تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73012
ڈاؤنلوڈ: 3875


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73012 / ڈاؤنلوڈ: 3875
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

شہداء کی ابدی زندگی:

شہداء کی زندگی کیسی ہے، اس بارے میں مفسرین کے در میان اختلاف ہے۔ اس میں اختلاف یہ ہے کہ شہداء ایک طرح کی برزخی اور روحانی زندگی رکھتے ہیں کیونکہ ان کا جسم تو عموما منتشر ہوجاتاہے۔

امام صادق کے ارشاد کے مطابق ان کی زندگی ایک مثالی جسم کے ساتھ ہے (وہ بدن جو عام مادے سے ماوراء ہے لیکن اس بدن کے مشابہ ہے جس کی تفصیل سورہ مومنون کی آیہ ۱۰۰ کے ذیل میں آئے گی جس میں فرمایا گیاہے:( و من وراعهم برزخ الی یوم یبعثون ) ۔(۱)

بعض مفسرین اسے شہداء کے ساتھ مخصوص ایک غیبی زندگی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس زندگی کی کیفیت اور انداز کا زیادہ علم نہیں رکھتے۔

کچھ مفسرین اس مقام پر حیات کو ہدایت اور موت کو جہالت کے معنی میں لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت کا معنی ہے کہ جو شخص راہ خدا میں قتل ہوجائے اسے گمراہ نہ کہو بلکہ وہ ہدایت یافتہ ہے۔

بعض شہداء کی دائمی زندگی کا مفہوم یہ قرار دیتے ہیں کہ ان کا نام اور مقصد زندہ رہے گا۔

جو تفسیر ہم بیان کرچکے ہیں اس کی طرف نظر کرنے سے واضح ہوجاتاہے کہ ان میں سے کوئی احتمال بھی قابل قبول نہیں نہ اس کی ضرورت ہے کہ مجازی معنی میں آیت کی تفسیر کی جائے اور نہ برزخ کی زندگی کو شہداء سے مخصوص قرار دینے کی ضرورت ہے بلکہ شہداء ایک خاص قسم کی برزخی اور روحانی زندگی کے حامل ہیں انہیں رحمت پروردگار کی قربت کا امتیاز حاصل ہے اور وہ طرح طرح کی نعمات سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔

مکتب شہید پرور:

مسئلہ شہادت کی زیر نظر آیت اور قرآن کی دیگر آیات کے ذریعے اسلام نے ایک نہایت اہم اور تازہ عامل کے لئے میدان تیار کیاہے ۔ یہ وہ عامل ہے جس سے حق کے لئے باطل کے مقابلے میں جنگ کی سکت پیدا ہوتی ہے ۔ یہ ایسا عامل ہے جس کی کار کردگی ہر قسم کے ہتھیار سے بڑھ کرہے اور یہ ہر چیز سے زیادہ اثر انگیز ہے۔ یہ عامل ہر دور کے خطرناک ترین اور وحشت ناک ترین ہتھیاروں کو شکست سے دوچار کردیتاہے ۔ یہی حقیقت ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنے ملک ایران میں انقلاب اسلامی کی پوری تاریخ میں بڑی وضاحت سے دیکھی ہے کہ عشق شہادت ہر قسم کے ظاہری اسباب کی کمی کے باوجود مجاہدین اسلام کی کامیابی کا عامل بنا۔

اگر ہم تاریخ اسلام اور ہمیشہ رہنے والے انقلابات میں اسلامی جہاد اور مجاہدین کے ایثار و قربانی کی تفصیلات پر غور کریں جنہوں نے اپنے پورے وجود سے اس دین پاک کی سربلندی کے لئے جانفشانی دکھائی ہے، تو ہمیں نظر آئے گا کہ ان تمام کامیابیوں کی ایک اہم وجہ اسلام کا یہ عظیم درس ہے کہ راہ خدا اور طریق حق و عدالت میں شہادت کا معنی فنا، نابودی اور مرنا نہیں بلکہ اس کا مطلب ہمیشہ کی زندگی اور ابدی افتخار و اعزاز ہے۔

