تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72997
ڈاؤنلوڈ: 3868


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72997 / ڈاؤنلوڈ: 3868
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

کیا احکام شریعت میں نسخ جائز ہے:

لغت کی نظرسے نسخ کا معنی ہے ختم کرنا اور زائل اور شریعت کی منطق میں نسخ ایک حکم بدل کر اس کی جگہ دوسرا حکم نافذ کرنے کو کہتے ہیں ، مثلا:

۱ ۔ ہجرت کے سولہ ماہ بعد تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اس کے بعد قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر ہوا اور انہیں پابند کیا گیا کہ اب نماز کے وقت کعبہ کی طرف رخ کیاکریں ۔

۲ ۔ سورہ نساء آیہ ۱۵ میں بدکار عورتوں کی سزا کے سلسلے میں حکم دیاگیاتھا کہ چار گواہوں کی شہادت پر انہیں گھر میں بند کردیاجائے یہاں تک کہ وہ مرجائیں یا خدا ان کے لئے کوئی اور راستہ مقرر کردے۔

یہ آیت سورہ نور کی آیت اسے منسوخ ہوگئی اور اس آیت کی روسے ان کی سزا سو تازیانے مقرر ہوئی۔

اس مقام پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اگر پہلا حکم مصلحت کا حامل تھا تو پھرا سے منسوخ کیوں کیا گیا اور اگر اس میں مصلحت نہیں تھی تو ابتدا میں نافذ کیوں کیا گیا۔ بہ الفاظ دیگر کیاتھا اگر ابتداء ہی سے ایسا حکم نازل ہوتا کہ تنسیخ اور تغیر کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس سوال کا جواب علماء اسلام بہت پہلے اپنی کتب میں دے چکے ہیں ۔ ہم اس کا خلاصہ کچھ اپنی توضیح کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ زمانے اور علاقے کے لحاظ سے انسان کی ضروریات بدل جاتی ہیں ۔ ایک دن ایک پروگرام اس کی سعادت کا ضامن تھا لیکن دوسرے دن ممکن ہے حالات بدل جانے سے وہی پروگرام اس کے راستے کا کانٹا بن جائے۔

ایک دن ایک دوا بیمار کے لئے بہت مفید ہے اور ڈاکٹر اس کے استعمال کا حکم دیتا ہے جب کہ دوسرے دن بیمار کے کچھ صحت مند ہوجانے کی وجہ سے ممکن ہے یہی دوا اس کے لئے نقصان دہ ہو لہذا ڈاکٹر اس دوا کو ترک کرنے اور اس کے بجائے دوسری دوا استعمال کرنے کا حکم دیتاہے۔

ممکن ہے اس سال طالب علم کے لئے کچھ درس اصلاحی اور مفید ہوں لیکن یہی دروس آئندہ سال یا بعد کے چند سال کے لئے بے فائدہ ہوں ۔ معلم کو چاہئیے کہ ایسا پروگرام اور نصاب مرتب کرے جو ہر سال کی اپنی ضروریات کے مطابق ہو۔اگر ہم تکامل انسان کی روش اور مختلف معاشروں کی طرف توجہ دیں تو یہ بات زیادہ روشن ہوجاتی ہے کہ کبھی ایک پروگرام مفید اور اصلاحی ہوتاہے اور کبھی و ہی نقصان وہ اور لازمی طور پر قابل تغیر ہوتاہے خصوصا اجتماعی، نظریاتی اور عقائد انقلابات کے آغاز میں پروگراموں کی تبدیلی کی ضرورت مختلف اوقات میں زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

البتہ یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ احکام الہی کے اساسی ارکان کے اصول بالکل تبدیل نہیں ہوتے وہ ہر جگہ ایک جیسے رہتے ہیں ۔ توحید، عدالت اجتماعی کے اصول اور اس قسم کے سینکڑوں احکام ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے تغیر تو جزئیات اور دوسرے درجے کے احکام میں ہوتاہے۔

اس نکتے کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ ممکن ہے مذاہب کاتکا مل اس مقام پر پہنچ جائے کہ آخری مذہب خاتم ادیان کے عنوان سے نازل ہو اور اس طرح کہ اب احکام کی تبدیلی کی اس میں کوئی گنجائش نہ ہو۔(۱)

مشہور اگر چہ یہی ہے کہ یہودی نسخ کے کلی طور پر منکر ہیں اور وہ اسی بناء پر مسلمانوں کے قبلہ کی تبدیلی پر معترض تھے لیکن وہ مجبور ہیں کہ اپنے مذہب کی بنیادی کتب کی روشنی میں نسخ کو تسلیم کریں کیونکہ تورات کے مطابق جس وقت نوح کشتی کے نیچے اترے تو خدا نے ان کے لئے تمام جانور حلال کردیے لیکن یہی حکم موسی کی شریعت میں منسوخ ہوگیا اور کچھ حیوانات حرام ہوگئے۔

