تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 4%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82169 / ڈاؤنلوڈ: 6184
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

آیات ۱۷۸،۱۷۹

۱۷۸ ۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاٴُنثَی بِالْاٴُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ اٴَخِیهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاٴَدَاءٌ إِلَیْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ )

۱۷۹ ۔( وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَااٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )

ترجمہ

۱۷۸ ۔اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں حکم قصاص تمہارے لئے لکھ دیاگیاہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس اگر کوئی اپنے (دینی) بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور حکم قصاص خونبہا سے بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور دیت کی وصولی میں دیت دینے والے کی حالت کو پیش نظر رکھے) اور قاتل بھی ولی مقتول کو اچھے طریقے سے دیت ادا کرے (اور اس کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام نہ لے) تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو تجاوز کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۹ ۔اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے، اے صاحبان عقل و خرد! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہئیے۔

شان نزول

زمانہ جاہلیت کے عربوں کی عادت تھی کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی قتل ہوجاتا تو وہ پختہ ارادہ کرلیتے کہ حق المقدور اس کا انتقام لیں گے اور یہ فکر یہاں تک آگے بڑھ چکی تھی کہ وہ تیار رہتے کہ ایک شخص کے بدلے قاتل کا سارا قبیلہ قتل کرڈالیں مندرجہ بالا آیت کے ذریعے قصاص کا عادلانہ حکم بیان کیاگیا۔

اس زمانے کے دو مختلف دستوروں میں اسلام کا یہ حکم حد وسط تھا۔ اس دور میں بعض لوگ قصاص کو ضروری سمجھتے تھے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو جائز اور درست نہ جانتے تھے جب کہ بعض لوگ صرف دیت اور خونبہا کو ضروری خیال کرتے تھے۔ اسلام نے مقتول کے اولیاء کے راضی نہ ہونے کی صورت میں قصاص کا حکم دیا اور طرفین کی رضا اور قصاص کی معانی پردیت کو ضروری قرار دیا۔

قصاص تمہاری حیات کا سبب ہے

ان آیات سے لے کر آگے کی کچھ آیات تک احکام اسلام کے ایک سلسلے کو واضح کیاگیاہے ۔ گذشتہ آیات نیکی کے بارے میں تھیں اور ان میں کچھ اسلامی پروگراموں کی وضاحت بھی کی گئی تھی۔ زیر نظر آیات اس سلسلہ بیان کی تکمیل کرتی ہیں ۔

سب سے پہلے احترام خون کی حفاظت کا مسئلہ بیان کیاگیاہے جو ربط معاشرہ کے ضمن میں بہت اہمیت رکھتاہے۔

اسلام کا یہ حکم جاہلیت کے رسم و رواج پر خط بطلان کھینچتاہے۔ مومنین کو مخاطب کرکے فرمایاگیاہے: اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم تمہارے لئیے لکھ دیاگیاہے (یا ایہا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی)۔

قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی لازم الاجراء قوانین کو ”کتب علیکم“ (تم پر لکھ دیا گیاہے) کے الفاظ سے بیان کرتاہے۔ مندرجہ بالا آیت بھی انہی میں سے ہے۔ آئندہ کی آیات جو وصیت اور روزہ کے بارے میں ہیں ، میں بھی یہی تعبیر نظر آتی ہے۔ بہرحال یہ الفاظ اہمیت اور تاکید مطلب کو پورے طور پر اداکرتے ہیں کیونکہ ہمیشہ ان الفاظ کو رقم کیا جاتاہے جو نگاہ قدر و قیمت میں قطعیت رکھتے ہوں ۔

قصاس مادہ قص (برو زن سد) سے ہے۔ اس کا معنی ہے جستجو اور کسی چیز کے آثار کی تلاش کرنا اور جو چیز پے در پے اور یکے بعد دیگرے آئے اسے قصہ کہتے ہیں چونکہ قصاص ایسا قتل ہے جو پہلے قتل کے بعد قرار پاتاہے اس لئے یہاں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے۔

جیسا کہ شان نزول میں اشارہ ہوچکاہے یہ احکام افراط و تفریط کے ان رویوں کے اعتدال پر لانے کے لئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کسی قتل کے بعد رونما ہوتے تھے۔ لفظ قصاص اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اولیاء مقتول حق رکھتے ہیں کہ وہ قاتل سے وہی سلوک کریں جس کا وہ ارتکاب کرچکاہے لیکن آیت یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ آیت کا آخری حصہ مساوات کے مسئلہ کو زیادہ واضح کرتاہے۔ ارشاد ہوتاہے: آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت( الحر و العبد بالعبد و الانثی بالانثی ) ۔

بعد میں ہم واضح کریں گے کہ یہ مسئلہ مرد کے خون کی عورت کے خون پر برتری کی دلیل نہیں ہے بلکہ قاتل مردے بھی (خاص شرائط کے ساتھ) مقتول عورت کے بدلے قصاص لیاجاسکتاہے۔

اس کے بعد یہ واضح کرنے کے لئے کہ قصاص اولیاء مقتول کا ایک حق ہے مگر یہ کوئی الزامی حکم نہیں ہے بلکہ اگر اولیاء مائل ہوں تو قاتل کو بخش سکتے ہیں اور خون بہالے سکتے ہیں یا چاہیں تو خون بہا بھی نہ لیں ۔ مزید فرمایا کہ اگر کوئی اپنے دینی بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور قصاص کا حکم طرفین کی رضا سے خون بہامیں بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور اس خون بہاکے لینے میں دوسرے پر سختی و تنگی روانہ رکھے) اور ادا کرنے دالا بھی دیت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے( فمن عفی له من اخیه شیئ فاتباع بالمعروف و اداء الیه باحسان ) ۔

ایک طرف اولیاء مقتول کو وصیت کی گئی ہے کہ اب اگر اپنے بھائی سے قصاص لینے سے صرف نظر کرچکے ہو تو خونبہا لینے میں زیادتی سے کام نہ لو شائستہ اور اچھے طریقے سے اور عدل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے ایسی اقساط میں جن میں وہ ادائیگی کی قدرت رکھتاہے وصول کرو۔

دوسری طرف ”اداء الیہ باحسان“ کے جملے میں قاتل کو بھی وصیت کی گئی ہے کہ وہ خونبہا کی ادائیگی میں نیکی اور اچھائی کی روش اختیار کرے اور بغیر کسی غفلت کے کامل اور بر محل ادا کرے۔ اس طرح دونوں کے لئے ذمہ داری اور راستے کا تعین کردیاگیاہے۔

آیت کے آخر میں بطور تاکید اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس کسی کی طرف سے حدسے تجاوز کیاجائے گا وہ شدید سزا کا مستحق ہوگا۔ فرمایا: تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو شخص حدسے تجاوز کرے، تو دردناک عذاب اس کے انتظار میں ہے( ذالک تخفف من ربکم و رحمة ”فمن اعتدی بعد ذالک فله عذاب الیم ) ۔