جن مجاہدین نے اس مکتب عظیم سے ایسا درس یاد کیاہے ان کا مقابلہ کبھی عام جنگجوؤں سے نہیں کیاجاسکتا۔ عام سپاہی اپنی جان کی حفاظت کی فکر میں رہتاہے لیکن حقیقی مجاہد کا منشا ء اپنے مکتب کی حفاظت ہوتاہے اور وہ پروانہ دار جان دیتا، قربان ہوتا اور فخر کرتاہے۔

برزخ کی زندگی اور روح کی بقاء:

س آیت سے انسان کی حیات برزخ (موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کی زندگی) کا بھی واضح ثبوت ملتاہے اور یہ ان لوگوں کے لئے جواب ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن نے روح کی بقاء اور برزخ کی زندگی کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی۔

اس موضوع کی مزید تشریح، شہدا کی حیات جاوداں ، خدا کے ہاں اس کا بدلہ اور راہ خدا میں قتل ہونے والوں کا عظیم مرتبہ تفسیر نمونہ جلد سوم (سورہ آل عمران آیہ ۱۶۹ کے ذیل) میں پڑھیئے گا۔

____________________

۱ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۹، سورہ مومنون آیہ ۱۰۰ کے ذیل میں ۔

آیات ۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷

۱۵۵ ۔( وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الْاٴَمْوَالِ وَالْاٴَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ )

۵۶ ا ۔( الَّذِینَ إِذَا اٴَصَابَتْهُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ )

۱۵۷ ۔( اٴُوْلَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ )

ترجمہ

۱۵۵ ۔ یقینا ہم تم سب کی خوف، بھوک، مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی جیسے امور سے آزمائش کریں گے اور صبر واستقامت دکھانے والوں کو بشارت دیجئے۔

۱۵۶ ۔ وہ جنہیں جب کوئی مصیبت آپہنچے تو کہتے ہیں ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ جائیں گے۔

۱۵۷ ۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ الطاف و رحمت الہی جن کے شامل حال ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

طرح طرح کی خدائی آزمائش

راہ خدا میں شہادت، شہداء کی ابدی زندگی اورصبر و شکر جن میں سے ہر ایک خدائی آزمائش کے مختلف رخ ہیں کے ذکر کے بعد اس آیت میں بطور کلی آزمائش اور اس کی مختلف صورتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور اس کے یقینی اور غیر مبدل ہونے کا تذکرہ فرمایا گیاہے۔ ارشاد ہوتاہے: یہ امر مسلم ہے کہ ہم تمہیں چند ایک امور مثلا خوف، بھوک، مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی کے ذریعے آزمائیں گے( وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ الْخَوْفِ و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات ) ۔

چونکہ ان امتحانات میں کامیابی صبر و پائیداری کے بغیر ممکن نہیں لہذا آیت کے آخر میں فرمایا: اور بشارت دیجئے صبر و استقامت دکھانے والوں کو( و بشر الصابرین ) ۔

اور یہ ایسے افراد ہیں جو ان سخت آزمائشوں سے خوبصورتی سے عہدہ برآ ہوتے ہیں ۔ انہیں بشارت دینا چاہئیے باقی رہے سست مزاج اور بے استقامت لوگ تو وہ آزمائشوں کے مقامات سے روسیاہ ہوکر واپس آتے ہیں ۔ بعد کی آیت صابرین کے بارے میں زیادہ تشریح کرتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: وہ ایسے اشخاص ہیں کہ جب کسی مصیبت کا سامنا کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم خدا کی لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کرجائیں گے( الذین اذآ اصابتهم مصیبة قالوا انا لله و انا الیه راجعون ) ۔

اس حقیقت کی طرف دیکھتے ہوئے کہ ہم اس کے لئے ہیں ہمیں یہ درس ملتاہے کہ نعمات زائل ہونے سے ہمیں کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ یہ تمام نعمتیں بلکہ خود ہمارا وجود اس سے تعلق رکھتاہے۔ آج وہ ہمیں کوئی چیز بخشتاہے اور کل واپس لے لیتاہے ، ان دونوں میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے۔

اس واقعیت کی طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ ہم سب اسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جائیں گے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ یہ ہمیشہ رہنے کا گھر نہیں ہے۔ ان نعمتوں کا زوال اور ان عطیات کی کمی بیشی سب کچھ بہت جلد گذرجانے والی چیزیں ہیں اور یہ تکامل کا ذریعہ ہیں لہذا ان دو بنیادی اصولوں کی طرف توجہ کرنا۔ صبر و استقامت کے جذبے کو بہت تقویت بخشتا ہے۔

