تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73003
ڈاؤنلوڈ: 3873


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73003 / ڈاؤنلوڈ: 3873
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

دعا او ر تضرع و زاری

خدا کے ساتھ بندوں کے ارتباط کا ایک وسیلہ دعا اور تضرع و زاری ہے لہذا گذشتہ آیات میں چند اہم اسلامی احکام بیان کر نے کے بعد زیر بحث آ یت میں اس کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ دعا خدا سے مناجات کر نے وا لے سب لوگوں کے لئے اپنے اندر ایک عمومی پردگرام لئے ہو ئے ہے لیکن روزے سے آیات کے در میان اس کا ذکر اسے ایک نیا مفہوم عطا کر تا ہے۔

روزہ داروں کی ذمہ داریاں بیان کر نے سے قبل اس آیت کے ذریعے قرآ ن روزے کے ایک اور راز کی طرف اشارہ کرتا ہے جو و ہی قرب الہی ہے اور اس سے راز و نیاز کرناہے ۔

اس آیت کار و ئے سخن پیغمبر کی طرف ہے فرمایا: جس وقت میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو کہد و کہ میں نزدیک ہوں( وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیب ) ۔

اس سے زیادہ قریب کہ جس کا تم تصور کر سکتے ہو، تم سے تمہاری نسبت بھی زیاد ہ نزدیک اور تمہاری رگ حیات سے بھی زیادہ قریب( وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِید ) (ِ اور ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ (قٓ۔ ۱۶) اس کے بعد مزید فرمایا: جب دعا کر نے والا مجھے پکار تا ہے تو میں اس کا جوا ب دیتا ہوں( اجیب دعوة الداع اذا دعان ) ۔ اس لئے میرے بندوں کو چاہیئے کہ وہ میری دعوت قبول کریں( فلیستجیبوالی ) اور مجھ پر ایمان لے آئیں( وَلْیُؤْمِنُوا بِی ) ۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی راہ پالیں اور مقصد تک جا پہنچیں( لعلهم یرشدون ) ۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ خدا نے اس مختصر سی آیت میں سات مرتبہ ذات پاک کی طرف اور سات، ہی مرتبہ بندوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس طرح اللہ نے بندوں سے اپنی انتہائی وابستگی، قربت، ارتباط اور ان سے اپنی محبت کی عکاسی کی ہے عبداللہ بن سنان کہتا ہے میں نے امام صادق (ع )سے سنا آپ نے فرمایا:

دعا کیا کرو کیو نکہ دہ خدا کی بخشش کی چابی ہے ۔ اور ہر حاجت تک پہنچنے کے لیے وسیلہ کی قوت ہے سب نعمتیں اور رحمتیں پروردگار کے پاس ہیں جن تک دعا کے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا۔ کسی در وازے کو کھٹکھٹا تے ہو تو بالآخرہ کھل جا ئے گا۔(۱)

جی ہاں ۔۔۔۔وہ ہم سے نزدیک ہے ۔ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہم سے دور ہو حالا نکہ اس کا مقام ہمارے اور ہمارے دل کے در میان ہے۔

( و اعملوا ان الله یحول بین المرء و قلبه )

او ر جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے در میان حائل ہوتا ہے۔ (انفال۔ ۲۴)

____________________

۱ اصول کافی ، ج۲، ۴۶۸

دعا اور زاری کا فلسفہ:

جولوگ دعا کی حقیقت، اس کی روح، اس کے تربیتی و نفسیاتی اثرات کو نہیں سمجھتے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، پیش رفت او رکامیابی کے وسائل کے بجا ئے اسی راہ پرلگا دیتی ہے اور انہیں سبق دیتی ہے کہ کوششوں کے بدلے اسی پر اکتفا کرو۔

معترضین کبھی کہتے ہیں کہ دعا اصولی طور پر خدا کی معاملات میں بے کار دخل اندازی ہے۔ خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام د ے گا ۔ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح کو جانتا ہے پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسندکے مطابق اس سے سوال کرتے رہےں ۔

کبھی کہتے ہیں کہ ان تمام امور کے علاوہ دعا، ارادہ الہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے منافی ہے۔ جولوگ ایسے سوالات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی او ر معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں ۔ انسان ارادے کی تقویت اور د کھ در د کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے اور دعا انسان کے دل میں چراغ وامید روشن کردیتی ہے۔ جولوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچا رہوتے ہیں ۔

