مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)2%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205875 / ڈاؤنلوڈ: 12737
سائز سائز سائز

فضائل سورہ یٰس

مفاتیح النجاح میں سورہ یاسین کے فضائل کے ضمن میں حضرت رسول اکرم سے منقول ہے کہ جو شخص خدا کی خوشنودی کیلئے سورہ یٰس پڑھے تو خدا اسکے گناہ معاف کردیگا اور اسے بارہ مرتبہ قرآن کو ختم کرنے ثواب عطافرمائیگا ۔نیزجب یہ سورہ کسی مریض کے پاس تلاوت کیا جائے تو اسکے سامنے ہر حرف کے بدلے میں دس فرشتے صف بستہ ہوکرنازل ہوتے ہیں جو اس کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اسکی روح قبض ہونے تک حاضر رہتے ہیں اسکے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں اس پر نماز پڑھتے ہیں اور اسکے دفن میں شریک ہوتے ہیں اگر کوئی مریض وقت نزع خود یا کوئی دوسرا شخص اس کے پاس سورہ یٰس کی تلاوت کرے تورضوان جنت بہشت کے پانی کا ایک کا سہ لا کر اسے دیتا ہے جسے وہ پیتا ہے اور سیراب ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اپنی قبرسے سیراب ہی اٹھے گااورنبیوںکے کسی حوض کامحتاج نہ ہو گاحتی کہ وہ سیراب ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔نیزمنقول ہے کہ سورہ یٰس اپنے پڑھنے والے کو دنیا اور آخرت کی بھلائی عنایت کرے گا، قیامت کی ہولناکی اور دنیا کی بلائوں سے بچائے گا نیز ہر شر کو اس سے دور کرے گا اور اسکی ہر حاجت برلائے گا۔ سو رہ یٰس پڑھنے والے کے لیے بیس حج کا ثواب ہے اور اسے سننے والے کے لیے ہزار نور، ہزار رحمتیں اور ہزار برکتیں ہوں گی اور یہ سورہ اس کو ہر مصیبت سے نجات دلائے گا۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص قبرستان میں سورہ یٰس کی تلاوت کرے تو خدا وہاں مدفون لوگوںکے عذاب میں کمی کرے گا اور اسکو مرد وں کی تعداد کے برابر نیکیاں عطا فرمائیگا۔امام جعفرصادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ جو شخص دن میں سورہ یٰس پڑھے وہ رات تک محفوظ رہے گا اور روزی سے نوازا جائے گااور جو شخص رات کوسو نے سے پہلے یہ سورہ پڑھے تو خدا اس کو ہر آفت اور شیطان کے ہر شر سے بچانے کیلئے اس پر ہزار فرشتے مقرر کرے گا اور اگروہ اسی روز مر جائے تو خدا اس کو جنت میں داخل فرمائے گا ۔

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے( شروع کرتا ہوں)جو بڑا مہربا ن نہایت رحم والا ہے

یٰسٓ﴿۱﴾ وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ ﴿۲﴾ إنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ﴿۳﴾ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ﴿۴﴾

یاسین۔پُرحکمت قرآن کی قسم۔(اے رسول)بے شک آپ ضرور پیغمبروں میں سے ہیں۔ سیدھے راستے پر (قائم) ہیں

تَنْزِیلَ الْعَزِیزِالرَّحِیمِ ﴿۵﴾ لِتُنْذِرَ قَوْماً مَا أُنْذِرَ آباؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴿۶﴾

یہ (قرآن) بڑے مہربان غالب خدا کانازل کردہ ہے تاکہ تم ان لوگوں کو ڈرائو جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے پس وہ بے خبر ہیں

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَی أَکْثَرِهِمْ فَهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ﴿۷﴾ إنَّاجَعَلْنَا فِی أَعْناقِهِمْ أَغْلاَلاً فَهِیَ إلَی

ہیںیقینًا ان میں اکثر پر حق واضح ہو چکا لیکن وہ ایمان نہ لائیں گے بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جو انکی

الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ ﴿۸﴾وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَأَغْشَیْنَاهُمْ

ٹھوڑیوں تک ہیں اور انہوں نے منہ اٹھا رکھے ہیں ہم نے ان کے آگے اور پیچھے دیوار کھڑی کر کے انہیں ڈھانپ دیا

فَهُمْ لاَیُبْصِرُونَ ﴿۹﴾ وَسَوَائٌ عَلَیْهِمْ أَ أَ نْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ﴿۱۰﴾ إنَّمَا

لہذا وہ کچھ نہیں دیکھتے اور ان کیلئے برابر ہے آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیںلائیں گے بس آپ اسی

تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمنَ بِالْغَیْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ کَرِیمٍ ﴿۱۱﴾ إنَّا

کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت مانے اوران دیکھے خدا سے ڈرے آپ اسے بخشش اورباعزت اجر کی نوید دے دیں یقینا ہم ہی مردوں

نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَکُلَّ شَیْئٍ أَحْصَیْنَاهُ فِی إمَامٍ مُبِینٍ ﴿۱۲﴾

کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ پہلے لوگ کر چکے اور ہم انکے آثار کو لکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح پیشوا کے تابع کر دیا ہے

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلاً أَصْحَابَ الْقَرْیَةِ إذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ ﴿۱۳﴾ إذ أَرْسَلْنا إلَیْهِمُ اثْنَیْنِ