واضح ہے انا للہ و انا الیہ راجعون سے مراد زبانی ذکر نہیں ذکر نہیں بلکہ اس کی حقیقت اور روح کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اس کے مفہوم میں توحید و ایمان کی ایک دنیا آباد ہے۔

زیر بحث آخری آیت میں عظیم امتحانات میں صبر کرنے والوں اور پامردی دکھانے والوں کے لئے خدا تعالی کے عظیم لطف و کرم کو بیان کیاگیاہے۔ ارشاد ہوتاہے: یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کا لطف و کرم اور درود و صلوت ہے( اٴُوْلَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ قف ) ۔(۱)

یہ الطاف اور رحمتیں انہیں قوت بخشتی ہیں کہ وہ اس پر خوف و خطر راستے میں اشتباہ اور انحراف میں گرفتار نہ ہوں ۔ لہذا آیت کے آخر میں فرمایا: اور وہی ہدایت یافتہ ہیں( اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ ) ۔

ان چند آیات میں خدا کی طرف سے عظیم امتحان اور اس کے مختلف رخ نیز کامیابی کے عوامل اور امتحان کے نتائج کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے

____________________

۱- المنار کا مؤلف لکھتاہے کہ صلوت سے مراد بہت زیادہ تکریم، کامیابیاں ، خدا کے یہاں مقام بلند اور نبدگان خدا میں سربلندی ہے اور ابن عباس سے منقول ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی بخشش ہے (المنار، ج۲، ص۴۰) لیکن واضح ہے کہ صلوت کا مفہوم وسیع ہے اس میں یہ تمام امور، رحمت کا سایہ اور نعمات الہی بھی شامل ہیں ۔

خدا لوگوں کی آزمائش کیوں کرتاہے:

آزمائش اور امتحان کے مسئلے پر بہت گفتگو کی گئی ہے۔ پہلے پہل جو سوال ذہن میں ابھر تا ہے یہ ہے کہ کیا آزمائش اور امتحان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جو چیزیں غیر واضح ہیں وہ واضح ہو جائیں اور ہماری جہالت و نادانی کے پلڑے میں کمی ہوسکے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر خداوند عالم جس کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے اور جو ہر شخص اور ہر شے کے اندرونی اور بیرونی اسرار سے آگاہ ہے اور زمین و آسمان کے غیوب کو اپنے بے پایاں علم سے جانتاہے، کیوں امتحان لیتاہے۔ کیا کوئی چیز اس سے مخفی ہے جو امتحان کے ذریعے آشکار ہوجائے گی۔

اس اہم سوال کا جواب تلاش کرناچاہئیے۔

آزمائش اور امتحان کا مفہوم خدا کے بارے میں اس مفہوم سے بہت مختلف ہے جو ہمارے در میان مروج ہے۔ ہماری آزمائشوں کا مقصود وہی ہے جو اوپر بیان کیاجاچکاہے یعنی مزید معلومات حاصل کرنا اور ابہام و جہل کو دور کرنا لیکن خدا کی آزمائش در حقیقت پرورش و تربیت ہی کا دوسرا نام ہے جس کی وضاحت یوں ہے کہ قرآن میں بیس سے زیادہ مقامات پر امتحان کی نسبت خدا تعالی کی طرف دی گئی ہے۔ یہ ایک قانون کلی ہے اور پروردگار کی دائمی سنت ہے کہ وہ پوشیدہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتاہے (جسے قوت سے فعل تک پہنچنے کا عمل کہتے ہیں )۔ وہ بندوں کو تربیت دینے کے لئے آزماتاہے جیسے فولاد کو زیادہ مضبوط بنانے کے لئے بھٹی میں ڈالا جاتاہے۔ اصطلاح میں اسے آب دینا کہتے ہیں اسی طرح خدا تعالی آدمی کو شدید حوادث کی بھٹی میں پرورش و تربیت کے لئے ڈالتاہے اور اسے مشکلات کا مقابلہ کرنے لئے تیار کرتاہے۔

