تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72269
ڈاؤنلوڈ: 3771


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72269 / ڈاؤنلوڈ: 3771
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

وہ ہرگز راضی نہ ہوں گے

گذشتہ آیت میں پیغمبر اسلام کی رسالت کا ذکر ہے۔ جس میں بشارت اور تنبیہ شامل ہے اور بتایاگیا ہے کہ ہٹ دھرم گمراہوں کے بارے میں آپ سے کوئی جواب طلبی نہ ہوگی۔ مندرجہ بالا آیات میں یہی بحث جاری ہے۔ پیغمبر اسلام سے فرمایا گیاہے کہ آپ یہودیوں اور عیسائیوں کی رضامندی حاصل کرنے پر زیادہ اصرار نہ کریں کیونکہ وہ ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے مگر یہ کہ ان کی خواہشات کو مکمل طور پرتسلیم کرلیاجائے اور ان کے مذہب کی پیروی کی جائے( لن ترضی عنک الیهود و لا النصری حتی تتبع ملتهم ) ۔ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سے کہئے کہ ہدایت صرف ہدایت الہی ہے (قل ان ہدی اللہ ہو الھدی)۔ وہ ہدایت جس میں خرافات اور پست و نادان افراد کے افکار کی آمیزش نہ ہو یقینا ایسی ہی خالص ہدایت کی پیروی کرناچاہئیے۔

مزید فرمایا: اگر آپ ان کے تعصبات ، ہوا و ہوس اور تنگ نظریوں کومان لیں جب کہ وحی الہی کے سائے میں آپ پر حقائق روشن ہوچکے ہیں تو خدا کی طرف سے آپ کا کوئی سرپرست اور یاور و مددگار نہ ہوگا( و لئن اتبعت اهوا الهم بعد الذی جاء ک من العلم من العلم مالک من الله من ولی و لا نصیر ) ۔

ادھر جب یہود و نصاری میں سے کچھ لوگوں نے جو حق کے متلاشی تھے پیغمبر اسلام کی دعوت پر لبیک کہی اور اس آئین و دین کو قبول کرلیا تو سابق گروہ کی مذمت کے بعد قرآن انہیں اچھائی اور نیکی کے حوالے سے یاد کرتاہے اور کہتا ہے: وہ لوگ جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے اور انہوں نے اسے غورسے پڑھاہے اور اس کی تلاوت کا حق ادا کیا ہے (یعنی فکر و نظر کے بعد اس پر عمل کیاہے) وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں گے( الذین اتینهم الکتاب یتلونه حق تلاوته اولئک یومنون به ) ۔ اور جوان کے کافر و منکر ہوگئے ہیں انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیاہے وہ خسارہ اٹھانے والے ہیں( و من یکفر به فاولئک هم الخاسرون ) ۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آسمانی کتاب کی تلاوت کا واقعا حق اداکیاہے اور وہی ان کی ہدایت کا سبب ہے کیونکہ پیغمبر موعود کے ظہور کی جو بشارتیں انہوں نے ان کتب میں پڑھی تھیں وہ پیغمبر اسلام پر منطبق دیکھیں اور انہوں نے سر تسلیم خم کرلیا اور خدا نے بھی ان کی قدردانی کی ہے۔

لئن اتبعت اھواء ھم:

اس جملے سے ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ مقام عصمت پر فائز ہونے کے باوجود کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام کجرو یہودیوں کی خواہشات کی پیروی کریں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی آیات میں ایسی تعبیریں بار بار نظر آتی ہیں اور یہ کسی طرح سے بھی انبیاء کے مقام عصمت کی نفی نہیں کرتیں کیونکہ ایک طرف تو ان میں جملہ شرطیہ شرط کے وقوع کی دلیل نہیں دوسری طرف عصمت انبیاء کو گناہ سے جبرا تو نہیں روکتی بلکہ پیغمبر و امام گناہ پر قدرت رکھتے ہیں اور ارادہ و اختیار کے حامل ہوتے ہیں اس کے با وجود ان کے دامن گناہ سے کبھی آلودہ نہیں ہوتے۔ یہ بھی ہے کہ اگر چہ خطاب پیغمبر کو ہے لیکن ہوسکتاہے مراد سب لوگ ہوں ۔

دشمن کی رضا کا حصول:

انسان کو چاہئیے کہ وہ پر کشش اخلاق سے دشمنوں کو بھی حق کی دعوت دے لیکن یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جن میں کچھ لچک اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہو۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی حرف حق قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتے ایسے لوگوں کی رضا حاصل کرنے کی فکر نہیں کرنا چاہئیے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کہاجائے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو جہنم میں جائیں اور ان پر فضول وقت ضائع نہ کیاجائے۔

ہدایت صرف ہدایت الہی ہے:

