تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73017
ڈاؤنلوڈ: 3875


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73017 / ڈاؤنلوڈ: 3875
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

اصل حلیت:

یہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ روئے زمین پر موجود تمام غذائیں بنیادی طور پر حلال ہیں اور حرام غذائیں صرف استثنائی پہلو رکھتی ہیں لہذا کسی چیز کا حرام ہونا دلیل کا محتاج ہے نہ کہ حلال ہونا۔ دوسری طرف قوانین تشریعی کو چونکہ قوانین سے ہم آہنگ ہونا چاہئیے لہذا آفرینش و خلقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ زیادہ وضاحت سے یوں کہا جاسکتاہے کہ جو کچھ خدانے پیدا کیاہے یقینا اس میں کوئی فائدہ ہے اور وہ بندوں کے استفادہ کے لئے ہے لہذا اس کی کوئی وجہ نہیں کہ کوئی چیز بنیادی طور پر حرام ہو۔ لہذا ہر وہ غذا جس کی حرمت پر کوئی صحیح دلیل موجود نہ ہو جب تک وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر باعث فساد اور ضرر رساں نہ ہو اس آیت شریفہ کی روشنی میں حلال ہے

تدریجی انحرافات:

خطوات الشیطان (شیطان کی نقوش پا)۔ یہ الفاظ ایک دقیق تربیتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ کجرویاں اور تباہ کاریاں آہستہ آہستہ انسان میں نفوذ کرتی ہیں نہ کہ دفعتا۔ مثلا جب کوئی نوجوانوں منشیات، قمار اور شراب سے آلودہ ہوتاہے تو یہ مقام کئی مراحل کے بعد آتاہے۔ پہلے وہ ایک تماشائی کے طور پرایسے لوگوں میں شریک ہوتاہے اور اس کے انجام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

دوسرے مرحلے پر وہ قمار بازی میں بغیر نفع یا نقصان کے شریک ہوتاہے اور اسی طرح منشیات سے تکان دور ہونے یا علاج کے بہانے استفادہ کرتاہے۔

تیسرے مرحلے میں وہ ان امور سے تھوڑا بہت فائدہ حاصل کرنے لگتاہے اور سوچتاہے کہ بہت جلد ان سے صرف نظر کرلوں گا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے قدم اٹھتے ہیں ۔

اور بالآخر وہ شخص ایک قمار باز اور نشے کا خطرناک عادی مجرم بن جاتاہے۔ یہ شیطانی وسوسے عموما آہستہ آہستہ، تدریجا ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے جاتے ہیں ۔ یہ کام فقط ایک مشہور شیطان نہیں کرتا بلکہ شیطانی قوتیں اپنے غلط منصوبوں کو اسی طرح عملی جامہ پہناتی ہیں اسی لئے قرآن کہتاہے کہ پہلے قدم پرہی ہوش میں آکر شیطان کی ہمراہی سے کنارہ کش ہوجانا چاہئیے۔

احادیث اسلامی میں بے ہودہ خرافات اور بے منطق کاموں کو خطوات شیطان قرار دیا لیاہے مثلا ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے قسم کھائی کہ وہ اپنے بیٹے کو خد ا کے لئے ذبح کرے گا۔ امام صادق نے فرمایا:

( ذلک من خطوات الشیطان )

یہ شیطانی اقدامات میں سے ہے۔(۱)

ایک اور روایت میں امام صادق سے مردی ہے، آپ نے فرمایا:

جو شخص کسی ایسی چیز کو ترک کرنے کی قسم کھائے کہ جس کا انجام دینا بہتر ہے تو وہ ایسی قسم کی پرواہ نہ کرے اور اس کار خیر کو بجالائے۔ اس کا کفارہ بھی نہیں ہے اور وہ خطوات شیطان میں سے ہے۔(۲)

ایک اور حدیث امام باقر سے مروی ہے، آپ نے فرمایا:

کل یمین بغیر الله فهو من خطوت الشیطان

جو قسم غیر خدا کی کھائی جائے وہ خطوات شیطان میں سے ہے۔(۳)

____________________

۱،۲، ۳ المیزان، ج۱، ص۴۶۸

شیطان پرانا دشمن ہے:

آیت کے آخر میں شیطان کو واضح دشمن قرار دیا گیاہے۔ یہ یا تو اس دشمنی کی بناپر ہے جو اسے پہلے دن سے حضرت آدم سے تھی جب کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کے حکم نافرمانی کرکے ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھا یا اس لئے ہے کہ قتل، جارحیت اور تباہ کاری پر مبنی اس کے دعوتیں ، کرتوت اور طریقے سب پر واضح ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ایسے کام کسی دوست کی طرف سے نہیں ہوسکتے۔ ایسے کام جن کا نتیجہ بدبختی اور پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ان کی دعوت ایک خطرناک دشمن کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے۔یہ اس طرف بھی اشارہ ہوسکتاہے کہ اس نے انسا ن سے اپنی دشمنی کا صراحت سے اعلان کیاہے اور اس نے انسان کی دشمنی پر کمر باندھ رکھی ہی اور اس نے کہہ رکھاہے کہ:لاغوینہم اجمعین

