تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72805
ڈاؤنلوڈ: 3852


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72805 / ڈاؤنلوڈ: 3852
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیت ۶۲

( ان الذین آمنوا والذین هادو اوالنصٰر والصٰبئین من آمن باالله والیوم الآ خر وعمل صالحا فلهم اجرهم عند ربهم ولاخوف علیهم ولا هم یحزنون ) ۶۲ ۔

ترجمہ

جو ایمان لائے ہیں (مسلمان)اوریہود نصاری اور صائبین (حضرت یحی ،حضرت نوح یا حضرت ابراہیم کے پیرو کا ر )جو بھی خدا اور آخرت کے دن پرایمان لائے اور عمل صالح بجالائے ان کی جزا واجر ان کے پرور دگار کے ہاں مسلم ہے اور ان کے لئے آئند ہ یاگزشتہ کسی قسم کا خوف وغم نہیں ہے اور ہر دن کے پیروکا ر جو اپنے عہد میں اپنی ذمہ د اریا ں ادا کرتے ہیں ان کے لئے اجر ہے ۔

ایک کلی اصول اور عمومی قانون

بنی اسرائیل سے مربو ط ابحاث میں دراصل قرآن ایک کلی اصول اور عمومی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قدرو قیمت حقیقت وواقعیت کی ہے نہ کہ ظاہر یت کہ ۔خداوند عالم کی بارگاہ میں ایمان خالص اور عمل صالح قابل قبول ہے جولوگ ایمان لے آئے ہیں (مسلمان )اسی طرح یہودی ، عیسائی اور صائبین حضرت یحیٰ،حضرت نوح حضرت ابراہیم کے پیرو کا ر )جو بھی خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک عمل انجام دیں ان کا اجر وعوض پرور دگار کے پاس مسلم ہے( ان الذین آمنوا والذین هادوا والنصٰر والصٰبئین من آمن باالله والیوم الآخر وعمل صالحا فلهم اجرهم عند ربهم ) لہذا انہیں آئندہ کا خوف ہے نہ گزشتہ کا غم( ولا خوف علیهم ولا هم یحزنون )

یہ آیت تقریبااسی عبارت کے ساتھ سورہ مائدہ کی آیہ ۶۹ میں آئی ہے ا ور کافی فرق کے ساتھ سورہ حج آیہ ۱۷ میں اس مفہوم کا ذکر ہوا ہے ۔سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت کے بعد کی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ یہودی وعیسائی اتراتے تھے کہ ہمارا دین دیگر ادیان سے بہتر ہے اور وہ جنت کو بلا شرکت غیراپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے اورشاید یہی فخر مسلمانوں کی ایک جماعت میں بھی تھا ۔زیر بحث آیت کہتی ہے کہ ظاہری ایمان (اسلام )عمل صالح کے بغیر چاہے مسلمانوں کا ہو یایہود ونصاری یاکسی اور دین کے پیروکاروں کا کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتا ۔خدااور قیامت کے دن کی بڑی عدالت پر حقیقت ااورخالص ایمان جو نیکی اور عمل صالح کے ساتھ ہو وہی خدا کی بارگاہ میں قدروقیمت کا حامل ہے ۔صرف یہی پروگرام جزااور اطمینان کاباعث ہے ۔

ایک اہم سوال

بعض بہانہ سازند کورہ بالا آیت کو غلط افکار لے لئے دستاویز کے طور پرپیش کرتے ہیں وہ اسے صلح کل کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر مذہب کے پیرو کو اپنے ہی مذہب پر عمل کرناچاہیئے لہذا ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ یہودی ،عیسائی یادوسرے مذہب کے پیروکار آج مسلما ن ہوجائیں بلکہ اگر وہ خدااور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ااورعمل صالح انجام دیں توکافی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے :

ہم واضح طور پر جانتے ہیں کہ قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ قرآن سورہ آل عمران آیہ ۸۵ میں کہتا ہے :

( و من یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منه )

اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اپنے لئے انتخاب کرے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا ۔

علاوہ از ایں قرآن یہود و نصاریٰ اور باقی ادیان کے ماننے والوں کو دعوت اسلام دےنے والی آیات سے بھرا پڑا ہے اگر مندرجہ بالا تفسیر صحیح ہو تو یہ قرآن کی بہت سی آیات سے صرےح تضاد ہو گا لہذا ضروری ہے کہ اس آیت کے واقعی اور حقیقی معنی تلاش کئے جائیں ۔

اس مقام پر دو تفسیر یں سب سے زیادہ واضح اور مناسب نظر آتی ہے ۔

( ۱) پہلی یہ کہ اگر یہود و نصاریٰ اور ان جیسے گروہ اپنی کتب کے مضامین پر عمل کریں تو مسلماََ رسول اسلام پر ایمان لے آئیں ، کیونکہ ان کتب ِ آسمانی میں مختلف صفات و علامات کے ساتھ آپ کے ظہور کی بشارت موجود ہے جس کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں آئے گی ۔