انسانی اور منطقی نقطہ نظر سے قصاص اور عفو کا یہ ایک عادلانہ دستور ہے۔ ایک طرف اس حکم سے زمانہ جاہلیت کی فاسد روش کو غلط قرار دیاگیاہے۔ اس دور میں لوگ قصاص کے لحاظ سے کسی قسم کی برابری کے قائل نہ تھے اور ہمارے زمانے کے جلادوں کی طرح ایک شخص کے بدلے سینکڑوں افراد کو خاک و خون میں لوٹا دیتے تھے۔ دوسری طرف لوگوں کے لئے عفو و بخشش کا راستہ کھول دیاہے۔ اس حکم میں احترام خون میں کمی نہیں آنے دی گئی اور قاتلوں میں جسارت و بے باکی پیدا نہیں ہونے دی گئی اور اس آیت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ کہ معاف کرنے اور خون بہا لینے کے بعد طرفین میں سے کوئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتا جب کہ زمانہ جاہلیت میں اولیاء مقتول معاف کردینے اور خونبہا لینے کے با وجود بعض اوقات قاتل کو قتل کردیتے تھے

بعد کی آیت مختصر اور پر معنی عبارت سے مسئلہ قصاص سے متعلق بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: اے صاحبان عقل و خرد ! قصاص تمہارے لئے حیات بخش ہے ، ہوسکتا ہے تم تقوی و پرہیزگاری اختیار کرلو( و لکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب لعلکم تتقون ) ۔

دس الفاظ پر مشتمل یہ آیت انتہائی فصیح و بلیغ ہے یہ ایک شعار اسلامی کی صورت میں ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے ۔ یہ بڑی عمدگی سے نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی قصاص میں کسی قسم کا انتقامی پہلو نہیں بلکہ یہ حیات و زندگی کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔

ایک طرف تو یہ معاشرے کی حیات ہے کیونکہ اگر قصاص کا حکم کسی طور پر بھی موجود نہ ہوتا اور سنگدل لوگ بے پرواہ ہوتے تو بے گناہ لوگوں کی جان خطرے میں رہتی۔ جن ملکوں میں قصاص کا حکم ختم کردیا گیاہے وہاں قتل کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگیاہے۔ دوسری طرف یہ حکم قاتل کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ قصاص کا تصور اسے قتل انسانی کے ارادے سے کافی حد تک بازرکھے گا اور اسے کنٹرول کرے گا۔ تیسری طرف برابری کا لزوم پے در پے کئی افراد کے قتل کو روکے گا۔ اور زمانہ جاہلیت کے ان طور طریقوں کو ختم کردے گا جن میں ایک قتل کے بدلے کئی افراد کو قتل کردیا جاتاتھا اور پھر اس کے نتیجے میں آگے بہت سے افراد قتل ہوتے تھے اور اس طرح سے یہ حکم معاشرے کی زندگی کا سبب ہے۔

اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ قصاص کا مطلب ہے معاف نہ کرنا۔ یہ خود ایک دریچہ حیات کھلنے کے مترادف ہے نیز لعلکم تتقون ہر قسم کے تجاوز و تعدی سے پرہیز کرنے کے کئے تنبیہ ہے جس سے اسلام کے اس حکیمانہ حکم کی تکمیل ہوتی ہے۔

قصاص عفو ایک عادلانہ نظام ہے:

ہر مقام و محل پر اسلام مسائل کی واقعیت اور ان کی ہر پہلو کے جاچ و پڑتال کرتاہے۔ اس نے بے گناہوں کا خون بہانے کے مسئلے میں ہر طرح سے افراط و تفریط سے بالاتر ہو کر حق مطلب اداکیا ہے ۔ اس نے یہودیوں کے تحریف شدہ دین کی طرح صرف قصاص کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی ایسی عیسائیت کی طرح صرف عفو دیت کی راہ دکھائی ہے کیونکہ پہلا حکم انتقام جوئی کا باعث ہے اور دوسرا قاتلوں کی جرات کا سبب ہے۔

فرض کریں قاتل و مقتول ایک دوسرے کے بھائی ہوں یا ان میں دوستی و اجتماعی تعلقات رہے ہوں تو اس صورت میں قصاص پر مجبور کرنا اولیاء مقتول کے لئے ایک نئے زخم کا باعث ہوگا۔ خصوصا ایسے لوگ جو انسانی جذبات سے سرشار ہوں انہیں قصاص کرنا ایک اور سختی شمار ہوگا جب کہ اس حکم کو عفوودیت میں محدود و محصور کردینا بھی ظالموں کو مزید جری و بیباک بنانے کا باعث ہوگا۔

لہذا اسلام نے قصاص کو اصلی حکم قرار دیاہے اور اسے معتدل بنانے کے لئے اس کے ساتھ عفو کا ذکر بھی کردیاہے۔

زیادہ واضح الفاظ میں مقتول کے اولیاکو ان تین راستوں میں سے ایک اختیار کرنے کا حق ہے۔

۱ ۔ قصاص لے لیں ۔

۲ ۔ خونبہا لئے بغیر معاف کردیں ۔

۳ ۔ خونبہا لے کر معاف کردیں (البتہ اس صورت میں ضروری ہے کہ قاتل بھی راضی ہو)۔

کیا قصاص عقل اور انسانیت کے خلاف ہے:

بعض لوگوں نے غور و فکر کئے بغیر اسلام کے جزا و سزا کے کچھ قوانین پر تنقید کی ہے۔ قصاص کے مسئلے پر خصوصا بہت شور و غل ہے۔ مسئلہ قصاص پر مخالفین کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں :

(!!) کیا قصاص عقل اور انسانیت کے خلاف ہے:

بعض لوگوں نے غور و فکر کئے بغیر اسلام کے جزا و سزا کے کچھ قوانین پرتنقید کی ہے۔ قصاص کے مسئلے پر خصوصا بہت شور و غل ہے۔ مسئلہ قصاص پر مخالفین کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں :

۱ ۔ قاتل کا یہی جرم ہے کہ اس نے ایک انسان کو ختم کردیا۔ قصاص لیتے وقت اسی عمل کا تکرار کیاجاتاہے۔

۲ ۔ قصاص ایک انتقامی کارروائی اور سنگدلی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہ صفت لوگوں میں سے ختم کی جانا چاہئیے جبکہ قصاص کے طرف دار انتقام جوئی کے اس نا پسندیدہ صفت میں نئی روح پھو نکتے ہیں ۔

۳ ۔ انسان کشی ایسا گناہ نہیں جسے عام اور صحیح و سالم لوگ انجام دیتے ہیں ۔ لہذا قاتل نفسیاتی طور پر کسی بیماری میں مبتلا ہوتاہے۔ اس لئے چاہئیے کہ اس کا علاج کیاجائے۔ قصاص ایسے مریضوں کا علاج نہیں ہوسکتا۔

۴ ۔ وہ مسائل جن کا تعلق اجتماعی نظام سے ہے ان کا رشد اور نشو و نما انسانی معاشرے کے ساتھ۔ ساتھ ضروری ہے۔ وہ قانون جو آج سے چو دہ سو سال پہلے جاری ہو ااسے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں جاری نہیں ہونا چاہئیے۔

۵ ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ قصاص لینے کی بجائے قاتلوں کو قید کردیاجائے۔ اور قید خانے میں ان کے وجود سے جبرا معاشرے کے فائدے کے لئے کام لیاجائے۔ اس طرح ایک طرف معاشرہ ان کے شر سے محفوظ رہے گا اور دوسری طرف ان سے حتمی المقدور فائدہ اٹھایا جائے گا۔

