تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72272
ڈاؤنلوڈ: 3774


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72272 / ڈاؤنلوڈ: 3774
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

سب اپنے اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں

جیسا کہ شان نزول میں ہے آیت کے ظاہر سے بھی یہ سمجھ میں آتاہے کہ کسی گفتگو کے دوران منکرین اسلام کا ایک گروہ حضرت یعقوب سے کوئی غلط بات منسوب کرتاتھا۔ قرآن ان کے اس بے دلیل دعوی کے متعلق کہتاہے: کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ایسی وصیت کی تھی ( ام کنتم شھدآء اذا حضر یعقوب الموت)۔

جو بات تم ان سے منسوب کرتے ہو وہ تو نہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے اس وقت اپنے بیٹوں سے گفتگو کی یہ تھی کہ انہوں نے پوچھا: میرے بعد کس چیز کی پرستش و عبادت کروگے( اذقال لبنیه ما تعبدون من بعدی ) انہوں نے جواب میں کہا: آپ کے خدا کی اور اس اکیلے خدا کی جو آپ کے آباابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا خدا ہے( قالوا نعبد الهک و اله ابائک ابراهیم و اسمعیل و اسحق الها واحد ) اور ہم اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں( و نحن له مسلمون )

یعقوب نے توحید اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی وصیت نہیں کی اور یہی اصول تمام حقائق تسلیم کرنے کی بنیاد ہے۔ زیر بحث آیت سے معلوم ہوتاہے کہ موت کے وقت حضرت یعقوب کو اپنی اولاد کی آئندہ زندگی کے بارے میں کچھ پریشانی تھی اور اس فکر کے آثار ان کی پیشانی سے ہویدا تھے جو بت پرست تھے اور کئی ایک چیزوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے۔ یعقوب چاہتے تھے کہ وہ جان لیں کہ کیا اس طور طریقے کی طرف تو کسی کا رحجان اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود نہیں ۔ لیکن بیٹوں کے جواب کے بعد انہیں سکون قلب نصیب ہوا۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت اسمعیل ، حضرت یعقوب کے باپ یا دادا نہیں تھے بلکہ ان کے چچا تھے۔ یہاں سے واضح ہوتاہے کہ لغت عرب میں کبھی کبھی لفظ (اب) جس کا معنی باپ ہے چچا کے لئے بھی استعمال ہوتاہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں اگر یہ لفظ آزر کے لئے استعمال ہوا ہے تو یہ اس مفہوم کے خلاف نہیں کہ آزر ابراہیم کا والد نہ تھا بلکہ چچاتھا۔

زیر نظر دوسری آیت گویا یہودیوں کے ایک اشتباہ کی نفی کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے آباء و اجداد، ان کے اعزازات اور خداکے ہاں ان کی عظمت پر بہت بھر و سہ کرتے تھے اور اپنے بارے میں سمجھتے کہ اگر وہ گناہگار ہوں تو بھی ان بزرگوں کی وجہ سے نجات یافتہ ہیں ۔ قرآن کہتاہے: بہرحال وہ ایک امت تھے جو تم

کبھی ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں (جیسا کہ وہ تمہارے اعمال کے جواب دہ نہیں ہیں )( و لا تسئلون عما کانوا یعملون ) لہذا بجائے اس کے کہ تم اپنی توانایی اپنے بزرگوں کے متعلق ایسے فخر و مباہات کی تحقیق میں صرف کرو اپنے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کرو۔

اگر چہ ظاہرا اس آیت کے مخاطب اہل کتاب اور یہودی ہیں لیکن واضح ہے کہ یہ حکم انہی سے مخصوص نہیں بلکہ ہم مسلمان بھی اس کے حقیقی مفہوم کے مخاطب ہیں ۔(۱)

____________________

۱ سادات کرام اس بات کی طرف خاص طور پر توجہ فرمائیں ۔ (مترجم)

آیات ۱۳۵،۱۳۶،۱۳۷

۱۳۵ ۔( وَقَالُوا کُونُوا هُودًا اٴَوْ نَصَارَی تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ )

۱۳۶ ۔( قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنزِلَ إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَمَا اٴُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اٴُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لاَنُفَرِّقُ بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ )

۱۳۷ ۔( فإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُمْ بِهِ فَقَدْ اهْتَدَوا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِی شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیکَهُمْ اللهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم )

ترجمہ

۱۳۵ ۔ (اہل کتاب) کہتے ہیں یہودی بن جاؤ یا عیسائی تا کہ ہدایت پالو کہہ دیجئے (یہ تحریف شدہ مذاہب ہرگز ہدایت بشر کا سبب نہیں بن سکتے) بلکہ ابراہیم کے خالص دین کی پیروی کرو وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے۔

۱۳۶ ۔ کہیے ہم خدا پر ایمان لائے ہیں اور اس پر جو ہم پر نازل ہواہے اور اس پر بھی جو ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق، یعقوب اور بنی اسرائیل کے دیگر انبیاء اسباط پر نازل ہواہے اور اسی طرح جو کچھ موسی اور عیسی اور دوسرے پیغمبروں کو پروردگار کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں کوئی فرق نہیں سمجھتے اور خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم کرتے خم کرتے ہیں (نسلی تعصبات اور ذاتی اغراض ہمارے لئے سبب نہیں بنتیں کہ ہم بعض کو قبول کریں اور بعض کو چھوڑ دیں )

۱۳۷ ۔ اگر وہ بھی اس پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر روگردانی کریں گے تو وہ حق سے جداہوں گے اور خدا تم سے ان کے شر کو دور کرے گا کہ وہ سننے والا اور داناہے۔

شان نزول

ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:

چند یہودی علماء اور نجران کے کچھ عیسائی علماء مسلمانوں سے بحث مباحثہ کرتے تھے۔ ان میں سے ہر گروہ اپنے تئیں دین حق پر قرار دیتا اور دوسرے کی نفی کرتاتھا۔ یہودی کہتے کہ ہمارے پیغمبر حضرت موسی دیگر انبیاء سے برتر ہیں اور ہماری کتاب بہترین کتاب ہے۔ اسی طرح عیسائی دعوی کرتے تھے کہ مسیح بہترین رہنماہیں اور انجیل بہترین کتاب ہے۔ ان دو مذاہب کے پیرو کاروں میں سے ہر ایک مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف دعوت دیتاتھا۔ یہ آیات اس موقع پر ان کے جواب میں نازل ہوئیں ۔

صرف ہم حق پر ہیں

خود پرستی اور خود محوری کا اکثر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان حق کو فقط اپنی ذات میں منحصر سمجھتا ہے اور باقی سب کو باطل پرست قرار دیتاہے اور کوشش کرتاہے کہ دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے جیسا کہ محل بحث پہلی آیت میں قرآن کہتاہے: اہل کتاب کہتے ہیں یہودی ہوجاؤ یا عیسائی بن جاؤ تو ہدایت یافتہ ہوجاؤگے( و قالوا کونوا هودا او نصاری تهتدوا ) ۔

کہئیے کہ تحریف شدہ مذاہب اس قابل نہیں کہ وہ ہدایت بشر کا سبب بنیں بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص دین کے پیروکار بنوتا کہ ہدایت حاصل کرو۔ وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھے (قل بل ملة ابراہیم حنیفا و ما کان من المشرکین)۔

صحیح دیندار افراد وہ ہیں جو خالص توحید کے پیروکار ہیں وہ توحید جو کسی قسم کے شرک سے آلودہ نہ ہو اور پاک و صاف دین کو کجرو دین سے ممتاز کرنے والی اہم ترین بنیاد توحید خالص ہی ہے۔

اسلام ہمیں تعلیم دیتاہے کہ خدا کے پیغمبروں میں کوئی تفریق نہ کریں اور سب کی تعلیمات کا احترام کریں کیونکہ دین حق کے اصول سب کے ہاں ایک ہی جیسے ہیں ۔ موسی و عیسی بھی ابراہیم کے آئین حق کے پیروکار تھے جو شرک سے پاک تھا، اگرچہ ان کے دین میں نادان پیروکاروں نے تحریف کردی اور اسے شرک آلود کردیا (یہ گفتگو اس بات کے خلاف نہیں کہ آج ہمیں اپنی شرعی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے آخری آسمانی دین کی پیروی کرنا چاہئیے یعنی صرف اسلام کی نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کی جیسا کہ اسی سورہ کی آیہ ۶۲ کے ذیل میں بیان کیا جا چکاہے)۔ اسی لئے بعد کی آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے کہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے ہیں جو اس کی طرف سے ہم پر نازل ہواہے اور اس پر جو ابراہیم ، اسمعیل ، اسحاق، یعقوب اور بنی اسرائیل کے اسباط پیغمبروں پر نازل ہواہے اور اسی طرح جو موسی و عیسی اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے خدا کی طرف سے دیاگیاہے( قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا اٴُنزِلَ إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَمَا اٴُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اٴُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ ) ۔

