مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 198602
ڈاؤنلوڈ: 12255

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 198602 / ڈاؤنلوڈ: 12255
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

ساتویں فصل

اس فصل میں تین مقصد ہیں۔

ابو عبدا للہ امام حسین- کی زیارت کی فضلیت اسکے آداب کہ جن کا لحاظ زائر کو راستے،حرم مطہر میں کرنا چاہیے اور زیارت کی کیفیت کے بارے میںملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔

اس فصل میں تین مقصد ہیں۔

پہلا مقصد

امام حسین- کی زیارت کی فضلیت۔

واضح رہے کہ حضرت امام حسین- کی زیارت کی فضلیت احاطہ بیان سے باہر ہے اور بہت سی احادیث میںآیا ہے کہ شہید نینوا کی زیارت حج‘ عمرہ اور جہاد کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی کئی درجے افضل ‘ مغفرت کا سبب‘ حساب و کتاب میں آسانی، درجات کی بلندی‘ قبولیت دعا‘ طول عمر‘ حفظ جان و مال‘ روزی میں فراوانی‘ حاجات کے پورا ہونے اور غم و اندیشے کے دور ہونے کا موجب ہے اسی طرح آپ کی زیارت کا ترک کرنا دین و ایمان میں نقص اور حضرت رسول کے حقوق میں سے ایک انتہائی اہم حق کے چھوڑ دینے کا سبب ہے۔ وہ جو حضرت امام حسین- کے زائر کا کمترین ثواب ہے یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی جان و مال کی حفاظت اس وقت تک فرماتا ہے جب تک وہ اپنے اہل خانہ میں واپس نہیں آجاتا اور قیامت میں تو خدائے تعالیٰ دنیا کی نسبت اس کی زیادہ حفاظت فرمائے گا۔ بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ آپ کی زیارت غموں کو دور کرتی ہے جان کنی کی سختی اورقبر کی ہولناکی سے بچاتی ہے زیارت کرنے میں جو مال زائر خرچ کرتا ہے اس کے ہر درہم کے بدلے میں ایک ہزار بلکہ دس ہزار درہم لکھے جاتے ہیں۔ جب زائر آپ کے روضہ مبارک کی طرف روانہ ہوتا ہے تو چار ہزار فرشتے اس کے استقبال کو بڑھتے ہیں اور جب وہ واپس جاتا ہے تو اتنے ہی فرشتے اسے رخصت کرنے آتے ہیں۔ تمام پیغمبر اوصیائ‘ ائمہ طاہرین اور ملائکہ امام حسین- کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور آپ کے زائروں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان پر نظر رحمت کرنے میںانہیںعرفات والوں پر اولیت دیتا ہے قیامت کے دن ان کی عزت وتکریم کو دیکھ کر ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ اے کاش میں بھی زائرین حسین- میں سے ہوتا اس بارے میں بہت سے روایات وارد ہوئی ہیں جن کی طرف ہم آپ کی مخصوص زیارات کی فضلیت کے بیان میں اشارہ کریں گے فی الحال ہم ایک روایت نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ابن قولویہرحمه‌الله شیخ کلینیرحمه‌الله اور سید ابن طائوس وغیرہم نے ثقہ جلیل القدر معاویہ بن وہب بجلی کوفی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک موقع پر میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مصلے پر مشغول عبادت دیکھا‘ میں وہاں بیٹھا رہا یہاں تک کہ آپعليه‌السلام نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کو اپنے پروردگار سے راز و نیاز فرماتے ہوئے سنا کہ اے پروردگار! تو نے ہمیں اپنی طرف سے خاص بزرگیاں عطا فرمائیں اور ہمیں یہ وعدہ دیا کہ ہم شفاعت کریں گے۔ ہمیں علوم نبوت دیے اور پیغمبروں کا وارث بنایا اور ہماری آمد پر سابقہ امت کا دور ختم کر دیا تو نے ہمیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصی بنایا اور گزشتہ و آئندہ کا علم بخشا اور لوگوں کے دل ہماری طرف مائل کر دیے مجھے میرے بھائیوں اور امام حسین- کے زائروں کو بخش دے اور ان لوگوں کو بھی بخش دے جو اپنا مال صرف کر کے اور اپنے شہروں کو چھوڑ کر حضرت کی زیارت کو آئے ہیں وہ ہم سے نیکی طلب کرنے تجھ سے ثواب حاصل کرنے ہم سے متصل ہونے تیرے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوخوشنود کرنے اور ہمارے حکم کی اطاعت کرنے آئے ہیں‘ جس کے باعث ہمارے دشمن ان کے دشمن ہو گئے۔ حالانکہ وہ اپنے اس عمل میں تیرے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی و خوش کرناچاہتے تھے۔ اے اللہ! تو ہی اس کے بدلے میں انہیں ہماری خوشنودی عطا فرما‘ دن اور رات میں ان کی حفاظت کر‘ ان کے خاندان اور اولاد کا نگہبان رہنا کہ جن کو وہ اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں‘ ان کی اعانت کر ہر جابر و دشمن ناتواں و توانا اور جن وانس کے شرکو ان سے دور رکھ۔ ان کو اس سے کہیںزیادہ عطا فرما جس کی وہ تجھ سے امید رکھتے ہیں ‘ جب وہ اپنے وطن‘ اپنے خاندان اور اپنی اولاد کو ہماری خاطر چھوڑ کر آ رہے تھے تو ہمارے دشمن ان کو طعن و ملامت کر رہے تھے۔ خدایا جب وہ ہماری طرف آ رہے تھے تو ان کی ملامت پر وہ ہماری طرف آنے سے رکے نہیں ہیں‘ خدایا! انکے چہروں پر رحم فرما جن کو سفر میں سورج کی گرمی نے متغیر کر دیا‘ ان رخساروں پر رحم فرما جو قبر حسین- پر ملے جا رہے تھے۔ ان آنکھوں پر رحم فرما جو ہمارے مصائب پر رو رہی ہیں‘ ان دلوں پر رحم فرما جو ہماری مصیبتوں پر رنج و غم ظاہر کر رہے ہیں اور ہمارے دکھ میں دکھی ہیں اور ان آہوں اور چیخوں پر رحم فرما جو ہماری مصیبتوں پر بلند ہوتی ہیں۔ خدایا! میں ان کے جسموں اور جانوں کو تیرے حوالے کر رہا ہوں کہ تو انہیں حوض کوثر سے سیراب کرے جب لوگ پیاسے ہوں گے‘ آپ بار بار یہی دعا سجدے کی حالت میں کرتے رہے۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ جو دعا آپ فرما رہے تھے اگر یہ اس شخص کیلئے بھی کی جائے جو اللہ تعالیٰ کو نہ جانتا ہو تو بھی میرا گمان ہے کہ جہنم کی آگ اسے نہ چھوئے گی۔ قسم بخدا اس وقت میں نے آرزو کی کاش میں نے بھی امام حسین- کی زیارت کی ہوتی اور حج پرنہ آتا اس پر آپ نے فرمایا کہ تم حضرت کے روضہ اطہر کے نزدیک ہی رہتے ہو۔ پس تمہیں ان کی زیارت کرنے میں کیا رکاوٹ ہے‘ اے معاویہ ابن وھب! تم آنجناب کی زیارت ترک نہ کیا کرو۔ تب میںنے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جائوں!میں یہ نہ جانتا تھا کہ آپ حضرات کی زیارت کی فضلیت اس قدر ہے‘ آپ نے فرمایا کہ اے معاویہ! جو لوگ امام حسین- کے زائرین کے لیے زمین میں دعا کرتے ہیں ان سے کہیں زیادہ مخلوق ہے جو آسمان میں ان کے لیے دعا کرتی ہے ۔ اے معاویہ! زیارت حسین- کو کسی خوف کی وجہ سے ترک نہ کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص کسی کے خوف کی وجہ سے آپ کی زیارت ترک کرے گا اسے اس قدر حسرت اور شرمندگی ہو گی کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں ہمیشہ آپ کے روضہ پر رہتا اور وہیں دفن ہوتا۔ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ حق تعالیٰ تجھ کو ان لوگوں کے درمیان دیکھے جن کے لیے حضرت رسول مولا امیر المومنین‘ سیدہ فاطمہ زہر ااور ائمہ طاہرین دعا کر رہے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن سے روز قیامت فرشتے مصافحہ کریں‘ کیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ‘ جو قیامت میں آئیں تو ان کے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا آیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن سے حضرت رسول قیامت کے دن مصافحہ کریں گے۔

دوسرا مقصد

زیارت امام حسین- کے آداب

اس میں زیارت کے ان آداب کا ذکر ہے کہ زائرین کو دوران سفر اور حرم مطہر میں جن کا لحاظ رکھنا چاہیے اور وہ چند امور ہیں۔

( ۱ )زیارت کیلئے جانے سے قبل تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے جیسا کہ امام جعفر صادق - نے اسکا حکم صفوان کو دیاتھا جسکا ذکر ساتویں زیارت کے تحت آئے گا شیخ محمد بن مشہدی نے عیدین کی زیارت کے مقدمہ میں کہا ہے کہ جب زیارت کو جانے کا قصد کرے تو پہلے تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے پاس جمع کر کے یہ پڑھے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْتَوْدِعُکَ الْیَوْمَ نَفْسِی وَأَهْلِی وَمالِی وَوَلَدِی وَکُلَّ مَنْ کانَ مِنِّی

اے معبود میں آج تیرے سپرد کرتا ہوں اپنی جان اپنا خاندان اپنا مال اور اولاد اور وہ سب کچھ جو میرے ساتھ متعلق ہے

بِسَبِیلٍ الشَّاهِدَ مِنْهُمْ وَالْغائِبَ اَللّٰهُمَّ احْفَظْنا بِحِفْظِ الْاِیمَانِ وَاحْفَظْ عَلَیْنا اَللّٰهُمَّ

وہ اس وقت حاضر ہے یا غائب اے معبود! ہماری حفاظت کر اپنی نگہبانی سے ہمارے ایمان کی اور ہماری حفاظت فرما‘ اے معبود‘

اجْعَلْنا فِی حِرْزِکَ وَلاَ تَسْلُبْنا نِعْمَتَکَ وَ لاَ تُغَیِّرْ مَا بِنا مِنْ نِعْمَةٍ وَعافِیَةٍ، وَزِدْنا مِنْ

ہمیں اپنی پناہ میں رکھ ہم سے اپنی نعمت واپس نہ لے اور تبدیلی نہ کر اس میں جو نعمت اور سکھ ہمیں دیا ہے اور ہم پر زیادہ

فَضْلِکَ إنَّا إلَیْکَ راغِبُونَ

فضل فرما کہ ہم نے تیری طرف رغبت کی ہے۔

اس کے بعد نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ گھر سے نکلے اور یہ کلمات کثرت سے دہراتا جائے:

لَا اِلَهَ اِلَّاﷲ ُوَﷲ اَکْبَرُ وَالْحَمْدُ ﷲِ

اللہ کے سوائ کوئی معبود نہیں اللہ بزرگتر ہے اور حمد اللہ ہی کیلئے ہے۔

پھر خدائے تعالیٰ کی ثنا حضرت رسول اور انکی آل پر درود پڑھتے ہوئے بڑے وقار اور آہستگی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے چلے۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ امام حسین- کے زائر کے پسینے کے ہر قطرے سے ایک ہزار فرشتے پیدا فرماتا ہے۔ جو خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور خود اس شخص کے لیے اور ہر زائر کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہتے ہیں۔

