تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 7%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80988 / ڈاؤنلوڈ: 5790
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱ ۔ نفاق کی پیدائش اور اس کی جڑیں :

جب کسی علاقے میں کوئی انقلاب آتاہے خصوصا اسلام جیسا انقلاب جس کی بنیاد حق وعدالت پر ہے تو مسلما غارت گروں ، ظالموں او رخود سروں کے منافع کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو وہ پہلے تمسخر سے پھر مسلح قوت، اقتصادی دباؤ اور مسلسل اجتماعی پرا پیگنڈہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کو درہم و برہم کردیں ۔

جب انقلاب کی کامیابی کا پرچم علاقے کی قوتوں کو سربلند نظر آتا ہے تو مخالفین کا ایک گروہ اپنی تکنیک اور روش ظاہری کو بدل دیتا ہے اور ظاہرا انقلاب کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن وہ زیر زمین مخالفت کا پروگرام تشکیل دیتا ہے۔

یہ لوگ جو دومختلف چہروں کی وجہ سے منافق کہلاتے ہیں انقلاب کے خطرناک ترین دشمن ہیں (منافق کا مادہ نفق ہے یہ بروزن شفق ہے جس کے معنی زیر زمین نقب او رسرنگ کے ہیں جس سے چھپنے یابھاگنے کا کام لیا جاتا ہے)۔ ان کا موقف پورے طور پر مشخص نہیں ہوتا لہذا انقلابی انہیں پہچان نہیں پاتے کہ خود سے انہیں دور کردیں وہ لوگ پاک باز اور سچے لوگوں میں گھس جاتے ہین یہاں تک کہ کبھی کبھی اہم ترین پوسٹ پر جا پہنچتے ہیں ۔

جب تک پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور مسلمانوں کی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔ ایسا گروہ سرگرم عمل نہیں ہوا لیکن نبی اکرم (ص) جب مدینہ میں آگئے تو حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور جنگ بدر کی کامیابی کے بعد یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگیایعنی رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت جوقابل رشد تھی، قائم ہوگئی۔

یہ وہ موقع تھا کہ مدینہ کے گدی نشینوں خصوصایہودیوں کے (جو اس زمانے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) بہت سے منافع خطرے میں پڑگئے۔

اس زمانے میں یہودیوں کازیادہ احترام اس وجہ سے تھا کہ وہ اہل کتاب او رنسبتا پڑھے لکھے لوگ تھے اورو ہ اقتصادی طور پر بھی آگے تھے حالانکہ یہی لوگ ظہور پیغمبر (ص) سے پہلے اس قسم کے امور کی خوش خبری دیتے تھے۔ مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے سر میں لوگوں کی سرداری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن رسول خدا کی ہجرتسے ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ظالم سرداروں ، سرکشوں اور ان غارت گروں کے حمایتیوں نے دیکھا کہ عوام تیزی سے نبی اکرم (ص) پر ایمان لا رہے ہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ایک عرصے تک مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں ، کیونکہ علم مخالفت بلند کرنے میں جنگی مشکلات اوراقتصادی صدمات کے علاوہ ان کی نابودی کا خطرہ تھا خصوصاعرب کی پوری قوت بھی آپ(ص) کے ساتھ تھی اور ان لوگوں کے قبیلے بھی ان سے جدا ہوچکے تھے۔

اس بناء پر انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہیہ کہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں اور مخفی طور پر اسلام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنائیں ، خلاصہ یہ کہ کسی معاشرے میں نفاق کے ظہور کی ان دو وجوہ میں سے ایک ہوتی ہے :

الف : کسی انقلاب کی کامیابی اور معاشرے پر اس کا تسلط

ب : نفسیاتی کمزوری اور سخت حوادث کے مقابلے میں جرآت و ہمت کا فقدان

۲ ۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے :

۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے : اس میں شک و شبہ نہیں کہ نفاق اور منافق زمانہ پیغمبر(ص) سے مخصوص نہ تھے بلکہ ہر معاشرے میں اس گروہ کا وجود ہوتا ہے البتہ ضروری ہے کہ قرآن کے دئیے ہوئے معیار کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جائے تاکہ وہ کوئی نقصان یاخطرہ پیدا نہ کرسکیں ۔ زیر مطالعہ آیات کے علاوہ سورہ منافقین اور روایات اسلامی میں ان کی مختلف نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :

