مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 198593
ڈاؤنلوڈ: 12255

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198593 / ڈاؤنلوڈ: 12255
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

ماہ شعبان کے مخصوص اعمال

فضیلت روز اول شعبان

پہلی شعبان کی رات

کتاب اقبال میںشعبان کی پہلی رات میں پڑھی جانے والی کافی نمازوں کا ذکر ہوا ہے ، ان میں سے ایک بارہ رکعت نماز ہے کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھی جاتی ہے۔

پہلی شعبان کا دن

ماہ شعبان کے پہلے دن کا روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اور امام جعفر صادق -سے روایت ہوئی ہے کہ یکم شعبان کا روزہ رکھنے والے کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔ سید ابن طاؤس نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ شعبان کے پہلے تین دن کا روزہ رکھنے اور پہلی تین راتوں میں دو، دو رکعت نماز پڑھنے کاثواب بہت زیادہ ہے، اس نماز کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے:

واضح رہے کہ ماہ شعبان اور اسکے پہلے دن کے روزے کی فضیلت تفسیر امام -میں مذکور ہے۔ ہمارے استاد ثقۃ الاسلام نوریرحمه‌الله نے کتاب کلمہ طیبہ کے آخر میں ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں ا سکے بہت سے فوائد و برکات کا ذکر ہے، یہ روایت بڑی طویل ہے۔ ہم یہاں ا سکا خلاصہ نقل کررہے ہیں:

خلاصہ روایت

یکم شعبان کو چند افراد مسجد میں بیٹھے قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث و تکرار کرتے ہوئے بلند آواز سے بول رہے تھے۔ امیرالمومنین -نے ان لوگوں کو سلام کیا، جب انہوں نے آپ سے وہاںتشریف رکھنے کی خواہش کی تو آپ نے فرمایا : تم لوگ ایسی باتیں کر رہے ہو، جن میںکوئی فائدہ نہیں آیا تم نہیں جانتے کہ خدا کے ایسے بندے بھی ہیں جو صرف خوف خدا سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں لیکن وہ بولنے سے قاصر نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ جب ان کے دلوں میں عظمت خداوندی کا تصور آتا ہے۔ تو ان کی زبانیں گنگ اور ان کی عقلیں حیران ہوجاتی ہیں پھر جب وہ اپنی حالت میں آتے ہیں تو خود کو بارگاہ الٰہی میںگنہگار و خطاکار سمجھتے ہوئے آہیں بھرتے ہیںجبکہ وہ گناہوں سے مبرأ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ہم میں تقصیر اور کوتاہی ہے۔ پس وہ ہر وقت عمل خیر میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کی طرف نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت خوف میں عبادت میں کھڑے ہیں اور ان کا اضطراب ظاہر ہے۔ ان لوگوں کے مقابلے میں تم کہاں ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے بڑا دانا وہ ہے جو زیادہ خاموش رہے اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو بہت زیادہ باتیں کرتا ہو۔ اے نادان و کم سمجھ لوگو! آج یکم شعبان ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس کا نام شعبان اس لیے رکھا ہے کہ اس میں نیکیاں عام کردی جاتی ہیں، حسنات کے دروازے کھل جاتے ہیں اورجنت کے محلات ارزاں قیمت اورآسان تر اعمال سے حاصل ہوتے ہیں۔ پس عبادت کرکے انہیں خریدلو۔ شیطان، ابلیس نے برائیوں کو تمہارے لیے پسندیدہ بنادیا ہے، تم گمراہی نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہو، شیاطین کی بدیوں اور برائیوں کی طرف متوجہ ہو اور شعبان کی خوبیوں اور اچھائیوں سے منہ نہ موڑو۔ جب کہ خدا کی طرف سے حسنات و خیرات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

آج یکم شعبان ہے اور اس کی حسنا ت و خیرات میں نماز، روزہ، امر بہ معروف و نہی از منکر، والدین، ہمسایہ اور اقربا سے حسن سلوک، آپس کے اختلافات دور کرنا اور فقرائ و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کرنا ہے۔ ادھر تم ہو کہ قضا و قدر کی بحث میں الجھے ہوئے ہو۔ کہ جس کا تمہیںحکم نہیں دیا گیا، جن باتوں سے تمہیں منع کیا گیا ہے تم ان میں مشغول ہو۔ خبر دار رہو کہ جو راز الٰہی کے کھولنے میں کوشاں ہوگا وہ برباد ہوجائے گا۔ آج کے دن اطاعت کرنے والوں کے لیے خدا نے جو کچھ مہیا فرمایا ہے اگر تمہیں اس کا علم ہوجائے تو یقینا تم ان بے کار بحثوں کو چھوڑکر احکام خد اکی طرف متوجہ ہوجاؤگے۔

ان سب نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین-! خدا تعالیٰ نے اطاعت گذاروں کے لیے کیا کچھ مہیا فرمایا ہے؟ تب حضرت نے ایک لشکر کا قصہ اس طرح نقل فرمایا:

رسول اکرم نے کفار سے جنگ کے لیے ایک لشکربھیجا تو کافروں نے اس پر شب خون مارا۔ جب کہ وہ ایک تاریک ترین رات تھی اور سبھی مسلمان پڑے سورہے تھے ۔ اس لشکر میںسے صرف چار افراد جاگ رہے تھے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لشکر کے ایک کونے پر تلاوت، ذکر اور نماز میں مشغول تھا۔ یہ چار افراد زید بن حارثہ، عبداللہ بن رواحہ، قتادہ بن نعمان اور قیس بن عاصم منقری تھے۔ جب دشمن نے مسلمانوں پر سوتے میں حملہ کردیا تو قریب تھا کہ سب کے سب مارے جائیں۔ لیکن اچانک ان چار اشخاص کے چہروں سے نور کی کرنیں پھوٹ نکلیں کہ سارا میدان روشن ہوگیا۔ اس روشنی میں مسلمان سنبھلے اور دیکھ بھال کر دشمن کا مقابلہ کرنے لگے۔ اور اس نور کو دیکھ کر ان کے حوصلے اور بھی بڑھتے جاتے تھے۔ پس انہوں نے دشمنوں کو تلواروں سے زیر کرلیا۔

یہاں تک کہ بہت سے مارے گئے اور بہت سے زخمی و اسیر ہوگئے۔ جب یہ فاتح لشکر واپس آیا تو یہ ماجرا رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا گیا، آپ نے فرمایا کہ یہ نور تمہارے ان بھائیوں کے ان اعمال کی برکت سے ظاہر ہوا جو اس رات (یکم شعبان کے سلسلہ میں) انجام دے رہے تھے۔ ہاں یہ یکم شعبان کے اعمال ہی ہیںکہ جن کے باعث تمہیں فتح حاصل ہوئی اورتم لوگ دشمن کے اچانک حملے میں اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے ہو۔

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایک کرکے یکم شعبان کے اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے کہا: جب یکم شعبان کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے گماشتوں سے کہتا ہے کہ ہر طرف پھیل جاؤ، لوگوں کو اپنی طرف بلاؤ اور انہیں خدا سے دور کرو۔ جب کہ خدائے رحمان اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ آج یکم شعبان ہے، تم ہر طرف پھیل جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف بلاؤ، انہیں نیکی کی طرف راغب کرو تاکہ وہ سب با سعادت اور نیک بخت بن جائیںالبتہ ان میں سے سرکش اور نافرمان لوگ شیطان کے گروہ میں ہی رہیں گے۔

آنحضرت نے فرمایا کہ جب یکم شعبان ہوتی ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، شجر طوبیٰ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنی شاخیں پھیلائے اور انہیں زمین کے قریب کرے، خدا کا ایک منادی یہ ندا دیتا ہے کہ اے خدا کے بندو اور اے نیکوکار لوگو! طوبیٰ کی ان شاخوں سے لپٹ جاؤ کہ وہ تمہیں اٹھاکے جنت میں لے جائیں۔ جب کہ بدکاروں کی لیے تھوہر کا درخت ہے اور ڈرتے رہو کہ کہیں اس کی شاخیں تمہیں جہنم میں نہ لے جائیں۔

رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا:اس ذات کی قسم جس نے مجھ کو حق کے ساتھ رسالت پر مبعوث فرمایا کہ جو یکم شعبان کے دن نیکی کرے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا اور وہ اسے جنت میں لے جائے گی۔ پھر فرمایا جو آج کے دن نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ اسی طرح جوشخص آج کے دن باپ بیٹے میں صلح کرائے۔ میاں بیوی میں سمجھوتہ کرائے، رشتہ داروں میں راضی نامہ کرائے یا اپنے ہمسائے یا کسی اجنبی میں مصالحت کرائے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو مقروض کی پریشانی کم کرے یا طلب میں تخفیف کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن اپنے حساب پر نظر کرے اور دیکھے کہ ایک پرانا قرضہ ہے جسے مقروض ادا نہیں کرسکتا۔ پس وہ اس قرضے کو حساب سے کاٹ دے تو وہ طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی یتیم کی کفالت کرے، کسی جاہل کومؤمن کی ہتک کرنے سے باز کرے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔ جو قرآن کی تلاوت کرے، مریض کی عیادت کرے، خداکا ذکر کرے اور خدا کی نعمتوں کا نام لے لے کر اس کا شکر ادا کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جوشخص آج کے دن اپنے ماں یا باپ یا دونوں میںسے ایک کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹا، جو اس سے پہلے کسی کو غضب ناک کرچکا ہو اور آج اسے راضی اور خوش کردے تو وہ بھی شاخ طوبیٰ سے لپٹا جو شخص جنازے کے ساتھ چلے تو وہ بھی طوبیٰ کی شاخ سے لپٹ گیا۔ جو کسی مصیبت زدہ کی بھی دلجوئی کرے وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹا اور جو شخص آج کے دن کوئی بھی نیک کام کرے تو وہ شاخ طوبیٰ سے لپٹ گیا۔

