تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 73015
ڈاؤنلوڈ: 3875


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73015 / ڈاؤنلوڈ: 3875
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

بت پرستی مختلف شکلوں میں

یہاں اس حقیقت کی طرف متوجہ ہو نا ضرور ی ہے کہ خدا کا شریک قرار دینا یہی نہیں کہ پتھر اورلکڑی کے بت بنالئے جائیں یا اس سے بڑھ کر انسان کو مثلاََمسیح کو تین میں سے ایک خدا سمجھا جائے بلکہ اس کے وسیع تر معنی ہیں جو زیادہ اور پنہاں صورتوں پر بھی مشتمل ہیں کلی قاعدہ یہ ہے کہ زندگی میں جس چیز کوبھی خداکے ساتھ ساتھ سمجھا جائے۔۔وہ ایک قسم کا شرک ہے ۔

اس مو قع پرابن عباس کی ایک عجیب تفسیر ہے وہ کہتے ہیں :

لانداد هوالشرک الخفی من دبیب النمل علی صفاةسوداء فی ظلمةاللیل وهوان یقول والله حیاتک یافلان ِوحیاتی -ویقولولا کلیه هذالاتاناللصوص ا لبارحةوقول الرجل لصاحبةماشاء الله وشئت هذا کله به شرک یعنی ۔۔۔۔انداد وہی شرک ہے کبھی تاریک رات میں سیاہ پتھر پر ایک چیونٹی کی حرکت سے زیادہ مخفی ہوتا ہے ۔انسان کا یہ کہناکہ کی خدا کی قسم اور تیر ی جا ن کی قسم ،یاخداکی قسم اور مجھے میری جان کی قسم (یعنی خدا اور دوست کی جان یا خدااور اپنی جان کو ایک ہی لائن میں قرار دینا)یایو ں کہنا کہ اگر یہ کتیا کل رات نہ ہوتی تو چور آگئے تھے (لہذاچوروں سے نجات دلانے والی یہ کتیا ہے )یاپھر اپنے دوست سے کہے جو کچھ خدا چاہے اور تم پسند کرو ۔۔۔۔ان سب میں شرک کی بو ہے(۱)

ایک حدیث میں ہے :ایک شخص نے نبی اکرم کے سامنے یہ جملہ کہا :( ماشاء اللّه وشئت ) جو کچھ خدا اور اآپ چاہتے ہیں )آنحضرت نے فرمایا :( اجعلنی للّه نداََ )ِ (کیا تونے مجھے اللہ کا شریک وردیف قرار دیا )۔

عام لوگ روزانہ ایسی بہت سی باتیں کرتے رہتے ہیں مثلاً( پہلے خدا پھرتم) باور کیجیے کہ ایک کامل موحد انسان کے لئے یہ تعبیرات بھی مناسب نہیں ہیں ۔سورہ یوسف آیت ۱۰۶

( وما یومن اکثرهم باالله الاوهم مشرکون ) کی تفسیرکے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت ہے ،آپ نے (شرک ِخفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )فرمایا :جیسے ایک انسان دوسرے سے کہتا ہے اگرتونہ ہوتاتو میں نابود ہو جاتا یا میری زندگی تباہ ہوجاتی(۲)

اس کی مزید وضاحت اسی تفسیر میں سورہ یوسف ،آیت ۱۰۶ کے ذیل میں ملاحظہ کیجئے

____________________

(۱) فی ضلال سید قطب ،جلد اول ص۵۳۔

(۲) سفینةالبحار ،جلد اول ،ص۶۹۷

آیات ۲۳،۲۴

( وان کنتم فی ریب ممانزلناعلی عبدنافاتوابسورةمن مثله ص وادعوا شهداء کم من دون الله ان کنتم صدقین )

( فان لم تفعلو ولن تفعلو فاتقو النار التی وقودها الناس والحجارة ج اعدت للکافرین )

ترجمہ

۲۳- اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے (پیغمبر ) پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو (کم از کم ) ایک سورہ اس کی مثل لے آؤ اور خدا کو چھوڑ کر اپنے گواہوں کو بھی اس کام کی دعوت دو ،اگر تم سچے ہو ۔

۲۴- اگر یہ کام تم نے نہ کیا اور کبھی کر بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسانوں کے بدن اور پتھر ہیں یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔

قرآن ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے

گزشتہ آیات کا موضوع سخن کفر ونفاق کبھی نبوت اور اعجاز پیغمبر کے عدم ادراک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ لہذا زیر بحث آیات میں اسے بیان کیا گیا ہے ، خصوصیت کے ساتھ انگشت قرآن پر رکھ دی گئی ہے جو ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے ،یہ اس لئے کہ رسول اسلام کی رسالت کے بارے میں ہر قسم کا شک و شبہ دور ہوسکے ۔

