مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)2%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214397 / ڈاؤنلوڈ: 13167
سائز سائز سائز

فضائل سورئہ واقعہ

روایت ہوئی ہے کہ عبداللہ ابن مسعودجس بیماری میں فوت ہوئے تھے اسی بیماری میںعثمان بن عفان انکی عیادت کیلئے آئے تھے انہوں نے ابن مسعود سے پوچھاتھا کہ آپ کو کس سے شکایت ہے؟جواب دیا اپنے گناہوں سے پوچھا کس چیز کی خواہش ہے ۔کہا پالنے والے کی رحمت کی۔پھر کہا کیا آپ کیلئے طبیب بلائوں ؟ کہنے لگے طبیب ہی نے بیمار کیا ہے مزید کہا کہ آپ کو مال دئیے جا نے کا حکم صادر کروں؟ کہا کہ جب میں محتاج تھا تو نہیں دیا اور اب مجھے اسکی حاجت نہیں تو دیتے ہو کہا جو آپ کو میں دے رہا ہوں وہ آپ کی لڑکیوں کیلئے ہوگا ابن مسعو دکہنے لگے کہ انہیں اس مال کی حاجت نہیں ہے کیونکہ میں نے انہیں سورہ واقعہ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ جو شخص ہر شب سو رئہ واقعہ کی تلاوت کرے تو اسکو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو گی۔ امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ جو شخص ہر رات سو نے سے پہلے سور ہ واقعہ پڑھے تو وہ خدا وند عالم کے حضور اس طرح آئیگا کہ اسکا چہرہ تابناک ہو گا نیز امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقو ل ہے کہ جو شخص بہشت اور اس کی نعمتوں کااشتیاق رکھتا ہو وہ ہررات سورئہ واقعہ پڑھے :

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہو) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

إذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ﴿۱﴾ لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا کَاذِبَةٌ ﴿۲﴾ خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ ﴿۳﴾ إذَا رُجَّتِ

جب قیامت واقع ہو جا ئے گی۔اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔وہ کسی کو پست کسی کو بلندکرے گی۔جب زمین بڑے

الْاَرْضُ رَجّاً ﴿۴﴾ وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسّاً ﴿۵﴾ فَکَانَتْ هَبَائً مُنْبَثّاً ﴿۶﴾ وَکُنْتُمْ أَزْوَاجاً

زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ چکنا چور ہو جائیں گے پھر ذرے بن کر اڑنے لگیں گے اور تم لوگ تین

ثَلاَثَةً ﴿۷﴾ فَأَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ ﴿۸﴾ وَأَصْحَابُ الْمَشْأِمَةِ مَا

قسم کے ہوگے پس داہنے ہاتھ (میں اعمال نامہ لینے ) والے۔کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے اور بائیں طرف والے۔کیا ہی

أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿۹﴾ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ﴿۱۰﴾ أُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُونَ ﴿۱۱﴾

بدبخت ہیں بائیں طرف والے اور آگے رہنے والے توآگے ہی رہنے والے ہیں وہی خدا کے نزدیک ہیں

فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ﴿۱۲﴾ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِینَ ﴿۱۳﴾ وَقَلِیلٌ مِنَ الاَْخِرِینَ ﴿۱۴﴾عَلَی سُرُرٍ

وہ راحت بخش باغوں میں ہیں۔پہلے لوگوں میں سے بڑا گروہ اور پچھلے لوگوں میں سے تھوڑے سے لوگ

مَوْضُونَةٍ﴿۱۵﴾مُتَّکِئِینَ عَلَیْهَا مُتَقَابِلِینَ﴿۱۶﴾یَطُوفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ ﴿۱۷﴾

جوڑواں تختوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے سدا جوان لڑکے ان کے آگے پیچھے پھرتے ہوں گے

بِأَکْوابٍ وَأَبَارِیقَ وَکَأْسٍ مِنْ مَعِینٍ ﴿۱۸﴾ لاَ یُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلاَ یُنْزِفُونَ ﴿۱۹﴾

جن کے پاس ساغر صراحیاں اور شفاف شراب کے جام ہوں گے جس سے نہ ان کو سردرد ہو گا۔اور نہ وہ مدہوش ہوں گے

وَفَاکِهَةٍ مِمَّا یَتَخَیَّرُونَ﴿۲۰﴾وَلَحْمِ طَیْرٍ مِمَّا یَشْتَهُونَ﴿۲۱﴾وَحُورٌ عِینٌ ﴿۲۲﴾

اور انکے دل پسند مزے دار پھل، اور انکے پسندیدہ پرندوں کا گوشت ، اور بڑی آنکھوں والی حور، چھپا کر رکھے ہوئے موتی

کَأَمْثَالِ اللُّؤْلُوََ الْمَکْنُونِ ﴿۲۳﴾ جَزَائً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴿۲۴﴾ لاَ یَسْمَعُونَ فِیهَا لَغْواً

طرح کی (حوریں)ہونگیں یہ ان نیک اعمال کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے وہاں وہ کوئی بے ہودہ اور

وَلاَ تَأْثِیماً ﴿۲۵﴾ إلاَّ قِیلاً سَلاَماً سَلاَماً ﴿۲۶﴾ وَأَصْحَابُ الْیَمِینِ مَا أَصْحَابُ الْیَمِینِ ﴿۲۷﴾

گناہ کی بات نہ سنیں گے البتہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں ہونگیں اور داہنے ہاتھ والے۔کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے

فِی سِدْرٍ مَخْضُودٍ ﴿۲۸﴾ وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ ﴿۲۹﴾ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ ﴿۳۰﴾ وَمَائٍ

وہ بے کانٹے کی بیریوں اور بھرے پرے کیلوں اور لمبی چھائوں اور چھلکتے ہوئے

مَسْکُوبٍ ﴿۳۱﴾ وَفَاکِهَةٍ کَثِیرَةٍ ﴿۳۲﴾لاَ مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ ﴿۳۳﴾ وَفُرُشٍ

پانی اور بہت سے پھلوں میں ہونگے جو نہ ختم ہوں گے نہ کوئی روک ٹوک ہوگی وہ اونچے بستروں

