تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72986
ڈاؤنلوڈ: 3867


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72986 / ڈاؤنلوڈ: 3867
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

قرآن اور مسئلہ شفاعت

اس میں شک نہیں کہ خدائی سزائیں اس جہان میں ہوں یا قیامت میں ، ان میں انتقال کا پہلو نہیں ہے ۔ وہ سب در حقیقت قوانین کے اجراء اور اطاعت کی ضمانت ہیں اور نتیجے کے طور پر تمام پہلوؤں میں ترقی اور تکامل ہے ۔لہذا جو چیز اس ضامن اجراء کو کمزور کرے اس سے احتراز و اجتناب ضروری ہے تاکہ لوگوں میں گناہ کی جرات پیدا نہ ہو ۔ لیکن دوسری طرف واپس لوٹنے اور اصلاح کرنے کے راستے ، گناہگاروں کے لئے کلی طور پر بند نہیں ہونے چاہئیں شفاعت صحیح معنی کے لحاظ سے تعمیر اور اصلاح کے لئے ہے اور گناہگاروں اور ناپاکیوں سے آلودہ افراد کی واپسی کا وسیلہ ہے لیکن غلط مفہوم کے اعتبار سے گناہ کا شوق پیدا کرنے اور جرات دلانے کا سبب بنتی ہے ۔

جو لوگ شفاعت کے مختلف پہلوؤں اور اس کے صحیح مفاہیم کو ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھ سکے وہ بعض اوقات مسئلہ شفاعت کے سرے سے منکر ہوگئے ہیں اور شفاعت کو سلاطین اور ظالم حکام کے سامنے ایک دوسرے کی سفارش اور پارٹی بازی کے برابر سمجھتے ہیں اور بعض اوقات وہابیوں کی طرح مندرجہ بالا آیت کے الفاظ ”لا یقبل منها شفاعة “ سے مراد لیتے ہیں کہ قیامت میں کسی کی سفارش قبول نہ ہوگی ۔ دوسری آیات کی طرف توجہ کیے بغیر اسے دستاویز قرار دے کر شفاعت کا مکمل انکار کردیتے ہیں ۔

مخالفین شفاعت کے اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے :

( ۱) شفاعت کا عقیدہ کوشش اور جستجو کی روح کو کمزور کر دیتا ہے ۔

( ۲) شفاعت کا عقیدہ پسماندہ اور طوائف الملوک کے شکار معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔

( ۳) شفاعت کا عقیدہ ایک قسم کا شرک ہے اور چند اشخاص کی پرستش کے مترادف ہے۔

( ۴) شفاعت کا عقیدہ گناہ کا شوق دلاتا ہے اور ذمہ د اریوں سے غفلت کا سبب بنتا ہے۔

( ۵) شفاعت کے عقیدہ کا مفہو م یہ ہے کہ خدا کے احکا م بدل جائیں اور خداکا ارادہ وفرمان متغیر ہو جائے ۔

لیکن جیسا کہ ہم بتائیں گے کہ یہ اعتراضات اس لئے پیدا ہو ئے ہیں کہ شفاعت کے قر آنی مفہو م کو عوام میں رائج کجرو سفارشوں کی طرح سمجھ لیاگیا ہے ۔

یہ مسئلہ چونکہ منفی اورمثبت جہات کے لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے لہذا ضروری ہے کہ مفہوم شفاعت ، فلسفہ ء شفاعت ، عالم تکوین میں شفاعت ، قرآن و حدیث میں شفاعت اور شفاعت اور توحید و شرک کے متعلق بحث کی جائے تاکہ ہر قسم کا ابہام جو مندرجہ بالا اور دیگر آیات میں اس سلسلے میں دکھائی دیتا ہے دور ہوسکے ۔

( ۱) شفاعت کا حقیقی مفہوم :

لفظ شفاعت ”شفع “ سے ہے جس کے معنی ہیں جفت اور ضم الشی الی مثلہ “ ایک چیز کو اس جیسی دوسری چیز سے ملحق کرنا ،اس کے مقابل ہے” وتر“جس کے معنی تاک اور تنہاہیں کسی برتر و قوی فرد کے ضعیف فرد کے ساتھ مدد کی خاطر مل جانے کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ یہ لفظ عرف اور شرع میں دو مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