مجھ سے ہوسکا تو سب کو گمراہ کردوں گا۔(حجر۔ ۳۹)

شیطانی وسوسوں کی کیفیت:

یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ آیت کہتی ہے شیطان تمہیں حکم دیتا ہے کہ برائیوں اور قباحتوں کی طرف جاؤ اور یہ بھی مسلم ہے کہ ”امر“ سے مراد شیطانی وسوسہ ہی ہے۔ حالانکہ برائی انجام دیتے وقت ہمیں اپنے وجود سے باہر سے کسی امراور تحریک کا احساس نہیں ہوتا اور ہمیں شیطان کے گمراہ کرنے کی کسی کوشش کا داخلی احساس نہیں ہوتا۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسے لفظ وسوسہ سے ظاہر ہوتاہے یہ ایک طرح کی وجود انسانی میں شیطانی تاثیر ہے۔جو مخفی اور نا معلوم قسم کی ہے۔ بعض آیات میں اسے ”وحی“ اور ”ایماء“ سے تعبیر کیاگیاہے۔ جیسا کہ سورہ انعام کی آیت ۱۲۱ میں ہے:( و ان الشیطین لیرحون الی اولیئهم ) شیاطین اپنے دوستوں اور ان لوگوں کو جو ان کے احکام قبول کرنے پر آمادہ کرتے ہیں وحی کرتے ہیں ۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وحی مخفی اور مرموز آواز ہے جس کی تاثیرات اکثر نامعلوم طرح کی ہیں ۔

البتہ انسان خدائی الہامات اور شیطانی وسوسوں میں واضح تمیز کرسکتاہے کیونکہ خدائی الہامات کی پہچان کی واضح علامت موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ خدائی الہامات چونکہ انسان کی پاک فطرف اور اس کے جسم و روح کی ساخت سے آشناہیں اس لئے جب وہ دل میں پیدا ہوتے ہیں تو انبساط و نشاط کی کیفیت بخشتے ہیں جب کہ شیطانی وسوسے انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہیں اس لئے جب وہ دل میں پیدا ہوتے ہیں اس وقت ایک طرح کی گھٹن، تکلیف اور سنگینی کا احساس پیدا ہوتاہے اگر انسان کے رجحا نات یہاں تک جا پہنچیں کہ برا کام انجام دیتے وقت اس میں یہ احساس پیدا نہ ہو تب بھی کام انجام دینے کے فورا بعد یہ احساس پیدا ہوجاتاہے۔ یہ ہے فرق شیطانی اور رحمانی الہامات کے در میان۔

آیات ۱۷۰،۱۷۱

۱۷۰ ۔( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ اتَّبِعُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اٴَلْفَیْنَا عَلَیْهِ آبَائَنَا اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلاَیَهْتَدُونَ )

۱۷۱ ۔( وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لاَیَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَعْقِلُونَ )

ترجمہ

۱۷۰ ۔ جب انہیں کہاجاتاہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہواہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں : ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایاہے۔ کیا ایسا نہیں کہ ان کے آباء و اجداد نہ کسی چیز کو سمجھتے ہیں اور نہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

۱۷۱ ۔ کافروں کو دعوت دینے میں (تمہاری) مثال اس شخص کی سی ہے جو (بھیڑوں اور دیگر جانوروں کو خطرات سے بچانے کے لئے)آواز دیتاہے لیکن وہ صدا اور پکارکے سوا کچھ نہیں سنتے (اور اس کی بات کی حقیقت اور مفہوم کو نہیں سمجھ پاتے) وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں ، اس لئے کچھ نہیں سمجھ سکتے۔

آباء و اجداد کی اندھی تقلید

یہاں مشرکین کی کمزور منطق، حلال غذاؤں کی بلا جواز تحریم یا بطور کلی بت پرستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: جب ان سے کہاجاتاہے کہ جو کچھ خدانے نازل کیاہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہم نے جس طریقے پر اپنے آباؤ اجداد کو پایاہے اسی کی پیروی کریں گے( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ اتَّبِعُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اٴَلْفَیْنَا عَلَیْهِ آبَائَنَا ) (۱) ۔

قرآن اس بیہودہ اور خرافاتی منطق کی فورا اخبر لیتاہے جو آباؤ اجداد کی اندھی تقلید ہے۔ ارشاد ہوتاہے: کیا ایسا نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کچھ نہیں سمجھتے تھے اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھے( اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلاَیَهْتَدُون ) ۔یعنی اگر وہ پڑھے لکھے اور ہدایت یافتہ لوگ ہوتے تو گنجائش تھی کہ ان کی پیروی کی جاتی لیکن یہ جاننے کے با وجود کہ وہ ان پڑھ، نادان اور تو ہم پرست تھے کیا تک ہے کہ ان کی پیروی کی جائے کیا یہ جاہل کی تقلید کا مصداق نہیں ؟

