تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73047
ڈاؤنلوڈ: 3878


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73047 / ڈاؤنلوڈ: 3878
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیت ۱۲۵

۱۲۵ ۔( وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَاٴَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّی وَعَهِدْنَا إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ اٴَنْ طَهِّرَا بَیْتِی لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ )

ترجمہ

۱۲۵ ۔ (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے خانہ کعبہ کو انسانوں کے لوٹ آنے کا مقام ، مرکز اور جائے امن قرار دیا اور (اسی مقصد کی تجدید کے لیے تم) مقام ابراہیم کو اپنے لئے نماز کی حیثیت سے انتخاب کرو۔ نیز ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کا طواف کرنے والوں ، اس گھرکے خادموں اور اس میں سجدہ کرنے والوں (نماز گزاروں ) کے لئے اسے پاک و پاکیزہ رکھو۔

خانہ کعبہ کی عظمت

گذشتہ آیت میں حضرت ابراہیم کے مقام بلند کا ذکر تھا۔ اب خانہ کعبہ کی عظمت کا تذکرہ ہے جو انہی کے ہاتھوں تعمیر اور تیار ہوا۔ فرمایا: یادرکھو اس وقت کو جب ہم نے خانہ کعبہ کو مثابہ (لوگوں کے پلٹ آنے کا مقام اور توجہ کا مرکز) اور مقام امن و امان قراردیا( و اذ جعلنا البیت مثابة للناس و امنا ) ۔

مثابہ اصل میں ثوب سے ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی پہلی حالت کی طرف پلٹ آنا۔ چونکہ خانہ کعبہ موحدین کا مرکز تھا۔ جہاں وہ فقط جسمانی طور پرہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کا مرکز تھا۔ وہ ہر سال اس کی طرف آتے تھے جہاں وہ فقط جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کی مرکز تھا۔ وہ ہر سال اس کی طرف آتے تھے جہاں وہ فقط جسمانی طور پرہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی توحید اور فطرت اول کی طرف پلٹتے تھے اس لئے کعبہ کو مثابہ قراردیا گیاہے۔ نیز انسان کا گھر ہمیشہ اس کی بازگشت کا مرکز اور آرام و آسائش کا مقام ہوتاہے۔ لفظ مثابہ میں ایک قسم کا قلبی آرام و آسائش کا مفہوم بھی داخل ہے۔ لفظ (امنا ) جو اس کے بعد آےاہے اس مفہوم کی تاکید کرتاہے۔ خصوصا لفظ (للناس ) نشاندہی کرتاہے کہ یہ مرکز امن و امان تمام جہانوں کے لئے ایک عمومی پناہ گاہ ہے۔ یہ در حقیقت حضرت ابراہیم کی ایک درخواست کی قبولیت کا مظہر ہے جو انہوں نے بارگاہ الہی میں کی تھی جیسا کہ اگلی آیت میں آئے گا( رب اجعل هذا بلدا امنا ) پروردگار! اس جگہ کو محل امن و امان قرار دے)۔

اس کے بعد فرمایا: مقام ابراہیم کو اپنی نماز کی جگہ کے طور پر انتخاب کرو( و اتخذوا من مقام ابراهیم مصلی ) ۔

اس بارے میں مفسرین کے در میان اختلاف ہے کہ مقام ابراہیم سے کون سی جگہ مراد ہے۔ بعض نے کہاہے تمام حج مقام ابراہیم ہے۔ بعض عرفہ، مشعر الحرام اور تینوں جمرات کو مقام کا نام دیتے ہیں ۔ بعض تمام حرم مکہ کو مقام ابراہیم شمار کرتے ہیں ۔ لیکن ظاہر آیت ، روایات اسلامی اور بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق یہ اس مشہور مقام ابراہیم کی طرف اشارہ ہے جو خانہ کعبہ کے نزدیک ایک جگہ ہے جس کے پاس طواف کے بعد جاکر حجاج نماز طواف بجالاتے ہیں ۔ اس بناء پر مصلی سے مراد بھی یہی مقام نماز ہے۔

اس کے بعد اس عہد و پیمان کی طرف اشارہ فرمایا گیاہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل سے خانہ کعبہ کی طہارت کے بارے میں لیاگیاتھا۔ فرمایا: ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو حکم دیا اور انہیں وصیت کی کہ میرے گھر کو اس کا طواف کرنے والوں ، اس کے پڑوس میں رہنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں (نماز گزاروں ) کے لئے پاک رکھو( و عهدنا الی ابراهیم و اسمعیل ان طهرا بیتی للطائفین و العکفین و الرکع السجود ) ۔