یہ ان اعتراضات کا خلاصہ ہے جو مسئلہ قصاص پر کئے جاتے ہیں ۔ ذیل میں ان کا جواب پیش کیاجاتاہے۔

جواب

آیات قصاص میں غور و خوض کرنے سے یہ اشکالات دور ہوجاتے ہیں (و لکم فی القصاص حیاة یآ اولی الالباب)۔

۱ ۔ بعض اوقات خطرناک افراد کو ختم کردینا معاشرے کے رشد و تکامل کا ذریعہ ہوتاہے۔ ایسے مواقع پر مسئلہ قصاص حیات اور بقائے موجودات کا ضامن ہے۔ اس لئے قصاص کا جذبہ انسان اور حیوان کے مزاج اور طبیعت میں رکھ دیا گیاہے۔

نظام طب ہو یا زراعت سب اسی عقلی اصول پر مبنی ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بدن کی حفاظت کے لئے بعض اوقات فاسد اور خراب عضو کو کاٹ دیتے ہیں ۔ اسی طرح درخت کی نشو و نما میں مزاحک شاخوں کو بھی قطع کردیتے ہیں ۔

جو قاتل کے قتل کو ایک شخص کا فقدان سمجھتے ہیں ان کی نظر انفرادی ہے اگر وہ اجتماعی نظر رکھتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ قانون قصاص باقی افراد کی حفاظت اور تربیت کا باعث ہے تو وہ اپنی گفتگو میں تجدید نظر کرتے ۔ معاشرے میں سے ایسے خونخوار افراد کا خاتمہ مضر عضو اور شاخ کو کاٹنے کی طرح ہے جسے حکم عقل کے مطابق لازما قطع کرنا چاہئیے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج تک مضر اعضا اور شاخوں کو کاٹنے کی طرح ہے جسے حکم عقل کے مطابق لازما قطع کرنا چاہئیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج تک مضر اعضا اور شاخوں کو کاٹنے پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

۲ ۔ اصولی طور پر تشریع قصاص کا جذبہ انتقام سے کوئی ربط نہیں کیونکہ انتقام کا معنی ہے غضب کی آگ کو کسی شخصی مسئلے کی خاطر ٹھنڈا کرنا جب کہ قصاص کا مقصد معاشرے پرظلم و ستم کے تکرار کو روکنا ہے اور اس کا ہدف اور غرض طلب عدل اور باقی بے گناہ افراد کی حمایت ہے۔

۳ ۔ تیسرا اعتراض ہے کہ قاتل یقینا کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے اور عام لوگ ایسا ظلم نہیں کرسکتے۔ اس بارے میں کہنا چاہئیے کہ بعض اوقات تو یہ بات بالکل صحیح ہے ایسی صورت میں اسلام نے بھی دیوانہ اور ایسے افراد کے لئے قصاص کا حکم نہیں دیا لیکن قاتل کو ہمیشہ بیمار قرار دینا بہت خطرناک ہے کیونکہ ایسے فساد کو ایسی بنیاد فراہم کرنا معاشرے کے ظالموں کو ایسی جرات دلاتاہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ استدلال کسی صحیح قاتل کے بارے میں ہے تو پھر یہی استدلال سب تجاوز کرنے والوں اور دوسروں کے حقوق چھیننے والوں کے لئے بھی صحیح ہونا چاہئیے کیونکہ عقل کامل رکھنے والا شخص کبھی دوسروں پرتجاوز نہیں کرتا۔ اس طرح تو سزا کے تمام قوانین کو ختم کردینا چاہئیے اور تجاوز و تعدی کرنے والے سب افرا د کو قید خانوں اور مقامات سزا سے نکال کر نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں میں داخل کردینا چاہیئے۔

۴ ۔ رہا یہ سوال کہ معاشرے کی ترقی قانون قصاص کو قبول نہیں کرتی اور قصاص صرف قدیم معاشرے میں اثر رکھتا تھا لیکن اس ترقی کے زمانے میں اقوام عالم قصاص کو خلاف وجدان سمجھتی ہیں ۔

اس کا جواب صرف ایک جملے میں یوں دیاجاسکتاہے کہ یہ دعوی ان وسیع وحشت ناک جرائم اور میدان جنگ و غیرہ کے مقتولین کی تعداد کے مقابلے میں بہت بے وزن ہے اور خیالی پلاؤکی طرح ہے۔ فرض کیا کہ ایسی دنیا وجود میں آجائے تو اسلام نے بھی قانون عفو کو قصاص کے ساتھ ہی صراحت سے بیان کردیاہے اور قصاص ہی کو اس سلسلے میں آخری طریقہ کار قرار نہیں دیا۔ مسلم ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے میں لوگ قاتل کو معاف کردینے کو ہی ترجیح دیں گے لیکن موجودہ دنیا میں جس کے کئی تہوں میں چھپے ہوئے جرائم گذشتہ زمانوں سے زیادہ اور انتہائی وحشیانہ ہیں اس میں قانون قصاص کے خاتمہ کا مطلب جرائم و مظالم کے دامن کو وسعت دینے کے اور کچھ نہ ہوگا۔

۵ ۔ جیسا کہ قرآن کی تصریح موجود ہے۔ قصاص کی غرض و غایت صرف حیات عمومی و اجتماعی اور قتل و فساد کے تکرار سے بچنا اور اسے روکنا ہے۔ یہ مسلم ہے کہ قید خانہ اس سلسلے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کرسکتا (خصوصا موجودہ زمانے کے قید خانے جن میں سے بعض کی کیفیت تو مجرموں کے گھروں سے کہیں بہتر ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں مجرم کے قتل کا حکم ختم کردیا گیاہے وہاں تھوڑی ہی مدت میں جرائم اور قتل کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوگیاہے اور قیدیوں کو بخش ہی دیاجائے تو جرائم پیشہ لوگ بڑے اطمینان اور آرام سے اپنے ہاتھ قتل اور ظلم سے رنگین کرتے رہیں ۔

کیا مردکا خون عورت کے خون سے زیادہ قیمتی ہے:

ممکن ہے بعض لوگ اعتراض کریں کہ آیات قصاص میں حکم دیا گیاہے کہ عورت کے قتل کے بدلے مرد سے قصاص نہیں لینا چاہئیے تو کیا مرد کا خو ن عورت کے خون سے گراں تر اور زیادہ قیمتی ہے۔ آخر ایک ظالم مرد سے عورت کے قتل پر قصاص کیوں نہ لیاجائے جب کہ دنیا کی نصف سے زیادہ انسانی آبادی عورتوں پرہی مشتمل ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ مرد سے عورت کے قتل کے بدلے قصاص نہ لیاجائے بلکہ جیسا کہ فقہ اسلامی میں تفصیل و تشریح سے موجود ہے عورت کے اولیاء عورت کے قتل کی صورت میں قصاص لے سکتے ہیں بشرطیکہ دیت کی آدھی مقدار ادا کردیں ۔ دوسرے لفظوں میں عورت کے قتل کی صورت میں قصاص نہ لینے سے مراد وہ قصاص ہے جو بلا کسی شرط کی ہو لیکن آدھی دیت ادا کرنے کی صورت میں مرد سے قصاص لینا اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ حکم اس لئے نہیں کہ عورت مرتبہ انسانیت پرفائز نہیں یا اس کا خون کم قیمت ہے۔ یہ ایک بیجا اور غیر منطقی تو ہم ہے اور شاید یہ مفہوم خون بہا (خون کی قیمت) سے پیدا ہوا ہے۔ آدھی دیت تو صرف اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے ہے جو مرد سے قصاص لینے کی صورت میں مرد کے خاندان کو پہنچاہے (غور کیجئے گا)