سورہ مائدہ اایہ ۶۸ میں ہے :( قل یا اهل الکتاب لستم علی شیء حتی ٰ تقیمو ا التوراة و الانجیل وما انزل الیکم )

کہیے کہ اے اہل کتاب ! تمہاری اس وقت تک کوئی قد ر وقیمت نہیں جب تک تم تورات ، انجیل اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوا ہے اسے قائم اور برقرار نہ رکھو ( اور اس میں سے ایک رسول اسلام پر ایمان لانا ہے جن کے ظہور کی بشارت تمہاری کتب میں آچکی ہے )۔

( ۲) دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کی نظر ایک سوال کی طرف ہے جو ابتد ائے اسلام میں بہت سے مسلمانوں کو مدینہ میں در پیش تھا وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر راہ حق و نجات فقط اسلام ہے تو ہمارے آباؤ اجداد کا کیا بنے گا ۔ کیا پیغمبر اسلام کو نہ پہچاننے اور ان پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے انہیں سزا و عذاب کا سامنا ہوگا ۔

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے خبر دی کہ جو شخص اپنے زمانے میں اس وقت کے برحق نبی اور کتاب آسمانی پر ایمان لے آیا ہو اور اس نے عمل صالح انجام دیا ہو وہ نجات یافتہ لوگوں میں ہے اور اس کے لئے فکر و تردد کی کوئی بات نہیں ۔

لہذا ظہو ر مسیح سے پہلے کے مومنین اورعمل صالح انجام دینے والے یہودی نجات یافتہ ہیں اور یہی صورت ظہور رسول اسلام سے پہلے کے عیسائی مومنین کی ہے ۔

یہی مفہوم مذکورہ آیت کی شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے جس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے ۔

چند اہم نکات

(۱) حضرت سلمان کی عجیب وغریب سر گذشت : اس آیت کی تفسیر میں جو شان نزول بیان ہوا ہے اسے یہاں ذکر کیا جائے تو مناسب نہ ہوگا ۔

تفسیر جامع البیان ( طبری ) جلد اول میں منقول ہے :

سلمان اہل جندیشا پور میں سے تھے ۔ حاکم وقت کے بیٹے سے ان کی پکی اور نہ ٹوٹنے والی دوستی تھی ۔ایک دن اکٹھے شکار کے لئے جنگل کی طرف گئے ۔ اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھا ۔ انہوں نے اس شخص سے اس کتاب کے متعلق کچھ سوالات کئے تو راہب نے ان کے جواب میں کہا : یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس کتاب میں زنا ، چوری اور لوگوں کا مال ناحق کھانے سے روکا گیا ہے ۔ یہ وہی انجیل ہے جو عیسیٰ مسیح پر نازل ہوئی ہے ۔راہب کی گفتگو نے ان کے دل پر اثر کیا اور بہت تحقیق کے بعد وہ دونوں اس کے دین کے پیرو ہوگئے ۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ اس سر زمین کے لوگوں کی ذبح کی ہوئی بھیڑ بکریوں کا گوشت حرام ہے ۔

سلمان اور حاکم وقت کا بیٹا روزانہ اس سے مذہبی مسائل سیکھتے تھے ۔ عید کا دن آگیا ۔حاکم نے ایک دعوت کا احتمام کیا جس میں اشرا ف اور بزرگان شہر کو دعوت دی گئی اور اس سلسلے میں اس نے اپنے بیٹے سے بھی خواہش کی کہ وہ اس دعوت میں شرکت کرے لیکن اس نے قبول نہ کی ۔ اس نے بہت اصرار کیا تو لڑکے نے بتایا کہ یہ غذا میرے لئے حرام ہے ۔ اس نے پوچھا تمہیں یہ حکم کس نے دیا ہے اس پر اس نے راہب کا تعارف کرایا ۔ حاکم نے راہب کو بلوایا اور اس سے کہا : چونکہ قتل ہماری نگاہ میں ایک بہت بڑا اور برا کام ہے لہذا ہم تمہیں قتل نہیں کرتے لیکن تم ہمارے علاقہ سے نکل جاؤ ۔

سلمان اور ان کے دوست نے اس موقع پر اس راہب سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات کا پروگرام ” دیر موصل “ میں طے پایا ۔

راہب کے چلے جانے کے بعد سلمان چند روز تو اپنے با وفا دوست کے منتظر رہے اور وہ بھی سفر کی تیاری میں سرگرم تھا لیکن سلمان آخر کار زیادہ صبر نہ کر سکے اور چل پڑے

