تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73044
ڈاؤنلوڈ: 3877


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73044 / ڈاؤنلوڈ: 3877
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

۵ ۔( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مددچاہتے ہیں ۔

انسان کے دربار خدا میں

یہاں سے ابتداء ہوتی ہے انسان کے دربار خدا میں پیش ہو کر حاجات اور تقاضوں کو بیان کرنے کی۔ حقیقت میں گفتگو کا لب و لہجہ یہاں سے بدل جاتا ہے کیونکہ گذشتہ آیات میں خدا کی حمد وثنا اور اس کی ذات پاک پر ایمان کا اظہار نیز قیامت کا اعتراف تھا۔ لیکن یہاں سے گویا بندہ اس محکم عقیدہ اور معرفت پروردگار کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے حضور اور اس کی ذات پاک کے روبرو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسے مخاطب کرکے پہلے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور پھر اس سے طلب امداد کے لئے گفتگو کرتے ہوء کہتا ہے کہ میں صرف تیری پرستش کرتاہو اور تجھی سے مدد چاہتا ہوں( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب گذشتہ آیات کے مفاہیم انسان کی روح میں سرایت کرجاتا ہیں ، اس کے وجود کی گہرائیاں اس اللہ کے نور سے روشن ہوجاتی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس کی عمومی و خصوصی رحمت اور روز جزا کی مالکیت کو جان لیتا ہے تو اب عقیدے کے لحاظ سے فرد کامل نظر آنے لگتا ہے۔ توحید کے اس گہرے عقیدے کا پہلا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انسان خدا کا خالص بندہ بن جاتا ہے، بتوں جباروں اور شہوات و خواہشات کی عبادت کے دائرے سے نکل آتا ہے اور دوسری طرف طلب امداد کے لئے اس کی ذات پاک کی طرف ہاتھ پھیلانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ آیات توحید ذات وصفات بیان کررہی ہیں اور یہاں توحید عبادت اور توحید افعال سے متعلق گفتگو ہے۔

توحید عبادت یہ ہے کہ کسی شخص یا چیز کو ذات خدا کے علاوہ پرستش کے لائق نہ سمجھا جائے،صرف اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ صرف اس کے قوانین و احکام کو قبول کیاجائے اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی کی کسی قسم کی عبادت و بندگی کرنے اور کسی اور کے سامنے سر افکندہ ہونے سے پرہیز کیا جائے۔

توحید افعال یہ ہے کہ سارے جہاں میں موثر حقیقی اسی کو سمجھا جائے (لامو‌ثر فی الوجود الا الله ، یعنی اللہ کے علاوہ کوئی موثر وجود نہیں رکھتا)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالم اسباب کا انکار کردیا جائے اور سبب کی تلاش نہ کی جائے بلکہ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ہر سبب کی یہ تاثیر حکم خدا کے تابع ہے وہی ہے جس نے آگ کو جلانے، سورج کو روشنی دینے اور پانی کو حیات بخشنے کی تاثیر دی ہے۔

اس عقیدے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان صرف اللہ پر بھروسہ کرے گا اور قدرت و عظمت کو اسی سے مربوط سمجھے گا اور اس کا غیر اس کی نظر میں فانی، زوال پذیر اور فاقد قدرت ہوگا۔

صرف خدا کی ذات قابل اعتماد و ستائش ہے اور یہ لیاقت رکھتی ہے کہ انسان اسے تمام چیزوں میں اپنا سہارا قرار دے یہ فکر اور اعتماد انسان کا ناطہ تمام موجودات سے توڑ کر صرف خدا سے جوڑ دے گا۔ یہاں تک کہ اب وہ عالم اسباب کی تلاش بھی حکم خدا کے تحت کرتا ہے یعنی اسباب میں بھی وہ قدرت خدا کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ خدا ہی مسبب الاسباب ہے۔

۱ ۔ آیت میں حصر کا مفہوم :