قومیت اور قومی تعصبات کا مسئلہ بالخصوص جو آباؤ اجداد سے مربوط ہو مشرکین میں خصوصا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں عموما پہلے دن سے موجود تھا اور آج تک جاری و ساری ہے لیکن خدا پرست اور صاحبان ایمان اس منطق کو ردکردیتے ہیں ۔ قرآن مجید نے بہت سے مواقع پر آباؤ اجداد کی اندھی تقلید اور تعصب کی شدید مذمت کی ہے اور اس نے آنکھ کان بند کرکے آباؤ اجداد کی تقلید کوردکردیاہے۔

اصولی طرو پر اپنی عقل و فکر کو دست بستہ بڑوں کے سپرد کردینے کا نتیجہ و قیانوسی رجعت پسندی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ عموما بعد والی نسلیں گذشتہ نسلوں سے زیادہ علم و آگہی رکھتی ہیں ۔

افسوس کی بات ہے کہ یہ جاہلانہ طرز فکر آج بھی بہت سے افراد اور ملل پر حکمرانی کرتی ہے اور وہ لوگ اپنے بڑوں کی بتوں کی طرح پرستش کرتے، ہیں اور بعض خرافاتی آداب و رسوم کو فقط اس لئے بے چون و چرا مان لیتے ہیں کہ یہ بزرگوں کے آثار ہیں اور انہیں دلفریب لباس پہنا دیتے ہیں ۔ مثلا قومیت کی حفاظت، تاریخی اسناد کا تحفظ و غیرہ ۔ یہ طرز فکر ایک نسل کی خرافات دوسری نسل میں منتقل ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔

البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آنے والی نسلیں گذرجانے والوں کے آداب و سنن کا تجزیہ کریں اور ان میں سے جو عقل و منطق کے مطابق ہوں ان کی بڑے احترام سے حفاظت کریں اور جوبے بنیاد خرافات وموہومات ہوں انہیں دور پھینک دیں ۔ اس سے بہتر کو ن سا کام ہوسکتاہے اور ایسی تنقید گذشتہ لوگوں کے آداب و سنن میں ملی و تاریخی اہمیت کی حامل چیزوں کی حفاظت کہلانے کی اہل ہے لیکن ہر پہلو سے انہیں قبول کرلینا اور اندھی تقلید کرنا سوائے خرافات پرستی اور رجعت پسندی کے کچھ نہیں ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کے متعلق مندرجہ بالا آیت میں خدا فرماتاہے: وہ نہ کسی چیز کو سمجھ سکتے تھے اور نہ ہدایت یافتہ تھے۔ یعنی دو قسم کے افراد کی پیروی کی جاسکتی ہے ایک وہ شخص جو علم اور عقل و دانش رکھتاہو، دوسرا وہ جو خود صاحب علم نہیں تا ہم اس نے کسی عالم کے علم و دانش کو قبول کرلیاہے۔ لیکن ان :کے آباؤ اجداد خود صاحبان علم و دانش تھے نہ ان کا کوئی ہادی و رہبر تھا اور یہ واضح ہے کہ نادان و جاہل جب نادان و جاہل کی تقلید کرتاہے تو یہی تقلید مخلوق کی بربادی کا باعث بنتی ہے۔ ایسی تقلید پر ہزار لعنت ہے۔

بعد کی آیت کہتی ہے کہ یہ گروہ ان واضح دلائل کے ہوتے ہوئے کیوں حق کی طرف نہیں پلٹتا اور کیوں گمراہی و کفر پر اصرار کرتاہے۔ فرمایا: اس کافر قوم کو ایمان لانے اور اندھی تقلید چھوڑنے کی دعوت دیتے ہوئے تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جو بھیڑوں اور دیگر جانوروں کو (خطرے سے نجات دلانے کہ لئے) آواز دیتاہے لیکن وہ ایک پکار اور صدا کے سوا کچھ نہیں سمجھ پاتے( وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لاَیَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاءً وَنِدَاءً ) ۔

واقعا وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں جو خیرخواہ اور دلسوز چرواہے کہ دادو فریاد کو ایک نوائے سرد کے علاوہ نہیں سمجھتے جو ان کے لئے ایک وقتی تحریک ہی ہوسکتی ہے۔ آیت کے آخر میں تاکید اور مزید وضاحت کے لئے فرماتا ہے: وہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتے( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَعْقِلُونَ )

جبھی تو وہ اپنے آباؤ اجداد کی غلط رسموں اور خرافاتی طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور ہر اصلاحی دعوت سے انہوں نے منہ موڑ رکھاہے۔(۲)

بعض مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے۔ ان کے مطابق یہ اس طرح ہے: ان لوگوں کی مثال جو بتوں اور مصنوعی خدا کو پکارتے ہیں اس شخص کی سی ہے جو بے شعور جانوروں کو آواز دیتاہے۔ نہ وہ جانور چرواہے کی کسی بات کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ یہ مصنوعی معبود اپنے عبادت گذاروں کی باتیں سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بت بہرے، گونگے اور اندھے ہیں ۔