اس کے بعد رسول اکرم نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھ کورسالت پر مامور کیا ہے کہ جو شخص آج کے دن شر و بدی کا کوئی بھی کام کرے تو وہ زقوم(تھوہر) کی شاخوں سے لپٹ گیا اوروہ اسے جہنم کی طرف کھینچ لے جائیں گیں پھر فرمایا کہ قسم ہے مجھ کو اس ہستی کی جس نے مجھے پیغمبر قرار دیا کہ جو شخص بھی آج کے دن واجب نماز میں کوتاہی کرتے ہوئے اسے ضائع کرے تو وہ بھی شجر زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے پاس کوئی فقیر و ناتواں آئے کہ جس کی حالت کو یہ جانتا ہے اور اس کی حالت کو بدل بھی سکتا ہے۔ کہ خود اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا۔ نیز اس غریب کی مدد کرنے والا کوئی دوسرا شخص بھی نہ ہو پس اگر وہ اس درماندہ کو اس حالت میںچھوڑدے اور وہ ہلاک ہوجائے تو یہ مدد نہ کرنے والازقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جس کے سامنے کوئی برے کام والا آدمی معذرت کرے اور پھر بھی وہ اس کو اس کی برائی کی سزا سے کچھ زیادہ سزا دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص آج کے دن میاں بیوی یا باپ بیٹے یا بھائی بھائی یا بھائی بہن یا کسی قریبی رشتہ داریا ہمسائے یا دو دوستوں میں جدائی اور غلط فہمی پیدا کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔

جو شخص کسی تنگ دست پر سختی کرے کہ جس کی حالت کو جانتاہے اور اس کی مصیبت میںاپنے غصے کا اضافہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔ جس پر کسی کا قرض ہو اور یہ اس کا انکار کردے اور اپنی عیاری سے اس قرض کو باطل قرار دے تو یہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔جو شخص کسی یتیم کو اذیت دے۔ اس پر ستم توڑے اور اس کے مال و متاع کو ضائع کردے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا اور جو شخص کسی مومن کی عزت کو خراب کرے اور دوسروں کو ایسا کرنے کے لیے شہ دے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص اس طرح گانا گائے کہ لوگ اس کے گانوں سے گناہوں میں مبتلا ہوں تو وہ زقوم کی شاخوںسے لپٹا اور جوشخص زمانہ جنگ میں کیے ہوئے اپنے برے کاموں اور اپنے ظلم و ستم کے دوسرے واقعات لوگوں میں بیٹھ کر فخرسے سنائے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹا۔

جو شخص اپنے بیمار ہمسائے کو کم تر تصور کرتے ہوئے اس کی عیادت نہ کرے تو وہ زقوم کی شاخوںسے لپٹ گیا۔ اور جو شخص اپنے مردہ ہمسائے کو ذلیل سمجھتے ہوئے اس کے جنازے کے ساتھ نہ جائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹا۔ جو شخص کسی ستم رسیدہ سے بے رخی برتے اوراسے پست خیال کرتے ہوئے اس پر سختی کرے تو وہ زقوم کی شاخوں سے لپٹا اور جو شخص اپنے ماںباپ یا دونوں میں سے کسی ایک کا نافرمان ہوجائے تو وہ بھی اس درخت کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ جو شخص آج کے دن سے قبل اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو اور آج کے دن ان کو راضی و خوش نہ کرے تو وہ بھی زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔ نیز جو بھی شخص ان برائیوں کے علاوہ کسی اور بدی و گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ بھی درخت زقوم کی شاخوں سے لپٹ گیا۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مزید فرمایا: قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھ کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و پیغمبر بنایا کہ جو لوگ درخت طوبیٰ کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہونگے وہ انہیں اٹھاکر جنت میں لے جائینگے۔ اس کے بعد رسول ﷲ نے چند لمحوں کیلئے اپنی نگاہ آسمان کیطرف بلند کی تو آپ خوش ہوئے اور ہنسے پھر اپنی نگاہ زمین پر ڈالی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چہرہ مبارک کچھ ترش ہؤا۔ تب اپنے اصحاب کی سمت دیکھتے ہوئے فرمایا مجھ کو قسم ہے ا س ہستی کی جس نے مجھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرار دیا کہ میں نے شجر طوبیٰ کو بلند ہوتے اور اپنے سے لپٹے ہوئے لوگوں کو جنت کیطرف لے جاتے دیکھا ہے۔ بقدر اپنی اطاعت و نیکوکاری کے کہ اسکی ایک شاخ یا کئی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ زید بن حارثہ اسکی کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ انکو جنت کے مقام اعلیٰ علیین کیطرف بلند کرتی جارہی ہیں یہ دیکھ کر میں خوش ہؤا اور ہنسا۔پھر میں نے زمین پر نظر ڈالی تو قسم ہے اس ہستی کی جس نے مجھ کونبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنایا۔ کہ میں نے درخت زقوم کو دیکھا کہ اس کی شاخیں نیچے کو جارہی ہیں اور جو لوگ اپنی برائیوں کے مطابق اس کی ایک یا کئی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے طبقے کی طرف لے جارہی ہیں۔ اس سے میرے چہرے پر بیزاری کے آثار ظاہر ہوئے تھے۔اور اس کے ساتھ کئی منافق لپٹے ہوئے تھے۔

تیسری شعبان کا دن

یہ بڑا با برکت دن ہے شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ اس روز امام حسین- کی ولادت ہوئی نیز امام عسکری -کے وکیل قاسم بن علا ہمدانی کیطرف سے فرمان جاری ہؤا کہ بروز جمعرات ۳ / شعبان کو امام حسین -کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ پس اس دن کا روزہ رکھو اور اس روز یہ دعا پڑھو:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ بِحَقِّ الْمَوْلُودِ فِی هذَا الْیَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ

اے معبود! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں آج کے دن پیدا ہونیوالے مولود کے واسطے سے کہ جس کے پیدا ہونے اور دنیا میں

وَوِلادَتِهِ، بَکَتْهُ السَّمائُ وَمَنْ فِیها، وَالْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْها، وَلَمَّا یَطَأْ لابَتَیْها

آنے سے پہلے اس سے شہادت کا وعدہ لیا گیا تو اس پر آسمان رویا اور جو کچھ اس میں ہے اور زمین اور جو کچھ اس پر ہے روے جبکہ

قَتِیلِ الْعَبْرَةِ، وَسَیِّدِ الْاُسْرَةِ، الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ یَوْمَ الْکَرَّةِ، الْمُعَوَّض ِ مِنْ

اس نے زمین مدینہ پر قدم نہ رکھا تھا وہ گریہ والا شہید اور کامیاب و کامران خاندان کا سید و سردار ہے رجعت کے دن، یہ اس کی

قَتْلِهِ أَنَّ آلاَءِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ، وَالشِّفائَ فِی تُرْبَتِهِ، وَالْفَوْزَ مَعَهُ فِی أَوْبَتِهِ،

شہادت کا بدلہ ہے کہ پاک آئمہعليه‌السلام اس کی اولاد میں سے ہوئے اس کی خاکِ قبر میں شفائ ہے اور اس کی بازگشت میں کامیابی اسی کے

وَالْاَوْصِیائَ مِنْ عِتْرَتِهِ بَعْدَ قائِمِهِمْ وَغَیْبَتِهِ، حَتّی یُدْرِکُوا الْاَوْتارَ، وَیَثْأَرُوا الثَّارَ،

لیے ہے اور اوصیائ اسی کی اولاد میں سے ہیں کہ ان میں سے قائم غیبت ختم ہونے کے بعد وہ اپنے خون کا بدلہ اور انتقام لے کر تلافی

وَیُرْضُوا الْجَبَّارَ وَیَکُونُوا خَیْرَ أَنْصارٍ صَلَّی ﷲ عَلَیْهِمْ مَعَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّهار

کرنے والے خدا کو راضی کریںگے اور بہترین مددگار ثابت ہوںگے درود ہوان سب پر جب تک رات دن آتے جاتے رہیں

اَللّٰهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ إلَیْکَ أَ تَوَسَّلُ وَأَسْأَلُ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُعْتَرِفٍ مُسِیئٍ إلی نَفْسِهِ

اے معبود ان کا حق جو تجھ پر ہے اسے وسیلہ بناتا ہوں اور سوال کرتا ہوں اپنا گناہ تسلیم کرنے والے کیطرح کہ جس نے اپنے نفس

مِمَّا فَرَّطَ فِی یَوْمِهِ وَأَمْسِهِ، یَسْأَ لُکَ الْعِصْمَةَ إلی مَحَلِّ رَمْسِهِ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلی

سے برائی کی ہے آج کے دن اور گزری ہوئی رات میں تو وہ سوال کرتا ہے اپنی موت کے دن تک کیلئے اے معبود! پس حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور

مُحَمَّدٍ وَعِتْرَتِهِ، وَاحْشُرْنا فِی زُمْرَتِهِ ، وَبَوّئْنا مَعَهُ دارَ الْکَرامَةِ، وَمَحَلَّ الْاِقامَةِ

انکے خاندان پر رحمت فرما اور ہمیں اسکے گروہ میں محشور فرما اور ہمیں بزرگی والے گھر اور جائے قیام کے سلسلے میں انکے ساتھ جگہ دے

اَللّٰهُمَّ وَکَما أَکْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ فَأَکْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَهُ وَسابِقَتَهُ،

اے معبود! جیسے تو نے ان کی معرفت کے ساتھ ہمیں عزت دی اسی طرح ان کے تقرب سے بھی نوازا اور ہمیں ان کی رہنمائی عطا کر