یہاں طہارت و پاکیزگی سے کیا مراد ہے۔ اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ہیں بتوں کی پلیدگی سے پاک کرنا مقصود ہے۔ بعض کہتے ہیں ظاہری نجاستوں سے پاک رکھنا مراد ہے، خصوصا خون اور قربانی کے جانوروں کی اندرونی غلاظتوں سے کیونکہ بعض جاہل لوگ ایسا کرتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں طہارت کا معنی خانہ توحید کی تعمیر کے وقت خلوص نیت ہے۔ لیکن چونکہ کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناء پر یہاں طہارت کے مفہوم کو کسی ایک چیز میں محدود کریں لہذا یہاں خانہ توحید کو ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک رکھنا مراد لیا جانا چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں اس آیت کے حوالے سے خانہ خدا کو مشرکین سے پاک رکھنے کا حکم ہے اور بعض میں بدن کی صفائی اور اسے آلودگیوں سے پاک رکھنا مراد لیاگیاہے۔

امن و امان کی اس پناہ گاہ کے اجتماعی اور تربیتی اثرات:

مندرجہ بالا آیت کے مطابق خانہ خدا (خانہ کعبہ) کا تعارف خدا کی طرف سے ایک پناہ گاہ اور مرکز امن و امان کی حیثیت سے کرایا گیاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سرزمین مقدس میں ہر قسم کے نزاع و کشمکش ، جنگ و جدل اور خونریزی کے بارے میں اسلام میں نہایت سخت احکام موجود ہیں ۔ ان احکام کے مطابق نہ صرف انسان چاہے وہ کسی طبقے سے ہوں اور کسی حالت میں ہوں یہاں امن میں رہیں بلکہ جانور اور پرندے بھی امن و امان میں رہیں اور کوئی بھی ان سے مزاحم نہ ہو۔

وہ دنیا جہاں ہمیشہ نزاع اور کشمکش رہتی ہے وہاں ایک ایسے مرکز کا قیام لوگوں کی مشکلات حل کرنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کرنے کی نشاندہی کرتاہے کیونکہ اس خطہ کا جائے امن ہونا اس بات کا سبب بنتاہے کہ لوگ تمام اختلافات کے با وجود اس کے جوار میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھ سکیں ، ایک دوسرے سے مذاکرات کرسکیں اور اس طرح اہم ترین مسائل حل کرسکیں ۔ دشمنیوں اور جھگڑوں کو بنٹانے کے لئے اس طرح سے مذاکرات کا دروازہ کھولا گیاہے کیونکہ اکثر ایسا ہوتاہے، کہ جھگڑنے والے طرفین یا ایک دوسرے کی مخالف حکومتیں چاہتی ہیں کہ جھگڑا ختم کریں اور اس مقصد کے لئے مذاکرات کریں لیکن انہیں کوئی ایسا مشترکہ پلیٹ فارم نظر نہیں آتا جو دونوں کے لئے مقدس و محترم ہو اور مرکز امن و امان ہو لیکن اسلام اور بعض گذشتہ آسمانی مذاہب میں اس کی پیش بندی کی گئی ہے۔ اسلام میں مکہ کو ایسے ہی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔

اس وقت مسلمان جن جان لیوا کشمکشوں اور اختلافات میں مبتلا ہیں اس سرزمین کے تقدس اور امنیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکرات کا دروازہ کھول سکتے ہیں اور یہ مقام مقدس جو دلوں میں خاص قسم کی نورانیت اور روحانیت پیدا کرتاہے، اس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اختلافات ختم کرسکتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا جارہا۔(۱)

خانہ خدا کا نام:

مندرجہ بالا آیت میں خانہ کعبہ کو بیتی (میرا گھر) کہا گیاہے ۔ حالانکہ یہ امر واضح ہے کہ خداوند عالم نہ جسم رکھتا ہے اور نہ اسے گھر کی ضرورت ہے۔ اس اضافت اور نسبت سے مراد نسبت اعزازی ہے۔ کسی چیز کی بزرگی اور عظمت کو بیان کرنے کے لئے اسے خدا سے منسوب کیاجاتاہے اسی معنی میں ماہ رمضا ن کو شہر اللہ اور خانہ کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتاہے۔