قرآن کہتا ہے :--؛؛اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو ایک سورت ہی اس جیسی لے آو ؛؛( ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو ا بسورة من مثله ) ( ۱) مقابلے کی دعوت اور چیلنج کو قطعی ہونا چاہئے اور دشمن کو پوری طرح تحریک پیدا کرنی چا ہیے اور اصطلاحاََ غیرت دلانی چاہیے تاکہ وہ پوری طاقت استعمال کرسکے،اس طرح جب عجز وناتوانی ثابت ہوجائے گی تو وہ مسلم طور پر جان لے گا کہ جس چیز کے وہ مد مقابل ہے وہ کار بشر نہیں بلکہ خدائی کام ہے لہذا بعد والی آیت میں مختلف تعبیروں سے اسے بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے ؛؛ اگر تم اس کام کو انجام نہ دے سکے اور ہرگز نہ دے سکو گے لہذا اس آگ سے ڈرو کہ جس کا ایندھن بے ایمان آدمیوں کے بدن اور پتھر ہیں( فان لم تفعلو و لن تفعلو فاتقو النار التی وقودها الناس والحجارة ) یعنی آگ ابھی سے کافروں کے لئے تیار ہے اور اس میں تاخیر نہ ہوگی( اعدت للکافرین ) ۔

”وقود “کے معنی ہیں وہ چیز جسے آگ پکڑ لے یعنی وہ مادہ جو جلنے کے قابل ہے جیسے لکڑیا ں ۔اس سے مراد وہ چیز نہیں جس سے آگ نکلے مثلا ماچس یا وہ خاص پتھر جن سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں ۔

مفسرین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ”حجارة“سے وہ بت مراد ہیں جنہیں پتھر سے بنایا گیا تھا اور سورہ انبیا ء کی آیت ۹۸ کو اس کا شاہد قرار دیتا ہے:( انکم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم )

تم اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں ۔

ایک اور گروہ کہتا ہے کہ ”حجارة“سے مراد گندک کے پتھر ہیں جن کی حرارت دوسرے پتھروں سے زیادہے ۔لیکن بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ اس تعبیر کا مقصد جہنم کی شدت حرارت کی طرف متوجہ کرنا ہے یعنی اس میں ایسی حرارت و تپش ہو گی جو پتھرو ں اور انسانوں کو بھی شعلہ ور کر دے گی ۔

گذشتہ آیات کے پیش ِنظر جو بات زیا دہ مناسب معلوم ہو تی ہے یہ ہے کہ جہنم کی آگ خود انسانوں اور پتھروں کے اندر سے نکلے گی اور یہ حقیقت آج ثابت ہو چکی ہے کہ جسموں کے اندر ایک عظیم آگ چھپی ہو ئی ہے (دوسرے لفظوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں جوآگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں )یہ مفہوم سمجھنا مشکل نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ا س جلانے والی آگ کو اس دنیا کی عمومی آگ کی طرح سمجھاجائے ۔

سورہ ہمزہ آیہ ۶‘۷ میں ہے :( نارلله الموقدة التی تطلع علی الافٴدة )

خداکی جلا نے والی ا ٓگ جس کا سرچشمہ دل ہیں اور جو اندر سے باہر کی طرف سرایت کر تی ہے (اس جہان کی آگ کے بر عکس جو باہر سے اندر تک پہنچتی ہے )۔

____________________

(۱)بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ ضمیر ”مثلہ “رسول اکرمکے بارے میں ہے جنہیں قبل کے جملے میں( عبدنا ) سے یاد کیا گیایعنی اگر اس وحی آسمانی کے حقیقی ہونے میں تمہیں شک ہے تو کوئی شخص محمد جیسا پیش کرو جس نے بالکل تعلم حا صل نہ کی ہو اور نہ خط و کتابت سیکھی ہو جو ایسا کلام پیش کرسکے ۔لیکن یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ قرآن میں دوسری جگہ یوں آیا ہے :فلیاتو بحدیث مثله (طور-۳۴)

ایک اور مقام پر ہےفاتو بسورةمثله (یونس ۳۸) اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ ”مثلہ “قرآن کے لئے ہے پیغمبر کے لئے نہیں ۔

( ۱) انبیاء کے لئے معجزے کی ضرورت :

ہم جانتے ہیں کہ نبوت ورسالت ایک عظیم تر ین منصب ہے جو پاک لوگوں کے ایک گروہ کو عطا ہواہے کیونکہ دوسرے منصب ومقام جسموں پر حکمرانی کرتے ہیں لیکن نبوت وہ منصب ہے جومعاشرے کی روح اور دل پر حکومت کرتا ہے جھوٹے مدعی اوربہت سے برے افراد ا س کی رفعت وسر بلندی کے ہی پیش نظر اس منصب کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس سے غلط مفاد اٹھاتے ہیں ۔