مندرجہ بالا آیت سے ضمنی طور پر یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قانون جو انسان کی سعادت کا سبب بن سکتاہے فقط قانون و ہدایت الہی ہے( ان هدی الله هو الهدی ) کیونکہ انسان کا علم جتنا بھی ترقی کرے پھر بھی وہ کئی پہلوؤں سے جہالت، شک اور نا پختگی کا حامل ہوگا۔

ایسے ناقص علم کی بنیاد پر جو ہدایت ہوگی وہ کامل نہ ہوسکے گی۔ ہدایت مطلقہ تو اسی کی طرف سے ممکن ہے جو علم مطلق کا حامل ہو اور جہالت و نا پختگی سے ماوراء ہو اور وہ صرف خدا ہے۔

حق تلاوت کیاہے؟:

یہ بہت ہی پر معنی تعبیر ہے جو مندرجہ بالا آیات میں آئی ہے۔ یہ ہمارے لئے قرآن مجید اور دیگر کتب آسمانی کے سلسلے میں واضح راستہ متعین کرتی ہے۔ ان آیات الہی کے مفہوم کے ضمن میں مختلف گروہ ہیں ۔ ایک گروہ کو پورا اصرار ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ الفاظ و حروف کو صحیح مخارج سے ادا کیاجائے یہ گروہ مضمون اور معانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا چہ جائیکہ اس پر عمل کی طرف توجہ دے۔ قرآن کے مطابق ایسے لوگوں کی مثال اس جانور کی سی ہے جس پر کتا بیں لادی جائیں ۔( کمثل الحمار یحمل اسفارا ) ( جمعہ ۔ ۵)

دوسرا گروہ وہ ہے جو الفاظ کی سطح سے کچھ اوپر گیاہے۔ وہ معانی پر بھی غور کرتاہے، قرآن کی باریکیوں اور نکات میں فکر کرتاہے اور اس کے علوم سے آگاہی حاصل کرتاہے لیکن عمل کے معاملے میں صفر ہے۔

ایک تیسرا گروہ ہے جو حقیقی مومنین پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ قرآن کو کتاب عمل اور زندگی عمل اور زندگی کے مکمل پروگرام کے طور پر قبول کرتاہے۔ وہ اس کے الفاظ پڑھنے، اس کے معانی پر فکر کرنے اور اس کے مفاہیم سمجھنے کو عمل کرنے کا مقدمہ اور تمہید سمجھتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگ قرآن پڑھتے ہیں تو ان کے بدن میں ایک نئی روح پیدا ہوجاتی ہے۔ ان میں نیا عزم، نیا ارادہ، نئی آمادگی اور نئے اعمال پیدا ہوتے ہیں اور یہ ہے حق تلاوت۔

امام صادق سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں ایک عمدہ حدیث منقول ہے۔ آپ نے فرمایا:

یوتلون ایاته و یتفقهون به و یعملون باحکامه و یرجون و عده و یخافون عیده و یعتبرون بقصصه و یاتمرون باو امره و ینتهون بنو اهیه ما هو و الله حفظ ایاته و درس حروفه و تلاوت بسوره و درس اعشاره و اخماسه حفظوا حروفه و اضا عو حدوده و انما هوت برایاته و العمل بارکانه قال الله تعالی کتاب انزلناه الیک مبارک لید بروا ایاته

مقصود یہ ہے کہ وہ اس کی آیات غور سے پڑھیں ۔ اس کے حقائق کو سمجھیں ، اس کے احکام پر عمل کریں ، اس کے وعدوں کی امید رکھیں اس کی تنبیہوں سے ڈرتے رہیں ۔ اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں ، اس کے اوامرکی اطاعت کریں ، اس کے نواہی سے بچے رہیں ۔ خدا کی قسم مقصد آیات حفظ کرنا، حروف پڑھنا، سورتوں کی تلاوت کرنا اور اس کے دسویں اور پانچویں حصوں کو یاد کرنا نہیں ۔

ان لوگوں نے حروف قرآن تو یاد رکھے مگر اس کی حدود کو پامال کردیاہے مقصود صرف یہ ہے کہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کریں اور اس کے احکام پر عمل کریں جیسا کہ قرآن فرماتاہے: یہ با برکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیاہے تا کہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں ۔

آیات ۱۲۲،۱۲۳

۱۲۲ ۔( یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاٴَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ )

۱۲۳ ۔( وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَتَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ )

ترجمہ

۱۲۲ ۔ اے بنی اسرائیل میں نے تمہیں جو نعمت دی ہے اسے یاد کرو اور یہ بھی یاد کرو کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی (لیکن تم نے اس مقام سے استفادہ نہیں کیا اور گمراہ ہوگئے)۔