الف : زیادہ شور شرابہ اور بڑے بڑے دعوے۔ باتیں بہت ،عمل کم اور قول و فعل میں تضاد ہونا۔

ب : ہر جگہ کے رنگ کو اپنا لینا اور ہر گروہ کے ساتھ ان کے ذوق کے مطابق گفتگو کرنا۔ مومنین سے ”آمنا“ کہنا اور مخالفین سے ”انامعکم“۔

ج : عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ،خفیہ انجمنیں قائم کرنا اور پوشیدہ منصوبے بنانا۔

د : دھوکہ دہی مکرو فریب ، جھوٹ، تملق ، چاپلوسی، پیمان شکنی اور خیانت کی راہ چلنا۔

ھ : اپنے تئیں بڑا سمجھدار گرداننا اور دوسروں کو ناسمجھ، بیوقوف اور نادان قرار دینا۔

خلاصہ یہ کہ دو رخی اور اندرونی تضاد منافقین کی واضح صفت ہے، ان کا انفرادی و اجتماعی چال چلن ایسا ہوتا ہے جس سے انہیں واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔

قرآن حکیم کی یہ تعبیر کتنی عمدہ ہے کہ ”ان کے دل بیمار ہیں “ ( فی قلوبھم مرض)۔ کون سی بیماری ظاہر و باطن کے تضاد سے بدتر ہے او رکون سی بیماری اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور سخت حوادث کے مقابلے سے فرار سے بڑھ کرہے۔

جیسے دل کی بیماری جتنی بھی پوشیدہ ہو اسے کاملا مخفی نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اس کی علامت انسان کے چہرے اور تمام اعضاء بدن سے آشکار ہوتی ہیں ۔ نفاق کی بیماری بھی اسی طرح ہے جو مختلف مظاہر کے ساتھ قابل شناخت ہے اور اندرونی نفاق کی بیماری کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔

تفسیرنمونہ سورہ نساء آیت ۱۴۱ تا ۳۴۱ میں بھی صفات منافقین کے بارے میں بحث کی گئی ہے نیز سورہ توبہ آیت ۴۹ تا ۵۷ کے ذیل میں بھی اس سلسلے میں کافی بحث ہے اور سورہ توبہ آیت ۶۲ تا ۸۵ کے ذیل میں بھی ایسی ابحاث موجود ہیں ۔

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت :

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت : اگر چہ نفاق اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے ان بے ایمان لوگوں کے لئے ہے جو ظاہرا مسلمانوں کی صف میں داخل ہوں لیکن باطنی طور پر کفر کے دلدادہ ہوں لیکن نفاق کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار کے تضاد پر محیط ہے چاہے یہ چیز مومن افراد میں پائی جائے جنہیں ہم ” دور گہ ہائے نفاق“ (یعنی ۔ ایسے انسان یا حیوان جن کے ماں باپ مختلف نسل سے ہوں ) کہتے ہیں ۔

مثلا حدیث میں ہے :ثلاث من کن فیه کان منافقا و ان صام و صلی و زعم انه مسلم من اذا ائتمن خان و اذا حدث کذب و اذا وعدا خلف ۔

تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ( اور وہ صفات یہ ہیں ) جب امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے(۱) ۔

مسلم ہے کہ ایسے اشخاص اس خاص معنی کے لحاظ سے منافق نہیں تاہم نفاق کی جڑیں ان میں پائی جاتی ہیں ، خصوصا ریا کاروں کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :الریاء شجرة لا تثمر الا الشرک الخفی و اصلها النفاق ۔

یعنی ریا کاری و دکھاوا ایسا (تلخ) درخت ہے جس کا پھل شرک خفی کے علاوہ کچھ نہیں اوراس کی اصل اور جڑ نفاق ہے( ۲) ۔

یہاں پر ہم آپ کی توجہ امیرالمومنین علی(ع) کے ایک ارشاد کی طرف دلاتے ہیں جو منافقین کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا :

اے خدا کے بندو ! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں اور منافقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں گو گمراہ کرتے ہیں ، خود خطا کار ہیں اور دوسروں کو خطا ؤں میں ڈالتے ہیں ، مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں ، مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں ، ہر طریقے سے تمہیں پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چال چلتے ہیں ۔ ان کی گفتگو ظاہرا تو شفا بخش ہے لیکن ان کا کردا ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ۔ لوگوں کی خوش حالی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں ۔ امید رکھنے والوں کو مایوس کردیتے ہیں ۔ ہر راستے میں ان کا کوئی نہ کوئی مقتول ہے۔ ہردل میں ان کی راہ ہے اور ہر مصیبت پر ٹسوے بہاتے ہیں ۔ مدح و ثنا ایک دوسرے کو بطور قرض دیتے ہیں اور جزا و عوض کے منتظر رہتے ہیں اگر کوئی چیز لینی ہو تو اصرار کرتے ہیں اور اگر کسی کو ملامت کریں تو اس کی پردہ دری کرتے ہیں( ۳) ۔ ۔

