تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72796
ڈاؤنلوڈ: 3849


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72796 / ڈاؤنلوڈ: 3849
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۵۱،۵۲،۵۳،۵۴

( و اذ وٰعدنا موسٰی ا ربعین لیلة ثم اتخذ تم العجل من بعد ه و انتم ظٰلمون ) ۵۱ ۔

( ثم عفونا عنکم من بعد ذٰلک لعلکم تشکرون ) ۵۲ ۔

( و اذاٰتینا موسی الکتاب والفرقان لعلکم تهتدون ) ۵۳ ۔

( و اذ قال موسی لقومه یٰقوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبو ا الی بارئکم فاقتلو ا انفسکم ط ذٰلکم خیر لکم عند بارئکم ط فتاب علیکم ط انه هو التواب الرحیم ) ۵۴ ۔

ترجمہ

۵۱ ۔اور (یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے موسٰی سے چالیس را توں کا وعدہ کیا ( اور وہ تم سے جدا ہوکر چالیس راتوں کے لئے وعدہ گاہ پر احکام لینے کے لئے آیا ) پس تم نے بچھڑے کو اپنے معبود کی حیثیت سے ) منتخب کرلیا ۔ حالانکہ اس کام سے تم اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے تھے ۔

۵۲ ۔ پھر ہم نے اس کام کے بعد تمہیں بخش دیا کہ شاید تم اس نعمت کا شکر کرو ۔

۵۳ ۔ نیز ( یاد کرو اس وقت کو ) جب ہم نے موسٰی کو کتاب دی جو حق و باطل کی تشخیص کا ذریعہ تھی کہ شاید تم ہدایت حاصل کرو ۔

۵۴ ۔ اور( وہ وقت بھی جب ) موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم تم نے بچھڑے کا انتخاب کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔

توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کرو ۔تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں یہ کام تمہارے لئے بہتر ہے پھر خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ تواب و رحیم ہے۔

تاریخ بنی اسرائیل کے ایک بھر پور واقعے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

ان چار آیات میں تاریخ بنی اسرائیل کے ایک بھر پور واقعے کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہودیوں کو اس کی یاد دہانی کرائی گئی ہے یہ آیت یہودیوں کی طویل تاریخ میں ان کی بہت بڑی کجروی کے متعلق گفتگو کرتی ہیں اور وہ ہے اصل توحید سے شرک اور بچھڑا پرستی کے ٹیڑھے راستے کی طرف ان کا سفر ۔

انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ تم تاریک میں ایک مرتبہ فاسدین کے گمراہ کرنے کے باعث ایسی سخت سر نوشت سے دوچار ہوئے تھے ، اب بیدار اور خالص توحید کا راستہ اسلام اور قرآن کے ذریعہ تمہارے سامنے کھولا گیا ہے اسے فراموش نہ کرو ۔

یہ آ یا ت حضرت موسٰی کے کوہ طور کی طرف جانے کے واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے جو چالیس شب وروز میں انجام پزیر ہوا اور یہ آیات بتاتی ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کیسے گاؤ پرستی میں پڑ گئے ۔ نیز حضرت موسٰی کی کتاب ہدایت کے ساتھ واپسی ، بنی اسرائیل کی نئے رنگ کی توبہ کا مسئلہ اور خدا کی طرف سے اس کی قبولیت کو بیان کرتی ہیں ۔

پہلے کہتا ہے کہ یاد کرو اس زمانے کو جب ہم نے موسٰی کے ساتھ چالیس راتون کا وعدہ کیا( و اذ وٰعدنا موسی ٰ اربعین لیلة ) ۔

جب وہ تم سے جدا ہوئے اور اور تئیس راتوں کی میعاد چالیس ہوگئی تو ان کے جانے کے بعد تم نے بچھڑے کو اپنے معبود کی حیثیت سے منتخب کرلیا حالانکہ اس علم سے تم اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے( ثم اتخذ تم العجل من بعد ه و انتم ظٰالمون ) اس ماجرے کی تفصیل سورہ اعراف کی آیت ۱۴۲ سے بعد تک اور سورہ طٰہ کی آیت ۸۶ سے بعد تک آپ پڑھیں گے جس کا خلاصہ یہ ہے۔