مَرْفُوعَةٍ﴿۳۴﴾ إنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إنْشَائً﴿۳۵﴾فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْکَاراً﴿۳۶﴾عُرُباً أَتْرَاباً ﴿۳۷﴾

پر ہوںگے یقینا ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا اور ان کو باکرہ رکھا۔ دائیں طرف والوں کے لئے ہم ِسن اور محبت کرنے

لاََِصْحَابِ الْیَمِینِ﴿۳۸﴾ ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِینَ ﴿۳۹﴾ وَثُلَّةٌ مِنَ الاَْخِرِینَ ﴿۴۰﴾

والی بیویاں ہیں ۔ان میں سے بڑا گروہ پہلے لوگوں میں سے اور بڑا ہی گروہ پچھلے لوگوں سے ہوگا

وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ ﴿۴۱﴾ فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ ﴿۴۲﴾ وَظِلٍّ مِنْ

اور بائیں طرف والے۔ کیا ہی برے ہیں بائیں طرف والے جلانے والی آگ اور کھولتے ہوئے پانی میں ہونگے اور سیاہ دھوئیں

یَحْمُومٍ ﴿۴۳﴾ لاَ بَارِدٍ وَلاَ کَرِیمٍ ﴿۴۴﴾ إنَّهُمْ کَانُوا قَبْلَ ذلِکَ مُتْرَفِینَ ﴿۴۵﴾

کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہوگااور نہ مفید۔بے شک وہ اس سے پہلے بڑے خوش حال تھے

وَکَانُوا یُصِرُّونَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیمِ ﴿۴۶﴾ وَکَانُوا یَقُولُونَ أَ إذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً

اور وہ بڑے گناہ (شرک) پر اصرار کرتے تھے اور کہتے تھے جب ہم مر ِمٹ کے خاک اور ہڈیاں

وَعِظَاماً أَ إنَّا لَمَبْعُوثُونَ﴿۴۷﴾أَوَ آبَاؤُنَا الْاَوَّلُونَ﴿۴۸﴾قُلْ إنَّ الْاَوَّلِینَ وَالاَْخِرِینَ ﴿۴۹﴾

ہو جائیں گے تو کیا ہم اور ہمارے باپ دادا دوبارہ اٹھائے جائیں گے کہدو کہ اگلے پچھلے سب کے سب

لَمَجْمُوعُونَ إلَی مِیقَاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ ﴿۵۰﴾ ثُمَّ إنَّکُمْ أَ یُّهَا الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ ﴿۵۱﴾

ایک مقررہ دن پر ضرور ہی جمع کیے جائیں گے پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو تم

لاََکِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ ﴿۵۲﴾ فَمَالِئِونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ﴿۵۳﴾ فَشَارِبُونَ عَلَیْهِ مِنَ

ضرور تھوہر کے درخت سے کھائوگے پس اس سے اپنے پیٹ بھروگے اس کے ساتھ کھولتا ہوا پانی

الْحَمِیمِ ﴿۵۴﴾ فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِیمِ ﴿۵۵﴾ هذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّینِ ﴿۵۶﴾ نَحْنُ

پیوگے جسے تم سخت پیاسے اونٹ کی طرح پیو گے یہی قیامت کے دن ان کی تواضع ہے ہم نے

خَلَقْنَاکُمْ فَلَوْلاَ تُصَدِّقُونَ ﴿۵۷﴾ أَفَرَأَیْتُمْ مَا تُمْنُونَ﴿۵۸﴾ أَ أَ نْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ

تمہیں پیدا کیاہے تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟بتائو جو نطفہ تم گراتے ہو کیا اسے تم پیدا کرتے ہو یا ہم

الْخَالِقُونَ ﴿۵۹﴾ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِینَ ﴿۶۰﴾ عَلٰی أَنْ

پیدا کرنے والے ہیں!؟ہم نے ہی تم میں موت مقرر کی اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسے

نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِءَکُمْ فِی مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿۶۱﴾ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الاَُولَی فَلَوْلاَ

اورپیدا کردیں اور تمہیں ان صورتوں میں ڈھال دیں جن کو تم جانتے ہی نہیں بیشک تم اپنی پہلی پیدائش کو جانتے ہی ہو تو کیوں

تَذَکَّرُونَ﴿۶۲﴾أَفَرَأَیْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ﴿۶۳﴾أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ ﴿۶۴﴾

غور نہیں کرتے؟بتائو! جو کچھ تم بوتے ہو کیا اسے تم خود اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟

لَوْ نَشَائُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَاماً فَظَلْتُمْ تَفَکَّهُونَ﴿۶۵﴾ إنَّالَمُغْرَمُونَ﴿۶۶﴾ بَلْ نَحْنُ

اگر ہم چاہیں تو اسے چور چورکردیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم بڑے گھاٹے میں رہے بلکہ ہم تو

مَحْرُومُونَ ﴿۶۷﴾ أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ ﴿۶۸﴾ أَ أَ نْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ

بے نصیب رہ گئے ذرا بتائو کہ جو پانی تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم

نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ ﴿۶۹﴾ لَوْ نَشَائُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجاً فَلَوْلاَ تَشْکُرُونَ ﴿۷۰﴾ أَفَرَأَیْتُمُ النَّارَ

اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنادیں لہذا تم کیوں شکر نہیں کرتے؟ذرا بتائو جو آگ تم

الَّتِی تُورُونَ ﴿۷۱﴾أَ أَ نْتُمْ أَ نْشَأْ تُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ ﴿۷۲﴾ نَحْنُ جَعَلْنَاهَا

روشن کرتے ہو کیا وہ درخت (لکڑی) تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟ہم نے اسے یاد دہانی

تَذکِرَةً وَمَتَاعاً لِلْمُقْوِینَ﴿۷۳﴾فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ ﴿۷۴﴾ فَلاَ أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ

اور مسافروں کے فائدے کیلئے بنایا پس اپنے عظیم رب کی پاکیزگی بیان کرو تو مجھے قسم ہے ستاروں کے

