تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 72787
ڈاؤنلوڈ: 3846


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 72787 / ڈاؤنلوڈ: 3846
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۱۶۱،۱۶۲،۱۶۳

۱۶۱ ۔ إ( ِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ کُفَّارٌ اٴُوْلَئِکَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ )

۱۶۲ ۔( خَالِدِینَ فِیهَا لاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ وَلاَهُمْ یُنظَرُونَ )

۱۶۳ ۔( وَإِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ )

ترجمہ

۱۶۱ ۔ جو لوگ کافر ہوجائیں اور حالت کفر ہی میں مرجائیں ان پر خدا، فرشتے اور تمام انسان لعنت کرتے ہیں ۔

۱۶۲ ۔ وہ ہمیشہ کے لئے زیر لعنت اور رحمت خدا سے دور رہیں گے۔ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی۔

۱۶۳ ۔ تمہارا خدا اور معبود اکیلا خدا ہے جس کے علاوہ کوئی معبود اور لائق پرستش نہیں کیونکہ وہی بخشنے والا اور مہربان ہے و رحمت عام اور رحمت خاص کا مالک وہی ہے)

وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیں

گذشتہ آیات میں حق کو چھپانے کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں ۔ زیر نظر آیات میں بھی انہی کفار کی طرف اشارہ ہے جو ہٹ دھرمی، حق پوشی، کفر اور تکذیب حق کا سلسلہ موت آنے تک جاری رکھتے ہیں ۔

فرمایا: وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیں اور حالت کفر میں دنیا سے چل بسے ہیں ان پرخدا، فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت ہوگی (إ( ِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ کُفَّارٌ اٴُوْلَئِکَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

یہ گروہ بھی حق کو چھپانے والوں کی طرح خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت میں گرفتار ہوجائے گا۔ فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کیونکہ یہ آخر عمرتک کفر پر مصر رہے۔

مزید فرمایا: یہ ہمیشہ خدا اور بندگان خدا کی لعنت کے زیر سایہ رہیں گے۔ ان پر عذاب الہی کی تخفیف نہ ہوگی، نہ انہیں کوئی مہلت دی جائے گی( خَالِدِینَ فِیهَا لاَیُخَفَّفُ عَنْهُمْ الْعَذَابُ وَلاَهُمْ یُنظَرُون ) ۔

ان بدبختیوں کی وجہ سے چونکہ اصل توحید ختم ہوجاتی ہے۔ زیر نظر آخری آیت میں فرمایا: تمہارا معبود اکیلا خدا ہے۔

( و الهکم اله واحد ) مزید تاکید کے لئے ارشاد ہوتاہے : اس کے علاوہ کوئی معبود اور لائق پرستش نہیں( لا اله الا هو ) ۔

آیت کے آخر میں دلیل و علت کے طور پر فرماتاہے: وہ خدا بخشنے والا مہربان ہے (الرحمن الرحیم) بے شک وہ جس کی عام و خاص رحمت سب پرمحیط ہے۔ جس نے مومنین کے لئے خصوصی امتیازات قرار دیئے ہیں یقینا وہی لائق عبادت ہے نہ کوئی اور جو سرتا پا احتیاج ہے۔

چند اہم نکات

(!) حالت کفر میں مرنا:

قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہ نکتہ ظاہر ہوتاہے کہ جو لوگ حالت کفر اور حق سے دشمنی کرتے ہوئے دنیا سے جائیں ان کے لئے کوئی راہ نجا ت نہیں ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئیے ، کیونکہ آخرت کی سعادت یا بدبختی تو براہ راست ان دخائر اور وسائل کا نتیجہ ہے جو ہم اس دنیا سے اپنے ساتھ لے کرجاتے ہیں ۔ جس شخص نے اپنے پروبال کفر اور حق دشمنی میں جلادیے ہیں وہ یقینا اس جہان میں طاقت پرواز نہیں رکھتا اور دوزخ کے گڑھوں میں اس کا گزنا یقینی ہے کیونکہ دوسرے جہاں میں اعمال بجالانے کا کوئی موقع نہ ہوگا لہذا ایسا شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔

یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص شہوت رانیوں اور ہوس بازیوں کی وجہ سے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں کھو بیٹھے اور آخری عمر تک نابینا رہے۔

واضح ہے کہ یہ بات ان کفار سے مخصوص ہے جو جان بوجھ کر کفر اور حق دشمنی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ مسئلہ خلود کے بارے میں مزید توضیح سورہ ہود کی آیت ۱۰۷ اور ۱۰۸ ، جلد ۹ کے ذیل میں پڑھیے گا۔

(!!) خدا اپنی یکتائی میں یکتاہے:

مندرجہ بالا تیسری آیت میں خدا کی ایسی یکتائی بیان کی گئی ہے جوہر قسم کے انحراف اور شرک کی نفی کرتی ہے۔ کبھی ایسے موجودات بھی نظر آتے ہیں جو ایسی صفات کے حامل ہیں جو منحصر بفرد ہیں اور اصطلاح کے مطابق یکتا ہیں ۔ لیکن کہے بغیر واضح ہے کہ وہ سب موجودات ایک یا چند صفات مخصوصہ میں تو ممکن ہے منحصر بفرد اور یکتاہوں جب کہ خدا ذات و صفات اور افعال میں یکتا و اکیلا ہے۔ عقلی طور پر خدا کی یکتائی قابل تعدد نہیں ۔ وہ ازلی و ابدی یکتاہے۔ وہ ایسا یکتاہے کہ اس پر حوادث اثر انداز نہیں ہوتے۔ اس کی یکتائی ذہن میں بھی ہے اور خارج از ذہن بھی۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی یکتائی میں بھی یکتاہے۔

(!!) خدا اپنی یکتائی میں یکتاہے:

مندرجہ بالا تیسری آیت میں خدا کی ایسی یکتائی بیان کی گئی ہے جو ہر قسم کے انحراف اور شرک کی نفی کرتی ہے۔ کبھی ایسے موجودات بھی نظر آتے ہیں جو ایسی صفات کے حامل ہیں جو منحصر بفردہیں اور اصطلاح کے مطابق یکتا ہیں ۔ لیکن کہے بغیر واضح ہے کہ وہ سب موجودات ایک یا چند صفات مخصوصہ میں تو ممکن ہے منحصر بفرد اور یکتا ہوں جب کہ خدا ذات و صفات اور افعال میں یکتا و اکیلاہے۔ عقل طور پر خدا کی یکتائی قابل تعدد نہیں ۔ وہ ازلی و ابدی یکتاہے۔ وہ ایسا یکتاہے کہ اس پر حوادث اثر انداز نہیں ہوتے۔ اس کی یکتائی ذہن میں بھی ہے اور خارج از ذہن بھی۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی یکتائی میں بھی یکتاہے۔

(!!!) کیا خدا کی لعنت کافی نہیں ہے:

مندرجہ بالا آیات کے مطابق خدا کے علاوہ حق پوشی کرنے والوں پر سب لعنت کرنے والوں کی لعنت پڑتی ہے۔ یہاں یہ سوال سامنے آتاہے کہ کیا خدا کی لعنت کافی نہیں ہے۔

اس سوال کا جواب واضح ہے کہ در حقیقت یہ ایک طرح کی تاکید ہے اور ایسے قبیح اور برے افعال انجام دینے والوں کے لئے تمام جہانوں کی طرف سے تنفر و بیزاری کا اظہار ہے۔

اگر یہ کہاجائے کہ یہاں لفظ (ناس) بطور عموم کیوں استعمال ہواہے جب کہ جرم میں شریک لوگ تو کم از کم ایسے ایسے مجرموں پر لعنت نہیں کرتے۔

ہم کہیں گے۔۔۔۔حالت تو یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے اس عمل قبیح سے متنفر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود ان کے بارے میں حق پوشی کرے تو یقینا انہیں تکلیف ہوگی اور وہ اس پر نفرین کریں گے لیکن جہاں ان کے اپنے منافع کا معاملہ ہو وہاں یہ لوگ استثنائی طور پرچشم پوشی کرتے ہیں ۔

آیت ۱۶۴

۱۶۴ ۔( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِنْ کُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ )

ترجمہ

۱۶۴ ۔ آسمانوں اور زمین کی خلقت میں رات دن کے آنے جانے میں ، انسانوں کے فائدے کے لئے دریا میں چلنے والی کشتیوں میں ، خدا کی طرف سے آسمان سے نازل ہونے والے اس پانی میں جس نے زمین کو موت کے بعد زندگی دی ہے اور ہر طرح کے چلنے والے اس میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہواؤں کے چلنے میں اور بادلوں میں جو زمین و آسمان کے در میان معلق ہیں (خدا کی ذات پاک اور اس کی یکتائی کی) ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل و فکر رکھتے ہیں ۔

آسمان و زمین میں اس کی ذات پاک کے جلوے ہیں

گذشتہ آیت سے توحید پروردگار کی بحث شروع ہوتی ہے۔ زیر نظر آیت در حقیقت خدا کی توحید کے مسئلے اور اس کی ذات پاک کی یکتائی پر ایک دلیل ہے۔

مقدمہ اور تمہید کے طور پراس بات کی طرف توجہ رہے کہ نظم و ضبط، علم، دانش اور عقل کے وجود کی دلیل ہے۔

خداشناسی کی کتب میں ہم اس بنیاد کی تشریح کرچکے ہیں کہ عالم ہستی میں جب نظم و ضبط کے مظاہر نظر پڑتے ہیں اور نظام قدرت کی ہم آہنگی اور وحدت عمل پر نگاہ جاتی ہے تو فورا توجہ ایک اکیلے مبداء علم و قدرت کی مائل ہوجاتی ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی طرف سے ہے۔