الف۔ عرف عام میں شفاعت کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ شفاعت کرنے والا اپنی ، شخصیت اور اثر و رسوخ سے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنے ماتحت لوگوں کی سزا کے بارے میں صاحب قدرت شخص کا نظریہ بدل دے اسی طرح اپنے اثر ورسوخ سے کام لینا جب کہ اس کا لحاظ رکھا جاتا ہو یا جب لوگ اس سے خوف زدہ ہوں یا پھر کسی پر نوازشات کے ذریعہ سے اثر ڈالنا یا کبھی مجرم کے گناہ اور استحقاق ِ سزا سے متعلق فکری بنیادوں کو بدل دینا وغیرہ خلاصہ یہ ہے کہ اس شفاعت سے مجرم یا ملزم کی روح یا فکر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی بلکہ سب اثرات اور تبدیلیوں کا تعلق اس شخص سے ہوتا ہے جس کے پاس شفاعت و سفارش کی جاتی ہے( غورکیجیے گا ) ۔

مذہبی نقطہ نظر سے ایسی شفاعت کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ خدا کو تو اشتباہ نہیں ہوتا کہ اس کے نظریئے کو بدلا جاسکے نہ ہی وہ انسان جیسے میلانات رکھتا ہے کہ انہیں ابھارا جاسکے نہ کسی کے اثر ورسوخ سے وہ خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی سزا اور عذاب عدالت کے علاوہ کسی محور پر گردش کرتی ہے ۔

ب۔ شفاعت کا دوسرا مفہوم وہ ہے جو مذہبی منابع اور مصادر میں موجود ہے جس کا مقصد اس شخص میں تبدیلی پیدا کرنا ہے جس کی سفارش کی جارہی ہے ۔ یعنی جس شخص کی شفاعت ہو رہی ہے اس نے ایسے اسباب فراہم کئے ہیں کہ وہ اس ناپسندیدہ کیفیت سے باہر نکل آیا ہے جس کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ہو گیا ہے کہ اسے بخش دیا جائے ۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایسی شفاعت پر ایمان رکھنا ایک مکتب ِ تربیت ہے گناہگاروں اور آلودہ افراد کی اصلاح ، بیداری اور آگاہی کا وسیلہ ہے۔

ہم دیکھیں گے کہ تمام اعتراضات ، نکتہ چینیاں اور حملے شفاعت کی پہلی تفسیر پر ہوتے ہیں دوسری پر نہیں جو کہ ایک منطقی ، معقول اور تربیت کرنے والا مفہوم ہے ۔

شفاعت کی دو شکلوں کی یہ جمالی تفسیر تھی جن میں سے ایک گناہ پر پردہ ڈالنا اور دوسری انسان کی اصلاح و تربیت کرنا ہے ۔

( ۱۱) عالم تکوین میں شفاعت :

جو کچھ ہم نے صحیح اور منطقی شفاعت کے بارے میں کہا ہے اس کا مشاہدہ عالم تشریع کے علاوہ تکوین وخلقت کی دنیا میں بہت کیا جاسکتا ہے ۔ اس دنیا کی طاقت ور قوتیں ضعیف قوتوں سے مل جاتی ہیں اور انہیں اصلاحی اغراض کے راستوں پر آگے لے چلتی ہیں ۔ سورج چمکتا ہے ۔ بارش برستی ہے ، بیج زمین کے دل میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اندرونی استعداد کو بروئے کار لائے اور پہلی زندگی کی کونپلوں کو زمین سے باہر بھیجے ، اس طرح کہ دانے کے چھلکے کا زندان چاک کیا جائے ۔ظلمت کدہ خاک سے سر باہر نکالا جائے اور آسمان کی طرف آگے بڑھا جائے جس سے اس نے قو ت حاصل کی تھی ۔

زندگی کی اٹھان میں یہ سب بہاریں در حقیقت ، شفاعت تکوینی کی ایک قسم ہیں اگر اس قسم کی شفاعت کے مشاہدے سے ہم عالم تشریع میں بھی اس کے قائل ہوجائیں تو ہم نے راہ مستقیم اختیار کی ہے جس کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے ۔

مدارک شفاعت :

اب ہم مسئلہ شفاعت کے اصلی مدارک اور اولین دلائل کا ذکر کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں مسئلہ شفاعت کے بارے میں اس عنوان سے تقریبا تیس مقامات پر گفتگو ہوئی ہے البتہ اس عنوان کے بغیر بھی اس کی بحثیں اور اس طرف ارشارات موجود ہیں ۔

وہ آیات جو قرآن میں اس مسئلے کے بارے میں ہیں چند شعبوں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔۔

(وہ آیات جو بطور مطلق شفاعت کی نفی کرتی ہیں مثلا َ( انفقوا مما رزقنٰکم من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیه ولا خلة و لا شفاعة ) اور( ولا یقبل منها شفاعة )

ان آیات میں مجرمین کے لئے ایمان و عمل صالح کے بغیر راہ نجات کی نفی کی گئی ہے وہ چاہے مادی عوض سے ہو یا تعلق کی بنیاد پر سابقہ دوستی کی وجہ سے ہو یا مسئلہ شفاعت کے حوالے سے بلکہ بعض مجرمین کے بارے میں تو ہے کہ :

( فما تنفعهم شفاعة الشافعین )

شفاعت کرنے والوں کی شفاعت انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی ۔( مدثر ۔ ۴۸)

ب۔ وہ آیات جو شفیع کو صرف خدا میں منحصر قرار دیتی ہیں ۔مثلاََ( مالکم من دونه من ولی ولا شفیع )

اس (خدا) کے سوا تمہارا کوئی ولی اور شفیع نہیں ہے۔( سجدہ ۔ ۴) اور( قل لله الشفاعة جمیعاََ )

کہئے کہ تمام شفاعتیں اللہ کے لئے مخصوص ہیں ۔ زمر ۔ ۴۴)

ج ۔وہ آیات جو شفاعت کو اذن و فرمان خدا کے ساتھ مشروط قرار دیتی ہیں ۔ مثلاََ من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ

کون ہے جو خدا کے حضور اس کے اذن کے بغیر شفاعت کرے ۔ بقرہ ۔ ۲۵۵)

اور( ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له )

اس کی بارگاہ میں کسی کو شفاعت سے فائدہ نہیں پہنچے گا مگر اسے جس کے لئے اجازت دی جائے گی۔ ( سبا ، ۲۳)

د۔ وہ آیات ہیں جن میں اس شخص کے لئے شرائط بیان کی گئی ہیں جس کی شفاعت کی جانا ہے ۔ بعض اوقات رضا و خوشنودی خدا کو شرط قرار دیا گیا ہے :( ولا یشفعون الا لمن ارتضی ) ۔ ( انبیاء ، ۲۸ )

اس آیت کے مطابق شفاعت کرنے والے صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جو مقام ارتضی کے حامل ہوں ۔ یعنی درگاہ خدا وندی میں قبولیت کے درجے کو پہنچے ہوئے ہوں ۔

کبھی خدا کے ہاں عہد وپیمان کو شرط قرار دیا گیا ہے ( یعنی توحید پر ایمان اور انبیا ء کو صحیح طور پر پہچاننا )۔مثلا

( لا یملکون الشفاعة الا من اتخذ عند الرحمٰن عهداََ م ) ( مریم ۔ ۸۷ )

بعض اوقات شفاعت کے حصول کی صلاحیت کو بعض مجرمین سے سلب کر لینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔مثلاََ ذیل کی آیت میں ظالمین سے شفاعت سلب کئے جانے کا اعلان ہے :( ماللظالمین من حمیم و لا شفیع یطاع ) ( مو من ، ۱۸ )

اس لحاظ سے عہد وپیمان الہٰی کا حامل ہونا یعنی ایمان اور مقام خوشنودی خدا تک پہنچنا ، اس کے نزدیک قابل قبول ہونا اور گناہوں مثلاََ ظلم و ستم سے بچنا یہ شفاعت کی حتمی شرائط ہیں ۔

شرائط شفاعت :