تورات کے سفر تکوین، فصل ۹ ، شمارہ ۳ میں ہے:

ہر حرکت کرنے والا جو زندہ رہے وہ تمہاری خوراک ہوگا اور یہ سب سبزہ زار کی گھاس کی طرح ہم نے تمہیں دیئے ہیں ۔

لفظ (آیت ) سے کیا مراد ہے:

لغت میں (آیت ) نشانی اور علامت کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا

۱ ۔ قرآن کے جملے اور فقرے جو خاص علامات کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا کئے گئے ہیں وہ آیت کے نام سے مشہور ہیں ۔ جیسا کہ خود قرآن میں ہے:( تِلْکَ آیَاتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ )

یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں ۔ (بقرہ ۲۵۲)

۲ ۔ معجزات کا ذکر آیت کے عنوان سے ہواہے۔ چنانکہ حضرت موسی کے مشہور معجزہ ید بیضا کے بارے میں ہے:

( وَاضْمُمْ یَدَکَ إِلَی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوءٍ آیَةً اٴُخْرَی )

ہاتھ گریبان میں بغل کے نیچے تک لے جاو جب وہ باہر نکلے گا تو سفید چمکنے والا بے عیب و نقص ہوگا اور یہ ایک اور معجزہ ہے۔ (طہ۔ ۲۲)

۳ ۔ خدا شناسی کی دلیل یا قیامت کی نشانی کے لئے بھی لفظ آیات قرآن میں آیاہے۔ ارشاد الہی ہے:

( و جعلنا الیل و النهار ایتین )

رات اور دن کو ہم نے (خدا شناسی کے لئے) دو دلیلیں قرار دیا۔ (بنی اسرائیل۔ ۱۲)

قیامت پر استدلال کے موقع پر فرمایا:

( و من ایته انک تری الارض خاشعة فاذا انزلنا علیها الماء اهتزت و ربت ان الذی احیاها لمحی الموتی انه علی کل شی قدیر )

اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک اور سونی پڑی ہوئی ہے لیکن جب اس پر (بارش کا) پانی برستاہے تو وہ حرکت میں آتی ہے اور اس کے سبزے اگنے لگتے ہیں ۔ وہی ذات جس نے زمین کو زندہ کیاہے۔ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (حم السجدہ۔ ۳۹)

۴ ۔ آنکھوں کو متاثر کرنے والی چیزوں کے لئے بھی یہ لفظ آیاہے۔ مثلا اس آیت میں بلند و عالی محلات کے بارے میں ہے:( اتبنون بکل ریع ایة تعبثون )

کیا ہر بلند جگہ پر عمارتیں بناتے ہو تا کہ ان میں مصروف لہو و لعب رہ سکو۔ (شعراء۔ ۱۲۸)

واضح ہے کہ ان مختلف معانی میں ایک قدر مشترک ہے اور و ہ ہے (نشانی)۔ البتہ زیر بحث آیات میں قرآن نے کہاہے(ہم اگر ایک آیت منسوخ کرتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر لاتے، ہیں ) یہاں آیت سے مراد حکم سے۔ اگر ایک منسوخ ہوا تو اس سے بہتر نازل ہوگا یا اگر ایک نبی کا معجزہ منسوخ ہوا تو بعد والے نبی کو زیادہ واضح معجزہ دیاجاتاہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ بعض روایات میں مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کے ذیل میں ہے کہ نسخ آیت ایک امام کی وفات اور اس کی جگہ دوسرے کی تقرری کی طرف اشارہ ہے۔ تو یہ مفہوم زیر نظر آیت کا ایک مصداق ہے۔

( ننسها ) کی تفسیر:

(ننسھا) کا لفظ محل بحث آیات میں (ننسخ) پر عطف ہے۔ اس کا مادہ (انساء) ہے۔ یہاں یہ لفظ تاخیر کرنے، حذف کرنے اور اذہان سے زائل کرنے کے معنی میں آیاہے

اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ (ننسخ) کو سامنے رکھتے ہوئے اس لفظ کا مفہوم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہاں مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کریں یا اس کا تنسیخ میں بعض مصالح کے پیش نظر تاخیر کریں تو ہر صورت میں اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آئیں گے۔ اس بناء پر لفظ (ننسخ) تھوڑی مدت کے نسخ کے لئے اور (ننسہا) دراز مدت کے نسخ کے لئے ہے۔

( او مثلها ) کی تفسیر:

مندرجہ بالا بات کو پیش نظر رکھیں تو فورا سوال پیدا ہوگا کہ (او مثلھا ) سے کیا مراد ہے۔ اگر کوئی حکم پہلے جیسے حکم کی طرح کاہے تو فضول نظر آتاہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ ایک چیز منسوخ کرکے اس جیسی ہی دوسری چیز لائی جائے ناسخ کو منسوخ سے بہتر ہونا چاہیئے تا کہ نسخ قابل قبول ہو۔

اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ مثل سے مراد یہ ہے کہ ایسا حکم اور قانون پیش کیاجائے جس کا اثر بھی گذشتہ زمانے میں گذشتہ قانون کا ساہو۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ ہوسکتاہے ایک حکم آج کئی آثار و فوائد کا حامل ہو لیکن اس سے یہ آثار کھو جائیں ۔

اس صورت میں اسے منسوخ ہوجانا چاہئیے اور اس کی جگہ نیا حکم آنا چاہیئے جو اگر اس سے بہتر نہ ہو تو کم از کم اس جیسے آثار کا حامل ہو اور یہ چیز زمانے اور حالات سے وابستہ ہے کہ کبھی گذشتہ حکم کی طرح کا قانون چاہیئے اور کبھی اس سے بہتر۔ اس طرح کسی قسم کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔

____________________

۱ اس موضوع کی پوری تفصیل انشاء اللہ آپ سورہ احزاب کی آیہ ۴۰ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

آیت ۱۰۸

۱۰۸ ۔( اٴَمْ تُرِیدُونَ اٴَنْ تَسْاٴَلُوا رَسُولَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوسَی مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَتَبَدَّلْ الْکُفْرَ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ )

ترجمہ

۱۰۸ ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اس طرح کے (نا معقول) سوال کرو جو اس سے پہلے موسی سے کئے گئے تھے (اور اس بہانے سے ایمان لانے سے روگردانی کرو) ۔ جو شخص ایمان سے کفر تبادلہ کرے اور ایمان کے بجائے اسے قبول کر لے) وہ (عقل و فطرت کی راہ مستقیم سے گمراہ ہوچکاہے۔

شان نزول

کتب تفاسیر میں اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں مختلف مطالب نظر آتے ہیں اور نتیجہ کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں ۔

۱ ۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ وہب بن زید اور رافع بن حرملہ رسول خدا کے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کی طرف سے کوئی خط ہمارے نام پیش کیجئے تا کہ ہم اسے پڑھ کر ایمان لے آئیں یا ہمارے لئے نہریں جاری کیجئے تا کہ ہم آپ کی پروری کریں ۔

۲ ۔ بعض کہتے ہیں کہ عرب کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام سے اسی طرح کے تقاضے کیئے جیسے یہودیوں نے حضرت موسی سے کئے تھے انہوں نے کہا ہمیں ظاہر بظاہر خدا کی نشاندہی کرو کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ اور ایمان لے آئیں ۔

۳ ۔ بعض نے لکھا ہے کہ ایک گروہ عرب نے پیغمبر اکرم سے تقاضا کیا کہ ان کیلئے ذات افراط سے ایک مخصوص درخت مقرر کردیں ۔ تا کہ وہ اس کی پرستش کرسکیں جیسے بنی اسرائیل کے جاہلوں نے حضرت موسی سے کہاتھا:

اجعل لنا الها کما لهم الهة

ہمارے لئے ایک بت مقرر کردیں جیسے بت پرستوں کے پاس ہیں ۔ (اعراف ۔ ۱۳۸)

مندرجہ بالا آیت ان کے جواب میں نازل ہوئی۔

بے بنیاد بہانے

اس آیت کے مخاطب اگر چہ یہودی نہیں ہیں بلکہ کمزور ایمان والے مسلمان یا مشرکین ہیں لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ یہودیوں کی سرگذشت سے غیر متعلق بھی نہیں ۔

غالبا قبلہ کی تبدیلی کے بعد کی بات ہے کہ کچھ مسلمانوں اور مشرکین نے یہودیوں کے پرا پیگنڈا کے زیر اثر پیغمبر اسلام سے چند بے محل اور نامعقول تقاضے کئے جن کے نمونے شان نزول میں بیان ہوچکے ہیں ۔ خداوند تعالی انہیں ایسے سوالوں سے منع کرتے ہوئے فرماتاہے: کیاتم چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے وہی نامعقول تقاضے کرو جو اس سے پہلے موسی سے کئے گئے ہیں ، تا کہ ان بہانہ سازیوں سے ایمان سے رخ پھیرسکو( ام تریدون ان تسئلوا رسولکم کما سئل موسی من قبل ) ۔چونکہ ایک طرح سے یہ ایمان سے کفر کا تبادل ہے لہذا مزید فرمایا گیاہے: جو شخص ایمان کی بجائے کفر کو قبول کرے وہ راہ مستقیم سے گمراہ ہوگیاہے( و من یتبدل الکفر بالایمان فقد ضل سواء السبیل ) ۔

یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اسلام علمی اور منطقی سوالات سے منع کرتاہے یا دعوت نبی کی حقانیت سمجھنے کے لئے معجزہ طلبی سے روکتاہے کیونکہ فہم و ادراک اور ایمان کے یہی ذرائع ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو بہانہ سازی اور دعوت پیغمبر سے بچنے کے لئے بے بنیاد سوالات کرتے تھے اور خو د خواہ معجزات کا ذکر کرتے تھے۔ جبکہ پیغمبر کافی دلائل و معجزات ان کے سامنے پیش کرچکے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نئے طور سے آتا اور نئی خارق عادت چیز کا تقاضا کرتا۔ حالانکہ معجزہ اور خارق عادت کوئی بازیچہ اطفال تو نہیں ہے اوہ اس قدر ضروری ہے کہ جس سے پیغمبروں کے کلام کی سچائی کا اطمینان ہوسکے ورنہ پیغمبر معجزات کا کار و بار تو نہیں کرتے کہ وہ ایک طرف بیٹھ جائیں اور ہر آنے والا ان سے معجزہ طلب کرتا رہے۔علاوہ ازیں کبھی تو وہ بالکل نامعقول تقاضے کرتے تھے مثلا خدا کو آنکھ سے دیکھنا یا بت بنا کردینا۔ در حقیقت قرآن لوگوں کو یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہے کہ اگر تم اسی طرح کے نامعقول تقاضے کرتے رہے تو تمہارے سر پر بھی وہی عذاب آئے گا جو قوم موسی کے سر پر آیاتھا۔

آیات ۱۰۹ ،۱۱۰

۱۰۹ ۔( وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ اٴَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ اٴَنفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِهِ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ )

۱۱۰ ۔( وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِاٴَنفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )

ترجمہ

۱۰۹ ۔ بہت سے اہل کتاب اس حسد کی بناء پر جو ان کے وجود میں جڑ پکڑچکاہے یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام و ایمان کے بعد پہلی حالت کی طرف پھےر لے جائیں ۔ حالانکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہوچکاہے۔ تم انہیں معاف کردو اور ان سے درگذر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا فرمان (جہاد) بھیجے ۔ یقینا خدا پرہیز پر قدرت رکھتاہے۔

۱۱۰ ۔ نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو اور ان دو ذرائع سے اپنے معاشرے کی روح اور جسم کو طاقتور در بنالو اور جان لوکہ) ہر کار خیر جو اپنے لئے (دار آخرت کی طرف) آگے بھیجتے ہو اسے خدا کے ہاں موجود پاؤگے۔ خدا تمہارے اعمال سے آگاہ ہے۔

ہٹ دھرم حاسد

بہت سے اہل کتاب ایسے تھے کہ صرف اس پر بس نہ کرتے تھے کہ خود دین اسلام قبول نہ کریں بلکہ انہیں اصرار تھا کہ مومنین بھی اپنے ایمان سے پلٹ آئیں اور اس سبب حسد کے سوا کچھ نہ تھا۔

قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ فرمایا: بہت سے اہل کتاب حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام پر ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں حالانکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہوچکا ہے (وهو کثیر من اھل الکتاب لو یرد و نکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عندا انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق)۔اس مقام پر قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ ایسے کجر و اور تباہ کن تقاضوں کے مقابلے میں تم انہیں معاف کر دو اور ان سے درگذر کرو یہاں تک کہ خدا خود اپنا فرمان بھیجے کیونکہ خدا ہرچیز پرقدرت رکھتاہے (فاعفوا وا صفحوا حتی یاتی اللہ بامرہ ان اللہ علی کل شی قدیر)۔

حقیقت میں مسلمانوں کو ایک تکنیکی حکم دیاگیاہے کہ ان مخصوص حالات میں عفو و گذر کے ہتھیارسے استفادہ کریں اور اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح میں لگے رہیں اور فرمان خدا کا انتظار کرتے رہیں ۔