مثلا جب ہم آنکھ کے سات پردوں میں سے کسی ایک بناوٹ پر بھی غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ امر کسی بے شعور ، اندھی اور بہری فطرت سے محال ہے کہ وہ ایسے اثر کا مبدا ء بن سکے اور جب ان سات پردوں کے باہمی ربط اور ہم آہنگی پھر آنکھ کی ساری مشینسری کی انسانی بدن سے ہم آہنگی اور پھر ایک انسان کی دیگر انسانوں سے ہم آہنگی اور پھر پوری انسانی برادری کی پورے نظام ہستی سے ہم آہنگی دیکھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ان سب کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور یہ سب ایک ہی ذات پاک کے آثار قدرت ہیں ۔

ایک عمدہ اور اچھا اور پر معنی شعر کیا ہمیں شاعر کے اعلی ذوق اور سرشار طبیعت کا پتہ نہیں دیتا اور کیا ایک دیوان میں موجود چند قطعات کی کامل ہم آہنگی اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ سب ایک قادر الکلام شاعر کی طبیعت اور ذوق کے آثار ہیں ۔

اس تمہید کو نظر میں رکھتے ہوئے اب ہم آیت کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں اس آیت میں جہان ہستی کے نظم و ضبط کے چھ قسم کے آثار کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ ان میں سے ہر ایک اس عظیم مبداء کے وجو د کی نشانی ہے۔

۱ ۔ آسمانوں اور زمین کی خلقت میں( ان فی خلق السموات و الارض ) جی ہاں ۔ اس پر شکوہ اور ستاروں بھرے آسمان کی خلقت ، یہ عالم بالا کے کرات جن میں کرو ڑوں آفتاب درخشاں ،کرو ڑوں ثابت و سیار ستارے جو تاریک رات میں پر معنی اشاروں سے ہم سے بات کرتے ہیں اور وہ جنہیں بڑی بڑی دو بینوں سے دیکھاجائے تو ایک دقیق اور عجیب نظام دکھائی دیتاہے ایسا نظام جس نے ایک زنجیر کے حلقوں کی طرف انہیں ایک دوسرے سے پیوست کررکھاہے۔

اسی طرح زمین کی خلقت۔۔۔ جہاں قسم قسم کے مظاہر حیات ہیں ۔ جہاں مختلف انواع اور صورتوں میں لاکھوں نباتات اور جانور موجود ہیں ۔ یہ سب اس ذات پاک کی نشانیاں اور اس کے علم ، قدرت اور یکتائی کے واضح دلائل ہیں ۔

تعجب کی بات ہے کہ انسان کا علم و ادراک جتنا بڑھتا جارہاہے اتنی ہی اس عالم کی عظمت و وسعت اس کی نظر میں زیادہ ہوتی جارہی ہے اور معلوم نہیں یہ وسعت علم کب تک جاری رہے گی۔

اس وقت کے علماء کہتے ہیں کہ عالم بالا میں ہزاروں کہکشائیں موجود ہیں ۔ ہمارا نظام شمسی ایک کہکشاں کا حصہ ہے۔ صرف ہماری کہکشاں میں کروڑوں آفتاب اور چمکتے ستارے موجود ہیں ۔ علماء عصر کے اندازے کے مطابق ان میں لاکھوں مسکونی سیارے ہیں جن میں اربوں موجودات ہیں ۔ کیاہی عظمت و قدرت ہے۔

۲ ۔ رات دن کے آنے جانے میں (و اختلاف اللیل و النهار

جی ہاں ۔ یہ رات دن کا اختلاف(۱)

اور ایک مخصوص تدریجی نظام کے ساتھ یہ روشنی اور تاریکی کی آمد و شد۔ اس سے پھر چار موسم وجود پاتے ہیں ۔ نباتات اور دیگر زندہ موجودات اسی نظام کی وجہ سے تدریجی طور پر مراحل تکامل طے کرتے ہیں ۔ اس ذات پاک اور اس کی بلند صفات کے لئے یہ ایک اور نشانی ہے۔

۳ ۔ انسانوں کے نفع کی چیزیں لے کر کشتیاں دریا میں چلتی ہیں( و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس ) ۔

چھوٹی بڑی کشتیوں کے ذریعے انسان وسیع سمندروں میں چلتاہے اور اپنے مقاصد کے لئے ان کے ذریعے زمین کے مختلف حصوں میں جاتاہے یہ سفر خصوصا بادبانی کشتیوں کا سفر چند نظاموں کی وجہ سے ہے۔

۱ ۔ وہ ہوائیں جو ہمیشہ سطح سمندر پر رہتی ہیں ۔ یہ ہوائیں عموما زمین کے قطب شمالی اور قطب جنوبی سے خط استوا ء کی طرف اور خط استوار سے قطب شمالی اور جنوبی کی طرف چلتی ہیں انہیں آلیزہ اور کاؤنٹر آلیزہ کہتے ہیں ۔