ایک مشہور ما ہر نفسیات کا قول ہے کہ کسی قوم میں دعا و زاری کا فقدان ا س ملت کے تباہی کے برابر ہے۔

وہ قوم جو احتیاج دعا کا گلا گھونٹ دے وہ عموما فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔

البتہ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ صبح کے وقت دعا و زاری کرنا اور باقی ساردان ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا بے ہودہ او رفضول ہے ۔ دعا کو مسلسل جاری رہنا چا ہیئے ۔ تا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ انسان اس کے گہر ے اثر سے ہاتھ دھو میٹھے۔(۱)

جولو گ سمجھتے ہیں کہ دعا کاہلی و سستی کا سبب بنتی ہے وہ دعا کا معنی ہی نہیں سمجھے کیو نکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ طبیعی وسائل و اسباب سے ہاتھ کھیچ لیا جائے اور ان کے بجا ئے بس دست دعا، بلند رکھا جائے بلکہ مقصو دیہ ہے کہ تمام موجود وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصدتک نہ بہنچ پا رہا ہو تو دعا کا سہارالے توجہ کے ساتھ خدا پر بھر وسہ کرتے ہوئے اپنے اندر امید اور حرکت کی روح کو بیدار کرے اور اس مبداء عظمی کی بے پناہ نصر توں میں سے اپنے لئے مدد حاصل کرے ۔ لہذا دعا مقصد تک نہ پہنچ پانے اور رکا وٹوں کی صورت میں ہے نہ کہ یہ طبیعی عوامل کے مقابلے میں کوئی عامل ہے۔ مذکور ہ ما ہرنفسیات، مزید لکھتاہے :

اس کے علاوہ کہ دعا اطمینان پیدا کرتی ہے یہ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے اور باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے۔ بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح بیداری کے لئے تحریک کا کام بھی دیتی ہے دعا کے ذریعے انسان پر بہت سے علامات ظاہر ہوتے ہیں ۔ نگاہ کی پاکیزگی،کردار کی متانت ، باطنی انبساط و مسرت ، پر اعتماد چہرہ ، استعداد ہدایت اور استقبال حوادث سب دعا کے مظاہر ہیں ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو دعا کرنے والے کی روح کی گہرائی اور اس کے جسم میں چھپے ہو ئے ایک خزائے کی ہمیں خبر دیتی ہیں ۔ دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقے سے کا رآمد بنا لیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ تاہے کہ ہماری دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو دعا کے حقیقی رخ کو پہچان سکیں ۔(۲)

جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منانی ہے کیونکہ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہم تشریح کرچکے ہیں دعا پروردگار کے فیض بے پایاں سے زیادہ سے زیادہ کسب کمال کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دعا کے ذریعے پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت پیدا کرلیتا ہے اور واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے نہ کہ اس کے منافی۔

علاوہ از ین دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی ہے ۔ انسان دعا کے ذریعہ ذات الہی کے ساتھ ایک وابستگی پیدا کر لیتا ہے اور جیسے تمام عبادات تربیتی اثر رکھتی ہیں دعا بھی ایسے اثر کی حامل ہوتی ہے۔ چاہے قبولیت تک پہنچے یا نہ پہنچے۔

جولوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا د یتا ہے وہ اس طرف متوجہ نہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے مطابق تقسیم ہو تے ہیں ، جتنی استعداد و لیاقت زیادہ ہو گی انسان کوعطیات بھی اسی قدر نصیب ہو نگے۔ امام صادق فرماتے ہیں :

ان عند الله عزوجل منزلة لا تنال الا بمسالة )(۳)

خدا کے ہاں ایسے مقامات و منازل ہیں جومانگے بغیر نہیں مل سکتے ۔

ایک صاحب علم ،کا قول ہے :

جب ہم دعا کر تے ہیں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسی لا متناہی قوت سے متصل و مربوط کر لیتے ہیں جس نے ساری کا ئنات کی اشیاء کو ایک دو سر ے سے پیوست کر رکھا ہے۔(۴)