____________________

۱ سرزمین مکہ کے جائے امن ہونے کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۶ سورہ ابراہیم، آیہ ۳۵ کے ذیل میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

آیت ۱۲۶

۱۲۶ ۔( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ اٴَهْلَهُ مِنْ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاٴُمَتِّعُهُ قَلِیلًا ثُمَّ اٴَضْطَرُّهُ إِلَی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ )

ترجمہ

۱۲۶ ۔ (اور یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم نے عرض کیا: پروردگارا! اس سرزمین کو شہر امن قرار دے اور اس کے رہنے والوں کو جو خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، انہیں (قسم قسم کے) میووں سے روزی دے۔ (ہم نے ابراہیم کی اس دعا کو قبول کیا۔ اور مومنین کو انواع و اقسام کی برکات سے بہرہ ور کیا) کہا وہ کافر ہوگئے تھے انہیں تھوڑا سا فائدہ دیں گے پھر انھیں آگ کے عذاب کی طرف کھینچ کے لے جائیں گے اور ان کا انجام کتنا براہے۔

بارگاہ خدا میں حضرت ابراہیم کی در خواستیں

اس آیت میں حضرت ابراہیم نے اس مقدس سرزمین کے رہنے والوں کے لئے پروردگار سے دو اہم در خواستیں کی ہیں ۔ ایک کی طرف گذشتہ آیت کے ذیل میں بھی اشارہ کیا جاچکاہے۔

قرآن کہتاہے: اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کیا پروردگار! اس سرزمین کو شہر امن قرار دے( و اذ قال ابراهیم رب اجعل هذا بلدا امنا ) ۔

جیسا کہ گذشتہ آیت میں ہے کہ ابراہیم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں اور خدا نے اس مقدس سرزمین کو امن و امان کا ایک مرکز بنایا اور اسے ظاہری و باطنی طور پرسلامتی بخشی۔

ان کی دوسری درخواست یہ تھی کہ اس سرزمین کے رہنے والوں کو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں طرح طرح کے ثمرات سے نوازا( وَارْزُقْ اٴَهْلَهُ مِنْ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِر ) ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ابراہیم پہلے امنیت کا تقاضا کرتے ہیں اور اس کے بعد اقتصادی عنایات کی درخواست کرتے ہیں یہ بات اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ جب تک کسی شہر یا ملک میں امن و سلامتی کا دور دورہ نہ ہو کسی ستھرے اور صحیح اقتصادی ماحول کا امکان نہیں ہوسکتا۔

ثمرات سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن ظاہرا ثمرات ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ جس میں ہر قسم کی مادی نعمات شامل ہیں ۔ چاہے ہوں یا دیگر غذائی چیزیں بلکہ کئی ایک روایات کے مطابق تو اس کے مفہوم میں معنوی نعمات بھی شامل ہیں ۔

امام صادق سے مردی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:هی ثمرات القلوب

اس سے مراد دلوں کے میوے ہیں ۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس سرزمین کے رہنے والوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرے ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ابراہیم نے یہ تقاضا صرف ان کے لئے کیاہے جو توحید اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جملہ لا ینال عھد الظالمین (جو گذشتہ آیات میں گذر چکاہے) سے شاید وہ یہ حقیقت جان چکے تھے کہ ان کی آنے والی نسلوں میں سے کچھ لوگ شرک اور ظلم و ستم کی راہ اختیار کریں گے لہذا بارگاہ الہی میں ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنی دعاسے مستثنی رکھا۔

لیکن۔ تعجب کی بات ہے کہ ابراہیم کے اس تقاضے کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا: رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیاہم انہیں ان ثمرات میں سے تھوڑا سا حصہ دیں گے مگر انہیں بالکل محروم نہیں کیاجائے گا( قال و من کفر فامتعه قلیلا ) ۔ آخرت میں انہیں عذاب جہنم کی طرف کھینچ کرلے جایا جائیگا اور یہ کیسا برا انجام ہے( ثم اضطره الی عذاب النار و بئس المصیر ) ۔

حقیقت میں یہ پروردگار کی صفت رحمانیت یعنی رحمت عامہ ہے۔اس کی نعمت کے وسیع دستر خوان اور خزانہ غیب سے یہودی اور عیسائی بھی استفادہ کرتے ہیں لیکن آخرت کا گھر جو رحمت خاص کا گھر ہے وہاں ان کے لئے رحمت اور نجات نہیں ہے۔