۱۲۳ ۔ اس دن سے ڈر وجب کسی شخص کو دوسرے کی جگہ پر بدلہ نہیں دیاجائے گا۔ اس سے کوئی عوض قبول نہ کیاجائے گا۔ کوئی شفاعت و سفارش اس کے لئے فائدہ مند نہ ہوگی اور نہ ہی (کسی طرف سے) ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی۔

تفسیر

قرآن کاروئے سخن پھر بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان پر جو نعمتیں نازل ہوئیں قرآن ان کا ذکر کرتاہے خصوصا وہ فضیلت جو خدا نے ان کے زمانے کے لوگوں پر انہیں عطا کی تھی وہ یاد دلائی گئی ہے۔

فرماتاہے: اے بنی اسرائیل! ان نعمتوں کو یاد کرو جومیں نے تمہیں عطا کیں او ر یہ بھی یاد کرو میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر (اس زمانے میں موجود سب لوگوں پر) فضیلت بخشی (یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی نعمت علیکم و انی فضلتکم علی العلمین)۔

لیکن کوئی نعمت جواب دہی اور ذمہ داری کے بغیر نہیں ہوتی بلکہ ہر نعمت عطا کرنے کے بعد خدا کسی ذمہ داری اور کسی عہد و پیمان کا بوجھ انسان کے کندھے پر رکھتاہے لہذا بعد کی آیت میں تنبیہ کرتاہے اور کہتاہے: اس دن سے ڈر وجب کسی شخص کو دوسرے کی بجائے جزا کا سامنا نہ ہوگا( وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا ) اور کوئی چیزوہاں فدیہ کے طور پر قبول نہ کی جائے گی( و لا یقبل منها عدل ) اور( اذن خدا کے بغیر) کوئی سفارش سودمند نہ ہوگی( و لا تنفعها شفاعة ) اگر سمجھو کہ خدا کے علاوہ وہاں کوئی انسان کی مدد کرسکتاہے تو یہ غلط فہمی ہے کیونکہ وہاں کسی شخص کی مدد نہیں کی جاسکے گی (و لا ھم ینصرون) لہذا جنہیں تم نجات کی راہیں سمجھتے ہو وہ سب مسدود ہیں اور شاید دنیا میں تم انہی کا سہارا لیتے ہو۔ صرف اور صرف ایک راستہ کھلاہے اور وہ ایمان و عمل صالح نیز گناہوں پر تو بہ اور اپنی اصلاح کا راستہ ہے۔

چونکہ اس سورہ کی آیہ ۴۷ اور ۴۸ میں بھی بعینہ یہی مسائل بیان ہوئے ہیں (تعبیرات کے کچھ اختلاف کے ساتھ) اور وہاں ہم تفصیل سے بحث کرچکے ہیں لہذا یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

آیات ۱۲۴

۱۲۴ ۔( وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ )

ترجمہ

۱۲۴ ۔(وہ وقت یاد کرو) جب خدانے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان سے عمدگی سے عہدہ برآں ہوئے تو خدا نے ان سے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام و رہبر قرار دیا۔ ابراہیم نے کہا: میری نسل اور خاندان میں سے (بھی ائمہ قرار دے)۔ خدا نے فرمایا: میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا (اور تماری اولاد میں سے جو پاک اور معصوم ہیں وہی اس مقام کے لائق ہیں )۔

ان آیات کے تین مقاصد

اس آیت سے لے کر آگے تک (بیت المقدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی کا موضوع شروع ہونے تک) اٹھارہ آیات ہیں جن میں خدا کے پیغمبر عظیم اور علمبردار توحید حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر اور توحید و عبادت کے اس مرکز کا تذکرہ ہے۔

در اصل ان آیات کے تین مقاصد ہیں :

۱ ۔ یہ آیات قبلہ کی تبدیلی کے موضوع کے لئے مقدمہ کا کام دیں ۔ مسلمان جان لیں کہ یہ کعبہ حضرت ابراہیم پیغمبر بت شکن کی یادگارہے۔ اگر مشرکوں اور بت پرستوں نے اسے آج بت خانے میں تبدیل کررکھاہے تو یہ ایک سطحی آلودگی ہے اس سے کعبہ کے مقام و منزلت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔

۲ ۔ یہودی او ر عیسائی یہ دعوی کرتے تھے کہ ہم حضرت ابراہیم اور ان کے دین کے وارث ہیں ۔ یہ آیات (دیگر بہت سی آیات سے مل کرجو یہودیوں کے بارے میں گذر چکی ہیں ) واضح کردیتی ہیں کہ وہ لوگ ابراہیمی آئین سے بیگانہ ہیں ۔

۳ ۔ مشرکین عرب بھی اپنے اور حضرت ابراہیم کے در میان اٹوٹ رشتہ بتاتے تھے انہیں بھی یہ سمجھانا مقصود تھا کہ تمہارے اور اس بت شکن پیغمبر کے پروگرام میں کوئی ربط نہیں ۔