در اصل خدا کا امتحان اس تجربہ کا باغبان کی مانند ہے جو مستعد دانوں کو تیار زمینوں میں ڈالتاہے۔ یہ دانے طبیعی عطیات سے استفادہ کرتے ہوئے نشو و نما پاتے ہیں اور آہستہ آہستہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں ، حوادث سے بر سر پیکار رہتے ہیں اور سخت طوفان، کمر توڑ سردی اور جلادینے والی گرمی کے سامنے کھڑے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کی شاخوں پر خوبصورت پھول کھلتے ہیں یا وہ تنومند اور پر ثمر درخت بن جاتے ہیں ۔

فوجی جوانوں کو جنگی نقطہ نظر سے طاقت و ربنا نے کے لئے مصنوعی جنگی مشقیں کرائی جاتی ہیں اور انہیں طرح طرح کی مشکلات بھوک، پیاس ، گرمی، سردی، دشوار حوادث اور سخت مسائل سے گزاراجاتاہے تاکہ وہ قومی اور پختہ کار ہوجائیں ۔ خدا کی آزمائشوں کی رمز بھی یہی ہے۔

قرآن مجید ایک مقام پراس حقیقت کی تصریح کرتے ہوئے کہتاہے:

( وَلِیَبْتَلِیَ اللهُ مَا فِی صُدُورِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِة )

جو تمہارے سینوں میں ہے خدا اس کی آزمائش کرتاہے تا کہ تمہارے دل مکمل طور پر خالص ہوجائیں اور وہ تمہارے سب اندرونی رازوں سے واقف ہے۔ (آل عمران۔ ۱۵۴)

حضرت امیر المؤمنین علی نے امتحانات الہی کی بڑی پر مغز تعریف فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

و ان کان سبحانه اعلم بهم من انفسهم و لکن لتظهر الافعال التی بها یستحق الثواب و العقاب

اگر چہ بندوں کی نفسیات خود ان سے زیادہ جانتاہے۔ پھر بھی انہیں آزماتاہے تا کہ اچھے اور برے کا م ظاہر ہوں جو جزا و سزا کا معیار ہیں ۔(۱)

یعنی انسان کی اندرونی صفات ہی ثواب و عقاب کا معیار نہیں جب تک کہ وہ انسان کے عمل و کردار سے ظاہر نہ ہوں ۔ خدا اپنے بندوں کو آزماتاہے تا کہ جو کچھ ان کی ذات میں پنہاں ہے وہ عمل میں آجائے اور استعداد، قوت سے فعل تک پہنچ جائے اور یوں وہ جزا یا سزا کا مستحق ہوجائے۔ اگر خدا کی آزمائش نہ ہوتی تو یہ استعدادیں ظاہر نہ ہوتیں اور انسانی شجر کی شاخوں پر اعمال کے پھل نہ اُگتے۔ اسلامی منطق میں یہی خدائی آزمائش کا فلسفہ ہے۔

____________________

۱- نہج البلاغہ، کلمات قصار، جملہ ۹۳

خدا کی آزمائش ہمہ گیر ہے:

جہان ہستی کا نظام چونکہ تکامل، پرورش اور تربیت کا نظام ہے اور تمام موجودات تکامل کے سفر میں ہیں ۔ درخت اپنی مخفی استعداد پھل کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں ۔ طوفان آتے ہیں تو سمندر کی لہریں طرح طرح کی معدنیات کو ظاہر کرتی ہیں جس سے سمندر کی استعداد کا پتہ چلتاہے۔

اس عمومی قانون کے مطابق انبیاء سے لے کر عامة الناس تک تمام لوگوں کی آزمائش ہونا چاہئیے تا کہ وہ اپنی استعداد ظاہر کریں ۔ خدا کے امتحانات کی مختلف صورتیں ہیں بعض مشکل ہیں اور بعض آسان ہیں لہذا ان کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ بہرحال آزمائش اور امتحان سب کے لئے ہے۔

قرآن مجید انسانوں کے عمومی امتحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے:

( اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لاَیُفْتَنُون )

کیا لوگوں کا گمان ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں یوں ہی چھوڑ دیاجائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا۔(عنکبوت۔ ۲)

قرآن نے انبیاء کے امتحانات کا بھی ذکر کیاہے، فرماتاہے:( وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ )

خدا نے ابراہیم کا امتحان لیا۔ (بقرہ۔ ۱۲۴)