بہت سے مفسرین کے بقول یہاں فرمان خدا سے مراد فرمان جہاد ہے جو اس وقت تک نازل نہیں ہواتھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ لوگ ابھی ہر پہلو سے اس کے لئے تیارنہ ہوں ۔ اسی لئے تو بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ آیت جہاد کی آیات کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ جن کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا۔لیکن اسے نسخ قرار دینا شاید صحیح نہ ہو کیونکہ نسخ کا معنی ہے کہ ظاہرا تھوڑی مدت کے لئے کوئی حکم جاری ہوتاہے اور شریعت قرار پاتاہے۔ لیکن باطنا موقت ہوتاہے جب کہ یہاں آیت میں عفو و در گذر کا حکم ایک محدود شکل میں آیاہےوہ اس زمانے تک محدود ہے جب تک جہاد کے متعلق فرمان الہی نہیں آیا۔ بعد کی آیت جس میں مومنین کو دو اہم اصلاحی احکام دیئے گئے ہیں ، ایک نماز جو انسان اور خدا کے در میان مضبوط ربط پیدا کرتی ہے اور دوسرا زکوة جو معاشرے کے افراد کے لئے ایک دوسرے سے وابستگی کی رمز ہے اور یہ دونوں امور دشمن پر کامیابی کے لئے ضروری ہیں ۔ فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو اور ان دو ذرائع سے اپنی روح اور جسم کو طاقت بخشو( و اقیموا الصلوة و اتوا الزکوة ) ۔مزید فرمایا: یہ خیال نہ کرو کہ جو نیکی کا تم کرتے ہو اور جو مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہو وہ ختم ہوجاتا ہیں ۔

نہیں ایسا بلکہ جو نیکیاں تم آگے بھیجتے ہو انہیں خدا کے ہاں (دار آخرت میں ) موجود پاوگے( و ما تقد هوا الا نفسکم من خیر تجدوه عند الله ) ۔ خدا تمہارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے( ان الله بما تعملون بصیر ) وہ پورے طور پر جانتا ہے کہ کون سا عمل تم نے خدا کے لئے انجام دیاہے اور کون سا اس کے غیر کے لیے۔

چند اہم نکات

(!)( فاعفوا ) اور( اصفحوا ) :

اصفحو کا مادہ (صفح ) ہے اس کا معنی ہے دامن کوہ ، تلوار کا عرض اور رخسار اور یہ لفظ عموما پھیرنے اور صرف نظر کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔

لفظ: (فاعفوا) کے قرینے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روگردانی، غصہ اور بے اعتنائی کے لئے نہیں بلکہ بزرگانہ در گزر کے طور پرہے۔ یہ دو تعبیریں ضمنا نشاندہی کرتی ہیں کہ مسلمان اس وقت بھی اس قدر قدرت و طاقت رکھتے تھے کہ عفو و گزر نہ کرتے اور دشمن کو ضروری سزا دیتے لیکن خدا وندتعالی نے ان کو پہلے عفو و در گزر کا حکم دیاہے تا کہ وہ ہر لحاظ سے تیاری کرلیں یا اس لئے کہ دشمن اگر قابل اصلاح ہیں تو ان کی اصلاح ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں دشمن کے مقابلے میں شروع میں کبھی خشونت اور سخت گیری نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ یہ اخلاق اسلامی کا ضروری حصہ ہے کہ پہلے عفو در گزر سے کام لیاجائے اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو بروئے کار لایاجائے۔

(!!)( ان الله علی کل شیء قدیر ) کا جملہ:

ہوسکتا ہے یہ جملہ اس مقام پر اس طرف اشارہ ہو کہ خدا ایسا کرسکتاہے کہ غیر عادی طریقوں سے تمہیں ان پر کامیابی دیدے لیکن انسانی زندگی کا مزاج اور عالم آفرینش کی طبیعت مقتضی ہیں کہ ہر کام تدریجا اور مقدمات فراہم ہونے پر انجام پذیر ہو۔

(!!!)( حسد من عند انفسهم ) کا مفہوم :

(یعنی اس کا سبب وہ حسد ہے جو ان کی اپنی طرح سے ہے) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ بعض اوقات حسد کا مقصد تو ذاتی غرض ہوتی ہے لیکن اسے دین کا رنگ دے دیاجاتاہے یہاں جو حسد ہے اس میں تو یہ پہلو بھی نہیں بلکہ فقط ذاتی غرض پرمبنی ہے۔(۱)

____________________

۱ تفسیر المنار ،زیر بحث آیہ کے ذیل میں ۔

آیات ۱۱۱،۱۱۲

۱۱۱ ۔( وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کَانَ هُودًا اٴَوْ نَصَارَی تِلْکَ اٴَمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین )

۱۱۲ ۔( بَلَی مَنْ اٴَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ اٴَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ )

ترجمہ

۱۱۱ ۔ وہ کہتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ یہ تو صرف ان کی تمنا ہے کہیے کہ اگر سچے ہو تو (اس دعوی پر) اپنی دلیل پیش کرو۔

۱۱۲ ۔ جی ہاں ! جو بھی خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرلے اور نیکوکار ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے پاس مسلم ہے۔ ان کے لئے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (لہذا جنت اور سعادت کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے)۔

یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل

مندرجہ بالا آیات میں قرآن یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک اور فضول اور نامعقول دعوی کی طرف اشارہ کرکے انہیں دندان شکن جواب دیتاہے۔ کہتاہے: وہ (یہود و نصاری) کہتے ہیں کہ یہودی و نصاری کے علاوہ ہرگز کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا( و قالوا لن یدخل الجنة الا من کان هودا او نصری ) (۱)

قرآن دونوں گروہوں کے دعوی کا ایک ہی جگہ جواب دیتاہے۔ پہلے فرماتاہے: یہ توان کی فقط آرزو ہے (جو کبھی پوری نہ ہوگی (تلک امانیھم)۔ پھر پیغمبر کو مخالف کرکے فرماتاہے:( قل هاتوا برهانکم ان کنتم صدقین ) ۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو اپنے دعوی پر کوئی دلیل پیش کرو۔یہ حقیقت ثابت ہونے کے بعد کہ ان کے پاس ان کے دعوی کی کوئی دلیل نہیں اور ان کے لئے اختصاص جنت کا دعوی صرف خواب و خیال ہے جو ان کے سروں پر سوار ہے جنت میں داخل ہونے کا اصلی و حقیقی قانون کلی بیان کرتاہے۔ فرماتاہے: ہاں تو جو خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرلے اور نیکوکار ہو اس کا اجر و ثواب اس کے پروردگار کے ہاں مسلم ہے( بلی من اسلم وجهه الله و هو محسن فله اجر عند ربه ) ۔ اس لئے ایسے اشخاص کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے( و لا خوف علیهم و لا هم یحزنون ) ۔

لہذا جنت، اجر و ثواب الہی اور سعادت دائمی کا حصول کسی گروہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کے لئے ہے جن میں دو شرطیں پائے جائی ہوں ۔

۱ ۔ اول یہ کہ وہ حکم کے سامنے تسلیم محض ہوں ، ایمان و توحید ان کے دل پر سایہ فگن ہو اور احکام الہی میں کسی قسم کی تبعیض اور چون و چرا کے قائل ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ جو احکام ان کے فائدے کے ہوں وہ تو قبول کرلیں اور جو ان کے خلاف ہوں انہیں پس پشت ڈال لیں بلکہ وہ مکمل طور پر تسلیم حق ہوں ۔

۲ ۔ دوسرا یہ کہ ان کے ایمان کے آثار عمل اور کا رخیر کی انجام دہی کی صورت میں ظاہر ہوں ۔ وہ سب سے نیکی کریں اور تمام پروگراموں میں نیک ہوں ۔

اس بیان سے در اصل قرآن یہودیوں کی نسل پرستی اور عیسائیوں کے نامعقول تعصبات کی نفی کرتاہے اور کسی خاص گروہ میں سعادت و خوش بختی کے منحصر ہونے کو باطل قرار دیتاہے۔ نیز ضمنا ایمان اور عمل صالح کو نجات کا معیار قرار دیتاہے۔

چند اہم نکات

(!)( امانیهم ) :

یہ امنیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایسی آرزو جس تک انسان رسائی حاصل نہ کرسکے لیکن یہاں تو اہل کتاب میں سے مدعین کی صرف ایک آرزو تھی یعنی جنت کی ان کے لئے تخصیص ۔ چونکہ یہ آرزو کئی آرزؤں کا سرچشمہ تھی اور اصطلاحا کئی شاخیں اور پتے رکھتی تھی اس لئے جمع کی صورت میں ذکر ہوئی ہے۔

(!!)( اسلم وجهه ) :

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں اسلام کی (وجہ) کی طرف نسبت دی گئی ہے (اپنے چہرے کو خدا کے سامنے خم کرنا)۔ یہ اس سبب سے ہے کہ کسی کے سامنے سپردگی کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ انسان پورے چہرے کے ساتھ اس کے سامنے متوجہ ہو۔ البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ (وجہ) کا معنی ذات ہو یعنی اپنے پورے وجود کے ساتھ فرمان پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔

(!!!) بے دلیل د عووں سے بے اعتنائی:

مندرجہ بالا آیات میں یہ نکتہ بھی ضمنا مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کسی مقام پر بھی بے دلیل باتوں کے پیچھے نہ جائیں اگر کوئی بھی شخص کچھ دعوی کرے تو اس سے دلیل مانگیں اور یوں اندھی تقلید کے سامنے بند باندھ دیں تا کہ ان کے معاشرے میں منطقی فکر کی حکمرانی ہو۔

(!۔)( و هو محسن ) :

