان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ قیامت کا اعتقاد رکھنے والا مشرکین او رمنکرین قیامت کے مقابل قرار پاتا ہے کیونکہ آیات قرآنی سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان ایک عمومی عقیدہ تھا یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے سوال ہوتا تھا کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے تو کہتے تھے ” خدا“۔ولئن سالتهم من خلق السموات والارض لیقولن الله ۔

اور اگر آپ ان سے دریافت کریں آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو ضرور کہیں گے ”اللہ“۔(لقمان، ۲۵) ۔

جب کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم(ص) سے قیامت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب انکار کرتے اور اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ قرآن حکیم میں ہے :( وقال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) ۔

کافر کہتے ہیں کیا تمہیں ایسے شخص سے متعارف کرائیں جو یہ کہتا ہے کہ جب تم خاک ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو تمہارے ان منتشر اجزاء کو (سمیٹ کر) پھر سے زندہ کیا جائے گا۔ جانے وہ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا دیوانہ ہے۔ (سبا ، ۸ ، ۷) ۔

ایک حدیث میں امام سجاد(ع) کے بارے میں ہے کہ آپ جب آیت مالک یوم الدین تک پہنچتے تو اس کا اس کرح سے تکرار کرتے کہ یوں لگتا جیسے آپ کی روح ، بدن سے پرواز کرجائےگی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” کان علی بن الحسین اذا قرء مالک یوم الدین یکودها حتی یکاد ان یموت“ (۱) ۔

باقی رہالفظ یوم الدین یہ تعبیر قرآن میں جہاں جہاں استعمال ہوئی اس سے مراد قیامت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ انفطار کی آیات ۱۷ ، ۱۸ اور ۱۹ میں وضاحت کے ساتھ اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوا ہے(یہ تعبیر قرآن مجید میں دس سے زیادہ مرتبہ اسی معنی میں استعمال ہوئی ہے)۔اب رہی یہ گفتگو کہ اس دن کو یوم الدین کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن جزا کا دن ہے اوردین لغت میں جزا کے معنی میں ہے اور قیامت کا واضح ترین پروگرام جزا و سزا اور عوض و ثواب ہے۔ اس دن پردے ہٹ جائیں گے اور تمام اعمال کاتمام تر باریک تفصیلات کے ساتھ محاسبہ ہوگا اور ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا پالے گا۔ایک حدیث میں امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :” یوم الدین سے مراد روز حساب ہے“(۲)

اس روایت کے مطابق تو یہاں دین حساب کے ہم معنی ہے۔ شاید یہ تعبیر ذکر علت اور ارادہ معلول کے قبیل میں سے ہو کیونکہ ہمیشہ صاحب جزا کی تمہید اور مقدمہ ہوتا ہے۔

بعض مفسرین کا یہ نظریہ بھی ہے کہ قیامت کے دن کو یوم الدین اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ہر شخص اپنے دین و آئین کے مطابق جزا و سزا پائےگا لیکن پہلا معنی (حساب و جزا)زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

____________________

۱ ۔تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۱۹۔۲۔ مجمع البیان ، ذیل آیہ مذکور۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41