( ۲ )حضرت امام جعفر صادق - سے روایت ہوئی ہے کہ جب حضرت امام حسین- کی زیارت کو جائے تو اسکے سر کے بال الجھے ہوئے اور گرد آلود ہوں اور زائر بھوکا پیاسا ہو کہ آنجناب اسی حالت میں شہید کیے گئے تھے پس وہاں اپنی حاجات طلب کر ے پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور کربلا کو اپنا وطن نہ بنائے۔

( ۳ )زیارت پر جاتے ہوئے لذیذ غذائیں جیسے حلوہ اور بریانی کو اپنا زاد راہ نہ بنائے بلکہ روٹی دودھ اور دہی وغیرہ کو اپنی غذا قرار دے‘ امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں سن رہا ہوں کہ بعض لوگ امام حسین- کی زیارت کے لیے جاتے ہیں جو اپنے ساتھ ایسی غذارکھتے ہیں جس میں بکرے کی بھنی ہوئی ران اور حلوہ ہوتا ہے حالانکہ یہی لوگ جب باپ یا رشتے داروں کی قبروں پر جاتے ہیں تو ایسی غذائیں ساتھ نہیں لے جاتے ایک اور معتبر روایت میں ہے کہ امام صادق - نے مفضل بن عمر سے فرمایا کہ حضرت امام حسین- کی اس طرح سے زیارت کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کی زیارت نہ کی جائے امام حسین- کی زیارت نہ کر نے کی بجائے بہتر ہے۔ کہ تم ان کی زیارت کرو(یعنی امام مظلوم کی زیارت کرو) مفضل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور آپ نے میری کمر توڑ دی ہے! آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا اگر تم اپنے باپ دادا کی قبروں پر جائو تو حالت رنج و غم میں جاتے ہواور امام مظلوم کے مزار پر جاتے وقت اپنے ہمراہ بہترین غذائیں لے کر جاتے ہو۔ حالانکہ تمہیں وہاں پریشان بال اور خاک آلودہ حالت میں جانا چاہیے۔

مولف کہتے ہیں: مالدار آدمی کے لیے کس قدر شا ئستہ ہے کہ اس حدیث کا مطالعہ کرے اور کربلا جاتے وقت راستے میں جب اس کے احباب اس کی ضیافت کریں اور عمدہ غذائیں اس کے سامنے رکھیں تو اس کو قبول نہیں کرنا چاہیں اور کہنا چاہیے کہ ہم تو کربلا کے مسافر ہیں اس طرح کی غذائیں ہمارے لیے مناسب نہیں ہیں۔

شیخ کلینیرحمه‌الله نے روایت کی ہے۔ کہ امام حسین- کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ کلبیہ نے آپ کا ماتم بپا کیا۔ وہ خود بھی روئیں اور دیگر عورتوں اور باندیوں کو بھی رلایا یہاں تک کہ ان کے آنسو خشک ہو گئے۔ ایک دفعہ کسی نے ان بی بی کے لیے جونی نام کا ایک حلال پرندہ بھیجا تا کہ وہ اسے کھائیں تو ان کے جسم میں اتنی طاقت آ جائے کہ وہ امام حسین- کو روسکیں جب انہوں نے اس پرندے کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟انہیں بتایا گیا کہ یہ ہدیہ ہے جو فلاں شخص نے آپ کیلئے بھیجا ہے کہ آپ اسے کھائیں اور اس سے آپ کے بدن میں امام حسین- کو رونے کی طاقت آ جائے تب ان بی بی نے فرمایا کہ ہم کسی شادی میں مشغول نہیں ہیں کہ اس طرح کے کھانے کھائیں۔ پھر بی بی نے حکم دیا کہ اس پرندے کو یہاں سے لے جائیں۔

( ۴ )سفر زیارت کے دوران مستحب ہے کہ انسان عاجزی ،انکساری ،خضوع، خشوع اور ذلیل غلام کی طرح راستہ طے کرے۔ پس آج کل جو لوگ جدید ذرائع جیسے ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں سوار ہو کر جاتے ہیں انہیں بطور خاص یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوسرے زائرین پر اپنی بڑائی نہ جتائیں جو بڑی مشقتوں کے ساتھ کر بلا معلی پہنچتے ہیں۔ علمائ کرام نے اصحاب کہف کے حالات میں نقل کیا ہے کہ وہ دقیانوس کے ہم نشین اور وزیر تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے شامل حال ہوئی تو وہ عبادت الہٰی اور اصلاح نفس کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنی بہتری اسی میں دیکھی کہ لوگوں سے کنارہ کشی کر کے ایک غار میں پناہ لیں اور وہاں خدا کی عبادت کیا کریں۔ پس وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے نکل پڑے اور جب تین میل کا فاصلہ طے کر چکے تو ان میں سے ایک جس کا نام تملیخا تھا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اے میرے بھائیو! دنیا کی بادشاہی چلی گئی اور آخرت کی منزل آ پہنچی ہے اب اپنے گھوڑوں سے اترو اور پاپیادہ اللہ کے حضور چلو‘ شاید کہ تم پر رحم فرمائے اور تمہاری کشادگی کی راہ نکالے۔تب وہ گھوڑوں سے اترے اور سات فرسخ ( ۵۲ میل) پیدل سفر کیا جس سے ان کے پائوں زخمی ہو گئے اور ان سے خون بہنے لگا۔ اسی طرح امام حسین- کے زائرین کو بھی اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ وہ اس بات کو سمجھیں کہ وہ اس راستے میں جس قدر تواضع اور انکساری اختیار کریں گے وہ ان کی بلندی کا موجب ہو گی۔ چنانچہ امام حسین- کی زیارت کے آداب کے بارے میں امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ جو شخص امام مظلوم کی زیارت کرنے پاپیادہ جائے تو خدا تعالیٰ اس کے ہر قدم پر ایک ہزار نیکیاں لکھے گا اس کے ایک ہزار گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے ایک ہزار درجے بلند فرمائے گا جب زائر نہر فرات پہنچے تو وہاں غسل کرے اور جوتے اٹھائے ننگے پائوں ایک ذلیل غلام کی طرح حرم مطہر کی طرف روانہ ہو۔

( ۵ )اگر راستے میں دیکھے کہ امام حسین- کے زائر تھکے ہوئے ہیں اور دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں تو جہاں تک ہو سکے ان کی مدد و خدمت کرے اور ان کو منزل پر پہنچانے کی کوشش کرے‘ یاد رہے کہ نہ ان کو کمتر سمجھے اور نہ ہی ان کو نظر انداز کرے۔ شیخ کلینیرحمه‌الله نے معتبر سند کے ساتھ ہارون سے روایت کی ہے کہ میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے وہاں بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ہمارا استخفاف یعنی ہم سے بے پروائی کرتے ہو؟ ان میں سے ایک آدمی جو خراسان کا رہنے والا تھا کھڑا ہو گیا اور عرض کیا ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں اس سے کہ آپ کا یا آپ کے حکم کا استخفاف کریں اور اسے حقیر سمجھیں۔ آپعليه‌السلام نے فرمایا کہ ہاں تم بھی انہی لوگوں میں سے ہو جنہوں نے میری پرواہ نہیں کی اور بے توجہی برتی‘ اس نے کہا میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ آپ کو کمتر گردانوں۔ آپ نے فرمایا تمہارا برا ہو کیا وہ تمہیں نہیں تھے کہ جب ہم حجفہ کے قریب پہنچے تو ایک شخص نے تم سے کہا کہ مجھے تھوڑی دور تک اپنی سواری پر لیے چلو کہ میں تھک گیا ہوں۔ لیکن تم نے اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا اس کی کچھ پروا نہ کی اور آگے نکل آئے۔ پس جو آدمی کسی مومن کو پست سمجھے وہ ہمیں ذلیل و خوار کرتا ہے اور خدائے تعالیٰ کے احترام کو ضائع و برباد کرتا ہے۔

مولف کہتے ہیں: ہم نے تیسرے باب کی پہلی فصل میں آداب زیارت میں سے نویں ادب میں علی بن یقطین کی ایک روایت تحریر کی ہے جو اس مقام سے مناسبت رکھتی ہے۔ پس زائر اسے پڑھے اور اس میں بہترین نصیحت ہے۔ یہ پانچواں ادب جو ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اگرچہ امام حسین- کی زیارت کے لیے خاص نہیں ہے‘ لیکن اس زیارت کے سفر سے بھی اس کا بہت زیادہ تعلق ہے۔ لہذا ہم نے یہاں اس کا ذکر کیا ہے۔

( ۶ )ثقہ جلیل محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میںنے امام محمد باقر - کی خدمت میں عرض کیا کہ جب ہم آپ کے جد بزرگوار امام حسین- کی زیارت کو جائیں تو کیا یہ حج پر جانے کے مترادف نہیں ہے آپ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے ! میں نے عرض کی تو پھر ہمارے لیے وہی امور ضروری ہیں جو حج کے سفر میں ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا! ہاں تم پر لازم ہے کہ اپنے رفیق سفر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘ اچھی بات اور ذکر الہٰی کے سوا کوئی بات نہ کرو‘ تمہارا لباس پاک و پاکیزہ ہونا چاہیے‘ زائر حرم میں جانے سے پہلے غسل کرے اورعاجزی وانکساری کے ساتھ چلے بہت زیادہ نماز یں پڑھے اور محمد و آل محمد پر کثرت سے درود و سلام بھیجے۔ اپنے آپ کو نامناسب و ناروا باتوں اور کاموں سے روکے‘ آنکھوں کو حرام اور شبہ والی چیزوں کی طرف سے بند رکھے‘ پریشان حال برادر مومن کے ساتھ احسان و نیکی کرے اور اگر کسی کے مصارف کم پڑ گئے ہوں تو اس کی مالی امدار کرے اور اپنے مصارف کی رقم خود اس پر تقسیم کر دے‘ تقیہ کرتا رہے کہ دین کی حفاظت تقیہ میں ہے جن چیزوں سے خدائے تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچتا رہے ۔ قسم نہ کھائے اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے کہ جس میں اسے قسم اٹھانا پڑے۔ پس اگر تم ان باتوں پر عمل کرو تو زیارت حسینعليه‌السلام میں تمہیں حج و عمرہ کا ثواب حاصل ہو گا اور تم کو اس شخص کی طرف سے بھی ثواب ملے گا‘ جس کے لیے تم نے اپنا مال خرچ کیااور اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر آئے ہو۔ وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں اپنی رحمت و خوشنودی سے ہم کنار کر دے گا۔

( ۷ ) ابو حمزہ ثمالی نے امام جعفر صادق - سے زیارت امام حسین- کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: زائر جب کر بلا معلی پہنچے تو اپنا سامان اتار دے‘تیل اور سرمہ نہ لگائے گوشت نہ کھائے جب تک وہاں رہے۔

