تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72257
ڈاؤنلوڈ: 3769


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72257 / ڈاؤنلوڈ: 3769
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

عوام کو لوٹنے کی یہودی سازش

گذشتہ آیات کے بعد محل بحث آیات یہودیوں کو واضح گروہوں میں تقسیم کرتی ہیں ۔ عوام اور حیلہ ساز علماء ( البتہ ان میں سے کچھ علماء ایسے بھی تھے جو ایمان لے آئے اور انہوں نے حق کو قبول کرلیا اور مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوگئے ) ۔

قرآن کہتا ہے :ان میں سے ایک گروہ میں سے ایسے افراد ہیں جو علم نہیں رکھتے اور کتاب خدا میں سے چند ایک خیالات اور آرزوئیں اخذ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے اور انہوں نے صرف اپنے ظن و گمان سے وابستگی اختیار کرلی ہے( و منهم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی و ان هم الا یظنون ) ۔

امیون ”امی “ کی جمع ہے ۔ یہاں یہ لفظ ان پڑھ اور لا علم کے معنی میں استعمال ہوا یعنی جس حالت میں شکم مادر سے پیدا ہوا اسی طرح رہ گیا اور کسی استاد کے مدرسے کو نہیں دیکھا ۔

ہو سکتا ہے یہ لفظ اس طرف اشارہ کر رہا ہو کہ کچھ مائیں جاہلانہ محبت اور الفت کی وجہ سے اپنی اولاد کو جدا نہیں کرتیں تھیں اور اسے مدرسہ جانے کی اجازت نہیں دیتی تھیں لہذا وہ لوگ بے علم رہ جاتے تھے(۱)

امانی ” امنیہ “کی جمع ہے جس کے معنی ” آرزو “ ہے ممکن ہے یہاں ان موہوم خیالات اور امتیازات کی طرف اشارہ ہو یہودی اپنے بارے میں جن کے قائل تھے ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے ہم خدا کی اولاد اور اس کے خاص دوست ہیں ۔( نحن ابنٰؤا الله و احباؤه ) ( مائدہ ۔ ۱۸

اور یہ بھی کہ کہا کرتے تھے کہ چند دن کے سوا جہنم کی آگ ہم تک ہرگز نہیں پہنچے گی ( بعد کی آیات میں یہودیوں کی اس گفتگو پر بحث ہوگی)۔

یہ بھی احتمال ہے کہ ” امانی “ سے مقصود وہ تحریف شدہ آ یات ہو ں جو علماء یہود عوام کے ہاتھوں میں دے دیتے تھے اور شاید جملہ ”( لا یعلمون الکتاب ) “ اس مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ۔

بہر حال اس آیت کا آخری حصہ ان ھم الا یظنون ، اس بات کی دلیل ہے کہ اساس و اصول دین اور مکتب ِ وحی کو پہچاننے کے لئے ظن و گمان کی پیروی صحیح کام نہیں بلکہ لائق سرزنش ہے چاہیئے کہ ہر شخص اس سلسلے میں تحقیق کے ساتھ کافی قدم اٹھائے ،علمائے یہود کا ایک اور گروہ تھا جو اپنے فائدے کے لئے حقائق میں تحریف کردیتا تھا جیسا کہ قرآن بعد کی آیت میں کہتا ہے :افسوس ہے ان لوگوں پر جو کچھ مطالب اپنے ہاتھ سے لکھ دیتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ خدا کے طرف سے ہیں( فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیهم ثم یقولون هذا من عند الله ) اور ان کی غرض یہ ہے کہ اس کا م سے تھوڑی سی قیمت وصول کریں( لیشتروا به ثمنا قلیلا ) افسوس ہے ان پر اس سے جو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں( فویل لهم مما کتبت ایدیهم ) اور افسوس ہے ان پر اس سے جسے وہ خیانتوں کے ذریعہ کماتے ہیں( وویل لهم مما یکسبون )

اس آیت کے آخر ی الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے وسیلہ بھی ناپاک اختیار کیا اور اس سے نتیجہ بھی غلط حاصل کرتے تھے بہ الفاظ دیگر جب کام حرام ہے تو کمائی حرام ہوگی :

ان الله اذا حرم شیئا حرم ثمنه یقینا جب اللہ نے کوئی چیز حرام قرار دی ہے تو اس کا مول بھی حرام کیا ہے ۔

بعض مفسرین نے زیر بحث آیت کے ضمن میں حضرت صادق سے ایک حدیث نقل کی ہے جو قابل غور نکات کی حامل ہے ۔حدیث اس طرح ہے :