اسی صاحب علم کا کہنا ہے:

ٓآج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات ( psychology ) بھی یہی تعلیم دیتاہے جو انبیا دیا کر تے تھے چنانچہ نفسیات کے ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دعااور نماز اور دین پر محکم ایمان ۔۔۔۔اضطراب ، تشویش ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جوہمار ے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ، حصہ ہے(۵)

____________________

۱ نیائش الکیس کارل

۲ نیائش الکیس کارل

۳- اصول کافی ، ج۲، ص۳۴۸

۴- آئین زندگی، ص۱۵۶

۵- آئین زندگی، ص۱۵۶

دعا کا حقیقی مفہوم:

ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ دعا کا مقام وہ ہے جہاں قدرت و طاقت جواب دے جائے نہ وہ کہ جہاں طاقت و توانائی کی رسائی ہو۔ دو سر ے لفظوں میں اجابت و قبولیت کے قابل وہ دعا ہے( اٴَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ ) (نمل۔ ۶۲) اس آیت کامفہوم یہ ہے: کون ہے جو کسی مصیبت زدہ اور بے قرار کی دعا سنتاہے اور اس کی فریاد رسی کرکے اسے مصیبت سے نجات دلاتاہے: مترجم)

کے مطابق اضطرار اور تمام کوششوں اور مساعی کے بے کار ہو جا نے پر ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ دعا ان اسباب و عوامل کی فراہمی کے لئے کی جاقی ہے جو انسانی بساط سے با ہر ہوں اور ان کا تقاضا اس کی بارگاہ میں کیا جا تا ہے جس کی قدرت لا متناہی ہے اور جس کے لئے ہر فعل ممکن، آسان ہے۔ لیکن چاہیئے کہ یہ درخواست فقط انسان کی زبان سے نہ نکلے بلکہ اس کے تمام وجود سے نکلے اور زبان اس سلسلے میں تمام ذرات ہستی اور اعضا و جوارح کی نمائند گی کرے اور قلب و روح دعا کے ذریعے اس سے قریبی تعلقات پیدا کر لے ۔ اس قطر ے کی طرح جو بے کنار سمند رسے مل جاتا ہے قدرت اس عظیم مبدا کے ساتھ اتصال معنوی حاصل کرلے۔ ہم جلد ہی اس ارتباط اور تعلق کے روحانی اثرات پر بحث کریں گے۔

البتہ متوجہ رہنا چا ہیئے کہ دعا کی ایک قسم وہ بھی ہے جو قدرت و توانائی کے ہو تے ہوئے انجام پاتی ہے تا ہم وہ دعا بھی اسباب ممکنہ کی قائم مقام نہیں ہو سکتی اور وہ دعا وہ ہے جو اس بات کی نشاند ہی کرتی ہے کہ اس جہان کی تمام قدرتیں اور توانائیاں پرودگار عالم کی قدرت کے مقابلے میں استقلال نہیں رکھتیں دو سر ے لفظو ں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس حقیقت کی طرف متوجہ رہا جائے کہ طبیعی عوامل اور اسباب کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس ذات با برکت کی طرف سے ہے اور اس کے حکم و فرمان سے ہے۔ اگر کوئی دوا کے ذریعے شفاء کا خواہاں ہوتا ہے تو وہ بھی اس لئے کہ اس نے دوا کو یہ تاثیر بخشی ہے یہ یھی ایک قسم کی دعا ہے جس کی طرف احادیث اسلامی میں اشارہ ہوا ہے مختصر یہ کہ یہ دعا کی وہ قسم ہے جسے خودآگاہی او ر فکر و نظر اور ول و دماغ کی بیداری کہا جاسکتا ہے یہ اس ذات سے ایک باطنی رشتہ ہے جوتمام نیکیوں اور خو بیوں کا مبدا و مصد رہے۔ اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات میں ہے۔

لا یقبل الله عزوجل دعاء قلب لاه

خدا غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام صادق سے یہی مضمون مروی ہے:

ان الله عزوجل لا یستجیب دعا بظهر قلب ساه )(۲)

یہ خود دعا کے فلسفوں کی ایک اساس ہے جن کی طرف اشارہ ہو چکا ہے۔

____________________

۱- اصول کافی، ج۲، ص ۷۴۳

۲- اصول کافی، ج۲، ص ۷۴۳

دعا کی قبولیت کی شرائط:

دعا کی قبولیت کی شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بھی بظاہر دعا کے پیچیدہ مسئلے کے سلسلے میں نئے حقائق آشکار ہوتے ہیں اور اس کے اصلاحی اثرات واضح ہوتے ہیں ۔ اس ضمن میں چند احادیث پیش خدمت ہیں :

۱: دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش ، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں خدا کے بھیجے ہوئے رہنما ؤں اور رہبر وں کی زندگی سے الہام و ہدایات حاصل کرنا چاہیں امام صادق سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:

ایاکم ان یسئل احدکم ربه شیئا من حوائج الدنیا و الاخرة حتی یبدء بالثناء علی الله و المدحة و الصلوة علی النبی و اله ثم الاعتراف بالذنب ثم المسالة ۔

جب تم میں سے کوئی اپنے رب سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا اور مدح کرے ، پیغمبر اور ان کی آل پردرو د بھیجے پھر گناہوں کا اعتراف اور اس کے بعد سوال کرے۔(۱)

۲: اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے ۔ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :من احب ان یستجاب دعائه فلیطلب مطعمه و مکسبه

جو چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اس کے لیے ضروری ہے اس کی غذا و ر کسب و کار پاک و پاکیزہ ہو۔(۲)

لتامرون بالمروف و ولتنهن عن المنکر ا و یسلطن الله شرار کم علی خیارکم و یدعو اخیارکم فلا یستجاب لهم ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو ورنہ خدا تم سے بروں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو وہ ان کی دعا قبول نہیں کرے گا ۔(۳)

حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبانی ہے اسے ترک کرنے سے معاشر ے میں بد نظمی پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بد کاروں کے لئے میدان خالی رہ جاتا ہے ۔ اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل کرنے کے لئے بے اثر ہے کیونکہ یہ کیفیت ان اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔

۴: خدائی عہد و پیمان کو وفا کرنا بھی دعا کی قبولیت کی شرائط میں شامل ہے ایمان ، عمل صالح ، امانت او ر صحیح کام اس عہد و پیمان کا حصہ ہیں ۔ جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئیے کہ پروردگار کی طرف سے اجابت دعا کا وعدہ اس کے شامل حال ہو گا۔

کسی شخص نے امیرالمؤمنین کے سامنے دعا قبول نہ ہو نے کی شکایت کی ۔وہ کہنے لگا : خدا کہتا ہے کہ دعا کرو تو میں قبول کرتا ہو ں ۔ لیکن اس کے با وجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:

ان قلوبکم خان بثمان خصال :

اولها انکم عرفتم الله فلم تؤدو احقه کما اوجب علیکم فما اغنت عنکم معرفتکم شیئا

و الثانیه انکم امنتم برسوله ثم خالفتم بسنته و امنتم شریعته فاین ثمرة ایمانکم

و الثالثه انکم قراتم کتابه المنزل علیکم تعملو ا به و قلتم سمعنا و اطعنا ثم خالفتم

و الرابعه انکم قلتم تخافون من النار و انتم فی کل وقت تقدمون الیهابمعاصیکم فاین خوفکم

و الخامسة انکم قلتم ترغبون فی الجنة و انتم فی کل وقت تفعلون ما یبا عد کم منها فاین رغبتکم فیها

و السادسة انکم اکلتم نعمة المولی فلم تشکروا علیها

و السابعة ان الله امرکم بعد اوة الشیطان و قال ان الشیطان لکم عدد فاتخذوه عدوا فعاد تیموه بلا تول و والیتموه بلا مخالفته

و الثامنة انکم جعلتم عیوب الناس نصب اعینکم و عیوبکم و راء ظهور کم تلومون من انتم احق باللوم منه فای دعا یستجاب لکم مع هذا و قد سدد تم ابوابه و طرقه فتقوا الله و اصلحوا اعمالکم و اخلصوا سرائکم و امروا بالمعروف و انهوا عن المنکر فیستجیب لکم دعا ئکم

تمہارے دل و دماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی:

پہلی : تم نے خدا کو پیہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا ۔ اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کو ئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