____________________

۱۔ سفینة البحار، جلد ۲ ص ۶۰۵۔

۲۔ سفینة البحار جلد۱ مادہ رئی۔

۳۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۴

۴ ۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں :

۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں : نہ صرف اسلام بلکہ ہر انقلابی اور ارتقاء پسند آئین و دین کے لئے منافقین خطرناک ترین گروہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس جاتے ہین اور حوصلہ شکنی کےلئے ہر موقع غنیمت سمجھتے ہیں ۔ کبھی سچے مومنین کا اس پر بھی تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مختصر سرمایہ راہ خدا میں خرچ کیا ہے جیسے قرآں کہتے ہے :( الذین یلمزون المطوعین من الومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب الیم ) ۔

وہ مخلصین مومنین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے مختصر سرمایہ کو بے ریا راہ خدا میں ) خرچ کیا ۔ خدا ان سے استہزاء کرتاہے اور درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (توبہ ۷۹) ۔

کبھی وہ اپنی خفیہ میٹنگوں میں فیصلہ کرتے کہ رسول خدا (ص) کے اصحاب سے مالی امداد کلی طور پر منقطع کردیں اور آپ سے الگ ہوجائیں جیسے سورہ منافقون میں ہے :( هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضوا والله خزائن السموات والارض و لکن المنافقین لا یفقهون ) ۔

وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان سے مالی امداد منقطع کر لو تاکہ وہ آپ کے گردو پیش سے منتشر ہوجائیں ۔ جان لو کہ آسمان و زمین کے خزانے خدا کے لئے ہیں لیکن منافق نہیں جانتے (منافقون ۷) ۔

کبھی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جنگ سے مدینہ واپس پہنچنے پر متحد ہو کر مناسب موقع پر مومنین کو مدینہ سے نکال دیں گے اور کہتے تھے :

( لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منها الاذل ) ۔

اگر ہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے تو عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔(منافقون ۸) ۔

کبھی مختلف بہانے بنا کر (مثلا فصل کے محصولات کی جمع آوری کابہانہ) جہاد کے پروگرام میں شریک نہ ہوتے تھے اور سخت مشکلات کے وقت نبی اکرم (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہوجائے مبادا اس طرح انہیں رسوائی کا سامناکرنا پڑے۔

ان کی معاندانہ حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر سخت وار کئے ہیں اور قرآن مجید کی ایک سورت (منافقون) ان کے طور طریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، توبہ،حشر اوربعض دوسری سورتوں میں بھی انہیں ملامت کی گئی ہے اور اسی سورہ بقرہ کی تیرہ آیات انہی کی صفات اور انجام بد سے متعلق ہیں ۔

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا :

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا : مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی مشکل منافقین سے رابطے کے سلسلے میں تھی کیونکہ ایک طرف تو وہ مامور تھے کہ جو شخص اظہار اسلام کرے کشادہ روئی سے استقبال کیا جائے اور ان کے عقائد کے سلسلے میں جستجو اور تفتیش نہ کی جائے اور دوسری طرف منافقین کے منصوبوں کی نگرانی کا کام تھا۔ منافق اپنے تئیں جب حق کا ساتھی اور ایک فرد مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرواتا تو ا س کی بات قبول کرنا پڑتی جب کہ باطنی طور پر وہ اسلام کے لئے سد راہ ہوتا اور اس کے خلاف سوگند کھائے ہوئے دشمنوں میں سے ہوتا۔ یہ گروہ اس راہ کو اپنا کر اس زعم میں تھا کہ خدا اور مومنین کو ہمیشہ دھوکہ دے سکے گا۔ حالانکہ یہ لوگ لا شعوری طور پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔

یخادعون اللہ والذین آمنوا کی تعبیر دقیق معنی دیتی ہے (مخدوعہ کے معنی ہیں دونوں طرف سے دھوکہ دینا)یہ لوک ایک طرف تو کور باطنی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے تھے کہ نبی اکرم(ص) دھوکہ باز ہیں اور انہوں نے حکومت کے لئے دین و نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں لہذا ان کا مقابلے میں دھوکا ہی کرنا چاہئے۔ اس بناء پر ان منافقین کا کام ایک طرف تو دھوکا وفریب تھا دوسری طرف نبی اکرم(ص) کے بارے میں اس قسم کا غلط اعتقاد رکھتے تھے لیکن جملہ ”( و ما یخدعون الا انفسهم و مایشعرون ) “ ان کے دونوں ارادوں کو خاک میں ملاتا ہوا نظر آتا ہے یہ جملہ ایک طرف تویہ ثابت کرتا ہے کہ دھوکہ و فریب صرف انہی کی طرف سے ہے ۔ دوسری طرف کہتا ہے کہ اس فریب کی باز گشت بھی انہی کی طرف ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کا اصلی سرمایہ جو حصول سعادت کے لئے خدا نے ان کے وجود میں پیداکیا ہے وہ اسے دھوکہ و فریب کی راہ میں برباد کر رہے ہیں اور ہر خیر و نیکی سے تہی دامن اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے دنیا سے جارہے ہیں ۔

کوئی شخص بھی خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ظاہر وباطن سے باخبر ہے اس بناء پر یخادعون اللہ سے تعبیر کرنا اس لحاظ سے ہے کہ رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکا دینا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے (دوسرے مواقع پر بھی قرآن میں ہے کہ خدا وند عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی تعظیم کے لئے خود ان کی صف میں بیان کرتا ہے) یاپھر یہ لوگ صفات خدا کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنی کوتاہ و ناقص فکر سے واقعا یہ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہو ایسی نظیر قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

بہرحال زیر نظر آیت وجدان کو دھوکا دینے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گمراہ اور گناہ سے آلودہ انسان برے اور غلط اعمال کے مقابلے میں وجدان کی سزا و سرزنش سے بچنے کے لئے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تئیں مطمئن کر لیتا ہے کہ نہ صرف اس کا عمل برا اور قبیح نہیں بلکہ باعث اصلاح ہے اور فساد کے مقابلے میں( انما نحن مصلحون ) یہ اس لئے کہ وجدان کو دھوکہ دے کرا طمینان سے غلط کام کو جاری رکھ سکے۔

امریکہ کےایک صدر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ( ہیرو شیما اور ناگا ساکی) کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا جب کہ اس سے دو لاکھ افراد بچے، بوڑھے اور جوان ہلاک یا ناقص الاعضاء ہوگئے تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو جنگ طویل ہوجاتی اور پھر زیادہ افراد کو قتل کرنا پڑتا۔

گویا ہمارے زمانے کے منافق بھی اپنے وجدان یا لوگوں کو دھوکادینے کے لئے ایسی باتیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں حالانکہ جنگ جاری رکھنے یا شہر کو ایٹم بم سے اڑانے کے علاوہ تیسری واضح راہ بھی تھی وہ یہ کہ توسیع پسندی سے ہاتھ اٹھالیں اور قوموں کو ان کے ملکوں کے سرمائے کے ساتھ آزادانہ رہنے دیں ۔

نفاق حقیقت میں وجدان کو فریب دینے کا وسیلہ ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان اس اندرونی واعظ ، ہمیشہ بیدار و پہریدار اور خدا کے باطنی نمائندے کا گلا گھونٹ دے یا اس کے چہرے پر اس طرح پردہ ڈال دے کہ اس کی آواز کان تک نہ پہنچے

۶ ۔ نقصان زدہ تجارت :

۔ نقصان زدہ تجارت : اس دنیا میں انسان کی کار گزاریوں کو قرآن مجید میں بار ہا ایک قسم کی تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقیقت میں ہم سب اس جہان میں تاجر ہیں اور خدا نے ہمیں عقل،فطرت، احساسات، مختلف جسمانی قوی، نعمات دنیا طبیعت اور سب سے آخر میں انبیاء کی رہبری کا عظیم سرمایہ عطا فرما کر تجارت کی منڈی میں بھیجا ہے۔ ایک گروہ نفع اٹھاتا ہے اور کامیاب و سعادت مند ہوجاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ نہ صرف یہ کہ نفع حاصل نہیں کرتا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور مکمل دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ پہلے گروہ کا کامل نمونہ مجاہدین راہ خدا ہیں جیسا کہ قرآن ان کے بارے میں کہت ہے :