آیات ۱۲۷،۱۲۸،۱۲۹

۱۲۷ ۔( وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ اٴَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم )

۱۲۸ ۔( ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اٴُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ وَاٴَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ التَّوَّابُ الرحیم )

۱۲۹ ۔( ربنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیهِمْ إِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ )

ترجمہ

۱۲۷ ۔ اور (یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں بلند کررہے تھے (اور کہتے تھے) اے ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما کہ توسننے والاہے۔

۱۲۸ ۔ پروردگار! ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا قرار دے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو تیرے حضور سر سلیم خم کرنے والی ہوہمیں اپنی عبادت کا راستہ دکھا اور ہماری تو بہ قبول فرما کہ تو تواب اور رحیم ہے۔

۱۲۹ ۔ پروردگار! ان کے در میان انہی میں سے ایک نبی مبعوث فرماجو انہیں تیری آیات سنائے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے۔ کیونکہ تو توانا اور حکیم ہے (اور تو اس کام پر قدرت رکھتاہے)۔

حضرت ابراہیم کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعبیر نو

قرآن کی مختلف آیات، احادیث اور تواریخ اسلامی سے واضح ہوتاہے کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم سے پہلے بلکہ حضرت آدم کے زمانے میں موجود تھا کیونکہ سورہ ابراہیم کی آیہ ۳۷ میں حضرت ابراہیم جیسے عظیم پیغمبر کی زبانی یوں آیاہے:

( رَبَّنَا إِنِّی اٴَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم )

پروردگارا! میں اپنی ذریت میں سے (بعض کو) اس بے آب و گیاہ داری میں تیرے محترم گھرکے پاس بسارہاہوں ۔

یہ آیات واضح طور پر گواہی دیتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم اپنے شیرخوار بیٹے اسماعیل اور اپنی زوجہ کے ساتھ سرزمین مکہ میں آئے تو خانہ کعبہ کے آثار موجود تھے۔

سورہ آل عمران کی آیہ ۹۶ میں بھی ہے:( إِنَّ اٴَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا ) ۔

پہلا گھر جو عبادت خدا کی خاطر انسانوں کے لئے بنایا گیا وہ سرزمین مکہ میں تھا۔

یہ مسلم ہے کہ عبادت خدا اور مرکز عبادت کی بنیاد حضرت ابراہیم کے زمانے سے نہیں پڑی بلکہ حضرت آدم کے زمانے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔

اتفاقا زیر بحث آیت کی تعبیر بھی اسی معنی کو تقویت دیتی ہے۔ فرمایا: یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم اور اسماعیل (جب اسماعیل کچھ بڑے ہوگئے تو) خانہ کعبہ کی بنیادوں کو اونچا کررہے تھے اور کہتے تھے پروردگار! ہم سے قبول فرماتو سننے والا اور جاننے والا ہے( و اذ یرفع ابراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربنا تقبل منا ط انک انت السمیع العلیم ) ۔

آیت کا یہ انداز بتاتاہے کہ خانہ کعبہ کی بنیادیں موجود تھیں اور ابراہیم اور اسمعیل اس کے ستون بلند کررہے تھے۔

نہج البلاغہ کے مشہور خطبہ قاصعہ میں بھی ہے( الا ترون ان الله سبحانه اختبر الاولین من لدن ادم الی الاخرین من هذا العالم باحجار فجعلها بیته الحرام ثم امرادم و ولدان یثنو اعطافهم نحوه )

کیا دیکھتے نہیں ہو کہ خدانے آدم سے لے کر آج تک کچھ پتھروں کے ذریعے امتحان لی (و ہ پتھرکہ) جنہیں اپنا محترم گھر قرار دیا پھر آدم کو حکم دیا کہ گرد طواف کریں ۔(۱)

مختصر یہ کہ آیات قرآن اور روایات تاریخ کی اس مشہور بات کی تائید کرتی ہیں کہ خانہ کعبہ پہلے پہل حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھوں بنا۔ پھر طوفان نوح میں گرگیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل کے ہاتھوں اس کی تعمیر نو ہوئی۔(۲)