عربی ادبیات کے قوعد کے مطابق جب مفعول، فاعل پر مقدم ہوجائے تو اس سے حصر کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہاں بھی ایاک ، کا نعبد اورنستعین پر مقدم ہونا دلیل حصر ہے۔ اور اس کا نتیجہ وہی توحید عبادت اور توحید افعال ہے جسے ہم پہلے بیان کرآئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی اورعبودیت میں بھی ہم اس کی مدد کے محتاج ہیں اور اس کے لئے بھی ہم اسی سے طلب اعانت کرتے ہیں تاکہ کہیں انحراف، خود پسندی، ریاکاری اور ایسے دیگر امور میں گرفتار نہ ہوجائیں کیونکہ یہ چیزیں عبودیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ ہم پہلے جملے میں کہتے ہیں کہ ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ استقلال کی بو آتی ہے لہذا فورا ایاک نستعین سے ہم اس کی اصلاح کرلیتے ہیں اس طرح بین الامرین(نہ جبر نہ تفویض) کو اپنی عبادت میں جمع کرلیتے۔ یہ حالت ہمارے تمام کاموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۲ ۔( نعبد و نستعین ) اور اسی طرح بعد کی آیات میں جمع کے صیغے آئے ہیں ۔

یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصا نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بناء پر ہر قسم کی انفرادیت علیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں ۔

نماز میں اذان و اقامت (جو نماز کے لئے اجتماع کی دعوت ہے)سے لے کرحی علی خیرالصلواة (نماز کی طرف جلدی آو)سے گزرتے ہوئے سورہ الحمد تک جو نماز کی ابتداء اورالسلام علیکم تک جو نماز کااختتام ہے، سب اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عبادت در اصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے یعنی اسے صورت جماعت میں انجام پذیر ہونا چاہئے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ نماز فرادی بھی اسلام میں صحیح ہے لیکن عبادت فرادی جنبہ فرعی کی حامل ہے اور ایسی عبادت دوسرے درجے کی عبادت قرار پاتی ہے۔

۳ ۔ طاقتوں کے ٹکراؤ کے وقت استعانت خدا کی طلب :

انسان اس جہاں کئی ایک طاقتوں سے نبرد آزما ہے۔ چاہے وہ طاقتیں طبیعی و مادی ہوں یا انسان کے اندر کی طاقتیں ۔ تباہ و برباد اور منحرف کرنے والی چیزوں کا مقابلہ کرنے کےلئے انسان کو یارو مددگار کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں انسان اپنے تئیں پروردگار کے سایہ رحمت کے سپرد کرتا ہے۔ ہر روز انسان بستر خواب سے اٹھتا ہے اور ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تکرار سے پروردگار کی عبودیت کا اعتراف کرکے اس کی ذت پاک سے اس بڑے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے اور شام کے وقت بھی اسی جملے کی تکرار سے سر اپنے بستر پر رکھتا ہے گویا اس کی یاد سے اٹھتا ہے۔ اور اسی کو یاد کرتے ہوئے طلب استعانت کے بعد سوتا ہے۔ ایسا شخص کتنا خوش نصیب ہے ۔ یہی شخص ایمان کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کسی سرکش و طاقت ور کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشمش کے مقابلے میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دیتا اور وہ پیغمبر اسلام(ص) کی پیروی میں کہتا ہے :( ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین ) ۔

یقینا میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس خدا کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔ (الانعام، ۱۶۲) ۔

۶ ۔( اهدنا الصراط المستقیم )

ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔

تفسیر

صراط مستقیم پر چلنا

پرور دگار کے سامنے اظہار تسلیم، اس کی ذات کی عبودیت ، اس سے طلب استعانت کے مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد بندے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اسے سیدھی راہ، پاکیزگی و نیکی کی راہ، عدل و داد کی راہ اور ایمان و عمل صالح کی ہدایت نصیب ہو۔ تاکہ خداجس نے اسے تمام نعمتوں سے نوازا ہے ہدایت سے بھی سرفراز فرمائے۔

اگر چہ یہ انسان ان حالات میں مومن ہے اور اپنے خدا کی معرفت رکھتا ہے لیکن یہ امکان ہے کہ کسی لحظے یہ نعمت کچھ عوامل کے باعث اس سے چھن جائے اور یہ صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ ہوجائے لہذا چاہئے کہ شب و روز میں دس مرتبہ اپنے خدا سے خواہش کرے کہ اسے کوئی لغزش و انحراف در پیش نہ ہو۔