تشویق به عفو

اس کی وضاحت یہ ہے کہ زیادہ تر مرد ہی خاندان کا اقتصادی عضو مؤثر ہوتاہے اور مرد ہی خاندان کے اخراجات اٹھاتاہے اور مرد ہی اپنی اقتصاد ی کار کردگی سے خاندان کی زندگی کا کارخانہ چلاتاہے۔ اس بناء پر مرد اور عورت کے ختم ہونے میں اقتصادی پہلو کا جو فرق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھاجائے تو مقتول مرد کے بیگناہ پسماندگان اور آل اولاد آخر کس جرم میں خسارہ اٹھائیں گے۔ اسلام نے مرد سے عورت کے قتل کا قصاص لینے کی صورت میں آدھی دیت دینے کا قانون معین کرکے سب لوگوں کے حقوق کا لحاظ رکھاہے اور اس طرح ایک خاندان کو جو نا قابل تلافی نقصان ہورہاتھا اس کا ازالہ کیاگیاہے۔ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ لفظ مساوات کے بہانے دوسرے کے حقوق پائمال ہوں جیسے اس شخص کی اولاد کے حقوق جس سے قصاص لیا جارہاہے۔

( iv ) اس مقام پرلفظ ”اخیہ“ کا استعمال:

ایک اور نکتہ جو یہاں اپنی طرف متوجہ کرتاہے وہ یہاں لفظ اخیہ کا استعمال ہے ۔ قرآن برادری کے رشتے کو انسانی معاشرے میں اتنا محکم سمجھتاہے کہ اس کے نزدیک خون نا حق بہانے کے با وجود یہ برقرار رہتاہے لہذا اولیاء مقتول کی انسانی جذبات کو ابھارنے کے لئے انہیں قاتل کو بھائے کہہ کر متعارف کراتاہے اور اس طرح انہیں عفو و مدارات کا شوق دلاتاہے۔ البتہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ہیجان اور غضب و غصے کی حالت میں ایسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اس پر پشیمان ہوں لیکن وہ مجرم جو اپنے کا م پر فخر کریں اور نادم نہ ہوں ، بھائی کہلانے کے لائق نہیں اور نہ ہی عفو و درگذر کے مستحق ہیں ۔

آیات ۱۸۰،۱۸۱،۱۸۲

۱۸۰ ۔( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًان الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِین )

۱۸۱ ۔( فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَی الَّذِینَ یُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )

۱۸۲ ۔( فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا اٴَوْ إِثْمًا فَاٴَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلاَإِثْمَ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

ترجمہ

۱۸۰ ۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا دقت قریب آئے تو چاہئیے کہ وہ ماں اور رشتہ داروں کے لئے شائستہ طور پر وصیت کرے۔ یہ حق ہے پرہیزگاروں پر۔

۱۸۱ ۔ پھر جس نے وصیت سن کراسے بدل ڈالا اس کا گناہ (وصیت) بدلنے والے پرہے۔ خدا تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۱۸۲ ۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وصیت کرنے والے نے انحراف (بعض ورثہ کی طرف ایک طرفہ میلان) یا گناہ (کسی غلط چیز کے لئے وصیت ) سے کام لیاہے اور وہ ورثہ کے در میان صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں (اور اس پروصیت کے تبدیلی کا قانون لاگونہ ہوگا) خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

شائستہ اور مناسب وصیتیں

گذشتہ آیات میں مجرمین کے بارے میں بعض مسائل بیان کرنے کے بعد ان آیات میں ایک لازمی حکم کے طور پر مالی معاملات میں وصیت کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ فرمایا: تم پر لکھ دیاگیاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آجائے تو اپنے مال و منال کے سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں مناسب اور شائستہ وصیت کرے( کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیة للوالدین و الاقربین بالمعروف ) ۔ آیت کے آخر میں مزید فرمایا: یہ پرہیزگاروں کے ذمے ایک حق ہے( حقا علی المتقین ) ۔

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکاہے ”کتب علیکم“ ظاہرا وجوب پر دلالت کرتاہے۔ اس لئے وصیت کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔

بعض اوقات کہاجاتاہے کہ اگر چہ قوانین اسلام کی روسے وصیت ایک عمل مستحب ہے لیکن چونکہ ایسا مستحب ہے جس کی تائید بہت زیادہ ہے لہذا۔”( کتب علیکم ) “کے جملہ سے اس کا حکم بیان کیاگیاہے اس لئے آیت کے آخر میں ”حقا علی المتقین“ آیاہے اگر یہ وجوبی حکم ہوتا تو فرمایا جاتا ”( حقا علی المومنین ) “۔

کچھ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت میراث کے احکام نازل ہونے سے پہلے کی ہے۔ اس وقت اموال کے بارے میں وصیت کرنا واجب تھا۔ تا کہ ورثہ میں اختلاف و نزاع نہ ہو لیکن آیات میراث نازل ہونے کے بعد یہ وجوب منسوخ ہوکر ایک مستحبی حکم کی صورت میں باقی رہ گیا۔

حدیث جو تفسیر عیاشی میں اس آیت کی ذیل میں آئی ہے اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔

یہ بھی احتمال ہے کہ آیت کا یہ حکم ضرورت کے ان مواقع کے لئے ہو جہاں وصیت کرنا ضروری ہے۔

لیکن ان تمام تفاسیر میں پہلی تفسیر حق و حقیقت کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں مال کی جگہ لفظ خیرا استعمال کیاگیاہے ۔ فرمایا کہ اگر کوئی اچھی چیز اپنے ترکے میں چھوڑے تو وصیت کرے۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں وہ دولت و ثروت جو شرعی طریقے سے حاصل کی جائے اور معاشرے کے فائدے کے لئے اچھی راہ پر صرف کی جائے خیر و برکت ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے غلط افکار پر خط بطلان کھینچتی ہے جو مال و دولت ہی کو بری چیز سمجھتے ہیں ۔ اسلام ان کجرو زاہدوں سے بیزار ہے جو روح اسلام کو نہیں سمجھ سکے اور وہ زہد کو فقر و فاقہ کا دوسرا نام سمجھے ہوئے ہیں اور ان کے افکار اسلامی معاشرے میں جمود اور ذخیرہ اندوزوں کے سر اٹھا نے کا سبب بنتے ہیں ۔

ضمنی طور پر یہ تعبیر اس ثروت و دولت کے مشروع اور جائز ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے جس کے بارے میں وصیت کا حکم دیاگیاہے ورنہ انسان کا چھوڑا ہوا غیر مشروع ناجائز مال تو خیر نہیں بلکہ شر ہی شر ہے۔

بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ اموال کافی تعداد میں ہوں ورنہ مختصر مال تو وصیت کا محتاج نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں مختصر مال تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے کہ اس کا تیسرا حصہ وصیت کے ذریعے الگ کردیاجائے۔(۱)

ضمنا ”( اذا حضر احدکم الموت ) “(جب تم میں سے کسی کے پاس موت آ پہنچے) وصیت کے لئے فرصت کے آخری لمحات کو بیان کرتاہے اگر تاخیر ہوجائے تو موقع جاتارہے گا ورنہ کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان پہلے سے احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا وصیت نامہ تیار کرے بلکہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عمل انتہائی مستحسن ہے۔

یہ انتہائی کوتاہ فکری ہے کہ انسان خیالی کرے کہ وصیت کرنا فال بدہے اور اپنی موت کو سامنے لانے کے مترادف ہے بلکہ وصیت تو ایک دور اندیشی اور ناقابل انکار حقیقت کی پہچان ہے اور اگر یہ طول عمر کا سبب نہ بنے تو عمر میں کمی کا تو ہرگز سبب نہیں ہے۔

زیر نظر آیت میں وصیت کو ”بالمعروف“ سے مقید کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ وصیت ہر لحاظ سے عقل مندانہ ہو، لیکن معروف کا معنی ہے عقل و خرد کی پہچانی ہوئی (عرف عقلا)۔

جس شخص کے لئے وصیت کی جارہی ہو اس کے لئے مقدار رکے لحاظ سے اور دیگر جہات سے ایسی ہو کہ عقلا اسے مدبرانہ سمجھیں نہ یہ کہ وہ تفریق اور نزاع کا باعث بن جائے۔

جب وصیت تمام مذکورہ صفات کی جامع ہو تو وہ ہر لحاظ سے محترم اور مقدس ہوگی اور اس میں کسی طرح کا تغیر و تبدل حرام ہے۔ اسی لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیاہے: جو کوئی وصیت سننے کے بعد اس میں تبدیلی کرے اس کا گناہ تبدیلی کرنے والے کے سر ہے (فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ) اور اگر ان کا گمان ہے کہ خدا ان کی سازشوں اور مخفی کارروائیوں سے بے خبر ہے تو وہ سخت اشتباہ میں ہیں کیونکہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔( ان الله سمیع علیم ) ۔ ممکن ہے یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ وصی (وہ شخص جووصیت کرنے والے کی موت کے بعد وصیتوں پر عملدر آمد کے لئے ذمے دارہے) کی خلاف ورزی کبھی وصیت کرنے والے کے اجر و ثواب کو ختم نہیں کرسکتی۔ وہ اپنا اجر پاچکا ہے ۔ گناہ کا طوق فقط وصی کی گردن کے لئے ہے جس نے وصیت کی مقدار ، کیفیت یا اصلی وصیت میں تبدیلی کی ہے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مقصدیہ ہو کہ اگر وصی کی خلاف ورزی کی وجہ سے میت کا مال ایسے افراد کودے دیاجائے جو اس کے مستحق نہیں اور وہ اس سے بے خبر بھی ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ گناہ صرف وصی کو ہوگا جس نے دانستہ طور پر یہ غلط کام انجام دیاہے۔ توجہ رہے کہ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے سے متضاد نہیں اور ممکن ہے آیت ان دونوں مفاہیم کے لئے ہو۔

اب یہ حکم اسلامی واضح ہوگیا کہ وصیتوں میں ہر طرح کا تغیر و تبدل جس صورت میں ہو اور جس قدر ہو گناہ ہے۔ لیکن ہر قانون میں کچھ استثنائی پہلو ہوتے ہیں ۔ لہذا زیر نظر آخری آیت میں فرمایاگیاہے: جب وصی کو وصیت کرنے والے میں انحراف اور کجروی کا اندیشہ ہو، یہ انحراف چاہے بے خبری سے ہو یا جان بوجھ کر آگاہی کے با وصف ہو اور وہ اس کی اصلاح کرے تو وہ گنہ گار نہ ہوگا اور وصیت کی تبدیلی کا قانون اس پر لا گونہ ہوگا۔ خدا بخشنے والا مہربان ہے( فمن خاف من قوص جنفا او اثما فاصلح بینهم فلا اثم علیه ان الله غفور رحیم ) ۔

اس بناء پر استثناء صرف ان مواقع کے لئے ہے جہاں وصیت شائستہ و مناسب نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وصی تغیر کا حق رکھتاہے۔ اگر وصیت کرنے والا زندہ ہے تو اپنا نقطہ نظر اس کے گوش گزار کرے تا کہ وہ خود تبدیلی کردے اور اگر وہ مرگیا ہو تو خود یہ تبدیلی کرے اور تبدیلی کا یہ اختیار مندرجہ ذیل مواقع کے لئے منحصر ہے۔

۱ ۔ اگر وصیت کل ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ ہو کیونکہ رسول اکرم اور اہل بیت سے بہت سی روایات میں منقول ہے کہ انسان ایک تہائی تک کے مال کی وصیت کرنے کا مجاز ہے اور اس سے زیادہ ممنوع ہے۔ ہمارے فقہا نے بھی فقہی کتب میں یہی فتوی دیاہے۔(۲)

اس بناء پر جن ناواقف لوگوں کا یہ معمول ہے کہ وہ تمام اموال وصیت کے ذریعے تقسیم کردیتے ہیں کسی طرح بھی قوانین اسلام کے روسے صحیح نہیں اور وصی پر لازم ہے کہ وہ اس کی اصلاح کرے اور ایک تہائی سے زیادہ اس طرح سے تقسیم نہ کرے۔

۲ ۔ اگر وصیت ظلم، گناہ اور غلط کام سے متعلق ہو۔ مثلا کوئی وصیت کرے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ مراکز فساد کو وسیع کرنے میں صرف کیاجائے اور اسی طرح اگر وہ وصیت کسی ترک واجب کا سبب بنے۔

۳ ۔ اگر وصیت پر عمل درآمد، نزاع، فساد اور خون ریزی کا سبب ہو تو یہاں حاکم شرع کے حکم سے اصلاح ہوسکتی ہے۔جنف (بروزن کنف) کا معنی ہے حق سے انحراف اور باطل کے طرف میلان۔ یہ وصیت کرنے والے کے جاہلانہ انحرافات اور کجرویوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور ”اثم“ گناہ عمد کی طرف اشارہ ہے۔

جملہ ”ان اللہ غفور رحیم“ جو اس آیت کے آخر میں آیاہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر وصی وصیت کرنے والے کے غلط کام کی اصلاح کے لئے اقدام کرے اور راہ حق کو کھول دے تو خدا اس کی خطاسے صرف نظر کرے گا۔

____________________

۱ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۱۵۹۲- وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۲۶۱ (کتاب احکام الوصایا، باب ۱۰

و صیت کا فلسفہ:

قانون میراث سے صرف کچھ معین رشتے دار بہرہ مند ہوتے ہیں جب کہ ممکن ہے خاندان کے اور افراد یا بعض اوقات قریبی دوست احباب مالی امداد کی سخت احتیاج رکھتے ہوں اسی طرح ورثہ میں سے بھی کبھی وراثت کا حصہ کی ضروریات کی کفالت نہیں کرسکتا لہذا قانون اسلام کی جامعیت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ خلا پر نہ ہو، اسی لئے اس نے قانون میراث کے ساتھ ساتھ قانون وصیت بھی رکھاہے اور مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے مال کے تیسرے حصے کے متعلق اپنے بعد کے لئے کوئی مستحکم پروگرام بنائیں اور اسے اپنے مقصد میں صرف کریں ۔