اور ان کیلئے( بستی انطاکیہ) والوں کی مثال بیان کریں جب انکے پاس رسول آئے جب ہم نے انکی طر ف دو رسول بھیجے تو انھوں انکو

فَکَذَّبُوهُما فَعَزَّزْنا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إنَّا إلَیْکُمْ مُرْسَلُونَ ﴿۱۴﴾ قَالُوا مَا أَ نْتُمْ إلاَّ بَشَرٌ مِثْلُنا

جھٹلایا تب ہم نے انکو تیسرے(رسول) سے قوت دی تو انہوں نے کہا ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ان لوگوں نے کہا تم بھی ہمارے جیسے آدمی ہی ہو

وَمَا أَ نْزَلَ الرَّحْمنُ مِنْ شَیْئٍ إنْ أَ نْتُمْ إلاَّ تَکْذِبُونَ ﴿۱۵﴾قَالُوا رَبُّنَا یَعْلَمُ إنَّا إلَیْکُمْ

اور رحمن نے کچھ بھی نازل نہیں کیا تم واضح جھوٹ بول رہے ہو انہوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم ضرور تمہاری طرف

لَمُرْسَلُونَ ﴿۱۶﴾ وَمَا عَلَیْنَا إلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِینُ﴿۱۷﴾ قَالُوا إنَّا تَطَیَّرْنا بِکُمْ لَئِنْ لَمْ

بھیجے گئے ہیںاور ہمارا کام تو بس پیغام پہنچا دینا ہے وہ بولے ہم نے تمہیں بد شگون پایا اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں

تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ ﴿۱۸﴾ قَالُوا طَائِرُکُمْ مَعَکُمْ أَ إنْ ذُکِّرْتُمْ

ضرور سنگسار کریں گے اور ہمارے ہاتھوں تمہیں درد ناک عذاب پہنچے گا وہ بولے تمہاری بدشگونی تمہارے ساتھ ہے کیا تم نصیحت کو برا سمجھتے ہو

بَلْ أَ نْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ ﴿۱۹﴾ وَجَاءَ مِنْ أَقْصَی الْمَدِینَةِ رَجُلٌ یَسْعَی قَالَ یَا قَوْمِ اتَّبِعُوا

بلکہ تم حد سے بڑھنے والے ہو اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا اے لوگو ان رسولوں کی

الْمُرْسَلِینَ ﴿۲۰﴾ اتَّبِعُوا مَنْ لاَ یَسْأَ لُکُمْ أَجْراً وَهُمْ مُهْتَدُونَ ﴿۲۱﴾ وَمَا لِیَ لاَ أَعْبُدُ

پیروی کرو ۔ہاں ان کی پیروی کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اوریہ تو ہدایت یافتہ ہیں مجھے کیا ہوا ہے کہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی

الَّذِی فَطَرَنِی وَ إلَیْهِ تُرْجَعُونَ ﴿۲۲﴾أَ أَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إنْ یُرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لاَ

عبادت نہ کروں اور تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔کیا میں اس کے سوا دوسرے معبود بنا لوں؟ اگر خدا مجھے کوئی تکلیف دے تو نہ

تُغْنِ عَنِّی شَفاعَتُهُمْ شَیْئاً وَلاَ یُنْقِذُونِ ﴿۲۳﴾ إنِّی إذاً لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ ﴿۲۴﴾ إنِّی

انکی شفاعت کام آئے نہ وہ مجھے چھڑا سکیں تب یقینا میں کھلی گمراہی میں ہوں گا میری مانو

آمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُونِ ﴿۲۵﴾ قِیلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ یَا لَیْتَ قَوْمِی یَعْلَمُونَ ﴿۲۶﴾

کہ میں تمہارے رب پر ایمان لایا ہوں (قوم نے اسے مار ڈالا تو) کہا گیا جنت میں داخل ہو جا اس نے کہا کاش میری قوم جان لیتی

بِما غَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ الْمُکْرَمِینَ ﴿۲۷﴾ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَی قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ

کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور عزت والوں میں شامل کردیا ہے اس شہید کے بعد ہم نے اسکی قوم پر آسمان سے لشکر نہ اتارا

مِنَ السَّمَائِ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِینَ ﴿۲۸﴾ إنْ کَانَتْ إلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَ إذَا هُمْ خَامِدُونَ ﴿۲۹﴾

نہ ہم اتارنے والے تھے وہ تو ایک چنگھاڑ ہی تھی جس سے وہ بجھ کر رہ گئے

یَا حَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إلاَّ کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُنَ ﴿۳۰﴾أَلَمْ یَرَوْا کَمْ أَهْلَکْنَا

لوگوں کے حال پر افسو س ہے کہ ان کے پاس جو بھی رسول آیا وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم

قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَ نَّهُمْ إلَیْهِمْ لاَ یَرْجِعُونَ ﴿۳۱﴾ وَ إنْ کُلٌّ لَمَّا جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ ﴿۳۲﴾

نے ان سے پہلے کئی قومیں ہلاک کر دیں جو ان کی طرف لوٹنے والی نہیں۔البتہ وہ اکھٹے ہمارے سامنے حاضر ہوں گے

وَ آیَةٌ لَهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ أَحْیَیْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبّاً فَمِنْهُ یَأْکُلُونَ ﴿۳۳﴾ وَجَعَلْنَا فِیهَا

اور مردہ زمین بھی ان کیلئے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا ہم نے اس سے غلہ نکالا اور وہ اسے کھاتے ہیں اور ہم نے اس