یہ صراط مستقیم جو باالفاظ دیگر آئین و دستور حق ہے کے کئی مراتب و درجات ہں تمام افراد ان مدارج کو برابر طے نہیں کرتے انسان جس قدر ان درجات کو طے کرے اس سے بلند تر درجات موجود ہیں ۔ پس صاحب ایمان کو چاہئے کہ وہ خدا سے خواہش و دعا کرے کہ وہ اسے ان درجات کی ہدایت کرے۔

یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں ، کیا ہم گمراہ ہیں ؟

اور اگر بالفرض یہ بات ہمارے لئے درست ہے تو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اہل بیت جو انسان کامل کا نمونہ ہیں ان کے لئے کیونکر صحیح ہے؟؟

اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں :

جیسے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسان کے لئے راہ ہدایت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی کا خوف ہے لہذا چاہئے کہ اپنے آپ کو پروردگار کے اختیار میں دیدے اور اس سے تقاضا کرے کہ وہ اسے سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وجود ہستی اور دیگر تمام نعمات لمحہ بہ لمحہ اس مبداء عظیم ہی سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ ہماری اور تمام موجودات کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے اگر ہم دیکھیں کہ بلب کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ بجلی کے مرکز سے قوت حاصل کر رہی ہے کیونکہ بجلی کے مرکز سے ہر لحظہ نئی روشنی کی تولید جاری ہے اور یہ مربوط تاروں کے ذریعہ اسے بلب تک پہنچاتا ہے ہمارا وجود بھی بلب کی روشنی کی طرح جو بظاہر ایک مستقل پھیلے ہوئے وجود کی طرح ہے لیکن حقیقت میں ہمیں مرکز ہستی، آفریدگار فیاض سے ہر لحظہ ایک نیا وجود ملتا رہتا ہے۔ چونکہ ہمیں ہر لمحہ ایک تازہ وجود میسر آتا ہے اس لئے ہر لمحہ ہم نئی ہدایت کے محتاج ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ خدا اور ہمارے درمیان رابطے کی معنوی تاروں میں اگر کوئی مانع پیدا ہوجائے مثلا بے راہ روی، ظلم، ناپاکی وغیرہ تو اس سے منبع ہدایت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور یوں ہم صراط مستقیم سے منحرف ہوجائیں گے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موانع پیش نہ آئیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت کے معنی ہیں طریق تکامل کو طے کرنا یعنی انسان تدریجا مراحل نقص پیچھے چھوڑتا جائے اور مراحل بلند تک پہنچتا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راہ کمال، یعنی ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچنے کا راستہ نامحدود ہے گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔

اس بنا پر کوئی تعجب نہیں کہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بھی خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کا تقاضہ کریں کیونکہ کمال مطلق تو صرف ذات خدا ہے اور باقی سب بلا استثناء سیرتکامل میں ہیں لہذا کیا حرج ہے کہ وہ بھی خدا سے بالاتر درجات کی تمنا کریں ۔

کیا ہم نبی اکرم (ص( پر درود و سلام نہیں بھیجتے؟ اور کیا درود در اصل محمد و آل محمد پر پروردگار عالم سے نئی رحمت کا تقاضا نہیں ؟ ؟ کیارسول اللہ نہیں فرماتے ؟

رب زدنی علما (خدایا میرے علم(اور ہدایت)کو زیادہ فرما۔

کیا قرآن یہ نہیں کہتا :( ویزید الله الذین اهتدوا هدی ) ۔ یعنی خدا ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ (مریم، ۷۶) ۔

یہ بھی قرآن میں ہے :( والذین اهتدوا ازادهم هدی و اتاهم تقواهم ) یعنی جو ہدایت یافتہ ہیں خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقوی عطا کرتا ہے(محمد، ۱۷) ۔

اسی سے نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام پر درود بھیجنے کے متعلق سوال کا جواب مل جاتا ہے۔

ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی وضاحت کے لئے ذیل کی دو حدیثوں کی طرف توجہ فرمائیں :

۱ ۔ حضرت امیرالمومنین علی(ع) جملہاهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