وَاجْعَلْنا مِمَّنْ یُسَلِّمُ لاََِمْرِهِ، وَیُکْثِرُ الصَّلاةَ عَلَیْهِ عِنْدَ ذِکْرِهِ، وَعَلی جَمِیعِ

اور انکی ہمراہی نصیب فرما ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان کاحکم مانتے اور ان کے ذکر کے وقت ان پر بکثرت درود بھیجتے ہیں نیز

أَوْصِیائِهِ وَأَهْلِ أَصْفِیائِهِ، الْمَمْدُودِینَ مِنْکَ بِالْعَدَدِ الاثْنَی عَشَرَ، النُّجُومِ الزُّهَرِ،

ان کے سارے جانشینوں پر اور برگزیدہ اہل خاندان پر جن کی تعداد کو تو نے بارہ تک پورا فرمایا ہے جو چمکتے ہوئے ستارے ہیں

وَالْحُجَجِ عَلی جَمِیعِ الْبَشَرِ اَللّٰهُمَّ وَهَبْ لَنا فِی هذَا الْیَوْمِ خَیْرَ مَوْهِبَةٍ، وَأَ نْجِحْ

اور وہ تمام انسانوں پرخدا کی حجتیں ہیںاے معبود! آج کے دن ہمیں بہتریں عطاؤں سے سرفراز فرما اور ہماری سبھی حاجات

لَنا فِیهِ کُلَّ طَلِبَةٍ، کَما وَهَبْتَ الْحُسَیْنَ لُِمحَمَّدٍ جَدِّهِ، وَعاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ، فَنَحْنُ

پوری کر دے جیسے تو نے حسینعليه‌السلام کے نانا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خود حسینعليه‌السلام عطا فرمائے تھے اور فطرس نے انکے گہوارے کی پناہ لی پس ہم انکے روضہ

عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ وَنَنْتَظِرُ أَوْبَتَهُ، آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ

کی پناہ لیتے ہیں انکے بعد اب ہم انکے روضہ کی زیارت کرتے ہیں اور انکی رجعت کے منتظر ہیں ایسا ہی ہو اے جہانوں کے پالنے والے۔

اس کے بعد امام حسین - کی دعا پڑھے کہ جو آپ نے یوم عاشورہ کوپڑھی جب کہ آپ دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اور وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ أَ نْتَ مُتَعالی الْمَکانِ، عَظِیمُ الْجَبَرُوتِ، شَدِیدُ الْمِحالِ، غَنِیٌّ عَنِ الْخَلائِقِ،

اے معبود! تو بلند تر منزلت رکھتا ہے تو بڑے ہی غلبے والا ہے زبردست طاقت والا، مخلوقات سے بے نیاز،

عَرِیضُ الْکِبْرِیائِ قادِرٌ عَلی مَا تَشائُ قَرِیبُ الرَّحْمَةِ ، صَادِقُ الْوَعْدِ، سَابِغُ النِّعْمَةِ،

بے حد و حساب بڑائی والاہے جو چاہے اس پر قادر، رحمت کرنے میں قریب، وعدے میں سچا، کامل نعمتوں والا،

حَسَنُ الْبَلائِ، قَرِیبٌ إذا دُعِیتَ، مُحِیطٌ بِما خَلَقْتَ، قابِلُ التَّوْبَةِ لِمَنْ تابَ إلَیْکَ،

بہترین آزمائش کرنے والاہے تو قریب ہے جب پکارا جائے جسکو پیدا کیا تو اسے گھیرے ہوئے ہے تو اسکی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے

قادِرٌ عَلی مَا أَرَدْتَ ، وَمُدْرِکٌ مَا طَلَبْتَ، وَشَکُورٌ إذا شُکِرْتَ، وَذَ کُورٌ إذا ذُکِرْتَ،

تو جو ارادہ کرے اس پر قادر ہے جسے تو طلب کرے اسے پالینے والا ہے اور جب تیرا شکر کیا جائے تو قدر کرتا ہے تجھے یاد کیا جائے

أَدْعُوکَ مُحْتاجاً، وَأَرْغَبُ إلَیْکَ فَقِیراً، وَأَ فْزَعُ إلَیْکَ خائِفاً، وَأَبْکِی إلَیْکَ

تو بھی یاد کرتا ہے میں حاجتمندی میں تجھے پکارتا اور مفلسی میں تیری رغبت کرتا ہوں تیرے خوف سے گھبراتا ہوں مصیبت میں تیرے

مَکْرُوباً، وَأَسْتَعِینُ بِکَ ضَعِیفاً، وَأَ تَوَکَّلُ عَلَیْکَ کافِیاً، احْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَ قَوْمِنا

آگے روتا ہوں کمزوری کے باعث تجھ سے مدد مانگتا ہوں تجھے کافی جان کر توکل کرتا ہوں فیصلہ کردے ہمارے اور ہماری قوم کے

بِالْحَقِّ، فَ إنَّهُمْ غَرُّونا وَخَدَعُونا وَخَذَلُونا وَغَدَرُوا بِنا وَقَتَلُونا، وَنَحْنُ عِتْرَةُ نَبِیِّکَ

درمیان کہ انہوں نے ہمیں فریب دیا اور ہم سے دھوکہ کیا ہمیں چھوڑدیا اور بے وفائی کی اور ہمیں قتل کیا جبکہ ہم تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گھرانہ اور

وَوَلَدُ حَبِیبِکَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِﷲ الَّذِی اصْطَفَیْتَهُ بِالرِّسالَةِ وَائْتَمَنْتَهُ عَلی وَحْیِکَ،

تیرے حبیب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبداللہ کی اولاد ہیں جن کو تو نے تبلیغ رسالت کے لیے چنا اور انہیں اپنی وحی کا امین بنایا

فَاجْعَلْ لَنا مِنْ أَمْرِنا فَرَجاً وَمَخْرَجاً بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

پس اس معاملے میں ہمیں کشادگی اور فراخی دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم والے۔

ابن عیاش سے روایت ہے کہ میں نے حسین بن علی بن سفیان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام جعفر صادق -تین شعبان کو مذکورہ دعا پڑھتے اور فرماتے تھے کہ یہ امام حسین کی پاک ولادت کا دن ہے۔

تیرھویں شعبان کی رات

یہ شب ہائے بیض(روشن راتوں) میں سے پہلی رات ہے، اس رات اور اس کے بعد کی دونوں راتوں میں پڑھی جانے والی نمازوں کی ترکیب ماہ رجب کے اعمال میں ذکر ہوئی ہے۔ پس ا سکے مطابق یہ نمازیں ادا کی جائیں۔

فضیلت و اعمال نیمہ شعبان

پندرھویں شعبان کی رات

یہ بڑی بابرکت رات ہے، امام جعفر صادق -فرماتے ہیں کہ امام محمد باقر -سے نیمہ شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یہ رات شب قدر کے علاوہ تمام راتوں سے افضل ہے۔ پس اس رات تقرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ اس رات خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل و کرم فرماتا ہے اور ان کے گناہ معاف کرتا ہے حق تعالیٰ نے اپنی ذاتِ مقدس کی قسم کھائی ہے کہ اس رات وہ کسی سائل کو خالی نہ لوٹائے گا سوائے اس کے جو معصیت و نافرمانی سے متعلق سوال کرے۔ خدا نے یہ رات ہمارے لیے خاص کی ہے۔ جیسے شب قدر کو رسول اکرم کے لیے مخصوص فرمایا۔ پس اس شب میں زیادہ سے زیادہ حمد و ثنائ الٰہی کرنا اس سے دعا و مناجات میں مصروف رہنا چاہیئے۔

اس رات کی عظیم بشارت سلطان عصر حضرت امام مہدی (عج)کی ولادت باسعادت ہے جو ۵۵۲ ھ میں بوقت صبح صادق سامرہ میں ہوئی جس سے اس رات کو فضیلت نصیب ہوئی۔

اس رات کے چند ایک اعمال ہیں :

( ۱ )غسل کرنا کہ جس سے گناہ کم ہوجاتے ہیں۔

( ۲ )نماز اور دعا و استغفار کے لیے شب بیداری کرے کہ امام زین العابدین -کا فرمان ہے، کہ جو شخص اس رات بیدار رہے تو اس کے دل کو اس دن موت نہیں آئے گی۔ جس دن لوگوں کے قلوب مردہ ہوجائیں گے۔

( ۳ )اس رات کا سب سے بہترین عمل امام حسین -کی زیارت ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیںجو شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروںکی ارواح اس سے مصافحہ کریں تو وہ کبھی اس رات یہ زیارت ترک نہ کرے۔ حضرتعليه‌السلام کی چھوٹی سے چھوٹی زیارت بھی ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر جائے اپنے دائیں بائیں نظر کرے۔ پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرکے یہ کلمات کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَةُ ﷲ وَ بَرَکَاتُهُ

سلام ہو آپ پر اے ابوعبداعليه‌السلام للہ سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں

کوئی شخص جہاں بھی اور جب بھی امام حسین -کی یہ مختصر زیارت پڑھے تو امید ہے کہ اس کو حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔نیز اس رات کی مخصوص زیارت انشائ اللہ باب زیارات میںآئیگی۔

( ۴ )شیخ و سید نے اس رات یہ دعا پڑھنے کا ذکر فرمایا ہے، جو امام زمانہ کی زیارت کے مثل ہے اور وہ یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ بِحَقِّ لَیْلَتِنا هذِهِ وَمَوْلُودِها وَحُجَّتِکَ وَمَوْعُودِهَا الَّتِی قَرَنْتَ إلی فَضْلِها فَضْلاً

اے معبود! واسطہ ہماری اس رات کا اور اس کے مولود کا اور تیری حجتعليه‌السلام اور اس کے موعودعليه‌السلام کا جس کو تو نے فضیلت پر فضیلت عطا کی