جَنَّاتٍ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِیهَا مِنَ الْعُیُونِ ﴿۳۴﴾ لِیَأْکُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ

میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ اگائے اور ہم نے اس میں کچھ چشمے جاری کیے تاکہ وہ زمین کے ان پھلو ں کو کھا ئیں جسے ان

أَیْدِیهِمْ أَفَلاَ یَشْکُرُونَ ﴿۳۵﴾ سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ

کے ہاتھوں نے نہیں اگایا۔کیا وہ شکر نہیں کرتے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین سے اگنے والی سب چیزوں کے جو ڑے پیدا کیے اور

وَمِنْ أَ نْفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ یَعْلَمُونَ ﴿۳۶﴾ وَ آیَةٌ لَهُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَ إذا هُمْ

انکی جانوں سے بھی اور ان چیزوں سے جنکو وہ نہیں جانتے اور رات بھی ان کیلئے ایک نشانی ہے کہ ہم اس میں سے دن کو کھینچ لیتے ہیں تو

مُظْلِمُونَ﴿۳۷﴾ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ ﴿۳۸﴾

وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ اور سورج اپنے مدار پر چلتا رہتاہے اور یہ بڑے علم اور غلبے والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ ﴿۳۹﴾ لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَهَا أَنْ

اور ہم نے چاند کے لیے منزلیں مقررکی ہیں کہ آخر میں کھجور کی سوکھی ٹہنی کا سا ہو جاتا ہے نہ سو رج کے بس میں ہے کہ چاند

تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ اللَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ ﴿۴۰﴾ وَ آیَةٌ لَهُمْ أَنَّا

کو لے جائے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں چکر لگارہے ہیں اور ان کے لیے ایک نشانی یہ ہے

حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ﴿۴۱﴾ وَخَلَقْنا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا

کہ ہم نے بھری کشتی میں ان کی اولاد کو اٹھایا اور ہم نے ان کیلئے کشتی کی مانند ہی چیزیں بنائیں جن پر

یَرْکَبُونَ﴿۴۲﴾وَ إنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلاَ صَرِیخَ لَهُمْ وَلاَ هُمْ یُنْقَذُونَ﴿۴۳﴾ إلاَّ رَحْمَةً مِنَّا

و ہ سوار ہوتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں تو نہ کوئی انکا فریاد رس ہو گا نہ وہ بچ سکیں گے مگر یہ کہ ہم ان پر رحمت کریں اور ایک

وَمَتَاعاً إلَی حِینٍ ﴿۴۴﴾ وَ إذا قِیلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَمَا خَلْفَکُمْ لَعَلَّکُمْ

وقت تک فائدہ پہنچائیں اور جب ان سے کہا جائے کہ اس عذاب سے ڈروجو تمہارے سامنے اور تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر

تُرْحَمُونَ ﴿۴۵﴾ وَمَا تَأْتِیهِمْ مِنْ آیَةٍ مِنْ آیَاتِ رَبِّهِمْ إلاَّ کَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ﴿۴۶﴾

رحم کیا جائے تو وہ توجہ نہیں کرتے اور انکے رب کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی انکے پاس آتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں

وَ إذَا قِیلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ ﷲ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ یَشَائُ

اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے خرچ کرو تو کافرمؤمنین سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھلائیں جسے اللہ

ﷲ أَطْعَمَهُ إنْ أَ نْتُمْ إلاَّ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ ﴿۴۷﴾ وَیَقُولُونَ مَتَی هذَا الْوَعْدُ إنْ کُنْتُمْ

چاہتا تو کھلا دیتا۔تم توکھلی گمراہی میں ہو۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟

صَادِقِینَ ﴿۴۸﴾ مَا یَنْظُرُونَ إلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُونَ ﴿۵۹﴾ فَلاَ

یہ ایک سخت آواز کا ہی تو انتظار کر رہے ہیں جو ان کو آپکڑے گی اور وہ جھگڑ رہے ہوں گے پس نہ وہ

یَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلاَ إلَی أَهْلِهِمْ یَرْجِعُونَ ﴿۵۰﴾ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَ إذَا هُمْ مِنَ

وصیت کر سکیں گے نہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکیں گے اور(جب) صور پھونک دیا جائے گا تو وہ اپنی قبروں

الْاَجْدَاثِ إلَی رَبِّهِمْ یَنْسِلُونَ ﴿۵۱﴾قَالُوا یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هذَا مَا وَعَد

سے (نکل کر )اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اورکہیں گے ہائے ہماری تباہی ہو گئی ہمیں کس نے ہماری خوابگاہ سے اٹھا دیا؟ یہ ہے جس

الرَّحْمنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ﴿۵۲﴾ إنْ کَانَتْ إلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَ إذَا هُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا

کا وعدہ رحمن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا کہ وہ ایک سخت آواز ہوگی اور اسی وقت وہ سب ہمارے ہاں حاضر

مُحْضَرُونَ ﴿۵۳﴾ فَالْیَوْمَ لاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً وَلاَ تُجْزَوْنَ إلاَّ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿۵۴﴾

کیے جائیں گے۔پس آج کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہو گااور جو تم کرتے رہے صرف اسی کا تمہیں بدلہ دیا جائے گا

إنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاکِهُونَ ﴿۵۵﴾ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ فِی ظِلاَلٍ عَلَی

بے شک آج کے دن اہل جنت دل بہلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اور انکی بیویاں گھنے سایوں میں تختوں