یعنی آدم لنا توفیقک الذی اطعناک به فی ماضی ایامنا حتی نطیعک کذلک فی مستقبل اعمادنا ۔

خدا وند ا جو توفیقات تونے ماضی میں ہمیں عنایت کی ہیں ۔ جن کی برکت سے ہم نے تیری اطاعت کی ہے انہیں اسی طرح برقرار رکھ تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں(۱) ۔

۲ ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :یعنی ارشدنا للزوم الطریق المو‌دی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والمانع من ان نتبع اهوائنا فنعطب او ان ناخذ بآرائنا فنهلک

خدا وندا ہمیں اس راستہ پر جو تیری محبت اور جنت تک ہے ثابت قدم رکھ کہ یہی راستہ ہلاک کرنے والی خواہشات اورانحرافی و تباہ کرنے والی آراء سے مانع ہے(۲) ۔

____________________

۱۔ تفسیر صافی (آیہ مذکورہ) بحوالہ معانی الاخبار و تفسیر امام حسن عسکری۔

۲۔ ایضا۔

صراط مستقیم کیا ہے ؟

آیات قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ صراط مستقیم آئین خدا پرستی، دین حق اور احکام خدا وندی کی پابندی کا نام ہے۔ جیسے سورہ انعام کی آیت ۱۶۱ میں ہے :( قل اننی هدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملة ابراهیم حنیفا و ماکان من المشرکین ) ۔

یعنی کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو سیدھا دین ہے وہ کہ جو اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا سے شرک نہیں کیا۔

دین ثابت یعنی وہ دین جو اپنی جگہ قائم رہے ، ابراہیم کے آئین توحیدی اور ہرقسم کے شرک کی نفی کا تعارف یہاں پر صراط مستقیم کے عنوان سے ہوا ہے اور یہی بات اس اعتقادی پہلو کو مشخص کرتی ہے۔

سورہ یسن آیت ۶۰ ، ۶۱ میں ہے :( الم اعهد الیکم یبنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان، انه لکم عدو مبین، و ان اعبدونی هذا صراط مستقیم ) ۔

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا(اس کے احکام پر عمل نہ کرنا)کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

یہاں دین حق کے عمل پہلوؤں کیطرف اشارہ ہے جوہر قسم کے شیطانی فعل اور عملی انحراف کی نفی ہے سورہ آل عمراں آیت ۱۰۱ میں قرآن کے مطابق صراط مستقیم تک پہنچنے کا طریقہ خدا سے تعلق اور ربط پیدا کرنا ہے۔

ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔ جنہوں نے اللہ کے دامن رحمت کو تھامے رکھا انہی نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔

اس نکتہ کی طرف بھی نظر ضروری ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راستہ ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان خط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتا ہے جو نزدیک ترین راستے کو تشکیل دیتا ہے۔

لہذا اگر قرآن کہتا ہے کہ صراط مستقیم در اصل اعتقادی و عملی پہلوؤں سے دین و آئین الہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دین ہی نزدیک ترین راستہ ہے خدا سے ربط پیدا کرنے کا اور یہی وجہ ہے کہ دین حقیقی و واقعی ہے بھی فقط ایک۔( ان الدین عندالله الاسلام ) ۔ دین خدا کے نزدیک اسلام (ہی) ہے۔ (آل عمران ، ، ۱۹) ۔

انشاء اللہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اسلام ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس میں ہر وہ آئین توحید شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں جاری تھا اور کسی نئے آئین سے منسوخ نہیں ہوا۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مفسرین نے صراط مستقیم کی جو مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ان سب کی برگشت ایک ہی حقیقت کی طرف ہے۔

بعض نے اس کے معنی اسلام کئے ہیں بعض نے قرآن، کچھ مفسرین نے اس سے رسول و آئمہ برحق مراد لئے ہیں اور کچھ نے اللہ کا آئین کہ جس کے علاوہ خدا کو کوئی چیز قبول نہیں ۔ ان تمام معانی کی برگشت اسی دین و آئین الہی کی طرف ہے تمام تر اعتقادی و عملی پہلوؤں کے ساتھ۔

