تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 7%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80987 / ڈاؤنلوڈ: 5789
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

ـآیات ۱۷،۱۸،۱۹،۲۰

( مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا آضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ ) ( ۱۷)

( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُونَ ) ( ۱۸)

( آوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ آصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ) ( ۱۹)

( یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ آبْصَارَهُمْ کُلَّمَا آضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا آظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَآبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ( ۲۰) ۔

ترجمہ :

۱۷ ۔ وہ (منافقین) اس شخص کی مثل ہیں جس نے آگ روشن کی ہو (تاکہ تاریک بیابان میں اسے راستہ مل جائے) مگر جب آگ سے سب اطراف روشن ہوگئیں تو خدا وند عالم نے (طوفان بھیج کر) اسے خاموش کردیا اورایسی وحشتناک تاریکی مسلط کی جس میں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۱۸ ۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں لہذا خطا کاری کے راستے سے پلٹیں گے نہیں ۔

۱۹ ۔ یا پھر ان کی مثال ایسی ہے کہ بارش شب تاریک میں گھن گرچ، چمک اور بجلیوں کے ساتھ (رہگذروں کے سروں پر ) برس رہی ہور اور وہ موت کے خوف سے اپنے کانون میں انگلیاں ٹھونس لیں تاکہ بجلی کی آواز سے بچیں اور یہ سب کافر خدا کے احاطہ قدرت میں ہیں ۔

۲۰ ۔ قریب ہے کہ بجلی کی خیرہ کرنے والی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے۔ جب بھی بجلی چمکتی ہے اور(صفحہ بیابان کو) ان کے لئے روشن کردیتی ہے تو وہ (چند گام) چل پڑتے ہیں اور جب وہ خاموش ہوجاتی ہے تورک جاتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں تلف کردے (کیونکہ) یقینا ہر چیز خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے۔

منافقین کے حالات واضح کرنے کے لئے دو مثالیں :

منافقین کی صفات و خصوصیات بیان کرنے کے بعد قرآن مجید کی کیفیت کی تصویر کشی کے لئے زیر نظر آیات میں دو واضح مثالیں اور تشبہیں بیان کرتا ہے :

۱ ۔ پہلی مثال میں ہے کہ وہ اس شخص کی مانند ہیں جس نے (سخت تاریک رات میں ) آگ روشن کی ہو (تاکہ اس کی روشنی میں سیدھے اور ٹیڑھے راستے کی پہچان کرسکے اور منزل مقصود تک پہنچ جائے)( مثلهم کمثل الذین استوقد نارا ) مگر جب آگ کے شعلوں نے گردوں پیش کو روشن کردیا تو خدا وند عالم نے اسے بجھا دیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اس عالم میں کہ وہ کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے( فَلَمَّا آضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ ) وہ سمجھتے تھے کہ اس تھوڑی سی آگ اور اس کی روشنی سے تاریکیوں کے ساتھ بر سرپیکار رہ سکیں گے مگر اچانک آندھی اٹھی یا سخت بارش برسی یا ایندھن ختم ہو گیا اور آگ سردی اور خاموشی میں بدل گئی یوں وہ دوبارہ وحشت ناک تاریکی میں سر گرداں ہوگئے اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور چونکہ ادراک حقائق کا کوئی وسیلہ ان کے پاس نہیں رہا لہذا وہ اپنے راستے سے پلٹیں گے نہیں( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُونَ ) یہ کس قدر باریک اور واضح مثال ہے۔ انسانی زندگی میں ٹیڑھے راستے تو بہت ہیں لیکن خط مستقیم جو منزل مقصود تک پہنچتا ہے وہ ایک سے زیادہ نہیں ۔ لیکن ٹیڑھے خط تو بہت ہیں علاوہ از ایں اس راستے میں تاریکیوں کے پردے، وحشتناک طوفان اور قسم قسم کے حوادث ہیں لہذا ایک ایسے روشن چراغ کی ضرورت ہے جو ان حوادث سے محفوظ رہ سکے وہ تاریکی کے پردوں کو چاک کرسکے اور طوفانوں کا مقابلہ کرسکے اور ایسا چراغ سوائے چراغ عقل و ایمان اور خورشید وحی کے کوئی اور نہیں ۔

مختصر شعلہ جو انسان وقتی طور پر روشن کرتا ہے وہ اس طویل مسافت میں جس میں طوفان ہی طوفان ہیں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔

منافقین نفاق کی راہ انتخاب کرکے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہر حال میں اپنی حیثیت و وجاہت کی حفاظت کرسکیں گے اور ہر احتمالی خطرے سے محفوظ رہ سکیں گے اور دونوں طرف سے منافع سمیٹ لیں گے اور جو گروہ بھی غالب ہوگا ہمیں اپنے میں سے سمجھے گا اگر مومن کامیاب ہوئے تو مومنین کی صف میں او راگر کافر غالب رہے تو ان کے ساتھ۔

وہ اپنے آپ کو چالاک اور ہوشیار سمجھتے تھے اور اس کمزور و ناپائیدار شعلے کی روشنی میں اپنی رہ حیات پر ہمیشہ کے لئے چلنا چاہتے تھے تاکہ خوشحالی تک جاپہنچیں لیکن قرآن نے انہیں بے نقاب کردیا اور ان کے جھوٹ کو آشکار کردیا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :

( اذا جائک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله و الله یعلم انک لرسوله و الله یشهد ان المنافقین لکاذبون ) ۔

جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں ۔ خدا جانتا ہے کہ آپ اسی کے بھیجے ہوئے ہیں مگر خدا جانتا ہے کہ منافق اپنے اظہارات میں جھوٹے ہیں (منافقون ۱) ۔

یہاں تک کہ قرآن کفار کو بھی واضح کرتا ہے کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ بھی نہیں ہیں وہ جو بھی وعدے کرتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔

( آلَمْ تَری إِلَی الَّذِینَ نَافَقُوا یَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمْ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ آهْلِ الْکِتَابِ لَئِنْ آخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَنُطِیعُ فِیکُمْ آحَدًا آبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللهُ یَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ( ۱۱)( لَئِنْ آخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَیَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْآدْبَارَ ثُمَّ لاَیُنْصَرُونَ ) ۔

منافق اہل کتاب میں سے اپنے کافر بھائیوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تمہیں مدینہ سے باہر نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے ۔ لیکن اور تمہارے بارے میں کسی بات پر کان نہیں دھریں گے او راگر تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اگر انہیں باہر کیا گیا تو یہ ان کے ساتھ باہر نہیں جائیں گے۔ اور اگر ان (کافروں ) سے جنگ ہوئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے یہ تو (محاذ جنگ سے) بھاگ جائیں گے اور ثابت قدم نہیں رہیں گے (حشر ۱۱ ، ۱۲) ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن نے جملہ ” استوقد نارا“ سے استفادہ کیا ہے یعنی وہ نور تک پہنچنے کے لئے نار کا سہارا لیں گے و ہ آگ کہ جس میں دھواں ، خاکستراور سوزش ہے جب کہ مومنین خالص نور اور ایمان کے روشن و پرفروغ چراغ سے بہرہ ور ہیں ۔

منافقین اگر چہ نور ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا باطن نار سے پر ہے او راگر نور ہو بھی تو کمزور او رٹھوڑی مدت کا ہے یہ مختصر نور وجدان و فطرت توحیدی کی روشنی کی طرف اشارہ ہے یا ان کے ابتدائی ایمان کی طرف جو بعد میں کورانہ تقلید ، غلط تعصب، ڈھٹائی اور عدوات کے نتیجے میں تاریک پردوں کی اوٹ میں چھپ گیا قرآن کی نظروں میں یہ سیاہ پردے ظلمت نہیں بلکہ ظلمات ہیں ۔

یہی چیزیں ہیں جو بالآخر ان سے دیکھنے والی آنکھ، سننے والا کان اور بولنے والی زبان چھین لیتی ہیں کیونکہ (جیسا پہلے بھی کہا جا چکا ہے) غلط راستے پر چلتے رہنا رفتہ رفتہ قوت تشخیص اور ادراک انسانی کو کمزور کردیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اسے حقائق الٹ نظر آتے ہیں اس کی نگاہ میں نیک بد ہوجاتا ہے۔ فرشتہ اسے جن نظر آنے لگتا ہے بہرحال یہ تشبیہ در حقیقت نفاق کے سلسلے میں ایک واقعیت کو واضح کرتی ہے اور وہ یہ کہ نفاق و دو رخی طویل مدت کے لئے موثر نہیں ہوسکتی۔ منافق تھوڑی مدت تک اسلام کی خوبیوں اور مومنین کی معنویت و حفاظت سے سرفراز رہیں اور کفار سے پوشیدہ دوستی بھی بہرہ مند ہوں لیکن یہ ایک شعلہ ضعیف کی طرح ہے جو بیابان تاریک اور ظلمانی طوفانوں کی رد میں ہے۔ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان کا حقیقی چہرہ آشکار ہوجاتا ہے اور کسب مقام و محبوبیت کی بجائے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں دور پھینک دیتے ہیں اور ان کی حالت اس شخص کی سی ہوتی ہے جو سرگرداں ہو جس نے بیابان میں راستہ کھودیا ہو اور چراغ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔

یہ نکتبہ بھی قابل توجہ ہے کہ آیہ( هو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا ) ( وہ خدا ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بخشا ہے) کی تفسیر میں امام باقر(ع) سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

اضاء ت الارض بنور محمد کما تضیئی الشمس فضرب الله مثل محمد الشمس و مثل الوصی القمر ۔

خدا وند عالم نے روئے زمین کو محمد (ص) کے وجود سے روشنی بخشی جس طرح آفتار سے ۔ لہذا محمد(ص) کو آفتاب سے اور ان کے وصی (علی) کو چاند سے تشبیہ دی(۱) ۔

یعنی نور ایمان وحی عالمگیر ہے جب کہ نفاق کا کوئی پرتو ہو بھی تو وہ اپنے گرد کے ایک چھوٹے سے دائرے میں اور بہت تھوڑی مدت کے لئے روشنی دیتا ہے (ماحولہ)۔

۲ ۔ دوسری مثال میں قرآن ان کی زندگی کو ایک دوسری شکل میں پیش کرتا ہے :