اس کے بعد کہ بنی اسرائیل فرعونیوں کے چنگل سے نجات پاچکے اور فرعون اور اس کے پیرو کار غرق ہوگئے تو حضرت موسٰی کو حکم ہوا کہ تورات کی تختیا ں لینے تئیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جائیں لیکن بعد میں لوگوں کی آزمائش کے لئے دس راتوں کا اضافہ کر دیا گیا ۔ سامری جو ایک مکار اور فریب کار آدمی تھا اس نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور بنی اسرائیل کے پاس جو سونا اور جواہرات فرعونیوں کی یادگار کے طور پر موجود تھے ۔ ان سے ایک بچھڑا بنایا جس سے ایک خاص قسم کی آواز سنائی دیتی تھی ۔ وہ بنی اسرائیل کو اس کی عبادت وپرستش کی دعوت دیتا تھا ۔بنی اسرائیل کی ایک بڑی اکثریت اس سے مل گئی حضرت ہا رون جو حضرت موسٰی کے جانشین اور بھائی تھے ایک اقلیت کے ساتھ آئین توحید پر باقی رہے انہو ں نے جس قدر کوشش کی کہ انہیں اس غلط راستے سے روکیں وہ نہ رک سکے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت ہارون کو ختم کرنے پر تیار ہوگئے۔

حضرت موسی جب کوہ طور سے واپس آئے اور اس عجیب صورت حا ل کو دیکھا تو انہیں سخت تکلیف اور دکھ پہنچا ۔ انہوں نے ان لوگوں پر بہت لعنت ملامت کی چنانچہ وہ اپنے برے کام کی برائی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کرنے لگے۔ حضرت موسٰی نے خدا کی طرف سے ایک نئے رنگ کی توبہ ان کے سامنے پیش کی جس کی تفصیل بعد کی اایات میں آئے گی ۔

اگلی آیت میں خدا کہتا ہے کہ اس بڑے گناہ کے باوجود ہ نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید ہماری نعمتوں کا شکر ادا کرو( ثم عفونا عنکم من بعد ذٰلک لعلکم تشکرون )

اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے کہتاہے :نیز یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے موسٰی کو کتاب اور حق وباطل کی پہچان کا وسیلہ عطا کیا تاکہ تمہاری ہدایت ہوجائے( و اذاٰتینا موس الکتاب والفرقان لعلک م تهتدون ) ۔

ممکن ہے کتاب وفرقان دونوں سے مراد تورات ہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتاب تورات کی طرف اشارہ ہو اور فرقان ان معجزات کی طرف اشارہ ہو جو اللہ تعالی نے حضرت موسٰی کے اختیار میں دیئے تھے ( کیونکہ فرقان کا اصلی معنی ہے وہ چیز جو حق کو باطل سے انسان کے لئے ممتاز کردے)۔

اس کے بعد اس گناہ سے توبہ کے سلسلہ میں کہتا ہے : اور یاد کرو اس وقت کو جب موسی نے اپنی قوم سے کہا اے قوم تم نے بچھڑے کو منتخب کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے( و اذ قال موسٰی لقومه یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل ) اب جو ایسا ہو گیا ہے تو توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف پلٹ جاآؤ( فتوبو الی بارئکم ) باری کے معنی ہیں خالق در اصل اس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز سے جدا کرنا ۔ خالق چونکہ مخلوق کو مواد اصلی اور ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے لہذا اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس سخت توبہ کا حکم وہی ذات دے رہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ تمہاری توبہ اس طرح ہونی چاہئے کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو( فاقتلو انفسکم ) ۔ یہ کام تمہارے لئے تمہارے خالق کی بارگاہ میں بہتر ہے( ذٰلکم خیر لکم عند بارئکم ) اس ماجرے کے بعد خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی جو تو ا ب و رحیم ہے( فتاب علیکم ط انه هو التوب الرحیم ) ۔

عظیم گناہ اور سخت سزا

اس میں شک نہیں کہ سامری کے بچھڑی کی پرستش و عبادت کوئی معمولی بات نہ تھی وہ قوم جو خدا کی یہ تمام آیات دیکھ چکی تھی اور اپنے عظیم پیغمبر کے معجزات کا مشاہدہ کرچکی تھی ان سب کو بھول کر پیغمبر کی ایک مختصر سی غیبت میں اصل توحید اور آئین خدا وندی کو پورے طور پر پاؤں تلے روندے اور بت پرست ہوجائے اب اگر یہ بات ان کے دماغ سے ہمیشہ کے لئے جڑ سے نہ نکالی جاتی تو خطرناک حالت پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اور ہر موقعہ کے بعد اور خصوصاَ حضرت موسٰی کی زندگی کے بعد ممکن تھا ان کی دعوت کی تمام آیات ختم کردی جاتیں اور عظیم قوم کی تقدیر مکمل طور پر خطرے سے دو چار ہوجاتی ۔