جو روایات مصادر اسلامی میں اس سلسلے میں وارد ہوئی ہں ان میں سے ہر ایک اس مسئلے کے ایک زاویے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سب کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہے۔ رسول اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا :الصراط المستقیم صراط الانبیاء وهم الذین انعم الله علیهم

صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور انبیاء وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔

امام صادق (ع) کا ارشاداهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں یوں ہے :

الطریق و معرفة الامام ۔ اس سے مراد امام کا راستہ اور اس کی معرفت ہے(۱) ۔

ایک اور حدیث میں امام صادق ہی سے منقول ہے :والله نحن صراط المستقیم ۔ بخدا ہم صراط مستقیم ہیں(۲)

ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) نے فرمایا : صراط مستقیم امیرالمومنین علی(ع) ہیں(۳) ۔

یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم، امیرالمومنین اور دیگر آئمہ اہل بیت سب کے سب اسی آئین توحید کی دعوت دیتے رہتے ہیں وہ دعوت جس میں اعتقاد بھی ہے اور عمل بھی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب مفردات میں صراط کے معنی میں کہا ہے کحہ صراط کے معنی ہیں سیدھا راستہ لہذا مستقیم ہونے کا مفہوم خود صراط میں مضمر ہے گویا مستقیم ساتھ بطور صفت ہے جو اس مسئلے پر تاکید کے مفہوم میں ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج ۱ ص ۲۱، ۲۰۔

۲۔ ایضا۔۳۔ ایضا۔

۷ ۔( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم والا الضالین ) ۔

ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔

تفسیر

دو انحرافی خطوط

یہ آیت حقیقت میں صراط مستقیم کی واضح تفسیر ہے جسے ہم گذشتہ آیت کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں ۔ دعا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے کی ہدایت فرما جنہیں قسم قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے (نعمت ہدایت و نعمت توفیق، مردان حق کی رہبری کی نعمت، نعمت علم وعمل اور نعمت جہاد و شہادت)۔ ان لوگوں کی راہ نہیں جن کے برے اعمال اور ٹیڑھے عقائد کے باعث تیرا غضب انہیں دامن گیر ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی راہ جو شاہراہ حق کو چھوڑ کر بے راہ روی کے عالم میں ہیں ، گمراہ و سرگرداں ہیں( صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم ولاالضالین ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ہم راہ و رسم ہدایت سے پورے طور سے آشنا نہیں لہذا خدا ہمیں دستور ہدایت دے رہا ہے کہ ہم انبیاء ، صالحین اور دیگر وہ لوگ جو نعمت و الطاف الہی سے نوازے گئے ہیں ان کے راستے کی خواہش کریں ۔ نیز ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے سامنے دو ٹیڑھے خطوط موجود ہیں ، خط مغضوب علیھم اور خط ضالین ان دونوں کی تفسیر ہم بہت جلد ذکر کریں گے۔

۱ ۔( الذین انعمت علیهم ) کون ہیں :

سورہ نساء آیت ۶۹ میں اس گروہ کی نشاندہی یوں کی گئی ہے :

( ومن یطع الله والرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا ) ۔

جو لوگ خدا و رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں خداانہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے گا جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ ہیں انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ حق اور صالح انسان اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں ۔

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس آیت میں شاید اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ ایک صحیح وسالم، ترقی یافتہ اور مومن معاشرے کی تشکیل کے لئے پہلے انبیاء اور رہبران حق کو میدان عمل میں آنا چاہئے، ان کے بعد سچے اور راست باز مبلغ ہوں جن کی گفتار اور کردار میں ہم آہنگی ہو تاکہ وہ اس راستے سے انبیاء کے مقاصد کو تمام اطراف میں پھیلادیں ۔ فکری تربیت کے اس پروگرام پر عمل در آمد کے دوران میں بعض گمراہ عناصر راہ حق میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان کے مقابل ایک گروہ کو قیام کرنا چاہئے۔ ان میں سے کچھ لوگ شہید ہوں گے او راپنے خون مقدس سے شجر توحید کی آبیاری کریں گے۔ چوتھے مرحلے میں ان کوششوں کے نتیجے میں صالح لوگ وجود میں آئیں گے اور یوں ایک پاک و پاکیزہ،شائستہ اور معنویت و روحانیت سے پر معاشرہ وجود میں آجائے گا۔