تاریک و سیاہ اور پرخوف و خطر رات ہے جس میں شدید بارش ہورہی ہے۔ افق کے کناروں سے پرنور بجلی چمکتی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک او رمہیب ہے کہ کانوں کے پردے چاک کئے دیتی ہے۔ وہ انسان جس کی کوئی پناہ گاہ نہیں وسیع و تاریک او رخطرناک دشت و بیابان کے وسط میں حیران و سرگرداں کھڑا ہے موسلا دھار بارش نے اس کی پشت کو تر کردیا ہے نہ کوئی جائے امان ہے اور نہ تاریکی چھٹتی ہے کہ قدم اٹھائے۔

مختصر سی عبارت میں قرآن یسے مسافر کی نقشہ کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ منافقین کی حالت یا ایسی ہے جیسے تاریک رات میں سخت باش گرج چمک اور بجلیوں کے ساتھ (رہگذروں کے سروں پر) برس رہی ہو( او کصیب من السماء فیه ظلمات و رعد و برق ) اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے ہیں تاکہ وحشت ناک بجلیوں کی آواز نہ سنیں (یجعلون اصابعھم فی آذانھم من الصواعق حذر الموت)۔

اور آخر میں فرماتا ہے : خدا وند عالم کی قدرت کافروں پر محیط ہے وہ جہاں جائیں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں( والله محیط بالکافرین ) ۔

پے در پے بجلیاں صفحہ آسمان پر کوندتی ہیں ۔ بجلیوں کی روشنی آنکھوں کو یوں خیرہ کئے دیتی ہے کہ قریب ہے کہ آنکھوں کو اچک لے( یکاد البرق یخطف ابصارهم ) ۔

جب بجلی چمکتی ہے اور صفحہ بیابان روشن ہوجاتا ہے تو مسافر چند قدم چل لیتے ہیں لیکن فورا تاریکی ان پر مسلط ہوجاتی اور وہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں( کُلَّمَا آضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا آظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا ) ۔

وہ ہر لحظہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس وسط بیابان میں کوئی پہاڑ دکھائی دیتا ہے نہ درخت نظر پڑتا ہے جو رعد اور برق و صاعقہ کے خطرے کو روک سکے۔ ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ بجلی ان پر گرے اور وہ فورا خاکستر ہو جائیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ صواعق (آسمانی بجلیاں )زمین سے ابھر ی ہوئی چیز پر جملہ کرتی ہیں لیکن وسط بیابان میں سوائے ان اشخاص کے کوئی ابھری ہوئی چیز بھی نہیں کہ بجلی اس طرف متوجہ ہو لہذا خطرہ یقینی اور حتمی ہے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کوہستانی علاقوں کی نسبت حجاز کے بیابانوں میں آسمانی بجلی کے انسانوں پر گرنے کا خطرہ نسبتا کئی گنا زیادہ ہے اس مثال کی اہمیت اس علاقے کے لوگوں کے لئے زیادہ روشن ہوجاتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ وہ ونہیں جانتے کہ کیا کریں مضطرب و پریشان اور حیران و سرگرداں اپنی جگہ کھرے ہیں ۔ بیابان و ریگستان میں نہ راہ سمجھائی دیتی ہے نہ کوئی راہنما نظر آتاہے۔ جس کی راہنمائی میں قدم آگے بڑھا سکیں ۔ یہ خطرہ بھی کہ بادلوں کی گرج ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دے او رآنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی بصارت چھین لے جائے او رہاں خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھ کو ختم کردے کیونکہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے( وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَآبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ۔

منافقین بعینہ ان مسافروں کی طرح ہیں ۔ مومنین کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سخت سیلاب او رموسلا دھار بارش کی طرح ہر طرف سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کے درمیان منافق موجود ہیں افسوس کہ انہوں نے قابل اطمینان پناہ گاہ ، ایمان، سے پناہ نہیں لی تاکہ عذاب الہی کی فنا کردینے والی بجلیوں سے نجات پاسکیں ۔

مسلمانوں کا مسلح جہاد دشمنوں کے مقابلے میں رعد وصاعقہ کی سخت آواز کی طرح ان کی سر پر آپڑتا ہے کبھی کبھی راہ حق پیدا کرنے کے مواقع انہیں نصیب ہوتے ہیں کہ کچھ افکار بیدار ہوں مگر افسوس کہ یہ بیداری آسمانی بجلی کی طرح دیر پانہ رہتی چند ہی قدم چلتے تو بجھ جاتی اور غفلت کی تاریکی پھر توقف و سر گردانی کی جگہ لے لیتی۔

اسلام کی تیز پیش رفت آسمانی بجلی کی طرح ان کی آنکھوں کو خیرہ کر چکی تھی اور آیات قرآنی ان کے پوشیدرازوں سے پردہ اٹھا دیتی تھیں اور بجلیوں کی طرح انہیں اپنا ہدف بناتی تھیں ۔ انہیں ہر وقت احتمال ہوتا کہ کہیں کوئی آیت نازل ہو کر ان کے کسی اور راز سے پردہ نہ اٹھا دے اور وہ زیادہ سوا نہ ہوجائیں ۔

جیسا کہ قرآن سورہ توبہ، آیت ۶۴ میں فرماتا ہے :

( یحذر المنافقون ان تنزل علیهم سورة تنبئهم بما فی قلوبهم قل استهزء و ا ان الله مخرج ما تحذرون ) ۔

منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ مبادہ کوئی سورہ ان کے برخلاف نازل ہو او رجو کچھ وہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں وہ فاش ہوجائے۔ کہیے جتنا چاہتے ہو استہزاء کرلو جس سے ڈرتے ہو خدا اسے ظاہر کر کے رہے گا۔