ایک اور مقام پر ہے:( فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی اٴَاٴَشْکُرُ اٴَمْ اٴَکْفُرُ )

جب سلیمان کے پیروکار نے پلک جھپکنے میں دور کی مسافت سے تخت بلقیس حاضر کردیا تو سلیمان نے کہا یہ لطف خدا ہے تا کہ میرا امتحان کرے کہ کیامیں اس کا شکر ادا کرتاہوں کہ کفران نعمت کرتاہوں ۔ (سورہ نمل۔ ۴۰)

آزمائش کے طریقے:

مندرجہ بالا آیت میں ان امور کے چند نمونے بیان ہوئے ہیں جن سے انسان کا امتحان ہوتاہے۔ ان میں خوف ، بھوک، مالی نقصان جان دینا شامل ہیں لیکن آزمائش انہی طریقوں میں منحصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی قرآن میں الہی آزمائش کے کچھ طریقے بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلا اولاد، انبیاء، احکام الہی حتی کہ بعض خواب بھی آزمائش ہی کا ذریعہ ہیں ۔ اسی طرح تمام نیکیاں اور برائیاں بھی خدائی آزمائشوں میں شمار ہوتی ہیں :( و نبلوکم بالشر و الخیر ) ۔ (انبیاء۔ ۳۵)

اس بناء پر زیر نظر آیت میں امتحانات کے جو طریقے بیان کئے گئے ہیں ۔ انہی پر بس نہیں بلکہ یہ خدائی آزمائشوں کے واضح نمونے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ امتحانا ت کے نتیجے میں لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک جو امتحانات میں کامیاب ہوجائے گا اور دوسرا جورہ جائے گا۔ مثلا اگر کہیں مرحلہ خوف در پیش ہوتو ایک گروہ اپنے تئیں اس سے دور رکھتاہے تا کہ اسے کوئی تھوڑا سا ضرر بھی نہ پہنچے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسئولیت اور جواب دہی سے بچتے ہیں ۔ دوستی کے وسیلے نکال کریا بہانے بناکر جنگوں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ مثلا قرآن میں ان کی بات نقل کی گئی ہے:( نخشی ان تصیبنا دآئرة )

ہم ڈرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ضرر نہ پہنچے۔ (مائدہ۔ ۵۲)

یہ کہہ کر و ہ خدائی ذمہ داری سے روگردانی کرلیتے ہیں ۔

کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہیں جو خوف کے عالم میں ڈٹے رہتے ہیں اور ایمان و توکل کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو جان نثاری کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ قرآن میں آیا ہے:

( الَّذِینَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِیل )

جب لوگ اہل ایمان سے کہتے تھے کہ حالات خطرناک ہیں اور تمہارے دشمن تیارہیں تم عقب نشین ہوجاؤ تو ان کے ایمان و توکل میں اضافہ ہوجاتا اور وہ کہتے ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ کیسا اچھا کارسازہے۔ (آل عمران۔ ۱۷۳)

مشکلات اور آزمائشی عوامل جن کا ذکر زیر بحث آیت میں آیاہے مثلا بھوک اور مالی و جانی نقصان، ان میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس سلسلے کے کچھ نمونے متن قرآن میں آئے ہیں جنہیں اپنے مقام پر بیان کیاجائے گا۔

آزمائشوں میں کامیابی کا راز:

یہاں ایک اور سوال سامنے آتاہے اور وہ یہ کہ جب تمام انسان ایک وسیع خدائی امتحان میں شریک ہیں تو ان میں کامیابی کا راستہ کو نساہے۔

محل بحث آیت اس سوال کا جواب دیتی ہی اور قرآن کی کئی ایک دیگر آیات بھی اس مسئلے کو واضح کرتی ہےں ۔ اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں جو ذیل میں بیان کی جاتی ہیں ۔

۱ ۔ امتحانات میں کامیابی کے لئے پہلا قدم وہی ہے جو اس چھوٹے سے پر معنی جملے میں بیان کیاگیاہے: و بشر الصبرین۔یہ جملہ صراحت کرتاہے کہ اس راہ میں صبر و استقامت کامیابی کی رمز ہے اسی لئے صابرین اور با استقامت لوگوں کو کامیابی کی بشارت دی جارہی ہے۔