ب۔ کچھ ہوائیں علاقوں کے لحاظ سے ایک معین پروگرام کے تحت چلتی ہیں ارو کشتیوں کو یہ سہولت بہم پہنچاتی ہیں کہ وہ اس فراواں طبیعی دولت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھیں و اسی طرح لکڑی کی خاص طبیعی خاصیت ہے جس کی وجہ سے وہ پانی میں نہیں ڈوبتی یہ بھی پانی پر اجسام کے تیر نے کا سبب بنتی ہے)۔

زمین کے دونوں قطبوں میں غیر مبدل مقناطیسی خاصیت ہے جن کے حساب سے قطب نما کی سوئیاں حرکت کرتی ہیں ۔ یہ بھی پانی پر چیزوں کی آمد و رفت میں مددگار ہوتی ہے۔

ان سب کو دیکھ کر اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جب تک یہ سب نظام ایک دوسرے سے متحد نہ ہوں کشتیوں کی حرکت سے وہ بھر پور فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے جو کئے جارہے ہیں ۔ ۲

یہ بات حیران کن ہے کہ دور حاضر میں مشینی کشتیوں کے بننے سے ان امور کی عظمت نہ فقط یہ کہ کم نہیں ہوئی بلکہ ان کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

آج کی دنیا میں دیو ہیکل سمندری جہاز اہم ترین ذریعہ نقل و حمل شمار ہوتے ہیں ۔ بعض جہاز تو شہروں کی طرح و سیع ہیں ۔ ان میں میدان، سیر و تفریح کے مراکز یہاں تک کہ بازار بھی موجود ہیں ۔ ان کے عرشہ پر ہوائی جہازوں کے اترنے کے لئے بڑے بڑے ایر پورٹ تک موجود ہیں ۔

۴ ۔پانی جسے خدا آسمان سے نازل کرتاہے، اس کے ذریعے مردہ زمینوں کو زندہ کرتاہے اور اسی نے ان میں طرح طرح کے جانور پھیلا رکھے ہیں( وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِنْ کُلِّ دَابَّة ص ) ۔

بارش کے حیات بخش، تازہ اور با برکت موتی اور اس طبیعی صاف و شفاف پانی کے قطرے ہر جگہ گرتے ہیں اور گویا زندگی کا چھڑ کاؤ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ حرکت و برکت، آبادی اور نعمتوں کی فراوانی لاتے ہیں ۔ یہ پانی جو ایک خاص نظام کے تحت گرتاہے، تمام موجودات اور جاندار اس بے جان سے جان پاتے ہیں ۔

یہ سب اس کی عظمت و قدرت کے پیغام بر ہیں ۔

۵ ۔ ہواؤں کا ایک منظم طریقے سے چلنا (و تصریف الریاح)۔

ہوائیں نہ صرف سمندروں پرچلتی اور کشتیوں کو چلاتی ہیں بلکہ خشک زمینوں ، پہاڑوں ، دروں اور جنگلوں کو بھی اپنی جولان گاہ بناتی ہیں ۔ کبھی یہ ہوائیں نرگھاس کے چھوٹے چھوٹے دانوں کو مادہ سبزہ زاروں پر چھڑ کتی ہیں اور پیوند کاری و بارآوری میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔ ہمارے لئے پھلوں کا قتحفہ لاتی ہیں اور طرح طرح کے بیجوں کو وجود دیتی ہیں ۔

بعض اوقات یہ ہوائیں سمندروں کی موجوں کو حرکت دے کر پانیوں کو ایک دوسرے سے اس طرح ملاتی ہیں کہ سمندری موجودات کو حیات نومل جاتی ہے۔

کبھی ہوائیں گرم علاقوں کی تپش سرد علاقوں میں کھینچ لاتی ہیں اور کبھی سرد علاقوں کی خنکی گرم علاقوں میں منتقل کر دیتی ہیں اور یوں زمین کی حرارت کو معتدل کرنے میں مؤثر مدد کرتی ہیں ۔

گویا ہواؤں کا چلنا جس میں یہ تمام فوائد و برکات ہیں ، اس کے بے انتہا لطف و حکمت کی ایک اور نشانی ہے۔

۶ ۔ وہ بادل جو زمین و آسمان کے در میان معلق و مسخر ہیں( وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

ایک دوسرے سے ٹکرانے والے یہ بادل جو ہمارے سروں کے اوپر گردش میں ہیں ۔اربوں ٹن پانی اٹھائے، کشش ثقل کے قانون کے برعکس آسمان و زمین کے در میان معلق ہیں اور اس پانی کو بغیر کوئی خطرہ پیدا کئے ادھر ادھرلے جاتے ہیں ۔