لوگ یا تو ہر مدعی کے دعوی کو قبول کرلیں یا سب کی دعوت کو رد کر دیں ۔سب کو قبول کرلیں تو واضح ہے کہ کس قدر ہرج ومرج لازم آئے گا اور دین خدا کی کیا صورت بنے گی اور اگر کسی کو بھی قبول نہ کریں تو اس کا نتیجہ بھی گمراہی اور پسماندگی ہے اس بناء پر جس دلیل کی رو سے انبیاء کا وجود ضروری ہے اسی دلیل کی روشنی میں سچے انبیاء کے پاس ایسی نشانی ہونی چاہیے جو جھوٹے دعویدار وں سے انہیں ممتاز قرار دے اور وہ ان کی حقانیت کی سند ہو ۔

اس ا صل کی بناء پر ضروری ہے کہ نبی معجزہ لے کر آئے جو اسکی رسالت کی صداقت کا شاہد ہو سکے اور جیساکہ لفظ معجزہ سے واضح ہے نبی خارق العادہ اعمال (و ہ کام جو عموماَ نہ ہو ئے ہوں )انجام دینے کی قدرت رکھتاہو جن کی انجام دہی سے دوسرے لوگ عاجز ہوں ۔

نبی جو صاحب معجزہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو مقابلہ بمثل دعوت دے (یعنی کہے کہ ایسا کام تم بھی کردکھاو)اور اپنی گفتار کی سچائی کی علامت ونشانی کو اپنا معجزہ قرار دے تاکہ اگر دوسرے بھی ویسا کام کرسکتے ہیں تو بجالائیں اس کام کو اصطلاح میں تحدی (چیلنج)کہتے ہیں

قرآن رسول اسلام کا دائمی ومعجزہ

جو معجزات اور خار ق عادات پیغمبر اسلام سے صادر ہوئے قرآن ان میں سے آپکی حقانیت کی بلند ترین اورزندہ ترین سند ہے قرآن افکار بشرسے بلند تر کتاب ہے کوئی اب تک ایسی کتاب نہیں لاسکا ۔یہ ایک ایسا عظیم ا ٓ سما نی معجزہ ہے ۔

گزشتہ انبیاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے معجزات کے ساتھ ہوں اور ان کے ا عجاز کو ثابت کر نے کے لئے مخالفین کو مقابلہ بمثل کی دعوت دیں ۔در حقیقت ان کے معجزات کی اپنی کوئی زبان نہ تھی بلکہ انبیاے کی گفتاران کی تکمیل کرتی تھی ۔یہی بات قرآن کے علاوہ پیغمبر اسلام کے د یگر معجزات پر بھی صادق آتی ہے۔

لیکن قرآن ایک بولنے والا معجزہ ہے و ہ تعار ف کرانے والے کا محتاج نہیں وہ خود اپنی طرف دعوت دیتا ہے اور مخالفین کو مقابلے کے لئے پکارتا ہے -، انہیں مغلوب کرتاہے اور خود میدان مقابلہ سے کامیابی کے ساتھ نکلتا ہے لہذاوفات نبی کو صدیاں بیت گئیں مگر قرآن آپ کے زمانہ حیات کی طرح آج بھی اپنا دعوی پیش کررہاہے ۔قرآن خود دین بھی ہے اور معجزہ بھی ،قانون بھی اور سند قانون بھی ،قرآن زمان ومکان کی سرحد سے مافوق ہے ۔

گذشتہ انبیاء کے معجزات

گذشتہ انبیاء کے معجزات بلکہ قرآن کے علاوہ آنحضرت کے دیگر معجزات بھی معین ومشخص زمان ومکان اور مخصوص افراد کے سامنے ظہور پذیر ہو تے تھے ۔مثلاََ حضرت مریم کے نو مولود بچے کی گفتگو ،مردوں کو زندہ کرنا اور حضرت مسیح کے ایسے دوسرے معجزات مخصوص زمان ومکان اور معین اشخاص کے لئے تھے ۔ہم جانتے ہیں کہ جو امو ر زمان ومکان کے رنگ سے ہم آہنگ ہوں گے وہ اس زمان ومکان سے جتنا دور ہونگے ان کے رنگ روپ میں کمی واقع ہوگی اور یہ چیز امور زمانی کے خواص میں سے ہے

لیکن قرآن کسی خاص زمان ومکان سے وابستہ نہیں ۔یہ جس طرح جس حالت میں چودہ سو سال قبل حجازکے تاریک ماحول میں جلوہ گر تھا اسی طرح آج بھی ہم پر ضوفشاں ہے بلکہ رفتار زمانہ اور دانش کی پیش رفت کی وجہ سے ہم میں اس کی استعداد بڑھ گئی ہے کہ دور حاضر کے لوگوں کے لئے اس سے زیادہ استفادہ کرسکیں ۔یہ واضح ہے کہ جس پر اپنے زمان ومکان کا رنگ نہ ہو وہ بعد تک اور سارے جہان تک رسائی حاصل کر سکے گا اور یہ ہے بھی واضح کہ ایک عالمی دین کےلئے ضروری ہے کہ وہ عالمی وابدی سند حقانیت رکھتا ہو ۔