النُّجُومِ ﴿۷۵﴾وَ إنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْتَعْلَمُونَ عَظِیمٌ﴿۷۶﴾ إنَّهُ لَقُرْآنٌ کَرِیمٌ﴿۷۷﴾فِی

منازل کی اور تم سمجھو تو یقینا یہ ایک بہت بڑی قسم ہے بے شک یہ بڑی عزت والا قرآن ہے جو

کِتَابٍ مَکْنُونٍ﴿۷۸﴾لاَ یَمَسُّهُ إلاَّ الْمُطَهَّرُونَ﴿۷۹﴾ تَنْزِیلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ ﴿۸۰﴾

محفوظ کتاب میں ہے اس کو پاک لوگ کے علاوہ کوئی چھو نہیں سکتا یہ سب جہانوں کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے

أَفَبِهَذَا الْحَدِیثِ أَ نْتُمْ مُدْهِنُونَ ﴿۸۱﴾ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ ﴿۸۲﴾ فَلَوْلاَ

تو کیا تم اس کلام سے بے توجہی کرتے ہو اس میں اپنا حصہ یہی رکھتے ہو جو اسے جھٹلاتے ہو جب جان

إذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿۸۳﴾ وَأَ نْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُونَ ﴿۸۴﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إلَیْهِ مِنْکُمْ

حلق تک آجاتی ہے تو اسے روک کیوں نہیں لیتے اور تم اس وقت پڑے دیکھا کرتے ہو ہم اس (مرنے والے ) کے تم

وَلکِنْ لاَ تُبْصِرُونَ ﴿۸۵﴾ فَلَوْلاَ إنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِینِینَ ﴿۸۶﴾ تَرْجِعُونَهَا إنْ کُنْتُمْ

سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم نہیں دیکھتے ہو اگر تم خدا کے مملوک نہیں تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ تم روح کو لوٹا لیتے اگر

صَادِقِینَ ﴿۸۷﴾ فَأَمَّا إنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ ﴿۸۸﴾ فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِیمٍ ﴿۸۹﴾

سچے ہو پس اگر وہ (مرنے والا) مقربین میں سے ہو تو اس کے لئے راحت، خوشبو دار پھول اور نعمت کا باغ ہے

وَأَمَّا إنْ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِینِ ﴿۹۰﴾ فَسَلامٌ لَکَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِینِ ﴿۹۱﴾ وَأَمَّا

اور اگر وہ نیک بخت لوگوں میں سے ہے تو اے رسول وہ نیک بختوں کی طرف سے تجھ پر سلام کہے گا اور اگر

إنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِینَ الضَّالِّینَ ﴿۹۲﴾ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِیمٍ ﴿۹۳﴾ وَتَصْلِیَةُ جَحِیمٍ ﴿۹۴﴾

وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے تو اس کے لئے کھولتا ہوا پانی ہے اور اسے جہنم میں داخل کیا جانا ہے

إنَّ هذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِینِ ﴿۹۵﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ ﴿۹۶﴾

بے شک یہ بات حتماً صحیح ہے تو (اے رسول )تم اپنے عظیم رب کی پاکیزگی بیان کرو۔

فضیلت سورہ جمعہ

حضرت امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ ہمارے شیعوں میں سے ہرمومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ شب جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ و سورہ اعلی پڑھے اور جمعہ کے دن نماز ظہرمیں سورہ جمعہ و سورہ منافقون کی تلاوت کرے جو شخص ایسا کرے گا گویا اس نے حضرت رسول اکرم کی مثل عمل کیا اور حق تعالیٰ کے ذمے اس کی جزا بہشت بریں ہے۔

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خداکے نام سے(شروع کرتا ہوں ) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

یُسَبِّحُ لِلّهِ مَا فِی السَّموَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ﴿۱﴾هُوَ

ہر وہ چیزخدا کی تسبیح کرتی ہے جو زمین اور آسمانوں میں ہے کیونکہ وہ بادشاہ،پاک،غالب اور بڑا حکمت والا ہے وہی تو ہے

الَّذِی بَعَثَ فِی الاَُمِّیِّینَ رَسُولاً مِنْهُمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ

جس نے اُمِّی لوگوں میں انہی میںسے رسول (محمد ) بھیجا جو ان کے سامنے آیتیں پڑھتا ہے انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت

وَالْحِکْمَةَ وَ إنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُّبِینٍ﴿۲﴾ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ

کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے اور ان لوگوں کی طرف جو ابھی ان سے نہیں ملے

الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ﴿۳﴾ ذلِکَ فَضْلُ ﷲ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَائُ وَﷲ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ﴿۴﴾

اور وہ بڑا غالب حکمت والا ہے یہ اللہ کا فضل ہے کہ جسے چاہے عطا کرے اور اللہ تو بڑے فضل والا ہے

مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ

جن لوگوں کو تورات دی گئی ،انہوں نے اسکا حق ادا نہ کیا انکا حال اس گدھے جیسا ہے جس پر کتابیں لدی ہوں کیا بری مثال ہے

الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ ﷲ وَﷲ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ﴿۵﴾ قُلْ یَا أَ یُّهَا الَّذِینَ هَادُوا إنْ

ان لوگوں کی جنہوں نے آیات الہی کو جھٹلایا اور خدا ظالم قوموں کی ہدایت نہیں کرتا کہہ دو کہ اے یہودیو اگر تمہیں

زَعَمْتُمْ أَ نَّکُمْ أَوْ لِیَائُ لِلّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ﴿۶﴾ وَلاَ

یہ گھمنڈ ہے کہ لوگوں میں سے تمہی خدا کے دوست ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو اور وہ کبھی موت

یَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ وَﷲ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ﴿۷﴾ قُلْ إنَّ الْمَوْتَ الَّذِی تَفِرُّونَ

کی تمنا نہ کریں گے ان کرتوتوں کے باعث جو آگے بھیج چکے ہیں اور خدا ظالموں کو جانتاہے کہہ دو کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو

مِنْهُ فَ إنَّهُ مُلاَقِیکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿۸﴾