دوسری: تم اس کے بھیجے ہو ئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو مگر اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو ۔ ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔

تیسری: تم اس کی کتاب کو تو پڑ ھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے ۔ زبانی تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا او ر اطاعت کی مگر عملا اس کی مخالفت کرتے ہو ۔

چوتھی: تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ اس کے با وجود اس کی نافرمانیوں کی طرف قدم بر ھاتے ہو ۔ تو پھر خوف کہاں رہا۔

پانجویں : تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے شائق ہیں حالانکہ کام ایسے کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں تو پھر رغبت و شوق کہاں رہا۔

چھٹی: خدا کی نعمتیں تو کھاتے ہو مگر شکر کا حق ادا نہیں کرتے ہو ۔

ساتویں : اس نے تمہیں حکم دیا کہ شیطان سے دشمنی رکھو ۔۔۔۔۔۔اور تم اس سے دوستی کی طرح ڈالتے ہو۔

آٹھویں : تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔

ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خو د قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں ۔

تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو ۔ اپنے اعمال کی اصلاح کرو ۔ امر المعروف اور نہی عن المنکر کرو ، تا کہ تمہاری دعا قبول ہو سکے ۔(۴)

اس سے ظاہر ہے کہ قبولیت دعا کا وعدہ خدا کی طرف سے مشروط ہے نہ کہ مطلق ۔شرط ہے کہ تم اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کر چکے ہو ۔

مندرجہ بالا آٹھ احکام جواجابت دعا کی شرائط ہیں انسان کی تربیت ، اس کی توانا ئیوں کو اصلاح یافتہ بنانے اور ثمر بخش راہ پر ڈالنے کے لئے کافی ہیں ۔

۵ ۔ دعا کی قبولیت کی ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل اور کوشش کے ہمراہ ہو ۔ امیرالمؤمنین کے کلمات قصار میں ہے :الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر

عمل کے بغیر دعا کرنے والا بغیر کمان کے تیر چلانے والے کی مانند ہے ۔(۵)

اس طرف توجہ رکھی جائے کہ چلہ کمان تیر کے لئے عامل حرکت اور ہدف کی طرف پھینکنے کا وسیلہ ہے تو اس سے تاثیر دعا کے لئے عمل کی اہمیت و اضح ہو جاتی ہے ۔

نتیجه

مندرجہ بالا پانچو ں شرائط یہ واضح کردیتی ہیں کہ نہ صرف یہ کہ طبیعی علل واسباب کی بجائے دعا نہیں ہو تی بلکہ قبولیت دعا کے لئے دعا کرنے والے کی زندگی میں ایک مکمل تبدیلی بھی ضروری ہے ۔اس کی فکر کو نئے سانچے میں ڈاھلنا چاہیئے اور اسے اپنے گذشتہ اعمال میں تجدید نظر کرنا چاہیئے ۔

ان سب کی روشنی میں کیا دعا کو اعصاب کمزور کرنے والی اور کا ہلی کا سبب قرار دینا بے خبری نہیں اور کیا یہ بعض مخصوص مقاصد کو بروئے کارلا نے کی دلیل نہیں ۔

____________________

۱ سفینة البحار، ج ۱، ۴۴۸ و ص۴۸۹

۲ سفینة البحار، ج ۱،۴۴۸ و ص۴۴۹

۳ سفینة البحار، ج ۱ ص۴۸۹

۴- سفینة البحار، ج ۱ ص۴۸۸و ۴۴۹

۵- نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۳۳۷

آیت ۱۸۷

۸۷ ۱ ۔( اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِکُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَکُمْ وَاٴَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللهُ اٴَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتَانُونَ اٴَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللهُ لَکُمْ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاٴَبْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الْاٴَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ ثُمَّ اٴَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَی اللَّیْلِ وَلاَتُبَاشِرُوهُنَّ وَاٴَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی الْمَسَاجِدِ تِلْکَ حُدُودُ اللهِ فَلاَتَقْرَبُوهَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ )

ترجمہ

۱۸۷ ۔ تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلا ل کردیا گیاہے ۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو (دونوں ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی حفاظت کا باعث ہو ) خدا کے علم میں تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے ( اور اس ممنوع کام کو تم میں سے انجام دیتے تھے) پس خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی اور تمہیں بخش دیا ۔ اب ان سے ہمبستری کرو اور تمہارے لئے جو کچھ مقرر کیا گیا ہے اسے طلب کرو او ر کھا ؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایان ہو جائے اس کے بعد روزے کورات تک مکمل کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھو توان سے مباشرت نہ کرو ۔ یہ حدود الہی ہیں ان کے نزدیک نہ جا نا خدا اس طرح اپنی آیات کو لوگو ں کے لئے و اضح کرتا ہے ہو سکتاہے کہ وہ پرہیزگار ہو جائیں ۔

شان نزول

روایات اسلامی سے پتہ چلتا ہے کہ جب شروع میں روزے کا حکم نازل ہو اتو مسلمان صرف یہ حق رکھتے تھے کہ رات کو سونے سے پہلے کھانا کھا لیں چنانچہ اگر کوئی شخص کھانا کھائے بغیر سوجا تا اور پھر بیدار ہو تا اس کے لئے کھانا پینا حرام تھا ۔ان دنو ں ماہ رمضان کی راتوں میں ان کے لئے اپنی بیو یوں سے ہم بستری کرنا مطلقا حرام تھا ۔ اصحاب پیغمبر میں سے ایک شخص جس کا نام مطعم بن جبیر تھا ایک کمزور انسان تھا ۔ ایک مرتبہ افطار کے وقت گھر گیا ۔ اس کی بیوی اس کے افطار کے لئے کھانا لینے لگی تو تھکان کی وجہ سے وہ سو گیا ۔ جب بیدار ہوا تو کہنے لگا اب افطار کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں ۔وہ اسی حالت میں رات کو سوگیا ۔ صبح کو روزے کی حالت میں اطراف مدینہ خندق کھودنے کے لئے (جنگ احزاب کے میدان میں ) حاضر ہو گیا ۔ کام کے دوران میں کمزوری اور بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا ۔ پیغمبر اکرم اس کے سرہا نے تشریف لائے اور اس کی حالت دیکھ متاثر ہو ئے ۔

نیز بعض جوان مسلمان جواپنے آپ پر ضبط نہیں کرسکتے تھے ماہ رمضان کی راتو ں کو اپنی بیو یو ں سے ہم بستری کر لیتے تھے ۔

ان حالات میں یہ آیت نازل ہو ئی اور مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی کہ رات بھر کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور اپنی بیو یوں سے ہم بستری بھی کرسکتے ہیں ۔

۱. حدود الهی

جیسا کہ مندر جہ بالا آیت میں ہم نے پڑ ھاہے روزے اور اعتکاف کے کچھ احکام بیان کرنے کے بعد انہیں خدائی سر حدیں قرار دیا گیا ہے۔ حلال و حرام کے در میان سر حد، مجاز و ممنوع کے در میان سر حد۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ سر حدوں کو عبور نہ کرنا بلکہ کہا گیا ہے ان کے قریب نہ جانا کیونکہ سرحد کے قریب ہونے سے کبھی شہوت کی زیادتی کے باعث اور کبھی شک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان ان سے آگے گز رجاتا ہے۔ لہذا فرمایا گیا ہے( فلا تقربوها ) اور شاید اسی بناء پر قوانین اسلامی میں ایسی جگہوں میں قدم رکھنے سے منع کیا گیا ہے جو انسان کی لغرش اور گناہ کا موجب اور سبب ہیں مثلا مجالس گناہ میں شرکت حرام ہے چا ہے خود انسان ظاہرا آلودہ گناہ نہ ہو ۔ اسی طرح اجنبی عورت سے خلوت کو حرام قرار دیا گیا ہے (کسی اجنبی خاتون کے ساتھ ایسی تنہائی جو مکمل طور پر علیحدہ ہو اور جہاں دو سرے لوگ آجانہ سکتے ہوں )۔

یہی مفہوم دو سری احادیث میں حمایت کمی (ممنوعہ علاقے کی چار دیواری کی حفاظت) کے عنوان سے بیان ہوا ہے پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :ان حمی الله محارمه فمن وقع حود الحمی یوشک ان یقع فیه