قرآن روحانی کیوں ہے ؟

گذشتہ انبیاء سے جو خارق عادت امور ان کی گفتارکے سچے گواہ کے طور پر دیکھنے میں آتے ہیں وہ عموما جسمانی پہلو رکھتے تھے ۔ ناقابل علاج بیماروں کو شفا دینا ، مردوں کو زندہ کرنا ،نوزائیدہ بچے کا گہوارے میں باتیں کرنا وغیرہ سب جسمانی پہلو رکھتے تھے اور انسان کی آنکھ اور کان کو مسخر کرتے تھے لیکن قرآنی الفاظ جو انہی عام حروف و کلمات سے مرکب ہیں انسان کے دل و جان کی گہرایئوں میں اتر جاتے ہیں ، انسان کی روح انہیں عجیب و غریب سمجھتے ہوئے ان کےلئے احساسات تحسین سے معمور ہوجاتی ہے اور افکار وعقول کی تعظیم پر مجبور نظر آتی ہیں ۔یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو صرف اذہان ،افکار اور روح سے سروکار رکھتا ہے جسمانی معجزات پر ایسے معجزے کی برتری کسی وضاحت کی محتا ج نہیں ۔

کیا قرآن نے مقابلے کے لئے چیلنج کیا ہے ؟

قرآن نے چند ایک سورتوں میں اپنی مثال لانے کے لئے چیلنج کیا ہے ۔اس کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں :

( ۱) سورہ اسراء آیہ ۸۸( یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ) ہے:

( قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتو ا بمثل هذا القرآن لا یا تون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیرا )

کہیے کہ اگر تمام انسان اور جن جمع ہوجائیں تاکہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اگرچہ خوب ہم فکر و ہم کا ر بھی ہوجائیں ۔

(!!) سورہ ہود (یہ بھی مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیات ۱۳ اور ۱۴ میں یوں ہے:

( ام یقولون افتراته قل فاتوبعشر سور مثله مفتریت ودعوا من استطعتم من دون الله ان کنتم صدقین فالم یستجیبو لکم فاعلموا انما انزل بعلم الله )

کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات خدا پر افتراء ہیں کہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دس سورتیں گڑھ کے لے آؤ اور بدون خدا جسے مدد کی دعوت دے سکتے ہو دے لو --اور اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو جان لو کہ یہ آیات خدا کی طرف سے ہیں ۔

(!!!) سورہ یونس ( جو مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیت ۳۸ میں اس طرح ہے :

( ام یقولون افترانه قل فاتو بسورة مثله و ادعوا من استطعتم من دون الله ان کنتم صدقین )

کیا وہ کہتے ہیں کہ خدا پر افتراء باندھا گیا ہے آپ کہئے کہ اس جیسی ایک سورت لادکھاؤ اور خدا کے علاوہ ہر کسی کی مدد کے لئے طلب کرلو اگر تم سچے ہو۔

( ۴) چوتھی مثال یہی زیر بحث آیت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی۔

جیسا کہ واضح ہے کہ قرآن صراحت اور بے نظیر قاطعیت اور یقین کے ساتھ مقابلے کی دعوت دے رہا ہے ایسی صراحت و قاطعیت جو حقانیت کی زندہ نشانی ہے۔

قرآن نے بہت قاطع اور صریح بیان کے ساتھ تمام جہانوں اور تمام انسانوں کو مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے جو قرآن کے مبداء جہان آفرینش کے ساتھ ربط میں شک رکھتے ہیں ۔صرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ مقابلہ کا شوق بھی دلایا ہے اور اس کے لئے تحریک پیدا کی ہے اور ان آیات میں ایسے الفاظ صرف کئے ہیں جو ان کی غیرت کو ابھارتے ہیں ۔مثلا،

( ان کنتم صادقین ) “اگر تم سچے ہو ۔

( فاتو بعشر سور مثله مفتریت ) “ایسی دس سورتیں گڑھ لاؤ۔

( قل فاتوبسورة مثله ان کنتم صادقین ) “اگر تم سچے ہو تو ایسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔

( ودعوامن استطعتم من دون الله ) “بدون خداجسے چاہودعوت دو

( قل لئن اجتمعت الانس والجن ) “اگر تم جن و انس بھی ایکا کرلو ۔

( لا یاتون بمثله ) “اس کی مثل نہیں لا سکتے۔

( فاتقوالنار التی وقودها الناس والحجارة ) “اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن (گنہگار)لوگوں کے بدن اور پتھر ہیں ۔