حضرت ابراہیم کی کچھ مزید دعائیں

زیر نظر دیگردو آیات میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل خدا سے پانچ اہم در خواستیں کرتے ہیں ۔ یہ التجائیں جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی گئیں اس قدر فکر انگیز اور معنوی و مادی زندگی کی ضروریات کی جامع ہیں کہ انسان کو خدا کے ان دو عظیم پیغمبروں کی روحانی عظمت سے آشنا کردیتی ہیں ۔

پہلے عرض کرتے ہیں : پروردگارا! ہمیں ہماری ساری زندگی میں اپنے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا قرار دے( ربنا و اجعلنا مسلمین لک ) ۔

پھر تقاضا کرتے ہیں : ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلمان امت قرار دے جو تیرے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والی ہو( وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اٴُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ ) ۔

پھر درخواست کرتے ہیں : اپنی پرستش و عبادت کی را ہ میں دکھا اور ہمیں اس سے آگاہ فرما( وَاٴَرِنَا مَنَاسِکَنَا ) ۔

پھر تقاضا کرتے ہیں : ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلمان امت قرار دے جو تیرے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والی ہو( وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحیم ) ۔

اس کے بعد دعا کرتے ہیں :پروردگارا! انہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث فرما( ربنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْهُم ) تا کہ وہ تیری آیات ان کے سامنے پڑھے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے( یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیهِ ) ۔ یقینا تو توانا اور حکیم ہے اور ان تمام کاموں کی قدرت رکھتاہے (إ( ِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔

____________________

۱ یعنی اسے اپنی تو جہات کا مرکز قرار دیں ۔ (مترجم)

۲ المنار کے مؤلف نے اس بات سے انکار کیاہے ۔ اس کے نزدیک خانہ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل ہی ہیں حالانکہ یہ بات نہ فقط یہ کر روایات و تاریخ سے میل نہیں کھاتی بلکہ خود آیات قرآن سے بھی موافقت نہیں رکھتی۔

انبیاء کی غرض بعثت:

مندرجہ بالا آیات میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے پیغمبر اسلام کے ظہور کی دعا کے ساتھ ان کی بعثت کے تین مقاصد بیان کئے ہیں :۔ پہلا مقصد لوگوں کے سامنے آیات خدا کی تلاوت ہے۔ یہ در اصل ان آیات کے ذریعے لوگوں کو بیدار کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ یہ آیات عمدہ، جاذب نظر اور دلوں کو بھانے والی ہیں اور وحی کی صورت میں قلب پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ۔

تلاوت کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبران آیات کے ذریعے خوابیدہ نفوس کو بیدار کرے۔ آیت میں لفظ (یتلو) استعمال ہواہے جس کا مادہ تلاوت سے ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے پے در پے لانا۔ جب عبارتوں کو ایک دوسرے کے بعد اور صحیح نظم و ترتیب سے پڑھیں تو عرب اسے تلاوت کہتے ہیں ۔ لہذا منظم و پے در پے تلاوت در اصل تعلیم و تربیت کے لئے مقدمہ و تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔

۲ ۔ دوسرا مقصد تعلیم کتاب و حکمت شمار کیاگیاہے کیونکہ علم و آگاہی کے بغیر تربیت ممکن نہیں تربیت در اصل تیسرا مرحلہ ہے۔ کتاب و حکمت میں اس لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے کہ کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہوا در حکمت سے مراد وہ علوم، اسرا و علل اور مقاصد احکام ہوں جن کی پیغمبر کی طرف سے تعلیم دی جاتی ہے۔

۳ ۔ تیسرا مقصد تزکیہ بیان کیا گیاہے۔ تزکیہ کا معنی لغت میں نشو و نما بھی بیان کیاگیاہے۔

یہ نکتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ انسانی علوم محدود ہیں اور ان میں بھی ہزاروں ابہام اور خطائیں موجود ہیں ۔ انسان جو کچھ جانتا ہے اس کی صحت کا کامل یقین نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس سے پیشتر اپنے علوم کی غلطیاں دیکھ چکاہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں اس ضرورت کا احساس ہوتاہے کہ پیغمبران خدا صحیح علوم جو ہر قسم کی غلطی سے مبرا ہو مبداء وحی سے حاصل کرکے لوگوں کے در میان تشریف لائیں تا کہ لوگوں کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور جو باتیں انہیں معلوم نہیں ان کی انہیں تعلیم دیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں اس کے بارے میں انہیں اطمینان دلائیں ۔