مسئلہ تسلیم کے بعد (و هومحسن ) ارشاد فرمایا گیاہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب تک ایمان راسخ نہ ہو نیکی اپنا وسیع مفہوم نہیں پاسکتی۔ یہ جملہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتاہے کہ ایسے انسان کے لئے نیکی ایک جلد گزرجانے والا فعل نہیں بلکہ وہ ان کی صفت بن چکی ہے اورنکی ذات کی گہرائی میں اتر چکی ہے۔

راہ توحید کے راہیوں کے لیے خوف و غم نہیں :

اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ وہ صرف خدا سے ڈرتے ہیں اور کسی سے گھبراتے نہیں لیکن بیہودہ مشرک ہر چیز سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اس کی اور اس کی گفتگو، بدحالی، فضول رسم و رواج اور ایسی ہی بہت سی چیزیں ،ہیں جن سے وہ خوفزدہ رہتے ہیں ۔

____________________

۱ اگر چہ لفظ (قالوا) بصورت واحد ہے لیکن معلوم ہے کہ دو گروہوں کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں سے ہر ایک کا دعوی الگ ہے ۔ یہودی کہتے ہیں جنت ہمارے لئے مخصوص ہے اور عیسائی کہتے ہیں ہمارے لئے مخصوص ہے۔

آیت ۱۱۳

۱۱۳ ۔( وَقَالَتْ الْیَهُودُ لَیْسَتْ النَّصَارَی عَلَی شَیْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَی لَیْسَتْ الْیَهُودُ عَلَی شَیْءٍ وَهُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللهُ یَحْکُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ )

ترجمہ

۱۱۳ ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی (خدا کی ہاں ) کوئی حیثیت و وقعت نہیں اور عیسائی (بھی) کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں (اور وہ باطل پر ہیں ) حالانکہ دونوں گروہ خدا کی کتاب پڑھتے ہیں (اور انہیں ایسے تعصبات اور کینوں سے علیحدہ رہنا چاہیے)۔ نادان (اور مشرک )لوگ بھی ان کی سی باتیں کرتے ہیں ۔ خداوند عالم قیامت کے دن ان کے اختلاف کا فیصلہ کرے گا۔

شان نزول

بعض مفسرین نے ابن عباس سے یوں نقل کیاہے:

جب نجران کے عیسائیوں کا ایک گروہ رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو علماء یہود کا ایک گروہ بھی وہاں موجود تھا۔ عیسائیوں اور ان کے در میان آنحضرت کے سامنے ہی جھگڑا شروع ہوگیا۔ رافع بن حرملہ جو ایک یہودی تھا اس نے عیسائیوں کی طرف منہ کرکے کہا: تمہارے دین کی کوئی اساس نہیں ہے نیز اس نے حضرت عیسی کی نبوت اور انجیل کا انکار کیا۔ نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے بعینہ یہی جملہ اس کے جواب میں کہا: کہنے لگا: یہودیوں کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں اور اس نے حضرت موسی کی نبوت اور ان کی کتاب تورات کا انکار کیا۔ اسی اثناء میں مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور دونوں گروہوں کو ان کی غلط اور نادرست گفتگو پر ملامت کی

بے دلیل دعوی نتیجہ تضاد ہوتاہے

گذشتہ آیات میں ہم نے یہود و نصاری کی ایک جماعت کے کچھ بے دلیل دعووں کو ملاحظہ کیا۔ زیر بحث آیت نشاندہی کرتی ہے کہ بے دلیل دعوی نتیجہ تضاد ہوتاہے اور ہر گروہ اپنی اجارہ داری کا خواہشمند ہوتاہے۔ ارشاد ہے: یہودی کہتے ہیں عیسائیوں کی خدا کے ہاں کوئی اہمیت و حیثیت نہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کی کوئی وقعت نہیں اور وہ باطل پر ہیں (وَقَالَتْ الْیَہُودُ لَیْسَتْ النَّصَارَی عَلَی شَیْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَی لَیْسَتْ الْیَہُودُ عَلَی شَیْء) (لیستعلی شیء ہوسکتا ہے اس طرف اشارہ ہو کہ وہ درگاہ الہی میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے یا ان کے مذہب کی کوئی حیثیت نہیں ۔

مزید فرمایا: یہ ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ آسمانی کتاب پڑھتے ہیں( و هم یتلون الکتب ) یعنی کتب خدا جن سے وہ حقائق سمجھ سکتے ہیں ، کے حامل ہونے کے با وجود صرف تعصب ، عناد اور ڈھٹائی کی باتیں کرنا تعجب انگیز ہے۔