زیر بحث آیت میں پہلے فرماتاہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے ابراہیم کو مختلف طریقوں سے آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں اچھی طرح کامیاب ہوئے( و اذا بتلی ابراهیم ربه بکلمات فاتمهن ) ۔

یہ آیت حضرت ابراہیم کی زندگی کے اہم ترین موڑ یعنی ان کی بڑی بڑی آزمائشوں اور ان میں ان کی کامیابی کے متعلق گفتگو کرتی ہیں ۔ وہ آزما ئشیں جنہوں نے ابراہیم کی عظمت مقام اور شخصیت کو مکمل طور پرنکھاردیا اور ان کی شخصیت کی بلندی کو روشن کردیا اورجب ابراہیم ان امتحانات سے کامیاب ہوگئے تو وہ منزل آئی کہ خدا انہیں انعام دے تو فرمایا: میں نے تمہیں لوگوں کا امام، رہبر اور پیشوا قرار دیا( قال انی جاعلک للناس اماما ) ۔

ابراہیم نے در خواست کی میری اولاد اور خاندان سے بھی آئمہ قرار دے۔ تا کہ یہ رشتہ نبوت و امامت منقطع نہ ہو اور صرف ایک شخص کے ساتھ قائم نہ رہے( قال و من ذریتی ) ۔ خدا نے اس کے جواب میں فرمایا: میرا عہد یعنی مقام امامت ظالموں تک ہرگز نہیں پہنچے گا( قال لا ینال عهد الظلمین ) ۔ یعنی ہم نے تمہاری درخواست قبول کرلی ہے لیکن تمہاری ذریت میں سے صرف وہ لوگ اس مقام کے لائق ہیں جو پاک اور معصوم ہیں ۔

کلمات سے کیا مراد ہے:

آیات قرآن سے اور ابراہیم کے وہ نظر نواز اعمال جن کی خدانے تعریف کی ہے کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ کلمات (وہ جملے جو خدانے ابراہیم کو سکھائے ) در اصل ذمہ داریوں کا ایک گراں اور مشکل سلسلہ تھا جو خدانے ابراہیم کے ذمے کیا اور اس مخلص پیغمبر نے انہیں بہترین طریقے سے انجام دیا۔

حضرت ابراہیم کے امتحانات میں یہ امور شامل تھے:

۱ ۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو مکہ کی خشک اور بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جانا جہاں کوئی انسان نہ بستاتھا۔

۲ ۔ بیٹے کو قرہانی گاہ میں لے جانا اور فرمان خدا سے اسے قربان کرنے کے لئے پر عزم آمادگی کا مظاہرہ کرنا۔

۳ ۔ بابل کے بت پرستوں کے مقابلے میں قیام کرنا، بتوں کو توڑنا اور اس تاریخی مقدمے میں پیش ہونا اور نتیجہ آگ میں پھینکا جانا اور ان تمام مراحل میں اطمینان و ایمان کا ثبوت دینا۔

۴ ۔ بت پرستوں کی سرزمین سے ہجرت کرنا اور اپنی زندگی کے سرمائے کو ٹھو کرمارنا اور دیگر علاقوں میں جاکر پیغام حق سنانا۔ایسے اور بھی بہت سے امور ہیں ۔(۱) یہ واقعہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک بہت سخت اور مشکل آزمائش تھی لیکن ابراہیم ایمانی قوت کے ذریعے ان تمام میں پورا اترے اور ثابت کیا کہ وہ مقام امامت کی اہلبیت رکھتے تھے۔

____________________

۱ تفسیر المنار میں ابن عباس کے حوالے سے منقول ہے کہ انہوں نے قرآن کی چار سورتوں کی مختلف آیات میں حضرت ابراہیم کے لئے گئے امتحانات کو شمار کیاہے جو تیس بنتے ہیں ۔ (المنار۔ زیر نظر آیات کے ذیل میں )۔

امام کسے کہتے ہیں :

زیر بحث آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم کو جو مقام امامت بخشا گیا وہ مقام نبوت و رسالت سے بالاتر تھا۔ اس کی توضیح کے لئے امامت کے مختلف معانی بیان کئے جاتے ہیں ۔

۱ ۔ امامت کا معنی ہے صرف دنیا وی امور میں لوگوں کی قیادت و پیشوائی (جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں )۔

۲ ۔ امامت کا معنی ہے امور دین و دنیا میں پیشوائی (اہل سنت ہی میں بعض اس کے قائل ہیں )۔

۳ ۔ امامت کا معنی ہے دینی پروگراموں کا ثابت ہونا جس میں حدود احکام الہی کے اجراء کے لئے حکومت کا وسیع مفہوم شامل ہے اس طرح ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے نفوس کی تربیت و پرورش بھی امامت کے مفہوم میں داخل ہے۔