اس لئے ہم روزانہ صبح وشام سورہ حمد میں پے بہ پے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم بھی ان چار گروہوں کے طریق حق کے راہی قرار پائیں حق کا راستہ، انبیاء کا راستہ، صدیقین کا راستہ، شہداء کا راستہ اور صالحین کا راستہ ہے۔

واضح ہے کہ ہر زمانے کو انجام تک پہنچانے کے لئے ہمیں ان میں سے کسی خط کی پیروی میں اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہوگا۔

۲ ۔( مغضوب علیهم ) اور( ضالین ) کو ن ہیں :

ان دونوں کو آیت میں الگ الگ بیان کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خالص گروہ کی طرف اشارہ ہے۔

دونوں میں فرق کے سلسلے میں تین تفسیریں موجود ہیں :

۱ ۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ کے استعمال کے مواقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغضوب علیھم کا مرحلہ ضالین سے سخت تر اور بدتر ہے۔ بالفاظ دیگر ضالین سے مراد عام گمراہ لوگ ہیں اور مغضوب علیھم سے مراد لجوج (گمراہی پر مصر) یا منافق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک موقعوں پر ایسے لوگوں کے لئے خدا کے غضب اور لعنت کا ذکر ہوا ہے۔

سورہ نحل آیت ۱۰۶ میں آیا ہے :( ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیهم غضب من الله ) ۔

جنہوں نے کفر کے لئے اپنے سینوں کو کھول رکھا ہے ان پر اللہ کا غضب ہے۔

سورہ فتح آیت ۶ میں ہے:( و یعذب المنافقین و المنافقات والمشرکین والمشرکات الظانین بالله ظن السوء علیهم دائرة السوء وغضب الله علیهم و لعنهم و اعدلهم جهنم )

منافقین مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتین جو خدا کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ ان سب پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے اور انہی کے لئے اس نے جہنم تیار کررکھی ہے۔

بہرحال مغضوب علیھم وہ ہیں جو راہ کفر میں لجاجت و عناد اورحق سے دشمنی رکھنے کے علاوہ رہبران الہی اور انبیاء مرسلین کو ہر ممکن اذیت و آزار پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سورہ آل عمران آیت ۱۱۲ میں ہے :( وباء و بغضب من الله و ضربت علیهم المسکنة ذلک بانهم کانو یکفرون بایت الله و یقتلون الانبیاء بغیر حق ذلک بما عصوا وکان یعتدون ) ۔

ان (یہودیوں ) پر خدا کا غضب ہو ا اور انہیں رسوائی نصیب ہوئی کیونکہ وہ انبیاء الہی کو ناحق قتل کرتے تھے اور حدود و شریعت سے تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے۔

۲ ۔ مفسرین کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ضالین سے منحرف عیسائی اور مغضوب علیھم سے منحرف یہودی مراد ہیں یہ نظریہ ان دونوں گروہوں کے دعوت اسلام کے مقابلے میں ردعمل کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ قرآن جس طرح مختلف آیات میں صراحت کے ساتھ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہودی دعوت اسلام کے بارے میں مخصوص کینہ و عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اگر چہ ابتداء میں انہی کے علماء لوگوں کو اسلام کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ کئی ایک وجوہ(جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ) کی بناء پر وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہوگئے ان وجوہ میں ایک ان کے مادہی مفادات کا خطرے میں پڑ جانا بھی تھا۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے کے لئے ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرت( آج بھی صیہونیوں کا مسلمانوں کے بارے میں وہی طریق کار ہے)۔

ان حالات میں انہیں مغضوب علیھم سے تعبیر کرنا درست معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہ تعبیر حقیقت میں ان کے عمل کے باعث تطبیق کی صورت ہے نہ کہ مغضوب علیھم سے صرف یہودی مراد ہیں ۔ رہے نصاری تو اسلام کے بارے میں ان کا موقف اس قدر سخت نہ تھا بلکہ وہ فقط آئین حق کی پہچان میں گمراہ تھے لہذا لفظ ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں اور یہ بھی ایک تطبیق ہے۔