( یا ایها الذین آمنوا هل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله باموالکم و انفسکم ) ۔

اے ایمان والو ! کیا تمہیں ایسی تجارت کی راہنمائی نہ کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور سعادت ابدی کا ذریعہ ہو) خدا اور اس کے سول پر ایمان لے آؤ اور اس کی راہ میں مال وجان سے جہاد کرو۔ (صف ، ۱۰،۱۱) ۔

دوسرے گروہ کا واضح نمونہ منافقین ہیں ۔ منافقین جو مخرب اور مفسد کام اصلاح و عقل کے لباس میں انجام دیتے تھے۔

قرآن گذشتہ آیات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” وہ ایسے لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا ہے اور یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش ہے نہ ہی باعث ہدایت۔ وہ لوگ ایسی پوزیشن میں تھے کہ بہترین راہ انتخاب کرتے۔ وہ وحی کے خوشگوار او رمیٹھے چشمے کے کنارے موجود تھے اور ایسے ماحول میں رہتے تھے جو صدق و صفا اورایمان سے لبریز تھا۔

بجائے اس کے کہ وہ ا س خاص موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے جو طویل صدیوں میں ایک چھوٹے سے گروہ کو نصیب ہوا، انہوں نے ایسی ہدایت کھو کر گمراہی خرید لی جو ان کی فطرت میں تھی اور وہ ہدایت جو وحی کے ماحول میں موجزن تھی۔ ان تمام سہولتوں کو وہ اس گمان میں ہاتھ سے دے بیٹھے کہ اس سے وہ مسلمانوں کوشکست دے سکیں گے اور خود ان کے گندے دماغوں میں پرورش پانے والے برے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جبکہ اس معاملے اور غلط انتخاب میں اہیں دو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا :

الف : ایک یہ کہ ان کا مادی اور معنوی دونوں قسم کا سرمایہ تباہ ہوگیا اور اس سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہ پہنچا۔

ب : دوسرا یہ کہ وہ اپنے غلط مطمع نظر کو پا بھی نہ سکے کیونکہ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور صفحہ ہستی پر محیط ہوگیا اور یہ منافقین بھی رسوا ہوگئے۔

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.

پیدائش سے پہلے

باایمان ماں کاانتخاب

آپ (ص)نے فرمایا: اپنے نطفوں کیلئے مناسب اور پاکدامن رحم تلاش کرو۔پہلے ذکر کرچکا کہ خاندانی صفات بھی قانون وراثت کے مطابق اولادوں میں منتقل ہوتی ہیں خواہ وہ صفات اچھی ہو یا بری۔ اسی لئے حضرت زہرا کی شھادت کے بعد امیرالمؤمنین نے نئی شادی کرنا چاہی تو اپنے بھائی عقیل سے کہا کہ کسی شجاع خاندان میں رشتہ تلاش کرو۔تاکہ ابوالفضل جیسے شجاع اور با وفا فرزند عطا ہوں۔

دلہن باعث خیر و برکت

رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ ص عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِذَا دَخَلَتِ الْعَرُوسُ بَيْتَكَ فَاخْلَعْ خُفَّيْهَا حِينَ تَجْلِسُ وَ اغْسِلْ رِجْلَيْهَا وَ صُبَّ الْمَاءَ مِنْ بَابِ دَارِكَ إِلَى أَقْصَى دَارِكَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْ بَيْتِكَ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْفَقْرِ وَ أَدْخَلَ فِيهِ سَبْعِينَ أَلْفَ لَوْنٍ مِنَ الْبَرَكَةَ وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ سَبْعِينَ رَحْمَةً وَ تَأْمَنَ الْعَرُوسُ مِنَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ الْبَرَصِ أَنْ يُصِيبَهَا مَا دَامَتْ فِي تِلْكَ الدَّارِ (۱)

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول خد نے علی ابن ابی طالب نصیحت کی اور فرمایا : یا علی ! جب دلہن آپ کے گھر میں داخل ہوجائے تو اس کا جوتا اتارکر اس کے پاؤں دھلائیں ۔ اور اس پانی کو گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکائیں ۔ جب آپ ایسا کروگے تو خدا تعالی ستر قسم کے فقر اور مفلسی کو آپ کے گھر سے دور کرے گا ، اور ستر قسم کی برکات کو نازل کرے گا، اور دلہن بھی جب تک تیرے گھر میں ہوگی ؛دیوانگی، جزام او ر برص کی بیماری سے محفوظ رہےگی۔