تیسرے معنی کے لحاظ سے یہ مقام رسالت و نبوت سے بلند تر ہے کیونکہ نبوت و رسالت خداکی طرف سے خبر دینا، اس کا فرمان پہنچانا اور خوشخبری دینا اور تنبیہ کرنا ہے لیکن منصب امامت میں ان امور کے ساتھ ساتھ اجرائے احکام اور نفوس کی ظاہری و باطنی تربیت بھی شامل ہے (البتہ واضح ہے کہ بہت سے پیغمبر مقام امامت پر بھی فائز تھے)۔ در حقیقت مقام امامت دینی منصوبوں کو عملی شکل دینے کا نام ہے۔ یعنی ایصال الی المطلوب، مقصود تک پہنچنا، اجرائے قوانین الہی کے لحاظ سے اور تکوینی ہدایت کے اعتبار سے یعنی تاثیر باطنی اور نفوذ روحانی۔ یہ وہ شعاع نور ہے جو انسانی دلوں کو روشنی بخشتے ہے اور انہیں ہدایت کرتی ہے۔

اس لحاظ سے امام بالکل آفتاب کی طرح ہے جو اپنی شعاعوں سے سبزہ زاروں کی پرورش کرتاہے۔ قرآن مجید میں ہے:( هُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُهُ لِیُخْرِجَکُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا )

وہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے اور اس کے ملائکہ رحمت بھیجتے ہیں تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال لے جائے اور وہ مومنین پر مہربان ہے۔ (احزاب ۔ ۴۳) اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ خدا کی خاص رحمتیں اور فرشتوں کی غیبی امداد مومنین کی تاریکیوں سے نور کی طرف رہبری کرتی ہے۔یہ بات امام پر صادق آئی ہے۔ امام اور مقام امامت کے حامل عظیم پیغمبر مستعد و آمادہ افراد کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں جہالت و گمراہی سے نکال کر نور و ہدایت کی طرف لے جاتے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ زیر بحث آیت میں امامت کے مذکورہ تیسرے مفہوم ہی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ قرآن کی متعدد آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ امامت کے مفہوم میں ہدایت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ سورہ سجدہ کی آیت ۲۴ میں ہے:( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اٴَئِمَّةً یَهْدُونَ بِاٴَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُون ) (احزاب ۔ ۴۳)

اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ خدا کی خاص رحمتیں اور فرشتوں کی غیبی امداد مومنین کی تاریکیوں سے نور کی طرف رہبری کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زیر بحث آیت میں امامت کے مذکور تیسرے مفہوم ہی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ قرآن کی متعدد آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ امامت کے مفہوم میں ہدایت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ سورہ سجدہ کی آیت ۲۴ میں ہے:( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اٴَئِمَّةً یَهْدُونَ بِاٴَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ )

ہم نے انہیں امام بنایا تا کہ ہمارے فرمان کے مطابق ہدایت کریں ۔ اس لئے کہ وہ صبر و استقامت رکھتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔یہ ہدایت ارائة الطریق۔ راستہ دکھانا۔ کے معنی والی نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم مرحلہ امامت سے پہلے مقام نبوت و رسالت اور ارائة الطریق کے مفہوم کی ہدایت کے منصب پر تو قطعا و یقینا فائز تھے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ جو منصب امامت سخت آزمائشوں سے گزرنے اور یقین، شجاعت اور استقامت کے مراحل طے کرنے کے بعد حضرت ابراہیم کو عطاہو ا وہ بشارت، ابلاغ اور انذار کے معنی سے ماوراء مقام ہدایت حامل ہے۔ لہذا وہ ہدایت جو امامت کے مفہوم میں داخل ہے ایصال الی المطلوب، روح مذہب کو عملی شکل دینا اور نفوس آمادہ کی تربیت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔امام صادق فرماتے ہیں :

ان الله اتخذ ابراهیم عبدا قبل ان یتخذه نبیا و ان الله اتخذه نبیا قبل ان یتخذه رسولا و ان الله اتخذه رسولا قبل ان یتخذه خلیلا و ان الله اتخذه خلیلا قبل ان یتخذه اماما فلما جمع الاشیاء قال انی جاعلک للناس اماما فمن عظمها فی عین ابراهیم قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظلمین قال لا یکون السفیه امام التقی ۔