احادیث اسلامی میں بارہا مغضوب علیھم سے یہودی اور ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں ۔ اس کی وجہ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے(۱) ۔

۳ ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ضالین سے وہ گمراہ لوگ مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے پر مصر نہیں جب کہ مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جو خود تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنا ہم رنگ بنانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔

اس بات کی دلیل وہ آیات ہیں جو ایسے اشخاص کے بارے میں ہیں جو راہ راست کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں دوسرے لوگوں کے درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے :

یصدون عن سبیل اللہ“ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو راہ خدا سے روکتے ہیں ۔ (اعراف، ۴۵) ۔

سورہ شوری آیت ۱۶ کے الفاظ ہیں :( والذین یحاجون فی الله من بعد ما استجیب له حجتهم داحضة عند ربهم و علیهم غضب ولهم عذاب شدید ) ۔

وہ لوگ جو مومنین کی طرف سے دعوت اسلام قبول ہونے کے بعد نبی اکرم(ص) سے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں ۔ خدا کے ہاں ان کی دلیل وحجت بے اساس ہے۔ ان پر اللہ کا غضب ہے اور سخت عذاب ان کا منتظر ہے۔

باوجود اس کے یوں نظر آتا ہے کہ ان تفاسیر میں جامع تر وہی پہلی تفسیر ہے اور وہ ایسی تفسیر ہے جس میں باقی تفسریں بھی مجتمع ہیں ۔ حقیقت میں باقی تفاسیر اس کے مصادیق میں شمار ہوتی ہیں لہذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیں ۔

والحمد لله رب العالمین

(تفسیر سورہ حمد اختتام کو پہنچی)

سورہ بقرہ کے موضوعات

یہ سوره جو قرآن مجیدکی طویل ترین سورتوں میں سے ہے مسلما تمام کی تمام ایک دم نازل نہیں ہوئی بلکہ مختلف وقفوں سے مدینہ میں اسلامی معاشرے کی گوناگوں ضروریات کے مطابق نازل ہوئی ۔

اس کے باوجود اسلام کے اصول اعتقاد اور بہت سے عملی مسائل کی رو سے (جن میں عبادتی، اجتماعی سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں ) اس کی جامعیت ناقابل انکار ہے۔ اس کے موضوعات ایک نظر میں یہ ہیں :

۱ ۔ توحید اور خدا شناسی کے متعلق بحثیں خصوصا وہ جو اسرار افرینش کے موضوع سے متعلق ہیں ۔

۲ ۔ قیامت اور موت کے بعد سے متعلق بحثیں بالخصوص حسی مثالیں ، جیسے حضرت ابراھیم کا واقعہ، پرندوں کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اور حضرت عزیر کا واقعہ۔

۳ ۔ قران کے معجزہ ہونے کی بحثیں اور اس آسمانی کتاب کی اہمیت ۔

۴ ۔ یہودیوں اور منافقین کے بارے میں مفصل اور طویل بحثی۔ اسلام اور قرآن کے بارے میں ان کے مخصوص اعتراضات اوراس سلسلے میں ان کی کارستانیں اور رکاوٹیں ۔

۵ ۔ بڑے بڑے انبیاء خصوصا حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت موسی(ع) کی تاریخ کے سلسلے کی بحثیں ۔

۶ ۔ اسلام کے مختلف احکام سے متعلق ابحاث۔ جن میں نماز، روزہ، جہاد فی سبیل اللہ، حج،تغیر قبلہ، نکاح، طلاق، احکام، تجارت وقرض، سود کے بعض اہم احکام اور بہت سی دیگر مخصوص بحثیں شامل ہیں ۔

راہ خدا میں خرچ، مسئلہ قصاص، کئی ایک حرام گوشت، قمار، حرمت شراب، بعض احکام وصیت وغیرہ بھی اس کے موضوعات میں سے ہیں ۔

اس کے نام۔ البقرة۔ کی بناء ایک واقعہ ہے جو بنی اسرائیل میں ایک گائے کے سلسلے میں ہے جس کی تفصیل آیت ۶۷ تا ۷۳ میں انشاء اللہ آئے گی۔