خلاصہ یہ ہے کہ آیات شفاعت وضاحت سے نشان دہی کرتی ہیں کہ اسلام کی نظرمیں مسئلہ شفاعت کوئی بے ضابطہ اور بلا شرط موضوع نہیں ہے بلکہ اس کی قیود وشرئط ہیں ایک طرف یہ اس کے جرم کے لحاظ سے ہیں جس کے بارے میں شفاعت ہو نی ہے اور دوسری طرف اس شخص کے بارے میں جس کی شفاعت کی جانی ہے تیسر ے اس شخص کے بارے میں شرائط ہیں جس نے شفاعت کرنی ہے یہ سب چیزیں مل کر شفاعت کے اصلی رخ اور اس کے فلسفہ کو واضح کرتی ہیں ۔مثلاََ ظلم وستم جیسے گناہ شفاعت کے دائر ے سے بالکل خارج کر دیئے گئے ہیں ۔اور قر آن کہتا ہے کہ ظالمو ں کے لئے کو ئی شفیع مطاع نہیں ہے اب اگر ظلم اس کے وسیع معنی ٰکے لحاظ سے تفسیر کی جائے تو پھر شفاعت ان مجرمین کے لئے منحصر ہوگی جو اپنے جرم پر نادم وپشیمان ہوں اور اس کے ازالے اور اصلاح کی راہ پر گامزن ہوں جیسا کہ بعض احادیث کے حوالے سے بیان ہوگا ۔اس صورت میں شفاعت توبہ اور گناہ پر ندامت کے عمل میں ایک مدد گار کا کردار ادا کرے گی (اور یہ جو بعض تصور کر تے ہیں کہ ندا مت اور توبہ کے ہوتے ہو ئے شفاعت کی ضرورت نہیں یہ ان کا اشتبا ہ ہے جس کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے )۔ایک سورہ انبیا ء آیہ ۲۸ کے مطابق صرف وہ لوگ شفاعت کے ذریعہ بخشے جا ئیں گے جو مقام ارتضی تک پہنچے ہو ں گےاور دوسری طرف سورہ مریم آیہ ۸۷ کے مطابق جو عہد الٰہی کے حامل ہوں گے۔یہ دوعناوین جیسا کہ ان کے لغوی مفہوم سے ا جما لاََاوراس سلسلے کی رو ا یت سے تفصیلاََظاہرہو تاہے یہ معنیٰ رکھتے ہیں کہ انسان کا خدا ، حساب ومیزان اور سزاوعذاب پر ایمان ہو ، نیک اعمال کو اچھااور برے اعمال کو برا سمجھتا ہو اور تمام کے درست یعنی من اللہ ہو نے کی گواہی دیتا ہو اگر ایسا ایمان انسان کی فکر ونظر اور زندگی سے ظاہر ہوتاہوجس کی نشانی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان ظالمین اور سرکش لوگو ں سے ممتاز کرے جواسلام کی کسی مقدس اصل پرایمان نہیں رکھتے اور اپنے پروگراموں پر تجدید نظر کرے تو پھر وہ شفاعت کا اہل ہوتاہے

سورہ نساء کی ۶۴ میں شفاعت کرنے کے زیر سایہ گناہوں کی بخشش کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

( ولو انهم اذظلمواانفسهم جاء وک فاستغفراالله واستغفرلهم الرسول لوجدوالله توابارحیما )

اور اگر وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ،بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتے اورپھر ہمارا رسول بھی ان کے لئے عفو ودرگزرکی سفارش کرتا توو ہ دیکھتے کہ اللہ توبہ قبول کرکے رحم فرمانے والاہے

اس آیت میں خود مجرمین کی توبہ استغفار کو پیغمبرکی طرف سے مغفرت کی سفارش کا مقدمہ قراردیا گیاہے ۔

سورہ یوسف کی آیت ۹۷ و ۹۸ میں ہے( قالویاابانااستغفرلناذنوبنااناکنا خاطئین قال سوف استغفرلکم ربی ط انه هو الغفورالرحیم )

انہوں نے اپنے باپ کی خدمت میں عر ض کی کہ اللہ کے حضور ہماری مغفرت کی دعا کریں اور ہم اپنے خطاکار ہو نے کے معترف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں جلدی ہی اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت طلب کروں گا بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ان آیات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ برادران یوسف نے باپ سے سفارش کے تقاضے سے قبل گناہ پر ندامت و پشیمانی کا اظہار کیا ۔

سورہ مومن ، آیہ ۷ فرشتوں کی شفاعت کے بارے میں ہے کہ ان کی استغفار اور شفاعت صرف با ایمان راہ خدا کے پیرو کار اور حق کی اتباع کرنے والے لوگوں کے لئے ہے:

( و یستغفرون للذین آمنو ا ربنا وسعت کل شیء رحمة و علما فاغفر للذین تابو ا و اتبعوا سبیلک وقهم عذاب الجحیم )

اب پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ توبہ کرنے ، سبیل الٰہی کی اتباع کرنے اور اس راہ پر قدم رکھنے کے باوجود شفاعت کی کیا ضرورت ہے ۔اس سوال کا جواب ہم حقیقت ِ شفاعت کی بحث میں دیں گے ۔

شفاعت کرنے والوں کے لئے بھی اس شرط کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ حق کے گواہ ہونے چاہیئیں :

( الا من شهد بالحق ) (زخرف۔ ۸۶)