دلہن کچھ چیزوں سے پرہیز کرے

وَ امْنَعِ الْعَرُوسَ فِي أُسْبُوعِهَا مِنَ الْأَلْبَانِ وَ الْخَلِّ وَ الْكُزْبُرَةِ وَ التُّفَّاحِ الْحَامِضِ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِأَيِّ شَيْ‏ءٍ أَمْنَعُهَا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ الْأَرْبَعَةَ قَالَ لِأَنَّ الرَّحِمَ تَعْقَمُ وَ تَبْرُدُ مِنْ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْيَاءِ عَنِ الْوَلَدِ وَ لَحَصِيرٌ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَالُ الْخَلِّ تَمْنَعُ مِنْهُ قَالَ إِذَا حَاضَتْ عَلَى الْخَلِّ لَمْ تَطْهُرْ أَبَداً بِتَمَامٍ وَ الْكُزْبُرَةُ تُثِيرُ الْحَيْضَ فِي بَطْنِهَا وَ تُشَدِّدُ عَلَيْهَا الْوِلَادَةَ وَ التُّفَّاحُ الْحَامِضُ يَقْطَعُ حَيْضَهَا فَيَصِيرُ دَاءً عَلَيْهَا (۲)

دلہن کو پہلے ہفتے میں دودھ، سرکہ ،پودینہ اور ترش سیب کھانے سے منع کریں ۔ امیر المؤمنین نے عرض کیا : یا رسول اللہ کس لئے ان چار چیزوں کے کھانےسے اسے منع کروں؟! تو فرمایا: ان چار چیزوں کے کھانے سے اس کی بچہ دانی ٹھنڈی اور نازا ہوجاتی ہے،اور گھر کے کونے میں محصور ہوکر رہنا بھانج عورت سے بہتر ہے۔پھر امیرالمؤمنین نے سوال کیا یا رسول اللہ !سرکہ یا ترشی سے کیوں روکا جائے؟ تو فرمایا: اگر ترشی پر حیض آجائے تو کبھی حیض سے پاک نہیں ہوگی۔اور پودینہ تو حیض کو عورت کے پیٹ میں پھیلاتی ہےاور بچہ جننے میں سختی پیدا کرتی ہے۔اور ترش سیب حیض کو بند کردیتا ہے، جو عورت کے لئے بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

____________________

۱ ۔ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۳،ص ۵۵۱۔

۲ ۔ ہمان۔

آداب مباشرت

آپ (ص)نے حضرت علی (ع)سےمخاطب ہوکر ایک طویل خطبہ دیا جس کا پہلا حصہ اوپر کے دو عناوین میں بیان ہوا اور بقیہ حصہ مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان آداب کی رعایت کا سختی سے حکم دیا گیا ہے:

مہینے کی تاریخوں کا خیال رکھے:

یا علی !یاد کرلو ھ سے میری وصیت کو جس طرح میں نے اسے میرے

بھائی جبرائیل سے یاد کیا ہے۔

ثُمَّ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ وَ وَسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَإِنَّ الْجُنُونَ وَ الْجُذَامَ وَ الْخَبَلَ لَيُسْرِعُ إِلَيْهَا وَ إِلَى وَلَدِهَا ۔

اے علی! مہینے کی پہلی ،درمیانی اور آخری تاریخ کو اپنی بیوی کیساتھ مباشرت نہ کرو کیونکہ ان ایام میں ٹھہرا ہوا بچّہ پاگل، جزام اور ناقص الاعضاء پیدا ہوگا۔

* بعد از ظہر مباشرت ممنوع :يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بَعْدَ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَكُونُ أَحْوَلَ وَ الشَّيْطَانُ يَفْرَحُ بِالْحَوَلِ فِي الْإِنْسَانِ ۔ اے علی! ظہرین کے بعد ہمبستری نہ کرو کیونکہ اس سے اگر حمل ٹھہرے تو وہ نامرد ہوگا ۔ اور شیطان انسانوں میں نامرد پیدا ہونے سے بہت خوش ہوتا ہے ۔

ذکر الہی میں مصروف رہے:

يَا عَلِيُّ لَا تَتَكَلَّمْ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَكُونَ أَخْرَسَ ۔

اے علی ! ہمبستری کرتے وقت باتیں نہ کرو ۔ اگر اس دوران بیٹا پیدا ہوجائے تو وہ گونگا ہوگا۔

شرم گاہ کو نگاہ نہ کرے :