یہ اس کی عظمت کی ایک اور نشانی ہے۔

علاوہ ازیں پانی کا یہ خزانہ اگر پانی نہ برساتا تو زمین خشک ہوتی، پینے کو ایک قطرہ پانی نہ ہوتا، سبزہ زاروں کے اگنے کے لئے کوئی چشمہ اور نہر نہ ہوتی ہر جگہ ویران ہوتی اور ہر مقام پر مردہ خاک پھیلی ہوئی ہوتی۔

یہ بھی اس کے علم و قدرت کا ایک اور جلوہ ہے۔

جی ہاں ۔۔۔ یہ سب اس کی ذات پاک کی نشانیاں اور علامتیں ہیں لیکن ایسے لوگوں کے لئے جو عقل و ہوش رکھتے ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں (لایت لقوم یعقلون) ان کے لئے نہیں جو بے خبر اور کم ذہن ہیں ، نہ ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہوئے بے بصیرت ہیں اور کان رکھتے ہوئے بہرے ہیں ۔

____________________

۱ لفظ اختلاف ممکن ہے آمد و شد (آنے جانے ) کے معنی میں استعمال ہوا ہو کیونکہ یہ (خلف) اور (خلافت) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے ایک دوسرے کا جانشین ہونا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اختلاف رات اور دن کی کمی بیشی کی طرف اشارہ ہو اور دونوں معانی بھی مراد ہوسکتے ہیں ، بہر حال یہ خاص نظام جو بہت سے واضح آثار کا حامل ہے اتفاقا اور بغیر کسی عالم و قادر ذات کے وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔

۲- لفظ(فلک) کا معنی ہے کشتی، اس کا واحد اور جمع ایک ہی وزن پر ہے۔

آیات ۱۶۵،۱۶۶،۱۶۷

۱۶۵ ۔( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ اٴَندَادًا یُحِبُّونَهُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِینَ آمَنُوا اٴَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ وَلَوْ یَرَی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اٴَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا وَاٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعَذَابِ )

۱۶۶ ۔( إِذْ تَبَرَّاٴَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنْ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَاٴَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمْ الْاٴَسْبَابُ )

۱۶۷( وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ اٴَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَتَبَرَّاٴَ مِنْهُمْ کَمَا تَبَرَّئُوا مِنَّا کَذَلِکَ یُرِیهِمْ اللهُ اٴَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِینَ مِنْ النَّارِ )

ترجمہ

۱۶۵ ۔ بعض لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنے لئے کسی اور معبود کا انتخاب کرتے ہیں انہیں اس طرح دوست رکھتے ہیں جیسے خدا کو رکھنا چاہئے اور ان سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں انہیں (اس محبت کی نسبت جو مشرکین کو اپنے معبودوں سے ہے) خدا سے شدید عشق و محبت ہے اور جنہوں نے ظلم کیاہے (اور خدا کے علاوہ کسی اور کو معبود قرار دے لیاہے) جب وہ عذاب خدا کو دیکھیں گے تو جان لیں گے کہ تمام قدرت خدا کے ہاتھ ہے (نہ کہ ان خیالی معبودوں کے ہاتھ جن سے وہ ڈرتے ہیں ) اور خدا کا عذاب اور سزا شدید ہے۔

۱۶۶ ۔ اس وقت (انسانی و شیطانی معبود اور) رہبر اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوں گے۔ وہ عذاب خدا کا مشاہدہ کریں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔

۱۶۷ ۔ تب پیروکار کہیں گے کاش ہم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں تا کہ ہم بھی ان سے اسی طرح بے بیزاری اختیار کریں جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہیں ۔ (ہاں ) یونہی خدا انہیں ان کے اعمال حسرت دکھائے گا (اور انہیں اپنے اعمال سراپا یاس دکھائی دیں گے) اور وہ ہرگز (جہنم کی) آگ سے خارج نہیں ہوں گے۔

بیزاری پیشوایان

پہلے کی دو آیات میں وجود خدا اور اس کی توحید و یگانگت کو نظام خلقت اور اس کی ہم آہنگی کے دلائل سے ثابت کیاگیاہے۔ اسی وجہ سے محل بحث آیات میں روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے ان واضح اور قطعی براہین سے چشم پوشی کی، شرک و بت پرستی اختیار کی اور متعدد خدا قرار دے لئے۔ یہ گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے خشک لکڑی کے زوال پذیر معبودوں کے سامنے سر تعظیم خم کیاہے ان سے ایسا عشق کرتے ہیں جیسا عشق صرف خدا تعالی کے لائق ہے جو تمام کمالات کا منبع و مرکز ہے اور تمام نعمات بخشنے والا ہے۔

ارشاد ہوتاہے: بعض لوگ اپنے لئے خدا کے علاوہ معبود انتخاب کرتے ہیں( و من الناس من یتخذ من دون الله اندادا ) (۱)