ایک شخص نے امام صادق کی خدمت میں عرض کیا : یہودی عوام جب اپنے علماء کے بغیر اپنی آسمانی کتاب کے متعلق کوئی اطلاع نہ رکھتے تھے پھر علماء کی تقلید اور ان کے قول کو قبول کرنے پر خدا ان کی مذمت کیوں کرتا ہے اور کیا یہودی عوام اور ہمارے عوام میں جو اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں کوئی فرق ہے ؟

امام نے فرمایا : ہمارے عوام اور یہود ی عوام کے درمیان ایک لحاظ سے فرق ہے اور ایک لحاظ سے مساوات جس لحاظ سے دونوں مساوی ہیں اس جہت سے خدا نے ہمارے عوام کی بھی اسی طرح مذمت کی ہے ۔ رہی وہ جہت جس میں وہ ان سے مختلف ہیں وہ یہ کہ یہودی عوام اپنے علماء کی حالت سے آشنا تھے وہ جانتے تھے کہ ان کے علماء جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں ،حرام اور رشوت کھاتے ہیں اور احکام الہٰی میں تغیر و تبدل کرتے ہیں ۔ اپنی فطرت سے وہ یہ حقیقت جانتے تھے کہ ایسے لوگ فاسق ہیں اور یہ جائز نہیں کہ خدا اور اس کے احکام کے بارے میں ان کی باتیں قبول کی جائیں اور یہ بھی جانتے تھے کہ انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کی شہادت قبول کرنا مناسب نہیں ۔ اسی بنا ء پر خدا نے ان کی مذمت کی ہے ۔ اسی طرح اگر ہمارے عوام بھی اپنے علماء سے ظاہر بہ ظاہر فسق و فجور اور سخت تعصب دیکھیں اور انہیں دنیا و مال دنیا حرام پر حریص ہوتا دیکھیں پھر بھی جو شخص ان کی پیروی کرے وہ یہود یوں کی طرح ہے خدا وند عالم نے فاسق علماء کی پیروی کی وجہ سے ان کی مذمت کی ہے ۔

فا ما من کان من الفقها صائنا َ لنفسه حافظا لدینه مخالفا علی هواه مطیعا َ لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه ۔

باقی رہے وہ علماء و فقہاء جو اپنی روح کی پاکیزگی کی حفاظت کریں اپنے دین کی نگہداری کریں ، ہوا وہوس کے مخالف ہوں اور اپنے مولا و آقا کے فرمان کے مطیع ہوں عوام کو چاہیئے کہ ان کی تقلید کریں(۲)

واضح ہے کہ حدیث احکام میں اندھی تقلید کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ عوام علماء کی رہنمائی میں علم و یقین کے حصول کے لئے پیروی کریں کیونکہ یہ حدیث پیغمبر کی پہچان کے ضمن میں ہے جو مسلما اصول دین میں سے ہے اس میں اندھی تقلید جائز نہیں ۔

____________________

۱ ۔ ” امی “ کے معنی جلد ۴ ( تفسیر نمونہ ) میں سورہ اعراف آیہ ۱۵۷ کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں ۔

۲ - وسائل الشیعہ ، ج ۱۸ ص ۱۹۴ کتاب القضاء ، باب ۱۰ ( اور تفسیر صافی ، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔

آیات ۸۰،۸۱،۸۲

۸۰ ۔( وقالو لن تمسنا النار الا ایاماََ معدوداة ط قل اتخذ تم عند الله عهدا فلن یخلف الله عهده ام تقولون علی الله مالا تعلمون )

۸۱ ۔( بلی ٰ من کسب سیئة و احاطت به خطیئته فاو لئک اصحٰب النارهم فیها خٰلدو ن )

۸۲ ۔( و الذین اٰمنو ا و عملوا الصالحٰت اولٰئک اصحٰب الجنة ج هم فیها خٰلدون )

ترجمہ

۸۰ ۔ اور انہوں نے کہا : چند دن کے سوا آتش جہنم ہم تک نہیں پہنچے گی ۔ کہیئے کیا تم نے خدا سے عہد وپیمان لیا ہوا ہے کہ خدا اپنے پیمان کی ہرگز خلاف ور زی نہیں کرے گا یا پھر تم خدا کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ۔

۸۱ ۔ ہاں جو لوگ گناہ کمائیں اور گناہ کے اثرات ان کے سارے جسم پر محیط ہوں وہ اہل جہنم ہیں اورہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔

۸۲ ۔ وہ لوگ جو ایمان لاچکے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں وہ اہل جنت ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔

بلند پردازی اور کھوکھلے دعوے

اس مقام پر قرآن یہودیوں کے بے بنیاد دعووں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتا ہے جس نے مغرور کر رکھا تھا اور جو ان کی کجرویوں کا سر چشمہ تھا ۔ قرآن نے یہاں اس کا جواب دیا ہے ۔

پہلے فرماتا ہے : وہ کہتے ہیں جہنم کی آگ چند روز کے سوا ہمیں ہرگز نہیں چھوئے گی( وقالو ا لن تمسناالنار الا ایاما معدودة ) ۔

کہیئے : کیا خدا نے تم سے کوئی عہد و پیمان کر رکھا ہے کہ خدا جس کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا یا پھر بغیر جانے کسی چیز کی خدا کی طرف نسبت دیتے ہو( قل اتخذتم عند الله عهدا فلن یخلف الله عهده ام تقولون علی الله مالا تعلمون ) ۔ملت یہود کو اپنے بارے میں نسلی برتری کا زعم تھا اور یہ قوم سمجھتی تھی کہ جو وہ ہے وہی ہے ۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان میں سے جو گنہگار ہیں انہیں فقط چند دن عذاب ہوگا اس کے بعد انہیں ہمیشہ کی جنت ملے گی ۔ یہ ان کی خود خواہی و خود پرستی کی واضح دلیل ہے ۔

یہ امتیاز طلبی کسی بھی منطق کی رو سے روا نہیں اور بارگاہ الہٰی میں اعمال پر جزا و سزا کے سلسلے میں تما م انسانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ یہودیوں نے کون سا کارنامہ انجام دیا تھا جس کی بنا ء پر ان کے لئے جزا وسزا کے کلی قانون میں استثناء ہوجائے ۔بہرحال مندرجہ بالا آیت ایک منطقی بیان کے ذریعہ اس غلط خیال کو باطل کردیتی ہے ۔ فرمایا گیا ہے : تمہاری یہ گفتگو دو صورتوں میں سے ایک کی مظہر ہے یا تو اس سلسلے میں خدا کی طرف سے کوئی خاص عہد وپیمان ہوا ہے جب کہ ایسا پیمان تم سے ہوا نہیں یا پھر تم جھوٹ بولتے ہو اور خدا پر تہمت لگاتے ہو ۔

بعد کی اایت ایک کلی و عمومی قانون بیان کرتی ہے جو ہر لحاظ سے عقلی و منطقی بھی ہے ۔ فرمایا گیا ہے : ہاں وہ لوگ جو کسب گناہ کریں اور آثار گناہ ان کے سارے وجود کو ڈھانپ لیں وہ اہل دوزخ ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے( بلی من کسب سیئة و احاطت به خطیئته فا ٰوٰلئک اصحٰب النار هم فیها خٰلدون ) ۔ یہ ایک کلی قانون ہے کسی قوم وملت اور کسی گروہ و جمعیت کے گنہگار وں میں اور دیگر انسانوں میں موجود گنہ گاروں میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ۔رہے پرہیز گار مومنین تو ان کے بارے میں بھی ایک کلی قانون ہے جو سب کے لئے یکساں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے عمل صالح انجام دیا ہے ۔ وہ اہل بہشت ہیں اور اہل بہشت ہمیشہ وہیں رہیں گے( و الذین اٰمنو ا وعملواالصالحات اوٰ لئک اصحٰب الجنة هم فیها خٰلدون ) ۔

( ۱) غلط کمائی :

کسب اور اکتساب کا معنی ہے جان بوجھ کر ، اپنے اختیار سے کوئی چیز حاصل کرنا ۔ اس لحاظ سے” بلی من کسب سیئة “ ایسے اشخاص کی طرف اشارہ ہے جو علم ، ارادہ اور اختیار سے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ” کسب “ شاید اس لئے ہے کہ سر سری نظر میں گنہ گار گناہ کو اپنے نفع میں اور اس کے ترک کرنے کو اپنے نقصان میں سمجھتا ہے ۔ ایسے لوگوں ہی کے بارے میں چند آیات کے بعد اشارہ ہوگا جہاں فرمایا گیا ہے :

انہوں نے آخرت کو اس دینا کی زندگی کے لئے بیچ ڈالا اور ان کی سزا میں کسی قسم کی تخفیف نہیں ہے ۔

آثار گناہ نے احاطہ کرلیا ہے ” سے کیا مراد ہے :