۲ ۔ اس جہان کے حوادث، سختیاں اور مشکلیں گزرجانے والی ہیں اور یہ دنیا گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس امر کی طرف توجہ کامیابی کا دوسرا عامل ہے۔ جسے اس جملہ میں بیان کیاگیاہے:( انا الله و انا الیه راجعون )

ہم خدا کے لئے ہیں اور ہماری بازگشت اسی کی طرف ہے۔

اصولی طور پر بہ جملہ جسے کلمہ( استرجاع) کے نام سے یاد کیاجاتاہے انقطاع الی اللہ یعنی تمام چیزوں اور تمام اوقات میں اس کی ذات پاک پر بھر و سہ کرنا، کے عالی ترین دروس کانچوڑہے۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بزرگان دین بڑے بڑے مصائب کے وقت قرآن سے الہام لیتے ہوئے یہ جملہ زبان پر جاری کرتے تھے تو یہ اس لئے ہوتاتھا کہ مصائب کی شدت انہیں ہلانہ سکے اور خدا کی مالکیت اور تمام موجودات کی اس کی طرف بازگشت پر ایمان کے نتیجے میں وہ ان تمام حوادث کو گوارا کرلیں اور با استقامت رہیں ۔

امیر المؤمنین علی اس جملے کی تفسیر میں فرماتے ہیں :ان قولنا انا الله اقرار علی انفسنا بالملک و قولنا و انا الیه راجعون اقرار علی انفسنا بالهلک ۔

یہ جو ہم کہتے ہیں انا اللہ تو یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہم اس کی ملکیت ہیں اور یہ جو کہتے ہیں انا الیہ راجعون تو یہ اس کا اقرار ہے کہ ہم فنا اور ہلاک ہوجائیں گے۔

۳ ۔ قوت الہی اور الطاف الہی سے مدد طلب کرنا ایک اور اہم عامل ہے کیونکہ عام لوگ جب حوادث سے دوچار ہوتے ہیں تو توازن بر قرار نہیں رکھ پاتے اور اضطراب میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے دوستوں کا چونکہ واضح پروگرام اور ہدف ہوتاہے لہذا وہ متحیر اور سرگرداں ہونے کی بجائے اطمینان و آرام سے اپنی راہ چلتے رہتے ہیں اور خدا بھی انہیں زیادہ روشن بینی عطا فرماتاہے تا کہ انہیں صحیح راستے کے انتخاب میں اشتباہ نہ ہو جیسا کہ قرآن کہتاہے:

( و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا )

جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

(عنکبوت۔ ۶۹)

۴ ۔ گذشتہ لوگوں کی تاریخ پر نظر رکھنا اور ان کے حالات کو سمجھنا خدائی آزمائشوں میں روح انسانی کی آمادگی اور ان امتحانوں میں کامیابی کے لئے بہت مؤثر ہے۔

انسان در پیش آنے والے مسائل میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے تو ان سے مقابلے کی قوت کمزور پڑجاتی ہے لیکن اگر اس حقیقت کی طرف توجہ دی جائے کہ تاریخ کے طویل دور میں سب اقوام کے لئے تمام طاقت فرسا مشکلات اور خداکی سخت آزمائشیں موجود رہی ہیں تو ہر قوم و ملت کے امتحانات کا نتیجہ انسان کی استقامت میں اضافے کا باعث بن سکتاہے۔

اسی بناء پر قرآن مجید پیغمبر کو رغبت دلانے نیز ان کی اور مؤمنین کی روحانی تقویت کے لئے گذشتہ لوگوں کی تاریخ اور ان کی زندگی کے دردناک حوادث کی طرف اشارہ کرتاہے۔ مثلا کہتاہے:( و لقد استهزی برسل من قبلک )

اگر آپ سے طنز و استہزاء کیاجاتاہے تو گھبرائیے نہیں گذشتہ پیغمبروں سے بھی جاہل لوگ ایسا کرتے رہے ہیں ۔ (انعام ۔ ۱۰)

ایک اور مقام پر فرماتاہے:( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ما کذبوا و اوذوا حتی آتهم نصرنا )