انہوں نے نہ صرف بتوں کو اپنا معبود قرار دے لیاتھا بلکہ ان کے اس طرح عاشق ہوگئے تھے جیسے خدا سے محبت کی جاتی ہے( یحبونهم کحب الله ) ۔لیکن جو لوگ خدا پر ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ سے زیادہ محبت رکھتے ہیں( و الذین امنوا اشد حبا لله ) کیونکہ وہ فکر و نظر اور علم و دانش کے حامل ہیں اور وہ اس کی ذات پاک کو ہرگز نہیں چھوڑتے جو تمام کمالات کا منبع و محزن ہے وہ اس کے اور اس کے پیچھے نہیں جاتے۔ ان کے نزدیک خدا کی محبت، عشق اور لگاؤکے مقابلے میں ہر چیز بے قیمت، ناچیز اور حقیر ہے وہ غیر خدا کو اس محبت کے بالکل لائق نہیں سمجھتے مگر یہ کہ یہ محبت اس کے لئے اور اسی کی راہ میں ہو لہذا وہ عشق کے بحر بیکراں میں اس طرح غوطہ زن ہیں کہ بقول حضرت علی:فهبنی صبرت علی هذا بک فکیف اصبر علی فواتک

پس فرض کیا کہ تیرے عذاب پر صبر کرلوں گا مگر تیرا فراق و جدائی کیسے برداشت کروں گا۔(۲)

اصولی طور پر حقیقی عشق و محبت ہمیشہ کسی کمال سے ہوتاہے ۔ انسان کبھی عدم اور ناقص کا عاشق نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ وجود اور کمال کی جستجو میں رہتاہے۔ اس لئے وہ ذات جس کا وجود اور کمال سب سے برتر، وسیع اور بے انتہائے عشق ومحبت کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہے۔

خلاصہ یہ کہ جیسے مندرجہ بالا آیت کہتی ہے صاحبان ایمان کی خدا سے محبت، عشق اور وابستگی بت پرستوں کی اپنے خیالی معبووں کی نسبت زیادہ حقیقی، گہری اور شدید ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ جس نے حقیقت کو پالیا ہے اور اس سے محبت کی ہے وہ ہرگز اس کے برابر نہیں ہوسکتا جو خرافات و تخیلات میں گرفتار ہو۔ مومنین کے عشق کا سرچشمہ عقل، علم اور معرفت ہے اور کفار کے عشق کی بنیاد جہالت ، خرافات اور خواب و خیال ہے۔ اسی لئے پہلی قسم کی محبت کبھی متزلزل نہیں ہوسکتی لیکن مشرکین کے عشق میں ثبات، وام نہیں ۔ لہذا آیت کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا گیاہے ، یہ ظالم جب عذاب خدا کو دیکھیں گے اور جان لیں گے کہ تمام قدرتیں خدا کے ہاتھ میں ہیں اور وہی عذاب شدید کا مالک ہے اس وقت اپنے اعمال کی پستی و حقارت اور اپنے کرتو توں کے برے انجام کی طرف متوجہ ہوں گے اور اعتراف و اقرار کریں گے کہ ہم کجرو اور منحرف لوگ تھے( و لو یری الذین ظلموا اذ یرون العذاب ان القوة لله جمیعا و ان الله شدید العذاب ) (۳)

بہرحال اس وقت جہالت، غرور اور غفلت کا پردہ ان کی آنکھوں سے ا’ٹھ جائے گا اور وہ اپنے اشتباہ اور غلطی کو جان لیں گے لیکن چونکہ ان کے لئے کو ئی پناہ گاہ اور سہارا نہ ہوگا لہذا سخت بے چارگی میں وہ بے اختیار اپنے معبودوں اور رہبروں کے دامن تھامنے کو لپکیں گے مگر اس وقت ان کے گمراہ رہبران کو پیچھے دھکیل دیں گے اور وہ اپنے پیرو کاروں سے اظہار بیزاری کریں گے (إ( ِذْ تَبَرَّاٴَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنْ الَّذِینَ اتَّبَعُوا )

اسی حالت میں وہ اپنی آنکھوں سے عذاب الہی دیکھیں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے( وَرَاٴَوْا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمْ الْاٴَسْبَابُ ) ۔

واضح ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد پتھر اور لکڑی کے بت نہیں بلکہ وہ جابر و قاہر انسان اور شیاطین ہیں کہ مشرکین اپنے تئیں دست بستہ جن کے اختیار میں دے چکے ہیں لیکن وہ بھی اپنے پیروکاروں کا دھتکار دیں گے۔

ایسے میں جب یہ گمراہ پیروکار اپنے معبودوں کی یہ کھلی بے وفائی دیکھیں گے تو اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے کہیں گے: کاش ہم دنیا میں پلٹ جائیں تو ان سے بیزاری اختیار کریں گے جیسے وہ آج ہم سے بیزار ہیں( و قال الذین اتبعوا لو ان لنا کرة فسبرا منهم کما تبراء و امنا ) ۔