خلاصہ یہ کہ ہم ان کے در میان کوئی فرق روا نہیں رکھتے اور فرمان حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ہیں( لاَنُفَرِّقُ بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ) ۔

خود محوری ، نسلی تعصبات اور ایسی دیگر چیزیں ہمارے لئے اس بات کا موجب نہیں بنتی کہ ہم کچھ کو مان لیں اور کچھ کا انکار کردیں ۔ وہ سب خدائی معلم ہیں جنہوں نے مختلف تربیتی طریقوں سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے قیام کیا۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا توحید خالص اور حق و عدالت کے سائے میں نوع بشر کی ہدایت، اگر چہ ان میں سے ہر ایک اپنے خاص زمانے میں بعض مخصوص ذمہ داریوں اور خصوصیات کا حامل تھا۔

اس کے بعد قرآن کہتاہے: اگر یہ لوگ ان امور پر ایمان لے آئیں جن پر تم ایمان لائے ہو تو ہدایت پالیں گے( فإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُمْ بِهِ فَقَدْ اهْتَدَوا ) ۔ اگر روگردانی کریں گے تو حق سے جدا ہیں( وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِی شِقَاق ) ۔

اگر وہ نسلی و خاندانی تعصبات اور ایسی دیگر چیزوں کو مذہب میں داخل کریں اور خدا کے تمام پیغمبروں پر بلا ااستثناء ایمان لے آئیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں اور اگر یہ صورت نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا انہوں نے حق کو چھوڑ دیاہے اور باطل کے پیچھے رواں ہیں ۔

لفظ (شقاق) در اصل شکاف، نزاع اور جنگ کے معنی میں ہے اور اس مقام پر اس سے مراد کفر، گمراہی، حق سے دوری اور باطل کی طرف توجہ لیاگیاہے اور ان سب معانی کا نتیجہ ایک ہی ہے۔

بعض مفسرین نے نقل کیاہے کہ گذشتہ آیت کے نازل ہونے اور حضرت عیسی کا باقی انبیاء کی صف میں ذکر آنے کے بعد عیسائیوں کی ایک جماعت کہنے لگی کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ حضرت عیسی دیگر انبیاء کی طرح تھے وہ تو خدا کے بیٹے تھے لہذا زیر نظر آیات میں سے تیسری آیت نازل ہوئی اور انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ گمراہی اور کفر کا شکار ہیں ۔ بہرحال آیت کے آخر میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے کہ وہ دشمن کی سازشوں سے ہراساں نہ ہوں فرمایا: خدا ان کے شرک ان سے دور کر ےگا کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ان کی باتیں سنتا ہے اور ان کی سازشوں سے آگاہ ہے( فَسَیَکْفِیکَهُمْ اللهُ وَهُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم ) ۔

دعوت انبیاء کی وحدت:

آیات قرآنی میں بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ خدا کے تمام پیغمبر ایک ہی ہدف اور غرض رکھتے تھے۔ ان میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے کیونکہ سب ایک ہی منبع وحی و الہام سے فیض حاصل کرتے تھے۔

قرآن مسلمانوں کو نصیحت کرتاہے کہ خدا کے تمام پیغمبروں کا ایک جیسا احترام کریں ۔ لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ خدا کی طرف سے آنے والی نئی شریعت گذشتہ شریعتوں کی ناسخ ہوتی ہے۔ آئین اسلام آخری آئین ہے کیونکہ خدا کے پیغمبر معلمین کی طرح تھے اور ان میں سے ہر ایک انسانی معاشرے کی علیحدہ جماعتوں میں تربیت کے لئے آئے اور واضح ہے کہ جب ایک جماعت کی تعلیم ختم ہوجاتی ہے تو طلباء دوسرے معلم کے پاس اور اوپر کی جماعت میں چلے جاتے ہیں ۔ اسی طرح انسانی معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ہم آخری پیغمبر کے پروگراموں کو جو دین کے تکامل کا آخری مرحلہ ہے عملی شکل دیں ۔