( ۸ )فرات کے پانی سے غسل کرے کہ اس کی فضلیت میںبہت سی روایات آئی ہیں اور امام جعفر صادق - کی ایک حدیث ہے کہ جو شخص فرات سے غسل کر کے امام حسین- کی زیارت کرے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسے اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا۔ اگرچہ گناہ کبیرہ بھی کئے ہوں۔ روایت میں ہے کہ آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اکثر اوقات ہم امام حسین- کی زیارت کو جاتے ہیں۔ لیکن سردی وغیرہ کے باعث غسل نہیں کر پاتے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جو شخص آب فرات سے غسل کر کے امام حسین- کی زیارت کرے اس کے لیے اتنا ثواب لکھا جائے گا جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بشیر دہان سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا کہ جو شخص امام حسین- کی زیارت کو جائے اور آب فرات سے غسل ووضو کر لے تو جتنے قدم اٹھا کر وہاں سے روضہ مبار ک پر جائے اور آئے گا خدائے تعالیٰ ہر قدم پر اس کے لیے ایک حج و عمرہ کا ثواب لکھے گا بعض روایتوں میں ہے فرات کے اس حصے میں غسل کرے جو روضہ امام حسین- کے مقابل ہے اور بہتر یہ ہے۔ جیسا کہ بعض روایتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے جب فرات پر پہنچے تو سو مرتبہ اللہ اکبر اور سو مرتبہ لا الہ الا اللہ اور سو مرتبہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجے۔

( ۹ )جب حائر یعنی روضہ اقدس کے اندر داخل ہونا چاہے تو مشرق والے دروازے سے داخل ہو جیسا کہ امام جعفر صادق - نے یوسف کناسی کو حکم دیا تھا۔

(۱۰)ابن قولویہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق - نے مفضل بن عمر کو کہا کہ اے مفضل! جب تم امام حسین- کے روضہ مبارک کے دروازہ پر پہنچو تو رک جاؤ اور یہ کلمات پڑھنا اگر تم نے یہ کلمات کہے تو ہرکلمے کے بدلے تجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت نصیب ہوگی اور وہ کلمات یہ ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے آدمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے برگزیدہ ہیں آپ پر سلام ہو اے نوحعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے نبی ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراهِیمَ خَلِیلِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے ابراہیمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پر اے موسیٰ کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسَی رُوحِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے عیسیٰعليه‌السلام کے وارث جو روح خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ عَلِیٍّ وَصِیِّ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ الْحَسَنِ

آپ پر سلام ہواے علی کے وارث جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیںآپ پر سلام ہو اے حسنعليه‌السلام کے وارث

الرَّضِیِّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ فاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَ یُّهَا

جو پسندیدہ خدا ہیں‘ آپ پر سلام ہو اے فاطمہعليه‌السلام کے وارث جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی دختر ہیں آپ پر سلام ہو اے وہ

الشَّهِیدُ الصِّدِّیقُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَ یُّهَا الْوَصِیُّ الْبارُّ التَّقِیُّ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْاََرْواحِ

شہید جو صدیق ہے‘ آپ پر سلام ہو اے وہ وصی جو نیک اور پرہیز گار ہے سلام ہو ان روحوں پر

الَّتِی حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَأَناخَتْ بِرَحْلِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَی مَلائِکَةِ ﷲ الْمُحْدِقِینَ بِکَ

جو آپ کے آستانہ پر اتریں اور اپنی سواریاں یہاں باندھیں سلام ہو خدا کے فرشتوں پر جو آپ کے گرد رہتے ہیں

أَشْهَدُ أَ نَّکَ قَدْ أَ قَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَیْتَ الزَّکاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَیْتَ عَنِ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برے

الْمُنْکَرِ وَعَبَدْتَ ﷲ مُخْلِصاً حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

کاموں سے روکا آپ نے خدا کی بندگی کی حتیٰ کہ آپ شہید ہو گئے آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔

اس کے بعد چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے قبر شریف کی طرف چلے تاکہ اسے اس شخص کا ثواب ملے جو خدا کی راہ میں اپنے خون میں غلطاںہو۔ جب قبر مبارک کے قریب پہنچے تو اپنے ہاتھوں کو اس سے مس کرے اور کہے:

السَلَّامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ فِیْ اَرْضِهٰ وَسَمَآئِهٰ

آپ پر سلام ہو اے خدا کی حجت اس کی زمین و آسمان میں۔

اب دو رکعت نماز پڑھے حضرتعليه‌السلام کے قرب میںپڑھی گئی ایک رکعت کے بدلے میں اسے ہزار حج و عمرہ ، ہزار غلاموں کی آزادی اور ہزار مرتبہ پیغمبر اکرم کے ساتھ رہ کر جہاد کرنے کا ثواب ملے گا۔

( ۱۱ )ابو سعید مدائنی کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آیا میں امام حسین- کی زیارت کرنے جائوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہمارے جد رسول ﷲ کے فرزند کی زیارت کو جائو اور جب تم زیارت کرو تو آپ کے سر مبارک کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح امیر المؤمنین- اور پاؤں کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح سیدہ فاطمہ =پڑھنا پھر دو رکعت نماز پڑھنا جس کی پہلی رکعت میں سورہ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ رحمن پڑھنا جب ایسا کروگے تو تمہارے لیئے بہت عظیم اجر ہوگامیں نے عرض کی آپ پر فدا ہو جائوں مجھے امیر المؤمنین- اور سیدہ فاطمہ = کی تسبیح تعلیم فرمائیے کہ وہ کس طرح ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ابو سعید! امیر المومنین- کی تسبیح یہ ہے:

سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَنْفَدُ خَزَائِنُهُ سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَبِیدُ مَعَالِمُهُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ

پاک ہے وہ جس کے خزانے ختم نہیں ہوئے پاک ہے وہ جس کی نشانیاں مٹتی نہیں پاک ہے وہ کہ جو کچھ اس کے پاس ہے

یَفْنی مَا عِنْدَهُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یُشْرِکُ أَحَداً فِی حُکْمِهِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ اضْمِحْلالَ

فنا نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کے حکم میں کوئی اس کا شریک نہیں پاک ہے وہ جس کا افتخار

لِفَخْرِهِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ انْقِطاعَ لِمُدَّتِهِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ إلهَ غَیْرُهُ ۔ اور تسبیح حضرت

کم نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کی بزندگی کا سلسلہ نہیںٹوٹتا پاک ہے وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں

زہرائ = یہ ہے:سُبْحانَ ذِی الْجَلالِ الْبَاذِخِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزِّ الشَّامِخِ الْمُنِیفِ

پاک ہے وہ جو بڑے جلال و بزرگی کا مالک ہے پاک ہے وہ جو بڑی بلند عزت کا مالک ہے

سُبْحانَ ذِی الْمُلْکِ الْفَاخِرِ الْقَدِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْبَهْجَةِ وَالْجَمَالِ سُبْحانَ مَنْ

پاک ہے وہ جو قدیم ملک و افتخار والا ہے پاک ہے وہ جو حسنعليه‌السلام و جمال والا ہے پاک ہے وہ جس نے

تَرَدَّیٰ بِالنُّورِ وَالْوَقارِ سُبْحانَ مَنْ یَریٰ أَ ثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا وَوَقْعَ الطَّیْرِ فِی الْهَوَائِ ۔

نور اور وقارکی ردا پہنی پاک ہے وہ جوپتھر پر چلتی چیونٹی کا نقش پا اور ہوا میں اڑتے پرندے کو دیکھتا ہے۔

(۱۲)اپنی فریضہ و نافلہ نمازیں امام حسین- کے تعویذقبر کے قریب ادا کرے کہ وہاں نماز قبول ہوتی ہے‘ سید ابن طائوس نے فرمایا ہے کہ زائر کوشش کرے کہ حائرحسینی میں اس کی کوئی فریضہ اور نافلہ نماز فوت نہ ہو ۔ کیونکہ روایت میں ہے کہ قبر امام حسین- کے نزدیک فریضہ نماز کا ثواب حج کے برابر اور نافلہ کا ثواب عمرہ کے برابر ہے۔

مؤلف کہتے ہیں:مفضل بن عمر کی روایت میں حائرحسینی میں نماز کے لئے زیادہ ثواب ذکر ہو چکا ہے معتبر روایت میں امام جعفر صادق - سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص امام حسین- کی زیارت کرے اور ان کے قرب میں دو یا چار رکعت نماز بجا لائے تو اس کے نامہ اعمال میں حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز زیارت یا کوئی اور نماز آپ کی قبر مبارک کے پیچھے یا سرہانے کی طرف جہاں بھی ادا کرے بہت بہتر ہے‘ اگر سرہانے کی طرف نماز پڑھنا چاہے تو ذرا پیچھے ہٹ کر پڑھے کہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ ٹھیک قبر کے سامنے نہ ہو کہ اس صورت میں نماز باطل ہوجاتی ہے۔ جبکہ ہمارے بہت سے زائرین اس مسئلے سے لاعلم ہیں امام جعفر صادق - سے ابو حمزہ ثمالی روایت کرتے ہیں کہ حضرت کے سر کی طرف دو رکعت نماز اس طرح بجا لائے کہ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ رحمن پڑھے اگر چاہے تو حضرت کی قبر کے پیچھے بھی نماز پڑھ لے لیکن بالائے سر نماز پڑھنا زہادہ بہتر ہے۔ جب اس نماز سے فارغ ہو جائے تو پھر جو نماز چاہے‘ وہاںبجائے لائے لیکن یہ دو رکعت نماز بجا لانا ضروری ہے ہر اس قبر کے پاس جس کی زیارت کر رہا ہے۔ ابن قولویہرحمه‌الله نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک شخص سے فرمایا: اے فلاں جب تمہیں کوئی حاجت درپیش ہو تو امام حسین- کی قبر شریف کے نزدیک جا کر چاررکعت نماز بجا لائو اور پھر اپنی حاجت طلب کرو۔ کیونکہ وہاں فریضہ نماز کا پڑھنا حج کے برابر اور نافلہ نماز کا پڑھنا عمرہ کے برابر ہے۔

حرم امام حسینعليه‌السلام کے اعمال

( ۱ )جاننا چاہیے کہ حرم امام حسین- میں سب سے بہتر عمل دعا مانگنا ہے کہ آپ کے قبہ مبارک کے نیچے دعا کا قبول ہونا ان خصائص میں سے ہے۔ جو خدا وند کریم نے امام حسین- کو شہادت کے عوض میں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا ہر زائر کو چاہیے کہ وہ اسے غنیمت سمجھے اور وہاں بہت زیادہ توبہ و استغفار اور گریہ و زاری کرے اور اپنی حاجات خداکے سامنے پیش کرے۔اس مقصد کیلئے بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں ‘ اگر اختصار کی مشکل دامن گیر نہ ہوتی تو ہم یہاں ان میں سے چند ایک دعائیں نقل کرتے‘ بہرحال ان میں سب سے بہتر صحیفہ کاملہ کی دعائوں کا پڑھنا ہے اس باب کے آخر میں زیارت جامعہ کے بعد ایک دعا نقل کریں گے جس کو ہر امام کے حرم مبارک میں پڑھا جا سکتا ہے البتہ یہ نہ کہا جائے کہ ہم نے یہاں دعا نہیں لکھی۔