لیکن اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو منتخب کیاہے اور روایات اسلامی بھی اسی کی موید ہیں ۔

____________________

۱ -”الفینا“ کا معنی ہے ”ہم نے پایا اور پیروی کی۔

۲- اس تفسیر کے مطابق آیت تقدیر کی محتاج ہے۔ گویا اصل میں یوں ہے ”مثل الراعی للذین کفروا “ ۔ یعنی کافروں کو ایمان کی دعوت دینے والے کی مثال اس چرواہے کی سی ہے۔ اس بناء پر صم بکم عمی فہم لا یعقلون ایسے لوگوں کی توصیف ہے جنہوں نے ادراک کے تمام آل

پہچان کے آلات:

اس میں شک نہیں کہ باہر کی دنیا سے انسان کا رابطہ آلات کا محتاج ہے جنہیں پہچان کے آلات کہتے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ اہم آنکھ، کان اور زبان ہیں جو دیکھنے، سننے اور بولنے کے کام آتے ہیں ۔ اس لئے مندرجہ بالا آیت میں آلات تمیز سے استفادہ نہ کرنے والوں کو بہرا، گونگا اور اندھا قرار دینے کے بعد فاء تفریح کا استعمال نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کیاگیاہے اور بلافاصلہ ارشاد ہوتاہے: اسی لئے وہ کسی چیز کو نہیں سمجھتے۔ اس طرح قرآن گواہی دیتاہے کہ بنیادی طور پر علم و دانش کے اسباب آنکھ، کان اور زبان ہیں ۔ آنکھ اور کان براہ راست ادراک کے لئے اور زبان دوسروں سے استفادہ کے لئے ہے۔

فلسفے میں بھی یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ غیر حسی علوم کا سرچشمہ بھی ابتدا علوم حسی ہیں ۔ یہ ایک وسیع بحث ہے اور یہ مقام اس کی تشریح کا نہیں ہے۔

آلات تمیز کی نعمت کے بارے میں زیادہ وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی گیارھویں جلد میں سورہ نحل آیہ ۷۸ کے تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔

ینعق کا مفہوم:

اس کا مادہ ”نعق“ ہے۔ اصل میں یہ کوے کی اس آواز کو کہتے ہیں جس میں شعور نہ ہو۔ جب کہ ”نغق“ کوے کی اس آواز کو کہتے ہیں جس میں شور و غل ہو اور کوا گردن بھی بلند کئے ہو۔(۱)

بعد ازاں ”نعق“ کے معنی میں وسعت پیدا ہوگئی۔ اب اس کے معنی وہ آوازیں ہیں جو جانوروں کے سامنے نکالی جائیں ۔ واضح ہے کہ وہ تو کلمات کے مفاہیم سے آگاہ نہیں ہوتے اور اگر ان پر کبھی کچھ اثر ہوتاہے تو آواز اور الفاظ کی ادائیگی کے طرز طریقہ سے ہوتاہے۔

____________________

۱- مجمع البیان، آیت محل بحث کے ذیل میں ۔

آیات ۱۷۲،۱۷۳

۱۷۲ ۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلَّهِ إِنْ کُنتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُونَ )

۱۷۳ ۔( إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیرِ وَمَا اٴُهِلَّ بِهِ لِغَیْرِ اللهِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَلاَإِثْمَ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیم )

ترجمہ

۱۷۲ ۔ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیاہے اس میں سے پاک و پاکیزہ چیزیں (شوق سے) کھاؤ اور اگر خداہی کی عبادت کرتے ہو تو اس کا شکر بجالاؤ۔

۱۷۳ ۔ اس نے تم پر مردہ جانور، خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر (ذبح کرتے وقت) غیر خدا کا نام لیاگیا ہو حرام کیا ہے۔ پس جو شخص مجبور ہوکر، اگر وہ سرکشی و زیادتی کرنے والا نہ ہو ان میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔

بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر

طیبات وخبائث

وہ کجرویاں جو جڑ پکڑچکی ہیں ان کی اصلاح کے لئے قرآن کا اسلوب ہے کہ وہ مختلف طرزوں اور طریقوں کی تاکید و تکرار سے استفادہ کرتاہے۔ ان آیات میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین کی حرام کر دہ حلال غذاؤں کے بارے میں دوبارہ گفتگو کرتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اب روئے سخن مومنین کی طرف ہے جب کہ گذشتہ آیات میں تمام لوگ( یا ایها الناس ) مخاطب تھے۔ فرماتا ہے: اے ایمان والو! ان پاکیزہ نعمتوں میں سے میں نے تمہیں جو روزی دی ہے اسے کھاؤ( یا ایها الذین امنوا کلوا من طیبت ما رزقنکم ) ۔اگر خدا ہی کی عبادت کرتے ہو تو پھر اس کا شکر ادا کرو( و اشکروا لله ان کنتم ایاه تعبدون ) یہ پاک و حلال نعمتیں جو ممنوع نہیں ہیں ، انسان کی فطرت سلیم کے موافق ہیں اور تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں تم ان سے کیوں استفادہ نہیں کرتے۔ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے یہ تمہیں قوت بخشتی ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ تمہیں شکر و عبادت کے لئے پروردگار کی یاد دلاتی ہیں ۔