محرمات الہی اس کی چار دیواریاں میں اگر کوئی شخص ان حدود خانہ کے گرد اپنی بھیڑ بکریاں لے جائے تو اس کا ڈر ہے کہ وہ ممنوعہ علاقے میں چلی جائیں ۔(۱)

اسی لئے اصول تقوی کی پا بند اور پرہیزگار لوگ نہ صرف یہ محرمات کہ کے مرتکب نہیں ہو تے بلکہ حرام کے نزدیک بھی قدم نہیں رکھتے۔

____________________

۱۔ تفسیر صافی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲. اعتکاف

اعتکاف کا اصل معنی ہے محبوس ہو نا اور کسی چیز کے پاس لمبی مدت تک رہنا شریعت کی اصطلاح میں مساجد میں عبادت کے لئے تھہرے نے کو اعتکاف کہتے میں جس کی کم از کم مدت تین دن ہے اور اس کی شرط روزہ دار ہونا اور بعض لذائذ کو ترک کرناہے یہ عبادت روح کی پاکیزگی اور پروردگار کی طرف خصوصی توجہ کے لئے گہرا اثر رکھتی ہے۔ اس کے آداب و شرائط فقہی کتب میں مذکور میں ۔ یہ عبادت ذاتی طور پر تو مستحب ہے لیکن چند ایک استثنائی مواقع پر و جوب کی شرط اختیار کر لیتی ہے۔ بہر حال زیر بحث آیت میں اس کی صرف ایک شرط کی طرف اشارہ ہوا ہے یعنی عورتوں سے مجامعت نہ کر نا۔

(دن اور رات دو نوں میں منع) اور وہ بھی اس لئے کہ اعتکاف کا تعلق بھی روزے کے مسائل سے ہے۔

۳. طلوع فجر

فجر کا اصل معنی ہے شگاف کرنا۔ طلوع صبح کو فجر اس لئے کہتے ،میں کہ گویا رات کا سیاہ پردہ پہلی صبح کی سفیدی سے چاک ہو جا تا ہے۔

زیر بحث آیات میں علاوہ از یں( حتی یتبین لکم الخیط الا بیض من الخیط الاسود ) کی تعبیر بھی استعمال ہوئی ہے۔

ایک حدیث میں ہے :

عدی بن حاتم نے پیغمبر ﷺاکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے سیاہ اور سفید دھا گے رکھے ہوئے تھے اور انہیں دیکھتا تھا تا کہ پہچان کر روزے کے اول دقت کا اندازہ کر سکوں ۔پیغمبر اکرم ﷺاس گفتگو سے اتنے ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دیئے ۔

آپ نے فرمایا: فرزند حاتم! اس سے مراد ہے صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جا ئے جو کہ وجوب روزہ کی ابتداء ہے۔(۱) ۔

ضمنا توجہ کرنی چا ہیئے کہ اس تعبیر سے ایک اور نکتہ بھی واضح ہو تا ہے اور وہ ہے صبح صادق کو صبح کاذب سے پہچاننا۔ رات کے آخری حصے میں پہلے ایک بہت کم رنگ کی سفیدی آسمان پر عمودی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ جسے لومڑی کی دم سے تشبیہ وی جاتی ہے۔ اسی کو صبح کاذب کہتے میں ۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ایک صاف و شفاف سفیدی افق کے طور پر اور وہ بھی طول افق میں ظاہر ہوتی ہے جو سفید دھاری کی طرح ہوتی ہے۔ یہی صبح صادق ہے جو روزے کے وقت کا آغاز اور ابتدا ئے نماز صبح کا وقت ہے۔

____________________

۱۔مجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔

۴. ابتداء و انتهاء تقوی هی تقوی ہے

یہ بات قابل توجہ ہے کہ احکام روزہ سے مربوط پہلی آیت میں بھی ہم نے اس کا آخری مقصد تقوی پڑھا ہے اور بعینہ یہی بات آخری آیت کے آخر میں بھی آئی ہے (لعلہم یتقون) یہ بات نشاند ہی کرتی ہے کہ سا پروگرام روح تقوی کی پرورش اپنے آپ کو گناہ سے بچانے اور ملکہ پرہیزگاری پیدا کرنے کے لئے ہے اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی میں شرعی ذمہ دار یوں کی ادائیگی کا احساس اجاگر کیا جامرئے ۔