فَتَمَّتْ کَلِمَتُکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِماتِکَ وَلاَ مُعَقِّبَ لآَِیاتِکَ نُورُکَ الْمُتَأَلِّقُ

اور تیرا کلمہ صدق و عدل کے لحاظ سے پورا ہوگیا تیرے کلموںکو بدلنے والا کوئی نہیں اورنہ کوئی تیری آیتوں کا مقابلہ کرنیوالا ہے وہ

وَضِیاؤُکَ الْمُشْرِقُ، وَالْعَلَمُ النُّورُ فِی طَخْیائِ الدَّیْجُورِ، الْغائِبُ الْمَسْتُورُ جَلَّ

(مہدی موعودعليه‌السلام ) تیرا نور تاباں اور جھلملاتی روشنی ہے وہ نور کا ستون، شان والی سیاہ رات کی تاریکی میں پنہاںو پوشیدہ ہے اس کی

مَوْلِدُهُ، وَکَرُمَ مَحْتِدُهُ، وَالْمَلائِکَةُ شُهَّدُهُ، وَﷲ ناصِرُهُ وَمُؤَیِّدُهُ، إذا آنَ مِیعادُهُ

ولادت بلند مرتبہ ہے اس کی اصل، فرشتے ا س کے گواہ ہیں اور اللہ ا سکا مدد گار و حامی ہے جب اس کے وعدے کا وقت آئے گا

وَالْمَلائِکَةُ أَمْدادُهُ، سَیْفُ ﷲ الَّذِی لاَ یَنْبُو، وَنُورُهُ الَّذِی لاَ یَخْبُو، وَذُو الْحِلْمِ

اور فرشتے اس کے معاون ہیں وہ خدا کی تلوار ہے جو کند نہیں ہوتی اور اس کا ایسا نور ہے جو ماند نہیں پڑتا وہ ایسا بردبار ہے

الَّذِی لاَ یَصْبُو، مَدارُ الدَّهْرِ، وَنَوامِیسُ الْعَصْرِ، وَوُلاةُ الْاَمْرِ، وَالْمُنَزَّلُ عَلَیْهِمْ

جو حد سے نہیں نکلتا وہ ہر زمانے کا سہارا ہے یہ معصومینعليه‌السلام ہر عہد کی عزت اور والیان امر ہیں جو کچھ شبِ قدر میں نازل کیا جاتا ہے

مَا یَتَنَزَّلُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ، وَأَصْحابُ الْحَشْرِ وَالنَّشْرِ، تَراجِمَةُ وَحْیِهِ، وَوُلاةُ أَمْرِهِ

انہی پر نازل ہوتا ہے وہی حشر و نشر میں ساتھ دینے والے اس کی وحی کے ترجمان اور اس کے امر و نہی

وَنَهْیِهِ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلَی خاتِمِهِمْ وَقائِمِهِمُ الْمَسْتُورِ عَنْ عَوالِمِهِمْ اَللّٰهُمَّ وَأَدْرِکْ

کے نگران ہیں اے معبود! پس ان کے خاتم اور ان کے قائم پر رحمت فرما جو اس کائنات سے پوشیدہ ہیں اے معبود! ہمیں اس کا زمانہ

بِنا أَیَّامَهُ وَظُهُورَهُ وَقِیامَهُ، وَاجْعَلْنا مِنْ أَ نْصارِهِ، وَاقْرِنْ ثأْرَنا بِثَأْرِهِ، وَاکْتُبْنا

اس کا ظہور اور قیام دیکھنا نصیب فرما اور ہمیں اس کے مددگاروں میں قرار دے ہمارا اور اس کا انتقام ایک کردے اور ہمیں اس کے

فِی أَعْوانِهِ وَخُلَصائِهِ، وَأَحْیِنا فِی دَوْلَتِهِ ناعِمِینَ، وَبِصُحْبَتِهِ غانِمِینَ ، وَبِحَقِّهِ

مددگاروں اور مخلصوں میں لکھ دے ہمیں اسکی حکومت میں زندگی کی نعمت عطا کر اور اسکی صحبت سے بہرہ یاب فرما اسکے حق میں قیام کرنے

قائِمِینَ، وَمِنَ السُّوئِ سالِمِینَ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِِ رَبِّ الْعالَمِینَ،

والے اور برائی سے محفوظ رہنے کی توفیق دے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے اور حمد اللہ ہی کیلئے ہے جو جہانوںکا پروردگار ہے

وَصَلَواتُهُ عَلَی سَیِّدِنا مُحَمَّدٍ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ وَعَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ الصَّادِقِینَ

اور اسکی رحمتیں ہوں ہمارے سردار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جو نبیوں اور رسولوں کے خاتم ہیں اور انکے اہل پر جو ہر حال میں سچ بولنے والے ہیں اور انکے

وَعِتْرَتِهِ النَّاطِقِینَ، وَالْعَنْ جَمِیعَ الظَّالِمِینَ، وَاحْکُمْ بَیْنَنا وَبَیْنَهُمْ یَا أَحْکَمَ الْحاکِمِینَ

اہل خاندان پر جو حق کے ترجمان ہیں اور لعنت کرتمام ظلم کرنے والوں پر اور فیصلہ کر ہمارے اور ان کے درمیان اے سب سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والے۔

( ۵ )شیخ نے اسماعیل بن فضل ہاشمی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

امام جعفر صادق -نے پندرہ شعبان کی رات کو پڑھنے کیلئے مجھے یہ دعا تعلیم فرمائی:

اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ الْخالِقُ الرَّازِقُ الْمُحْیِی الْمُمِیتُ الْبَدِیئُ

اے معبود! تو زندہ وپائندہ، بلندتر، بزرگتر خلق کرنے والا، رزق دینے والا، زندہ کرنے والا، موت دینے والا، آغاز کرنے

الْبَدِیعُ لَکَ الْجَلالُ وَلَکَ الْفَضْلُ وَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الْمَنُّ وَلَکَ الْجُودُ وَلَکَ الْکَرَمُ

اور ایجاد کرنے والا ہے تیرے لیے جلالت اور تیرے ہی لیے بزرگی ہے تیری ہی حمد ہے اور تو ہی احسان کرتا ہے اور تو ہی سخاوت والا ہے

وَلَکَ الْاَمْرُ، وَلَکَ الْمَجْدُ، وَلَکَ الشُّکْرُ، وَحْدَکَ لا شَرِیکَ لَکَ، یَا واحِدُ یَا

تو ہی صاحب کرم اور تو ہی امر کا مالک ہے تو ہی شان والا اور تو ہی لائق شکر ہے تو یکتا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے اے یکتا، اے

أَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَهُ کُفُواً أَحَدٌ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ

یگانہ، اے بے نیاز، اے وہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہوسکتا ہے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

آلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاکْفِنِی مَا أَهَمَّنِی وَاقْضِ دَیْنِی، وَوَسِّعْ عَلَیَّ فِی

پر رحمت فرما اور مجھے بخش دے مجھ پر رحمت فرما کٹھن کاموں میں میری کفایت فرما میرا قرض ادا کردے میرے رزق میں

رِزْقِی، فَ إنَّکَ فِی هذِهِ اللَّیْلَةِ کُلَّ أَمْرٍ حَکِیمٍ تَفْرُقُ، وَمَنْ تَشائُ مِنْ خَلْقِکَ تَرْزُقُ،

کشائش فرما کہ تو اسی رات میں ہر حکمت والے کام کی تدبیر کرتا ہے اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے رزق و روزی دیتا ہے،

فَارْزُقْنِی وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ، فَ إنَّکَ قُلْتَ وَأَ نْتَ خَیْرُ الْقائِلِینَ النَّاطِقِینَ

پس مجھے بھی رزق دے کیونکہ تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے یقینا یہ تیرا ہی فرمان ہے اور تو بہتر ہے سب کہنے والوں بولنے

وَاسْأَلُوا ﷲ مِنْ فَضْلِهِ فَمِنْ فَضْلِکَ أَسْأَلُ وَ إیَّاکَ قَصَدْتُ، وَابْنَ نَبِیِّکَ اعْتَمَدْتُ،

والوں میں کہ مانگو اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل میں سے پس میں تیرے فضل کا سوال کرتاہوں اور بس تیرا ہی ارادہ رکھتا ہوںتیرے

وَلَکَ رَجَوْتُ، فَارْحَمْنِی یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند کو اپنا سہارابناتا ہوں اور تجھی سے امید رکھتا ہوں پس مجھ پر رحم فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

( ۶ )یہ دعا پڑھے کہ رسول اکرم اس رات یہ دعا پڑھتے تھے۔

اَللّٰهُمَّ اقْسِمْ لَنا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنا وَبَیْنَ مَعْصِیَتِکَ، وَمِنْ

اے معبود! ہمیں اپنے خوف کا اتنا حصہ دے جو ہمارے اور ہماری طرف سے تیری نافرمانی کے درمیان رکاوٹ بن جائے اور

طاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنا بِهِ رِضْوانَکَ، وَمِنَ الْیَقِینِ مَا یَهُونُ عَلَیْنا بِهِ

فرمانبرداری سے اتنا حصہ دے کہ اس سے ہم تیری خوشنودی حاصل کرسکیں اور اتنا یقین عطا کر کہ جس کی بدولت دنیا کی تکلیفیں ہمیں

مُصِیباتُ الدُّنْیا اَللّٰهُمَّ أَمْتِعْنا بِأَسْماعِنا وَأَبْصارِنا وَقُوَّتِنا مَا أَحْیَیْتَنا وَاجْعَلْهُ

سبک معلوم ہوں اے معبود! جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمیں ہمارے کانوں، آنکھوں اور قوت سے مستفید فرما اور اس قائمعليه‌السلام کو ہمارا

الْوارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثأْرَنا عَلَی مَنْ ظَلَمَنا، وَانْصُرْنا عَلَی مَنْ عادانا، وَلاَ تَجْعَلْ