لہذا یہاں شدت عمل سے کام لیا گیا اور صرف پشیمانی اور زبان سے اظہار توبہ پر ہرگز قناعت نہ کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی طرف سے ایسا سخت حکم صادر ہوا جس کی مثال تمام انبیاء کی طویل تاتریخ میں کہیں نہیں ملتی اور وہ یہ کہ توبہ اور توحید کی طرف باز گشت کے سلسلہ میں گناہگاروں کے کثیر گروہ کے لئے اکھٹا قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔ یہ فرمان بھی ایک خاص طریقہ سے جاری ہونا چاہیے تھا اور وہ یہ ہو ا کہ وہ لوگ خود تلواریں لیکر ایک د وسرے کو قتل کریں کہ ایک اس کا اپنا مارا جانا عذاب ہے اور دوسرادوستوں اور شناساؤں کا قتل کرنا ۔

بعض روایات کے مطابق حضرت موسٰی نے حکم دیا کہ ایک تاریک رات میں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑ ے کی عبادت کی تھی غسل کریں ۔ کفن پہنیں اور صفیں باندھ کر ایک دوسرے پر تلوار چلائیں ۔

ممکن ہے یہ تصور کیا جائے کہ یہ توبہ کیوں اس سختی سے انجام پزیر ہوئی ۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ خدا ان کی توبہ کو بغیراس خونریزی کے قبول کر لیتا ۔

اس سوال کا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اصل توحید سے انحراف اور بت پرستی کی طرف جھکاؤ کا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا کہ اتنی آسانی سے در گذر کردیا جاتا اور وہ بھی ان معجزات اور خدا کی بڑی بڑی نعمتوں کے مشاہدے کے بعد ۔

در حقیقت ادیان آسمانی کے تمام اصولوں کو توحید اور یگانہ پرستی میں جمع کیا جاسکتا ہے ۔ اس اصل کا متزلزل ہونا دین کی تمام بنیادوں کے خاتمے کے برابر ہے اگر گاؤ پرستی کے مسئلے کو آسان سمجھ لیا جاتا تو شاید آنے والے لوگوں کے لئے سنت بن جاتا ۔خصوصاَ بنی اسرائیل کےلئے جن کے بارے میں تاریخ شاہد ہے کہ ضدی اور بہانہ ساز لوگ تھے لہذا چاہیئے کہ ان کی ایسی گوشمالی کی جائے کہ اس کی چبھن تمام صدیوں اور زمانوں تک باقی رہ جائے کہ اس کے بعد کوئی شخص بت پرستی کی فکر میں نہ پڑے اور شاید یہ جملہ ”( ذالکم خیر لکم عند بارئکم ) “ یعنی یہ قتل و کشتار تمہارے خالق کے یہاں تمہاری بہتری کے لئے ہے ۔ اسی طرف اشارہ ہو۔

آیات ۵۵،۵۶

( و اذ قلتم یٰموسٰی لن نومن لک حتی نری الله جهرة فاخذتکم الصٰعقة وانتم تنظرون ) ۵۵ ۔

( ثم بعثنٰکم من بعد موتکم لعلکم تشکرون ) ۵۶ ۔

ترجمہ

۵۵ ۔ اور یا د کرو وہ وقت ) جب تم نے کہا اے موسٰی ! ہم خدا کو آشکار ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھے بغیر تم پر ہر گز ایمان نہیں لائیں گے ۔ اسی حالت میں تمہیں بجلی نے آن لیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے ۔

۵۶ ۔ پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندگی بخشی کہ شاید خدا کی نعمت کا شکر بجالاؤ

یہ دو آیات خدا کی ایک بہت بڑی نعمت کی یاد دلاتی ہیں ۔

یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ وہ لوگ کس قدر ہٹ دھرم اور بہانہ ساز تھے اور کیسے خدا کے سخت عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا لیکن پھر خد ا کا لطف وکرم ان کے شامل حال ہوا ۔

فرماتاہے : نیز یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کہا : اے موسٰی ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو اپنی آنکھ سے ظاہر بظاہر دیکھ نہ لیں( و اذ قلتم یٰموسی ٰ لن نو من لک حتی نر ی الله جهرة ) ۔