اس لحاظ سے ضروری ہے کہ جن کی شفاعت ہونا ہے وہ شفاعت کرنے والے سے ربط اور تعلق بر قرار رکھیں اور وہ ربط ہے قول و فعل سے حق کی طرف متوجہ ہونا جو خود اصلا َ اور راہ حق میں تمام صلاحیتیں صرف کرنے کے لئے ایک عامل ہے

احادیث اسلامی اور شفاعت :

روایات اسلامی میں شفاعت کے سلسلے میں بہت سی تعبیرات موجود ہیں جو مندرجہ بالا آیات قرآنی کے مفہوم کی تکمیل کرتی ہیں اور بعض اوقات بہت صریح ہیں ۔ ان میں سے بعض یہ ہیں :

ا۔ تفسیر برہان میں امام کاظم کے واسطے سے حضرت علی سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم سے سنا ہے :شفاعتی لاهل الکبائر من امتی

میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے ہے۔

ابن عمیر جو راوی حدیث ہے کہتا ہے :

میں نے امام کاظم سے پوچھا کہ گناہان کبیرہ کا ارتکاب کرنے والوں کی شفاعت کیسے ممکن ہے حالانکہ خدا وند عالم فر ماتا ہے ”( ولا یشفعون الا لمن ارتضی ) “ مسلم ہے کہ جو شخص کبائر کا مرتکب ہوتا ہے ۔وہ ارتضی اور خوشنودی خدا سے دور ہوجاتا ہے ۔

اما م نے جواب دیا :جو با ایمان شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ طبعا پشیمان ہوتا ہے اور نبی اکرم نے فرمایا ہے کہ گناہ سے پشیمانی توبہ ہے اور جو شخص پشیمان نہ ہو وہ حقیقی مومن نہیں اور اس کے لئے شفاعت بھی نہیں ہے اور ایک گناہ ایک ظلم ہے ۔ خدا وند عالم فرماتا ہے : ظالموں کے لئے دوست اور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں(۱)

صدر حدیث کا مضمون یہ ہے کہ شفاعت کبائر کے مرتکب لوگوں کے لئے ہے حدیث کا ذیل یہ واضح کرتا ہے کہ شفاعت کے قبول ہونے کی اصلی شرط یہ ہے کہ جس کی شفاعت کی جارہی ہے اس میں ایسا ایمان ہو جو مجرم کو ندامت خود سازی ، ازالہ ء گناہ اور اصلاح کے مرحلے تک پہنچادے اور ظلم ، طغیان اور قانون شکنی سے اپنے آپ کو نکال لے اور اس کے بغیر شفاعت ممکن ہی نہیں ہے ( غور کیجیے گا )

ب ۔ کتاب کافی میں امام صادق سے اس خط میں جو آپ نے متحد المال کی صورت میں اپنے اصحاب کو لکھا ہے ، منقول ہے :من سره ا ن ینفعه شفاعة الشافعین عند الله فلیطلب الی اللله ان یر ضی عنه (۲)

اس روایت کا لب ولہجہ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ اشتباہات کے ازالے کے لئے ہے جو شفاعت کے سلسلے میں حضرت صادق کے بعض اصحاب کو خصوصاََ اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو عموما ہوگئے تھے ۔ اس میں صراحت کے ساتھ گناہ کا شوق دلانے والی شفاعتون کی نفی کی گئی ہے ۔ روایت کے مطابق ” جو شخص پسند کرتا ہے کہ اسے شفاعت نصیب ہو اسے چاہیئے کہ خدا کی خو شنودی حاصل کرے “۔

ج۔ ایک اور پر معنی حدیث حضر ت صادق سے یوں مروی ہے :

اذا کان یوم القیامة بعث الله العالم والعابد فاذا وقفا بین ید ی الله عز وجل قیل اللعابد انطق الی الجنةو قیل اللعالم قف تشفع للناس بحسن تادیبک لهم ۔

قیامت کے دن خدا وندے تعالیٰ عالم اور عابد کو قبر سے اٹھائے گا ، عابد سے کہے گا اکیلے بہشت میں چلے جاؤ لیکن عالم سے کہے گا جن لوگوں کی اچھی تربیت کی ہے ان کی شفاعت کرو(۳)

اس حدیث میں عالم نے جو ادب و اخلاق کی تعلیم دی ہے اور اس کے شاگرد جہنوں نے اس سے سبق حاصل کیا ہے کی شفاعت کے درمیان ایک ربط و تعلق نظر آ تا ہے ۔ اس سے اس بحث کے تاریک پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے ۔