لفظ خطیئہ بہت سے مواقع پر ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو جان بوجھ کر سرزد نہ ہوئے ہوں لیکن محل بحث آیت میں گناہ کبیرہ کے معنی میں آیا ۱ ہے یا اس سے مراد ہے اثار گناہ(۲) جو انسان کے دل و جان پر مسلط ہوجاتے ہیں ۔

بہر حال احاطہ گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس قدر گناہوں میں ڈوب جائے کہ اپنے لئے ایک ایسا قید خانہ بنالے جس کے سوراخ بند ہوں ۔

اس کی توضیح یوں ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ابتدا ء میں ایک عمل ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک حالت و کیفیت میں بدل جاتا ہے اس کا دوام و تسلسل ملکہ و عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب وہ شدید ترین ہوجاتا ہے تو انسان کا وجود گناہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ یہ وہ حالت ہے جب کسی قسم کا پند و نصیحت ، موعظہ اور رہنماؤں کی رہنمائی اس کے وجود پر اثر انداز نہیں ہوتی اور حقیقت میں اپنے ہاتھوں اپنی یہ حالت بناتا ہے ۔ ایسے اشخاص ان کیڑوں کی مانند ہیں جو اپنے گرد جال تن لیتے ہیں جو انہیں قیدی بنا کر بالآخر ان کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔

واضح ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہمیشہ جہنم میں رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔

کچھ آیات ہیں جن کے مطابق خدا صرف مشرکین کو نہیں بخشے گا لیکن غیر مشرک قابل بخشش ہیں مثلاََ :

( ان الله لا یغفران یشرک به و یغفر مادون ذٰلک لمن یشاٰء ) نساء ۔ ۴۸

ایسی آیا ت اور زیر بحث آیات جن میں ہمیشہ جہنم میں رہنے کا تذکرہ ہے اگر ان دونوں طرح کی آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسطرح کے گنہگار آخر کار گوہر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ مشرک و بے ایمان ہو کر دنیا سے جاتے ہیں ۔

____________________

۱ ۔ تفسیر کبیر از فخر الدین رازی ، آیہ کے ذیل میں ۔

۲۔ تفسیر المیزان ، آیہ مذکورہ کے زیل میں

نسل پرستی کی ممانعت :

زیر بحث آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل پرستی کی روح جو آج کی دنیا میں بھی بہت سی بد بختیوں کا سر چشمہ ہے اس زمانے میں یہودیوں میں موجود تھی اور وہ اپنے لئے بہت سے خیالی امتیازات کے قائل تھے ۔ کتنے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی سال گذرنے کے باوجود ابھی تک یہ نفسیاتی بیماری ان میں موجود ہے اور در حقیقت غاصب اسرائیلی حکومت کی پیدائش کا سبب بھی یہی نسل پرستی ہے ۔

یہودی نہ صرف دنیا میں اپنی برتری کے قائل ہیں بلکہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ نسل امتیاز آخرت میں بھی ان کی مددکرے گا اور ان کے گنہگار لوگ دوسری قوموں کے گنہ گاروں کے بر عکس صرف تھوڑی سی مدت کے لئے خفیف سی سزا پائیں گے ۔

انہی غلط خیالات نے انہی طرح طرح کے جرائم ، بد بختیوں اور سیہ کاریوں میں مبتلا کیے رکھا ہے ۔(۱)

____________________

۱ سورہ نساء آیہ ۱۳۲ کے ذیل میں بھی چھوٹے امتیا زات کی بحث تفسیر نمونہ جلد ۲ میں آئے گی ۔

آیات ۸۳، ۸۴،۸۵،۸۶

۸۳ ۔( و اذ اخذنا میثا ق بنی اسرائیل لا تعبدون الا الله قف و بالوالدین احسانا وذی القربیٰ والیتٰمیٰ و المسٰکین قوالوا للناس حسنا َ و اقیموا الصلوٰة و اٰتو االزکوٰة ط ثم تولیتم الا قلیلا منکم و انتم معرضون )

۸۴ ۔( و اذ اخذنا میثا قکم لا تسفکون دمائکم ولا تخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقررتم و انتم تشهدون )

۸۵ ۔( ثم انتم هٰؤلاء تقتلون انفسکم و تخرجون فریقا منکم من دیارهم تظٰهرون علیهم با لاثم والعدوان ط و ان یا تو کم اسٰریٰ تفٰدوهم وهو محرم علیکم اخراجهم ط افتئو منون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض فما جزاء من یفعل ذٰلک منکم فی الحٰیوة الدنیا ویوم القیامة یردون الی اشد العذاب ط وما الله بغافل عما تعملون )