ممکن ہے یہ خواہش ان کی جہالت کی وجہ سے ہو کیونکہ نادان لوگ اپنے محسوسات سے زیادہ کسی چیز کا شعور نہیں رکھتے یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا کو آنکھ سے دیکھیں یا پھر وہ ہٹ دھرمی اور بہانہ جوئی کی خاطر ایسا کرتے تھے جو اس قوم کی خصوصیت تھی اور اب بھی ہے ۔بہر حال انہوں نے صراحت سے حضرت موسی سے کہا کہ جب تک خدا کوظاہری آنکھ سے دیکھ نہ لیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ۔ یہاں اس کے علاوہ چارہ کا ر نہ تھا کہ خدا کی ایسی مخلوق انہیں دکھا ئی جاتی جسے دیکھنے کی ان میں تاب نہ ہو اور وہ جان لیں کہ ظاہری آنکھ تواس سے بھی ناتواں ہے کہ خد اکی تمام مخلوقات کو دیکھ سکے ۔ چہ جائیکہ ذات پاک پرور دگار کو دیکھے ۔چنانچہ چند ھیا دینے والی چمک ،رعب دار آواز اور زلزلے کے ساتھ بجلی آئی اور پہاڑ پر گری ۔اس نے سب کواس طرح وحشت زدہ کردیا کہ وہ بے جان ہوکر زمین گر پڑے جیساکہ قرآن مندرجہ بالاجملہ کے بعد کہتا ہے پھر اس حالت میں صاعقہ نے تمہیں آلیاکہ تم دیکھ ر ہے تھے( فاخذتکم الصا عقة و انتم تنظرون )

حضرت موسی اس واقعے سے بہت پریشان ہوئے کیونکہ بنی اسرئیل کے بہانہ جو لوگوں کے لئے تو ستر افراد کا ختم ہوجاناایک بڑابہانہ تھا جس کی بنیاد پرحضرت موسی کی زندگی تیرہ وتار کرسکتے تھے ۔لہذا آپ نے خداسے دوبارہ زندگی کی درخواست کی جسے اس نے قبو ل کرلیا جیسا کہ قرآن کی بعد والی آیت میں کہتا ہے :پھر تمہاری مو ت کے بعد ہم نے تمہیں نئی زندگی بخشی کہ شاید تم خدا کی نعمت کا شکریہ اداکرو( ثم بعثناکم من بعد موتکم لعلکم تشکرون ) ۔اجمالی طور پر ان دو آیات میں جو کچھ بیان ہواہے سورہ اعراف آ یہ ۵۵ اور سورہ نساء ۵۳ میں تفصٰل سے بیان ہوا ہے(۱)

بہر حال یہ داستان نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے عظیم انبیا ء جاہل اور بے خبر لوگوں کو دعوت دینے کی راہ میں کن عظیم مشکلات سے دوچار ہوتے تھے ۔کبھی تو وہ لوگ قسم قسم کے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اورکبھی اسے بھی آگے قدم رکھتے تھے اور اس ظاہری آنکھ سے خداکو دیکھنے کی خواہش کرتے اور قطعاََکہتے کہ جب تک ہماری یہ تمنا انجام پذیر نہ ہو ہمارا ایمان لانا محا ل ہے اور جب خداکی طرف سے کسی شدید رد عمل سے دوچار ہوتے پھر بھی ایک نئی مشکل در پیش ہوتی ۔اگر لطف خدا شامل حال نہ ہوتا تو ان بہانہ سازیوں کا مقابلہ ممکن نہ تھا ۔

ضمنی طور پر آیت امکان رجعت اور اس دنیا میں دوبارہ زندگی گذارنے پردلالت کرتی ہے کیونکہ ایک مقام پراس کا واقع ہونا دوسرے مواقع پر بھی اس کے ممکن اورواقع ہونے کے لئے دلیل ہے ۔بعض اہل سنت مفسرین جو یہ چاہتے ہیں رجعت اور دوبارہ زندگی کو قبول نہ کیاجائے انہوں نے مندرجہ بالاآیت کی توجیہ کی ہے اور کہا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ کے واقعہ ”صاعقہ “میں مرجانے کے بعد خدا نے تمہیں بہت سی اولاد اور افزائش نسل دی ہے تاکہ تمہارا خاندان ختم نہ ہو ۔(۲)