علاوہ ازیں بعض اوقا ت انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کوئی اچھا کام انجام دے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اپنی مالی ضروریات کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتا تو عقلی منطق واجب قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے ان اموال سے جن کے حصول کے لئے اس نے زحمت اٹھائی ہے کار خیر کے انجام دینے سے بالکل محروم نہ ہو۔

ان سب امور کی وجہ سے اسلام میں قانون وصیت رکھا گیاہے اور اس کی اس حد تک تاکید کی گئی ہے کہ اسے ایک وجوبی اور ضروری حکم کی حد تک پہنچا دیاگیاہے اور ”حقا علی المتقین“ کے جملے سے اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

وصیت صرف مندرجہ بالا امور میں منحصر نہیں بلکہ انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنے قرض اور ان امانتوں کے متعلق جو اسے سپرد کی گئی ہیں اور دیگر امور کے بارے میں اپنی وصیت کو واضح طور پر بیان کرے۔ اس طرح سے کہ حقوق الناس اور حقوق اللہ میں سے اس کی کوئی ذمہ داری مبہم نہ رہ جائے۔

روایات اسلامی میں وصیت کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک روایت میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا: ما ینبغی لامرء مسلم ان یبیت لیلة الا وصیتہ تحت راسہ

کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ رات سوئے مگر اس کا وصیت نامہ اس کے سرکے نیچے نہ ہو۔ ۱

سرکے نیچے ہونا، یہاں تاکید کے لئے ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وصیت نامہ تیار رکھنا چاہئیے۔

ایک اور روایت میں ہے:من مات بغیر وصیة مات میتته جاهلیة

جو شخص بغیر وصیت کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ۲

____________________

۱ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲

۲ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲

۱ ۔ نفاق کی پیدائش اور اس کی جڑیں :

جب کسی علاقے میں کوئی انقلاب آتاہے خصوصا اسلام جیسا انقلاب جس کی بنیاد حق وعدالت پر ہے تو مسلما غارت گروں ، ظالموں او رخود سروں کے منافع کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو وہ پہلے تمسخر سے پھر مسلح قوت، اقتصادی دباؤ اور مسلسل اجتماعی پرا پیگنڈہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کو درہم و برہم کردیں ۔

جب انقلاب کی کامیابی کا پرچم علاقے کی قوتوں کو سربلند نظر آتا ہے تو مخالفین کا ایک گروہ اپنی تکنیک اور روش ظاہری کو بدل دیتا ہے اور ظاہرا انقلاب کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن وہ زیر زمین مخالفت کا پروگرام تشکیل دیتا ہے۔

یہ لوگ جو دومختلف چہروں کی وجہ سے منافق کہلاتے ہیں انقلاب کے خطرناک ترین دشمن ہیں (منافق کا مادہ نفق ہے یہ بروزن شفق ہے جس کے معنی زیر زمین نقب او رسرنگ کے ہیں جس سے چھپنے یابھاگنے کا کام لیا جاتا ہے)۔ ان کا موقف پورے طور پر مشخص نہیں ہوتا لہذا انقلابی انہیں پہچان نہیں پاتے کہ خود سے انہیں دور کردیں وہ لوگ پاک باز اور سچے لوگوں میں گھس جاتے ہین یہاں تک کہ کبھی کبھی اہم ترین پوسٹ پر جا پہنچتے ہیں ۔

جب تک پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور مسلمانوں کی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔ ایسا گروہ سرگرم عمل نہیں ہوا لیکن نبی اکرم (ص) جب مدینہ میں آگئے تو حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور جنگ بدر کی کامیابی کے بعد یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگیایعنی رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت جوقابل رشد تھی، قائم ہوگئی۔

یہ وہ موقع تھا کہ مدینہ کے گدی نشینوں خصوصایہودیوں کے (جو اس زمانے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) بہت سے منافع خطرے میں پڑگئے۔

اس زمانے میں یہودیوں کازیادہ احترام اس وجہ سے تھا کہ وہ اہل کتاب او رنسبتا پڑھے لکھے لوگ تھے اورو ہ اقتصادی طور پر بھی آگے تھے حالانکہ یہی لوگ ظہور پیغمبر (ص) سے پہلے اس قسم کے امور کی خوش خبری دیتے تھے۔ مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے سر میں لوگوں کی سرداری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن رسول خدا کی ہجرتسے ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ظالم سرداروں ، سرکشوں اور ان غارت گروں کے حمایتیوں نے دیکھا کہ عوام تیزی سے نبی اکرم (ص) پر ایمان لا رہے ہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ایک عرصے تک مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں ، کیونکہ علم مخالفت بلند کرنے میں جنگی مشکلات اوراقتصادی صدمات کے علاوہ ان کی نابودی کا خطرہ تھا خصوصاعرب کی پوری قوت بھی آپ(ص) کے ساتھ تھی اور ان لوگوں کے قبیلے بھی ان سے جدا ہوچکے تھے۔

اس بناء پر انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہیہ کہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں اور مخفی طور پر اسلام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنائیں ، خلاصہ یہ کہ کسی معاشرے میں نفاق کے ظہور کی ان دو وجوہ میں سے ایک ہوتی ہے :

الف : کسی انقلاب کی کامیابی اور معاشرے پر اس کا تسلط

ب : نفسیاتی کمزوری اور سخت حوادث کے مقابلے میں جرآت و ہمت کا فقدان

۲ ۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے :

۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے : اس میں شک و شبہ نہیں کہ نفاق اور منافق زمانہ پیغمبر(ص) سے مخصوص نہ تھے بلکہ ہر معاشرے میں اس گروہ کا وجود ہوتا ہے البتہ ضروری ہے کہ قرآن کے دئیے ہوئے معیار کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جائے تاکہ وہ کوئی نقصان یاخطرہ پیدا نہ کرسکیں ۔ زیر مطالعہ آیات کے علاوہ سورہ منافقین اور روایات اسلامی میں ان کی مختلف نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :

الف : زیادہ شور شرابہ اور بڑے بڑے دعوے۔ باتیں بہت ،عمل کم اور قول و فعل میں تضاد ہونا۔

ب : ہر جگہ کے رنگ کو اپنا لینا اور ہر گروہ کے ساتھ ان کے ذوق کے مطابق گفتگو کرنا۔ مومنین سے ”آمنا“ کہنا اور مخالفین سے ”انامعکم“۔

ج : عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ،خفیہ انجمنیں قائم کرنا اور پوشیدہ منصوبے بنانا۔

د : دھوکہ دہی مکرو فریب ، جھوٹ، تملق ، چاپلوسی، پیمان شکنی اور خیانت کی راہ چلنا۔

ھ : اپنے تئیں بڑا سمجھدار گرداننا اور دوسروں کو ناسمجھ، بیوقوف اور نادان قرار دینا۔