اگر آپ کی تکذیب کی جاتی ہے تو تعجب کی بات نہیں ۔ گذشتہ انبیاء کی بھی تکذیب کی گئی ہے لیکن انہوں نے مخالفین کی اس تکذیب کے مقابلے میں اور جب انہیں آزار و تکلیف پہنچائی گئی پامردی و استقامت دکھائی۔ آخر کار ہماری نصرت و مدد ان تک آپہنچی۔ (انعام ۔ ۳۴)

۵ ۔ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونا کہ یہ تمام حوادث خدا کے سامنے رونما ہورہے ہیں اور وہ تمام امور سے آگاہ ہے پائیداری کے لئے ایک اور عامل ہے۔ جو لوگ کسی سخت مقابلے میں شریک ہوں جب انہیں احساس ہو کہ ہمارے کچھ دوست میدان مقابلہ کے اطراف میں موجود ہیں ، مشکلات برداشت کرنا ان کے لئے آسان ہوجاتاہے اور وہ زیادہ شوق و ذوق سے مشکلات کے مقابلہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔

جب چند تماشائیوں کا وجود روح انسانی کو اتنا متاثر کرسکتاہے تو اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونا کہ خداوند عالم میدان آزمائش میں میری کاوشوں کو دیکھ رہاہے، اس جہاد کو جاری رکھنے کے لئے کس قدر عشق و لولہ پیدا کرے گا۔

قرآن کہتاہے : جب حضرت نوح کو اپنی قوم کی طرف سے نہایت سخت رد عمل کا سامنا ہوا تو انہیں کشتی بنانے کا حکم دیاگیا۔ قرآن کے الفاظ میں :( و اصنع الفلک باعیننا )

ہمارے سامنے کشتی بناؤ۔ (ہود۔ ۳۷)

باعیننا(ہمارے علم کی آنکھوں کے سامنے) اس لفظ نے حضرت نوح کو اس قدر قلبی قوت عطاکی کہ دشمنوں کا سخت رو یہ اور استہزاء ان کے پائے استقلال میں ذراسی بھی لرزش پیدا نہ کرسکا۔

سید الشہداء مجاہدین راہ خدا کے سردار حضرت امام حسین سے یہی مفہوم منقول ہے میدان کربلا میں جب آپ کے کچھ عزیز دردناک طریقے سے جام شہادت نوش کرچکے تو آپ نے فرمایا:

ہون علی ما نزل بی انہ بعین اللہ

میں جانتاہوں کہ یہ سب کچھ علم خدا کی نگاہوں کے سامنے انجام پارہاہے لہذا انہیں برداشت کرنا میرے لئے آسان ہے۔(۱)

____________________

۱- بحار الانوار ، ج۴۵ ص۴۶

نعمت و بلاکے ذریعے امتحان:

یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئیے کہ خدا کے امتحانات ہمیشہ سخت اور ناگوار حوادث کے ذریعے ہی ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات خدا فراواں نعمتوں اور زیادہ کامیابیوں کے ذریعے بھی اپنے بندوں کو آزماتاہے جیسا کہ قرآن کہتاہے:

( و نبلوکم بالشر و الخیر فتنة )

اور ہم تمہارا امتحان برائیوں اور اچھائیوں کے ذریعے لیں گے۔ (انبیاء۔ ۳۵)

ایک اور مقام پر حضرت سلیمان کا قول ہے:( هذا من فضل ربی لیبلونی ء اشکر ام اکفر ) ۔

یہ میرے پروردگار کا فضل ہے۔ وہ چاہتاہے مجھے آزمائے کہ میں اس نعمت پر اس کا شکر بجالاتا ہوں کہ کفران نعمت کرتاہوں ۔ (نمل۔ ۴۰)

چند دیگر نکات بھی اس مقام پرقابل توجہ ہیں :

(!) یہ ضروری نہیں کہ سب لوگوں کو سب طریقوں سے آزمایاجائے بلکہ ممکن ہے ہر گروہ کا ایک چیز سے امتحان ہو کیونکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر حالات اور طبائع کا لحاظ ضروری ہے۔

(ب) ہوسکتاہے کہ ایک انسان کچھ امتحانات سے تو احسن طور پر کامیاب ہو جب کہ کچھ امتحانات میں سخت ناکامی سے دوچار ہو۔