علاوہ از ایں شفاعت کا عالم سے مخصوص ہونا اور عابد سے اس کی نفی اس بات کی نشاندہی ہے کہ منطق اسلا م کی رو سے شفاعت کسی عہد و پیمان اور پا رٹی بازی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکتب تربیت ہے اور اس جہان میں تربیت کی تصو یر کشی ہے ۔

____________________

۱ تفسیر برہان ، ج ۳ ، ص ، ۵۳

۲ نقل از بحار ، ج ۳ ،ص ۳۰۴ ( قدیم اشاعت )

۳ بحار ، ج ۳ ، ص ۳۰۵ بحوالہ اختصاص مفید

۷۱ ۔ شفاعت کی معنوی تا ثیر :

اس مقام پر شفاعت سے متعلق جو روایات ہم نے بیان کی ہیں وہ اس سلسلے کی روایات کا ایک تھوڑا سا حصہ ہے جنہیں ہم نے اپنی بحث کی مناسبت سے انتخاب کیا ہے ورنہ شفاعت سے متعلق روایات تو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں ۔

نووی شافعی ۱ شرح صحیح مسلم میں قاضی عیاض جو اہل سنت کے مشہور عالم ہیں کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ شفاعت متواترات میں سے ہے(۲) ۔

یہاں تک کہ ابن تیمیہ ( متوفی ۷۲۸ ھ) اور محمد بن عبد الوہاب ( متوفی ۱۲۰۶ ھ ) کے پیرو جو اس سلسلے میں سخت رویہ اختیار کرتے ہیں اور بہت متعصب ہیں ان روایات کے تواتر کے معترف ہیں ۔

کتاب ”فتح المجید “ شیخ عبد الرحمٰن بن حسن کی تالیف ہے وہابیوں کی ایک مشہور کتاب ہے اور ابھی حجاز کے بہت سے دینی مدارسو ں میں درسی کتب کی حیثیت سے موجود ہے ۔ اس میں ابن قیم سے اس طرح منقول ہے :

شفاعت ِ مجرمین کے بارے میں نبی اکرم سے احادیث متواتر ہیں آپ کے اصحاب اور اہل سنت کا عموما اس پر اجماع ہے اور وہ اس کے منکر کو بدعتی سمجھتے ہیں اس پر تنقید کرتے ہیں اور اسے گمراہ شمار کرتے ہیں(۳) ۔

اس سے قبل کہ اب ہم شفاعت کے اجتماعی اور روحانی اثرات پر بحث کریں اور چاروں اعتراضات کو فلسفہ ء شفاعت کی روشنی میں حل کریں خدا پرستوں اور معتقدین شفاعت کی منطق کی نظر سے اس کے معنوی آثار دیکھتے ہیں کیونکہ یہ نظراس مسئلے کے اجتماعی اور معنوی عکس العمل کے سلسلے میں آئندہ آنے والی بحث کو زیادہ واضح کردیتی ہے(۴) ۔

عقائد اسلامی کے علماء کے درمیان شفاعت کی تاثیر معنوی کے سلسلے میں کچھ یوں ہے :

ایک گروہ ” وعیدیہ “ کے نام سے مشہور ہے جن کا عقیدہ ہے کہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد ہمیشہ جہنم میں رہیں گے )۔

ان کا اعتقاد ہے کہ گناہ کے آثار کو کم کرنے میں شفاعت اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اس کی تاثیر پیش رفت ، تکامل معنوی اور جزاء و ثواب کی زیادتی ہے ۔

تفضیلہ ( جو اعتقاد رکھتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کرنے والے لوگ جہنم میں نہیں رہیں گے ) معتقد ہیں کہ شفاعت گناہگاروں کے لئے ہے اور نتیجے میں سزا اور عذاب ختم ہو جاتا ہے ۔

نہایت مشہور محقق نصیر الدین طوسی کتاب تجرید الاعتقاد ات میں دونوں کو بر حق سمجھتے ہیں اور وہ دونوں آثار کے معتقد ہیں ۔

علامہ حلی بھی محقق طوسی کی عبارت کی شرح میں کتاب کشف المراد میں اس عقیدے کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے شواہد پیش کرتے ہیں ۔

شفاعت کے معنی اصل لغت کے اعتبار سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی طرح شفاعت تکوینی کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ان دونون کی طرف توجہ کرتے ہوئے اب کسی تردید و شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ محقق طوسی کا عقیدہ حقیقت وواقعیت سے نزدیک ہے۔

کیونکہ ایک طرف امام صادق سے منقول مشہور روایت ہے ؛

ما من احد من الاولین والاًخرین الا هو محتاج الی شفاعة محمد یوم القیامه (۵)