لیکن یہ توکہے بغیر بھی واضح ہے کہ یہ تفسیر مندرجہ بالا آیت کے ظاہری مفہوم کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ خداتو فرما تا ہے وبعثناکم من بعد موتکم ( تمہیں تمہاری موت کے بعد ہم نے اٹھایا(۳)

____________________

۱ زیادہ وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۴کی طرف رجوع فرمایئے ۔

۲- تفسیرالمنارج ۱،ص۳۲۲

۳ - بعض مفسرین مثلا آلوسی نے روح المعانی میں نقل کیا ہے کہ موت سے یہاں مراد بے ہوشی ہے یعنی بنی اسرائیل صاعقہ عظیم دیکھنے سے بے ہوش ہوگئے تھے پھر حکم خد ا سے ہوش میں آئے بعض مفسرین نے توجیہ کرنے میں قدم کچھ اور آگے بڑھا یا ہے اور ” موت “کے معنی جہالت اور ” بعث “ کے معنی تعلیم کئے ہیں لیکن یہ آیات اور ان کے مثل دیگر آیات جو سورہ اعراف میں ہیں ان پر غوروفکر کرنے سے واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی توجیہ بھی پسند مفسر کو زیب نہیں دیتی ۔

آیت ۵۷

( وظللنا علیکم الغمام وانزلناعلیکم المن والسلوٰی ط کلوامن طیبٰت مارزقنٰکم ط وماظلموناولٰکن کانوا انفسکم یظلمون ) ۵۷ ۔

ترجمہ

۵۷ ۔ اور ہم نے بادل کے ذریعہ تم پر سایہ ڈالااور من(درختوں کا لذیذشیرہ )وسلوی (کبوتر کی طرح کے مخصوص مرغ )کے ساتھ تمہاری تواضع کی ۔ (اور ہم نے کہا )ان پاکیزہ نعمتوں سے جو ہم نے دیں ہیں کھاو۔انہوں نے ہم پر تو کوئی ظلم نہیں کیابلکہ اپنے نفسوں پرہی ظلم کیاہے ۔

بنی اسرائیل جب فرعونیوں کے چنگل سے نجات پاچکے تو خداو ند عا لم کا حکم

سورہ مائدہ کی ۲۰ تا ۲۲ آیات سے ظاہرہوتا ہے بنی اسرائیل جب فرعونیوں کے چنگل سے نجات پاچکے تو خداو ند عا لم نے انہیں حکم دیاکہ وہ فلسطین کی تقدس سر زمین کی طرف جائیں اوراس میں داخل ہو جائیں لیکن بنی اسرائیل اس فر مان کے مطابق نہ گئے اور کہنے لگے جب تک ستمگار (قوم عمالقہ )وہا ں سے باہر نہ چلے جائیں ہم اس زمین میں داخل نہیں ہوں گے ۔انہوں نے اسی پر اکتفانہ کی بلکہ وہ حضرت موسی سے کہنے لگے کہ تواور تیر ا خدا ان سے جنگ کرنے جاو جب تم کامیاب ہو جاو گے توہم ا س میں دا خل ہو جائیں گے ۔

حضرت مو سی ان کی اس بات سے بہت رنجیدہ خاطر ہو ئے اورانہوں نے درگاہ الٰہی میں شکایت کی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ چالیس سال تک بیاباں (صحرائے سینا ) میں اسی طرح سر گرداں رہے

اان میں سے ایک گروہ اپنے کئے پر سخت پشیمان ہو ۔انہوں نے بارگاہ خداکا رخ کیا۔ خدا نے دوسری مرتبہ بنی اسرایئل کو اپنی نعمتوں سے نوازا ۔جن میں بعض کی طرف زیر بحث آیت میں اشارہ کیاگیاہے ۔

ہم نے تمہارے سر پر بادل سے سایہ کیا( ظللناعلیکم الغمام ) واضح ہے کہ وہ مسافر جو روزانہ صبح سے غروب تک سورج کی گرمی میں بیابان میں چلتاہے اور وہ ایک لطیف سایہ سے کیسی راحت پائے گا (وہ سا یہ جو بادل کاہوجس سے انسان کے لئے نہ توفضا محدود ہوتی ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو )یہ صحیح ہے کہ بادل کے سایہ فگن ٹکڑوں کا احتمال ہمیشہ بیابان میں ہوتا ہے لیکن آیت واضح طور پر کہ رہی ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایسا عام حالات کی طرح نہ تھا بلکہ وہ لطف خدا سے اکثر اس عظیم نعمت سے بہرہ ورہوتے تھے