دوسری بات جس کا ذکر یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ ہماری نصف شخصیت کی تشکیل عقل و خرد سے ہوتی ہے اور نصف شخصیت طبائع، میلانات اور خواہشات سے بنتی ہے۔ اس لئے ہمیں جتنی تعلیم کی ضرورت ہے اتنی ہی تربیت کی احتیاج ہے ہماری عقل و خرد کو بھی تکامل و ترقی کی ضرورت ہے اور ہمارے باطنی طبائع کو بھی صحیح تربیت و پرورش کے لئے رہبری کی ضرورت ہے۔ اسی لئے تو پیغمبر معلم بھی ہیں اور مربی بھی۔ تعلیم دینا بھی انہی کا کام ہے اور تربیت کرنا بھی۔

تعلیم مقدم ہے یا تربیت:

یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن میں چار مقامات پر انبیاء کی غرض بعثت کا ذکر کرتے ہوئے تعلیم و تربیت کا ذکر آیاہے۔ ان میں سے تین مقامات پر تربیت تعلیم سے مقدم ہے(۱)

اور صرف ایک جگہ (زیر بحث آیت میں ) تعلیم کا ذکر تربیت پر مقدم ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عموما جب تک تعلیم نہ ہو تربیت نہیں ہوتی۔ اس بناء پر جہاں تعلیم تربیت سے مقدم ہے وہاں تو اس کی وضع طبیعی کی طرف اشارہ ہے لیکن زیادہ تر مقامات جہاں تربیت مقدم ہے گویا اس طرف اشارہ ہے کہ غرض و مقصد تربیت ہے اور باقی سب مقدمات ہیں

پیغمبر انہی میں سے ہو:

مندرجہ بالا آیت میں لفظ (منہم) اس طرف اشارہ کرتاہے کہ انواع انسانی کے رہبر اور مربی کے لئے ضروری ہے کہ اسی کی نوع

و جنس سے ہو۔ انہی صفات اور بشری طبائع کا حامل ہو تا کہ وہ عملی پہلوؤں سے ان کے لئے بہترین نمونہ بن سکے کیونکہ واضح ہے کہ اگر ان کے نوع و جنس سے نہ ہو تو نہ وہ ان کی ضروریات ، تکالیف مشکلات اور انسانوں کے مختلف مسائل کو سمجھ پائے گا اور نہ ہی انسان اسے اپنے لئے نمونہ بنا سکیں گے۔

____________________

۱ بقرہ آیہ ۱۵۱، آل عمران آیہ ۱۶۴ ، جمعہ آیہ ۲۔

آیات ۱۳۰،۱۳۱،۱۳۲

۱۳۰ ۔( وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدْ اصْطَفَیْنَاهُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّهُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ )

۱۳۱ ۔ ا( ِٕذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ اٴَسْلِمْ قَالَ اٴَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ )

۱۳۲ ۔( وَوَصَّی بِهَا إِبْرَاهِیمُ بَنِیهِ وَیَعْقُوبُ یَابَنِیَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفَی لَکُمْ الدِّینَ فَلاَتَمُوتُنَّ إِلاَّ وَاٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ )

ترجمہ

۱۳۰ ۔ نادان و بیوقوف لوگوں کے سوا کون شخص (اس پاکیزگی اور روشنی کے با وجود) دین ابراہیم سے روگردانی کردے گا۔ اس دنیا میں ہم نے انہیں منتخب کیاہے اور دوسرے جہان میں بھی وہ صالحین میں سے ہیں ۔

۱۳۱ ۔ (یاد کرو وہ وقت) جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا اسلام لے آؤ (اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرو تو اانہوں نے پروردگار کے فرمان کو دل و جان سے قبول کرلیا اور) کہا میں عالمین کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرتاہوں ۔

۱۳۲ ۔ ابراہیم اور یعقوب نے (اپنی عمر کے آخری اوقات میں ) اپنے بیٹوں کو اس دین کی وصیت کی (اور ہر ایک نے اپنے فرزندوں سے کہا) اے میرے بیٹو! خدانے اس آئین پاک کو تمہارے لئے منتخب کیاہے اور تم دین اسلام کے علاوہ کسی پر نہ مرنا۔