وہ تمہیں ضرور آئے گی پھر تم ہر چھپی اور ظاہر چیز کے جاننے والے کی طرف لوٹا دیئے جائو گے تو وہ تمہیں بتادے گا جو تم کیا کرتے تھے

یَا أَ یُّها الَّذِینَ آمَنُوا إذَا نُودِیَ لِلصَّلاَةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إلَی ذِکْرِ ﷲ وَذَرُوا الْبَیْعَ

اے ایمان والو جب روز جمعہ نماز (جمعہ)کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر (نماز)کے لئے دوڑو اور لین دین

ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿۹﴾ فَ إذَا قُضِیَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْاَرْضِ

کو چھوڑو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم جانتے ہو پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہو جائو

وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ ﷲ وَاذکُرُوا ﷲ کَثِیراً لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ﴿۱۰﴾ وَ إذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ

اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو اور خدا کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو اور جب یہ لوگ تجارت یا کھیل دیکھتے ہیں

لَهْواً انْفَضُّوا إلَیْهَا وَتَرَکُوکَ قَائِماً قُلْ مَاعِنْدَ ﷲ خَیْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَﷲ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ﴿۱۱﴾

تو ادھر چلے جاتے ہیں اور تمہیں اکیلا کھڑا چھوڑ دیتے ہیںکہہ دو کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ سودا سلف، تجارت اور کھیل سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رازق ہے ۔

فضائل سورہ ملک

حضرت امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جو شخص سونے سے پہلے واجب نماز میں سورہ ملک پڑھے تو وہ صبح تک خدا کی امان میں رہے گا ۔ نیز قیامت والے دن بھی خدا کی امان میں ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے گا ۔قطب راوندی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص بے خبری میں کسی قبر پر خیمہ لگا کر بیٹھ گیا اوراس نے وہاں سورہ ملک پڑھا تو ایک آواز سنی کہ یہ نجات دینے والا سورہ ہے پس اس نے یہ واقعہ رسول خدا سے بیان کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ واقعاً یہ سورہ قبر کے عذاب سے نجات دینے والا ہے ۔

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں )جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِهِ الْمُلْکُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ﴿۱﴾الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالحَیَاةَ

بڑا بابرکت ہے وہ خدا جو مختار کل ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اسی نے موت اور زندگی کو پیداکیا

لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ﴿۲﴾ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَموَاتٍ طِبَاقاً مَا

تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا ہے اور وہ بڑا غالب ،بہت بخشنے والا ہے وہی ہے جس نے تہہ در تہہ سات

تَرَی فِی خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَی مِنْ فُطُورٍ ﴿۳﴾ ثُمَّ ارْجِعِ

آسمان بنائے اور تو اس رحمن کے بنانے میں کوئی خامی نہ دیکھے گا پس نظر اٹھا کیا تجھے کوئی خرابی دکھائی دیتی ہے پھربار بار نظر اٹھا

البَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إلَیْک البَصَرُ خَاسِئاً وَهُوَ حَسِیرٌ ﴿۴﴾ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا

تیری نظر تھک کر ناکام تیری طرف پلٹ آئیگی اور ہم نے نچلے (پہلے )آسمان کو چمکتے تاروں سے سجایا اور انہیں

بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُوماً لِلشَّیَاطِینِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیرِ ﴿۵﴾ وَلِلَّذِینَ

شیطانوں کو ماربھگانے کا ذریعہ بنایااور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کیا اور اپنے رب کے سا تھ کفر کرنے والوں کے لئے

کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ المَصِیرُ ﴿۶﴾ إذَا أُلْقُوا فِیهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِیقاً وَهِیَ

جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے وہ جب اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کا شور سنیں گے وہ جوش میں ہوگااور شدت غضب

تَفُورُ﴿۷﴾تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الغَیْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیهَا فَوْجٌ سَأَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَ لَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ ﴿۸﴾

سے پھٹ جائیگا جب کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا تو دوزخ کا نگران ان سے پو چھے گا کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا

قَالُوا بَلَی قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ ﷲ مِنْ شَیْئٍ إنْ أَنْتُمْ إلاَّ فِی ضَلالٍ کَبِیرٍ ﴿۹﴾

وہ کہیں گے ہمارے پاس ڈرانے والا تو آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ۔تم نہیں ہو مگر بڑی گمراہی میں

وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ ﴿۱۰﴾ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ

اور کہیں گے کاش ہم سنتے یا عقل ہی سے کام لیتے تو آج اہل دوزخ میں شامل نہ ہوتے پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے

فَسُحْقاً لاِاَصْحَابِ السَّعِیرِ ﴿۱۱﴾ إنَّ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالغَیْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ

تو دوزخیوں کیلئے رحمت سے دوری ہے بے شک جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بہت بڑا

کَبِیرٌ ﴿۱۲﴾ وَأَسِرُّوا قَوْلَکُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿۱۳﴾ أَلاَ یَعْلَمُ

اجر ہے تم اپنی بات چھپائو یا اسے ظاہر کرو بے شک خدا دلوں کی باتیں خوب جانتا ہے کیا وہ نہیں جانتا کیا

مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ ﴿۱۴﴾ هُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاََرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِی

جس نے پیدا کیا ہے وہ نہیں جانتا جبکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے وہی (خدا)ہے جس نے زمین،تمہارے تابع کردی ۔تم اسکے

مَنَاکِبِهَا وَکُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَ إلَیْهِ النُّشُورُ ﴿۱۵﴾ أَ أَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ أَنْ یَخْسِفَ بِکُمُ

راستوں پرچلو اور اللہ کے رزق سے کھائو اورتمہیں اسی کیطرف اٹھ کر جانا ہے کیا تم آسمان والے (رب)سے اس بارے میں بے خوف

الاََرْضَ فَ إذَا هِیَ تَمُورُ ﴿۱۶﴾ أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ أَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِباً

ہوگئے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسادے اور وہ لرزنے لگے یا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ آسمان والا (رب)تم پر پتھرائو