خداوند عالم نے بنی بنانے سے قبل ابراہیم کو عہد قرار دیا اور اللہ نے انہیں رسول بنانے سے پہلے نبی قرار دیا اور انہیں خلیل بنانے سے قبل اپنی رسالت کے لئے منتخب کیا اور اس سے پہلے کہ امام بناتا انہیں اپنا خلیل بنا یا جب یہ تمام مقامات و مناصب انہیں حاصل ہوچکے تو اللہ نے فرمایا میں تمہیں انسانوں کے لئے امام بناتا ہوں ۔ حضرت ابراہیم کو یہ مقام عظیم دیا تو انہوں نے عرض کیا: خدایا میری اولاد سے بھی امام قرار دے۔ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا۔ بے وقوف شخص متقی لوگوں کا امام نہیں ہوسکتا(۱ )

____________________

۱ ۔ اصول کافی، ج۱، باب طبقات الانبیاء و الرسل ص ۱۳۳

نبوت، رسالت اور امامت میں فرق:

آیات میں موجود اشارات اور احادیث میں وارد ہونے والی مختلف تعبیرات سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا کی طرف سے مامور لوگ مختلف منصبوں پر فائز تھے:

۱ ۔ مقام نبوت۔

یعنی خدا کی طرف سے وحی حاصل کرنا۔ لہذا نبی وہ ہے جس پروحی نازل ہو اور جو کچھ وحی کے ذریعے معلوم ہو لوگ چاہیں تو انہیں بتادے۔

۲ ۔ مقام رسالت۔

یعنی مقام ابلاغ وحی، تبلیغ و نشر احکام الہی اور تعلیم و آگہی سے نفوس کی تربیت۔ لہذا رسول وہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ماموریت کے خطے میں جستجو اور کوشش کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور ہر ممکن ذریعے سے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے اور لوگوں تک اس کا فرمان پہنچائے۔

۳ ۔ مقام امامت۔

یعنی رہبری و پیشوائی اور امور مخلوق کی باگ ڈور سنبھالنا۔ در حقیقت امام وہ ہے جو حکومت الہی کی تشکیل کے لئے ضروری توانائیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے تا کہ احکام خدا کو عملا جاری اور نافذ کرسکے اور اگر فی الوقت با قاعدہ حکومت کی تشکیل ممکن نہ ہو تو جس قدر ہوسکے اجرائے احکام کی کوشش کرے۔

بہ الفاظ دیگر امام کا کام اور ذمہ داری احکام و قوانین الہی کا اجراء ہے جب کہ رسول کی ذمہ داری احکام الہی کا ابلاغ ہے۔ دو لفظوں میں یوں کہیے کہ رسول کا کام ارائة الطریق ہے اور امام کی ذمہ داری ایصال الی المطلوب ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ رسول اسلام کی طرح بہت سے پیغمبر تینوں عہدوں پر فائز تھے۔ وحی وصول کرتے فرامین خداوندی کی تبلیغ کرتے نیز تشکیل حکومت اور اجرائے احکام کی کوشش کرتے اور باطنی طور پر بھی نفوس کی تربیت کرتے تھے۔مختصر یہ کہ امامت ہر جہت سے مقام رہبری کا نام ہے وہ مادی ہو یا معنوی، جسمانی ہو یا روحانی اور ظاہری یا باطنی ۔امام حکومت کا سر براہ، لوگوں کا پیشوا، مذہبی رہنما، اخلاق کا مربی اور باطنی ہدایت کا ذمہ دار ہوتاہے۔ اپنی مخفی اور معنوی قوت سے امام اہل افراد کی سیر تکامل( ۱)

کے لئے باطنی رہبری کرتاہے، اپنی علمی قدرت کے ذریعے نادان و جاہل افراد کو تعلیم دیتاہے اور اپنی حکومت کی طاقت سے یاد دیگرا جرائی طاقتوں سے اصول عدالت کا اجراء کرتاہے۔

(!) امامت یا حضرت ابراہیم کی آخری سیر تکامل:

امامت کی حقیقت کے بارے میں ہم جو کچھ کہہ چکے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ممکن ہے کوئی شخصیت مقام تبلیغ و رسالت کی حامل ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو۔ کیونکہ اس منصب کے لئے ہر پہلو سے بہت زیادہ اہلیت و لیاقت کی ضرورت ہے اور یہ وہ مقام ہے جسے ابراہیم تمام امتحانات کے بعد حاصل کرسکے اس سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ امامت حضرت ابراہیم کے لئے سیر تکامل کی آخری منزل تھی۔

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امامت کا مطلب ہے کسی شخص کا خود سے اہل اور نمونہ ہونا، تو حضرت ابراہیم مسلما آغاز نبوت سے ایسے ہے تھے اور جو سمجھتے ہیں کہ امامت کا مقصد دوسرے کے لئے نمونہ اور ماڈل ہوناہے تو یہ صفت ابراہیم بلکہ تمام انبیاء و مرسلین میں ابتدائے نبوت سے موجود ہوتی ہے اسی لئے تو سب کہتے ہیں کہ پیغمبر کو معصوم ہونا چاہئیے کیونکہ اس کے اعمال اور کر دار دوسروں کے لئے نمونہ قرار پاتے ہیں ۔