منافق اس سے بھی ترساں تھے کہ ان کے اسرار ظاہر ہوجانے کے بعد کہیں خدا کی طرف سے ان اندرونی خائن دشمنوں کے خلاف فرمان جنگ جاری نہ ہو جائے اور مسلمان جو اس وقت قوی اور طاقت ور ہو چکے ہیں ان پر حملہ نہ کردیں ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

( لَئِنْ لَمْ یَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِهِمْ ثُمَّ لاَیُجَاوِرُونَکَ فِیهَا إِلاَّ قَلِیلًا ) ( مَلْعُونِینَ آیْنَمَا ثُقِفُوا آخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا )

اگر منافقین اور وہ جن کے دل بیمار ہیں ہیں اور جھوٹی خبریں اڑا کر خوف، دہشت اور مایوسی پیدا کرتے ہیں اپنے برے کردار سے باز نہ آئے تو ہم ضرور ان کے خلاف تمہیں قیام کا حکم دیں گے تاکہ وہ تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں اور وہ جہاں مل جائیں انہیں قابل نفرت افراد کی طرح گرفتار کر کے قتل کردیا جائے۔(احزاب ۶۰ ، ۶۱) ۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ منافق مدینہ میں انتہائی وحشت و سرگردانی میں مبتلا تھے۔ سخت لہجہ اور دو ٹوک آیات پے در پے رعد و برق آسمانی کی طرح ان کے خلاف نازل ہوتی تھیں اور انہیں ہر وقت احتمال رہتا تھا کہ ان کی سرکوبی یا کم از کم انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم صادر نہ ہوجائے۔ اگر چہ ان آیات کی شان نزول زمانہ پیغمبر کے منافقین سے متعلق ہے لیکن چونکہ منافقین ہر عہد کے سچے اور حقیقی انقلابوں کے مقابلے میں موجود رہتے ہیں اس لئے ہر عصر و قرن کے منافقین کے لئے یہ آیات وسعت رکھتی ہیں ۔ ہم اپنی آنکھوں سے ایک ایک کرے یہ تمام نشانیاں سر مو فرق کے بغیر اپنے زمانے کے منافقین میں دیکھ رہے ہیں ۔ ان کی سرگردانی ان کا اضطراب غرضیکہ ان کی بیچارگی، بدبختی اور رسوائی بالکل اس مسافر کی طرح نظر آتی ہے جس کی قرآن نے نہایت وضاحت اور خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔

دونوں مثالوں کا فرق : زیر نظر آیات میں پہلی او ردوسری مثال ایک دوسرے سے کیا فرق رکھتی ہے اس سلسلے میں دو تفسیریں موجو د ہیں :

الف : پہلی یہ کہ پہلی آیت( مثلهم کمثل الذی ) ان منافقین کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ابتداء میں سچے مومنین کی صف میں داخل ہوئے اور حقیقتا ایمان لائے تھے لیکن یہ ایمان مستقر اور مستحکم نہ تھا لہذا وہ نفاق کی طرف جھک گئے۔

باقی رہی دوسری مثال (او کصیب من السماء ) تو وہ ان منافقین کی حالت بیان کرتی ہے جو ابتداء ہی سے منافقین کی صف میں تھے او رایک لحظہ کے لئے بھی ایمان نہیں لا ئے۔

ب : دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلی مثال افراد کی حالت کو واضح کرتی ہے اور دوسری مثال معاشرے کی کیفیت بیان کرتی ہے لہذا پہلی مثال میں ہے ”( مثلهم کمثل الذی“ ) ان لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے اور دوسری مثال میں ہے ”( او کصیب من السماء فیه ظلمت و رعد و برق ) “ یا ان کی مثال ایسی ہے کہ موسلا دھار بارش جو آسمان سے برستی ہے اور اس میں تاریکیاں ، رعد اور برق ہے جو وحشت نا ک ہے اور خوف و خطر سے بھر پور ہے کہ جس میں منافق زندگی گذارتے ہیں ۔

____________________

۱۔ نور الثقلین، جلد اول ص۳۶۔

آیات ۱۲،۲۲

( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۲۱)

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( ۲۲)

ترجمہ : ۱۲ ۔ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اور اللہ کے لئے شریک قرار نہ دو او رتم جانتے ہی ہو۔

۲۲ ۔ وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان (فضائے زمین) کو تمہارے سروں پر چھت کی طرح قائم کیا، آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ میوہ جات کی پرورش کی تاکہ وہ تمہاری روزی بن جائیں جیسا کہ تم جانتے ہو(ان شرکاء اور بتوں میں سے نہ کسی نے تمہیں پیدا کیا اور نہ تمہیں روزی دی لہذا بس اس خدا کی عبادت کرو)۔

اس خدا کی عبادت کرو

گذشتہ آیات میں خدا وند عالم نے تین گروہوں (پرہیز گار، کفار اور منافقین) کی تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ پرہیز گار ہدایت الہی سے نوازے گئے ہیں اور قرآن ان کا راہنما ہے جب کہ کفار کے دلوں پر جہل و نادانی کی مہر لگادی ہے اور ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان کی آنکھوں پرغفلت کا پردہ ڈال دیا ہے اور ان سے حس تمیز چھین لی ہے اور منافق ایسے بیمار دل ہیں کہ ان کے برے عمل کے نتیجے میں ان کی بیماری بڑھادی ہے۔