حضرت موسی نے حضرت مسیح کے آنے کے بارے میں جو بشارتیں دی ہیں ان کی طرف توجہ کریں تو یہودی بغیر تعصب کے ان کی نبوت قبول کرسکتے ہیں اور عیسائی بھی انجیل کی تعلیمات اور حضرت مسیح کی گفتگو سامنے رکھیں تو تورات اور حضرت موسی کی نبوت پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ حضرت مسیح نے فرمایا ہے کہ میں حضرت موسی کی شریعت کی تکمیل کے لئے آیاہوں ۔

قرآن مزید کہتاہے: نادان مشرکین بھی ان کی سی باتیں کہتے تھے (حالانکہ یہ اہل کتاب ہیں اور وہ بت پرست ہیں ،( کذالک قال الذین لا یعلمون مثل قولهم ) ۔

در حقیقت اس آیت میں قرآن نے تعصب کے اصل سرچشمہ کا ذکر کیاہے جو جہل و نادانی ہے کیونکہ نادان انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے گروہی محصور رہتے ہیں اس کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتے اور بچین سے جس مذہب سے آشنا ہوں اپنے دل کو سختی کے ساتھ منسلک رکھتے ہیں چاہے وہ فضول اور بے بنیاد ہو اور اس کے علاوہ ہر چیز کا انکار کردیتے ہیں ۔

آیت کے آخر میں ہے: اس اختلاف کا فیصلہ اللہ آخرت میں خود کرے گا۔( فاالله یحکم بینهم یوم القیمة فیما کانوا فیه یختلفون ) ۔

آخرت وہ مقام ہے جہاں حقائق زیادہ روشن اور واضح ہوجائیں گے۔ ہر چیز کے اسناد و مدارک آشکار ہوجائیں گے اور وہاں کوئی شخص حق کا انکار نہیں کرسکے گا۔ اس وقت تمام اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ گویا قیامت کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اختلافات باقی نہ رہیں گے۔

مندرجہ بالا آیت میں ضمنا یہ بھی ہے کہ خدا مسلمانوں کو تسلی دیتاہے کہ اگر ان مذاہب کے پیروکار تمہارے مقابلے میں کھڑے ہوگئے ہیں اور تمارے دین کو جھٹلاتے ہیں تو اس کی ہرگز پرواہ کرو وہ تو خود کو بھی قبول نہیں کرتے ان میں سے ہر ایک دوسرے پر نفی کی لاٹھی چلاتاہے۔ اصولی طور پر تعصب کا سرچشمہ جہل و نادانی ہے اور تعصب اجارہ داری خواہش کا منبع ہے۔

آیت ۱۱۴

۱۱۴ ۔( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ اٴَنْ یُذْکَرَ فِیهَا اسْمُهُ وَسَعَی فِی خَرَابِهَا اٴُوْلَئِکَ مَا کَانَ لَهُمْ اٴَنْ یَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَائِفِینَ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیم )

ترجمہ

۱۱۴ ۔ اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو مساجد میں خدا کا نام لینے سے روکتاہے اور ان کی ویرانی و بر بادی میں کو شاں ہے۔ مناسب نہیں ہے کہ خوف و وحشت کے بغیر یہ لوگ ان مقامات میں داخل ہوں (بلکہ مسلمان انہیں ان مقامات مقدسہ سے روک دیں اور انہیں وہاں نہ آنے دیں ) ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

شان نزول

کتاب (اسباب النزول) میں ابن عباس سے یوں منقول ہے:

یہ آیت مظلوم رومی اور اس کے عیسائی ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے بنی اسرائیل سے جنگ کی، تورات کو آگ لگائی، ان کی اولاد کو قیدکرلیا، بیت المقدس کو ویران کرد یا اور اس میں مردہ چیزیں پھینک دیں ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں ابن عباس سے ناقل ہیں :

بیت المقدس کو خراب کرنے اور تباہ و بر باد کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہی یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔

امام صادق سے بھی ایک روایت منقول ہے جس میں ہے:

یہ آیت قریش کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ پیغمبر اسلام کو شہر مکہ اور مسجد الحرام میں داخل ہونے سے منع کررہے تھے۔

بعض نے اس آیت کی تیسری شان نزول ذکر کی ہے کہ اس سے مراد وہ جگہیں اور مکانات ہیں جو مکہ میں نماز کے لئے مسلمانوں کے پاس تھے اور مشرکین نے پیغمبر اکرم کی ہجرت کے وقت انہیں ویران کردیاتھا۔(۱)

کوئی مانع نہیں کہ آیت کا نزول ان تمام حوادث و واقعات کے ضمن میں ہو۔ لہذا ان میں سے ہر شان نزول مسئلے کے ایک پہلو کی نشاندہی کرتی ہے۔

____________________

۱ مجمع البیان اور المیزان، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