(ج) یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایک شخص کا امتحان دوسرے شخص کے امتحان کا ذریعہ ہو۔ مثلا خداوند عالم کسی کو اس کے فرزندد لبند کی مصیبت میں ڈال کر آزماتا ہے اور یہی آزمائش دوسروں کو بھی میدان امتحان میں لے آتی ہے کہ وہ اس سے ہمدری کے تقاضے پورے کرتے ہیں یا نہیں اور مصیبت زدہ کے درد و الم میں اس کی کمک کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں

(د) جیسا کہ اشارہ کیا جاچکاہے خدائی امتحانات ہمہ گیر ہوتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء بھی ان سے مستثنی نہیں بلکہ ان کی آزمائش ، ان کی مسئولیت اور جواب دہی کی سنگینی کے پیش نظردوسروں سے کئی گنا سخت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی کئی سورتوں کی آیات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ انبیاء میں سے ہر کوئی اپنے حصے کے مطابق آزمائشوں کی گرم بھٹی میں ڈالا کیا۔ یہاں تک کہ ان میں بعض تو مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ایک طویل عرصہ تک مختلف آزمائشوں میں مبتلا رہے تا کہ مکمل طور پر قوی ہوجائیں اور لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی تیاری مکمل کرلیں ۔(۱)

مکتب انبیاء کے پیروکاروں میں بھی میدان امتحان میں صبر و استقامت کی ایسی درخشاں مثالیں موجود ہیں جو دوسروں کے لئے نمونہ اور اسوہ بن سکتی ہیں ۔

ام عقیل ایک دیہاتی مسلمان عورت تھی۔ اس کے پاس دو مہمان آئے۔ اس وقت اس کا بیٹااونٹوں کے ساتھ صحرا کی طرف گیا ہواتھا۔ اسے وقت اسی اطلاع ملی کہ ایک غضب ناک اونٹ نے اس کے بیٹے کو کنویں میں پھینک دیاہے اور وہ مرگیاہے۔ بیٹے کی موت کی خبر لانے والے شخص کو مومنہ نے کہا سواری سے اتر آؤ اور مہمانوں کی پذیرائی میں میری مدد کرو۔ اس کے پاس ایک بھیڑ تھی۔ اس نے وہ اس شخص کو ذبح کرنے کے لئے دی۔ کھانا تیار ہوگیا اور مہمانوں کے پاس رکھ دیاگیا۔ وہ کھانا کھاتے اور اس کے صبر و استقامت پر تعجب کرتے۔ حاضرین میں سے ایک شخص کہتاہے جب ہم کھانا کھانے سے فارغ ہولئے تو وہ مومنہ ہمارے پاس آئی ارو پوچھنے لگی تم میں سے کوئی شخص ہے جو قرآن سے اچھی طرح واقف ہو۔ ایک شخص کہنے لگا! جی ہاں ، میں علم رکھتاہوں ۔ وہ کہنے لگی: قرآن کی کچھ ایسی آیات تلاوت کرو جو میرے بیٹے کی موت پر میرے دل کی تسلی کا باعث بنیں ۔ وہ کہتاہے: میں نے ان آیات کی تلاوت کی:

( و بشر الصبرین الذین اصابتهم مصیبة قالوآ انا الله و انا الیه راجعون اولئک علیهم صلوات من ربهم رحمة و اولئک هم المهتدون )

اس عورت نے ان سے رخصت چاہی اور پھر قبلہ رخ کھڑی ہوگئی اور چند رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد بارگاہ الہی میں یوں گویا ہوئی۔( اللهم انی فعلت ما امرتنی فانجزلی ما وعد تنی )

خدایا! میں نے وہ کچھ کیا جس کا تونے حکم دیاہے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور تونے جس رحمت و صلوات کا وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطا فرما۔

اس کے بعد اس نے مزید کہا: اگر ایسا ہوتا کہ کوئی اس جہاں میں کسی کے لئے زندہ رہ سکتا۔

حاضرین میں سے ایک کہتاہے : ہیں نے سوچا کہے گی: میرا بیٹا میرے لئے رہ جاتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہے : پیغمبر اسلام اپنی امت کے لئے باقی رہ جاتے۔(۲)

____________________

۱- مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے سے یہاں مراد (اعلان رسالت سے قبل) ہے۔ (مترجم)

۲- سفینة البحار، ج۲، ص۷ (مادہ صبر)