الْاَرَائِکِ مُتَّکئُونَ ﴿۵۶﴾ لَهُمْ فِیهَا فَاکِهَةٌ وَلَهُمْ مَا یَدَّعُونَ ﴿۵۷﴾ سَلامٌ قَوْلاً مِنْ

پر تکیے لگائے ہوئے ہیں۔ جنت میں ان کے لیے میوے ہیں اور جو کچھ بھی وہ طلب کریں (ان پر) مہربان خداکی

رَبٍّ رَحِیمٍ ﴿۵۸﴾ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیُّهَا الْمُجْرِمُونَ ﴿۵۹﴾ أَ لَمْ أَعْهَدْ إلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ

طرف سے سلام آئے گا (حکم ہو گا) گنہگارو آج تم الگ ہو جائو۔ اے اولاد آدم کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھاکہ شیطان

أَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ إنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ ﴿۶۰﴾ وَأَنِ اعْبُدُونِی هذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ﴿۶۱﴾

کی عبادت نہ کرنا کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا کیونکہ یہی سیدھا راستہ ہے

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلاًّ کَثِیراً أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُونَ ﴿۶۲﴾ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی کُنْتُمْ

اور اس(شیطان) نے تم میں سے بہت لوگوں کو گمراہ کیا۔کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟یہ وہی جہنم ہے جس کا تم

تُوعَدُونَ ﴿۶۳﴾ اصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ ﴿۶۴﴾ الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی أَفْواهِهِمْ

سے وعدہ کیا تھا آج اس میں داخل ہو جائو کیونکہ تم کفر کرتے تھے۔آج ہم ان کے ہونٹوں پر مہر لگادیں گے

وَتُکَلِّمُنَا أَیْدِیهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ﴿۶۵﴾ وَلَوْ نَشَائُ لَطَمَسْنَا عَلَی

تو ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور انکے پائوں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے اور اگر ہم چاہتے تو ان کی

أَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَ نَّی یُبْصِرُونَ ﴿۶۶﴾ وَلَوْ نَشَائُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَی مَکَانَتِهِمْ

آنکھیں اندھی کر دیتے پھر وہ راستے کی طرف دوڑتے تو کہاں دیکھ پاتے؟ اور اگر ہم چاہتے تو ان کے گھروں میں ہی انکی صورتیں بدل دیتے

فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِیّاً وَلاَ یَرْجِعُونَ ﴿۶۷﴾ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَکِّسْهُ فِی الْخَلْقِ أَفَلاَیَعْقِلُونَ ﴿۶۸﴾

پھرنہ وہ آگے جاسکتے نہ پیچھے مڑسکتے اور جسے ہم لمبی عمر دیتے ہیں ،اسے کمزور خلقت میں پھیر دیتے ہیں۔کیا یہ سمجھتے نہیں؟

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِی لَهُ إنْ هُوَ إلاَّ ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِینٌ ﴿۶۹﴾ لِیُنْذِرَ

اور ہم نے اپنے نبی کو شعر کہنا نہیں سکھایا اورنہ یہ انکے شایان شان ہے یہ کتاب تو نصیحت اور روشن قرآن ہے تاکہ وہ اسے ڈرائیں

مَنْ کَانَ حَیّاً وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکَافِرِینَ ﴿۷۰﴾ أَوَ لَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ

جو زندہ ہو اور کافروں پر حجت قائم ہو جائے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی مخلوق میں سے

أَیْدِینَا أَنْعَاماً فَهُمْ لَهَا مَالِکُونَ ﴿۷۱﴾ وَذَ لَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَکُوبُهُمْ وَمِنْهَا یَأْکُلُونَ ﴿۷۲﴾

ان کیلئے مویشی بنائے جنکے وہ مالک ہیں اور ہم نے چوپائوں کوانکے تا بع کر دیا تو ان میں سے بعض انکی سواریاں ہیں اور بعض کو وہ کھاتے ہیں

وَلَهُمْ فِیهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلاَ یَشْکُرُونَ ﴿۷۳﴾ وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ ﷲ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ

اور ان کیلئے ان میں فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں تو کیا وہ شکر نہیں کرتے ؟اور انہوں نے خدا کے علاوہ معبود بنا لیے شاید کہ ان

یُنْصَرُونَ ﴿۷۴﴾ لاَ یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ ﴿۷۵﴾ فَلاَ

سے مدد پائیں وہ انکی مدد نہیں کر سکتے اور یہ کافر انکے لشکر ہیںجو حاضر کیے جائیں گے پس انکی باتیں تمہیں

یَحْزُنْکَ قَوْلُهُمْ إنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ﴿۷۶﴾ أَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ

غمزدہ نہ کریںبے شک ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں ۔کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے

نُطْفَةٍ فَ إذَا هُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ ﴿۷۷﴾ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ یُحْیِی الْعِظَامَ

نطفے سے پیدا کیاپھر اچانک وہ ہمارا ہی کھلا مقابل بن گیا ہے اور ہمارے لیے مثال بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا کون ہڈیوں

وَهِیَ رَمِیمٌ ﴿۷۸﴾ قُلْ یُحْیِیهَا الَّذِی أَ نْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ﴿۷۹﴾

کو زندہ کرے گا جبکہ وہ گل سڑگئیں ہونگیں کہہ دو انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر پیدائش کو جاننے والا ہے

الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَاراً فَ إذَا أَ نْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ ﴿۸۰﴾ أَوَ لَیْسَ الَّذِی

جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی کہ تم فورا ہی اس سے آگ روشن کرتے ہو کیا وہ جس نے

خَلَقَ السَّموَاتِ وَالْاَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَی وَهُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیمُ ﴿۸۱﴾

آسمانوںاور زمین کو پیدا کیا وہ ان جیسے اور لوگوں کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ ہاں وہ بہت کچھ پیدا کرنے والا ہے

إنَّمَا أَمْرُهُ إذَا أَرَادَ شَیْئاً أَنْ یَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ﴿۸۲﴾ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِهِ مَلَکُوتُ

یہی تو اس کا حکم ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے اور کہے ہو جا ،تو وہ ہو جاتی ہے پس پاک ہے وہ ذات جس کے دست قدرت

کُلِّ شَیْئٍ وَ إلَیْهِ تُرْجَعُونَ ﴿۸۳﴾

میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم اسی کی طرف پلٹائے جائو گے ۔

فضائل سورئہ رحمن

حضرت امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ سورہ رحمن کی تلاوت کبھی ترک نہ کرو، کیو نکہ یہ سورہ منافقوںکے دل میں نہیں ٹھہرتا،یہ سورہ قیامت کے دن ایک خوبصورت شخص کی شکل میں عمدہ ترین خوشبو کیساتھ بارگا ہ الہی میں ایسی جگہ پر آکر کھڑا ہو گا کہ خدا کے نزدیک اس سے زیادہ اور کوئی نہ ہوگااورخدا تعالیٰ اس سورہ سے فرمائے گا کہ کو ن تجھے اپنی دنیا وی زندگی میں ہمیشہ پڑھاکرتا تھا۔تو یہ عرض کرے گا کہ فلاں فلاں شخص میری تلاوت کرتا تھاتو اسی لمحے میں پڑہنے والوں کے چہرے روشن ہو جائیں گے۔خدا ان سے فرمائے گا کہ تم لوگ جس کی چاہو شفاعت کرو۔ اوروہ اتنی شفاعت کرینگے کہ کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہیگا کہ جسکی شفاعت کا ارادہ رکھتے ہوں اور اسکی شفاعت نہ کر سکیںپھر خدا ان سب کو فرمائے گا کہ تم جنت میں داخل ہو جائو اور جہاں چاہواس میں رہو۔حضرت امام جعفر صادق - کا فرمان ہے کہ جوشخص سورہ رحمن پڑہے اور جبفَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ پرپہنچے توکہے:لَابِشَئٍمِنْ آلاَءِکَ رَبِّ اُکَذِّبُ .(اے پروردگارمیں تیری نعمتوں میں سے کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتا)اگر کو ئی شخص رات کو یہ سورہ پڑھے اور اسی رات مرجائے تو وہ شہید قرار پائے گا اسی طرح اگر دن میں پڑھے اور مرجائے توبھی شہیدکی موت مرے گا ۔

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

الرَّحْمٰنُ ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿۲﴾ خَلَقَ الْاِنْسَانَ ﴿۳﴾ عَلَّمَهُ الْبَیَانَ ﴿۴﴾ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ

بڑا مہربان (خدا ہے) اسی نے قرآن سکھایا (اور)انسان کو پیدا کیا(اور)اسے بات کرنا سکھایا سورج اور چاند

بِحُسْبَانٍ ﴿۵﴾ وَالنَّجْمُ والشَّجَرُ یَسْجُدَانِ ﴿۶﴾ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ ﴿۷﴾

حساب سے چلتے ہیں زمین پر پھیلنے والی بیلیں اور درخت اسے سجدہ کرتے ہیں خدا نے آسمان کو اونچا بنایا اور ترازو کو قائم کیا

أَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ ﴿۸﴾ وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُواالْمِیزانَ ﴿۹﴾

کہ تم تولنے میںبے انصافی نہ کرو اور انصاف سے وزن کو درست رکھو اور تولنے میں کمی نہ کرو

وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلاََْنَامِ ﴿۱۰﴾ فِیهَا فَاکِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَکْمَامِ ﴿۱۱﴾ وَالْحَبُّ ذُو

اور اسی نے مخلوق کیلئے زمین بنائی کہ جس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جنکے خوشے غلافوں میں ہیں اوربھوسے دار غلہ

الْعَصْفِ وَالرَّیْحَانُ ﴿۱۲﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۱۳ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ

اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے اس نے انسان کو ٹھیکری کی

صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ﴿۱۴﴾ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ ﴿۱۵﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے بنایا تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۱۶﴾ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ﴿۱۷﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

کو نہ مانو گے وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا رب ہے تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ﴿۱۸﴾مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ﴿۱۹﴾ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَ یَبْغِیَانِ ﴿۲۰﴾ فَبِأَیِّ

کو نہ مانو گے اس نے دو سمندر جاری کیے (جو)ملے ہوئے ہیں انکے درمیان آڑ سی ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتے تو اے جنّ و انس تم

آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۲۱﴾ یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ﴿۲۲﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے ان سمندروں سے موتی اور گھونگے نکلتے ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۲۳﴾ وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلاَمِ﴿۲۴﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

کو نہ مانو گے اور سمندر میں چلنے والی پہاڑ جیسی اونچی کشتیاں بھی اسی کی ہیںتو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۲۵﴾ کُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ ﴿۲۶﴾ وَیَبْقَی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ ﴿۲۷﴾