( فان لم تفعلوا ولن تفعلو ) “اگر اس کی مثل نہ لائے اور نہ ہی تم لاسکتے ہو ۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف ادبی یا مذہبی مقابلہ نہ تھا بلکہ ایک سیاسی اقتصادی اور اجتماعی مقابلہ تھا تمام چیزیں یہاں تک کہ خود ان کے وجود کی بقا کا انحصار بھی اس مقابلے میں کامیابی پر نہ تھا بہ الفاظ دیگر ایک مکمل مقابلہ تھا جو ان کی زندگی اور موت کی راہ اور سرنوشت کو روشن کر دیتا۔ اگر کامیاب ہوجاتے تو سب کچھ ان کے پاس ہوتا اور اگر مغلوب ہوجاتے تو اپنی بھی ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے اس سب کے باوجود تحریک و تشویق کا یہ عالم ہے۔

اس کے باوصف اگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک د یئے اور اس کا مثل نہ لاسکے تو قرآن کا معجزہ ہونا زیادہ واضح اور روشن تر ہوجاتا ہے۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ آیات کسی خاص زمانے یا جگہ سے مخصوص نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام علمی مراکز کو مقابلے کی دعوت دے رہی ہیں اور کسی قسم کا استثناء نہیں ہے اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔

یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن کی مثل نہ لائی جاسکی؟

تاریخ اسلام پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی ممالک کے اندر رسول اکرم کے زمانے میں اور آپ کے بعد یہاں تک کہ خود مکہ اور مدینہ میں کٹر اور متعصب عیسائی اور یہودی بستے تھے جو مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ہر موقع کو غنیمت جانتے تھے ۔خود مسلمانوں میں بھی ایک ”مسلمان نما “ گروہ موجود تھا قرآن نے ان کا نام منافق رکھا ہے ان کے ذمہ مسلمانوں کے جاسوس کا رول ادا کرتا تھا جیسے ابو عامر راہب اور مدینہ میں اس کے منافق ساتھی جن کے بادشاہ روم سے مخصوص روابط کا تاریخ میں تذکرہ موجود ہے ۔ مدینہ میں مسجد ضرار انہی لوگوں نے بنائی تھی جہاں سے وہ عجیب سازش وجود پذیر ہوئی جس کا قرآن نے سورہ توبہ میں ذکر کیا ہے یہ طے شدہ بات ہے کہ منافقین کا یہ گروہ اور وہ متعصب اور کٹر دشمن گہری نظر سے مسلمانوں کے حالات کی تاک میں رہتے تھے اور وہ ہر چیز جو مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہوتی اسے خوش آمدید کہتے تھے۔

اگر ان لوگوں کو اس قسم کی کتاب مل جاتی تو مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے اس کی ہر ممکن نشر واشاعت کرتے یا کم از کم اسکی حفاظت و نگہداشت کی کوشش کرتے ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ا فراد جن کے متعلق نہایت کم احتمال بھی ہے کہ وہ قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے ۔تاریخ نے ان کے نام ریکارڑ کئے ہیں ۔ان میں سے بعض یہ ہیں :

عبداللہ بن مفقع:

اس نے اسی مقصد کے لئے کتاب الدرةالیتیمة“ تصنیف کی۔ کتاب ابھی موجود ہے اور کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے اس کتاب میں اس بات کا چھوٹے سے چھوٹا بھی اشارہ نہیں کہ یہ قرآن کے مقابلہ میں لکھی گئی ہے ا سکے باوجود ہم نہیں جانتے کہ اس کی طرف نسبت کیوں دی گئی ہے۔

متنبی احمد بن حسین کوفی : یہ شاعر تھا ۔ اس کا نام بھی اس زمرے میں آتا ہے کہ اس نے دعویٰ نبوت کیا تھا جب کہ بہت سے قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ گھریلو ناکامیوں اور جاہ طلبی کی خواہش کے پیش نظر اس نے بلند پردازی کا یہ پروگرام بنایا تھا۔

ابوالعلای معری :

اس کا نام بھی اس امر میں داخل ہے اگرچہ اسلام کے بارے میں اس سے منسوب سخت باتیں بیا ن کی گئی ہیں ، لیکن وہ قرآن کے مقابلہ کا ارادہ کبھی بھی نہ رکھتا تھا بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے متعلق بہت عمدہ جملے کہے ہیں جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا ۔

مسلیمہ کذاب :

یہ یمامہ کا رہنے والا تھا اور یقینا ان اشخاص میں سے ہے جو قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور بقول اس کے کچھ آیات لایا جن میں تفریع طبع کا پہلو زیادہ ہے حرج نہیں کہ ان میں سے چند جملے ہم یہاں نقل کردیں :

( ۱) سورہ الذاریات کے مقابلہ میں اس نے یہ جملے پیش کیے:

والمبذرات بذرا والحاصدات حصدا والذاریات تمحاََوالطاحنات طحنا والعجنات عجنا والخابذات والثاردات ثردا والاقمات لقما اها لة وسمنا (۱)