فَسَتَعْلَمُونَ کَیْفَ نَذِیرِ﴿۱۷﴾ وَلَقَدْ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرِ ﴿۱۸﴾

کرنے والی ہوا بھیج دے تم عنقریب جان لوگے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے بے شک ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا تو مجھ سے انکا انکار کیسا (عبرتناک) رہا

أَوَ لَمْ یَرَوْا إلَی الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُهُنَّ إلاَّ الرَّحْمنُ إنَّهُ بِکُلِّ شَیْئٍ

اورکیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا جو کبھی پر پھیلاتے اور کبھی سمیٹتے ہیں انہیں رحمن کے سوا کوئی فضا میں نہیں تھامے رہتا

بَصِیرٌ﴿۱۹﴾ أَمَّنْ هذَا الَّذِی هُوَ جُنْدٌ لَکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ إنِ الْکَافِرُونَ إلاَّ

یقینا وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہے سوائے خدا کے ایسا کون ہے جو تمہاری فوج بن کر تمہاری نصرت کرے ہاں تو اس بات میں کافر

فِی غُرُورٍ﴿۲۰﴾أَمَّنْ هذَا الَّذِی یَرْزُقُکُمْ إنْ أَمْسَکَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِی عُتُوٍّ

لوگ محض دھوکے میں پڑے ہیں یا کون انسان ہے جو تمہیں رزق دے جب ﷲ اپنا رزق روک دے بلکہ وہ سرکشی اور حق سے دوری

وَنُفُورٍ﴿۲۱﴾َاَفَمَنْ یَمْشِی مُکِبّاً عَلَی وَجْهِهِ أَهْدَی أَمَّنْ یَمْشِی سَوِیّاً عَلَی صِرَاطٍ

میں پکے ہوگئے ہیں کیا وہ جو منہ کے بل اوندھا ہو کر چلتا ہے وہ ٹھیک راستے پر ہے یا وہ جو سیدھا ہو کر سیدھے راستے

مُسْتَقِیمٍ﴿۲۲﴾قُلْ هُوَ الَّذِی أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفئِدَةَ قَلِیلاً مَا

پر چلتا ہے کہہ دو وہی (ﷲ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنایا تم بہت کم شکر

تَشْکُرُونَ ﴿۲۳﴾ قُلْ هُوَ الَّذِی ذَرَأَکُمْ فِی الْاَرْضِ وَ إلَیْهِ تُحْشَرُونَ ﴿۲۴﴾ وَیَقُولُونَ

کرتے ہو کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے وہ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو

مَتَی هذَا الوَعْدُ إنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ﴿۲۵﴾قُلْ إنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ ﷲ وَ إنَّمَا أَنَا نَذِیرٌ مُبِینٌ ﴿۲۶﴾

تو بتاؤ کہ یہ (قیامت) کا وعدہ کب پورا ہوگا کہہ دو اس کا علم تو ﷲ ہی کو ہے اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سیٓءَتْ وُجُوهُ الَّذِینَ کَفَرُوا وَقِیلَ هذَا الَّذِی کُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ﴿۲۷﴾ قُلْ

پھر جب وہ اسے قریب آتا دیکھیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائینگے اور ان سے کہا جائیگا یہی (قیامت)ہے جسے تم باربار

أَرَأَیْتُمْ إنْ أَهْلَکَنِیَ ﷲ وَمَنْ مَعِیَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ یُجِیرُ الْکَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ﴿۲۸﴾

طلب کرتے رہے ہو کہہ دوذرا بتائو کہ اگر ﷲ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم فرمائے تو کافروں کو دردناک

قُلْ هُوَ الرَّحْمنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَیْهِ تَوَکَّلْنَا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ﴿۲۹﴾ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إنْ أَصْبَحَ مَاؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ یَأْتِیکُمْ بِمَائٍ مَعِینٍ ﴿۳۰﴾

عذاب سے کون بچائے گا کہہ دو وہی رحمن ہے ہم اس پر ایمان لائے اور اسی پر بھروسہ کیا تو جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ کون کھلی گمراہی میں ہے کہہ دو بتائو تو سہی اگر تمہارا پانی زمین کے اندر چلا جائے توپھر کون ہے جو تمہارے لیے پانی کا چشمہ بہا لائے۔

فضائل سورہ نبائ

شیخ صدوق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روا یت کرتے ہیں کہ جو شخص لگاتار ہر روز سورہ نبائ پڑھے تو وہ سال تمام ہونے سے پہلے کعبہ کی زیارت کریگا ۔شیخ طبرسی نے مجمع البیان میں اُبی بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص ہر روز سورہ نبائ پڑھے تو خدا قیامت کے دن اس کو ٹھنڈے پانی سے سیراب کرے گا۔ واضح رہے کہ اہل بیتعليه‌السلام کی روایات میں مزکورہے کہ نبائ عظیم سے مراد ولایت ہے اور حضرت امیرالمومنین -ہی نبائ عظیم کا مصداق ہیں۔حضرت علی -ہی نبائ عظیم ،کشتی نوح اور باب ﷲ ہیں ۔

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

عَمَّ یَتَسَاءَلُونَ ﴿۱﴾ عَنِ النَّبَائِ الْعَظِیمِ ﴿۲﴾ الَّذِی هُمْ فِیهِ مُخْتَلِفُونَ ﴿۳﴾ کَلاَّ

یہ باہم ایک بڑی خبر کے متعلق کیا سوال پوچھ رہے ہیں؟ کہ جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں عنقریب

سَیَعْلَمُونَ﴿۴﴾ثُمَّ کَلاَّ سَیَعْلَمُونَ﴿۵﴾أَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهَاداً﴿۶﴾وَالْجِبَالَ أَوْتَاداً ﴿۷﴾

ضرور جان لیںگے پھر عنقریب ضرور جان لیں گے کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا اور پہاڑوں کو اس کی میخیں

وَخَلَقْنَاکُمْ أَزْوَاجاً ﴿۸﴾ وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتاً﴿۹﴾وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاساً﴿۱۰﴾وَجَعَلْنَا

اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا اور تمہاری نیند کو راحت کا ذریعہ بنایا اور رات کو پردہ قرار دیا اور دن