کو نہ مانو گے۔زمین پر موجودہر چیزکو فنا ہے صرف تمہارے رب کی ذات باقی رہے گی جو عزت وکرامت والی ہے

فَبِأَیِّ آلاَءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۲۸﴾ یَسْأَلُهُ مَنْ فِی السَّموَاتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِی

تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے ۔آسمانوں اور زمینوں میں موجودہر کوئی اسی سے مانگتا ہے وہ ہر آن نئی شان

شَأْنٍ ﴿۲۹﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۳۰﴾سَنَفْرُغُ لَکُمْ أَیُّهَا الثَّقَلاَنِ﴿۳۱﴾

میں ہے تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے اے دونوں گروہو۔ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوں گے

فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۳۲﴾ یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ إنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ

تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوںکو نہ مانو گے اے گروہ جن و انس اگر آسمانوں اور زمین کے کناروں

أَقْطَارِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوا لاَ تَنْفُذُونَ إلاَّ بِسُلْطَانٍ ﴿۳۳﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو تم کہیں نہ جا سکو گے مگر یہ کہ وہاں بھی اسی کی سلطنت ہو گی تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۳۴﴾ یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلاَ تَنْتَصِرَانِ ﴿۳۵﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ

کو نہ مانو گے تم دونوں پر (قیامت میں)آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا تو تم اسے نہ ہٹا سکو گے تو اے جنّ و انس تم اپنے

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۳۶﴾ فَ إذَا انْشَقَّتِ السَّمَائُ فَکَانَتْ وَرْدَةً کَالدِّهَانِ ﴿۳۷﴾ فَبِأَیِّ

رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو وہ سرخ چمڑے کی طرح ہو جائے گا تو اے جنّ و انس تم

آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۳۸﴾ فَیَوْمَیِذٍ لاَ یُسْءَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إنْسٌ وَلاَ جَانٌّ ﴿۳۹﴾ فَبِأَیِّ

اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے پس اس دن کسی کے گناہ کے بارے میں کسی جن اور انسان سے نہیں پوچھا جائیگا تو اے جنّ و انس

آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۴۰﴾ یُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِیْمَاهُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِی وَالْاَقْدَامِ ﴿۴۱﴾

تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے (اس دن)مجرم اپنی صورتوں سے پہچانے جائیں گے اور انہیں پیشانی اور پائوں سے پکڑا جائیگا

فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۴۲﴾ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی یُکَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ ﴿۴۳﴾

تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے یہ ہے وہ جہنم جسکا مجرم (لوگ) انکار کیا کرتے تھے وہ آگ اور کھولتے

یَطُوفُونَ بَیْنَهَا وَبَیْنَ حَمِیمٍ آنٍ ﴿۴۴﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۴۵﴾ وَلِمَنْ خَافَ

پانی میں چکر لگاتے پھریںگے تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے اور جو اپنے رب کے سامنے پیشی سے

مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ ﴿۴۶﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۴۷﴾ ذَوَاتَا أَفْنَانٍ ﴿۴۸﴾

ڈرے اس کیلئے دو باغ ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے دونوں باغ ہرے بھرے اور لدے ہوئے ہیں

فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۵۹﴾ فِیهِمَا عَیْنَانِ تَجْرِیَانِ ﴿۵۰﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان باغوں میں دو چشمے جاری ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۵۱﴾ فِیهِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِهَةٍ زَوْجَانِ ﴿۵۲﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۵۳﴾

کو نہ مانو گے ان باغوں میں ہر پھل کی دو دو قسمیں ہیںتو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے

مُتَّکِئِینَ عَلَی فُرُشٍ بَطَایِنُهَا مِنْ إسْتَبْرَقٍ وَجَنَی الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ ﴿۵۴﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ

وہ ایسے بستروں پر تکیئے لگائے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہونگے اور ان باغوں کے پھل قریب تر ہونگے تو اے جنّ و

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۵۵﴾ فِیهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ إنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلاَ جَانٌّ ﴿۵۶﴾

انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان باغوں میں نیچی نظروں والی بیویاں ہیں جن کو ان سے پہلے کسی جنّ اور انسان نے چھوا تک نہیں

فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۵۷﴾ کَأِ نَّهُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ ﴿۵۸﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ

تو اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے گویا وہ یاقوت اور مونگے ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۵۹﴾ هَلْ جَزَائُ الْاِحْسَانِ إلاَّ الْاِحْسَانُ ﴿۶۰﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا

نعمتوں کو نہ مانو گے نیکی کا بدلہ نیکی کے سوائ کچھ اور نہیں ہوتا تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں

تُکَذِّبَانِ ﴿۶۱﴾ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ﴿۶۲﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۶۳﴾

کو نہ مانو گے اور ان دونوں کے سوا اور بھی باغ ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو نہ مانو گے

مُدْهَامَّتَانِ ﴿۶۴﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۶۵﴾ فِیهِمَا عَیْنَانِ نَضَّاخَتَانِ ﴿۶۶﴾

وہ دونوں باغ ہرے بھرے ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان میں دو چھلکتے ہوئے چشمے ہیں

فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۶۷﴾ فِیهِمَا فَاکِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ ﴿۶۸﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ

تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان میں کھجوریں انار اور دوسرے درخت ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے

رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۶۹﴾ فِیهِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ ﴿۷۰﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۷۱﴾

رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان میں خوبصورت نیک سیرت بیویاں ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے

حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِی الْخِیَامِ ﴿۷۲﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۷۳﴾ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ

وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ٹھہرائی ہوئی ہیں تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے ان جنتیوں سے پہلے ان

إنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلاَ جَانٌّ ﴿۷۴﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۷۵﴾ مُتَّکِئِینَ عَلَی رَفْرَفٍ

حوروں کو کسی جن وبشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے وہ سبز قالینوں اور نفیس بستروں

خُضْرٍ وَعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ ﴿۷۶﴾ فَبِأَیِّ آلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ ﴿۷۷﴾ تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ

پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے تو اے جنّ و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کونہ مانو گے تمہارے رب کا نام بڑا بابرکت ہے

ذِی الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ ﴿۷۸﴾

جو عظمت وبزرگی کا مالک ہے۔

آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :لَا یَرُدُّ دُعَاء: اَوَّلُهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :اِنَّ کُلُّ دُعَاء لَا يَکُونَ قَبْلَهُ تَمْجَِیْد فَهُوَاَبْتَرْ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَاءِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ ۔رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا يَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ :دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)

حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا

قال الله تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِهِمْ عَارِفَاً بِحَقِّهِمْ وَمَقَامِهِمْ اَوْجَبْتَ لَه مِنِّی اَلْاِجَابَةَ ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)

امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا ﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)

جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔

فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَيْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِيُوْسُفَ وَبُنْيَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)

حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّهُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِه شَک مِنْکَ ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)

لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوں کا اقرار کرنا

قال الامام الصادق ـ :انَّمَا هِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْءَلَة ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا

قال الله :يَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَاءَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَهُ مُغِيْث ۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا

امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْيُعِمَّ فَاِنَّهُ اَوْجَبَ لِلدُّعَاءِ ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)

قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاه اَسْتُجِیبُ لَهُ ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا

مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔

دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔

مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد

قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰهَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْءَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں

قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا يَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰه تَعَالیٰ وَهُوَ سَاجد ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد

قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَءَ مِاءَةَ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَاءَ ثُمَّ قَالَ … يَاﷲ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِهٰا اِنْ شَاءَ ﷲ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔

٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔

دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ

(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔

(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔

اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔يَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً ۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)

مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِه وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِه وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِه وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِهِ) امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : دُعَاءُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ يُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)

قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَءَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَهُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً ۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی

قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِه عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ يُدَّخَرَ لَهُ، وَاِمَّا اَنْ يُعَجَّل لَهُ وَاِمَّا اَنْ يَدْفَعَ عَنْهُ بَلائً يُرِيْدُ اَنْ يُصِیْبَ ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ

قال الامام الصادق ـ : دُعَاءُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ يَدْفَعُ عَنْهُ الْبَلَاءَ وَيُدِرُّ عَلَيْهِ الْرِّزْقَ ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)

مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ ﷲ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْيَائ عَنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَيّاً وَمَيَّتاً کُنْتُ لَه شَفِيْعاً یَومَ الْقِيَامَةِ ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)

امام صادق ـ فرماتے ہیں:مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِيَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُه جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)

مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔

امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلیٰ زِيَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا يَکْتُبُ لَه ثَوَّابُ زِيَارَتِنَا ۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)

قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّهُمْ يَفْرَحُوْنَ بِزِيَارَتِکُمْ وَالْيَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَه عَنْدَ قَبْرِ اٰبِيْهِ وَاُمِّهِ بَعْدَ مَا يَدْعُوا لَهُمَا ۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)

خدا فرماتا ہے :يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا ﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)

پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )

نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)

امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔

قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق :فَلَمَّا اَنْ جَاءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰهُ عَلیٰ وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)

امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔

جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔

خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔

اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔

اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے

(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَهٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)

ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔

معصومین اور زیارت

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِيْعَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)

قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا ۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)

امام حسن ـ اپنے نانا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)

قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَيْن ـ عَارِفاً بِحَقِّه کَتَبَ ﷲ لَه ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)

الامام صادق ـ :اِيْتُوا قَبْرَالْحُسَيْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)

امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)

قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَه ذَنُوبُه وَلَمْ يَمُتْ فَقِيْراً ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)

قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْه مِن اَهْوَالِهٰا اِذَا تَظَاهَرَتِ الْکُتّبُ يَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِيْزَانِ ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)

(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔

(٢) پل صراط پر

(٣)حساب کے وقت

قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَه الْجَنَّة ۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)

امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)

امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)

قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة ﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة ﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔

مطلب سوم :

مؤلف محترم کے مختصر حالات زندگی

انبیاء اور آئمہ اطہار اور ان کے بعد نیک اور با فضیلت علماء کی سیرت سے آگاہ ہونا ان تمام لوگوں کیلئے جو نمونہ عمل کی جستجو میں ہیں روحانی ارتقاء کا موجب ہے چونکہ یہ عظیم ہستیاں روحانی اعتبار سے ممتاز ہیں اور عمدہ کردار و اخلاق کی حامل ہیںمفاتیح الجنان کے مؤلف خاتم المحدثین الحاج شیخ عباس قمی ہیں جو کہ محدث قمی کے نام سے مشہور ہیں آپ ١٢٩٤ھ میں مذہبی شہر قم میں پیدا ہوئے وہ مقدس شہر کہ جو کریمہ اہل بیت فاطمہ معصومہ کا مدفن ہے اور علم و روحانیت کا مرکز ہے ۔