وارث بنا اور ان سے بدلہ لینے والا قرار دے جنہوں نے ہم پر ظلم کیا ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما اور ہمارے دین میں

مُصِیبَتَنا فِی دِینِنا، وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیا أَکْبَرَ هَمِّنا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنا، وَلاَ تُسَلِّطْ عَلَیْنا

ہمارے لیے کوئی مصیبت نہ لا اور ہماری ہمت اور ہمارے علم کے لیے دنیا کو بڑا مقصد قرار نہ دے اور ہم پر اس شخص کو غالب نہ کر

مَنْ لاَ یَرْحَمُنا، بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

جو ہم پر رحم نہ کرے واسطہ تیری رحمت کا اے سب سے زیادہ رحم والے۔

یہ دعا جامع و کامل ہے۔ پس اسے دیگر اوقات میں بھی پڑھیں۔ جیسا کہ عوالی اللئالی میں مذکور ہے کہ رسول اللہ یہ دعا ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔

( ۷ )وہ صلوٰت پڑھے جو ہر روز بوقت زوال پڑھا جاتا ہے۔

( ۸ )اس رات دعائ کمیل پڑھنے کی بھی روایت ہوئی ہے اور یہ دعا باب اول میں ذکر ہوچکی ہے۔

( ۹ )یہ تسبیحات سو مرتبہ پڑھے تا کہ حق تعالی ٰ اس کے پچھلے گناہ معاف کردے اور دنیا وآخرت کی حاجات پوری فرما دے:

سُبْحَانَ ﷲ وَ الْحَمْدُ ﷲِ وَ ﷲ اَکْبَرُ وَ لَا اِلَهَ اِلَّا ﷲ

اللہ پاک تر ہے اور حمد اللہ ہی کی ہے اللہ بزرگتر ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں

(۱۰)مصباح میں شیخ نے ابو یحییٰ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے امام جعفر صادق -سے پوچھا کہ اس رات کیلئے بہترین دعا ئ کونسی ہے؟

حضرت نے فرمایا اس رات نمازِعشا کے بعد دو رکعت نماز پڑھے جس کی پہلی رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سور ہ الحمد اور سورہ توحید پڑھے نماز کا سلام دینے کے بعد ۳۳/ مرتبہ سبحان اللہ۔ ۳۳ / مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴/مرتبہ اللہ اکبر کہے۔ بعد میں یہ دعا پڑھے:

یَا مَنْ إلَیْهِ مَلْجَأُ الْعِبادِ فِی الْمُهِمَّاتِ وَ إلَیْهِ یَفْزَعُ الْخَلْقُ فِی الْمُلِمّاتِ یَا عالِمَ

اے وہ جو مشکل کاموں میں بندوں کی پناہ گاہ ہے اور جس کی طرف لوگ ہر مصیبت کے وقت فریادی ہوتے ہیں اے سب چھپی اور

الْجَهْرِ وَالْخَفِیّاتِ، یَا مَنْ لاَ تَخْفی عَلَیْهِ خَواطِرُ الْاَوْهامِ وَتَصَرُّفُ الْخَطَراتِ، یَا

کھلی چیزوں کے جاننے والے اے وہ جس پر لوگوں کے وہم و خیال اور دلوں میں گردش کرنے والے اندیشے بھی پوشیدہ نہیںاے

رَبَّ الْخَلائِقِ وَالْبَرِیَّاتِ، یَا مَنْ بِیَدِهِ مَلَکُوتُ الْاَرَضِینَ وَالسَّماواتِ، أَ نْتَ ﷲ لاَ

مخلوقات و موجودات کے پروردگار اے وہ ذات کہ زمینوں اور آسمانوں کی حکمرانی جس کے قبضہ قدرت میں ہے تو ہی معبود ہے

إلهَ إلاَّ أَ نْتَ، أَمُتُّ إلَیْکَ بِلا إلهَ إلاَّ أَ نْتَ، فَیا لا إلهَ إلاَّ أَ نْتَ اجْعَلْنِی فِی

تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تیری طرف متوجہ ہوں اس لیے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیںپس اے (ﷲ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں

هذِهِ اللَّیْلَةِ مِمَّنْ نَظَرْتَ إلَیْهِ فَرَحِمْتَهُ، وَسَمِعْتَ دُعائَهُ فَأَجَبْتَهُ،

اس رات میں مجھے ان لوگوں میں قرار دے جن پر تو نے نظر کرم فرمائی تو نے ان پر مہربانی کی ان کی دعا سنی تو نے اور اسے شرف

وَعَلِمْتَ اسْتِقالَتَهُ فَأَ قَلْتَهُ، وَتَجاوَزْتَ عَنْ سالِفِ خَطِیئَتِهِ وَعَظِیمِ جَرِیرَتِهِ،

قبولیت بخشا تو ان کی پشیمانی سے آگاہ ہوا تو انہیں معاف کردیا اور ان کے سب پچھلے گناہوں اور بڑے بڑے جرائم پر عفو ودرگذر

فَقَدِ اسْتَجَرْتُ بِکَ مِنْ ذُ نُوبِی، وَلَجَأْتُ إلَیْکَ فِی سَتْرِ عُیُوبِی

سے کام لیا پس میں اپنے گناہوں سے تیری پناہ کا طالب ہوں اور اپنے عیبوں کی پردہ پوشی کے لیے تجھ سے التجا کرتا ہوں

اَللّٰهُمَّ فَجُدْ عَلَیَّ بِکَرَمِکَ وَفَضلِکَ وَاحْطُطْ خَطایایَ بِحِلْمِکَ وَعَفْوِکَ وَتَغَمَّدْنِی

اے معبود! مجھ پر اپنے فضل و کرم سے عطا و بخشش فرما اور اپنی نرم خوئی اور درگزر کے ذریعے میری خطائیں بخش دے اس رات میں

فِی هذِهِ اللَّیْلَةِ بِسابِغِ کَرامَتِکَ، وَاجْعَلْنِی فِیها مِنْ أَوْلِیائِکَ الَّذِینَ اجْتَبَیْتَهُمْ

مجھ کو اپنے انتہائی کرم کے سائے تلے لے لے اور اس شب میں مجھے اپنے ان پیاروں میں قرار دے جن کو تو نے اپنی

لِطاعَتِکَ، وَاخْتَرْتَهُمْ لِعِبادَتِکَ، وَجَعَلْتَهُمْ خالِصَتَکَ وَصِفْوَتَکَ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی

فرمانبرداری کیلئے پسند کیا اپنی عبادت کے لیے چنا اور ان کو اپنے خاص الخاص اور برگزیدہ بنایا ہے اے معبود! مجھے ان لوگوں

مِمَّنْ سَعَدَ جَدُّهُ، وَتَوَفَّرَ مِنَ الْخَیْراتِ حَظُّهُ، وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ سَلِمَ فَنَعِمَ، وَفازَ

میں قرار دے جنکا نصیب اچھا اور نیک کاموں میں جن کا حصہ زیادہ ہے اور مجھے ان لوگوںمیںرکھ جو تندرست، نعمت یافتہ، کامران

فَغَنِمَ وَاکْفِنِی شَرَّ مَا أَسْلَفْتُ، وَاعْصِمْنِی مِنَ الازْدِیادِ فِی مَعْصِیَتِکَ، وَحَبِّبْ إلَیَّ

اور فائدہ پانے والے ہیں اور جو کچھ میں نے کیا اس کے شر سے بچا مجھے اپنی نافرمانی میںبڑھ جانے سے محفوظ رکھ مجھے اپنی

طاعَتَکَ وَمَا یُقَرِّبُنِی مِنْکَ وَیُزْلِفُنِی عِنْدَکَ سَیِّدِی إلَیْکَ یَلْجَأُ الْهارِبُ،

فرمانبرداری کا شوق دے اور اسکا جو مجھے تیرے قریب کرے اور مجھے تیرا پسندیدہ بنائے میرے سردار، بھاگنے والا، تیرے ہاں پناہ

وَمِنْکَ یَلْتَمِسُ الطَّالِبُ، وَعَلَی کَرَمِکَ یُعَوِّلُ الْمُسْتَقِیلُ التَّائِبُ، أَدَّ بْتَ عِبادَکَ

لیتا ہے طلبگار تیرے حضور عرض کرتا ہے اور پشیمان ہونے اور توبہ کرنے والا تیرے فضل و کرم پر بھروسہ کرتا ہے تو اپنی کریمی و مہربانی

بِالتَّکَرُّمِ وَأَ نْتَ أَکْرَمُ الْاَکْرَمِینَ، وَأَمَرْتَ بِالْعَفْوِ عِبادَکَ وَأَ نْتَ الْغَفُورُ

سے بندوں کی پرورش کرتا ہے اور تو سب سے زیادہ کرم کرنیوالا ہے تو نے اپنے بندوں کو معاف کرنے کا حکم دیا اور تو بہت بخشنے والا

الرَّحِیمُ اَللّٰهُمَّ فَلا تَحْرِمْنِی مَا رَجَوْتُ مِنْ کَرَمِکَ، وَلا تُؤْیِسْنِی مِنْ سابِغِ نِعَمِکَ،

رحم کرنے والا ہے اے معبود! پس میں نے تیرے کرم کی جو امید لگارکھی ہے اس سے محروم نہ کرمجھے اپنی کثیر نعمتوں سے ناامید نہ ہونے

وَلاَ تُخَیِّبْنِی مِنْ جَزِیلِ قِسَمِکَ فِی هذِهِ اللَّیْلَةِ لاََِهْلِ طاعَتِکَ وَاجْعَلْنِی فِی جُنَّةٍ مِنْ

دے اور آج کی رات اس بیشتر عطا سے محروم نہ کر جو تو نے اپنے فرمانبرداروںکیلئے مقرر کی ہوئی ہے اور مجھے اپنی مخلوق کی اذیتوں