ہم ایک مختصر دعا جو بعض زیارتوں کے ذیل میںنقل ہو چکی ہے وہ یہاں درج کرتے ہیں اور وہ یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ قَدْ تَریٰ مَکَانِی، وَتَسْمَعُ کَلامِی، وَتَریٰ مَقَامِی وَتَضَرُّعِی وَمَلاذِی بِقَبْرِ

اے معبود! تو میری جگہ دیکھ رہا ہے میری بات سن رہا ہے میرا مقام دیکھ رہا ہے میری زاری اورپناہ طلبی کو بھی

حُجَّتِکَ وَابْنِ نَبِیِّکَ، وَقَدْ عَلِمْتَ یَا سَیِّدِی حَوَائِجِی وَلاَ یَخْفیٰ عَلَیْکَ

جو تیری حجت اور تیرے نبی کے فرزند کی قبر کے ذریعے کرتا ہوں تو جانتا ہے اے میرے سردار میری حاجات کو جانتا ہے اور میری

حالِی وَقَدْ تَوَجَّهْتُ إلَیْکَ بِابْنِ رَسُولِکَ وَحُجَّتِکَ وَأَمِینِکَ وَقَدْ أَ تَیْتُکَ مُتَقَرِّباً بِهِ

حالت تجھ سے پوشیدہ نہیں میں تیری طرف متوجہ ہوں تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تیری حجت اور تیرے امین کے ذریعے سے تیرا

إلَیْکَ وَ إلی رَسُو لِکَ فَاجْعَلْنِی بِهِ عِنْدَکَ وَجِیهاً فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ

اور تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قرب چاہتا ہوں پس انکے واسطے سے مجھے اپنے حضور عزت دار بنا دنیا و آخرت میں اور مقربین میں سے قرار دے

وَأَعْطِنِی بِزِیارَتِی أَمَلِی وَهَبْ لِی مُنَایَ وَتَفَضَّلْ عَلَیَّ بِشَهْوَتِی وَرَغْبَتِی وَاقْضِ

پس اس زیارت کے واسطے میری آرزو برلا میری تمنا پوری فرما میری خواہش اور شوق کے مطابق احسان فرما میری

لِی حَوآئِجِی، وَلاَ تَرُدَّنِی خائِباً، وَلاَ تَقْطَعْ رَجائِی، وَلاَ تُخَیِّبْ دُعائِی، وَعَرِّفْنِی

حاجات پوری کر مجھے نا امید نہ پلٹا میری امید نہ توڑ میری دعا کو رد نہ کر میری تمام دعائوں

الْاِجابَةَ فِی جَمِیعِ مَا دَعَوْتُکَ مِنْ أَمْرِ الدِّینِ وَالدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَاجْعَلْنِی مِنْ عِبادِکَ

کو قبول فرما جو میں نے دین و دنیا کے بارے میں اور آخرت سے متعلق تجھ سے مانگی ہیں مجھے اپنے ان بندوں میں

الَّذِینَ صَرَفْتَ عَنْهُمُ الْبَلایا وَالْاََمْراضَ وَالْفِتَنَ وَالْاََعْراضَ مِنَ الَّذِینَ تُحْیِیهِمْ فِی

قرار دے جن سے تو نے مصیبتیں، بیماریاں‘ آزمائشیں اور تکلیفیں دور کیں جن کو امن کی زندگی

عافِیَةٍ وَتُمِیتُهمْ فِی عافِیَةٍ، وَتُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ فِی عافِیَةٍ وَتُجِیرُهُمْ مِنَ النَّارِ فِی عافِیَةٍ

دی ہے اور آسان موت دے گا پھر جنت میں آسائش دے گا اور جہنم سے اچھی طرح پناہ دے گا

وَوَفِّقْ لِی بِمَنٍّ مِنْکَ صَلاحَ مَا أُؤَمِّلُ فِی نَفْسِی وَأَهْلِی وَوُلْدِی وَ إخْوانِی

مجھے بھی اپنی طرف سے بہتری عطا فرما جسکی امید کرتا ہوں اپنے لیے اپنے کنبے کے لیے اپنی اولاد کے لیے اپنے بھائیوں کے لیے

وَمالِی وَجَمِیعِ مَا أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَیَّ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

اور اپنے مال کے لیے اور ان نعمتوں میں اضافہ کر جو مجھے دی ہیں اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

( ۲ )حرم امام حسین- کا ایک اور عمل حضرت پر درود و صلوات کاپڑھنا ہے روایت میں ہے کہ آپ کے کندھے کے برابر کھڑے ہو کر حضرت رسول اور امام حسین- پر درود و صلوات پڑھے سید بن طائوس نے مصباح الزائرین میں ایک زیارت کے ذیل میں آپ کیلئے یہ صلوات ذکر کی ہے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَصَلِّ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِیدِ قَتِیل

اے معبود! محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما اور رحمت فرما حسینعليه‌السلام پر جو شہید مظلوم ہیں

الْعَبَرَاتِ وَأَسِیرِ الْکُرُبَاتِ صَلاةً نَامِیَةً زَاکِیَةً مُبارَکَةً یَصْعَدُ أَوَّلُها وَلاَ یَنْفَدُ آخِرُها

جن پر لوگ روتے ہیں کہ ان پر بڑی سختیاں ہوئیں ان پر وہ پاک اور بابرکت رحمت نازل فرماجو شروع ہی سے بلند ہونے لگے اور

أَفْضَلَ مَا صَلَّیْتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَوْلادِ الْاََ نْبِیائِ وَالْمُرْسَلِینَ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ اَللّٰهُمَّ

کبھی ختم نہ ہونے پائے وہ بہترین رحمت جو تو نے نبیوں اور رسولوں کی اولاد پر کی ہو اے جہانوں کے پروردگار اے معبود!

صَلِّ عَلَی الْاِمامِ الشَّهِیدِ الْمَقْتُولِ الْمَظْلُومِ الْمَخْذُولِ وَالسَّیِّدِ الْقائِدِ وَالْعابِدِ الزَّاهِدِ

اس امام پر رحمت فرما جو شہید ہیں ان کو قتل کیا گیا ان پر ظلم ہوا ان کا ساتھ چھوڑا گیا وہ سردار سالار عبادت گزار قناعت

وَالْوَصِیِّ الْخَلِیفَةِ الْاِمامِ الصِّدِّیقِ الطُّهْرِ الطَّاهِرِ الطَّیِّبِ الْمُبَارَکِ، وَالرَّضِیِّ

کرنے والے وصی وجانشین امام صدیق پاک پاکیزہ نیک بابرکت پسندیدہ

الْمَرْضِیِّ، وَالتَّقِیِّ الْهادِی الْمَهْدِیِّ الزَّاهِدِ الذَّائِدِ الْمُجَاهِدِ الْعالِمِ، إمامِ الْهُدَی،

پسند کردہ پرہیز گار رہبر راہ یافتہ قناعت والے مدافعت کرنے والے جہادکرنے والے صاحب علم ہدایت کے

سِبْطِ الرَّسُولِ وَقُرَّةِ عَیْنِ الْبَتُولِ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی سَیِّدِیوَمَوْلایَ کَما عَمِلَ بِطاعَتِکَ،

امام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے اور بتولعليه‌السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اے معبود! میرے سردار اور میرے مولا پر رحمت نازل فرما جیسا کہ انہوں

وَنَهَیٰ عَنْ مَعْصِیَتِکَ وَبالَغَ فِی رِضْوانِکَ، وَأَ قْبَلَ عَلَی إیمانِکَ

نے تیری اطاعت کی تیری نافرمانی کرنے سے منع کیا تیری رضا مندی میں کوشاں رہے وہ تجھ پر ایمان کی طرف بڑھے

غَیْرَ قابِلٍ فِیکَ عُذْراً سِرَّاً وَعَلانِیَةً یَدْعُو الْعِبادَ إلَیْکَ وَیَدُلُّهُمْ عَلَیْکَ

انہوں نے نہاں و عیاں طور پر تیرے بارے میں عذر نہ مانا لوگوں کو تیری طرف بلاتے اور تیری طرف ان کی رہنمائی

وَقامَ بَیْنَ یَدَیْکَ یَهْدِمُ الْجَوْرَ بِالصَّوابِ، وَیُحْیِی السُّنَّةَ بِالْکِتابِ، فَعاشَ فِی

کرتے رہے وہ تیرے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ظلم کو اچھی طرح مٹایا سنت کو قرآن کے ساتھ ساتھ زندہ کیا تیری رضا میں تنگی کے

رِضْوانِکَ مَکْدُوداً، وَمَضیٰ عَلَی طاعَتِکَ وَفِی أَوْلِیائِکَ مَکْدُوحاً، وَقَضی إلَیْکَ

ساتھ زندگی گزاری اور تیری فرمانبرداری میں دنیا سے اٹھے اورتیرے دوستوں کے ساتھ سختی جھیلی جان سے گزر کر

مَفْقُوداً، لَمْ یَعْصِکَ فِی لَیْلٍ وَلاَ نَهارٍ، بَلْ جاهَدَ فِیکَ الْمُنافِقِینَ وَالْکُفَّارَ اَللّٰهُمَّ

تیرے پاس آئے انہوں نے شب و روز میں تیری نافرمانی نہیں کی بلکہ تیری خاطر منافقوں اور کافروں سے لڑتے رہے اے معبود!

فَاجْزِهِ خَیْرَ جَزائِ الصَّادِقِینَ الْاََ بْرارِ، وَضاعِفْ عَلَیْهِمُ الْعَذابَ وَ لِقاتِلِیهِ الْعِقابَ،

اس امام کو جزا دے بہترین جزا جو نیکو کار سچے لوگوں کے لیے ہے اور ان کے قاتلوں کے عذاب میں اضافہ کرتا رہ کہ امام

فَقَدْ قاتَلَ کَرِیماً، وَقُتِلَ مَظْلُوماً، وَمَضیٰ مَرْحُوماً، یَقُولُ أَ نَا ابْنُ رَسُولِ ﷲ

اچھے انداز سے لڑے اور ظلم سے قتل کیے گئے وہ رحمت پا کر دنیا سے گزرے جب کہہ رہے تھے میں خدا کے رسول

مُحَمَّدٍ وَابْنُ مَنْ زَکّیٰ وَعَبَدَ فَقَتَلُوهُ بِالْعَمْدِ الْمُعْتَمَدِ، قَتَلُوهُ عَلَی الْاِیمَانِ وَأَطَاعُوا

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیٹا ہوں زکوٰۃ دینے والے کا بیٹا ہوںآپ عبادت میں مشغول تھے کہ انہوں نے آپ کو جان بوجھ کر قتل کیا انہوں نے قتل کیا تو

فِی قَتْلِهِ الشَّیْطَانَ، وَلَمْ یُراقِبُوا فِیهِ الرَّحْمَٰنَ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلَی سَیِّدِی وَمَوْلایَ

آپ ایمان پر تھے انہوں نے آپ کے قتل میں شیطان کی اطاعت کی اور خدائے رحمن کا لحاظ نہ کیا اے معبود! میرے آقا اور میرے

صَلاةً تَرْفَعُ بِهَا ذِکْرَهُ وَتُظْهِرُ بِهَا أَمْرَهُ، وَتُعَجِّلُ بِهَا نَصْرَهُ، وَاخْصُصْهُ بِأَفْضَلِقِسَمِ