والد گرامی

آپ کے والد بزرگوار الحاج محمد رضا قمی ہیں جنہیں قم کے لوگ متقی پرہیزگار شخص کے طور پر پہچانتے تھے چو نکہ آپ دینی مسائل سے بھی آگاہ تھے اس لئے لوگ شرعی احکام پوچھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

والدہ معظمہ

محدث قمی کی والدہ مکرمہ پرہیز گار خاتون تھیں ان کے متعلق خود محدث قمی نے کئی مقامات پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ میری تالیفات اور دیگر کام میری والدہ کی تربیت کی وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اس قدر کوشش کی کہ مجھے ہمیشہ باوضو دودھ پلایا کرتی تھیں ۔

تعلیمی مراحل

محدث قمی نے اپنا بچپن اور جوانی قم جیسے مذہبی شہر میں گزار دی اور اس زمانے کے علماء سے ادبیات اور فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے ١٣١٦ھ میں نجف اشرف تشریف لے گئے اور حضرت آیت اللہ حاج سید محمد کاظم یزدی جیسے بزرگ و عظیم مجتہدین و مراجع سے کسب فیض کیا لیکن چونکہ علم حدیث ،رجال اور درایہ سے خصوصی لگاؤ تھا اس لئے علامہ نامدار حاج میرزا حسین نوری کی خدمت میں گئے چونکہ وہ اس زمانے میں علم حدیث کے علمبردار تھے آپ کا زیادہ وقت ان کی خدمت میں گزرا ۔

عمدہ صفات

محدث قمی نے اپنی جوانی کے دوران خود سازی کو اپنا سرنامہ زندگی قرار دیا فضائل اخلاقی اور عمدہ صفات کے حصول میں کوشاں رہے یہاں تک کہ اپنے زمانہ کے علم اخلاق کے بزرگ معلمین میں ان کا شمار ہوتا تھا اور لوگ انہیں ایک روحانی متقی شخص کے طور پر پہچانتے تھے آپ کے درس اخلاق میں لوگ جوق در جوق شریک ہوتے تھے آپ کی ممتاز ترین صفات میں تین اوصاف انتہائی نمایاں ہیں۔

١۔دعا اور اہلبیت کے ساتھ گہرا تعلق ٢۔زہد و تقویٰ ٣۔تواضع و انکساری ۔

مدرسہ و مؤسسہ امام المنتظر (عج) قم

محسن ملت حضرت علامہ سید صفدر حسین نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ نے ١٤٠٣ہجری قمری بمطابق ١٩٨٢ عیسوی میں مدرسہ امام المنتظر(عج)کی بنیاد رکھی یہ مدرسہ آج محلہ گذرقلعہ قم میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے محسن ملت مرحوم کی خواہش تھی کہ قم کی طرح مشہد مقدس اور شام میں بھی اس مدرسہ کی شاخیں ہوں ان کے علاوہ ایک عظیم علمی ،ثقافتی اور دینی ادارہ بھی معرض وجود میں آئے تاکہ وہاں سے دینی کتب کی اشاعت ہو سکے علامہ محسن ملت کی یہ خواہش ١٤١٨ ہجری قمری بمطابق ١٩٩٧ عیسوی کو مؤسسہ ہذا کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچی ،یہ ادارہ اس وقت تک کئی کتب شائع کر چکا ہے مؤسسہ ہذا کے شعبہ تحقیقات میں فاضل طلباء کے توسط سے مختلف موضوعات پر مناسب اور با اعتماد منابع سے تحقیقی کام ہو رہا ہے (جیسے تفسیر وعلوم قرآن ،تاریخ وسیرت اہل بیت اور اس کے علاوہ دیگر موضوعات) بہر حال یہ سب کچھ علامہ محسن ملت کی باقیات وصالحات اور صدقہ جاریہ ہیں خدا وند متعال علامہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے ۔آمین ۔

سید نیاز حسین نقوی

مؤسسہ اما م المنتظر (عج)

قم المقدسہ اسلامی جمہوریہ ایران

مؤسسہ امام المنتظر (عج)کا شعبہ نشر واشاعت مختلف زبانوں میں اب تک کئی کتب شائع کر چکا ہے ۔

قرآن (١)

چراغ ہدایت

تفسیر وجیر (١)

عدالت اجتماعی(معاشرتی انصاف)

مفاتیح الجنان (١) مرحوم شیخ عباس قمی

آئینہ حقیقت

مکاسب (٣) جلد شیخ مرتضیٰ انصاری

پیام امام زمانہ(عج)فارسی

رہبر بشریت کا اعلان

قرآن ترجمہ فارسی

زیر طبع کتب اردو

مفاتیح الجنان ترجمہ فارسی

اہل بیت قرآن وسنت کی روشنی میں

نہج البلاغہ ترجمہ فارسی

علم وحکمت قرآن وسنت کی روشنی میں

حقیقت مکتوم ترجمہ فارسی

عقل قرآن وسنت کی روشنی میں

در مکتب حسین شیعہ شدم ترجمہ فارسی

محبت قرآن وسنت کی روشنی میں

راز خلقت انسان در قرآن

خطبہ غدیر(انگلش )

عدالت اجتماعی (بخش اقتصاد)

فصول شرح کفایة الاصول


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88