۸۶ ۔ ا( ٰولئک الذین اشترو الحیٰوة الدنیا با لاٰخرة فلا یخفف عنهم العذاب ولا هم ینصرون )

۸۳ ۔ اور (یاد کرو اس وقت کو ) جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا کہ تم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور ماں باپ ، ذوی القربیٰ ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی کرو گے اور لوگوں سے اچھے پیرائے میں بات کرو گے ، نیز نماز قائم کرو گے اور زکوٰة اداکرو گے ۔ لیکن عہد وپیمان کے باوجود چند افراد کے سوا تم سب نے رو گردانی کی اور (ایفاء عہد سے )پھر گئے ۔

۸۴ ۔ اور ( وہ وقت کہ ) جب ہم نے تم سے پیمان لیا کہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور ایک دوسرے کو اپنی سر زمین سے باہر نہیں نکالو گے ، تم نے اقرار کیا اور تم خود ( اس پیمان پر ) گواہ تھے ۔

۸۵ ۔پھر تم ہو کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو سر زمین سے باہر نکال دیتے ہو اور گناہ و ظلم کا ارتکاب کرتے ہو ان پر تسلط حاصل کرتے ہو ( اور یہ سب اس عہد کی خلاف ورزی ہے جو تم نے خدا سے باندھا ہے ) لیکن اگر ان میں سے بعض قیدیوں کی شکل میں تمہارے پاس آئیں اور فدیہ دے دیں تو انہیں آزاد کردیتے ہیں حالانکہ انہیں باہر نکالنا ہی تم پر حرام ہے ۔ کیا تم آسمانی کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لے آتے ہو اور کچھ سے کفر اختیار کرتے ہو ۔ جو شخص احکام و قوانین خدا میں تبعیض کا ) یہ عمل انجام دیتا ہے اس کے لئے اس جہان کی رسوائی اور قیامت میں سخت ترین عذاب کی طرف باز گشت کے سوا کچھ نہیں اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے ۔

۸۶ ۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کے لئے آخرت کو بیج دیا ہے لہذا ان کی سزا میں تخفیف نہیں ہوسکتی اور کوئی ان کی مدد نہیں کرے گا ۔

عہد و پیمان کا ذکر

گذشتہ آیات میں بنی اسرائیل کے عہد و پیمان کا ذکر تو کہیں آیاہے لیکن اس بارے میں تفصیل بیان نہیں ہوئی لیکن محل بحث آیت میں اس عہد و پیمان کی شقوں کا ذکر کیا گیاہے۔ ان میں سے زیادہ تر یا تمام کی تمام ان امور میں سے ہیں جنہیں ادیان الہی کے ثابت شدہ احکام کا نام دینا چاہئے کیونکہ تمام آسمانی ادیان میں یہ پیمان اورا حکام موجود ہیں ۔ ان آیات میں قرآن یہودیوں کو شدید سرزنش کررہاہے کہ تم نے اس پیمان کو کیوں توڑدیا۔ قرآن انہیں یہ پیمان توڑنے کی پاداش میں اس جہان کی رسوائی اور اس جہان کے شدید عذاب سے ڈرا رہاہے۔

یہ پیمان جس کے بنی اسرائیل خود شاہد تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے ان امور پر مشتمل ہے۔

۱ ۔ اس وقت کو یاد کر و جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدائے یکتا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروگے اور کسی بت کے سامنے سر تعظیم نہیں جھکاؤگے( و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا الله ) ۔

۲ ۔ ماں باپ سے نیکی کروگے( وبالوالدین احسانا ) ۔

۳ ۔ اپنے رشتہ داروں یتیموں اور مدد طلب کرنے والے محتاجوں سے بھی نیکی کروگے( و ذی القربی و الیتمی و المساکین ) ۔

۴ ۔ اجتماعی طور پر لوگوں کے ساتھ تمہارا سلوک اچھا ہوگا اور لوگوں سے اچھے پیرائے میں بات کروگے( و قولوا للناس حسنا ) ۔

۵ ۔ نماز قائم کروگے اور ہر حالت میں خدا کی طرف متوجہ رہوگے( و اقیموا الصلاة ) ۔

۶ ۔ زکوة ادا کرنے اور محروم لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کروگے( واتوالزکوة ) ۔