موصل کے گرجے میں سلمان بہت زیادہ عبادت کرتے تھے راہب مذکور جو اس گرجے کا مالک تھا اس نے سلمان کو زیادہ عبادت سے روکنا چاہا اور کہا : تم ناکارہ ہی نہ ہوجاؤ ، لیکن سلمان نے اس سے سوال کیا کہ زیادہ عبادت کی فضیلت زیادہ ہے یا کم عبادت کی ؟ تو اس نے کہا فضیلت تو زیادہ عبادت ہی کی زیادہ ہے ۔

اس کے بعد وہ راہب جو گرجے کا مالک تھا اور وہاں پر موجود دوسرے راہبوں جتنی عبادت نہیں کر سکتا تھااس گرجے سے دوسری جگہ چلا گیا اور گرجے کے عالم کو سلمان کے بارے میں سفارش کر گیا ۔

کچھ عرصہ بعدگرجے کا وہ عالم بیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے چلا اور سلمان کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا ۔ وہاں اس نے سلمان کو حکم دیا کہ دن میں علمائے نصاریٰ کے درس میں جائیں اور تحصیل علم و دانش کریں ۔ وہ درس وہیں مسجد میں منعقد ہوتے تھے ۔

ایک دن اس عالم نے سلمان کو رنجیدہ پایا تو اس کا سبب دریافت کرنے لگا ۔ سلمان نے جواب میں کہا: نیکیاں تو گذشتہ لوگوں کے نصیب میں تھیں جو پیغمبر ان خدا کی خدمت میں رہتے تھے ۔ عالم دیر نے اسے بشارت دی کہ انہی دنوں ملت عرب میں ایک پیغمبر ظہور کرنے والا ہے جو تمام انبیاء سے برتر و بالا ہے ۔ عالم مذکور نے مزید کہا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، مجھے امید نہیں کہ میں انہیں مل سکوں لیکن تم جوان ہو تم انہیں پاسکو گے ۔

مزید کہنے لگا : اس پیغمبر کی کئی ایک نشانیاں ہیں ۔ ان میں سے خاص نشانی اس کے کندھے پر ہے وہ صدقہ نہیں لیتا ہدیہ قبول کرتا ہے ۔

موصل کی طرف واپسی کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے نتیجے میں سلمان سے عالم دیر کہیں بیابان میں کھو گیا ۔

حلب کے دو عرب قبیلے وہاں پہنچے ۔ انہوں نے سلمان کو قید کر لیا اور اونٹ پر سوار کرکے مدینہ لے آئے اور انہیں قبیلہ ” جرینہ “ کی ایک عورت کے ہاتھ بیچ دیا ۔

سلمان اور اس عورت کا ایک غلا م باری باری اس عورت کا گلہ روزانہ چرانے کے لئے جاتے تھے سلمان نے اس مدت میں کچھ رقم جمع کرلی اور پیغمبر اسلام کی بعثت کا انتظار کرنے لگا ۔ ایک روز وہ ریوڑ چرانے میں مشغول تھے کہ ان کا ساتھی آیا اور کہنے لگا َ: تمہیں معلوم ہے آج ایک شخص مدینہ میں آیا ہے جس کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور خدا کا بھیجا ہوا ہے ۔

سلمان نے اپنے ساتھی سے کہا : تم یہاں رہو ، میں ہو کر آتا ہوں ، سلمان شہر میں داخل ہوئے ۔ پیغمبر اکرم کی مجلس میں حاضر ہوئے ،۔ آنحضرت کے گرد چکر لگا رہے تھے اور منتظر تھے کہ پیغمبر کا کرتہ آپ کے کندھے سے کس طرح ہٹے اور آپ کے کندھے کے درمیان مخصوص نشان دیکھ سکیں پیغمبر ان کی خوہش کی طرف متوجہ ہوئے ، آپ نے کرتا اٹھایا تو سلمان نے وہ نشان ( مہر نبوت ) دیکھا ۔ یعنی پہلی نشانی دیکھ لی ۔

پھر وہ بازار چلے گئے ۔ کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور رسول اللہ کی خدمت میں لے آئے ۔ پیغمبر نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا صدقہ ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں غریب مسلمان کو دے دو تاکہ وہ اسے استعمال کرلیں ۔

سلمان دوبارہ بازار گئے پھر کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے آئے رسول اللہ نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا ہدیہ ہے ۔

آنحضرت نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ۔ آنحضرت اور حاضرین نے اس ہدیہ میں سے کھایا ۔

سلمان پر مقصد واضح ہو گیا کیونکہ اسے اپنی تینوں نشانیاں مل گئیں ۔ دوران گفتگو سلمان نے اپنے دوستوں اور، ساتھیوں اور دیر موصل کے راہبوں کے متعلق باتیں کیں ۔ ان کی نماز ، روزہ ، پیغمبر پر ایمان اور آپ کی بعثت کے بارے میں ان کے انتظار کا حال سنایا ۔ کسی نے سلمان سے کہا کہ اگر وہ پیغمبر کو پالیتے تو آپ کی پیروی کرتے ۔

یہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم پرزیر بحث آیت نازل ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ادیان حق پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ پیغمبر اسلام کو نہیں پاسکے انہیں کیا اجر ملے گا ۔

( ۲) صائبین کون ہیں ؟ :

مشہور عالم را غب مفردات میں لکھتا ہے :یہ ایک گروہ ہے جو حضرت نوح کا پیرو کار تھا ۔ان کا ذکر یہود و نصاری ٰ کے ساتھ ساتھ کرنا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ لوگ کسی آسمانی دین کے پیرو تھے اور خداو قیامت پر ایمان رکھتے تھے ۔رہا کہ بعض لوگ ! انہیں مشرک اور ستارہ پرست کہتے ہیں یا بعض اور لوگ انہیں مجوسی کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ حج کی آیت ۱۷ مشرکین اور مجوسیوں کو صائبین کے مد مقابل قرار دیتی ہے ۔ قرآن کے الفاظ یوں ہیں ۔( ان الذین آمنو ا والذین هادو والصٰبئین والنصٰری والمجوس والذین اشرکو ا ) لہذا یہ مجوس اور مشرکین کے علاوہ ایک مستقل گروہ ہے ۔صائبین کون لوگ ہیں

اس بارے میں مفسرین اور ادیان شناس لوگوں کے مختلف اقوال ہیں اور اس لفط( صائبین ) کا اصلی مادہ کیا ہے ۔ اس بارے میں بھی بحث ہے ۔

شہرستانی نے کتاب ”ملل ونحل “ میں لکھا ہے کہ صائبہ ” صباء “ سے لیا گیا ہے کیونکہ یہ گروہ حق سے ٹیڑھا ہو گیا تھا اور یہ لوگ راہ انبیاء سے منحرف ہوگئے تھے ۔

اس بناء پر انہیں ” صائبہ “ کہا گیا ہے ۔

فیومی کی مصباح المنیر میں ہے کہ کہ صباء کا معنی ہے : وہ شخص جو ایک دین سے نکل کر دوسرے دین کی طرف مائل ہوجائے ۔

” فرہنگ دہخدامیں اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ کلمہ عبری ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ ”صائبین “ جمع ہے ” صابی “ عبری کی اور اصل عبری ( ص ب ع ) سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں پانی میں ڈوب جانا یعنی تعمید کرنے والے ۱

جب اس لفظ کو عربی بنایا گیا تو اس کی ” ع “ ساقط ہوگئی اور ”مفتسلہ “ جو ایک عرصے سے اس آئین کے پیرو کار وں کے ایک مقام کا نام تھا جو خوزستان میں ہے وہ کلمہ” صابی“ کاجامع اور صحیح ترجمہ ہے ۔

جدید اور معاصر محققین بھی اسے عبری لفظ سمجھتے ہیں ۔

” دائرة المعارف “ فرانسیسی ، جلد چھارم صفحہ ۲۳ میں اس لفظ کو عبری قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس لفظ کے معنی پانی کے اندر جانا یا تعمید بیان کئے گئے ہیں ۔

ژسینوس سلمانی کہتا ہے : یہ لفط اگر چہ عبری ہے تاہم احتمال ہے کہ ایسی اصل سے مشتق ہو جس کا معنی ستارہ ہے ۔

” کشاف اصطلاح الفنون “ کا مو‌لف کہتا ہے صائبین ایک گروہ ہے جس کے لوگ فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ، زبور پڑھتے تھے اور قبلہ کی طرف منھ کرتے تھے ۔

کتاب ” التنبیہ والاشراف “ ص ۱۶۶۶ پر امثال و حکم کا تذکرہ کرتے ہوئے ابتدا میں کہا گیا ہے کہ زرتشت نے جب مجوس آئین و دین گشتاسب کے سامنے پیش کیا اور اس نے قبول کیا ، اس سے قبل اس ملک کے لوگ ” صفا “ مذہب کے پیرو تھے ۔

اور وہ صائبین تھے ۔ یہ وہ مذہب ہے جسے ” بو ذاسب “ نے ” طہورس “ کے زمانے میں پیش کیا تھا ۔

اس گروہ کے بارے میں اختلافات اور ایسی گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جمعیت تھوڑی تھی اور وہ اپنے مذہب کو پوشیدہ رکھنے پر مصر تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ سے منع کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا کہ ان کا مذہب خصوصی ہے عمومی نہیں اور ان کا پیغمبر انہی کی نجات کے لئے مبعوث ہوا ہے اور بس ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی حالت ایک بھیدہی رہی اور ان کی جمعیت بھی روز بروز ختم ہوتی گئی اور یہ بھی کہ ان کے ہاں مفصل غسل اور طولانی تعمیدوں جیسے خاص احکام تھے یہ انہیں سردیوں اور گرمیوں میں انجام دینا پڑتے تھے ۔ وہ اپنے مذہب کے علاوہ کسی سے شادی حرام سمجھتے تھے ۔ ان کے ہاں حتی الامکان رہبانیت اور عورتوں سے ترک ِمباشرت کا تاکیدی حکم تھا اور مسلمانوں سے زیادہ میل جول کی وجہ سے اپنے مذہب کو بدل دیتے تھے ۔