حضرت ابراهیم انسان نمونه

گذشتہ آیات میں حضرت ابراہیم کی شخصیت کا کچھ تعارف کرایا گیاہے ان میں حضرت ابراہیم کی بعض خدمات اور کچھ درخواستیں جو مادی و معنوی پہلوؤں کی جامع تھیں کا ذکر کیاگیاہے۔ ان تمام ابحاث سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم اس قابل ہیں کہ عالمین کے تمام طالبان حق انہیں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دیں ۔ چاہیے کہ ان کے مکتب کو ایک انسان ساز مکتب تسلیم کرکے اس سے استفادہ کیاجائے۔ اسی بنیاد پر زیر نظر آیات میں گفتگو اس طرح سے آگے بڑھتی ہے: احمق و نادان افراد کے سوا کو ن شخص ابراہیم کے آئین پاک سے روگردانی کرے گا( وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ) ۔

کیا یہ حماقت اور بیوقوفی نہیں کہ انسان اس پاک و روشن دین کو چھوڑ دے اور کفر اور شرک اور فساد کی کجرا ہوں میں جا پڑے ۔ وہ آئین جو انسان کی روح و فطرت سے آشنا سازگار ہو اور عقل و خرد سے ہم آہنگ ہو اور وہ آئین جس میں آخرت بھی ہو اور دنیا بھی اسے چھوڑ کر ایسے منصوبوں کے پیچھے لگنا جو دشمن عقل، مخالف فطرت اور دین و دنیا کی تباہی کا باعث ہوں حماقت نہیں تو اور کیاہے۔

مزید فرمایا: ہم نے دنیا میں ابراہیم کو (ان عظیم خصوصیات و امتیازات کی بناء پر) منتخب کیا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا( و لقد اصطفینه فی الدنیا و انه فی الاخرة لمن الصلحین ) ۔

ابراہیم خدا کے چنے ہوئے اور صالحین کے سردار ہیں ۔ اسی بناء پر انہیں اسوہ و نمونہ قرار دیاجانا چاہئیے ۔ بعد کی آیت میں اسی مفہوم پر تاکید کرتے ہوئے ابراہیم کی برگزیدہ صفات میں سے ایک خصوصیت جو حقیقت میں ان تمام صفات کی بنیاد ہے کا تذکرہ کیا گیاہے: یاد کرو اس وقت کو جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ ہمارے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرو۔ انہوں نے کہا میں عالمین کے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوں( إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ اٴَسْلِمْ قَالَ اٴَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ) ۔

ہاں وہ ابراہیم جو فداکاری کا سراپا اور ایثار کا پتلا ہے جب اپنے ہی اندر سے آواز فطرت سنتاہے کہ پروردگار اس سے فرمارہاہے کہ سرتسلیم خم کرو تو وہ کاملا سر تسلیم خم کرتاہے۔ ابراہیم اپنی فکر و ادراک سے سمجھتے ہیں کہ ستارے، آفتاب اور ماہتاب سب نکلتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں اور قانون آفرینش کے تابع ہیں لہذا کہتے ہیں کہ یہ میرے خدا نہیں ہیں ۔

( إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ حَنِیفًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )

میں نے اپنا رخ خدا کی طرف کرلیاہے ، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے اور اس عقیدہ کی راہ میں اپنے تئیں خالص کردیاہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں ۔ (انعام۔ ۷۹)

گذشتہ آیات میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل جب خانہ کعبہ تعمیر کرچکے تو قبولیت اعمال کی دعا کے بعد جو پہلی درخواست کی وہ یہ تھی کہ واقعا وہ فرمان خدا کے سامنے سرتسلیم خم ہوں اور ان کی اولاد میں سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھ کھڑی ہو۔ در حقیقت نوع انسانی بلکہ تمام مخلوق میں پہلی بات جو کسی کی قدر و قیمت بڑھاتی ہے وہ خلوص اور پاکیزگی ہے۔ اس لئے جب حضرت ابراہیم نے کاملا اپنے تئیں فرمان حق کے سامنے سرنگوں کرلیا تو محبوب خدا ہوگئے اور خدانے انہیں چن لیا اور اسی عنوان سے ان کا اور ان کے مکتب کا تعارف کرایا۔ حضرت ابراہیم نے آغاز زندگی سے آخر تک ایسے ایسے کام کئے ہیں جو کم نظیر ہیں بلکہ بعض تو بے نظیر ہیں بت پرستوں اور ستارہ پرستوں سے ان کا لا جواب جہاد اور ان کا آگ میں کو دجانا کہ جس سے ان کا سخت ترین دشمن نمرود تک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور بے اختیار بول اٹھا:( من اتخذ الها فلیتخذ الها مثل اله ابراهیم )