زیر بحث آیات میں تقابل کے بعد سعادت و نجات کی راہ جو پہلے گروہ کے لئے ہے واضح طور پر مشخص کرتے ہوئے فرماتا ہے : اے لوگو ! اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون )

چند اہم نکات

۱ ۔ یایھا الناس کا خطاب :

اس کا مطلب ہے ”اے لوگو“ اس خطاب کی قرآن میں تقریبا بیس مرتبہ تکرارہے یہ جامع اور عمومی خطاب ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن کسی قبیلے یا گروہ سے مخصوص نہیں بلکہ اس کی دعوت عام ہے اور یہ سب کو ایک یگانہ خدا کی دعوت دیتا ہے اور ہر قسم کے شرک اور راہ توحید سے انحراف کا مقابلہ کرتا ہے۔

۲ ۔ خلقت انسان نعمت خدا وندی ہے :

انسان کے جذبہ تفکر کو ابھارنے کے لئے اور اسے عبادت پروردگار کی طرف مائل کرنے کے لئے قرآن اپنی گفتگو کا آغاز انسانوں کی خلقت و آفرینش سے کرتا ہے جو ایک اہم ترین نعمت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو خدا کی قدرت، علم و حکمت اور رحمت خاص و عام کی نشانی ہے کیونکہ انسان جو عالم ہستی کا مکمل نمونہ ہے اس کی خلقت میں خدا کے غیر متناہی علم و قدرت اور اس کی وسیع نعمتیں مکمل طور پر نظر آتی ہیں ۔

جو لوگ خدا کے سامنے نہیں جھکتے اور اس کی عبادت نہیں کرتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اور اپنے سے پہلے لوگوں کی خلقت میں غور نہیں کرتے وہ نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ اس عظیم خلقت کو گونگی اور بہری طبیعت کے عوامل سے منسوب نہیں کیا جاسکتا اور ان بے حساب و بینظیر نعمتوں کو جو انسانی جسم و جان میں نمایاں ہیں سوائے اس مبداء کے نہیں سمجھا جاسکتا جس کا علم اور قدرت لامتناہی ہے۔

اس بناء پر ذکر نعمت ایک تو خدا شناسی کے لئے دلیل ہے اور دوسرا شکر گزاری اور عبادت کے لئے محرک ہے۔

۳ ۔ عبادت کا نتیجہ :

تقوی و پرہیزگاری( لعلکم تتقون ) : ہماری عبادتیں اور تسلیمات خدا کے جاہ وجلال میں اضافے کا باعث نہیں اسی طرح ان کا ترک کرنا اس کے مقام کی عظمت میں کمی کا باعث نہیں ۔ یہ عبادت تو ”تقوی“ کا سبق حاصل کرنے کے لئے تربیتی کلاسیں ہیں اور تقوی وہی احساس ذمہ داری اور انسان کے جذبہ باطن کا نام ہے جو انسان کی قیمت کی قیمت کا معیار اور مقام شخصیت کا میزان و ترازو ہے۔

۳ ۔ الذین من قبلکم :

یہ شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اگر تم بتوں کی پرستش میں اپنے آباؤ و اجداد کی سنت سے استدلال کرو تو خدا جو تمہیں پیدا کرنے والا ہے وہی تمہارے آباؤ اجداد کا مالک و پروردگار ہے۔ اس بناء پر بتوں کی پرستش تمہاری طرف سے ہو چاہے ان کی طرف سے کجروی کے سوا کچھ نہیں ۔

نعمت آسمان و زمین

زیر نظر دوسری آیت میں خدا کی عظیم نعمتوں کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ ہے جو ہمارے لئے شکر گزاری کا سبب ہوسکتاہے۔

پہلے زمین کی پیدائش کے بارے میں گفتگو ہے کہتا ہے ”وہی خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے آرام دہ بچھونا قرار دیا“ ۔ الذی جعل لکم الارض فراشا۔ یہ رہوار جس نے تمہیں اپنی پشت پر سوار کر رکھا ہے،اس فضا میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنی مختلف حرکات جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ اس سے تمہارے وجود میں کوئی حرکت و لرزش پیدا نہیں ہوتی۔ یہ اس کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اس زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے تمہیں حرکت اور استراحت، گھر اور آشیانہ،باغ اور کھیتی اور قسم قسم کے وسائل زندگی میسر ہیں ۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ زمین کی کشش ثقل بھی ایک نعمت ہے اگر یہ نہ ہو تو چشم زدن میں ہم سب اور ہماری زندگی کے سب وسائل زمین کی دورانی حرکت کے نتیجے میں فضا میں جا پڑیں اور سر گرداں پھرتے رہیں ۔

زمین بچھونا ہے : زمین کو بستر استراحت سے تعبیر کیا گیا ہے یہ کس قدر خوبصورت تعبیر ہے۔ بستر میں نہ صرف اطمینان، آسودگی خاطر اور استراحت کا مفہوم پنہاں ہے بلکہ گرم و نرم ہونا اور حداعتدال میں زہنے کے معنی بھی اس میں پوشیدہ ہیں ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ عالم تشیع کے چوتھے پیشوا امام سجاد علی بن الحسین نے اپنے ایک بہترین بیان میں اس آیت کی تفسیر میں اس حقیقت کی تشریح فرمائی ہے۔