خلاصہ یہ کہ دو رخی اور اندرونی تضاد منافقین کی واضح صفت ہے، ان کا انفرادی و اجتماعی چال چلن ایسا ہوتا ہے جس سے انہیں واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔

قرآن حکیم کی یہ تعبیر کتنی عمدہ ہے کہ ”ان کے دل بیمار ہیں “ ( فی قلوبھم مرض)۔ کون سی بیماری ظاہر و باطن کے تضاد سے بدتر ہے او رکون سی بیماری اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور سخت حوادث کے مقابلے سے فرار سے بڑھ کرہے۔

جیسے دل کی بیماری جتنی بھی پوشیدہ ہو اسے کاملا مخفی نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اس کی علامت انسان کے چہرے اور تمام اعضاء بدن سے آشکار ہوتی ہیں ۔ نفاق کی بیماری بھی اسی طرح ہے جو مختلف مظاہر کے ساتھ قابل شناخت ہے اور اندرونی نفاق کی بیماری کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔

تفسیرنمونہ سورہ نساء آیت ۱۴۱ تا ۳۴۱ میں بھی صفات منافقین کے بارے میں بحث کی گئی ہے نیز سورہ توبہ آیت ۴۹ تا ۵۷ کے ذیل میں بھی اس سلسلے میں کافی بحث ہے اور سورہ توبہ آیت ۶۲ تا ۸۵ کے ذیل میں بھی ایسی ابحاث موجود ہیں ۔

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت :

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت : اگر چہ نفاق اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے ان بے ایمان لوگوں کے لئے ہے جو ظاہرا مسلمانوں کی صف میں داخل ہوں لیکن باطنی طور پر کفر کے دلدادہ ہوں لیکن نفاق کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار کے تضاد پر محیط ہے چاہے یہ چیز مومن افراد میں پائی جائے جنہیں ہم ” دور گہ ہائے نفاق“ (یعنی ۔ ایسے انسان یا حیوان جن کے ماں باپ مختلف نسل سے ہوں ) کہتے ہیں ۔

مثلا حدیث میں ہے :ثلاث من کن فیه کان منافقا و ان صام و صلی و زعم انه مسلم من اذا ائتمن خان و اذا حدث کذب و اذا وعدا خلف ۔

تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ( اور وہ صفات یہ ہیں ) جب امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے(۱) ۔

مسلم ہے کہ ایسے اشخاص اس خاص معنی کے لحاظ سے منافق نہیں تاہم نفاق کی جڑیں ان میں پائی جاتی ہیں ، خصوصا ریا کاروں کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :الریاء شجرة لا تثمر الا الشرک الخفی و اصلها النفاق ۔

یعنی ریا کاری و دکھاوا ایسا (تلخ) درخت ہے جس کا پھل شرک خفی کے علاوہ کچھ نہیں اوراس کی اصل اور جڑ نفاق ہے( ۲) ۔

یہاں پر ہم آپ کی توجہ امیرالمومنین علی(ع) کے ایک ارشاد کی طرف دلاتے ہیں جو منافقین کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا :

اے خدا کے بندو ! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں اور منافقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں گو گمراہ کرتے ہیں ، خود خطا کار ہیں اور دوسروں کو خطا ؤں میں ڈالتے ہیں ، مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں ، مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں ، ہر طریقے سے تمہیں پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چال چلتے ہیں ۔ ان کی گفتگو ظاہرا تو شفا بخش ہے لیکن ان کا کردا ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ۔ لوگوں کی خوش حالی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں ۔ امید رکھنے والوں کو مایوس کردیتے ہیں ۔ ہر راستے میں ان کا کوئی نہ کوئی مقتول ہے۔ ہردل میں ان کی راہ ہے اور ہر مصیبت پر ٹسوے بہاتے ہیں ۔ مدح و ثنا ایک دوسرے کو بطور قرض دیتے ہیں اور جزا و عوض کے منتظر رہتے ہیں اگر کوئی چیز لینی ہو تو اصرار کرتے ہیں اور اگر کسی کو ملامت کریں تو اس کی پردہ دری کرتے ہیں( ۳) ۔ ۔

____________________

۱۔ سفینة البحار، جلد ۲ ص ۶۰۵۔

۲۔ سفینة البحار جلد۱ مادہ رئی۔

۳۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۴

۴ ۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں :

۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں : نہ صرف اسلام بلکہ ہر انقلابی اور ارتقاء پسند آئین و دین کے لئے منافقین خطرناک ترین گروہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس جاتے ہین اور حوصلہ شکنی کےلئے ہر موقع غنیمت سمجھتے ہیں ۔ کبھی سچے مومنین کا اس پر بھی تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مختصر سرمایہ راہ خدا میں خرچ کیا ہے جیسے قرآں کہتے ہے :( الذین یلمزون المطوعین من الومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب الیم ) ۔

وہ مخلصین مومنین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے مختصر سرمایہ کو بے ریا راہ خدا میں ) خرچ کیا ۔ خدا ان سے استہزاء کرتاہے اور درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (توبہ ۷۹) ۔

کبھی وہ اپنی خفیہ میٹنگوں میں فیصلہ کرتے کہ رسول خدا (ص) کے اصحاب سے مالی امداد کلی طور پر منقطع کردیں اور آپ سے الگ ہوجائیں جیسے سورہ منافقون میں ہے :( هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضوا والله خزائن السموات والارض و لکن المنافقین لا یفقهون ) ۔

وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان سے مالی امداد منقطع کر لو تاکہ وہ آپ کے گردو پیش سے منتشر ہوجائیں ۔ جان لو کہ آسمان و زمین کے خزانے خدا کے لئے ہیں لیکن منافق نہیں جانتے (منافقون ۷) ۔

کبھی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جنگ سے مدینہ واپس پہنچنے پر متحد ہو کر مناسب موقع پر مومنین کو مدینہ سے نکال دیں گے اور کہتے تھے :

( لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منها الاذل ) ۔

اگر ہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے تو عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔(منافقون ۸) ۔

کبھی مختلف بہانے بنا کر (مثلا فصل کے محصولات کی جمع آوری کابہانہ) جہاد کے پروگرام میں شریک نہ ہوتے تھے اور سخت مشکلات کے وقت نبی اکرم (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہوجائے مبادا اس طرح انہیں رسوائی کا سامناکرنا پڑے۔

ان کی معاندانہ حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر سخت وار کئے ہیں اور قرآن مجید کی ایک سورت (منافقون) ان کے طور طریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، توبہ،حشر اوربعض دوسری سورتوں میں بھی انہیں ملامت کی گئی ہے اور اسی سورہ بقرہ کی تیرہ آیات انہی کی صفات اور انجام بد سے متعلق ہیں ۔

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا :

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا : مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی مشکل منافقین سے رابطے کے سلسلے میں تھی کیونکہ ایک طرف تو وہ مامور تھے کہ جو شخص اظہار اسلام کرے کشادہ روئی سے استقبال کیا جائے اور ان کے عقائد کے سلسلے میں جستجو اور تفتیش نہ کی جائے اور دوسری طرف منافقین کے منصوبوں کی نگرانی کا کام تھا۔ منافق اپنے تئیں جب حق کا ساتھی اور ایک فرد مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرواتا تو ا س کی بات قبول کرنا پڑتی جب کہ باطنی طور پر وہ اسلام کے لئے سد راہ ہوتا اور اس کے خلاف سوگند کھائے ہوئے دشمنوں میں سے ہوتا۔ یہ گروہ اس راہ کو اپنا کر اس زعم میں تھا کہ خدا اور مومنین کو ہمیشہ دھوکہ دے سکے گا۔ حالانکہ یہ لوگ لا شعوری طور پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔

یخادعون اللہ والذین آمنوا کی تعبیر دقیق معنی دیتی ہے (مخدوعہ کے معنی ہیں دونوں طرف سے دھوکہ دینا)یہ لوک ایک طرف تو کور باطنی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے تھے کہ نبی اکرم(ص) دھوکہ باز ہیں اور انہوں نے حکومت کے لئے دین و نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں لہذا ان کا مقابلے میں دھوکا ہی کرنا چاہئے۔ اس بناء پر ان منافقین کا کام ایک طرف تو دھوکا وفریب تھا دوسری طرف نبی اکرم(ص) کے بارے میں اس قسم کا غلط اعتقاد رکھتے تھے لیکن جملہ ”( و ما یخدعون الا انفسهم و مایشعرون ) “ ان کے دونوں ارادوں کو خاک میں ملاتا ہوا نظر آتا ہے یہ جملہ ایک طرف تویہ ثابت کرتا ہے کہ دھوکہ و فریب صرف انہی کی طرف سے ہے ۔ دوسری طرف کہتا ہے کہ اس فریب کی باز گشت بھی انہی کی طرف ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کا اصلی سرمایہ جو حصول سعادت کے لئے خدا نے ان کے وجود میں پیداکیا ہے وہ اسے دھوکہ و فریب کی راہ میں برباد کر رہے ہیں اور ہر خیر و نیکی سے تہی دامن اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے دنیا سے جارہے ہیں ۔

کوئی شخص بھی خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ظاہر وباطن سے باخبر ہے اس بناء پر یخادعون اللہ سے تعبیر کرنا اس لحاظ سے ہے کہ رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکا دینا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے (دوسرے مواقع پر بھی قرآن میں ہے کہ خدا وند عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی تعظیم کے لئے خود ان کی صف میں بیان کرتا ہے) یاپھر یہ لوگ صفات خدا کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنی کوتاہ و ناقص فکر سے واقعا یہ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہو ایسی نظیر قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

بہرحال زیر نظر آیت وجدان کو دھوکا دینے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گمراہ اور گناہ سے آلودہ انسان برے اور غلط اعمال کے مقابلے میں وجدان کی سزا و سرزنش سے بچنے کے لئے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تئیں مطمئن کر لیتا ہے کہ نہ صرف اس کا عمل برا اور قبیح نہیں بلکہ باعث اصلاح ہے اور فساد کے مقابلے میں( انما نحن مصلحون ) یہ اس لئے کہ وجدان کو دھوکہ دے کرا طمینان سے غلط کام کو جاری رکھ سکے۔

امریکہ کےایک صدر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ( ہیرو شیما اور ناگا ساکی) کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا جب کہ اس سے دو لاکھ افراد بچے، بوڑھے اور جوان ہلاک یا ناقص الاعضاء ہوگئے تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو جنگ طویل ہوجاتی اور پھر زیادہ افراد کو قتل کرنا پڑتا۔

گویا ہمارے زمانے کے منافق بھی اپنے وجدان یا لوگوں کو دھوکادینے کے لئے ایسی باتیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں حالانکہ جنگ جاری رکھنے یا شہر کو ایٹم بم سے اڑانے کے علاوہ تیسری واضح راہ بھی تھی وہ یہ کہ توسیع پسندی سے ہاتھ اٹھالیں اور قوموں کو ان کے ملکوں کے سرمائے کے ساتھ آزادانہ رہنے دیں ۔

نفاق حقیقت میں وجدان کو فریب دینے کا وسیلہ ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان اس اندرونی واعظ ، ہمیشہ بیدار و پہریدار اور خدا کے باطنی نمائندے کا گلا گھونٹ دے یا اس کے چہرے پر اس طرح پردہ ڈال دے کہ اس کی آواز کان تک نہ پہنچے

۶ ۔ نقصان زدہ تجارت :

۔ نقصان زدہ تجارت : اس دنیا میں انسان کی کار گزاریوں کو قرآن مجید میں بار ہا ایک قسم کی تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقیقت میں ہم سب اس جہان میں تاجر ہیں اور خدا نے ہمیں عقل،فطرت، احساسات، مختلف جسمانی قوی، نعمات دنیا طبیعت اور سب سے آخر میں انبیاء کی رہبری کا عظیم سرمایہ عطا فرما کر تجارت کی منڈی میں بھیجا ہے۔ ایک گروہ نفع اٹھاتا ہے اور کامیاب و سعادت مند ہوجاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ نہ صرف یہ کہ نفع حاصل نہیں کرتا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور مکمل دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ پہلے گروہ کا کامل نمونہ مجاہدین راہ خدا ہیں جیسا کہ قرآن ان کے بارے میں کہت ہے :

( یا ایها الذین آمنوا هل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله باموالکم و انفسکم ) ۔

اے ایمان والو ! کیا تمہیں ایسی تجارت کی راہنمائی نہ کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور سعادت ابدی کا ذریعہ ہو) خدا اور اس کے سول پر ایمان لے آؤ اور اس کی راہ میں مال وجان سے جہاد کرو۔ (صف ، ۱۰،۱۱) ۔

دوسرے گروہ کا واضح نمونہ منافقین ہیں ۔ منافقین جو مخرب اور مفسد کام اصلاح و عقل کے لباس میں انجام دیتے تھے۔

قرآن گذشتہ آیات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” وہ ایسے لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا ہے اور یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش ہے نہ ہی باعث ہدایت۔ وہ لوگ ایسی پوزیشن میں تھے کہ بہترین راہ انتخاب کرتے۔ وہ وحی کے خوشگوار او رمیٹھے چشمے کے کنارے موجود تھے اور ایسے ماحول میں رہتے تھے جو صدق و صفا اورایمان سے لبریز تھا۔

بجائے اس کے کہ وہ ا س خاص موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے جو طویل صدیوں میں ایک چھوٹے سے گروہ کو نصیب ہوا، انہوں نے ایسی ہدایت کھو کر گمراہی خرید لی جو ان کی فطرت میں تھی اور وہ ہدایت جو وحی کے ماحول میں موجزن تھی۔ ان تمام سہولتوں کو وہ اس گمان میں ہاتھ سے دے بیٹھے کہ اس سے وہ مسلمانوں کوشکست دے سکیں گے اور خود ان کے گندے دماغوں میں پرورش پانے والے برے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جبکہ اس معاملے اور غلط انتخاب میں اہیں دو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا :

الف : ایک یہ کہ ان کا مادی اور معنوی دونوں قسم کا سرمایہ تباہ ہوگیا اور اس سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہ پہنچا۔

ب : دوسرا یہ کہ وہ اپنے غلط مطمع نظر کو پا بھی نہ سکے کیونکہ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور صفحہ ہستی پر محیط ہوگیا اور یہ منافقین بھی رسوا ہوگئے۔


8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41