اسباط کون تھے:

سبط، سبط اور انبساط کا معنی ہے کسی چیز کا آسانی سے پھیلاؤ۔ درخت کو کبھی کبھی سبط (برون سبذ) کہتے ہیں کیونکہ اس کی شاخیں آسانی سے پھیل جاتی ہیں ۔ اولاد اور خاندان کی شاخوں کو سبط اور اسباط کہتے ہیں اور اس کی وجہ وہ پھیلاؤ اور وسعت ہے جو نسل میں پیدا ہوتی ہے۔اسباط سے مراد بنی اسرائیل کے خاندان اور قبائل ہیں یا وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں سے پیدا ہوئے چونکہ ان میں سے بھی انبیاء ہوئے

ہیں لہذا مندرجہ بالا آیت میں اسباط کو بھی ان افراد کا ایک حصہ قرار دیا گیاہے جن پرآیات نازل ہوئیں ۔ اس وجہ سے اسباط سے مراد بنی اسرائیل کے قبائل یا اولاد یعقوب یا اولاد یعقوب میں سے وہ قبائل ہیں جن میں انبیاء آئے اس سے مراد خود حضرت یعقوب کے بیٹے نہ تھے کہ جس بناء پر کہا جاسکے کہ وہ سب کے سب نبوت کی اہلیت نہ رکھتے تھے کیونکہ وہ تو اپنے بھائی کے معاملے میں گناہ کے مرتکب ہوئے تھے۔

حنیف کا مادہ ہے حنف (برو زن ہدف)

حنیف کا مادہ ہے حنف (برو زن ہدف) جس کا معنی ہے گمراہی سے درستی اور راستی کی طرف میلان و رجحان پیدا کرنا۔ اس کے برعکس ہے جنف یعنی راستی سے کجی کی طرف جھکنا۔ توحید خالص کے پیروکار چونکہ شرک سے منہ موڑکر اس حقیقی اساس کی طرف مائل ہیں اس لئے انہیں حنیف کہا جاتاہے۔ اس وجہ سے حنیف کا ایک معنی ہے مستقیم اور صاف یہاں سے واضح ہوتاہے کہ مفسرین نے (حنیف) کی جو مختلف تفسیریں کی ہیں مثلا بیت اللہ کا حج ، حق کی پیروی ، حضرت ابراہیم کی پیروی ، خلوص عمل و غیرہ سب کی برگشت اسی جامع مفہوم کی طرف ہوتی ہے۔

آیات ۱۳۸،۱۳۹،۱۴۰،۱۴۱،

۱۳۸ ۔( صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اٴَحْسَنُ مِنْ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ )

۱۳۹ ۔( قُلْ اٴَتُحَاجُّونَنَا فِی اللهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ وَلَنَا اٴَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اٴَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ )

۱۴۰ ۔( اٴَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطَ کَانُوا هُودًا اٴَوْ نَصَارَی قُلْ اٴَاٴَنْتُمْ اٴَعْلَمُ اٴَمْ اللهُ وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنْ اللهِ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ )

۱۴۱ ۔( تِلْکَ اٴُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلاَتُسْاٴَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ

۱۳۸ ۔ خدائی رنگ (ایمان، توحید اور اسلام کا رنگ قبول کریں ) اور خدائی رنگ سے کون سا رنگ بہتر ہے اور ہم صرف اس کی عبادت کرتے ہیں ۔

۱۳۹ ۔ کہیے: کیا تم ہم سے خدا کے بارے میں گفتگو کرتے ہو حالانکہ وہی تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور ہم تو خلوص سے اس کی عبادت کرتے ہیں (اور ہم مخلص موحد ہیں )۔

۱۴۰ ۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسمعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اسباط یہودی یا عیسائی تھے۔ کہیئے تم بہتر جانتے ہو یا خدا (اور با وجودیکہ تم جانتے ہو کہ وہ یہودی یا عیسائی نہ تھے کیوں حقیقت چھپاتے ہو) اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم و ستمگر ہے جو اپنے پاس موجود خدائی شہادت کو چھپائے اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

۱۴۱ ۔ (بہرحال) وہ ایک امت تھے جو گزرگئے۔ جو انہوں نے کیاہے وہ ان کے لئے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ تمہارے لئے ہے۔ تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو۔