النَّهَارَ مَعَاشاً﴿۱۱﴾وَبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعاً شِدَاداً ﴿۱۲﴾ وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَهَّاجاً ﴿۱۳﴾

کو روزی کمانے کا وقت ٹھہرایا اور تمہارے اوپر سات مضبوط (آسمان) بنا دئیے اور ہم نے چمکتا چراغ (سورج) بنایا

وَأَ نْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مائً ثَجَّاجاً﴿۱۴﴾لِنُخْرِجَ بِهِ حَبّاً وَنَبَاتاً﴿۱۵﴾وَجَنَّاتٍ أَلْفَافاً ﴿۱۶﴾

اور ہم نے بادلوں سے موسلا دھار بارش برسائی تاکہ اس سے غلہ اور سبزہ اور گھنے باغات اگائیں

إنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیقَاتاً ﴿۱۷﴾ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجاً ﴿۱۸﴾وَفُتِحَتِ

بے شک فیصلے کا دن ایک مقررہ وقت ہے جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے اور آسمان کھول

السَّمَائُ فَکَانَتْ أَبْوَاباً﴿۱۹﴾وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَاباً﴿۲۰﴾ إنَّ جَهَنَّمَ کَانَتْ

دیا جائے گا تو اس میں دروازے بن جائیں گے اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت بن جائیں گے بے شک دوزخ گھات

مِرْصَاداً ﴿۲۱﴾لِلطَّاغِینَ مَآباً ﴿۲۲﴾ لاَبِثِینَ فِیهَا أَحْقَاباً ﴿۲۳﴾ لاَ یَذُوقُونَ فِیهَا بَرْداً

لگائے ہوئے ہوگی جو کہ سرکشوں کا ٹھکانہ ہے وہ مدتوں اس میں پڑے رہیں گے اس میں نہ ٹھنڈک پائیں گے

وَلاَ شَرَاباً ﴿۲۴﴾ إلاَّ حَمِیماً وَغَسَّاقاً﴿۲۵﴾ جَزَائً وِفَاقاً ﴿۲۶﴾ إنَّهُمْ کَانُوا لاَ

نہ پانی لیکن کھولتا ہوا پانی اور پیپ یہ ان کے کیئے کا بدلہ ہے یقینًا وہ کسی محاسبے کا

یَرْجُونَ حِسَاباً﴿۲۷﴾وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا کِذَّاباً ﴿۲۸﴾ وَکُلَّ شَیْئٍأَحْصَیْنَاهُ کِتَاباً ﴿۲۹﴾

خوف نہ رکھتے تھے انھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ہم نے ہر چیز کو تحریر کر دیا ہے

فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِیدَکُمْ إلاَّ عَذَاباً ﴿۳۰﴾ إنَّ لِلْمُتَّقِینَ مَفَازاً ﴿۳۱﴾ حَدَائِقَ وَأَعْنَاباً ﴿۳۲﴾

اب چکھو مزا کہ ہم تمہارے لیے عذاب ہی بڑھائیں گے بے شک پرہیزگاروں کیلئے بڑی کامیابی کی منزل ہے، باغات ہیں اور انگور

وَکَوَاعِبَ أَتْرَاباً﴿۳۳﴾وَکَأْساً دِهَاقاً﴿۳۴﴾لاَ یَسْمَعُونَ فِیهَا لَغْواً وَلاَ کِذَّاباً ﴿۳۵﴾

اور نوجوان ہم عمر بیویاں اور چھلکتے ہوئے جام وہ نہ فضول بات سنیں گے نہ جھٹلائے جائیں گے

جَزَائً مِنْ رَبِّکَ عَطَائً حِسَاباً ﴿۳۶﴾ رَبِّ السَّموَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا الرَّحْمنِ لاَ

یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے اعمال کا بدلہ اور حساب شدہ عطا ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو انکے درمیان ہے

یَمْلِکُونَ مِنْهُ خِطَاباً ﴿۳۷﴾ یَوْمَ یَقُومُالرُّوحُ وَالْمَلائِکَةُ صَفَّاً لاَ یَتَکَلَّمُونَ إلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ

وہ رحمن جس سے بات کرنے کا انہیں اختیار نہیں ہوگا جس دن جبریل کھڑے ہونگے اور فرشتے صف بستہ ہونگے کوئی بول نہیں سکے گا

الرَّحْمنُ وَقَالَ صَوَاباً ﴿۳۸﴾ ذالِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إلَی رَبِّهِ مَآباً ﴿۳۹﴾

مگر وہ جسے رحمن نے اجازت دی ہو گی اور وہ درست بات کہے گا وہ دن حق ہے اب جو چاہے اپنے رب کے حضور ٹھکانہ بنائے

إنَّا أَنْذَرْنَاکُمْ عَذَاباً قَرِیباً یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدَاهُ وَیَقُولُ الْکَافِرُ یَا لَیْتَنِی کُنْتُ تُرَاباً ﴿۴۰﴾

بے شک ہم نے تم لوگوں کو ایک جلد آنے والے عذاب سے ڈرایا جس دن آدمی وہ دیکھے گا جو اس نے اپنے ہاتھوں سے بھیجا

ہوگا اور کافر کہے گا اے کاش میں مٹی ہو جاتا ۔

فضائل سورہ اعلی و سو رہ شمس

شیخ صدوقرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ جوشخص واجب یا مستحب نما ز میں سورہ اعلیٰ کی تلا وت کرے تو قیامت کے دن اس کو کہا جا ئے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔مجمع البیا ن میں ابی بن کعب سے روا یت نقل ہو ئی ہے کہ رسو ل اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا جو شخص سو ر ہ شمس پڑھے گا، گو یا اس نے راہ خدا میں ان اشیا ئ کے برابر صد قہ دیا ہے جن پرآفتاب اور مہتاب چمکتے ہیں۔

سورہ اعلیٰ

بِسْمِ ﷲ الرَحْمنِ الرَحیمْ

خدا کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی ﴿۱﴾ الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّی ﴿۲﴾ وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَی ﴿۳﴾