اختتامیہ

پروردگارا! ہم تیری بارگاہ میں سپاس گزاری اور نذرانہ شکر پیش کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں اس تفسیر کی جلد اول پر تجدید نظر کی توفیق بخشی تا کہ ہم اس کے نقائص کو امکانی حد تک دور کر سکیں ۔ شاید ہم تیری اس عظیم آسمانی کتاب کو جتنا ہو سکے اپنے مسلمان بہن بھایئوں تک پہنچا سکیں ۔

خداواندا! تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنی عنایت ہمارے شامل حال کی کہ ہم نے تیرے عظیم اور بہت ہی قدر و منزلت والے ارشادات کی تفسیر لئے قدم اٹھایا۔

بارالہا! ہم سے یہ اعزاز و افتخار نہ چھین لینا تا کہ ہم ممکنہ حد تک اس کتاب کے باقی حصے کی تکمیل کر سکیں ۔

خداوندا! تو نے اپنے مخصوص بندوں کے دل اس کتاب کی طرف مائل کردئے میں اور نہوں نے اس کاو الہا نہ استقبال کیا ہے اور شاید ہمارے لئے وہ را توں کی تاریکی میں یاد نوں میں دعا ئے خیر کرتے ، میں ۔۔۔ہم اس کے لئے تیرے سپاس گزار میں ۔ اور تیرا شکر ادا کرتے میں ۔

۱۳ مرداد ۱۳۶۱ ہجری شمسی

مطابق

۱۵ شوال ۱۳۰۲ ہجری قمری

اختتام جلد اول تفسیر نمونہ

فہرست

گفتار مترجم ۵

تفسیر کا معنی ۷

یہ کوشش کب شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچی ۸

ایک خطر ناک غلطی ۹

هر زمانے کی احتیاج اور تقاضے ۹

کس تفسیر کا مطالعه کرنا بهتر ہے ۱۱

اس تفسیر کی خصوصیات ۱۳

سوره حمد (فاتحه الکتاب) ۱۵

سورہ حمد کی خصوصیات ۱۵

لب و لہجہ اور اسلوب بیان : ۱۵

۲ ۔ اسا س قرآن : ۱۶

۳ ۔ پیغمبر اکرم(ص) کے لئے اعزاز : ۱۸

۴ ۔ تلاوت کی تاکید : ۱۹

سورہ حمد کے موضوعات ۲۰

اس سورہ کا نام فاتحة الکتاب کیوں ہے؟ ۲۲

ایک اہم سوال : ۲۴

تفسیر ۲۶

۱ ۔ ( بسم الله الرحمن الرحیم ) ۲۶

کیا بسم اللہ سورہ حمد کا جزء ہے؟ ۲۹

خدا کے ناموں میں سے اللہ، جامع ترین نام ہے ۳۲

خدا کی رحمت عام او ررحمت خاص ۳۴

خدا کی دیگر صفات بسم اللہ میں کیوں مذکور نہیں ؟ ۳۶

۲ ۔ ( الحمد لله رب العالمین ) ۳۸

سارا جہاں اس کی رحمت میں ڈوبا ہو ا ہے۔ ۳۸

۱ ۔ تمام ارباب انواع کی نفی : ۴۲

۲ ۔ خدائی پرورش، ۴۴

۳ ۔ ( الرحمن الرحیم ) ۴۴

تفسیر ۴۴

۴ ۔ ( مالک یوم الدین ) ۴۶

قیامت پر ایمان دوسری اصل ہے۔ ۴۶

۵ ۔ ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔ ۴۹

انسان کے دربار خدا میں ۴۹

۱ ۔ آیت میں حصر کا مفہوم : ۵۰

۲ ۔ ( نعبد و نستعین ) اور اسی طرح بعد کی آیات میں جمع کے صیغے آئے ہیں ۔ ۵۱

۳ ۔ طاقتوں کے ٹکراؤ کے وقت استعانت خدا کی طلب : ۵۱

۶ ۔ ( اهدنا الصراط المستقیم ) ۵۲

تفسیر ۵۲

صراط مستقیم پر چلنا ۵۲

صراط مستقیم کیا ہے ؟ ۵۵