غیر خدائی رنگ دھو ڈالو

گذشتہ آیات میں مختلف پیروکاروں کو تمام انبیا کے پروگراموں کے سلسلے میں جو دعوت دی گئی تھی اس ضمن میں فرماتاہے: صرف خدائی رنگ قبول کرو (جو ایمان اور توحید کا خالص رنگ ہے)( صبغة الله ) (۱) ۔

۱ س کے بعد مزید کہتا ہے: کو نسا رنگ خدائی رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو فقط اس کی پرستش و عبادت کرتے ہیں (اور اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں )( و من احسن من الله صبغة و نحن له عبدون ) ۔

اس طرح قرآن حکم دیتاہے کہ نسلی ، قبائلی اور ایسے دیگر رنگ جو تفرقہ بازی کا سبب ہیں ختم کردیں اور سب کے سب صرف خدائی رنگ میں رنگ جائیں ۔

مفسرین نے لکھاہے کہ عیسائیوں کا معمول تھا کہ وہ اپنی اولاد کو غسل تعمید دیتے تھے اور کہتے تھے اس خاص رنگ سے غسل دینے سے نو مولود کے وہ ذاتی گناہ دھل جاتے ہیں جو اسے حضرت آدم سے ورثے میں ملے ہیں ۔

قرآن اس بے بنیاد منطق پر خط بطلان کھینچتاہے اور کہتاہے کہ خرافات ، بیہودگی اور تفرقہ اندازی کے ظاہری رنگوں کے بجائے رنگ حقیقت اور رنگ الہی قبول کرو تا کہ تمہاری روح اور نفس ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔ واقعا یہ کیسی خوبصورت اور لطیف تعبیر ہے۔ اگر لوگ خدائی رنگ قبول کرلیں یعنی وحدت، عظمت، پاکیزگی اور پرہیزگاری کا رنگ ، عدالت مساوات برادری اور برابری کا رنگ اور توحید و اخلاص کا رنگ اختیار کرلیں اور اس سے تمام جھگڑے، کشمکش (جو کئی رنگوں میں اسیر ہونے کا سبب ہیں ) ختم کرسکتے ہیں اور شرک ، نفاق اور تفرقہ بازیوں کو دور کرسکتے ہیں ۔

امام صادق(ع) سے مروی د متعدد احادیث میں انہی طرح طرح کے رنگوں کو دور کرنے کے بارے میں فرمایا گیاہے۔ یہ روایات اس آیات کی تفسیر میں منقول ہیں ۔ آپ نے فرمایا:صبغة اللہ سے مراد اسلام کا پاکیزہ آئین ہے۔(۲)

یہودی و غیرہ بعض اوقات مسلمانوں سے حجت بازی کرتے اور کہتے کہ پیغمبر ہماری قوم میں مبعوث ہوتے تھے۔ ہمارا دین قدیم ترین ہے اور ہماری کتاب آسمانی کتابوں میں سے زیادہ پرانی ہے اگر محمد بھی پیغمبر ہوتے تو ہم میں سے مبعوث ہوتے اور کبھی کہتے کہ عربوں کی نسبت ہماری نسل ایمان و وحی قبول کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہے کیونکہ عرب تو بت پرست تھے ۔جب کہ ہم نہ تھے کبھی وہ خود کو خدا کی اولاد کہتے کہ بہشت تو فقط ہمارے لئے ہے۔ قرآن نے مندرجہ بالا آیات میں ان سب خیالات پر خط بطلان کھینچ دیاہے۔ قرآن پہلے پیغمبر سے یوں خطاب کرتاہے: ان سے کہیے کہ خدا کے بارے میں تم ہم سے گفتگو کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے( قل اتحاجوننا فی الله دهو ربنا و ربکم ) ۔

پروردگار کسی نسلی یا قبیلے کے لئے ہی نہیں وہ تو تما م جہانوں اور تمام عالم ہستی کا پروردگار ہے۔ یہ بھی جان لوکہ ہم اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں اور تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اور اعمال کے علاوہ کسی شخص کے لئے کوئی وجہ امتیاز نہیں( و لنا اعمالنا و لکم اعمالکم ) ۔فرق یہ ہے کہ ہم خلوص سے اس کی پرستش کرتے ہیں اور خالص موحدہیں لیکن تم میں سے بہت سوں نے توحید کو شرک آلود کر رکھاہے( و نحن له مخلصون ) ۔