مولا حسینعليه‌السلام پر رحمت فرما وہ رحمت جس سے انکا ذکر بلند ہو ان کا مقصد عیاں ہو ان کی کامیابی میں جلدی ہو اور ان کو

الْفَضائِلِ یَوْمَ الْقِیامَةِ، وَزِدْهُ شَرَفاً فِی أَعْلَیٰ عِلِّیِّینَ، وَبَلِّغْهُ أَعْلَی شَرَفِ

قیامت کے دن بہترین فضیلتیں دے کر ممتاز فرما مقام اعلیٰ علیین میں ان کامرتبہ بڑھا ان کو عزت داروں میں بڑی عزت دے

الْمُکَرَّمِینَ، وَارْفَعْهُ مِنْ شَرَفِ رَحْمَتِکَ فِی شَرَفِ الْمُقَرَّبِینَ فِی الرَّفِیعِ الْاََعْلَیٰ

ان کو اپنی رحمت سے بزرگی دے کر مقرب لوگوں میں بڑائی عطا کر اور بلند سے بلند مقام پر پہنچا

وَبَلِّغْهُ الْوَسِیلَةَ، وَالْمَنْزِلَةَ الْجَلِیلَةَ، وَالْفَضْلَ وَالْفَضِیلَةَ، وَالْکَرامَةَ الْجَزِیلَةَ

ان کو وسیلے سے ہمکنار کر اور بلند ترمقام سے سرفراز فرما اور ان کو بلندی بڑائی اور ہمیشہ رہنے والی پائیدار بزرگی دے

اَللّٰهُمَّ فَاجْزِهِ عَنَّا أَفْضَلَ مَا جازَیْتَ إماماً عَنْ رَعِیَّتِهِ وَصَلِّ عَلَی سَیِّدِی وَمَوْلایَ

اے معبود! ہماری طرف سے ان کو کسی امام کے پیروکاروں کی طرف سے دی جانے والی بہترین جزا دے اور آقاو مولا پر رحمت فرما

کُلَّما ذُکِرَ وَکُلَّما لَمْ یُذْکَرْ، یَا سَیِّدِی وَمَوْلایَ أَدْخِلْنِی فِی حِزْبِکَ وَزُمْرَتِکَ، وَ

اس وقت جب انہیں یاد کیا جائے اور جب یاد نہ کیا جائے اے میرے سردار میرے مولا مجھے اپنے گروہ اور اپنی جماعت میں داخل

اسْتَوْهِبْنِی مِنْ رَبِّکَ وَرَبِّی فَ إنَّ لَکَ عِنْدَ ﷲ جاهاً وَقَدْراً وَمَنْزِلَةً

فرمائیں اور میرے لیے اپنے اور میرے رب سے بخشش طلب کریں کہ خدا کے ہاں آپ کا مرتبہ بلندہے قدر وشرف والے ہیں

رَفِیعَةً، إنْ سَأَلْتَ أُعْطِیتَ، وَ إنْ شَفَعْتَ شُفِّعْتَ، ﷲ ﷲ فِی عَبْدِکَ وَمَوْلاکَ لاَ

اور اونچا مقام ہے اگر آپ طلب کریں تو عطا کیا جائے گا اگر شفاعت کریں تو قبول ہو گی خدا کے لیے اپنے اس غلام بندے کو نظر

تُخَلِّنِی عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْاََهْوَالِ لِسُوئِ عَمَلِی، وَقَبِیحِ فِعْلِی، وَعَظِیمِ جُرْمِی، فَ إنَّکَ

انداز نہ کریں یعنی مجھے ان مشکلوںاور اندیشوں میں اس لیے نہ چھوڑیں کہ میرا عمل برا کام ناروا اور جرم بڑا ہے کیونکہ

أَمَلِی وَرَجَائِی وَثِقَتِی وَمُعْتَمَدِی وَوَسِیلَتِی إلَی ﷲ رَبِّی وَرَبِّکَ لَمْ یَتَوَسَّلِ

آپ میری امید میری آرزو‘ میرا سہارا میرا بھروسہ اور میرا وسیلہ ہیں خدا کے حضور جو میرا اور آپ کا رب ہے

الْمُتَوَسِّلُونَ إلَی ﷲ بِوَسِیلَةٍ هِیَ أَعْظَمُ حَقّاً، وَلاَ أَوْجَبُ حُرْمَةً، وَلاَ أَجَلُّ قَدْراً

کسی وسیلہ بنانے والے نے ایسا وسیلہ نہیں بنایا جسکا خدا کیطرف سے زیادہ عظیم حق رہا ہو جسکی حرمت واجب ہو اور جسکی شان بلند ہو

عِنْدَهُ مِنْکُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ لاَ خَلَّفَنِیَ ﷲ عَنْکُمْ بِذُنوُبِی، وَجَمَعَنِی وَ إیَّاکُمْ فِی

خدا کے نزدیک سوائے آپکے اے اہلبیتعليه‌السلام اللہ مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے آپ سے جدا نہ کرے اور آپ کیساتھ رکھے جنت کے باغوں

جَنَّةِ عَدْنٍ الَّتِی أَعَدَّها لَکُمْ وَلاََِوْلِیائِکُمْ إنَّهُ خَیْرُ الْغافِرِینَ وَأَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

میں جو اس نے آپ کیلئے تیار کیے اور آپ کے دوستوں کے لیے بے شک وہ بہترین بخشنے والا اور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

اَللّٰهُمَّ أَبْلِغْ سَیِّدِی وَمَوْلایَ تَحِیَّةً کَثِیرَةً وَسَلاماً وَارْدُدْ عَلَیْنا مِنْهُ السَّلامَ إنَّکَ

اے معبود!میرے سردا ر اور مولا کو بہت بہت درود و سلام پہنچا اور ان کی طرف سے ہم پر سلام وارد فرما بے شک

جَوادٌ کَرِیمٌ، وَصَلِّ عَلَیْهِ کُلَّما ذُکِرَ اَلسَّلَامُ وَکُلَّما لَمْ یُذْکَرْ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ

تو دینے والا ہے بڑا سخی اور ان پر رحمت فرما جب ان کا ذکر ہو اور جب ان کا ذکر نہ ہو اے جہانوں کے پروردگار۔

مولف کہتے ہیں:ہم نے اس زیارت کویوم عاشورہ کے اعمال میں ذکر کیا ہے اور ائمہ کیلئے صلوات جو اس باب کے آخر میں نقل کریں گے ان میں ایک مختصر صلوات امام حسین- کے لیے بھی درج کی جائے گی۔ حرم مبارک میں اس کا پڑھنا بھی ترک نہ کرے۔

( ۳ )اس روضہ مقدس کے اعمال میں مظلوم کی ظالم کے خلاف ایک دعا بھی ہے یعنی جو شخص ظالم سے پریشان اور مضطر ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس حرم میں یہ دعا پڑھے جسے، شیخ الطائفہرحمه‌الله نے مصباح المتہجد میں روز جمعہ کے اعمال میں ذکر فرمایا ہے اس دعا کا قبر امام حسین- کے پاس پڑھنا مستحب ہے اور وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَعْتَزُّ بِدِینِکَ، وَأکْرُمُ بِهِدایَتِکَ، وَفُلانٌ یُذِلُّنِی بِشَرِّهِ، وَیُهِینُنِی بِأَذِیَّتِهِ،

اے معبود! مجھے تیرے دین کے ذریعے عزت ملی اور اس روضہ سے شرف ملا لیکن فلاں نے اپنی بدی سے مجھے خوار کیااپنی اذیت سے مجھے رسوا کیا

وَیُعِیبُنِی بِوَلائِ أَوْلِیَائِکَ، وَیَبْهَتُنِی بِدَعْواهُ وَقَدْ جِئْتُ إلی مَوْضِعِ الدُّعَاءِ وَضَمَانِکَ

تیرے اولیائ کی ولایت کے باعث مجھے معیوب کیا اور ناروا باتوں سے مجھے مبہوت کر دیا ہے اب میں دعا مانگنے اس جگہ آیاہوں جہاں پر قبول کرنے کی

الْاِجَابَةَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَعِدْنِی عَلَیْهِ، السَّاعَةَ السَّاعَةَ ۔ پھر خود کو

تو نے ضمانت دی ہے اے معبود! محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما اور مجھے اس ظالم پر غلبہ دے ابھی اسی وقت

قبر شریف پر گرائے اور کہے:مَوْلایَ إمامِی مَظْلُومٌ اسْتَعْدی عَلَی ظَالِمِهِ، النَّصْرَ النَّصْرَ

میرا مولا و امامعليه‌السلام ہے جس پر ظلم ہوا میں ان پر ظلم کرنے والے کی شکایت کرتا ہوں مدد فرما مدد فرما ۔

کلمہ النصرکو اس وقت تک دہرائے جب تک سانس نہ ٹوٹے۔

( ۴ )روضہ امام حسین- کے اعمال میں ایک وہ دعا ہے جسے ابن فہدرحمه‌الله نے عدۃ الداعی میں امام جعفر صادق - سے روایت کیا ہے کہ جو شخص خدا وند عالم سے کوئی حاجت رکھتا ہو تو وہ روضہ امام حسین- پر سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر یہ کہے:

یَا ٲَبا عَبْدِﷲ، ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ تَشْھَدُ مَقَامِی، وَتَسْمَعُ کَلامِی، وَٲَنَّکَ حَیٌّ عِنْدَ رَبِّکَ

اے ابو عبداللہ میںگواہ ہوں کہ آپ میرے کھڑے ہونے کی جگہ کو دیکھ رہے ہیں اورمیری بات سن رہے ہیں آپ اپنے رب کے

تُرْزَقُ،فَاسْأَلْ رَبَّکَ وَرَبِّی فِی قَضَائِ حَوَائِجِی

ہاں زندہ ہیں رزق پاتے ہیں پس اپنے اور میرے رب سے میری حاجات پوری ہونے کی دعا کریں۔

پس اس کی حاجت پوری ہو جائے گی۔

( ۵ ) اس حرم محترم کے اعمال میں دو رکعت نماز ہے جو سر اقدس کے پاس پڑھی جاتی ہے پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ رحمن اور دوسری رکعت میںسورہ حمد کے بعد سورہ ملک پڑھے سید ابن طائوس نے روایت کی ہے کہ جو شخص یہ نماز بجا لائے خدائے تعالیٰ اس کیلئے پچیس حج مقبولہ لکھے گا جو اس نے حضرت رسول کے ہمراہ کیے ہوں۔

( ۶ )اس حرم مبارک کے اعمال میں استخارہ بھی ہے اور اس کی کیفیت جیسا کہ علامہ مجلسیرحمه‌الله نے نقل فرمائی اور اصل روایت قرب الاسناد میں ہے کہ بہ سند صحیح حضرت امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جو شخص قبر امام حسین- کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے کسی مشکل کام میں سو مرتبہ طلب خیر کرے اور کہے:

وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلاَِ الَهَ اِلَّا ﷲ وَسُبْحَانَ ﷲ ۔

اور حمد ہے خدا کیلئے خدا کے سوائ کوئی معبود نہیں اور خدا پاک و پاکیزہ ہے۔

اس کے بعد خدائے تعالیٰ کی بڑائی اور ثنائ کے ساتھ اس کا ذکر کرے اور سو مرتبہ طلب خیر یعنی اپنی بہتری کی دعا کرے تو خدائے تعالیٰ ضرور وہ امر انجام دے گا جو اس شخص کے لیے مفید و بہتر ہو گا‘ ایک روایت میں آیا ہے کہ خدا سے طلب خیر اس طرح کرے۔