(اے رسول) اپنے بلند تر رب کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور سنوارا اور جس نے اندازہ مقرر کیا پھر راہ بتائی

وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَی﴿۴﴾ فَجَعَلَهُ غُثَائً أَحْوَی ﴿۵﴾ سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسَی ﴿۶﴾ إلاَّ

اور جس نے سبز چارا اگایا پھر اس کو خشک سیاہی مائل کر دیا ہم تمہیں ایسا پڑھا دیں گے کہ بھولو گے نہیں مگر

مَا شَاءَ ﷲ إنَّهُ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا یَخْفَی﴿۷﴾ وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرَی ﴿۸﴾ فَذَکِّرْ إنْ نَفَعَتِ

جو ﷲ چاہے۔بے شک وہ ہر عیاں ونہاں کو جانتا ہے اور ہم تمہیں آسانی کی توفیق دیں گے۔پس جہاں تک سمجھانا

الذِّکْرَی ﴿۹﴾ سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشَی ﴿۱۰﴾ وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَی ﴿۱۱﴾ الَّذِی یَصْلَی

مفید ہو سمجھاتے رہو جو خوف رکھتا ہو وہ سمجھ جائے گا اور بڑا بدبخت

النَّارَ الْکُبْرَی ﴿۱۲﴾ ثُمَّ لاَیَمُوتُ فِیهَا وَلاَ یَحْیَی ﴿۱۳﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّی ﴿۱۴﴾

اس سے دور رہے گااور سب سے بڑی آگ میں داخل ہو گا پھر وہاں نہ مرے گا نہ جئے گا بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاکیزہ ہو گیا

وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی﴿۱۵﴾بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا﴿۱۶﴾وَالاَْخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَی ﴿۱۷﴾

اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا مگر تم لوگ دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیرپاہے

إنَّ هذَا لَفِی الصُّحُفِ الاَُْولَی ﴿۱۸﴾ صُحُفِ إبْراهِیمَ وَمُوسَی ﴿۱۹﴾

بے شک یہ بات پہلے صحیفوں میں ہے ابراہیمعليه‌السلام اور موسٰیعليه‌السلام کے صحیفوں میں ۔

آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :لَا یَرُدُّ دُعَاء: اَوَّلُهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :اِنَّ کُلُّ دُعَاء لَا يَکُونَ قَبْلَهُ تَمْجَِیْد فَهُوَاَبْتَرْ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَاءِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ ۔رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا يَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ :دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)

حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا

قال الله تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِهِمْ عَارِفَاً بِحَقِّهِمْ وَمَقَامِهِمْ اَوْجَبْتَ لَه مِنِّی اَلْاِجَابَةَ ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)

امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا ﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)

جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔

فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَيْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِيُوْسُفَ وَبُنْيَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)

حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّهُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِه شَک مِنْکَ ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)

لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوں کا اقرار کرنا

قال الامام الصادق ـ :انَّمَا هِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْءَلَة ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا

قال الله :يَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَاءَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَهُ مُغِيْث ۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا

امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْيُعِمَّ فَاِنَّهُ اَوْجَبَ لِلدُّعَاءِ ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)

قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاه اَسْتُجِیبُ لَهُ ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا

مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔

دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔

مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد

قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰهَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْءَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں

قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا يَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰه تَعَالیٰ وَهُوَ سَاجد ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد

قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَءَ مِاءَةَ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَاءَ ثُمَّ قَالَ … يَاﷲ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِهٰا اِنْ شَاءَ ﷲ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔

٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔

دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ

(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔

(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔

اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔يَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً ۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)

مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِه وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِه وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِه وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِهِ) امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : دُعَاءُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ يُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)

قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَءَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَهُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً ۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی

قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِه عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ يُدَّخَرَ لَهُ، وَاِمَّا اَنْ يُعَجَّل لَهُ وَاِمَّا اَنْ يَدْفَعَ عَنْهُ بَلائً يُرِيْدُ اَنْ يُصِیْبَ ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ

قال الامام الصادق ـ : دُعَاءُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ يَدْفَعُ عَنْهُ الْبَلَاءَ وَيُدِرُّ عَلَيْهِ الْرِّزْقَ ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)

مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ ﷲ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْيَائ عَنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَيّاً وَمَيَّتاً کُنْتُ لَه شَفِيْعاً یَومَ الْقِيَامَةِ ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)

امام صادق ـ فرماتے ہیں:مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِيَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُه جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)

مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔

امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلیٰ زِيَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا يَکْتُبُ لَه ثَوَّابُ زِيَارَتِنَا ۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)

قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّهُمْ يَفْرَحُوْنَ بِزِيَارَتِکُمْ وَالْيَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَه عَنْدَ قَبْرِ اٰبِيْهِ وَاُمِّهِ بَعْدَ مَا يَدْعُوا لَهُمَا ۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)

خدا فرماتا ہے :يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا ﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)

پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )

نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)

امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔

قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق :فَلَمَّا اَنْ جَاءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰهُ عَلیٰ وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)

امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔

جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔

خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔

اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔

اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے

(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَهٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)

ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔

معصومین اور زیارت

قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِيْعَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)

قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا ۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)

امام حسن ـ اپنے نانا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)

قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَيْن ـ عَارِفاً بِحَقِّه کَتَبَ ﷲ لَه ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)

الامام صادق ـ :اِيْتُوا قَبْرَالْحُسَيْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)

امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)

قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَه ذَنُوبُه وَلَمْ يَمُتْ فَقِيْراً ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)

قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْه مِن اَهْوَالِهٰا اِذَا تَظَاهَرَتِ الْکُتّبُ يَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِيْزَانِ ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)

(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔

(٢) پل صراط پر

(٣)حساب کے وقت

قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَه الْجَنَّة ۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)

امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)

امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)

قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة ﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة ﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔

مطلب سوم :