اسی سورہ کی آیت ۱۶۸ ۔ یا ایھا الناس کلوا مما فی الارض۔ کا اگر اس آیت سے تقابل کیا جائے تو وہ لطیف نکتے سمجھ میں آتے ہیں ۔

۱ ۔ یہاں فرماتاہے:( من طیبت ما رزقنکم ) (پاک غذاؤں میں سے جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے) جب کہ وہاں فرماتا سے:( مما فی الارض ) (جو کچھ زمین میں ہے) یہ فرق گویا اس طرف اشارہ ہے کہ پاکیزہ نعمتیں اصل میں ایماندار افراد کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور بے ایمان لوگ ان کے صدقے میں روزی حاصل کرتے ہیں ۔ جیسے باغبان پانی تو پھلوں اور پھولوں کے لئے دیتاہے لیکن کانٹے اور فضول گھاس پھوس بھی اس سے فائدہ اٹھالیتی ہے۔

۲: عام لوگوں سے کہتاہے: کھاؤ و لیکن شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ جب کہ مومنین سے زیر نظر آیت میں کہتاہے: کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔ یعنی صرف نعمتوں سے سوء استفادہ سے نہیں روکتا بلکہ حسن استفادہ کی شرط عاید کرتاہے۔

در حقیقت عام لوگوں سے صرف یہ خواہش کی جاتی ہے کہ وہ گناہ نہ کریں لیکن صاحبان ایمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان نعمتوں کا بہترین استعمال کریں ۔

ممکن ہے پاکیزہ غذاؤں سے استفادہ کرنے کے بارے میں متعدد آیات میں بار بارکی کی تائید بعض لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہو لیکن اگر زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر نظر کی جائے تو یہ حیرت نہیں رہتی۔ ان لوگوں نے بیہودہ رسومات و آداب اختیار کررکھے تھے۔ بغیر کسی دلیل کے جائز نعمتوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے رکھا تھا اور یہ بات ان میں اس طرح راسخ تھی کہ وہ ان امور کو وحی آسمانی کی طرح سمجھتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بالصراحت ایسی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے۔ اس لئے قرآن نے اتنی تاکید و تکرار کی ہے کیونکہ قرآن یہ بے بنیاد اور بے ہودہ افکار ان کے ذہنوں سے پوری طرح نکال دینا چاہتاہے۔

طیب غذاؤں کا ذکر سب کو اس اسلامی حکم کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتاہے تاکہ وہ آلودہ اور نا پاک غذاؤں سے پرہیز کریں جن میں سور کا گوشت ،درندے، حشرات الارض اور نشہ آور چیزیں شامل ہیں اور یہ چیزیں اس زمانے کے لوگوں میں شدت و کثرت سے مروج تھیں ۔

اس تفسیر کی چھٹی جلد میں سورہ اعراف کی آیہ ۲۲ کے ضمن میں مومنین کے لئے پاکیزہ غذاؤں اور معقول زینتوں سے استفادہ کرنے کے متعلق تفصیلی بحث آئے گی۔

اگلی آیت میں حرام اور ممنوع غذاؤں کو واضح کیاگیاہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کے بہانوں کو ختم کردیاگیاہے۔ ارشاد ہوتاہے : خدانے مردار کا گوشت، خون، سورکا گوشت اور اس جانور کا گوشت جسے ذبح کرتے ہوئے غیر خدا کا نام لیاجائے حرام گیاہے( انما حرم علیکم المیتة و الدم و لحم الخنزیر و ما اهل به لغیر الله ) ۔

یہاں پر چار طرح کے گوشت اور خون کی حرمت کا حکم ہے۔ یاد ہے کہ خون ان لوگوں کو بہت مرغوب تھا۔ ان میں سے بعض چیزوں میں تو ظاہری نجاست ہے جیسے مردار، خون اور سور کا گوشت اور بعض میں معنوی نجاست ہے جیسے وہ قربانیاں جو وہ بتوں کے لئے کیاکرتے تھے۔

آیت سے بالعموم اور لفظ ”انما“ جو کلمہ حصر ہے اور اصطلاحی طور پر حصر اضافی ہے سے بالخصوص ظاہر ہوتاہے کہ مقصد تمام محرمات کو بیان کرنا نہیں بلکہ اصل غرض بدعات کی نفی ہے جو بعض حلال غذاؤں کو حرام قرار دے کر انہوں نے جاری کی ہوئی تھیں ۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے کچھ پاکیزہ اور حلال گوشت خرافات اور توہمات کے نتیجے میں اپنے اوپر حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔ لیکن غذا کی کمی کے وقت وہ مردار، سور کا گوشت اور خون تک استعمال کرلیتے تھے۔ قرآن انہیں بتاتاہے کہ یہ تمہارے لئے حرام ہیں نہ کہ وہ اور یہی حصر اضافی کا مطلب ہے)۔

بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آتی ہیں کہ انسان بعض حرام چیزوں کے استعمال پر بھی مجبور ہوجاتاہے لہذا قرآن اس استثنائی پہلو کے بارے میں کہتاہے: لیکن جو شخص (اپنی جان کے تحفظ کے لئے) مجبور ہوکر انہیں کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ و ہ ظالم و متجاوز نہ ہو( فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیه ) ۔ اس بناء پر کہ کہیں اضطرار کو بہانہ ہی نہ بنالیاجائے ان حرام غذاؤں کے کھانے میں زیادتی اور تجاوز روکنے کے لئے ”غیر باغ و لا عاد“ فرمایا گیاہے۔

یعنی یہ اجازت صرف، ان افراد کے لئے ہے جو ان محرمات کو لذت کے لئے نہ کھانا چاہیں اور اتناہی کھائیں جتنا حفظ جان کے لئے ضروری ہو اس سے تجاوز نہ کریں ۔ باغ ٍاور عادٍ اصل میں باغی اور عادی ہیں ۔ باغی کا مادہ ہے ”بغی“جس کا معنی ہے طلب کرنا یہاں مقصود طلب لذت ہے اور عادی متجاوز کے معنی میں ہے۔

”غیر باغ و لا عاد“ کی ایک اور تفسیر بھی مذکور ہے جو پیش کر دہ مفہوم سے متضاد نہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معانی آیت کے مفہوم میں شامل ہوں ۔ وہ تفسیر یہ ہے کہ ”بغی“ کا ایک معنی ظلم و ستم بھی ہے۔ لہذا مقصد یہ ہوا کہ حرام گوشت کھانے کی اجازت فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم و ستم اور گناہ کا سفر نہ کررہے ہوں (سفر کا ذکر اس لئے ہے کہ عموما اضطراری کیفیت اور مجبوری کی حالت سفر میں ہی در پیش ہوتی ہے) لہذا اگر سفر گناہ کے لئے ہو اور مسافر حالت مجبوری کو پہنچ جائے کہ حفظ جان کے لئے اسے حرام غذا کھانی پڑے تو اس کا گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر چہ ان ستمگروں کے لئے بحکم عقل واجب ہے کہ جان کی حفاظت کے لئے ایسے حرام گوشت کھائیں لیکن یہ وجوب ان کی مسئولیت اور ذمہ داری میں کمی نہیں کرسکے گا۔

وہ روایات جو یہ کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو امام مسلمین کے خلاف اقدام نہ کریں در اصل ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسے نماز مسافر کے احکام میں آیاہے کہ نماز قصر صرف ان مسافروں کے لئے ہے جن کا سفر حرام نہ ہو۔ اسی لئے ”غیر باغ و لا عاد“ سے روایات میں دونوں احکام کے لئے استدلال کیاگیاہے (یعنی نماز مسافر اور حالت اضطرار میں گوشت کھانے کے احکام)۔(۱)

____________________

۱- امام صادق سے ایک روایت ہے کہ آپ نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں فرمایا:

باغی سے مراد وہ ہے جوشکار کے پیچھے سیر و تفریح کے طور پر (نہ کہ ضرورت و احتیاج کے لئے جائے اور عادی سے مراد چورہے۔ یہ دونوں حق نہیں کھتے کہ مردار کا گوشت کھائیں وہ ان کے لئے حرام ہے اور یہ نماز قصر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ (وسائل الشیعہ، ج۵، ص۵۰۹)

آیت کے آخر میں فرمایا: خدا غفور و رحیم ہے( ان الله غفور رحیم ) وہی خدا جس نے یہ گوشت حرام قرار دیے ہیں اسی نے اپنی رحمت خاص سے شدید ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

حرام گوشت کی تحریم کا فلسفہ:

اس میں شک نہیں کہ زیر نظر آیت میں جو غذائیں حرام قرار دی گئی ہیں ۔ وہ دیگر خدائی محرمات کی طرح ایک خاص فلسفے کی حامل ہیں ۔ انسانی جسم و جان اور اس کی کیفیت اور وضع کی تمام تر خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر انہیں حرام قرار دیاگیاہے۔ روایات اسلامی میں ان میں سے ہر ایک کے نقصانات اور حرمت کے مضرات کو بھی تفصیل سے بیان کیاگیاہے نیز علوم انسانی کی پیش رفت نے بھی ان سے پردہ اٹھایاہے۔

کتاب کافی میں مردار کے گوشت کے متعلق امام صادق سے مروی ہے:

اما المیتة فانه لم ینل منها احد الاضعف بدنه و ذهبت قوته و انقطع نسله و لا یموت اکل المیتة الافجاة