لیکن اب کیا فائدہ معاملہ تو ختم ہوچکاہے ۔ اب دنیا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا۔ ایسی ہی گفتگو سورہ زخرف آیہ ۳۸ میں ہے:( حتی اذا جاء ناقال یالیت بینی و بینک بعد المشرقین فبئس القرین )

قیامت کے دن جب وہ ہماری بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو گمراہ کرنے والے رہبر سے کہیں گے:

اے کاش تیرے میرے در میان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا۔

آیت کے آخر میں فرماتاہے: ہاں اسی طرح ان کے اعمال ان سب کے لئے سبب حسرت و یاس بناکر پیش کرے گا( کذلک یریهم الله اعمالهم حسرات علیهم ) اور وہ کبھی جہنم کی آگ سے نہیں نکلیں گے( و ما هو بخارجین من النار ) ۔

واقعا وہ حسرت و یاس میں گرفتار ہونے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں ۔ ان اموال پر حسرت جو انہوں نے جمع کئے اور فائدہ دوسروں نے اٹھایا، ان بے پناہ وسائل پر حسرت جو نجات و کامیابی کیلئے ان کے ہاھ میں تھے مگر انہوں نے ضائع کردیے اور ان معبووں کی عبادت پر حسرت خدائے قادر و متعال کی عبادت کے مقابلے میں جن کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی لیکن یہ حسرت کس کام کی کیونکہ اب نہ عمل کا موقع ہوگا اور نہ یہ کمی کو پورا کرسکے گی بلکہ وہ تو سزا اور اعمال کا نتیجہ و ثمرہ دیکھنے کا وقت ہوگا۔

____________________

۱- انداد (جمع ہے(ند) کی جس کا معنی ہے (مثل) لیکن بعض اہل لغت کے بقول اس مثل کوند کہتے ہیں جو دوسری چیز سے جو ہری و اصلی شباہت رکھتی ہو جبکہ مثل کا مفہوم عمومی ہے۔ لہذا آیت کا معنی یوں ہوگا کہ مشرکین کا اعتقاد تھا کہ بت جو بر ذات میں خدا سے شباہت رکھتے ہیں یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جہالت و نادانی کی وجہ سے ان کے لئے خدائی صفات کے قائل تھے۔

۲- دعائی کمیل میں سے۔

۳- بعض مفسرین نے لفظ (لو) کو تمنائی سمجھاہے لیکن بہت سے اسے شرطیہ سمجھتے ہیں اس صورت میں اس کی جزا محذوف ہوگی اور جملہ یوں ہوگا۔ ”لراوا سوء فعلهم و سوء عاقبتهم “۔

آیات ۱۶۸،۱۶۹

۱۶۸ ۔( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْاٴَرْضِ حَلاَلًا طَیِّبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ )

۱۶۹ ۔( إِنَّمَا یَاٴْمُرُکُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَاٴَنْ تَقُولُوا عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

ترجمہ

۱۶۸ ۔اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے نشان پاکی پیروی نہ کرو بلکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

۱۶۹ ۔ وہ تمہیں فقط برائیوں اور انحرافات کا حکم دیتاہے۔ نیز (کہتاہے کہ ) جن امور کو تم نہیں جانتے انہیں خدا کی طرف منسوب کردو۔

شان نزول

ابن عباس سے منقول ہے کہ عرب کے بعض قبیلوں مثلا ثقیف، خزاعہ و غیرہ نے بعض زرعی اجناس اور جانوروں کو بغیر کسی دلیل کے اپنے اوپر حرام قرار دے رکھا تھا (یہاں تک کہ ان کی تحریم کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے) اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں جن میں انہیں اس ناروا عمل سے روکا گیاہے۔

شرک و بت پرستی کی سخت مذمت کی گئی تھی۔

شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی کو قانون ساز سمجھ لے اور نظام تشریع اور حلال و حرام اس کے اختیار میں قرار دیدے۔ محل بحث آیات میں ایسے عمل کو شیطانی فعل قرار دیاگیاہے۔ پہلے ارشاد ہوتاہے: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ( یا ایها الناس کلو مما فی الارض حللا طیبا ) ۔

اور شیطان کے نقوش قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا واضح دشمن ہے (و لا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین)۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ مختلف غذاؤں سے فائدہ اٹھانے سے مربوط آیات قرآن میں کئی مقام پر ہیں اور عموما ان میں دو قیود کا ذکر ہے حلال اور طیب۔ حلال وہ ہے جس سے روکا نہ گیا ہو اور طیب ان چیزوں کو کہتے ہیں جو پاک و پاکیزہ اور انسان کی طبع سلیم کے مطابق ہوں ۔ طیب کے مد مقابل خبیث ہے جس سے مزاج انسانی نفرت کرتاہے۔

خطوات جمع ہے خطوہ (بر وزن (قربہ) کی ۔ اس کا معنی ہے قدم۔ خطوات الشیطان سے مراد وہ قدم ہیں جو شیطان اپنے مقصد تک پہنچنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھاتاہے۔