اس کے بعد کی آیت میں ان بے بنیاد دعووں میں سے کچھ کا جواب دیتے ہوئے فرماتاہے: کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط سب یہودی یا عیسائی تھے( اٴَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطَ کَانُوا هُودًا اٴَوْ نَصَارَی ) ۔کہیے تم بہتر جانتے ہو یا( قل اعلم ام الله ) خدا بہتر جانتاہے کہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی۔ تم بھی کم و بیش جانتے ہو کہ حضرت موسی اور حضرت عیسی سے بہت سے پیغمبر دنیا میں آئے اور اگر نہیں جانتے تو پھر بغیر اطلاع کے ان کی طرف ایسی نسبت دنیا تہمت، گناہ اور حقیقت سے پردہ پوشی ہے اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اپنے پاس موجود خدائی شہادت چھپائے( و من اظلم ممن کتم شهادة عنده من الله ) ۔مگر یہ جان لو کہ خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے( وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) ۔

تعجب ہے کہ جب انسان ہٹ دھرمی اور تعصب کا شکار ہوجاتاہے تو پھر مسلمات تاریخ تک کا انکار کردیتاہے۔ مثلا یہودی اور عیسائی حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب جیسے پیغمبروں تک کو حضرت موسی اور حضرت عیسی کا پیروکار شمار کرتے ہیں جب کہ وہ ان سے پہلے دنیا میں آئے اور یہاں سے چل بسے۔ وہ بھی واضح حقیقت و واقعیت کو چھپاتے ہیں جس کا تعلق لوگوں کی قسمت اور دین و آئین سے ہے۔ اس لئے قرآن انہیں ظالم ترین افراد قرار دیتاہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر حقائق کو چھپاتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ زیر بحث آیت میں ایسے لوگوں کے نظریات کا ایک اور جواب دیا گیاہے۔ فرمایا: فرض کرو یہ سب دعوے سچے ہیں تو بھی وہ ایسے لوگ تھے جو گزرگئے ہیں ان کا دفتر اعمال بند ہوچکاہے، ا ن کا زمانہ بیت چکاہے اور ان کے اعمال انہی سے تعلق رکھتے ہیں( قلت الله قد خلت نهٓما کسبت ) اور تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اور ان کے اعمال کی باز پرس تم سے نہ ہوگی( و لکم ما کسبتم و لا تسئلون عما کانوا یعملون ) ۔

مختصر یہ کہ ایک زندہ قوم کو چاہئیے کہ اپنے اعمال کا سہارا لے اور ان پر بھر و سہ کرے نہ کہ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کی تاریخ کا سہارا لے۔ ایک انسان کو صرف اپنی فضیلت و منقبت پر بھر و سہ کرنا چاہیے کیونکہ باپ کی فضیلت سے اسے کیا حاصل چاہے وہ کتنا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو۔

____________________

۱ عرب جس مقام پر(صبغہ اللہ) کہتے ہیں اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات بیان کئے ہیں جن میں سے تین واضح ہیں ۔ پہلا یہ کہ وہ فعل محذوف کامفعول مطلق ہے (طبغو صبغة الله ) دوسرا یہ کہ ملت ابراہیم کی جگہ آیا ہو جو گذشتہ آیات میں گزرچکاہے۔ تیسرا یہ کہ فعل محذوف کا مفعول یہ ہو (اتبعوا صبغة الله

۲ نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۲۔

آیت ۱۴۲

۱۴۲ ۔( سَیَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ )

ترجمہ عنقریب کم عقل لوگ کہیں گے (مسلمانوں کو) ان ۔ کہ پہلے قبلہ سے کس چیز نے روگردان کیا۔ کہہ دو: مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتاہے سیدھی راہ کی ہدایت کرناہے۔

قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ

اس آیت اور اس کے بعد کی چند آیات میں تاریخ اسلام کی ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیاہے جس سے لوگوں میں ایک عظیم طوفان بر پا ہوگیاتھا۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں اور چند ماہ تک مدینہ میں پیغمبر اسلام حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن اس کے بعد قبلہ بدل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مکہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ۔ مدینہ میں کتنے ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی رہی اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ یہ مدت سات ماہ سے لے کہ سترہ ماہ تک بیان کی گئی ہے لیکن یہ جتنا عرصہ بھی تھا اس دوران یہودی مسلمانوں کو طعن زنی کرتے رہے کیونکہ بیت المقدس در اصل یہودیوں کا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نہیں بلکہ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہم حق پرہیں ۔ یہ باتیں پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کے لئے ناگوار تھیں ۔ ایک طرف وہ فرمان الہی کے مطیع تھے اور دوسری طرف یہودیوں کے طعنے ختم ہونے کو نہ آتے تھے۔ اسی لئے پیغمبر اکرم آسمان کی طرف دیکھتے تھے گویا وحی الہی کے منتظر تھے۔ اس انتظار میں ایک عرصہ گذر گیا یہاں تک کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر ہوا۔ ایک روز مسجد بنی سالم میں پیغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے۔ دو رکعتیں پڑھ چکے تھے کہ جبریل کو حکم ہوا کہ پیغمبر کا بازو تھام کر ان کا رخ انور کعبہ کی طرف پھیر دیں ۔(۱) اس واقعے سے یہودی بہت پریشان ہوئے اور اپنے پرانے طریقے کے مطابق ، ڈھٹائی، بہانہ سازی اور طعن بازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ پہلے تو کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہیں کیونکہ ان کا کوئی اپنا قبلہ نہیں یہ ہمارے پیروکار ہیں ۔ لیکن جب خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض دراز کی۔ چنانکہ محل بحث آیت میں قرآن کہتاہے:۔بہت جلد کم عقل لوگ کہیں گئے ان (مسلمانوں ) کو کس چیز نے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ پہلے تھے( سَیَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْهَا ) مسلمانوں نے اس سے کیوں اعراض کیاہے جو گذشتہ زبانے میں انبیاء ما سلف کا قبلہ رہاہے۔ اگر پہلا قبلہ صحیح تھا تو اس تبدیلی کا کیا مقصد اور اگر دوسرا صحیح ہے تو پھر تیرہ سال اور چند ماہ بیت المقدص کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے رہے ہیں ۔

خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتاہے: ان سے کہہ دو عالم کے مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے( قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

ان حیلہ بازوں کے جواب میں یہ ایک قطعی اور واضح دلیل تھی کہ بیت المقدس اور کعبہ سب اللہ کی ملکیت ہیں ۔ خدا کا ذاتی طور پر تو کوئی گھر نہیں ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ فرمان خدا کا پاس کیاجائے۔ جس طرف خدا حکم دے ادھر نماز پڑھی جائے وہ مقام مقدس و محترم ہے اور کوئی جگہ حکم خدا کے بغیر ذاتی اہمیت نہیں رکھتی۔ حقیقت میں قبلہ کی تبدیلی آزمائش اور تکامل کے مراحل میں سے ہے ان میں سے ہر ایک ہدایت الہی کا مصداق ہے اور وہی ہے جو انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتاہے۔

سفہا:

سفہاء جمع ہے سفیہ کی۔ اصل میں اس کا معنی وہ شخص ہے جس کا بدن ہلکا پھلکا ہو اور آسانی سے ادھر ادھر ہوجائے۔ اہل عرب جانوروں کی کم وزن رسیوں کو جو ہر طرف حرکت کرتی رہتی ہیں سفیہ کہتے ہیں ۔ لیکن بعد ازاں یہ لفظ کم ذہن شخص کے معنی میں استعمال ہونے لگا یہ کم عقل امور دین میں ہویا امور دنیا میں ۔

نسخ احکام:

پہلے کہا جا چکاہے کہ مختلف زمانوں میں تنسیخ احکام اور تربیتی پروگراموں کی تبدیلی کوئی نیا مسئلہ یا عجیب و غریب چیز نہیں کہ اس پر اعتراض ہوسکے۔ لیکن اس بات کو یہودیوں نے اسلام سے انکار کرنے کے لئے بڑی بات بنادیا۔ اور اس سلسلے میں بہت پرا پیگنڈاکیا۔

قرآن نے انہیں منطقی اور دندان شکن جواب دیئے

قرآن نے انہیں منطقی اور دندان شکن جواب دیئے اور وہ مجبور خاموش ہوگئے اس سلسلے کی آیات آپ ابھی ملاحظہ کریں گے۔

____________________

۱ مجمع البیان، ج۱، ص۲۲۴