اَسْتَخِیْرُ ﷲ بِرَحْمَتِهٰ خِیِّرَةً فِیْ عَافِیَةٍ ۔

خدا سے بہتری کا طالب ہوں اس کی رحمت سے وہ بہتری جس میں آسائش ہو۔

( ۷ )شیخ اجل کامل ابوا القاسم جعفر بن قولویہ قمیرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:جب امام حسین- کی زیارت کیلئے جائے تو خیر اور بھلائی کے سوا کوئی کلام نہ کرے کیونکہ رات دن ملائکہ حفظہ ان فرشتوں کے پاس آتے ہیں جو امام حسین- کے روضہ اقدس پر مقیم ہیں وہ یہاں آ کر ان مقیم فرشتوں سے مصافحہ کرتے ہیں لیکن یہ ان کو شدت گریہ کی وجہ سے جواب نہیں دیتے اوروہ ہر وقت گریہ کرتے رہتے ہیں مگر زوال آفتاب اور طلوع فجر کے وقت خاموش ہوتے ہیں لہذا ملائکہ حفظہ ظہر کا انتظار کرتے ہیں اور طلوع فجر کے ظاہر ہونے تک انتظار کرتے ہیں اور ان دو اوقات میں ان سے کلام کرتے ہیں اور یہ آسمانی معاملات کے متعلق گفتگو کریں لیکن ان دو اوقات کے علاوہ قبر پر مقیم ملائکہ گفتگو نہیں کرتے اور گریہ اور دعا میں مشغول رہتے ہیں ۔ نیز آنجناب ہی سے روایت ہے کہ حق تعالیٰ چار ہزارفرشتے روضہ امام حسین- پر معین کرتا ہے کہ وہ صبح سے ظہر تک بال کھلے غبار آلود ،مصیبت والوں کیطرح گریہ کرتے رہتے ہیں اور ظہر کے وقت دوسرے چار ہزار بھیجے جاتے ہیں جو اگلی صبح تک حضرت پر روتے ہیں اور فرشتوں کے اس طرح بدل کر آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مضمون کی احادیث بہت زیادہ ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین- کے حرم پاک میں آپ پر رونا بڑا پسندیدہ فعل ہے بلکہ اسے اس حرم کے اعمال میں شمار کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ محبان اہلبیتعليه‌السلام کے لیے رنج و غم کی جگہ اور مرثیہ پڑھنے کا مقام ہے ایک حدیث میں صفوان نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملائکہ کا خدا کی بارگاہ میں اس طرح گریہ کرنا دراصل امیر المومنین- اور امام حسین- کے قاتلوں پر لعنت کرنے کے مترادف ہے ‘ اسی طرح جنات کے نوحہ کرنے اورامام حسین- کی ضریح کے اردگرد موجود ملائکہ کے گریہ کرنے اور اس قدر غم زدہ حال میں ہونے کی حالت کو اگر کوئی شخص دیکھ لے تو وہ کھانا پینا اور سونا چھوڑ دے۔ عبد اللہ بن حماد بصری نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے مجھ سے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ بعض اہل کوفہ اور دیگر مقامات کے لوگوں میں مرد و زن کی ایک تعداد ۵۱ شعبان کو قبر امام حسین- پر آکر بعض قرآن خوانی کرتے ہیں‘ بعض امام حسین- کی مصیبتوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان پر نوحہ و مرثیہ پڑھتے ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں آپ پر قربان ہو جائوں واقعاً ایسا ہی ہوتا ہے اور خود میں نے بھی ان چیزوں کو دیکھا ہے تب آپ نے فرمایا: حمد ہے ذات کر دگار کے لیے کہ جس نے لوگوں میں ایسے افراد پیدا کیے ہیں جو ہمارے پاس آتے ہیں ہماری مدح کرتے ہیں اور ہم پر نوحہ کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں پر لعن طعن کرتے ہیں ان کے فعل کو برا سمجھتے ہیں اور اس پر انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں اسی حدیث کے آغاز میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے افراد بھی ہیں جو امام حسین- کی زیارت کو جاتے ہیں اور ان پر روتے ہیں ان میں سے جو حضرت کی زیارت کو نہیں جاتا وہ بھی ان کی مصیبتوں پر رنجیدہ ہوتا ہے اور جب آپ کو یاد کرتا ہے تومارے غم کے اس کا دل جلتا ہے زیارت کو گیا ہوا شخص جب آپ کے فرزند کی قبر کو دیکھتا ہے جو آپ کی پائنتی میں واقع ہے تو وہ یاد کرتا ہے کہ آپ کا یہ فرزند صحرا میں پڑا ہے لوگوں نے ان کا حق غصب کیا اور چند کافر و مرتد افراد نے باہم مل کر ان کو شہید کر دیا اور انہیں دفن تک نہیں کیا فرات کا پانی ان پر بند کیا جب کہ جنگلی جانور اس سے سیراب ہوتے رہے اس طرح انہوں نے ان کے حق کو پامال کیا اور حضرت رسول کے حق اور وصیت کو ضائع کیا جو آنحضرت نے اپنے اہلبیعليه‌السلام ت کیلئے کی تھی (مدعا یہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اہل بیت کے حقوق کو پہنچانتے ہیں اور نہ پہنچاننے والے بھی موجود ہیں)۔

نیز ابن قولویہرحمه‌الله نے حارث اعور سے روایت کی ہے کہ حضرت امیر المومنین- نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں حضرت امام حسین- پر کہ جو پشت کوفہ میں شہید ہوں گے قسم بخدا گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بیابان کے حیوان شام سے صبح تک ان کی قبر کے اردگرد جمع ہو کر ان پر گریہ کر رہے ہیں:

پس جب یہ صورت ہے تو تمہیں ان پر جفا نہ کرنا چاہیے۔

( ۸ )سید بن طائوس نے فرمایا: مستحب ہے کہ جب زائر آنجناب کی زیارت سے فارغ ہو کر باہر آنا چاہے تو خود کو ضریح مبارک سے لپٹائے اس پر بوسہ دے اور کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَفْوَةَ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے میرے مولا آپ پر سلام ہواسے خدا کی حجت آپ پر سلام ہو اے خدا کے پسند یدہ

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَالِصَةَ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا قَتِیلَ الظَّمائِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا غَرِیبَ

آپ پر سلام ہو اے خدا کے مقرب خاص آپ پر سلام ہو اے تشنہ لب مقتول آپ پر سلام ہو اے تنہائوں سے

الْغُرَبائِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ سَلامَ مُوَدِّعٍ لاَ سَئِمٍ وَلاَ قَالٍ، فَ إنْ أَمْضِ فَلا عَنْ مَلالَةٍ وَ

تنہا آپ پر سلام ہواس وداع کرنے والے کا جو نہ تھکا ہے نہ اکتایا ہے پس اگر میں جائوں تو ا س کی وجہ کوئی رنج نہیں اور اگر ٹھہروں

إنْ أُقِمْ فَلا عَنْ سُوئِ ظَنٍّ بِما وَعَدَ ﷲ الصَّابِرِینَ، لاَ جَعَلَهُ ﷲ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّی

تو مجھے کوئی بدگمانی نہیں اس وعدے پر جو خدا نے صابروں سے کررکھا ہے خدا اس زیارت کو میرے لیے آپ کی آخری

لِزِیارَتِکَ ، وَرَزَقَنِیَ ﷲ الْعَوْدَ إلی مَشْهَدِکَ، وَالْمَقامَ بِفِنائِکَ، وَالْقِیامَ فِی حَرَمِکَ،

زیارت قرار نہ دے اور خدا مجھے نصیب کرے آپکی زیارت گاہ پر دوبارہ آنا آپکے آستان پر حاضر ہونا اور آپکے حرم میں قیام کرنا

وَ إیَّاهُ أَسْأَلُ أَنْ یُسْعِدَنِی بِکُمْ، وَیَجْعَلَنِی مَعَکُمْ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ

اور اس سے سوال کرتا ہوںکہ مجھے آپ کے وسیلے سے خوش بخت بنائے اور دنیاو آخرت میں مجھ کو آپ کے ساتھ رکھے ۔

تیسرا مقصد

کیفیت زیارت امام حسین- و حضرت عباس-

واضح رہے کہ حضرت امام حسین- کی جو زیارات نقل ہوئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ان میں سے پہلی قسم وہ ہیں جن کے پڑھنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے انسان انہیں جس وقت چاہے پڑھ سکتا ہے ان کو زیارات مطلقہ کہا جاتا ہے دوسری قسم وہ زیارات ہیں جن کے پڑھنے کا مخصوص دن اور وقت مقرر ہے ان کو زیارات مخصوصہ کا نام دیا گیا ہے۔ان زیارتوں کا تذکرہ تین مطالب کے ضمن میں آرہا ہے ۔

پہلا مطلب

امام حسین- کی زیارات مطلقہ

یہاں امام حسین- کی بہت سی زیارات مطلقہ منقول ہیں ہم چند ایک کے تذکرے پر اکتفا کریں گے ۔

پہلی زیارت

شیخ کلینیرحمه‌الله نے کافی میں حسین بن ثویر سے روایت کی ہے کہ وہ کہہ رہے تھے میں یونس بن ظبیان،مفضل بن عمر اور ابو سلمہ سراج امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر تھے یونس بن ظبیان اور میرے درمیان گفتگو ہو رہی تھی جو عمر میں ہم سے بڑے تھے، انہوں نے امام کی خدمت میں گزارش کی کہ آپ پر قربان جائوں! کبھی کبھار میں بنی عباس کی مجلس میں جا بیٹھتا ہوں لہذا اس وقت مجھ کو کیا پڑھنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ جب تم انکے ہاں جائو اور وہاں ہمیں یاد کرو تو یہ پڑھو:

اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الرَّخَآئَ وَالسُّرُوْرَ

اے معبود! ہمیں آسائش و مسرت کا وقت دکھا۔

تاکہ جو ثواب تم چاہتے ہو وہ ہماری رجعت میں حاصل کر لو‘ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہو جائوں! میں امام حسین- کو بہت یاد کرتا ہوں، اس وقت مجھے کیا پڑھنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ اس وقت یہ پڑھا کرو:

صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ ﷲں

خدا رحمت کرے آپ پر اے ابو عبداعليه‌السلام للہ۔

کیونکہ امامعليه‌السلام پر دور و نزدیک سے سلام پہنچ جاتا ہے پھر ارشاد فرمایا کہ جس زمانے میں امام حسین- کو شہید کیا گیا تو آپ پر سات آسمانوں‘ سات زمینوں اور ہراس شے نے گریہ کیا جو، ان میں ہے اور جو ان کے درمیان ہے نیز جو چیزیں جنت میں اور جو جہنم میں خلق کی گئی ہیں حتیٰ کہ جو چیزیں دیکھی جا سکتی ہیںاور جو چیزیں نہیں دیکھی جا سکتیں سب نے آپ پر گریہ و بکا کی سوائے تین چیزوں کے جنہوں نے آپ پر گریہ نہیں کیا میںنے عرض کی آپ پر قربان ہو جائوں! وہ کون سی تین چیزیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بصرہ ، دمشق اور آل عثمان ہیں اسکے ساتھ ہی میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جائوں! میں امام حسین- کی زیارت کو جانا چاہتا ہوں تو وہاں جا کر کیا کروں اور کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا کہ جب آنجنابعليه‌السلام کی زیارت کو جائو تو پہلے دریائے فرات پر غسل کرو‘ پاکیزہ لباس پہنو اور حرم پاک کی طرف ننگے پائوں چلو کہ تم خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرموں میں سے ایک حرم کی طرف جا رہے ہو‘ حرم کی جانب جاتے ہوئے بار بار یہ پڑھتے ہوئے چلو:

ﷲ اَکْبَرُ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲ وَ سُبْحَانَ ﷲ

خدا بزرگتر ہے اور خدا کے سوائ کوئی معبود نہیںخدا پاک و منزہ ہے ۔

اس کے علاوہ ہروہ ذکر دہرائو جس میں خدائے تعالیٰ کی بزرگی اور بڑائی کا بیان ہو‘ نیز محمد و آل محمد پر درود بھیجتے جائو یہاں تک کہ حرم حسینی کے دروازے پر پہنچ جائو پس اس وقت یہ کہو:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ وَ ابْنَ حُجَّتِهٰ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا مَلآئِکَةَ ﷲ وَ زُوَّارِقَبْرِ

آپ پر سلام ہو اے حجت خدا کے فرزند سلام ہوتم پر اے خدا کے فرشتواور نبی خدا کے فرزند کی قبر

ابْنِ نَبِیِّ ﷲ اسکے بعد دس قدم چل کر رک جائو اور تیس بار یہ کہو: ﷲ اَکْبَرُ پھر قبر مبارک کی طرف جاؤ

پر حاضری دینے والو خدا بزرگتر ہے۔

قبلہ کو اپنے دونوں کندھوں کے درمیان قرار دو یعنی پشت قبلہ کھڑے ہو جاؤ اور اپنا چہرہ قبر مبارک کی طرف کر کے پڑھو :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ وَابْنَ حُجَّتِهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا قَتِیلَ ﷲ وَابْنَ قَتِیلِهِ

آپ پر سلام ہو اے حجت خدا اور حجت خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے کشتہ راہ خدا اور کشتہ راہ خدا کے فرزند

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثَارَ ﷲ وَابْنَ ثَارِهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وِتْرَ ﷲ الْمَوْتُورَ فِی

آپ پر سلام ہوجن کے خون کا بدلہ خدا لے گا اور ایسے خون والے کے فرزند آپ پر سلام ہو اے مقتول راہ خدا کہ آپ کا خون

السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ أَشْهَدُ أَنَّ دَمَکَ سَکَنَ فِی الْخُلْدِ وَاقْشَعَرَّتْ لَهُ أَظِلَّةُ الْعَرْشِ

آسمانوں اور زمین پر برسا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا خون بہشت میں ٹھہرا جس سے عرش کے پردے لرزنے لگے

وَبَکَیٰ لَهُ جَمِیْعُ الْخَلائِقِ وَبَکَتْ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْاََرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِیهِنَّ

اس خون پر کائنات روئی اور اس پر ساتوں آسمان ساتوں زمینیں روئیں اور جو کچھ ان میں ہے

وَمَا بَیْنَهُنَّ، وَمَنْ یَتَقَلَّبُ فِی الْجَنَّةِ وَالنَّارِ مِنْ خَلْقِ رَبِّنا، وَمَا یُریٰ وَمَا لاَ یُریٰ

اور جو ان کے درمیان ہے اور جو کچھ جنت و جہنم میں حرکت کرتا ہے وہ رویا ہمارے رب کی مخلوق سے وہ نظر آتا ہے یا نطر نہیں آتا

أَشْهَدُ أَنَّکَ حُجَّةُ ﷲ وَابْنُ حُجَّتِهِ، وَأَشْهَدُ أَنَّکَ قَتِیلُ ﷲ وَابْنُ قَتِیلِهِ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حجت خدا اور حجت خدا کے فرزند ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کشتہ راہ خدا ور کشتہ راہ خدا کے فرزند ہیں

وَأَشْهَدُ أَنَّکَ ثارُ ﷲ وَابْنُ ثارِهِ، وَأَشْهَدُ أَنَّکَ وِتْرُ ﷲ الْمَوْتُورُ فِی السَّمٰوَاتِ

میں گواہی دیتا ہوں خدا آپکے اور آپکے والد کے خون کا بدلہ لے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ راہ خدا کے مقتول ہیں جسکا خون آسمانوں

وَالْاََرْضِ، وَأَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَنَصَحْتَ وَوَفَیْتَ وَأَوْفَیْتَ، وَجاهَدْتَ فِی سَبِیلِ

اور زمینوں میں برسا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے تبلیغ فرمائی خیر اندیشی کی آپ نے وفا کی حق ادا کیا اور خدا کی راہ میں پوری

ﷲ، وَمَضَیْتَ لِلَّذِی کُنْتَ عَلَیْهِ شَهِیداً وَمُسْتَشْهِداً وَشاهِداً وَمَشْهُوداً أَنَا عَبْدُﷲ

طرح جہاد کیا آپ اس ذات کے مطیع رہے جس پر آپ گواہ رہے اس پر گواہی لیتے رہے اسکے شاہد ہیں اور مشہود تھے میں خدا کا بندہ ہوں

وَمَوْلاکَ وَفِی طاعَتِکَ وَالْوافِدُ إلَیْکَ أَلْتَمِسُ کَمالَ الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ ﷲ، وَثَباتَ

آپکا محب ہوں آپکی خدمت میں حاضر ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ میں خدا کے ہاں بلند مرتبے کی خواہش رکھتا ہوںآپ کی طرف

الْقَدَمِ فِی الْهِجْرَةِ إلَیْکَ، وَالسَّبِیلَ الَّذِی لاَ یَخْتَلِجُ دُونَکَ مِنَ الدُّخُولِ فِی کِفالَتِک

سفر کرنے میں ثابت قدمی چاہتا ہوں اور وہ راستہ پانا چاہتا ہوں جس میں آپ کی قربت اور کفالت

الَّتِی أُمِرْتَ بِها مَنْ أَرادَ ﷲ بَدَأ بِکُمْ، بِکُمْ یُبَیِّنُ ﷲ الْکَذِبَ

کے حصول میں رکاوٹ نہ ہو جس کا آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ خدا اپنا ارادہ آپ کے ذریعے ظاہر کرتا ہے آپ کے ذریعے جھوٹ کو

وَبِکُمْ یُبَاعِدُ ﷲ الزَّمَانَ الْکَلِبَ، وَبِکُمْ فَتَحَ ﷲ، وَبِکُمْ

آشکار کرتا ہے آپ کے وسیلے سے خدا نے برے وقت سے نجات دی خدا نے آپ کے ذریعے ﷲ نے افتتاح کیااور آپ ہی پر

یَخْتِمُ ﷲ، وَبِکُمْ یَمْحُو مَا یَشائُ وَیُثْبِتُ، وَبِکُمْ یَفُکُّ الذُّلَّ مِنْ رِقابِنا، وَبِکُمْ یُدْرِکُ

اختتام کریگا آپکے ذریعے جو چاہے لکھتا اور مٹاتا ہے اور آپ کے وسیلے سے ہمیں ذلت سے نکالتا ہے اور آپکے وسیلے سے ہی خدا

ﷲ تِرَةَ کُلِّ مُؤْمِنٍ یُطْلَبُ بِها وَبِکُمْ تُنْبِتُ الْاََرْضُ أَشْجارَها وَبِکُمْ تُخْرِجُ الْاََرْضُ

ہر مومن کے خون ناحق کا بدلہ لیتا ہے اور آپ کے وسیلے سے زمین درختوں کو اگاتی ہے آپ ہی کے وسیلے سے زمین اپنے خزانے

ثِمارَها وَبِکُمْ تُنْزِلُ السَّمائُ قَطْرَها وَرِزْقَها، وَبِکُمْ یَکْشِفُ ﷲ الْکَرْبَ، وَبِکُمْ

ظاہر کرتی ہے آپکے وسیلے سے آسمان سے بارش اور رزق نازل ہوتا ہے آپکے وسیلے سے خد امصیبت دور کرتا ہے آپکے وسیلے سے

یُنَزِّلُ ﷲ الْغَیْثَ، وَبِکُمْ تُسَبِّحُ الْاََرْضُ الَّتِی تَحْمِلُ أَبْدانَکُمْ وَتَسْتَقِرُّ جِبَالُها عَلَی

خدا بارش برساتا ہے اور آپکے وسیلے سے زمین تسبیح کرتی ہے جس نے آپکے بدن اٹھا رکھے ہیں آپ کے ذریعے پہاڑ اپنی قرار گاہ پر

مَراسِیها إرادَةُ الرَّبِّ فِی مَقادِیرِ أُمُورِهِ تَهْبِطُ إلَیْکُمْ وَتَصْدُرُ مِنْ بُیُوتِکُمْ وَالصَّادِرُ

قائم ہیں خدا کا ارادہ اس کے امور کی تقدیر میں ہے جو تمہاری طرف آتے ہیں اور تمہارے گھروں میں صادر ہوتے ہیں

عَمَّا فُصِّلَ مِنْ أَحْکامِ الْعِبادِ، لُعِنَتْ أُمَّةٌ قَتَلَتْکُمْ، وَأُمَّةٌ

اور وہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں جو خدا بندوں کے بارے میں کرتا ہے لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپکو قتل کیا لعنت ہو اس گروہ پر جو

خالَفَتْکُمْ، وَأُمَّةٌ جَحَدَتْ وِلایَتَکُمْ، وَأُمَّةٌ ظَاهَرَتْ عَلَیْکُمْ، وَأُمَّةٌ

آپ کا مخالف ہوا لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ کی ولایت کو نہ مانا لعنت ہو اس گروہ پر جو آپ کے دشمن کا معاون بنا لعنت ہو

شَهِدَتْ وَلَمْ تُسْتَشْهَدْ، الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی جَعَلَ النَّارَ مَأْوَاهُمْ، وَبِئْسَ وِرْدُ

اس گروہ پر جو وہاں موجود تھا اور آپکے ساتھ شہید نہ ہوا تعریف اس خدا کیلئے ہے جس نے جہنم میں ان کا ٹھکانہ بنایا اور وہ آنے والوں

الْوَارِدِینَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ ۔ پھر تین مرتبہ کہے:صَلَّیٰ

کے لئے کتنی بری جگہ ہے اور وہاں آنا کتنا برا ہے پس حمد خدا کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے خدا کی

ﷲ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِﷲ تین مرتبہ یہ کہے:اِنَّا اِلیٰ ﷲ مِمَّنْ خَالَفَکَ بَرِیٌ ۔

رحمت ہو آپ پر اے ابو عبدعليه‌السلام ﷲ میں خدا کے سامنے الگ ہوں آپکے مخالف سے ۔

اس کے بعد امام حسین- کے فرزند جناب علی اکبرعليه‌السلام کی قبر شریف کی طرف جائے جو آپ کے پائوں کی جانب ہے ‘ وہاں کھڑے ہو کر یہ زیارت پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