( لا تتبعوا خطوات الشیطان ) قرآن میں پانچ مقامات پر دکھائی دیتاہے۔ دو مقامات پرغذا اور خدائی رزق سے استفادہ کرنے کے ضمن میں ہے۔ در اصل انسانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حلال نعمتوں کو بے محل استعمال نہ کریں اور نعمات الہی کو خدا کی اطاعت و بندگی کا ذریعہ قراردیں نہ کہ طغیان سرکشی اور فساد کا۔

شیطان کے نقوش پاکی پیروی حقیقت میں وہی بات ہے جو دیگر آیات میں حلال غذاؤں سے استفادہ کرنے کہ حکم کے بعد ذکر ہوئی ہے۔ مثلا( کُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللهِ وَلاَتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ )

رزق الہی میں سے کھاؤ پیو مگر زمین میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو۔ (بقرہ۔ ۶۰)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:( کلوا من طیبت ما رزقنکم و لا تطغوا فیه )

وہ پاکیزہ رزق جو ہم نے تمہیں عطا کیاہے اس میں سے کھاؤ مگر اس میں طغیان و سرکشی نہ کرو۔

(طہ۔ ۸۱)

خلاصہ یہ کہ یہ عطیات اور اسباب اطاعت کے لئے تقویت بخش ہونے چاہئیں گناہ کا ذریعہ نہیں ۔

”انہ لکم عدو مبین“قرآن حکیم میں دس سے زیادہ مرتبہ شیطان کے ذکر کے ساتھ آیاہے۔ یہ اس لئے ہے تا کہ انسان اس واضح دشمن کے مقابلے میں اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں یکجا کرے۔

شیطان جس کا مقصد انسان کی بدبختی اور شقاوت کے سوا کچھ نہیں اگلی آیت اس کی انسان سے شدیدترین دشمنی کو بیان کرتی ہے۔ فرمایا: وہ صرف تمہیں طرح طرح کی برائیوں اور قباحتوں کا حکم دیتاہے( انما یامرکم بالسوء و الفحشا )

نیز تمہیں آمادہ کرتاہے کہ خدا پر افتراء باند ھو اور جو چیز تم نہیں جانتے ہو اس کی خدا کی طرف نسبت دو( و ان تقولوا علی الله مالا تعلمون ) ۔

ان آیات سے ظاہر ہوا کہ شیطان کے پروگراموں کا خلاصہ یہی تین امور ہیں ۔ برائیاں ، قباحتیں اور ذات پروردگار سے بے بنیاد باتیں منسوب کرنا۔

(فحشا) کا مادہ ہے (فحش) جس کا مطلب ہر وہ چیز ہے جو حد اعتدال سے خارج ہوکر فاحش کی شکل اختیار کرلے اس لحاظ سے تمام منکرات اور واضح قباحتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔

یہ جو آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ عفت و پاکدامنی کے منافی افعال کے لئے استعمال ہوتاہے یا ان گناہوں پر بولاجاتاہے جو حد شرعی رکھتے ہیں تو یہ لفظ کے کلی مفہوم کے بعض واضح مصادیق ہیں ۔

( ان تقولوا علی الله ما لا تعلمون ) ۔ ممکن ہے یہ ان حلال غذاؤں کی طرف اشارہ ہو جنہیں زمانہ جاہلیت کے عربوں نے حرام قرار دے رکھا تھا اور اس کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے بلکہ بعض بزرگ مفسرین کے بقول اس طرز فکر کی رسومات تازہ مسلمانوں کے بعض گروہوں میں بھی باقی رہ گئی تھیں(۱)

خدا کی طرف شریک شبیہ کی نسبت دینا اس آیت کا زیادہ وسیع معنی ہے اور یہ بھی آیت کے مفاہیم میں شامل ہے

بہرحال یہ جملہ اس طر ف اشارہ ہے کہ ایسے امور کا مطلب علم کے بغیر بات کرناہے اور وہ بھی خدا کے مقابلے میں جب کہ یہ کام کسی منطق اور عقل و خرد کی روسے صحیح نہیں ۔

اگر لوگ اصولی طور پر اس بات کے پابند ہوں کہ وہ وہی بات کریں گے جس کا کوئی قطعی اور یقینی مدرک ہے تو انسانی معاشرے سے بہت سی بدبختیاں اور تکالیف دور ہوسکتی ہیں در حقیقت خدائی مذاہب میں جو خرافات شامل ہوگئے ہیں وہ اسی طرح بے منطق افراد کے ذریعے ہوئے ہیں ۔ بگڑے ہوئے اعتقادات اور اعمال اسی بنیادکو اہمیت نہ دینے کے وجہ سے ہیں لہذا خطوات شیطان کی مستقل عنوان کے تحت مندرجہ بالا آیت میں برائیوں اور قباحتوں کے ساتھ اس عمل کا بھی ذکر کیاگیاہے۔

____________________

۱ تفسیر المیزان، ج۱ ص۴۲۵