یعنی -- قسم ہے کسانوں کی-- قسم ہے بیج ڈالنے والوں کی اور قسم ہے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اور قسم ہے گندم کو گھاس سے الگ کرنے والوں کی قسم ہے آٹاگوندھنے والیوں کی اور قسم ہے روٹی پکانے والوں کی اور قسم ہے ثرید بنانے والوں کی اور قسم ہے ان کی جو چرب و نرم لقمہ اٹھاتے ہےں ،

(۲)یاضفدع بنت ضفدع نقی ماتنقین نصفک فی الما ء ونصفک فی الطین لا لماء مکدرین ولاالشاربین تمنعین (۲)

یعنی ای مینڈک!مینڈک کی بیٹی !جتنا چاہتی ہے آواز نکال تیرا آدھا حصہ پانی میں ہے اور آدھا کیچڑمیں ۔پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ کسی کو پینے سے روکتی ہے ۔

____________________

(۱) اعجازلقرآن رافعی

(۲)قرآن و آخرین پیامبر

یہاں ضروری ہے چند جملے بڑے لوگوں کے

یہاں تک کہ جوقرآن کامقابلہ کرنے میں متہم ہیں نقل کئے جائیں تاکہ عظمت قرآن ظاہر ہو :

ابوالعلای مصری :

یہ قرآن کا مقابلہ کرنے میں متہم ہے ،کہتا ہے :”یہ بات تمام لوگوں میں چاہے مسلمان ہویا غیر مسلم مورد اتفاق ہے کہ وہ کتاب جو محمد لے کر آیاہے اس نے اپنے مقابلے میں عقلوں کو مغلوب کردیاہے اور آج تک کوئی ایسی کتاب نہیں لاسکا ۔اس کا طرز اسلو ب عربو ں کے معمول کے اسلوبو ں خطابہ ،رجز ،شعر اور کاہنوں کے مسجع کسی سے بھی مشابہت نہیں رکھتا ۔ کتاب میں اس قدر امتیازاورکشش ہے کہ اگر اس کی ایک آیت کسی دوسرے کلمات میں موجود ہو تو شب تاریک میں چمکے ہوئے ستاروں کی طر ح ر وشن ہو گی “

ولید بن مغیرہ مخزومی :

یہ ایسا شخص ہے جو حسن تدبیر کے باعث عربو ں میں شہرت رکھتا تھا زمانہ جاہلیت میں حل مشکلا ت کے لئے اس کے فکروتدبر سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔اسی لئے اسے ”ریحانہ قریش “(قریش کا گلدستہ )کہا جاتا تھا ۔کہتے ہیں جب اس نے نبی کریم سے سورہ غافر کی چند ابتدائی آیات سنیں تو بنی مخزوم کی ایک محفل میں آیا اورکہنے لگا :

”خدا کی قسم میں نے محمد سے ایسی گفتگو سنی ہے جو کلام انسان سے شباہت رکھتی ہے نہ جنوں کی گفتگو ہے ۔“

اس نے مزید کہا:وان له لحلاوة ،ان علیه لطلاوة وان اعلاه لمثمروان اسفله لمغدق ،وانه یعلو ولایعلٰی علیه ۔

اس کی گفتگو میں خاص مٹھا س اور حسن ہے ۔اس کا اوپر کا حصہ (بارآور درختوں کی طرح)پھلدار ہے اور نیچے کا حصہ (پرانے درختو ں کی جڑوں کی طر ح)بنیاد پر استوار ہے ۔یہ ایسی گفتگو ہے جو ہر ایک پر غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا ۔(۱)

کارلائلی:

یہ انگلستان کامشہور مو‌رخ ا ورمحقق ہے جوقرآن کے بارے میں کہتا ہے :

”اگر اس مقدس کتاب پرنظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برجستہ حقائق اور وجود کے اسرار وخصائص نے اس کے جوہر دار مضامین میں ایسے پرورش پائی ہے جس سے قرآن کی عظمت وحقیقت وضاحت سے نمایاں ہوتی ہے یہ خود ایک ایسی خوبی ہے جو صرف قرآن سے مخصوص ہے اور کسی دوسری علمی ،سیاسی اور اقتصادی کتاب میں نہیں دیکھی جاسکتی ۔یقینابعض کتابیں ایسی ہیں جن کامطالعہ ذہن انسانی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ان کا قرآن سے کبھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا اس بناء پر کہنا چاہیئے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت ،پاکیزہ احساسا ت ، برجستہ عنوانات اور اس مضامین سے ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اورسعادت بشر میں ہیں اس میں ان کی انتہا ہے اور قرآن سے وضاحت ان فضائل کی نشان دہی کر تا ہے “(۲)

جاینڈیون پورٹ:یہ کتاب ” عذرتقصیربہ پیش گاہ محمد ی وقرآن “کا مصنف ہے ۔قرآن کے بارے میں لکھتا ہے :