ان سے ظاہر ہوا کہ مقام امامت ان چیزوں سے کہیں بلند ہے یہاں تک کہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے اور یہ وہ مقام و منصب ہے جو حضرت ابراہیم نے اس کی اہلبیت کا امتحان دینے کے بعد بارگاہ الہی سے حاصل کیا۔

زیر بحث آیت کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات میں بھی ایسے اشارات موجود ہیں جو ہماری بات پرشاہد ہیں :

۱ ۔( و جعلنهم آئمة یهدون بامرنا ) اور ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں ۔ (انبیا۔ ۷۳)

۲ ۔( و جعلنا منهم ائمة یهدون بامرنا لما صبروا ) جب انہوں نے استقامت دکھائی تو ہم نے انہیں امام قرار دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں ۔ (سجدہ۔ ۲۴)

پہلی آیت جو بعض انبیاء مرسلین کی طرف اشارہ کررہی ہے اور دوسری جس میں بنی اسرائیل کے کچھ انبیاء کا ذکر ہے نشاندہی کرتی ہیں کہ امامت کا تعلق ہمیشہ سے ایک خاص قسم کی ہدایت سے رہاہے جو فرمان خدا کے مطابق ہے۔

____________________

۱ ۔ سیر تکامل : ہر چیز کمالی کی طرف گامزن ہے۔ اس سفر کو اصطلاح میں سیر تکامل کہتے ہیں ۔ (مترجم)

ظلم کسے کہتے ہیں ؟:

( لا ینال عهدی الظالمین ) میں جس ظلم کا ذکرہے وہ فقط دوسروں پر ظلم ڈھانا نہیں بلکہ یہاں ظلم کا تذکرہ عدل کے مقابلے میں ہے۔ یہاں یہ لفظ اپنے وسیع معنی میں استعمال ہواہے۔عدالت کا حقیقی معنی ہے ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا اس بناپرظلم کا مفہوم یہ ہوگا: کسی شخص یا چیز کو ایسے مقام پر رکھنا جس کے وہ اہل نہیں ہے:

لہذا ذمہ داری اور عظمت کے لحاظ سے امامت اور مخلوق کی ظاہری و باطنی رہبری ایک بہت بڑا مقام ہے۔ ایک لمحہ کا گناہ اور نافرمانی بلکہ سابقہ غلطی بھی اس مقام کی اہلیت چھن جانے کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ اہل بیت سے مروی احادیث میں حضرت علی کے لئے رسول اسلام کے خلیفہ بلا فصل ہونے کے ثبوت میں محل بحث آیت سے استدلال کیاگیاہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ دوسرے لوگ تو زمانہ جاہلیت میں بت پرست تھے مگر وہ شخص جس نے ان واحد کے لئے کسی بت کو سجدہ نہیں کیا وہ صرف حضرت علی تھے۔ مثلا:

۱ ۔ ہشام بن سالم امام صادق سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا:

( قد کان ابراهیم نبیا و لیس بامام حتی قال الله انی جاعلک للناس اماما فقال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین من عبد صنما او وثنا لا یکوں اماما ) ۔

منصب امامت پرفائز ہونے سے پہلے حضرت ابراہیم پیغمبر تھے۔ یہاں تک کہ خدا نے فرمایا: میں تجھے انسانوں کا امام بناتا ہوں ۔ انہوں نے کہا: میری اولاد میں سے بھی امام قرار دے۔ فرمایا: میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ لہذا جنہوں نے بتوں کی پرستش کی ہے وہ امام نہیں ہوسکتے۔(۱)

۲ ۔ ایک اور حدیث عبداللہ بن مسعود کے حوالے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے۔ آپ نے فرمایا:

خداوند عالم نے ابراہیم سے فرمایا:( لا اعطیک عهدا للظالم من ذریتک قال یا رکب و من الظالم من ولدی الذی لا ینال عهدک قال من سجد لصنم من دونی لا اجعله اماما ابدا و لا یصلح ان یکون اماما ) ۔میں امامت کا عہدہ تیری اولاد میں سے ظالموں کو نہیں بخشوں گا۔ ابراہیم نے عرض کیا: وہ ظالم کہ جن تک یہ منصب نہیں پہنچ سکتا کون میں ؟ خدانے فرمایا: وہ شخص ظالم ہے جس نے بت کو سجدہ کیاہو۔ میں ایسے کو ہرگز امام نہیں بناؤں گا۔ اور نہ ہی وہ امام بننے کی صلاحیت رکھتاہے۔(۲)

____________________

۱ ۔ اصول کافی، ج۱، باب طبقات الانبیاء و الرسل حدیث ۱۲ امالی از شیخ مفید و مناقب ابن معازلی (جیسا کہ تفسیر المیزان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں نقل کیاگیاہے)۔