فضیلت سوره بقره

اس سورت کی فضیلت سے متعلق کتب اسلامی میں بہت سی روایات موجود ہیں اس سلسلے میں مرحوم طبرسی نے ایک روایت رسول اکرم(ص) سے مجمع البیان میں نقل کی ہے۔

آپ سے پوچھا گیا :

ای سورة القرآن افضل؟ ۔ قرآن کی کونساسورہ افضل ہے

قال البقرة (فرمایا : سورہ بقرہ)۔

(قرآن کی کونسی آیت افضل ہے؟)

قال آیة الکرسی ۔ (فرمایا : آیة الکرسی)

ظاہرا اس سورت کی افضلیت اس کی جامعیت کی وجہ سے ہے اور آیة الکرسی کی افضلیت اس بناء پر ہے کہ اس میں توحید کے بارے میں بعض اہم امور بیان ہوئے ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ اس کی تفسیر میں آئے گی۔

یہ بات اس سے اختلاف نہیں رکھتی کہ قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی کئی ایک جہات کی وجہ سے برتری بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کی یہ فضیلت دیگر وجوہ کے پیش نظر ہے۔

حضرت علی بن الحسین کی وساطت سے رسول اکرم (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات، آیة الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور اس سورہ کی آخری تین آیات پڑھے وہ کبھی بھی اپنی جان و مال میں ناخوشگواری نہ پائے گا۔ شیطان اس کے نزیک نہیں آئے گا اور وہ قرآن کو نہیں بھولے گا( ۱) ۔

ہم یہاں اس اہم حقیقت کا تکرار ضروری سمجھتے ہیں کہ تلاوت قرآن یا سورتوں اور مخصوص آیات کے لئے جو ثواب، فضیلتیں اور ہم فائدے بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مفہوم ہرگزنہیں کہ انسان انہیں بطور ورد پڑھے اور صرف زبان چلانے پر اکتفاء کرے بلکہ قرآن کا پڑھنا سمجھنے کے لئے اور سمجھنا غور و فکر کے لئے ہے اور غور و فکر عمل کرنے کے لئے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو فضیلت کسی سورت یا آیت کے متعلق ذکر ہوئی ہے وہ اس سورت یا آیت کے موضوع سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

مثلا ہم سورة نور کی فضیلت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جو اسے پڑھے گا خدا وند عالم اسے اور اس کی اولاد کو زنا کی آلودگی سے محفوظ رکھے گا۔ تو یہ اس بناء پر ہے کہ سورہ نور کے مضامین میں جنسی کجرویوں سے مقابلے کے لئے اہم رہنمائی موجود ہے۔ مجرد اشخاص کو جلد شادی کرنے کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے، بری نگاہ اور ہوس رانی کی نگاہ ترک کرنے کا حکم ہے، نارو اور غلط نسبتوں کی ممانعت ہے اور آخر میں زنا کار مردوں اور عورتوں کے لئے حد شرعی کے اجراء کا حکم دیا گیا ہے۔

واضح ہے کہ سورہ نور کے مفاہیم و موضوعات کسی معاشرے یا خاندان میں عملی جامہ پہن لیں تو وہ زنا سے آلودہ نہیں ہوگا۔

اسی طرح سورہ بقرة کی وہ آیات جن کی طرف اوپر اشارہ ہوچکا ہے سب توحید، ایمان بالغیب، خدا شناسی اور شیطانی وسوسوں سے پرہیز کے بارے میں ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص دل و جان سے ان پر عمل پیرا ہو تو یقینا سب فضائل مذکور اسے حاصل ہوں گے۔

یہ درست ہے کہ قرآن کا پڑھنا بہرحال باعث ثواب ہے لیکن اصلی، اساسی اور آثار چھوڑنے والا ثواب اسی وقت ملے گا جب تلاوت غور و فکر او رعمل کے لئے مقدمہ و تمہید ہو۔

____________________

۱۔ نورالثقلین، ج ۱ ص ۲۶ بحوالہ کتاب، ثواب الاعمال۔