لیکن تم میں سے مختصر سے گروہ کے علاوہ سب نے اپنے عہد سے منہ ہوڑلیا اور اپنے پیمان کو ایفا کرنے سے روگردانی کی( ثم تولیقم الا قلیلا منکم و انتم معرضون ) ۔

۷ ۔ یاد کرو اس وقت کو جب تم سے ہم نے عہد لیا کہ ایک دوسرے کاخون نہیں بہاؤگے( و اخذنا میثاقکم اد تسفکون دماء کم ) ۔

۸ ۔ ایک دوسرے کو اپنی بستیوں سے باہر نہیں نکا لوگے( و لا تخرجون انفسکم من دیارکم ) ۔

۹ ۔ اگر کوئی شخص تم میں سے جنگ کے دوران قید ہوجائے تو سب اس کی آزادی کے لئے مدد کروگے فدیہ دو گے اور اسے آزاد کراؤگے (پیمان کا یہ مفہوم)( افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض ) سے حاصل کیا گیاہے جو بعد میں آئے گا)۔

پھر تم نے ان سب شرائط کا اقرار کیا اور اس پیمان پر خود گواہ ہوئے( ثم اقررتم و انتم تشهدون ) ۔

لیکن تم نے ان میں سے بہت ہی شرائط کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ تم وہی تھے جو ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے میں سے کچھ لوگوں کو ان کی زمین سے نکال دیتے تھے( ثم انتم هولاء تقتلون انفسکم و تخرجون ) اور تعجب کی بات یہ کہ فدیہ دینے اور قیدیوں کو آزاد کرانے میں تم تورات کے حکم اور پیمان الہی سے سند حاصل کرتے تھے۔ کیا کتاب الہی کے بعض احکامات پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر اختیار کرتے ہو( فَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ ) یہ جو تم احکام الہی میں تبعیض و تفریق ر وا سمجھے ہو اس کی جزا اس جہا ن کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں( فَمَا جَزَاءُ ) ( مَنْ یَفْعَلُ ذَلِکَ مِنْکُمْ إِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ) (۱) اور قیامت کے دن ایسے لوگ سخت ترین عذاب کی طرف پلٹیں گے (یوم القیامة یردون الی اشد العذاب ) اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے( وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) ۔ بلکہ اس نے تمہارے اعمال کی کلیات و جزئیات کو بڑی باریکی سے شمار کیا ہے اور اس کے مطابق تمہیں بدلادے گا۔

محل بحث آیت کے آخر میں ان کے ان اعمال کا اصلی سبب بیان کیاہے جو خلاف حقیقت ہیں ۔ فرمایا ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی ہے( اولئک الذین اشتروا الحیوه الدنیا بالاخره ) اسی بنا ء پر ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی اور کوئی ان کی مدد کے لئے کھڑا نہیں ہوگا( فَلاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ ) (

آیات کا تاریخی پر منظر:

جیسا کہ مفسرین نے نقل کیاہے بنی قریظہ اور بنی نضیر جو یہود یوں کے دو گروہ تھے۔ ان کی آپس میں قریبی رشتہ داری تھی تا ہم دنیاوی منافع کی خاطر ایک دوسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ بنی نضیر، قبیلہ خزرج سے مل گئے تھے۔ جو مدینہ کے مشرکین کا قبیلہ تھا اور بنو قریظہ اوس کے ساتھ مل گئے تھے۔

ان دو قبیلوں کے در میان جو جنگیں ہوتی تھیں ہر گروہ اپنے ہم پیمان قبیلے کی مدد کرتاتھا اور اس طرح دوسرے گروہ کے خلاف لڑتا اور جب جنگ کی آگ سرد پڑجاتی تو تمام یہودی جمع ہوجاتے اور ایک دوسرے سے اتحاد کرتے تا کہ فدیہ ادا کرے اپنے قیدیوں کو آزاد کرا لیں ۔ اس عمل میں وہ تورات کے حکم اور قانون کو سند مانتے حالانکہ اوس و خزرج دونوں مشرک تھے اولا ان کی مدد کرناہی جائز نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ وہی قانون جو فتنہ کا حکم دیتاہے قتل کرنے سے بھی رد کتاہے ۔ یہودی دیگر ہٹ دھرم اور نادان قوموں کی طرح ایسے بہت سے اعمال انجام دیتے تھے جو ایک دوسرے کے ضد تھے۔

____________________

۱۔ جملہ (ما جزا) میں لفظ (ما) ممکن ہے نافیہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ استفہامیہ ہو لیکن نتیجے کے طور پر ہر دو طرح سے کوئی فرق نہیں ۔