دوسری طرف اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں چاالیس سال کی طویل مدت سر گر داں رہنے والوں کے لئے غذا کی کافی ووافی ضرورت تھی ۔اس مشکل کو بھی خدا وند عالم نے ان کے لئے حل کردیا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں کہتاہے :کہ ہم نے من وسلوی ٰجو لذیذ اورطاقت بخش غذا ہے تم پر نازل کیا( وانزلنا علیکم المن والسلویٰ ) ان پاکیزہ غذاوں سے جو تمہیں روزی کے طور پر دی گئی ہیں کھاو(اور حکم خدا کی نافرمانی نہ کرو اور اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرو )( کلوامن طیبٰت مارزقنٰکم ) لیکن وہ پھر بھی شکر گزاری کے دروازہ میں داخل نہ ہوئے (تا ہم ) نہوں نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے اوپر ہی ظلم کیا ہے( وما ظلمانا ولٰکن کانوا انفسهم یظلمون )

من وسلویٰ کی تفسیر مندرجہ ذیل نکات میں تفصیل سے بیا ن کی جائے گی-

آزاد ماحو ل کی زندگی:

اس سے قطع نظر کہ بادل ان پر کیسے سایہ کرتا تھا اور من وسلو ی کیا تھا اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایک بہت بڑی قوم کے لوگ سالہاسال سے کمزوری ،ذلت ا ور زبوں حالی میں بغیر اراد ہ وخواہش کے مجبورا فرعونیوں کے محلات میں خدمت کرتے تھے یا ان کے کھیتو ں اور باغ وں میں زحمت اور تکلیف اٹھاتے تھے طبعی بات ہے کہ وہ اس قابل نہ تھے کہ فورا تمام گذشتہ اخلاق وعادات سے آزاد ہوکر انقلابی بنیاد پر ایک مستقل خدائی حکومت قائم کریں ۔بہر صورت اس قوم کے لئے ضروری تھا کہ گذشتہ رسومات کے خاتمے ا ور قابل افتخار زند گی گذارنے کی تیاری کے لئے برزخ کا ایک زمانہ گذارے چاہے یہ زمانہ چالیس سال یااس سے کم وبیش ہو ۔اگر قرآن اس کا سزا کے طور پر تعارف کراتا ہے تو بھی یہ اصلاح کرنے والی اور بیدار کروالی سزاہے کیو نکہ خداکی طرف سے جتنی بھی سزائیں ہیں ان میں انتقا م کا جذبہ کارفرما نہیں ہوتا ۔

چاہئیے تھاکہ و ہ سالہاسال اس بیابان جسے ان کی سر گردانی کی وجہ سے ”قید “ کہاجانے لگا تھامیں رہیں تاکہ ستمگروں کے ہرقسم کے تسلط سے دور رہیں اور ان کی نئی نسل توحیدی وانقلابی خصوصیات کے ساتھ پرورش پائے اور مقدس سر زمینون پرحکومت کرنے کے لئے تیار ہوجائے ۔

من وسلوی ٰکیاہے :

مفسرین نے ان دو الفاظ کی تفسیر میں بہت سی باتیں کہی ہیں جن سب کے ذکر کر نے کی یہاں ضرورت نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ پہلے ان کے لغوی معنی اور وہ تفسیر جو زیادہ فصیح نظر آتی ہے اور آیات کے قرئن سے زیادہ ہم آہنگ ہے بیان کریں ۔بعض کے بقول لغت میں ”من “شبنم کی طرح کے ان چھوٹے چھوٹے قطرات کو کہتے ہیں جو درختوں پر گرتے ہیں اورمیٹھا ذائقہ رکھتے ہیں ۱ یابعض کے بقول ایک قسم کا صمغ (درخت کا شیرہ )ہے جس کاذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس کاذائقہ میٹھا لیکن ترشی سے ملا ہو تا ہے

(سلویٰ)کے اصل معنی تو ہیں اطمینا ن اورتسلی ۔بعض ارباب لغت اور بہت سے مفسرین نے اسے ایک قسم کا پرندہ (بٹیر یاتیتر )قراردیاہے ۔

لیکن نبی اکرم سے منقول ایک روایت کے مطابق ، آپ نے فرمایا:”الکماةمن المن “

کھمبی کی ایک قسم کی ایک چیز تھی جو اس زمین میں اگتی تھی

بعض نے کہاہے کہ من سے مراد ہے وہ تمام نعمتیں جوخدا نے بنی ا سرائیل کو عطا فرمائی تھیں اور سلوی وہ تمام عطیات ہیں جو ان کی راحت وآرام اور اطمینان کاسبب تھے