جعلها ملائمةلطباعکم موافقة لاجساکم و لم یجعلها شدید الحمی و الحرارة فتحرقکم ولا شدیدة البرد فتحمدکم و لا شدیدة طیب الریح فتصک ها ما تکم و لا شدیدة النتن فتعتبکم و لا شدیدة اللین کالماء فتغرقکم و لا شدیدة الصلابة فتمنح علیکم فی دورکم و ابنیتکم و قبور موتاکم فلذا جعل الارض فراشا لکم ۔

خدا نے زمین کو تمہاری طبیعت اور مزاج کے مطابق بنایا اور تمہارے جسم کی موافقت کے لئے اسے گرم اور جلانے والی نہیں بنایا کہ اس کی حرارت سے تم جل جاؤ اور اسے زیادہ ٹھنڈا بھی پیدا نہیں کیا کہ کہیں تم منجد ہوجاؤ۔ اسے اس قدر معطر اور خوشبو دار پیدا نہیں کیا کہ اس کی تیز خوشبو تمہارے دماغ کو تکلیف پہنچائے اور اسے بد بو دار بھی پیدا نہیں کیا کہ کہیں تمہار ہلاکت کا ہی سبب بن جائے۔ ایسے پانی کی طرح نہیں بنایا کہ تم اس میں غرق ہوجاؤ اور اتنا سخت بھی نہیں بنایا تاکہ تم اس میں گھر اور مکانات بنا سکو اور مردوں کو (جن سطح زمین پر رہ جانا گونا گوں پریشانیوں کا باعث ہوتا) اس میں دفن کرسکو۔ ہاں خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے ایسا بستر استراحت قرار دیا ہے(۱) ۔

پھر نعمت آسمان کو ایک بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : آسمان کو تمہارے سروں پر چھت جیسا بنایا ہے( والسماء بناء ) ۔ لفظ ”بناء“ اور لفظ علیکم کی طرف توجہ کریں تو یہ بیان ہوتا ہے کہ آسمان تمہارے سر کے اوپر بالکل چھت کی طرح بنا ہوا ہے یہی معنی زیادہ صراحت کے ساتھ قرآن میں ایک اورجگہ بھی ہے:

( و جعلنا السماء سقفا محفوظا ) اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے (انبیاء ۳۲) ۔

شاید تعبیر بعض ایسے افراد کے لئے عجیب و غریب ہو جو آسمان و زمین کی عمارت کی کیفیت کو آج کے علم ہئیت کی نظر سے جانتے ہیں یعنی یہ چھت کیونکر ہے اور کہاں ہے۔ بطلیموس کی فرضی ہئیت جس کے مطابق افلاک ایک دوسرے پر پیاز کے چھلکوں کی طرح ہیں کیا یہ تعبیر اس مفہوم کو تو ہمارے دلوں میں بٹھانا نہیں چاہتی ؟

مندرجہ ذیل توضیح کی طرف توجہ کرنے سے مطلب پورے طور پر واضح ہوجاتا ہے :

لفظ ”سما“ قرآن میں مختلف معانی کے لئے آیا ہے جس میں مشترک قدر وہ چیز ہے جو مندرجہ بالا جہت میں ہے ان میں سے ایک معنی جس کی طرف اس آیت میں ارشاد ہوا ہے وہ وہی فضائے زمین ہے یعنی ہوائے متراکم کا چھلکا اور چمڑا جس نے ہر طرف سے کرہ ارض کو چھپایا ہو اہے اور علماء و دانشوروں کے نظریے کے مطابق اس کی ضخامت کئی سو کلو میٹر ہے۔

اب اگر ہم اس ہوا کے قشر ضخیم کے اساسی اور حیاتی نقش کے بارے میں جس نے زمین کو ہر طرف سے گھیرا او راحاطہ کیا ہوا ہے غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ چھت انسانوں کی حفاظت کے لئے کس قدر محکم اور موثر ہے۔ یہ مخصوص ہوائی جلد جو بلوریں چھت کی طرح ہمارے گرد احاطہ کئے ہوئے ہے۔ سورج کی حیات بخش شعاعوں کے پہنچنے سے مانع بھی نہیں اور محکم و مضبوط بھی ہے بلکہ کئی میٹر ضخیم فولادی تہوں سے زیادہ مضبوط ہے۔

اگر یہ چھت نہ ہوتی تو زمین ہمیشہ پراکندہ آسمانی پتھروں کی بارش کی زد میں رہتی اور عملی طور پر لوگوں سے راحت و اطمینان چھن جاتا لیکن یہ سخت جلد جو کئی سو کلو میٹر ہے(۲) ۔

تمام آسمانی پتھروں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے جلا کر نابود کردیتی ہے اور بہت کم مقدار میں ایسے پتھر ہیں جو اس جلد کو عبور کرکے خطرے کی گھنٹی کے عنوان سے گوشہ و کنار میں آگرتے ہیں لیکن یہ قلیل تعداد اہل زمین کے اطمینان میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتی۔

منجملہ شواہد کے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آسمان کے ایک معنی فضائے زمین ہے وہ حدیث ہے جو ہمارے بزرگ پیشوا امام صادق (ع) سے آسمان کے رنگ کے بارے میں منقول ہے ۔ آپ (ع) فرماتے ہیں :