شِرارِ بَرِیَّتِکَ، رَبِّ إنْ لَمْ أَکُنْ مِنْ أَهْلِ ذلِکَ فَأَ نْتَ أَهْلُ الْکَرَمِ وَالْعَفْوِ وَالْمَغْفِرَةِ،

سے امان میں قرار رکھ میرے پروردگار! اگر میں اس سلوک کے لائق نہیںپس تو مہربانی کرنے، معافی دینے اور بخش دینے کا اہل ہے

وَجُدْ عَلَیَّ بِما أَ نْتَ أَهْلُهُ لاَ بِما أَسْتَحِقُّهُ فَقَدْ حَسُنَ ظَنِّی بِکَ، وَتَحَقَّقَ رَجائِی لَکَ

اور مجھ پر ایسی بخشش فرما جو تیرے لائق ہے نہ وہ کہ جس کامیں حقدار ہوںپس میں تجھ سے اچھا گمان رکھتا ہوںمیری امید تجھی سے لگی ہوئی ہے

وَعَلِقَتْ نَفْسِی بِکَرَمِکَ فَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ وَأَکْرَمُ الْاَکْرَمِینَ

اور میرا نفس تیرے کرم سے تعلق جوڑے ہوئے ہے جبکہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور سب سے بڑھ کر مہربانی کرنیوالا ہے

اَللّٰهُمَّ وَاخْصُصْنِی مِنْ کَرَمِکَ بِجَزِیلِ قِسَمِکَ، وَأَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ،

اے معبود! مجھے اپنی مہربانی و بخشش سے زیادہ حصہ دینے میں خصوصیت عطافرما اور میںتیرے عذاب سے، تیرے عفو کی پناہ لیتا ہوں

وَاغْفِرْ لِیَ الذَّنْبَ الَّذِی یَحْبِسُ عَلَیَّ الْخُلُقَ وَیُضَیِّقُ عَلَیَّ الرِّزْقَ حَتَّی أَقُومَ

میرا وہ گناہ بخش دے کہ جس نے مجھ کو بدخلقی میں پھنسادیا اور میری روزی میں تنگی کا باعث ہے تاکہ میں تیری بہترین رضا

بِصالِحِ رِضاکَ، وَأَ نْعَمَ بِجَزِیلِ عَطائِکَ، وَأَسْعَدَ بِسابِغِ نَعْمائِکَ، فَقَدْ لُذْتُ

حاصل کرسکوں تو اپنی مہربانی سے مجھے نعمتیں عنایت فرما اور اپنی کثیر نعمتوں سے مجھے بہرہ مند کردے کیونکہ میں نے تیرے آستان پر

بِحَرَمِکَ وَتَعَرَّضْتُ لِکَرَمِکَ وَاسْتَعَذْتُ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَبِحِلْمِکَ مِنْ غَضَبِکَ

پناہ لی اور تیری بخشش کی امید لگائے ہوں اور میں تیرے عذاب سے عفو کی پناہ لیتا ہوں اور تیرے غضب سے تیری نرم خوئی کی پناہ لیتا ہوں

فَجُدْ بِما سَأَلْتُکَ، وَأَنِلْ مَا الْتَمَسْتُ مِنْکَ، أَسْأَ لُکَ بِکَ لاَبِشَیْئٍ

پس مجھے وہ دے جس کا میںنے تجھ سے سوال کیا ہے اس میںکامیاب کر جس کی تجھ سے خواہش کی ہے میں تجھ سے تیرے ہی

ھُوَ ٲَعْظَمُ مِنْکَ ۔ پھر سجدے میں جاکر بیس مرتبے کہے : یَا رَبِّ سات مرتبہ: یَا ﷲ سات مرتبہ:

ذریعے سوال کرتا ہوں کہ تجھ سے بزرگتر کوئی چیز نہیں ہے ۔ اے پروردگار اے معبود

لَاحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلَّا بِالله دس مرتبہ مَا شَائَ ﷲ اور دس مرتبہ:لَا قُوَّةَ اِلَّا بِالله کہے:

نہیںکوئی طاقت و قوت مگر وہ جو اللہ سے ہے جو کچھ خدا چاہے نہیں کوئی قوت مگر خدا کی۔

پھر رسول اللہ اور ان کی آل پر درود بھیجے اور بعد میں اپنی حاجات طلب کرے۔ قسم بخدا اگر کسی کی حاجات بارش کے قطروں جتنی ہوںتو بھی حق تعالیٰ اپنے وسیع فضل و کرم اور اس عمل کی برکت سے وہ تمام حاجات برلائے گا۔

( ۱۱ )شیخ طوسی اور کفعمی نے فرمایا ہے کہ اس رات یہ دعا پڑھے:

إلهِی تَعَرَّضَ لَکَ فِی هذَا اللَّیْلِ الْمُتَعَرِّضُونَ، وَقَصَدَکَ الْقاصِدُونَ

میرے معبود! طلب کرنیوالوں نے آج رات خود کو تیرے ہی سامنے پیش کیا ہے ارادہ کرنیوالوں نے تیری ہی بارگاہ کا ارادہ کیا ہے

وَأَمَّلَ فَضْلَکَ وَمَعْرُوفَکَ الطّالِبُونَ، وَلَکَ فِی هذَا اللَّیْلِ نَفَحاتٌ

اور حاجتمندوں نے تیری ہی فضل و احسان سے امید باندھی ہوئی ہے آج کی رات تیری مہربانیاں، تیری بخشش، تیری عطائیں

وَجَوائِزُ وَعَطایا وَمَواهِبُ تَمُنُّ بِها عَلَی مَنْ تَشائُ مِنْ عِبادِکَ، وَتَمْنَعُها مَنْ لَمْ

اور تیرے ہی انعام ہیں کہ تو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے ان سے احسان فرمائے اور جس پر تیری توجہ اور عنایت نہ ہوئی ہو

تَسْبِقْ لَهُ الْعِنایَةُ مِنْکَ وَها أَنَا ذا عُبَیْدُکَ الْفَقِیرُ إلَیْکَ الْمُؤَمِّلُ فَضْلَکَ وَمَعْرُوفَکَ

اس سے روک لے اور یہ میںہوں تیراحقیر بندہ کہ تیرا محتاج ہوں اور تیرے فضل و احسان کی امید وار ہوں

فَ إنْ کُنْتَ یَا مَوْلایَ تَفَضَّلْتَ فِی هذِهِ اللَّیْلَةِ عَلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ وَعُدْتَ عَلَیْهِ

پس اے میرے مولا! اگر آج کی رات میں تو اپنی مخلوق میںکسی پر فضل و کرم کرے اور اس کو انعام عطا فرمائے اور وہ انعام عطا

بِعائِدَةٍ مِنْ عَطْفِکَ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الطَّاهِرِینَ الْخَیِّرِینَ

فرمائے جو تیری مہربانی کے ساتھ ہو تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما جوپاکیزہ ہیں، نیکو کار ہیں

الْفاضِلِینَ وَجُدْ عَلَیَّ بِطَوْ لِکَ وَمَعْرُوفِکَ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ وَصَلَّی ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ

اور با فضیلت ہیں اور اپنے فضل اور احسان سے مجھ پر بخشش کر اے جہانوں کے پالنے والے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ﷲ کی رحمت ہوجو نبیوں

خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً إنَّ ﷲ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اَللّٰهُمَّ إنِّی

میں آخری نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور ان کی آلعليه‌السلام پر جو پاکیزہ ہیں اور سلام ہو بہت سلام بے شک اللہ خوبی والااور شان والا ہے اے معبود! میں

أَدْعُوکَ کَما أَمَرْتَ فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَ إنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیعادَ

تجھ سے دعا کرتا ہوں جیسے تو نے حکم دیا تو اپنے وعدے کے مطابق اسے قبول فرما کیونکہ تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

یہ وہ دعا ہے جو نماز شفع کے بعد بھی پڑھی جاتی ہے۔

(۱۲)اس رات نماز تہجد کی ہر دو رکعت کے بعد اور نماز شفع اور وتر کے بعد وہ دعا پڑھے کہ جو شیخ و سید نے نقل فرمائی ہے۔

(۱۳)سجدے اور دعائیں جو رسول اللہ سے مروی ہیں وہ بجا لائے اور ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو شیخ نے حماد بن عیسیٰ سے ، انہوںنے ابان بن تغلب سے اور انہوں نے کہا کہ امام جعفر صادق -نے فرمایا کہ جب پندرہ شعبان کی رات آئی تو اس رات رسول اللہ بی بی عائشہ کے ہاں تھے جب آدھی رات گزرگئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بغرض عبادت اپنے بستر سے اٹھ گئے، بی بی بیدار ہوئیں تو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا انہیں وہ غیرت آگئی جو عورتوں کا خاصا ہے۔ ان کا گمان تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں۔ پس وہ چادر اوڑھ کر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈتی ہوئی ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجروں میں گئیں۔ مگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کہیں نہ پایا۔ پھر اچانک ان کی نظر پڑی تو دیکھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین پر مثل کپڑے کے سجدے میں پڑے ہیں۔ وہ قریب ہوئیں تو سناکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدے میںیہ دعا پڑھ رہے ہیں۔

سَجَدَ لَکَ سَوادِی وَخَیالِی، وَ آمَنَ بِکَ فُؤادِی، هذِهِ یَدایَ وَمَا جَنَیْتُهُ

سجدہ کیا تیرے آگے میرے بدن اور میرے خیال نے اور ایمان لایا ہے تجھ پر میرا دل یہ ہیںمیرے دونوں ہاتھ اور جو ستم میں نے

عَلَی نَفْسِی، یَا عَظِیمُ تُرْجی لِکُلِّ عَظِیمٍ اغْفِرْ لِیَ الْعَظِیمَ فَ إنَّهُ لاَ یَغْفِرُ الذَّنْبَ