دو سوال اور ان کا جواب:

۱ ۔ امامت کے مفہوم کی وضاحت میں جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس سے سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر امام کا کام ایصال الی المطلوب اور الہی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہے پھر اس مفہوم نے بہت سے انبیاء یہاں تک کہ سرکار رسالت اور ائمہ طاہرین کے ہاتھوں عملی شکل تو اختیار نہیں کی بلکہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ گناہگار اور گمراہ لوگ بر سر اقتدار رہے۔

ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس کا یہ مفہوم نہیں کہ امام مجبور کرکے لوگوں کو حق تک پہنچاتاہے بلکہ اپنے اختیار، آمادگی اور اہلیت سے لوگ امام کے ظاہری و باطنی کمالات سے ہدایت حاصل کرتے ہیں یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ آفتاب زندہ و موجودات کی نشو و نماکے لئے پیدا کیا گیاہے یا یہ کہ بارش کا کام مردہ زمینوں کو زندہ کرناہے یہ مسلم ہے کہ یہ تاثیر عمومی پہلو رکھتی ہے لیکن صرف ان موجودات کے لئے جو یہ اثرات قبول کرنے کے لئے آمادہ اور نشو و نما حاصل کرنے کے لئے تیارہوں ۔

۲ ۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مندرجہ بالا تفسیر امامت کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہر امام پہلے نبی اور رسول ہو اس کے بعد مقام امامت پر فائز ہوجب کہ جناب رسالت ماب کے معصوم جانشین تو ایسے نہ تھے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ امام پہلے نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہو بلکہ اگر امام سے پہلے کوئی شخصیت نبوت رسالت اور امامت تمام مناصب کی حامل ہو (جیسا کہ پیغمبر اسلام تھے) تو اس کا جانشین منصب امامت میں اس کی ذمہ داریوں کی انجام دہی جاری رکھ سکتاہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب نئی رسالت کی ضرورت نہ ہو جیسا کہ پیغمبر اسلام کے بعد کیونکہ وہ خاتم انبیاء ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر وحی الہی کے مرحلہ اور تمام احکام کا ابلاغ انجام کو پہنچ چکا ہو اور صرف نفاذ کی منزل باقی ہو تو جانشین پیغمبر اجرائے احکام کا کام جاری رکھ سکتاہے اور اس کی ضرورت نہیں کہ وہ خود نبی یا رسول ہو۔(۱)

حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی عظیم شخصیت:

حضرت ابراہیم کا نام قرآن مجید میں ۶۹ مقامات پر آیاہے اور ۲۵ سورتوں میں ان کے متعلق گفتگو ہوئی ہے۔ قرآن میں اس عظیم پیغمبر کی بہت مدح و ثناء کی گئی ہے اور ان کی بلند صفات کا تذکرہ کیاگیاہے۔ ان کی ذات ہر لحاظ سے راہنما اور اسوہ ہے اور وہ ایک کامل انسان کا نمونہ تھے۔

خدا کے بارے میں ان کی معرفت بت پرستوں کے بارے میں ان کی منطق، جابر و قاہر بادشاہوں کے سامنے ان کا انتھک جہاد، حکم خدا کے سامنے ان کا ایثار اور قربانیاں ، طوفان، حوادث اور سخت آزمائشوں میں ان کی بے نظیر استقامت، صبر اور حوصلہ اور ان جیسے دیگر امور۔ ان میں سے ہر ایک مفصل داستان ہے اور ان میں مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔

قرآنی ارشادات کے مطابق وہ ایک نیک اور صالح، فروتنی کرنے والے، صدیق، بردبار اور ایفائے عہد کرنے والے تھے وہ ایک بے مثال شجاع اور بہادر تھے۔ بہت زیادہ سخی تھے۔ سورہ ابراہیم کی تفسیر میں ، خاص طور پر اس کے آخری حصے میں انشاء اللہ آپ اس سلسلے میں تفصیلی مطالعہ کریں گے۔

____________________

۱ بعض لوگ درجہ بدرجہ مراحل طے کرتے ہیں مثلا پہلے انہیں چھوٹے عہدوں پر لگا یا جاتاہے تا کہ تجربات و امتحانات کے بعد وہ بڑے عہدوں تک پہنچیں لیکن کبھی ایسے ذی استعداد لوگ بھی ہوتے ہیں کہ ان کی صلاحیت و استعداد کو دیکھتے ہوئے انہیں بلندترین منصب پر فائز کردیاجاتاہے۔ (مترجم)

۲ ۔ ۴۴ ۳ نحل۔ ۱۲۰ ص ۵ مریم ۔ ۴۱ ص ۶ توبہ ۔ ۱۱۴ص