اے مفضل ! آسمان کے رنگ میں غور و فکر کرو کہ خدا نے اسے نیلے رنگ کا پیدا کیا ہے جو انسانی آنکھ کے لئے سب سے زیادہ موافق ہے یہاں تک کہ اسے دیکھنا بینائی کو تقویت پہنچا تا ہے(۳) ۔

آج اس چیز کو ہم سب جانتے ہیں کہ آسمان کا نیلا رنگ در اصل اس متراکم ہوا کا رنگ ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے اس بناء پر اس حدیث میں آسمان سے مراد یہی فضائے زمینی ہے۔

سورہ نحل کی آیة ۷۹ میں ہے :( الم یروا الی الطیر مسخرات فی جو ا لسمائ )

آیا وہ ان پرندوں کو نہیں دیکھتے جو وسط آسمان میں تسخیر شدہ ہیں ۔

آسمان کے دوسرے معانی کے سلسلے میں اس سورت کی آیت ۲۹ میں آپ مزید صراحت سے مطالعہ کریں گے۔

اس کے بعد بارش کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” اور آسمان سے پانی نازل کیا (وانزل من السماء ما)۔

کیسا پانی۔ جو حیات بخش، تمام آبادیوں کا سبب اور تمام مادی نعمتوں کا جامع ہے، جملہ ”انزلنا من السماء“ دوبار اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے کہ سماء سے مراد یہاں وہی فضائے آسمانی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بارش بادلوں سے برستی ہے اور بادل فضائے زمین میں موجود بخارات سے پیدا ہوتے ہیں ۔

امام سجاد علی بن الحسین اس آیة کے ذیل میں بارش کے آسمان سے نازل ہونے کے بارے میں ایک جاذب نظر بیان میں ارشاد فرماتے ہیں :

” خدا وند عالم بارش کو آسمان سے نازل کرتا ہے تاکہ وہ پہاڑوں کی تمام چوٹیوں ، ٹیلوں اورگڑھوں غرض تمام بلند و ہموار جگہوں تک پہنچ جائے(اور سب بغیر استثناء کے سیراب ہوں )اور یہ نرم زمین کے اندر چلی جائے۔ اور زمین اس سے سیراب ہو ۔ اسے سیلاب کی صورت میں نہیں بھیجا کہ مبادا زمینوں ، درختوں کھیتوں اور تمہارے پھلوں کو بہا لے جائے اور انہیں ویران کردے(۴) ۔

اس کے بعد قرآن بارش کی برکت سے پیدا ہونے والے قسم قسم کے پھلوں اور ان روزیوں کی طرف جو انسانوں کا نصیب ہیں اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ”خدا وند عالم نے بارش کے سبب میوہ جات کو تمہاری روزی کے عنوان سے نکالا (فاخرج به من الثمرات رزقا لکم

یہ خدائی پروگرام ایک طرف خدا کی وسیع اور پھیلی ہوئی رحمت کو جو اس کے بندوں پر ہے مشخص کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی قدرت کو بیان کرتا ہے اس نے کس طرح بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگوں کے میوے جو انسانی غذا کے لئے مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور اسی طرح دوسرے جاندار پیدا کئے جو اس کے وجود کے زندہ ترین دلائل میں سے ہیں لہذابلا فاصلہ مزید کہتا ہے ” جب ایسا ہی ہے تو پھر خدا کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تمہیں معلوم ہے( فلا تجعلوا لله اندادا وانتم تعلمون ) ۔ تم سب جانتے ہو کہ ان بتوں اور خود ساختہ شرکاء نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور نہ یہ روزی دیتے ہیں ۔ تمہارے پاس کوئی کم ترین نعمت بھی ان کی طرف سے نہیں پس کس طرح انہیں خدا کا شبیہ و نظیر قرار دیتے ہو۔

”انداد“ جمع ہے ”ند“(بروزن ضد) کی۔ اس کے معنی ہیں

____________________

۱۔ نور الثقلین، ج ۱ ص۴۱۔

۲۔ بہت سی کتب میں اس ہوائی جلد کی ضخامت ایک سو کلو میٹر لکھی ہوئی ہے لیکن بظاہر ان کا مقصود وہ جگہ ہے جہاں ہوا کے سالمے( Molecules ) نسبتا زیادہ نزدیک ہیں لیکن موجودہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ چند سو کلو میٹر کی ضخامت میں ہوا کے سالمے پراکندہ حالت میں موجود ہیں ۔

۳۔ توحید مفضل۔

۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد اول ص ۲۱ کے مطابق حدیث کی عبارت اس طرح ہے :ینزله من اعلی لیبلغ قلل جبالکم و تلالکم و هضابکم و اوهادکم ثم فرقة رذاذا و ابلا وهطلا لتنسشفه ارضوکم و لم یجعل ذلک المطرتازلا قطعة و احدة نیفسد ارضیکم و اشجارکم و زروعکم و ثمارکم ۔

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہو گا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔( وَإِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُهَا بِکَ ) ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران: ۳۶) پھر بڑی ہو گئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ۔ اللہ کی طرف سے ہیں۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَه آیَة لِّلنَّاسِ وَرَحْمَة مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِه مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَهَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَة قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَهُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَة تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِه قَوْمَهَا تَحْمِلُه قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ هَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ الله آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاة وَالزَّکَاة مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ ) ( أُبْعَثُ حَیًّا )

"( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہو گا۔ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم اس کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم: ۱۶ تا ۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اور بتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہار ہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اور وہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے۔تو میرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله اصْطَفَاکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ )

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران : ۴۲ ۔ ۴۳)

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَة یَامَرْیَمُ إِنَّ الله یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَة مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَة وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ الله یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرَاة ) ( وَالْإِنجِیْلَ ) ۔

" جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران : ۴۵ ۔ ۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمۃ اللہ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز۔ طہارۃ و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خدا کی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت:( النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب : ۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت :

( إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا هَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْهِ بِأَرْبَعَة شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ الله ) ( هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ) ۔

"جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور: ۱۱ تا ۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاة الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الله وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْآخِرَة فَإِنَّ الله أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَة مُّبَیِّنَة یُّضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی الله یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُولِه وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِه مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّة الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاة وَآتِیْنَ الزَّکَاة وَأَطِعْنَ الله وَرَسُولَه ) ۔

"اے نبی اپنی ازواج سے کہہ دیجئے۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرنا کہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب: ۲۸ تا ۳۳ ) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکا گیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت۔

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاة أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّة أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْم بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ) ۔

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور ) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار۔ خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ ( ۱۴) جناب خدیجۃ الکبریٰ (زوجۂ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدۂ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیۃ بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش۔

(سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چار عورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع۔ مریم بنت عمران و ابنۃ مزاح، امراۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہوا کہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱ ۔ متبنی۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲ ۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّة الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ) ۔

"اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷ ۔ ۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیار اور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱ ۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں۔( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲ ۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْم بَعْدِه أَبَدًا ) ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو۔( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَة إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ) ۔ "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔ ۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جتھہ بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ۔( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَة بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجۂ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنا یہ ہو گا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

حضرت فاطمۃ الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمان۔ فاطمہ ہی ام ابیہا۔ بغقہ منی میرا ٹکڑا۔مھجۃ قلبی۔ دل کا ٹکڑا۔ جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارۃ قرآن میں مذکور۔ جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زہراء سلام علیہا کو قرآن نے مصطفی (فاطر۔ ۳۲) مرتضیٰ (جن، ۲۷) مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اور یطرکم تطہیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) ۔ فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اور ان کی اولاد کی محبت اجررسالت قرار پائی۔ (شوریٰ ۲۳) نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت۔

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْم بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَة الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ )

(آل عمران ۶۱) زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندۂ و جاوید بنا دیا۔ فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پر ہوئی۔ فاطمہ ، بس فاطمہ۔ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبوب۔ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا۔ چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے۔ سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا۔ سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبول۔کیوں؟ اسلام بچ جائے۔ انسانیت کی عظمت محفوظ رہے۔ انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ۔ زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا۔ جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو۔ گردن جھک جائے گی۔ مرد قوام علی النساء۔ لیکن فاطمہ فاطمہ ہے۔ زینب زینب ہے۔ ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اور بیٹا نعمت ہے۔نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہا ہے۔ باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأة عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اور باتوں سے آزاد ہو گا تو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا۔ جاننے والا ہے۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک۔ میں نے تو بیٹی جنی ہے۔ اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا۔ اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سر پر ست بنا دیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہتی اللہ کے ہاں سے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔" )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵ ۔ ۳۶ ۔ ۳۷ ۔( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کام میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا۔ پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجا لاتے۔ بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی۔ صرف ایک بیٹی۔ لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جب ارشاد رب العزت ہوا: وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہ۔ "قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو۔" (بنی اسرائیل: ۲۶) تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا۔ الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّة فِی الْقُرْبَی ) "کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔" ( سورۂ شوریٰ: ۲۳ ) اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں۔ مزید ارشاد رب العزت ہے:( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ۔ "اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ "( سورہ احزاب: ۳۳ ) آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے ہم فاطمۃ وابوھا وبعلھا وبنوھا یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے۔ عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کا ذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھا بابا آپ کو ہم سے محبت ہے۔ حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں۔ اللہ سے محبت۔ بیٹی اور اولاد پر شفقت ہے۔ کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء۔ کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ و پائندہ بنا دیا۔ حق کو روز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین۔باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خدا ہے۔ عورت زوجہ شادی اور تزویج فطرت کی تکمیل ہے۔ حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کا دین آدھا ہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی۔ بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ شرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں۔(تفسیر مجمع البیان ) شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے۔قرآن مجید نے دعا کی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّة أَعْیُنٍ ) "پروردگار ہماری ازواج اور ہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔" (سورہ فرقان : ۷۴) ارشاد رب العزت ہے:( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) "تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں۔ اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا اور اللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے۔" (سورہ نور: ۳۲) انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز و ہے۔انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونوں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہے۔عورت کا وجود لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد اور صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو۔ بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اور ایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہر رہے۔ خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برأت کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہو گا۔گویا عورت برات کا استقبال کر رہی ہے۔ ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ اب اس عزت و احترام کے ساتھ عورت کا ور ود مرد کے گھر میں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے۔ مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے۔ اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے۔

٭٭٭


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41