خود پر کیا ہے اے بڑائی والے جس سے امید ہے بڑے کام کی تو میرے بڑے بڑے گناہ بخش دے کیونکہ بڑے گناہوں کو سوائے

الْعَظِیمَ إلاَّ الرَّبُّ الْعَظِیمُ

بڑائی والے پروردگار کے کوئی بخش نہیں سکتا۔

پھر آنحضرت سجدے سے سر اٹھاکر دوبارہ سجدے میں گئے اوربی بی عائشہ نے سنا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پڑھ رہے تھے:

أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِکَ الَّذِی أَضائَتْ لَهُ السَّماواتُ وَالْاَرَضُونَ وَانْکَشَفَتْ لَهُ الظُّلُماتُ

پناہ لیتا ہوں میں تیرے نورِ ذات کی جس سے آسمانوں اور زمینوں نے روشنی حاصل کی اور جس سے تاریکیاں چھٹ گئیں

وَصَلَحَ عَلَیْهِ أَمْرُ الْاَوَّلِینَ وَالاَْخِرِینَ مِنْ فُجْأَةِ نَقِمَتِکَ، وَمِنْ تَحْوِیلِ عافِیَتِکَ وَمِنْ

اور اسکی بدولت اولین اورآخرین کا کام بن گیا کہ وہ تیرے ناگہانی عذاب سے امن کے چھن جانے اور تیری نعمتوں کے زائل ہو

زَوالِ نِعْمَتِکَ اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِی قَلْباً تَقِیّاً نَقِیّاً وَمِنَ الشِّرْکِ بَریئاً لاَ کافِراً وَلاَ شَقِیّاً،

جانے کی سختیوں سے بچ گئے اے معبود!مجھے پاک اور پرہیزگار دل دے کہ جو شرک سے پاک ہو اور نہ حق سے انکاری ہو نہ بے رحم ہو۔

پس آپ نے اپنے چہرے کو دونوں طرف سے خاک پر رکھا اور یہ پڑھا:

عَفَّرْتُ وَجْهِیْ فِیْ التُّرَابِ وَحُقَّ لِّیْٓ اَنْ اَسْجُدَ لَکَ

میںنے اپنے چہرے کو خاک پر رکھا ہے اور میرے لیے ضروری ہے کہ تیرے آگے سجدہ کروں

جونہی رسول اکرم اٹھے تو بی بی عائشہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان کر جھٹ سے اپنے بستر پر آلیٹیں۔ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بستر پر آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ ان بی بی کا سانس تیز تیز چل رہاہے، اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمہارا سانس کیوں اکھڑا ہوا ہے؟ آیا تمہیں نہیں معلوم کہ آج کونسی رات ہے؟ یہ پندرہ شعبان کی رات ہے۔ اس میں روزی تقسیم ہوتی ہے۔ زندگی کی میعاد مقرر ہوتی ہے، حج پر جانے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔ قبیلہ بنی کلب کی بکریوںکے بالوں سے زیادہ تعداد میں گناہگار افراد بخشے جاتے ہیں اور ملائکہ آسمان سے زمین مکہ پر نازل ہوتے ہیں۔

(۱۴)اس رات نماز جعفر طیارعليه‌السلام بجا لائے، جو شیخ نے امام علی رضا -سے روایت کی ہے۔

( ۵۱ )اس رات کی مخصوص نمازیں پڑھے جو کئی ایک ہیں، ان میں سے ایک وہ نماز ہے جو ابو یحییٰ صنعانی نے حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق +سے نیز دیگر تیس معتبر اشخاص نے بھی ان سے روایت کی ہے۔ کہ فرمایا:

پندرہ شعبان کی رات چار رکعت نماز بجا لائے کہ ہر رکعت میںسورہ الحمد کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی إلَیْکَ فَقِیرٌ، وَمِنْ عَذابِکَ خائِفٌ مُسْتَجِیرٌ اَللّٰهُمَّ لاَ تُبَدِّلِ اسْمِی

اے معبود! میں تیرا محتاج ہوں اور تیرے عذاب سے خوف کھاتا ہوں اور اس سے پناہ ڈھونڈتا ہوں اے معبود! میرا نام تبدیل نہ کر

وَلاَ تُغَیِّرْ جِسْمِی، وَلاَ تَجْهَدْ بَلائِی، وَلاَ تُشْمِتْ بِی أَعْدائِی ، أَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ

اور میرے جسم کو دگرگوں نہ فرما میری آزمائش کو سخت نہ بنا اور میرے دشمنوں کو مجھ پر خوشی نہ دے میں پناہ لیتا ہوں تیرے عفو کی،

عِقابِکَ وَأَعُوذُ بِرَحْمَتِکَ مِنْ عَذابِکَ وَأَعُوذُ بِرِضاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوذُ بِکَ

تیرے عذاب سے میں پناہ لیتا ہوں تیری رحمت کی، تیری سزا سے میں پناہ لیتا ہوں تیری رضا کی، تیری ناراضگی سے اور چاہتا ہوں

مِنْکَ، جَلَّ ثَناؤُکَ أَ نْتَ کَما أَ ثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ وَفَوْقَ مَا یَقُولُ الْقائِلُونَ

تجھ سے تیرے ہی ذریعے سے کہ تیری تعریف روشن ہے جیسا کہ تو نے خود ہی اپنی تعریف کی ہے جو تعریف کرنے والوں کے قول سے بلند تر ہے۔

یاد رہے کہ اس رات سو رکعت نماز بجا لانے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ اس کی ہر رکعت میںسورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ توحید پڑھے۔ اس کے علاوہ چھ رکعت نماز ادا کرے کہ جس میںسورہ الحمد، سورہ یٰسین، سورہ ملک اور سورہ توحید پڑھی جاتی ہے اور اس کی ترکیب ماہ رجب کے اعمال میں بیان ہوچکی ہے۔

پندرہ شعبان کا دن

پندرہ شعبان کا دن ہمارے بارہویںامام زمانہ (عج) کی ولادت باسعادت کا دن ہے لہذا آج کے دن ہماری بہت بڑی عید ہے آج جہاںبھی کوئی مؤمن ہو اور اس سے جس وقت بھی ہوسکے بارہویں امام مہدی (عج)کی زیارت پڑھے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور ضروری ہے کہ زیارت پڑھتے وقت آپ کے جلد ظہور کی دعا مانگے سامرہ کے سرداب میںآپ کی زیارت پڑھنے کی زیادہ تاکید ہے کہ یہ آپ کے ظہور کا یقینی مقام ہے اور آپ ہی ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردیںگے جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔

ماہ شعبان کے باقی اعمال

امام علی رضا -سے منقول ہے کہ جو شخص شعبان کے آخری تین دن روزہ رکھ کر ماہ رمضان کے روزوںسے متصل کردے تو حق تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ساٹھ متصل روزوںکا ثواب لکھے گا۔ ابوصلت ہروی سے روایت ہے کہ میں شعبان کے آخری جمعہ کو امام علی رضا -کی خدمت میں حاضر ہؤا تو حضرتعليه‌السلام نے مجھ سے فرمایا: اے ابوصلت شعبان کا زیادہ حصہ گزرگیا ہے اور آج اس کا آخری جمعہ ہے۔لہٰذا اس کے گزشتہ دنوں میں تجھ سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیںاس کے باقی آنے والے دنوں میںتجھے ان کی تلافی کرلینا چاہیئے اور تمہیں وہ عمل اختیار کرنا چاہیئے جو تمہارے لیے مفید ہو، تمہیں تلاوتِ قرآن اور بہت زیادہ دعا وا ستغفار کرنا چاہیئے نیز خدا کی بارگاہ میںاپنے گناہوں پر توبہ کرو تا کہ جب ماہ مبارک رمضان آئے تو اس وقت تک تم نے خود کو اپنے رب کے لیے خالص کرلیا ہو۔ اپنے ذمہ کسی کا کوئی حق نہ رہنے دو مگر یہ کہ اسے ادا کردو، اپنے دل میںکسی کے لیے بغض و کینہ نہ رکھو۔ اگر کوئی گناہ کرتے رہے ہو تو اسے ترک کردو، خدا سے ڈرو اور ظاہر و باطن میں اسی پر بھروسہ رکھو کہ جوشخص خدا پر توکل اور بھروسہ رکھتا ہے تو خدا اس کے لیے کافی ہے پس اس مہینے کے باقی دنوں میں زیادہ تر یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰهُمَّ اِنْ لَّمْ تَکُنْ غَفَرْتَ لَنَا فِیْمَا مَضٰی مِنْ شَعْبَانَ فَا غْفِرْ لَنَا فِیْمَا بَقِیَ مِنْهُ

اے معبود!اگر تو نے ہمیں شعبان کے گزشتہ دنوں میں گناہوں کی معافی نہیںدی تو بھی اسکے باقی دنوں میں ہمیں بخشش عطا کردے

کیونکہ حق تعالیٰ اس مہینے میںاحترام رمضان کے ناطے اپنے بہت زیادہ بندوں کوجہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے شیخ نے حارث بن مغیرہ نضری سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - شعبان کی آخری اور رمضان کی پہلی رات میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ إنَّ هذَا الشَّهْرَ الْمُبارَکَ الَّذِی أُ نْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ وَجُعِلَ هُدیً لِلنَّاسِ وَبَیِّناتٍ

اے معبود! بے شک یہی وہ بابرکت مہینہ ہے کہ جس میںقرآن کریم نازل کیا گیا اور اسے انسانوں کا رہنما قرار دیا گیاکہ اس میں

مِنَ الْهُدی وَالْفُرْقانِ قَدْ حَضَرَ فَسَلِّمْنا فِیهِ وَسَلِّمْهُ لَنا وَتَسَلَّمْهُ مِنّا فِی یُسْرٍ مِنْکَ