تورات میں ہے کہ ”من“دھنیے کے د انوں جیسی کوئی چیزہے جو رات کو اس زمین پر آگر تی ہے ۔بنی اسرا ئیل اسے اکٹھا کرکے پیس لیتے اور اس سے روٹی پکا تے تھے جس کا ذائقہ روغنی روٹی جیسا ہو تا تھا ۔

ایک احتما ل اور بھی ہے کہ بنی اسرایئل کی سر گر د انی کے زمانے میں خدا کے لطف وکرم سے جو نفع بخش بارشیں برستی تھیں ان کے نتیجے میں درختوں سے کوئی خاص قسم کا صمغ اور شیرہ نکلتاتھااور بنی اسرایئل اس سے مستفید ہوتے تھے ۔

بعض دیگرگ حضرات کے نزدیک ”من“ایک قسم کا طبعی شہد ہے اور بنی اسرائیل اس بیابان میں اس طویل مدت تک چلتے پھرتے رہنے سے شہد کے مخزنوں تک پہنچ جاتے تھے کیونکہ بیابان تیہ کے کناروں پرپہاڑ اورسنگلاخ علاقہ تھا جس میں کافی طبعی شہد نظر آجاتا تھا ۔

عہدین (توریت اور انجیل ) پرلکھی گئی تفسیر سے اس تفسیر کی تائید ہو تی ہے جس میں ہے کہ مقدس سر زمین قسم قسم کے پھولوں اور شگوفوں کی وجہ سے مشہور ہے اسی لئے شہد کی مکھیو ں کے جتھے ہمیشہ پتھروں کے سوراخوں ، درختوں کی شاخوں اور لوگو ں کے گھر وں پر جا بیٹھے ہیں اس طرح سے بہت فقیر ومسکین لوگ بھی شہد کھا سکتے ہیں ۔(۲)

اب ہم سلویٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

اگرچہ مفسرین نے اسے شہد کے ہم معنی لیا ہے لیکن دوسر ے تقریبا مفسرین نے اسے پرندہ کی ایک قسم قرا ر دیاہے ۔ یہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقو ں سے کثرت سے اس علاقے میں آتا ہے اور بنی اسرائیل اس کے گوشت سے استفادہ کرتے ہیں عہدین پرلکھی گئی تفسیر میں بھی اس نظریئے کی تائید دکھائی دیتی ہے اس میں لکھاہے ۔

معلوم ہونا چاہیئے کہ بہت بڑی تعداد میں سلو ی افریقہ سے چل کر شمال کو جاتے ہیں ۔جزیرہ کاپری میں ایک فصل میں ۱۶ ہزار کی تعداد میں انکا شکار کیا گیا ۔یہ پرند ہ بحیرہ قلزم کے راستے سے آتاہے خلیج عقبہ اورسویز کو عبو رکرتا ہے ۔ ہفتے کو جزیرہ سینا میں داخل ہو تا ہے ا ور راستے میں اس قدر تکان وتکلیف جھیلنے کی و جہ سے آسانی سے ہاتھ پکڑا جاسکتا ہے اور جب پرواز کرتا ہے توزیادہ تر زمین کے قریب ہوتاہے اس حصے کے متعلق ( تورات کے)سفرا خروج اور سفراعداد میں گفتگو ہو ئی ہے(۳)

اس تحریر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سلوی سے مراد وہی پرگوشت پرندہ ہے جو کبو تر کے مشابہ اور اس کے ہم وزن ہوتاہے اوریہ پرند ہ اس سرزمین میں مشہور ہے ۔البتہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے دنو ں میں ان پر یہ خداکا خاص لطف وکرم تھا کہ یہ پرند ہ وہا ں کثرت سے ہو تا تھا تا کہ و ہ اس سے استفادہ کرسکیں

____________________

۱مفرد ات را غب مادہ من

۲-قامو س کتاب مقدس ص ،۶۱۲

۳- قاموس کتاب مقدس ،ص۴۸۳

”انزلنا“کیوں کہا گیا :

کہ انزلنا سے مراد ہمیشہ اوپر سے نازل کرنا نہیں ہوتا جیسا کہ سورہ زمر کی آیت ۶ میں ہے ۔