اگر کوئی خدا کا انتخاب کرنا چاہے تو وہ ابراہیم کے خدا جیسا خدا منتخب کرے۔ ۱

اسی طرح بیوی اور شیرخوار بچے کو اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں سرزمین مقدس میں لاکر چھوڑ دینا، خانہ کعبہ کی تعمیر اور اپنے جو ان بیٹے کو قربان گاہ پرلے جانا ان میں سے ہر امر حضرت ابراہیم کی راہ و روش کو جاننے کے لئے ایک نمونہ ہے۔

جو وصیت اور نصیحت آپ نے اپنی آخری عمر میں اپنے فرزندان گرامی سے کی وہ بھی نمونہ ہے جس کا ذکر زیر نظر آیات میں سے آخر میں آیاہے۔ جس میں فرمایا گیا ہے کہ ابراہیم اور یعقوب نے عمر کے آخری لمحات میں اپنی اولاد کو توحید کے مکتب مقدس کی وصیت کی( وَوَصَّی بِهَا إِبْرَاهِیمُ بَنِیهِ وَیَعْقُوب ) ۔

ہر ایک نے اپنی اولاد سے کہا: اے میرے فرزند ! خدا نے اس آئین توحید کو تمہارے لئے منتخب کیاہے( یبنی ان الله اصطفی لکم الدین ) ۔

اس وصیت ابراہیمی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن گویا اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتا کہ اے انسان! تم فقط آج کے لئے اپنی اولاد کے لئے جوا ب دہ نہیں بلکہ اس کے آئندہ کے بھی جواب دہ ہو۔ اس جہان سے آنکھوں کو بند کرتے وقت اپنی اولاد کی مادی زندگی ہی کے لئے فکر نہ کرو بلکہ ان کی معنوی و روحانی زندگی کے لئے بھی فکر کرو۔

یہ وصیت حضرت ابراہیم ہی نے نہیں کی بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب نے بھی اپنے دادا کی اس روش کو جاری رکھا اور انہوں نے بھی اپنی آخری عمر میں اپنی اولاد کو سمجھایاکہ دیکھو! تمہاری کامیابی و کامرانی اور سعادت ایک چھوٹے سے جملے میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے حق کے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔

تمام انبیاء میں یہاں حضرت ابراہیم کے ساتھ صرف حضرت یعقوب کا ذکر آیاہے شاید یہ اس مقصد کے لئے ہوکہ یہود و نصاری کہ جن میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی طرح اپنے تئیں حضرت یعقوب سے وابستہ کرتے ہیں انہیں سمجھایا جائے کہ تمہارا یہ شرک آلود طور طریقہ اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی تمہاری ہٹ اس شخصیت کے طریقے سے نہیں ملتی جس سے اپنا ربط جوڑتے ہو۔

آیات ۱۳۳، ۱۳۴

۱۳۳ ۔( اٴَمْ کُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَکَ وَإِلَهَ آبَائِکَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ )

۱۳۴ ۔( تِلْکَ اٴُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلاَتُسْاٴَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون )

ترجمہ

۱۳۳ ۔ کیا تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: میرے بعد کس کی پرستش کروگے۔ انہوں نے کہا: آپ کے خدا کی اور اس اکیلے خدا کی جو آپ کے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا خداہے اور ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ۔

۱۳۴ ۔ (بہر حال) وہ ایک امت تھے کہ گذشتہ زمانے میں ان کے اعمال ان سے مربوط تھے اور تمہارے اعمال بھی خود تم سے مربوط ہیں اور ان کے اعمال کی باز پرس کبھی تم سے نہ ہوگی۔

شان نزول یہودیوں کی ایک جماعت کا عقیدہ تھا کہ حضرت یعقوب نے اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد کو اسی دین کی وصیت کی جس کے یہودی معتقد ہیں (اس کی تمام تحریفوں کے ساتھ) خدائے تعالی نے ان کے اس عقیدے کی تردید میں یہ آیات نازل کیں ۔(۲)

____________________

۱ نور الثقلین، ج۳، ص۴۳۹

۲ تفسیر ابو الفتوح رازی