____________________

۱ غسل تعمید عیسائیوں کے ہاں بچوں اور نئے عیسائی ہونے والے کو دیتے ہیں ۔ مترجم

( ۳) صائبین کے عقائد: ان کے مندرجہ ذیل عقائد تھے :

ان کا اعتقاد تھا کہ پہلی مقدس آسمانی کتاب حضرت آدم پر نازل ہوئی ، پھر حضرت نوح پر ، ان کے بعد سام پر ، پھر رام پر ، اس کے بعد ابراہیم خلیل اللہ پر ، پھر حضرت موسی ٰ اور اس کے بعد یحییٰ بن زکریا پر نازل ہوئی ۔ وہ مقدس کتابیں جو ان کی نگاہ میں اہمیت رکھتی ہیں یہ ہیں :

۱ ۔”کنیزاربا “ اس کتاب کو ” سدرہ “ یا ” صحف آدم بھی کہتے ہیں ۔ یہ کتا ب خلقت کی کیفیت اور موجودات کی پیدائش کے بارے میں بحث کرتی ہے ۔

( ۲) ۔ کتاب ”۔ اور افشادہی ”یا ”سدرادہی “ یہ حضرت یحی ٰکی زندگی ۔ ان کے احکامات اور تعلیمات کے بارے میں ہے ۔ان کا اعتقاد ہے کہ یہ کتاب جبریل کے ذریعہ حضرت یحی پر وحی وا لہام ہوئی ۔

۳ ۔ کتاب ” قلستا “ یہ شادی بیاہ کے مراسم کے بارے میں ہے ۔

ان کے پاس اور بھی بہت سی کتابیں ہیں اختصار کے لئے ان سے صرِ ف نظر کیا جا رہا ہے ۔

محققین کے نزدیک اس دین کے پیرو کار وں کی کیفیت دیکھ کر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ لوگ حضرت یحی ٰ بن ذکریا کے پیرو ہیں ۔اس وقت اس مذہب کے پیرو تقریباََ پانچ ہزار افراد خوزستان ( دریائے کارون کے کنارے ) اہواز ، خرم شہر ، ابادان اور شادگان وغیرہ میں رہتے ہیں ۔

یہ لوگ اپنے مذہب کو حضرت یحی بن زکریا سے منسوب کرتے ہیں ۔ مسیحی جنہیں ” یحیی تعمید دہندہ “ یا ”یو حنا ی معمد “ کہتے ہیں(۱)

کتاب بلوغ الادب کا مولف کہتا ہے ۔صائبین ایک بہت بڑی قوم ہے ان کے بارے میں اختلاف اس مذہب کے افراد کی معرفت کے لحاظ سے ہے ۔

سورہ بقرہ کی زیر بحث آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جمعیت دو گروہوں مومن اور کافر میں تقسیم ہوتی ہے ۔

یہ حضرت ابراہیم خلیل کی وہی قوم ہے جس کی دعوت پر آپ مامور تھے ۔ یہ لوگ ” حران “ میں جو صائبین کی سر زمین ہے زندگی گزارتے تھے اور دو طرح کے تھے صائبین حنیف اور صائبین مشرک ۔

مشرک ، ستاروں ، آفتاب ، ماہتاب کا احترام کرتے تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگ نماز روزہ کو بھی انجام دیتے تھے ، کعبہ کو محترم سمجھتے تھے اور حج بھی بجا لاتے تھے ۔ یہ لوگ مردار ، خون اور خنزیر کے گوشت نیز محارم سے نکاح کو مسلمانوں کی طرح حرام سمجھتے تھے ۔ اس مذہب کے پیرو کاروں میں سے کچھ لوگ بغداد میں حکومت کے اہم مناصب پر فائز تھے جن میں ایک ہلال بن محسن صابی بھی تھا ۔

ان لوگوں نے اپنے گمان کے مطابق اپنے دین کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کی اچھائی لے لو اور اس کی برائی سے دور رہو ۔ انہیں اسی بناء پر صائبین کہتے ہیں یعنی وہ لوگ جو کسی دین کے تمام احکام کی انجام دہی کی قید سے سرکشی کرتے ہیں ۔

لہذا یہ لوگ ایک لحاظ سے تما م ادیان کے موافق اور تمام ادیان کے مخالف ہیں ۔

صائبین حنیف کا ایک گروہ مسلمانوں سے ہم آہنگ ہوگیا ہے اور ان کے مشرک بت پرستوں کے ساتھ ہوگئے ہیں ۔