اولین و آخرین میں کوئی بھی نہیں جو آنحضرت کی شفاعت کا محتاج نہ ہو ۔

اس حدیث کی رو سے تو وہ اشخاص بھی جو گناہ سے توبہ کرچکے ہیں اور ان کا جرم بخشا گیا ہے ۔ شفاعت کے محتاج ہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب شفاعت کی تاثیر ہر دو پہلوؤں کے لئے ہو اور مقام و مرتبے کی بلندی کے لئے بھی کار آمد ہو ۔

لہذا اگر بعض روایات میں ہے کہ نیک لوگوں کی شفاعت کی ضرورت نہیں تو اس سے مقصود ویسی شفاعت کی نفی ہے جو مجرمین اور گناہگاروں کے لئے ہے ۔

دوسری طرف ہم کہ چکے ہیں کہ شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ قوی تر موجود کی مدد کے لئے اس سے مربوط و منظم ہوجائے ممکن ہے یہ مدد نقاط قوت کی زیادتی یا نقاط ضعف کی کمی کے لئے ہو ۔

جیسا کہ شفاعت تکوینی اور وہ موجودات جو سیر تکامل و پرورش میں ہیں ، میں یہ دو جنبے دیکھے جاسکتے ہیں ، بعض ا وقات پست تر موجودات کو قوی تر موجودات کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ وہ عوامل تخریب کو دور کریں جیسے( گھاس کو آفتاب کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس کی آفات و بلیات دور کرے ) کبھی ان کی ضرورت قوت کی زیادتی اور پیش رفت کے لئے ہوتی ہے جیسے گھاس کو رشد و نمود کے لئے بھی سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے ) اسی طرح درس پڑھنے والا شاگرد اپنے اشتباہات کی اصلاح کے لئے بھی استاد کی احتیاج رکھتا ہے اور اپنی معلومات بڑھانے کے لئے بھی ۔ لہذا مختلف دلائل کے پیش نظر شفاعت دونوں قسم کے آثار رکھتی ہے اور صرف گناہ و جرم کے آثار کرنے میں منحصر نہیں ہے ( غور کیجئے گا )۔

____________________

۱ ان کا نام یحیی بن شرف ہے ۔ سات سو ہجری کے علماء میں سے ہیں چونکہ نوی شہر جو دمشق کے پاس ہے میں پیدا ہوئے اس لئے نوی مشہور ہوئے۔

۲ بحار ، ج ۳ ص۳۰۷

۳ فتح المجید ص ۲۱۱

۴ توجہ رہے کہ یہاں پر ہم خاص طور پر علماء عقائد کی منطق سے بحث کر رہے ہیں ۔

۵- بحار اور دیگر کتب ۔

توبہ کرنے والوں کو شفاعت کی ضرورت

جو کچھ کہا گیا ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ توبہ کرنے والوں کو شفاعت کی ضرورت کیوں ہے جب کہ مسلم مذہبی عقائد کے مطابق گناہ سے ندامت اور توبہ تنہا گناہ کی بخشش کا موجب ہے ۔

اس موضوع کی دو دلیلیں ہیں :

۱ توبہ کرنے والے بھی معنوی مقامات کی بلندی ، پرورش اور ارتقاء کے لئے شفاعت کے محتاج ہیں ۔

۲ بہت سے علماء کو ایک بہت بڑا اشتباہ تاثیر توبہ کے مسئلے میں پیش آتا ہے جو ایسے اشکالات کا سبب بنتا ہے وہ یہ کہ ان کا تصور یہ ہے کہ توبہ ندامت اور گناہ پر سے پشیمانی ، انسان کو گناہ سے قبل والی حالت کی طرف پلٹا دیتی ہے حالانکہ ہم اپنے مقام پر کہ چکے ہیں کہ کئے ہوئے گناہ پر ندامت اور آئندہ کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ، توبہ کا صرف پہلا مرحلہ ہے اور وہ بالکل اس دوا کی طرح ہے جو بیماری کو ختم کردیتی ہے ۔ واضح ہے بخار دور ہوجانے اور بیماری کے جڑ سے ختم ہوجانے سے اگرچہ بیمار اچھا ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ ایک عام آدمی کی حالت میں ہر گز نہیں آتا بلکہ اسے اپنے جسم کو پھر سے توانا بنانے کے لئے ایک مدت تک کوشش درکار ہے پھر کہیں وہ بیمار ی سے پہلے والی حالت پر پہنچ پائے گا ۔