”قرآن نقائص سے اس قدر مبرا ومنزہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نہیں ۔ممکن ہے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھتا جائے اور معمولی سی ملامت وافسرد گی بھی محسوس نہ کرے “

اس کے بعد مزید لکھتا ہے :سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلے قریش کے لب و لہجے میں نازل ہوا اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیہات سے معمورہے ؛؛(۳)

گوئٹے : یہ المانی شاعر اور عالم ہے ،کہتا ہے :”قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے رو گردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہو جاتا ہے اور پھر بے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے ”۔یہی گوئٹے ایک جگہ اور لکھتا ہے :سالہا سال تک خدا سے ناآشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمد کی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایا جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اس نے دنیا کے علم ودانش پر گہرا اثر کیا ہے اور آخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محورقرار پائے گی”۔

مزید لکھتا ہے:”ہم ابتدا میں قرآن سے روگردان تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور ہمیں حیران کردیا یہاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سر تسلیم خم کردیا(۴)

ول ڈیوران :

یہ ایک مشہور مور خ ہے ، لکھتا ہے:”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس ،عدالت اور تقوی پیدا کیا ہے جس کی نظیر و مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ملتی “۔

ز ول لابوم :

یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے ۔ اپنی کتاب ”تفصیل الآیات “میں کہتا ہے :

”دنیا نے علم و دانش مسلمانون سے لی ہے اور مسلمانوں نے یہ علوم اس قرآن سے لئے ہےں جو علم دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوئی ہیں :“

دینورٹ :

یہ ایک اور مستشرق ہے ، لکھتا ہے :

ضروری ہے کہ ہم اعتراف کرلیں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رواج پذیر ہیں زیادہ تر تعلیمات قرآن کی برکت سے ہیں ۔ اور ہم مسلمانوں کے مقروض ہیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شہر ہے “(۵)

ڈاکٹر مسز لوراواکیسا گلیری:

یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں ۔”پیش رفت سریع اسلام “میں لکھتی ہیں :

”اسلام کی کتاب اسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ہے قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، قرآن کے اسلوب اور طرز کا نمونہ گزشتہ ادبیات میں نہیں پایا جاتا اور یہ طرز روح انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتی ہے وہ اس کے امتیاز ات اور بلند یوں سے پیدا ہوتی ہے کس طرح ممکن ہے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب محمد خود ساختہ ہو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نہیں کی ۔ ہمیں اس کتاب میں علوم کے خزینے اور ذخیرے نظر آتے ہیں جو نہایت ہوش مند اشخاص ، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست دان اور قانون دان لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ہیں اسی بنا ء پر قرآن کسی تعلیم یافتہ مفکر وعالم کا کلام ہوسکتا “(۶)

____________________

(۱)مجمع البیان ،جلد ۱۰،سورہ مدثر(۲) --”سازمانہائے تمدن امپرطوری ا سلام “

(۳)مقدمہ کتاب”عذرتقصیربہ پیش گاہمحمد و قرآن --“(یہ اصل کتاب کے فارسی ترجمہ کا حوالہ ہے ۔مترجم)

(۴)” عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“

(۵) ۔قرآن برفراز اعصار بحوالہ المعجزہ الخالدة۔

(۶) پیش رفت سریع اسلام ۔( یہ بھی اصل کتاب کے فارسی ترجمے کا حوالہ ہے ۔مترجم)

آیت ۲۵

( وبشر الذین آمنو وعملوا الصالحت ان لهم جنت تجری من تحتها الانهٰر ط کلما رزقوا منها من ثمرةرزقا قالو هذا الذی رزقنا من قبل و اتوا به متشابها ط ولهم فیها ازواج مطهرة وهم فیها خالدون ) ( ۲۵)

ترجمہ

ایمان لانے والوں اور نیک عمل بجالانے والوں کو خوشخبری دیجیے کہ ان کے لئے بہشت کے باغات ہیں جہاں درختو ں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ جب انہیں ان میں سے پھل دیا جائے گا تو کہیں گے یہ وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں دیا گیا تھا ( لیکن یہ اس سے کس قدر بہتر ہے) اور جو پھل ان کو پیش کئے جا ئیں گے (خوبی وزیبائی میں ) یکساں ہیں اور ان کے لئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے۔

بہشت کی نعمات کی خصوصیات

چونکہ گذشتہ بحث کی آخری آیت میں کفار اور منکرین قرآن کو دردناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے لہذا زیر نظر آیت میں مومنین کی سر نوشت کا تذکرہ ہے تاکہ قرآن کے روش اور طریقہ کے مطابق دونوں کے مدمقابل ہونے سے حقیقت زیادہ روشن ہو تی رہے۔

پہلے کہتا ہے کہ ان افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں بشارت دے دو کہ ان کے لئے بہشت کے باغ ہیں جن کے درختون کے نیچے نہریں جاری ہیں( وبشر الذین امنو اوعملوا الصالحات ان لهم جنات تجری من تحتها الانهار ) ۔