مؤلف محترم کے مختصر حالات زندگی

انبیاء اور آئمہ اطہار اور ان کے بعد نیک اور با فضیلت علماء کی سیرت سے آگاہ ہونا ان تمام لوگوں کیلئے جو نمونہ عمل کی جستجو میں ہیں روحانی ارتقاء کا موجب ہے چونکہ یہ عظیم ہستیاں روحانی اعتبار سے ممتاز ہیں اور عمدہ کردار و اخلاق کی حامل ہیںمفاتیح الجنان کے مؤلف خاتم المحدثین الحاج شیخ عباس قمی ہیں جو کہ محدث قمی کے نام سے مشہور ہیں آپ ١٢٩٤ھ میں مذہبی شہر قم میں پیدا ہوئے وہ مقدس شہر کہ جو کریمہ اہل بیت فاطمہ معصومہ کا مدفن ہے اور علم و روحانیت کا مرکز ہے ۔

والد گرامی

آپ کے والد بزرگوار الحاج محمد رضا قمی ہیں جنہیں قم کے لوگ متقی پرہیزگار شخص کے طور پر پہچانتے تھے چو نکہ آپ دینی مسائل سے بھی آگاہ تھے اس لئے لوگ شرعی احکام پوچھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

والدہ معظمہ

محدث قمی کی والدہ مکرمہ پرہیز گار خاتون تھیں ان کے متعلق خود محدث قمی نے کئی مقامات پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ میری تالیفات اور دیگر کام میری والدہ کی تربیت کی وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اس قدر کوشش کی کہ مجھے ہمیشہ باوضو دودھ پلایا کرتی تھیں ۔

تعلیمی مراحل

محدث قمی نے اپنا بچپن اور جوانی قم جیسے مذہبی شہر میں گزار دی اور اس زمانے کے علماء سے ادبیات اور فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے ١٣١٦ھ میں نجف اشرف تشریف لے گئے اور حضرت آیت اللہ حاج سید محمد کاظم یزدی جیسے بزرگ و عظیم مجتہدین و مراجع سے کسب فیض کیا لیکن چونکہ علم حدیث ،رجال اور درایہ سے خصوصی لگاؤ تھا اس لئے علامہ نامدار حاج میرزا حسین نوری کی خدمت میں گئے چونکہ وہ اس زمانے میں علم حدیث کے علمبردار تھے آپ کا زیادہ وقت ان کی خدمت میں گزرا ۔

عمدہ صفات

محدث قمی نے اپنی جوانی کے دوران خود سازی کو اپنا سرنامہ زندگی قرار دیا فضائل اخلاقی اور عمدہ صفات کے حصول میں کوشاں رہے یہاں تک کہ اپنے زمانہ کے علم اخلاق کے بزرگ معلمین میں ان کا شمار ہوتا تھا اور لوگ انہیں ایک روحانی متقی شخص کے طور پر پہچانتے تھے آپ کے درس اخلاق میں لوگ جوق در جوق شریک ہوتے تھے آپ کی ممتاز ترین صفات میں تین اوصاف انتہائی نمایاں ہیں۔

١۔دعا اور اہلبیت کے ساتھ گہرا تعلق ٢۔زہد و تقویٰ ٣۔تواضع و انکساری ۔

مدرسہ و مؤسسہ امام المنتظر (عج) قم

محسن ملت حضرت علامہ سید صفدر حسین نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ نے ١٤٠٣ہجری قمری بمطابق ١٩٨٢ عیسوی میں مدرسہ امام المنتظر(عج)کی بنیاد رکھی یہ مدرسہ آج محلہ گذرقلعہ قم میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے محسن ملت مرحوم کی خواہش تھی کہ قم کی طرح مشہد مقدس اور شام میں بھی اس مدرسہ کی شاخیں ہوں ان کے علاوہ ایک عظیم علمی ،ثقافتی اور دینی ادارہ بھی معرض وجود میں آئے تاکہ وہاں سے دینی کتب کی اشاعت ہو سکے علامہ محسن ملت کی یہ خواہش ١٤١٨ ہجری قمری بمطابق ١٩٩٧ عیسوی کو مؤسسہ ہذا کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچی ،یہ ادارہ اس وقت تک کئی کتب شائع کر چکا ہے مؤسسہ ہذا کے شعبہ تحقیقات میں فاضل طلباء کے توسط سے مختلف موضوعات پر مناسب اور با اعتماد منابع سے تحقیقی کام ہو رہا ہے (جیسے تفسیر وعلوم قرآن ،تاریخ وسیرت اہل بیت اور اس کے علاوہ دیگر موضوعات) بہر حال یہ سب کچھ علامہ محسن ملت کی باقیات وصالحات اور صدقہ جاریہ ہیں خدا وند متعال علامہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے ۔آمین ۔

سید نیاز حسین نقوی

مؤسسہ اما م المنتظر (عج)

قم المقدسہ اسلامی جمہوریہ ایران

مؤسسہ امام المنتظر (عج)کا شعبہ نشر واشاعت مختلف زبانوں میں اب تک کئی کتب شائع کر چکا ہے ۔

قرآن (١)

چراغ ہدایت

تفسیر وجیر (١)

عدالت اجتماعی(معاشرتی انصاف)

مفاتیح الجنان (١) مرحوم شیخ عباس قمی

آئینہ حقیقت

مکاسب (٣) جلد شیخ مرتضیٰ انصاری

پیام امام زمانہ(عج)فارسی

رہبر بشریت کا اعلان

قرآن ترجمہ فارسی

زیر طبع کتب اردو

مفاتیح الجنان ترجمہ فارسی

اہل بیت قرآن وسنت کی روشنی میں

نہج البلاغہ ترجمہ فارسی

علم وحکمت قرآن وسنت کی روشنی میں

حقیقت مکتوم ترجمہ فارسی

عقل قرآن وسنت کی روشنی میں

در مکتب حسین شیعہ شدم ترجمہ فارسی

محبت قرآن وسنت کی روشنی میں

راز خلقت انسان در قرآن

خطبہ غدیر(انگلش )

عدالت اجتماعی (بخش اقتصاد)

فصول شرح کفایة الاصول


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88