( انزل لکم من الانعام ثمٰنیةازواجِِ )

چوپایوں کے آٹھ جوڑے تمہارے لئے نازل کئے ۔“

ہم جانتے ہیں کہ چوپائے آسمان سے نہیں اترتے ۔اس بناء پر ایسے موقع پریہ نزول مقامی کے معنی میں ہے یعنی وہ نعمت جو ایک برترمقام سے پست مقام کو دی جائے اورچونکہ یہ تمام نعمتیں خدا کی طرف سے ہیں لہذا انہیں نزول سے تعبیر کیاگیاہے اور یاپھر مادہ انزال سے مہمان نوازی کے معنی میں لیا گیاہے کیونکہ بعض اوقات انزال ونزول (بروزن رسل )پذیرا ئی کر نے کے لئے بھی آتا ہے جیسا کہ سورہ واقعہ آیت ۹۳ میں درختوں کے دوگروہوں میں سے ایک کے بارے میں ہے :( فنزل من حمیم ) لہذا حمیم ( دوزخ کا جلانے والا مشروب )ان کی پذیرائی کے لئے پیش کیاجائے گا:

نیز سورہ آل عمران آیہ ۱۹۸ میں اہل بہشت کے بارے میں ہے :( خلدین فیها نزلا من عندالله )

وہ ہمیشہ بہشت میں خداکے مہمان ہوں گے ۔بنی اسرائیل در حقیقت اس سر زمین میں خداکے مہمان تھے لہذا من وسلوی کے لئے نزول کی تعبیر ہی ان کے بارے میں منطبق ہو تی ہے یہ احتمال بھی ہے کہ یہا ں نزول اپنے اسی مشہور معنی میں ہو کیونکہ یہ نعمتیں خصوصاَ (سلوی )پرندہ اوپر ہی سے ان کی طرف آتے تھے ۔

غمام کیا ہے

بعض غمام اور سحاب دونوں کو بادل کے ہم معنی سمجھتے ہیں اوران کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں لیکن بعض کا نقطہ نظریہ ہے کہ غما م سفید رنگ کے بادل کو کہا جاتا ہے اور بعض اس کی تعریف میں کہتے ہیں کہ غمام وہ بادل ہے جو ز یاد ہ سرد اورنازک ہوتا ہے جبکہ سحاب بادل کے ایسے اکٹھ کو کہتے ہیں جو غمام کے مد مقابل ہے ۔غمام اصل میں مادہ سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کوچھپانا ۔بادل کوغمام کہنے کہ وجہ یہی ہے کہ وہ صفحہ آ سمان کو چھپا دیتا ہے اندوہ کو بھی غم کہنے کی وجہ یہی ہے کہ ا نسان کے دل کو پردہ میں چھپا لیتا ہے(۱)

بہر حال ممکن ہے یہ تعبیر اس لئے ہو کہ بنی اسرائیل بادل کے سائے میں مستفیدہورہے تھے اورساتھ ہی ساتھ بادلوں کی سفیدی کی و جہ سے روشنی بھی ان تک چھن چھن کرپہنچ رہی تھی ۔

____________________

۱روح المعانی ،زیر نظر آیات کے ذیل میں ومفردات ِراغب مادہ”غم “

من وسلوی کی ایک اور تفسیر :

بعض مفسرین نے من و سلوی کی معروف تفسیر کی بجائے ا یک ا ور تفسیر کی ہے وہ کہتے ہیں ”من “سے مراد ناشکرگزاروں پر احسان مطلق اور بے شمار خدائی نعمت ہے اورسلوی سے مراد دل کاوہ اطمینان ہے جوخداوندعالم نے بنی اسرائیل کے چنگل سے نجات عطاکرکے مر حمت فرمایاہے(۱)

یہ تفسیر تقریبا تمام مفسرین ، اسلامی روایات اورکتب عہدین کے خلاف ہونے کے علاوہ

آیت کے متن سے بھی میل نہیں کھاتی کیونکہ قرآن من سلوی کے ذکر کے فورابعد بلا فاصلہ کہتا ہے ”کلوامن طیباتمارزقناکم“یہ چیزنشان دہی کرتی ہے کہ من وسلوی کھانے والی چیزوں میں ہے یہ تعبیر نہ صرف اس آیت میں ہے بلکہ بعینہ سورہ اعراف آیہ ۱۶۰ میں بھی ہے ۔

____________________

۱- پرتوی ازقرآن،ج،۱ص۱۶۵