آخر بحث میں ہم دوبارہ ذکر کر دیں کہ اس گروہ کی دو قسمیں ہیں ۔ صائبین مشرک اور صائبین حنیف ۔ ان دونوں کے درمیان بہت مناظرے اور مباحثے ہوتے رہیں ہیں(۱)

مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر کسی پیغمبر خدا کے پیرو تھے اگرچہ جس سے وہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اس پیغمبر کے تعین میں اختلاف ہے ۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہوا کہ وہ بہت کم لوگ ہیں جو ختم ہونے کے قریب ہیں ۔

____________________

۱ مزید تفصیلات کے لئے کتاب ” آراء و عقائد بشری کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ اقتباس از بلوغ الادب ج ۲ ، ص ۲۲۸ و ۲۳۳ ۔

آیات ۶۳،۶۴

( و اذ اخذ نا میثاقکم و رفعنا فوق کم الطور ط خذو ا ما اٰتینٰکم بقوة واذکروا ما فیه لعلکم تتقون ) ۶۳ ۔

( ثم تولیتم من بعد ذلک ج فلولا فضل الله علیکم و رحمته لکنتم من الخٰسرین ) ۶۴ ۔

ترجمہ

۶۳ ۔اور ( وہ وقت کہ )جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تمہارے سروں کے اوپر مسلط کردیا اور (تمہیں کہا کہ ) جو کچھ آیات و احکام کی صورت میں ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھامو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو اور ( اس پر عمل کرو ) شاید اس طرح تم پرہیزگار بن جاؤ ۔

۶۴ اس کے بعد پھر تم نے روگردانی کی اور اگر تم پر خد ا کا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے ۔

ان آیات میں بنی اسرائیل سے تورات میں شامل احکامات پر

ان آیات میں بنی اسرائیل سے تورات میں شامل احکامات پر عمل کرنے کے عہد و پیمان اور پھر ان کی طرف سے اس پیمان کی خلاف ورزی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

کہا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تم سے عہد وپیمان لیا ۔( و اذ اخذنا میثاقکم ) اور کوہ طور کو تمہارے سروں پر مسلط کردیا ہے( ورفعنا فوقکم الطور ) اور تمہیں کہا گیا ہے کہ جو آیات الہٰی تمہیں دی گئی ہیں انہیں قدرت و قوت سے تھامو( خذ و ا ما اٰتینٰکم بقوة ) اور اس میں جو کچھ ہے اسے غور و فکر سے دل میں یاد رکھو اور اس پر عمل کرو ) تاکہ پرہیزگار ہوجاؤ( و اذ کرو ا مافیه لعلکم تتقون ) ۔

لیکن تم نے اپنے عہد وپیمان کو طاق نسیاں کردیا اور اس واقعے کے بعد روگرداں ہوگئے( ثم تولیتم من بعد ذٰلک ) اور اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا و تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے ۔

( ۱) عہد و پیمان سے مراد :

یہاں عہد اپیمان سے مراد مقصود وہی ہے جس پر اس سورہ کی چالیسویں آیت میں بحث ہوچکی ہے اور آیت ۸۳ اور ۸۴ میں بھی شامل ہوگی ۔

اس عہد و پیمان میں یہ چیز یں شامل تھیں : پروردگار کی توحید پر ایمان رکھنا ، ماں باپ ، عزیز و اقارب ، یتیم اور حاجتمند وں سے نیکی کرنا اور خونریزی سے پرہیز کرنا ۔یہ کلی طور پر ان صحیح عقائد اور خدا ئی پروگراموں کے بارے میں عہد وپیمان تھا جن کا تورات میں ذکر کیا گیا تھا ۔

سورہ مائدہ کی آیت ۱۲ سے استفادہ ہوتا ہے کہ خدا نے یہودیوں سے عہد وپیمان لیا کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان رکھیں گے اور ان کی کمک کریں گے اور راہ خدا میں صدقہ اور خرچ کریں گے نیز اس آیت کے آخر میں ضمانت دی گئی ہے کہ اس عہد پر عمل کریں گے تو اہل بہشت میں سے ہوجائیں گے ۔

( ۲) کوہ طور ان کے سروں پر مسلط کرنے سے کیا مقصود تھا :

عظیم اسلامی مفسر مرحوم طبرسی ، ابن زید کا قول اس طرح نقل کرتے ہیں :