(یہ فرمانے کے بعد کہ یہ تمام احکام مصالح بشر کے ما تحت ہیں امام فرماتے ہیں ) باقی رہا مردار کا گوشت تو جو کوئی بھی اسے کھائے گا اس کا بدن کمزور ہوگا اور تکالیف میں مبتلا ہوگا۔ اس کی قوت و طاقت ختم ہوجائے گی اور نسل منقطع ہوجائے گی اور جو ہمیشہ مردار کا گوشت کھاتارہے گا سکتے کے عالم میں مرے گا۔(۱)

ممکن ہے یہ نقصانات اس لئے ہوں کہ مردار سے غذا ہضم کرنے کا نظام صحیح خون نہیں بنا سکتا۔ علاوہ ازیں مردار طرح طرح کے جراثیم کا مرکز ہوتاہے اسلام نے نہ صرف مردار گوشت کو حرام کہاہے بلکہ اسے نجس بھی قرار دیا ہے تا کہ مسلمان مکمل طور پراس سے دوررہیں ۔

دوسری چیز جو آیت میں حرام قرار دی گئی ہے خون ہے (والدم)۔ خون کو استعمال کرنا جسم کے لئے بھی نقصان دہ اور اخلاقی طور پر بھی بد اثر ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ ایسے مختلف جراثیم کی پرورش کرتاہے جو پورے بدن میں داخل ہوکر انسانی خون پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے ہی اپنی کارگزاری کا مرکز بناتے ہیں ۔ سفید رنگ کے گلبول(۲)

جو ملک بدن کے محافظ ہیں ہمیشہ اس کے خون کے علاقے کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تا کہ جراثیم اس حساس علاقے میں نہ پہنچنے پائیں کیونکہ یہ بدن کے تمام حصوں سے قریبی رابطہ رکھتاہے۔ خصوصا جب جریان خون رک جائے اور اصطلاح کے مطابق مرجائے تو سفید گلبول بھی ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس وجہ سے جب جراثیم میدان خالی دیکھتے ہیں تو بڑی تیزی سے انڈے دیتے ہیں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔

اس طرح ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوجاتاہے۔ لہذا اگر یہ کہاجائے کہ خون کا جریان رک جائے تو یہ انسان اور حیوان کے بدن کا غلیظ ترین حصہ ہوتاہے تو غلط نہ ہوگا۔

دوسری طرف آج علم غذا شناسی نے یہ ثابت کردیاہے کہ غذائیں غدودوں پر اثر انداز ہونے کے علاوہ انسانی نفسیات اور اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ خون انسان میں ہارمون پر اثر انداز ہوکر سنگدلی پیدا کرتاہے۔ یہ بات تو قدیم زمانے سے مسلمہ ہے کہ خونخواری انسان میں قساوت و سنگدلی پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بات ضرب المثل ہوگئی ہے کہ سنگدل کو خونخوار کہتے ہیں اسی لئے ایک حدیث میں ہے۔

جو لوگ خون پیتے ہیں وہ اس قدر سنگدل ہوجاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور اولاد تک کو قتل کرڈالیں ۔(۳)

تیسری چیز جس کا کھانا آیت میں حرام قرار دیا گیاہے سور کا گوشت (و لحم الخنزیر ) ہے۔

اہل یو رپ زیادہ تر خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں ۔ ان کے لئے یہ گوشت بے غیرتی کا نشان بن گیاہے۔ یہ ایسا گھٹیا جانور ہے کہ علم جدید کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ اس کا کھانا جنسی امور میں بے حیائی اور لا ابالی کا باعث ہے اور یہی اس کی نفسیاتی تاثیر ہے جو مشاہدے میں آچکی ہے۔

شریعت حضرت موسی میں بھی سوکر کا گوشت حرام تھا۔ موجودہ اناحیل میں گناہگاروں کو سور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ داستانوں میں سوکر کو مظہر شیطان کے عنوان سے متعارف کرایاگیاہے۔

بڑے تعجب کی بات ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتاہے کہ سور غلیظ چیزیں کھاتاہے اور کبھی کبھی تو وہ اپنا ہی پاخانہ کھاجاتاہے۔ دوسری طرف یہ بھی سب پرواضح ہوچکاہے کہ اس پلید جانور میں دو قسم کے خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو تریشین ( trichin ) اور دوسرے کو کرم کدو کہتے ہیں ۔ اس کے با وجود وہ اس کا گوشت کھانے پر مصر ہیں ۔

صرف ایک تریشین ( trichin ) ہر ماہ پندرہ ہزار انڈے دیتاہے اور انسان میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتاہے مثلا خون کی کمی، سردرد، ایک مخصوص بخار، اسہال، دردرماتیسمی، اعصاب کا تناؤ، جسم میں خارش، بدن میں چربی کی کثرت، تھکن کا احساس، غذا چبانے اور نگلنے میں دشواری ، سانس کا رکنا و غیرہ۔