وَ لَا يَنْظُرَنَّ أَحَدٌ إِلَى فَرْجِ امْرَأَتِهِ وَ لْيَغُضَّ بَصَرَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ فَإِنَّ النَّظَرَ إِلَى الْفَرْجِ يُورِثُ الْعَمَى فِي الْوَلَدِ(۳) اے علی ! مباشرت کرتے وقت شرم گاہ کو نہ دیکھو ۔ اس دوران اگر حمل ٹھہر جائے تو وہ اندھا پیدا ہوگا۔

اجنبی عورت کا خیال ممنوع :

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ بِشَهْوَةِ امْرَأَةِ غَيْرِكَ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ أَنْ يَكُونَ مُخَنَّثاً أَوْ مُؤَنَّثاً مُخَبَّلًا يَا عَلِيُّ مَنْ كَانَ جُنُباً فِي الْفِرَاشِ مَعَ امْرَأَتِهِ فَلَا يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْهِمَا نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتُحْرِقَهُمَا قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا الْكِتَابِ رَحِمَهُ اللَّهُ يَعْنِي بِهِ قِرَاءَةَ الْعَزَائِمِ دُونَ غَيْرِهَا(۴) اے علی! اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرتے وقت کسی اور نامحرم کا خیال نہ آنے پائے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر اس موقع پر کوئی بچہ حمل ٹھہر جائے تو وہ خنثیٰ پیدا ہوگا اور اگر بچی ہو تو وہ بھانج ہوگی۔

میاں بیوی الگ تولیہ رکھے:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ إِلَّا وَ مَعَكَ خِرْقَةٌ وَ مَعَ أَهْلِكَ خِرْقَةٌ وَ لَا تَمْسَحَا بِخِرْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَتَقَعَ الشَّهْوَةُ عَلَى الشَّهْوَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُعْقِبُ الْعَدَاوَةَ بَيْنَكُمَا ثُمَّ يُؤَدِّيكُمَا إِلَى الْفُرْقَةِ وَ الطَّلَاقِ(۵) اے علی! بیوی کے ساتھ مباشرت کرتے وقت الگ الگ تولیہ رکھے ۔ ایک ہی تولیہ سے صاف نہ کرے کیونکہ ایک شہوت دوسری شہوت پر واقع ہوجاتی ہے جو میاں بیوی کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے اور بالآخرہ جدائی اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔

کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا:

َیا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ مِن قِيَامٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الْحَمِيرِ فَإِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ كَانَ بَوَّالًا فِي الْفِرَاشِ كَالْحَمِيرِ الْبَوَّالَةِ فِي كُلِّ مَكَانٍ -(۶) اے علی! کھڑے ہوکر مباشرت نہ کرنا کیونکہ یہ گدھے کی عادت ہے ۔ ایسی صورت میں اگر بچہ ٹھہر جائے تو وہ بستر میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائے گا ۔

شب ضحی کو مباشرت نہ کرو:

يَا عَلِيُّ لَا تُجَامِعِ امْرَأَتَكَ فِي لَيْلَةِ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ إِنْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَدٌ يَكُونُ لَهُ سِتُّ أَصَابِعَ أَوْ أَرْبَعُ(۷) اے علی ! عید الضحیٰ کی رات کو مباشرت کرے تو اگر بچہ ٹھہر جائے تو اس کی چھ یا چار انگلیاں ہوگی۔

مضطرب حالت میں نہ ہو :

امام حسن مجتبی (ع) فرماتے ہیں:اگر آرامش ، سکون اور اطمنان قلب وغیر مضطرب حالت میں مباشرت کرے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کی شکل میں پیدا ہوگا –(۸) لیکن اگر مضطرب حالت میں ہو تو ماموں اور ننھیال کی شکل و صورت میں پیدا ہوگا۔

جب ایک عورت نے پیامبر(ص)کی خدمت میں آکر عدالت الہی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: کہ میں خدا کو عادل نہیں مانتی کیونکہ اس نے ہمیں نابینا بیٹا دیا ، میرے بیٹے اور میرے شوہر کا کیا قصور تھا؟آپ (ص)نے کچھ تأمل کرنے کے بعد فریایا: کیا تیرا شوہر تیرے پاس آتے وقت نشے کی حالت میں تو نہیں تھا؟ تو اس نے کہا : ہاں ایسا ہی تھا کہ وہ شراب پیا ہوا تھا۔ تو اس وقت فرمایا: بس تو اپنے آپ پر ملامت کرو۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مباشرت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ بچہ اندھا پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو جسمانی تأثیر ہے ۔روحانی تأثیر کے بارے میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ امْرَأَتَهُ وَ فِي الْبَيْتِ صَبِيٌّ مُسْتَيْقِظٌ يَرَاهُمَا وَ يَسْمَعُ كَلَامَهُمَا وَ نَفَسَهُمَا مَا أَفْلَحَ أَبَداً إِنْ كَانَ غُلَاماً كَانَ زَانِياً أَوْ جَارِيَةً كَانَتْ زَانِيَة(۹)