یہ الفاظ دیگر توبہ کے کئی مرحلے ہیں گناہ پر نادم ہونا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا یہ تو صرف پہلا مرحلہ ہے ۔ اس کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ توبہ کرنے والا ہر لحاظ سے گناہ سے پہلے کی روحانی حالت میں لوٹ آئے ۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اور ان سے ربط و تعلق اثر بخش ہو سکتا ہے ۔ اس کے لئے زندہ شاہد استغفار سے متعلق وہی آیات ہیں جن کی ہم پہلے ہی نشاندہی کر چکے ہیں کہ مجرم کی توبہ کے علاوہ پیامبر کی استغفار بھی قبولیت توبہ کی شرط قرار دی گئی ہے اسی طرح برادران یوسف کی توبہ کے ضمن میں حضرت یعقوب کا ان کے لئے استغفار کرنا ، سب سے واضح تو ملائکہ کا ان لوگوں کے لئے استغفار کرنا ہے جو صالح اور مصلح ہیں اور توبہ کرنے میں جن کے متعلق آیات پیش کی جا چکی ہیں

فلسفہ شفاعت :

مدارک شفاعت اور شفاعت کے سلسلے کی بحث سے ہم پر اس کا مفہوم واضح ہو چکا ہے۔

اب اس کے اجتماعی اور نفسیاتی فلسفوں کا سمجھنا مشکل نہیں رہا ۔

شفاعت کی حقیقت کی طرف مکمل توجہ سے اس کے معتقدین پر مندرجہ ذیل اثرات کے مرتب ہونے کا امکان ہے۔

۱ مایوسی کی روح سے مقابلہ:

جو لوگ سخت جرئم کے مرتکب ہو تے ہیں وہ ایک طرف تو وجدانی تکلیف میں مبتلا ء ہو تے ہیں اور دوسری طرف درگاہ خداسے بخشش سے مایو س ہوجاتے ہیں کیونکہ اس طرح گناہوں کی زندگی سے واپسی کا راستہ نہیں پاتے لہٰذاعملی طور پر کسی تجدیدنظرکے لئے تیا ر نہیں ہو تے اور مستقبل کے افق کی تیرگی کو دیکھ کر وہ طغیان وسرکشی میں زیادہ ہاتھ پاوں مارنے لگتے ہیں اسی طرح اسی عملی زندگی کے عنوان سے مقررات الٰہی کے بے سود ہونے کے قائل ہو جاتے ہیں با لکل اس بیمار کی طرح جو تندرستی سے مایو س ہوکر ہر چیز کی بندشو ں سے بے پر واہ ہوجائے چونکہ اب وہ بے دلیل اور بے اثر سمجھتاہے ۔

بعض اوقات وجدانی دردوتکلیف جو ایسے جرائم سے پیدا ہوتی ہے نفسیاتی خلل یامعاشرے سے دوری کی تحریک کا سبب بن جاتی ہے کیو نکہ اسی معاشرے نے اسے اس طرح آلودہ کیا ہے اس طرح گنہ گار ایک خطر ناک عنصر میں تبدیل ہو کر معاشرے کے لئے دکھ اور تکلیف کامرکز بن جاتا ہے ۔

ایسے عالم میں شفاعت پر ایمان اس کے سامنے روشنی کا ایک دریچہ کھو ل دیتا ہے اور بخشے جانے کی امید دلا کر اس اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے تجدید نظر اور گذشتہ کردار کے ازالئے اوراصلاح لے لئے اس شوق دلا تا ہے ا س طرح معاشرے سے قطع تعلق کی تحریک پیدا نہیں ہوتی اور نفسیاتی اطمیانا ن اسے ایک سالم اور صالح عنصر میں تبدیل ہونے کا امکان مہیا کرتا ہے ۔

اس بناء پر اگر ہم یہ کہیں کہ صحیح معنیٰ والی شفاعت لی طرف توجہ ایک اصلاح کنندہ وعامل ہے اوربرائی سے روکنے کا سبب ہے اور ایک مجرم گنہ گار فرد کو صالح بنا دیتا ہے تو یہ فضول بات نہیں ہو گی یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں عمر قید کے قیدیوں کے لئے بھی سفارش اور بخشش کا دریچہ دنیا کے مختلف قوانین میں کھلاہے تاکہ کہیں یاس وناامیدی انہیں قید خانوں میں کسی خطرناک اقدام کی طرف نہ لے جائے یا نفساتی خلل میں مبتلا نہ کرے