ہم جا نتے ہیں کہ و ہ باغا ت جہاں ہمیشہ پانی نہیں ہوتا بلکہ باہر سے پانی لاکر انہیں سیراب کیا جاتا ہے ان میں زیادہ طراوت نہیں ہوتی ۔ ترو تازگی تو اس باغ میں ہو تی ہے جس کے لئے پانی کا اپنا انتظام ہو اور پانی اس سے کبھی منقطع نہ ہوتا ہو ،ایسے باغ کو خشک سالی اور پانی کی کمی کاخطرہ نہیں ہو تا اور بہشت کے باغات اسی طرح کے ہیں ۔

اس کے بعد باغوں کے گوناگوں پھلوں کے بارے میں کہا ہے ہر زمانے میں ان باغوں کے پھل انہیں دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو و ہی ہے جو اس سے پہلے دیا گیا ہے (کلما رزقوا منھامن ثمرةرزقاََقالواھذاالذی رزقنامن قبل )۔

مفسرین نے اس جملہ کی کئی تفسیریں بیان کی ہیں ۔بعض کہتے ہیں اس کامقصد یہ ہے کہ نعمات ان اعمال کی جزاہیں جنہیں ہم پہلے دنیا میں انجام دیئے چکے ہیں اور موضوع پہلے سے فراہم شدہ ہے ۔

بعض کہتے ہیں کہ جس وقت جنت کے پھل دوبارہ ان کے لیئے لائیں جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی میوہ ہیں جو ہم پہلے کھاچکے ہیں لیکن جب ا سے کھائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ ان کا ذائقہ نیا اور لذت تازہ ہے ۔مثلاََ سیب اور انگور جو اس دنیا میں کھاتے ہیں ہر دفعہ وہی پہلے والا ذائقہ محسو س کرتے ہیں لیکن جنت کے میوے جس قدربھی ظاہراََ ایک قسم کے ہو ں ہر دفعہ ایک نیا ذائقہ دیں گے اور یہ جہاں کی خصوصیات میں سے ہے ۔

کچھ اور حضرات کے نزدیک اسکا مقصد یہ ہے کہ جنت کے میووں کو دیکھیں گے تو انہیں دنیا کے میووں سے مشابہ پائیں گے تاکہ نامانوسی کا احساس نہ ہو لیکن جب کھائیں گے تو ان میں تازگی اور بہتر ین ذائقہ محسوس کریں گے ۔

بعید نہیں کہ آیت میں ان تمام مفاہیم تفاسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ قرآ ن کے الفاظ بعض اوقات کئی معنی کے حامل ہو تے ہیں(۱)

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے ان کے لئے ایسے پھل پیش کئے جائیں گے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہو گے( واتوابه متاشابهاََ ) یعنی وہ سب خوبی اور زیبا ئی میں ایک جیسے ہو ں گے وہ ایسے اعلی درجہ کے ہو ں گے کہ انہیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دی جاسکے گی ۔یہ اس دنیا کے میووں سے بر عکس بات ہوگی جہاں بعض کچے ہوتے ہیں اور بعض زیادہ پک جاتے ہیں ۔بعض کم رنگ اور کم خو شبو ہو تے ہیں اور بعض خشبو رنگ ،خوشبو دار اور معطر ہو تے ہیں ۔لیکن جنت کے باغات کے میوے ایک سے بڑھ کر ایک خشبو دار ،ایک سے ایک میٹھا اور ایک سے ایک بڑھ کرجاذب نظر اورزیبا ہوگا ۔اور آخر میں جنت کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پاک پاکیزہ بیویاں ہیں ۔فرمایا :ان کے لئے جنت میں مطہر وپاک بیویاں ہیں( ولهم فیها ازواج مطهره ) یہ ان تمام آلا ئشوں سے پاک ہو ں گی جو اس جہان میں ممکن ہے ان میں ہوں ۔گویا روح و دل پر نگاہ کریں تو پاک اور جسم وبدن پر نگاہ ڈالیں تو پاک ۔دنیا کی نعمات جو مشکلا ت ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس وقت انسان کسی نعمت سے سر فراز ہوتا ہے اس وقت اس کے زوال کی فکر بھی لاحق رہتی ہے اور اس کا دل پریشان ہو جاتا ہے ،اسی بناء پر یہ نعمتیں کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہتیں ۔لیکن جنت کی نعمتیں چونکہ ابدی اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال نہیں ہے ۔لھٰذا وہ ہر جہت سے کامل اور اطمینان بخش ہیں اس کے آخر میں فرمایا ؛مو‌منین ہمیشہ ہمیشہ ان باغات بہشت میں رہیں گے ۔( وهم فیها خلدون ) ۔

____________________

(۱) لفظ کے ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کی بحث میں ہم نے ثابت کیا ہے