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی

کیساتھ مباشرت کرے اور اس کمرے میں چھوٹا بچہ جاگ رہا ہو اور انہیں دیکھ رہا ہو اور ان کی باتوں اور سانسوں کو سن رہا ہو تو کبھی بھی وہ نیک اولاد نہیں ہوگی، اگر بچہ ہو تو وہ زانی ہوگا اور اگر وہ بچی ہو تو وہ زانیہ ہوگی۔

____________________

۱ ۔ ہمان، مکارم الاخلاق،ص.١٢٩

۲ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳،ص۵۵۱۔

۳ ۔ ہمان۔

۴ ۔ ہمان

۵ ۔ ہماان

۶ ۔ ہمان

۷ ۔ ہمان

۸ ۔ بحارالانوار۔

۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۲۰، ص۱۳۳۔،الکافی،ج۵، ص۵۰۰۔

ہم فکرو ہم خیال بیوی

یعنی اعتقاد اور فکری لحاظ سے یک سو ہو۔ اور ایمان و عمل کے لحاظ سے برابر اور مساوی ہو۔ایک شخص نے امام حسن (ع) سے اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں

رأے مانگی تو آپ نے فرمایا:زوّجها من رجل تقیّ فانّه ان احبّها اکرمها وان ابغضها لم یظلمها (۱)

اس کی شادی کسی پرہیزگار شخص کیساتھ کرو اگر وہ تیری بیٹی کو چاہتا ہے تو اس کا احترام کریگا ، اور اگر پسند نہیں کرتا ہے تو تیری بیٹی پر ظلم نہیں کریگا۔

____________________

۱. طبرسی، مکارم الاخلاق،ص۲۰۴۔

دلسوزاور مہربا ن ما ں

دلسوزاور مہربان ہونا پیامبر اسلام (ص) کا شیوہ ہے۔ چنانچہ آپ اس قدر اپنی امت پر دلسوز اور مہربان تھے کہ خدا تعالی کو کہنا پڑا :لعلّک باخع نفسک ۔ اے پیامبر ! تو اپنے آپ کو اپنی امت کے خاطر مت جلاؤ کیونکہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

پیدائش کے بعد

کانوں میں اذان واقامت

امام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا :یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنه الیمنی و اقم فی الیسری فانّه لا یضرّه الشیطان ابداً -(۱)

اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ –(۲) اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔

اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:

قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ تو

فرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔

گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی R فرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!

جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔

ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نے

اسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی(۳)

____________________

۱. تحف العقول،ص١٦ ۔

۲ ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤

۳ ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.

دودھ کی تأثیر

بچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین –(۱) نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔

دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً (۲) ۔

اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔

بچپنے کا دور

قَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۳)

امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،

دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔

صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا -(۴)

امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دو

تاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔

____________________

۱ ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.

۲ ۔ ھمان

۳ ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔

۴ ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔

پاک اور حلال غذا کی تأثیر

اگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہ حرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔

بچے کی کفالت

قَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ(۱)

حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترام بچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا(۲)

امام حسن مجتبی (ع) اور بچے

ایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے(۳)

امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔

اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔

پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا:وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یده برأس یتیم رفقاً به جعل الله له فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یده قصراًاوسع من الدنیا بمافیها وفیها ماتشتهی الانفس وتلذّالاعین وهم فیها خالدون (۴)

اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرے

ساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے(۵)

اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔

____________________

۱ ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧

۲ ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔

۳ ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.

۴ ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔

۵ ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔

بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانی

اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!

بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب

ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ(۱) اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔

ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔

بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ

والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔(۲)

تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ

اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔

بچوں سے محبت

اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!

ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے(۳)

بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(۴)

____________________

۱ ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔

۲ ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.

۳ ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.

۴ میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41