ہدایت کی دلیلیںاور حق و باطل کی تفریق ہے قرآن موجود ہے ہمیں اس کیلئے اسے ہمارے لیے سلامت رکھ اور اس کو ہم سے آسانی و

وَعافِیَةٍ، یَا مَنْ أَخَذَ الْقَلِیلَ وَشَکَرَ الْکَثِیرَ اقْبَلْ مِنِّی الْیَسِیرَ اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ

امن کے ساتھ لے اے وہ جو مؤخذہ کم اور قدردانی زیادہ کرتا ہے مجھ سے یہ تھوڑا عمل قبول فرما اے معبود! میں سوال کرتا ہوں

أَنْ تَجْعَلَ لِی إلی کُلِّ خَیْرٍ سَبِیلاً، وَمِنْ کُلِّ مَا لاَ تُحِبُّ مانِعاً یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

تجھ سے کہ میرے لیے نیکی کا ہر راستہ بنا اور جو چیزیں تجھے ناپسند ہیں ان سے باز رکھ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے

یَا مَنْ عَفا عَنِّی وَعَمَّا خَلَوْتُ بِهِ مِنَ السَّیِّئاتِ یَا مَنْ لَمْ یُؤاخِذْنِی بِارْتِکابِ الْمَعاصِی

اے وہ جس نے مجھے معاف کیا ان گناہوں پر جو میں نے تنہائی میںکیے اے وہ جس نے نافرمانیوںپر میری گرفت نہیں کی

عَفْوَکَ عَفْوَکَ عَفْوَکَ یَا کَرِیمُ إلهِی وَعَظْتَنِی فَلَمْ أَ تَّعِظْ ، وَزَجَرْتَنِی عَنْ مَحارِمِکَ

معاف کر دے معاف کردے معاف کردے اے مہربان اے معبود! تو نے مجھے نصیحت کی میںنے پرواہ نہ کی تو نے حرام کاموں

فَلَمْ أَ نْزَجِرْ، فَما عُذْرِی فَاعْفُ عَنِّی یَا کَرِیمُ، عَفْوَکَ عَفْوَکَ اَللّٰهُمَّ

سے روکا تو میں ان سے باز نہ آیا پس میرا کوئی عذر نہیں تب بھی مجھے معاف فرما ایمہربان معاف کردے معاف کردے اے معبود!

إنِّی أَسْأَ لُکَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ، عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِکَ

میں مانگتا ہوں تجھ سے موت کے وقت راحت حساب کتاب کے وقت درگزر، تیرے بندے کا گناہ بہت بڑا ہے

فَلْیَحْسُنِ التَّجاوُزُ مِنْ عِنْدِکَ ، یَا أَهْلَ التَّقْوی وَیَا أَهْلَ الْمَغْفِرَةِ، عَفْوَکَ عَفْوَکَ

پس تیری طرف سے بہترین درگزر ہونی چاہیے اے تقویٰ کے مالک اور اے بخش دینے والے معاف کردے معاف کردے

اَللّٰهُمَّ إنِّی عَبْدُکَ بْنُ عَبْدِکَ بْنُ أَمَتِکَ ضَعِیفٌ فَقِیرٌ إلی رَحْمَتِکَ وَأَ نْتَ مُنْزِلُ الْغِنی

اے معبود! میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے اور تیری کنیز کا بیٹا ہوںکمزور ہوں تیری رحمت کا محتاج ہوں اور تو اپنے بندوں پر ثروت و

وَالْبَرَکَةِ عَلَی الْعِبادِ، قاهِرٌ مُقْتَدِرٌ أَحْصَیْتَ أَعْمالَهُمْ، وَقَسَمْتَ أَرْزاقَهُمْ وَجَعَلْتَهُمْ

برکت نازل کرنے والا زبردست بااختیار ہے تو ان کے اعمال کو شمار کرتا اور ان میںروزی بانٹتا ہے تو نے انہیں

مُخْتَلِفَةً أَ لْسِنَتُهُمْ وَأَ لْوانُهُمْ خَلْقاً مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ، وَلاَ یَعْلَمُ الْعِبادُ عِلْمَکَ، وَلاَ یَقْدِرُ

مختلف زبانوں اور رنگوں والے بنایا کہ ہر مخلوق کے بعد دوسری مخلوق ہے بندے تیرے علم کو نہیں جانتے اور نہ ہی بندے تیری قدرت

الْعِبادُ قَدْرَکَ، وَکُلُّنا فَقِیرٌ إلی رَحْمَتِکَ، فَلا تَصْرِفْ عَنِّی وَجْهَکَ، وَاجْعَلْنِی مِنْ

کا اندازہ کرسکتے ہیں ہم سب تیری رحمت کے محتاج ہیں پس ہم سے اپنی توجہ ہرگز نہ ہٹا مجھے عمل آرزو قسمت اور مقدر کے اعتبار سے

صالِحِی خَلْقِکَ فِی الْعَمَلِ وَالْاَمَلِ وَالْقَضائِ وَالْقَدَرِ اَللّٰهُمَّ أَبْقِنِی خَیْرَ الْبَقائِ وَأَفْنِنِی

اپنے صالح و نیکوکار بندوں میںسے قرار دے اے معبود! مجھے زندہ رکھ بہتر زندگی میں اور موت دے تو

خَیْرَ الْفَنائِ عَلَی مُوالاةِ أَوْ لِیائِکَ، وَمُعاداةِ أَعْدائِکَ وَالرَّغْبَةِ إلَیْکَ، وَالرَّهْبَةِ مِنْکَ

بہترین موت دے جو تیرے دوستوں کی دوستی اور تیرے دشمنوں سے دشمنی میںہو نیز میری موت و حیات تیری رغبت، تجھ سے خوف

وَالْخُشُوعِ وَالْوَفائِ وَالتَّسْلِیمِ لَکَ، وَالتَّصْدِیقِ بِکِتابِکَ ، وَاتِّباعِ سُنَّةِ رَسُو لِکَ

تیرے سامنے عاجزی وفاداری تیرا حکم ماننے تیری کتاب کوسچی جاننے اور تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی پیروی میںہو

اَللّٰهُمَّ مَا کانَ فِی قَلْبِی مِنْ شَکٍّ أَوْ رِیبَةٍ أَوْ جُحُودٍ أَوْ قُنُوطٍ أَوْ فَرَحٍ أَوْ بَذَخٍ أَوْبَطَرٍ

اے معبود! میرے دل میں جو بھی شک یا گمان یا ضدیت یا نا امیدی یا سرمستی یا تکبر یا بے فکری

أَوْ خُیَلائَ أَوْ رِیائٍ أَوْ سُمْعَةٍ أَوْ شِقاقٍ أَوْ نِفاقٍ أَوْ کُفْرٍ أَوْ فُسُوقٍ أَوْ عِصْیانٍ أَوْ

یا خود خواہی یا ریاکاری یا شہرت طلبی یا سنگدلی یا دورنگی یا کفر یا بد عملی یا نا فرمانی یا

عَظَمَةٍ أَوْ شَیْئٍ لاَ تُحِبُّ، فَأَسْأَ لُکَ یَا رَبِّ أَنْ تُبَدِّلَنِی مَکانَهُ إیماناً بِوَعْدِکَ

گھمنڈ یا تیری کوئی نا پسندیدہ بات ہے تو تجھ سے سوال کرتا ہوںاے پروردگار کہ ان برائیوں کومٹاکر ان کی جگہ میرے دل میں اپنے

وَوَفائً بِعَهْدِکَ، وَرِضاً بِقَضائِکَ، وَزُهْداً فِی الدُّنْیا، وَرَغْبَةً فِیما عِنْدَکَ، وَ أَثَرَةً

وعدے پر یقین اپنے عہد سے وفا اپنے فیصلے پر رضامندی دنیا سے بے رغبتی اور جو کچھ تیرے ہاںہے اس میں رغبت اپنے در پر

وَطُمَأْنِینَةً وَتَوْبَةً نَصُوحاً، أَسْأَ لُکَ ذلِکَ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ إلهِی أَ نْتَ مِنْ حِلْمِکَ

حاضری دلجمعی اور سچی توبہ کی توفیق دے میں تجھ سے یہی چاہتا ہوںاے جہانوں کے پالنے والے میرے معبود! تیری نرم خوئی کی

تُعْصی فَکَأَنَّکَ لَمْ تُرَ، وَمِنْ کَرَمِکَ وَجُودِکَ تُطاعُ فَکَأَ نَّکَ لَمْ تُعْصَ

وجہ سے تیری نافرمانی کی جاتی ہے اور تیری عطا و بخشش سے تیری اطاعت کی جاتی ہے گویا تیری نافرمانی نہیںہوتی میرے جیسا

وَأَ نَا وَمَنْ لَمْ یَعْصِکَ سُکَّانُ أَرْضِکَ فَکُنْ عَلَیْنا بِالْفَضْلِ جَواداً

نافرمان اور جو تیری نافرمانی نہیںکرتے تیری ہی زمین پر رہتے ہیں پس ہمارے لیے اپنے فضل سے بہت عطا کرنے والا اور

وَبِالْخَیْرِ عَوَّاداً، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ وَصَلَّی ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ صَلاةً دائِمَةً لاَ

بھلائی پر بھلائی کرنیوالا ہوجا اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے خدا کی حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوران کی آلعليه‌السلام پر رحمت ہو ہمیشہ ہمیشہ کی رحمت

تُحْصی وَلاَ تُعَدُّ وَلاَ یَقْدِرُ قَدْرَها غَیْرُکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

جسے نہ جمع کیا جاسکے نہ شمار کیا جاسکے اور تیرے سوا کوئی اسکا اندازہ نہیں کر سکتا اے سب سے بڑھ کر رحم کرنیوالے۔