ایک کلو گوشت میں چالیس کروڑ تک نوزائیدہ تریشین ( trichin ) ہوسکتے ہیں ۔

انہی وجوہ کے پیش نظر چند سال پیشتر حکومت روس نے اپنے ایک علاقے میں سور کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

جی ہاں ۔ روشن بینی کے یہ احکام کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کے تازہ جلوے نمایاں ہوتے ہیں ہمیشہ رہنے والے دین اسلام ہی کا حصہ ہیں ۔

بعض کہتے ہیں کہ آج کے جدید وسائل کے ذریعے ان تمام جراثیم کو مارا جاسکتاہے اور سور کا گوشت ان سے پاک کیا جاسکتاہے۔ لیکن صحت کے جدید وسائل کے ذریعے یا سور کے گوشت کو زیادہ حرارت دے کرپکانے کے ذریعے یہ کیڑے کاملا ختم بھی کردیئے جائیں تو بھی سور کے گوشت کا نقصان دہ اور مضر ہونا قابل انکار نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پریہ تو مسلم ہے کہ ہر جانور کا گوشت اس کی صفات کا حامل ہوتاہے اور غدودوں ( glands ) ار ہا رمونز ( hormones )کے ذریعے کھانے والے اشخاص کے اخلاق پر اثر انداز ہوتاہے۔ لہذا ممکن ہے سورکھانے والے پر سور کی بے لگام جنسی صفات اور بے حیائی جو اس کے واضح خصوصیات میں سے ہے اثر انداز ہوجائے۔ مغربی ممالک میں جو شدید جنسی بے راہ روی پائی جاتی ہے اس کا ایک اہم سبب اس گندے جانور کے گوشت کا استعمال بھی ہوسکتاہے۔

چو تھی چیز جسے زیر نظر آیت میں حرام قراردیا گیاہے وہ گوشت ہیں جن پر ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام لیاجائے (و ما اہل بہ لغیر اللہ)۔وہ گوشت جنہیں کھانے سے منع کیاگیاہے ان میں ان جانوروں کا گوشت بھی شامل ہے جو زمانہ جاہلیت کی طرح غیر خدا و بتوں کے نام پر ذبح ہوتے ہیں ۔

سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ذبح کے وقت خدا یا غیر خدا کا نام لینا بھی صحت و سلامتی کے نقطہ نظر سے جانور کے گوشت پر اثر انداز ہوتاہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ خدا یا غیر خدا کا نام صحت کے نقطہ نظر سے گوشت پر اثر انداز ہو کیونکہ اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیاہے اس کے مختلف پہلو ہیں ۔ بعض اوقات کسی چیز کو صحت اور بدن کی حفاظت کے لئے کبھی تہذیب روح کے لئے اور کبھی نظام اجتماعی کے تحفظ کے لئے حرام قرار دیاجاتاہے۔ اسی طرح بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانوروں کے گوشت کی حرمت در حقیقت معنوی، اخلاقی اور تربیتی پہلو سے ہے۔

تکرار و تاکید:

جن چار چیزوں کی حرمت کا ذکر یہاں کیاگیاہے قرآن میں چار مقامات پر اسی طرح آیا ہے۔ دو مرتبہ مکہ میں (انعام ۔ ۱۴۵ اور نحل ۔ ۱۱۵) اور دو مرتبہ مدینہ میں (بقرہ ۱۷۳ اور مائدہ ۳) یہ حکم نازل ہوا۔

یوں لگتاہے کہ پہلی مرتبہ اوائل بعثت کا زمانہ تھا جب ان کی حرمت کی خبردی گئی۔ دوسری مرتبہ پیغمبر کے مکہ میں قیام کے آخری دن تھے۔ تیسرے مرتبہ ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام تھے اور چوتھی دفعہ پیغمبر کی عمر کے آخری دن تھے کہ سورہ مائدہ میں اسے بیان کیاگیا جو قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے۔

نزول آیات کا یہ انداز جو بے نظیر یا کم نظیر ہے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہے اور ان چیزوں میں موجود بہت زیادہ بدنی اور روحانی خطرات کی وجہ سے ہے اور اس بناء پر بھی کہ لوگ ان کے کھانے میں زیادہ مبتلا تھے۔

بیمار کو خون دینا:

شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہو کہ مندرجہ بالا آیت میں خون کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ خون پینا حرام ہے لہذا اس سے مناسب فائدہ حاصل کرنے میں کوئی اشکال نہیں مثلا کسی مجروح یا بیمار کو موت سے بچانے کے لئے خون دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان مقاصد کے لئے تو خو ن کی خرید و فروخت کی حرمت کے لئے بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ یہ تو عقلی طور پر صحیح ہے اور عمومی احتیاج کے موقع پر فائدہ اٹھانے کے ضمن میں آتاہے۔

____________________

۱ وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۳۱

۲ خون کے خیلے ( Whiteblood cells )جو جراثیم کو بدن میں داخل ہونیے رکتے ہیں ۔ (مترجم)

۳ وسائل شیعہ، ج۱۶، ص۳۱۰