جس وقت حضرت موسی کوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ تورات لائے تو اپنی قوم کو بتایا کہ میں آسمانی کتاب لے کر آیا ہوں جو دینی احکام اور حلال و حرام پر مشتمل ہے ۔ یہ وہ احکام ہیں جنہیں خدا نے تمہارے لئے عملی پروگرام قطع قر دیا ہے ۔ اسے لے کر اس کے احکام پر عمل کرو ۔ اس بہانے سے کہ یہ ان کے لئے مشکل احکام ہیں ۔ یہودی نافرمانی اور سر کشی پر تل گئے۔ خدا نے بھی فرشتوں کو مامور کیا کہ وہ کوہ طور کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ان کے سروں پر لاکر کھڑا کر دیں ۔ اسی اثناء میں حضرت موسٰی نے انہیں خبر دی کہ عہد وپیمان باندھ لو ، احکام خدا پر عمل کرو ، سرکشی و بغاوت سے توبہ کرو تو تم سے عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ہلاک ہوجاؤ گے ۔ اس پر انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ۔ تو رات کو قبول کیا اور خدا کے حضور سجدہ کیا ۔ جب کہ ہر لحظہ وہ کوہ طور کے اپنے سروں پر گرنے کے منتطر تھے لیکن با لآ خر ان کی توبہ کی وجہ سے عذاب الٰہی ٹل گیا ۔

یہی مضمون سورہ بقرہ آیة ۹۳ میں سورہ نساء آیہ ۱۵۴ میں اور سورہ اعراف آیہ ۱۷۱ میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

” یہ نکتہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوہ طور کے بنی اسرائیل کے سروں پر مسلط ہونے کی کیفیت کے سلسلے میں مفسرین کی ایک جماعت کا اعتقاد ہے کہ حکم خداسے کوہ طور اپنی جگہ سے اکھڑ گیا اور سائبان کی طرح ان کے سروں پر مسلط ہوگیا ۔( اعراف ۔ ۱۷۱(۱)

جب کہ بعض دوسرے مفسرین یہ کہتے ہیں کہ پہاڑ میں سخت قسم کا زلزلہ آ یا ، پہاڑ اس طرح لرزنے اور حرکت کرنے لگا کہ جو لوگ پہاڑ کے دامن میں تھے انہوں نے پہاڑ کے ایک حصے کا سایہ اپنے سروں پر واضح طور پر دیکھا ، ایسا لگتا تھا کہ کسی بھی وقت وہ ان کے سروں پر آگرے گا لیکن خدا کے لطف وکرم سے زلزلہ رک گیا اور پہار اپنی جگہ پو قائم ہوگیا ۔(۲)

یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ پہاڑ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا زلزلے اور شدید بجلی کے زیر اثر اپنی جگہ سے اکھڑ کر ان کے سروں کے اوپر سے بحکم خدا اس طرح گزرا ہو کہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر دیکھا ہو اور یہ خیال کیا ہو کہ وہ ان پر گرنا چاہتا ہے لیکن یہ عذاب ان سے ٹل گیا اور وہ ٹکڑا کہیں دور جاکر گرا-

____________________

۱ ۔ مجمع البیان اور بعض دیگر تفاسیر ۔

۲ -ا لمنار زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

( ۳) کیا اس عہد وپیمان میں جبر کا پہلو ہے :

اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ہیں کہ ان کے سروں پر پہاڑ کا مسلط ہونا ڈرانے اور دھمکانے کے طور پر تھا نہ کہ جبر واضطرار کے طور پر ورنہ جبر عہد وپیمان کی تو کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔

لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ سرکش اور باغی افراد کو تہدید و سزا کے ذریعہ حق کے سامنے جھکایا جائے ۔ یہ تہدید اور سختی وقتی طور پر ہے ان کے غرور کو توڑدے گی ۔ انہیں صحیح غور وفکر پر ابھارے گی اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے لگے ۔

بہر حال یہ پیمان زیادہ تر عملی پہلوؤں سے مربوط تھا ورنہ عقائد کو تو جبر واکراہ سے نہیں بدلا جاسکتا ۔

( ۴) کوہ طور :

طور سے مراد یہاں اسم ِ جنس ہے یا یہ مخصوص پہاڑ ہے ۔ اس سلسلے میں دو تفسیریں موجود ہیں ۔

بعض کہتے ہیں کہ طور اسی مشہور پہاڑ کی طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسیٰ پر وحی نازل ہوئی ۔

لیکن بعض کے نزدیک یہ احتمال بھی ہے کہ طورلغوی معنی کے لحاظ سے مطلق پہاڑ ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جسے سورہ اعراف کی آیہ ۱۷۱ میں ” جبل “ سے تعبیر کیا گیا ہے :( و اذ نتقنا الجبل فوقهم )

( ۵) خذوا ما اتیناکم بقوة کا مفہوم : اس جملے کی تفسیر میں امام صادق سے منقول ہے کہ آنجناب سے لوگوں نے پوچھا :

قوة الابدان او قوة القلب

قوت و طاقت آیات الہٰی تھامنے سے مراد قوت جسمانی ہے یا قوت معنوی ۔

امام نے جواب دیا :فیها جمیعا

جسمانی و معنوی سب طاقتیں مراد ہیں ۱ ۔

یہ حکم تمام آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کے لئے ہے کہ ہر زمانے میں ان تعلیمات کی حفاظت و اجراء کے لئے مادی و روحانی دونوں قوتوں اور توانائیوں کے ساتھ تیار رہیں ۔

____________________

۱ تفسیر المیزان زیر بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ محاسن برقی ۔

آیات ۶۵،۶۶

( ولقد علمتم الذین اعتدو ا منکم فی السبت فقلنا لهم کونو ا قردة خٰسئین ) ۶۵ ۔

( فجعلنٰها نکالا لما بین یدیها و ما خلفها وموعظة للمتقین ) ۶۶

ترجمہ

۶۵ ۔ جنہوں نے ہفتہ کے دن کے بارے میں حکم کی نافرمانی اور گناہ کیا ۔ تمہیں ان کی حالت کا علم ہے کہ انہیں ہم نے دھتکار ے ہوئے بندروں کی شکل میں کر دیا ۔

۶۶ ۔ ہم نے عذاب کے اس واقعہ کو اس زمانے کے لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے درس عبرت قرار دیا ہے اور پرہیز گاروں کے لئے اسے نصیحت بنایا ہے ۔

یہ دو آیات بھی گذشتہ آیات کی طرح

یہودیوں کی عصیان ونافرمانی کی روح اور مادی امور کی طرف ان کی شدید رغبت اور وابستگی کی طرف ا شارہ کرتی ہیں

پہلے کہا گیا ہے :تم ان کی حالت کو تو جانتے ہو جنہو ں نے تم میں سے ہفتہ کے دن کے بارے میں نافرمانی اور گناہ کیا تھا( ولقد علمتم الذین اعتدو ا منکم فی السبت )

نیز تمہیں یہ بھی علم ہے کہ ہم نے انکو کہا کہ دھتکارے ہوئے بندروں کی طرح ہو جاؤ( فقلنا لھم کونو ا قردة خٰسئین)

ہم نے اس واقعہ کو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے اور بعد کے زمانے کے لوگوں کے لئے بھی درس عبرت قرار دیا ہے( فجعلنٰها نکالا لما بین یدیها و ما خلفها )

اور اسی طرح پرہیزگاروں کے لئے بھی پند ونصیحت قرار دیا ہے( وموعظة للمتقین )

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے یہودیوں کو یہ حکم دے رکھا تھاکہ وہ ہفتہ کے دن تعطیل کیا کریں ۔ان میں سے کچھ لوگ دریا کے کنارے رہتے تھے اور آزمائش وامتحان کے طور پر انہیں حکم ملا کہ اس دن مچھلیاں نہ پکڑا کریں لیکن دوسرے دنوں کے برعکس ہفتہ کے دن مچھلیاں بڑی کثرت سے پانی کی اوپر والی سطح پر ظاہر ہو جاتی تھیں لہٰذا وہ کوئی حیلہ سوچنے لگے اور ایک قسم کے شرعی بہانے سے انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑ لیں ۔ خدا تعالی نے اس جرم کی سزا دی اور ان کے انسانی چہرے حیوانی شکل میں بدل گئے ۔

ان کے چہرے مسخ اور تبدیل ہونا جسمانی طور پر تھا یا نفسیاتی و اخلاقی طور پر ، نیز یہ کہ لوگ کہاں رہتے تھے اور کون سے بہانے کے ذریعہ انہوں نے مچھلیاں پکڑ ی تھیں ۔ ان تمام سوالات کے جوابات اور اس سلسلے کے دوسرے مسائل اسی تفسیر کی چھٹی جلد میں سورہ اعراف کی آیات ۱۶۳ سے ۱۶۶ تک کے ذیل میں آئیں گے۔

جملہ( کونو اقردة خاسئین ) (۱) سرعت عمل سے کنایہ ہے یعنی ایک اشارے اور فرمان سے تمام نافرمانوں کے چہرے بدل گئے ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ امام باقر اور امام صادق سے اس آیت کے مفہوم کے بارے میں یوں منقول ہے :

ما بین یدیھا سے اس زمانے کی نسل اور ماخلفھا سے مراد ہم مسلمان ہیں یعنی یہ درس عبرت بنی اسرائیل سے مخصوص نہیں بلکہ یہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔(۲)

____________________

۱ -خاسی ” خسارہ “ مادہ سے ہے جس کے معنی ذلت کے ساتھ دھکیلنا ہے ۔ یہ لفظ اصل میں کتے کو دور کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں اس سے دھتکارنے کا وسیع تر معنی لیا گیا ہے جس میں حقارت شامل ہے لہذا یہ لفظ دوسرے مواقع پر بھی استعمال ہو نے لگا

۲- تفسیر مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