سلام ہوآپ پر اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے امیر المومنینعليه‌السلام کے فرزند آپ پر سلام ہو

یَابْنَ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ خَدِیجَةَ وَفاطِمَةَ، صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ،

اے حضرات حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام کے فرزند سلام ہو آپ اے خدیجہ الکبری و فاطمہعليه‌السلام کے فرزند خدا رحمت کرے آپ پر

صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ، لَعَنَ ﷲ مَنْ قَتَلَکَ اس فقرے کو بھی تین مرتبہ دہرائے

خدا رحمت کرے آپ پر خدا رحمت کرے آپ پر، خدا لعنت کرے آپ کے قاتل پر۔

اور پھر تین مرتبہ کہے:أَنَا إلَی ﷲ مِنْهُمْ بَرِیئٌ ۔

میں خدا کے سامنے ان سے بری ہوں۔

اس کے بعد گنج شہیداں میں شہدا کی طرف اشارہ کر کے انکی زیارات اسطرح پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ، فُزْتُمْ وَﷲ، فُزْتُمْ وَﷲ، فُزْتُمْ

سلام ہو تم پر سلام ہو تم سب پر سلام ہو تم پر کہ تم کامیاب ہوئے بخدا تم کامیاب ہوئے بخدا تم کامیاب ہوئے

وَﷲ، فَلَیْتَ أَ نِّی مَعَکُمْ فَأَ فُوزَ فَوْزاً عَظِیماً

بخدااگر میں بھی تمہارے ساتھ ہوتا تو مجھے بھی عظیم کامیابی نصیب ہوتی ۔

پھر امام حسین- کی ضریح مبارک پر آئے اور اسکی پشت کیطرف کھڑے ہو کر چھ رکعت نماز زیارت اداکرے یعنی دو رکعت نماز زیارت امام حسین- دو رکعت نماز زیارت جناب علی اکبرعليه‌السلام اور دو رکعت نماز زیارت شہدائ رضوان اللہ علیہم کیلئے ادا کرے پس یہ نماز ادا کرنے سے زیارت کے اعمال مکمل ہو جائینگے‘ اسکے بعد چاہے واپس چلا جائے اور چاہے تو وہاں چند روز مزیدقیام کرے۔

مؤلف کہتے ہیں شیخ طوسیرحمه‌الله نے تہذیب الاحکام میں اور شیخ صدوقرحمه‌الله نے من لا یحضرہ الفقیہ میں یہ زیارت نقل کی ہے شیخ صدوقرحمه‌الله نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے مقتل اور مزار کی کتاب میں کئی ایک زیارتیں نقل کی ہیں لیکن یہاں یہ زیارت اس لیے درج کی ہے کہ یہ سند کے اعتبار سے دیگر زیارتوں کی نسبت زیادہ معتبر ہے اور میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔

دوسری زیارت

شیخ کلینیرحمه‌الله نے امام علی نقی - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا امام حسین- کی قبر شریف کے پاس یہ زیارت پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ فِی أَرْضِهِ وَشَاهِدَهُ عَلَی

آپ پر سلام ہو اے ابو عبد اللہ آپ پر سلام ہو اے خدا کی زمین پر اس کی حجت اور اس کی مخلوق پر

خَلْقِهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ عَلِیٍّ الْمُرْتَضی اَلسَّلَامُ

اس کے گواہ آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند آپ پر سلام ہواے علی مرتضیعليه‌السلام کے فرزند آپ پر

عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْرائِ، أَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ أَ قَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَیْتَ الزَّکاةَ، وَأَمَرْتَ

سلام ہو اے فاطمہعليه‌السلام زہرا کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی زکوٰۃ دی نیک کاموں کا

بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَجاهَدْتَ فِی سَبِیلِ ﷲ حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ فَصَلَّی

حکم دیا اور برے کاموں سے روکا اور آپ خدا کی راہ میں مصروف جہادرہے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے پس آپ پر خدا

ﷲ عَلَیْکَ حَیّاً وَمَیِّتاً ۔ پھر قبر مبارک پر دایاں رخسار رکھے اور کہے:أَشْهَدُ أَ نَّکَ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ

رحمت کرے دوران زندگی اور بعد موت میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اپنی روش میں اپنے رب کی روشن دلیل

رَبِّکَ، جِیْتُ مُقِرّاً بِالذُّنُوبِ لِتَشْفَعَ لِی عِنْدَ رَبِّکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ ۔پھر ائمہ اطہار کا

پر ہیں میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے حاضر ہوں کہ آپ اپنے رب کے حضور میری سفارش کریں اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا

نام لے اور کہے:أَشْهَدُ أَ نَّکُمْ حُجَجُ ﷲ ۔ پھر کہے:اکْتُبْ لِی عِنْدَکَ مِیثاقاً وَعَهْداً إنِّی

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سب خدا کی حجت ہیں۔ آپ میرے لیے اپنے ہاںاقرار و پیمان لکھیں کہ میں حاضر

أَتَیْتُکَ مُجَدِّداً الْمِیثاقَ فَاشْهَدْ لِی عِنْدَ رَبِّکَ إنَّکَ أَنْتَ الشَّاهِدُ ۔

ہوا پیمان تازہ کرنے کے لیے پس آپ اپنے رب کے حضور میرے گواہ بنیں کیونکہ آپ ہی میرے گواہ ہیں۔

تیسری زیارت

یہ ایک مختصر زیارت ہے جسے سید بن طائوسرحمه‌الله نے مزار میں نقل کیا اور فرمایا ہے کہ اس زیارت کی فضلیت بہت زیادہ ہے‘ جابر جعفیرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:تمہارے اور امام حسین- کی قبر مبارک کے درمیان کس قدر فاصلہ ہے؟ میں نے عرض کی کہ ایک دن کی مسافت سے کچھ زیادہ ہے! آپ نے فرمایا کیا تم آنجناب کی زیارت کرنے جایا کرتے ہو؟ میں نے عرض کی کہ ہاںجاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا میں تجھے اس کے ثواب کی خوشخبری نہ دوں؟ میں نے عرض کی ہاں میں آپ پر فدا ہو جائوں بشارت دیجئے! آپ نے فرمایا کہ بے شک جب تم میں سے کوئی شخص امام حسین- کی زیارت کیلئے تیار ہوتا ہے تو آسمان میں فرشتے ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں جب وہ سوار یا پیادہ اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو حق تعالیٰ ایک ہزار فرشتے اس پر مقرر کرتا ہے جو روضہ امام حسین- پر پہنچنے تک اس کے لیے طلب رحمت کرتے رہتے ہیں پھر فرمایا کہ جب وہ شخص روضہ امام حسین- کے دروازے پر پہنچتا ہے تو وہاں کھڑے ہو کر یہ کلمات زبان سے ادا کرتاہے تو خدائے تعالیٰ ہر کلمے کے بدلے میں اس پر رحمت بھیجتا ہے، میں نے عرض کی کہ وہ کلمات کون سے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ کلمات یہ ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے آدمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے چنے ہوئے ہیں آپ پر سلام ہو اے نوحعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے نبی ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ إبْراهِیمَ خَلِیلِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ مُوسی کَلِیمِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے ابراہیمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پراے موسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسی رُوحِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ رُسُلِ

آپ پر سلام ہو اے عیسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کی روح ہیں سلام ہوآپ پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث جو خدا کے رسولوں کے

ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیٍّ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَخَیْرِ الْوَصِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

سردار ہیں سلام ہو آپ پر اے علیعليه‌السلام کے وارث جو مومنوں کے امیر اور اوصیائ میں سب سے بہتر ہیں آپ پر سلام ہو

یَا وارِثَ الْحَسَنِ الرَّضِیِّ الطَّاهِرِ الرَّاضِی الْمَرْضِیِّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ

اے حسنعليه‌السلام کے وارث جو پسندیدہ پاک راضی شدہ پسندیدہ ہیں آپ پر سلام ہوکہ آپ ہی صدیق

الْاََکْبَرُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَ یُّهَا الْوَصِیُّ الْبَرُّ التَّقِیُّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی الْاََرْواحِ الَّتِی

اکبر ہیں آپ پر سلام ہو اے وصی جو نیک کردارپرہیز گار ہیں سلام ہو آپ پر اور ان روحوں پر جو آپ کے آستانے پر

حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَأَناخَتْ بِرَحْلِکَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی الْمَلائِکَةِ الْحَافِّینَ بِکَ أَشْهَدُ

حاضر ہوتی ہیں اور یہاں اپنی سواریاں کھڑی کرتی ہیں سلام ہو آپ پر اور ان فرشتوں پر جو آپکے گرد رہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں

أَنَّکَ قَدْ أَقَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ،

کہ آپ نے نماز قائم کی زکوٰۃ ادا کی ہے نیک کاموں کا حکم فرمایا اور برے کاموں سے منع کیا

وَجاهَدْتَ الْمُلْحِدِینَ، وَعَبَدْتَ ﷲ حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ

آپ نے بے دینوں سے جہاد کیا اور خدا کی بندگی میں رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت

ﷲ وَبَرَکاتُهُ

ہو اور اس کی برکات ہوں۔

پھر ضریح مبارک کی طرف چلے کہ اس کے اٹھائے جانے اور رکھے جانے والے ہر قدم کے بدلے میں اس کو ایسے شہید راہ خدا کا ثواب ملے گا جو اپنے خون میں غلطان ہو جب ضریح پاک کے قریب پہنچے تو رک جائے اور اپنا ہاتھ قبر شریف سے مس کرتے ہوئے یہ کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ فِیْ اَرْضِهٰ

آپ پر سلام ہو اے خدا کی زمین پر اس کی حجت۔

اسکے بعد نماز پڑھے کہ وہاں بجا لائی گئی ہر رکعت کے عوض اسے اس شخص جتنا ثواب ملے گا جو ہزار حج و عمرہ بجا لا چکا ہو ہزار غلام آزاد کیا ہو اور کسی پیغمبر مرسل کے ہمراہ رہ کر ہزار مرتبہ جہاد کیا ہو تھوڑے سے فرق کیساتھ اس روایت کا مضمون مفضل بن عمر کی روایت میں ذکر ہو چکا ہے۔

چوتھی زیارت

معاویہ بن عمار سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے عرض کی کہ جب میں امام حسین- کی زیارت کرنے جائوں تو وہاں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا کہ جب تم حضرت کی قبر مبارک پر جائو تو وہاںیہ زیارت پڑھو:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ رَحِمَکَ ﷲ یَا أَبا عَبْدِ

آپ پر سلام ہو اے ابو عبداعليه‌السلام ﷲ خدا آپ پر درود بھیجے اے ابو عبدﷲعليه‌السلام خدا آپ پر رحمت فرمائے اے ابو عبد

ﷲ، لَعَنَ ﷲ مَنْ قَتَلَکَ، وَلَعَنَ ﷲ مَنْ شَرِکَ فِی دَمِکَ، وَلَعَنَ ﷲ مَنْ

ﷲ، خدا لعنت کرے اس پر جس نے آپ کو قتل کیا خدا لعنت کرے اس پر جو آپ کا خون بہانے میں شریک ہواخدا لعنت کرے اس

بَلَغَهُ ذلِکَ فَرَضِیَ بِهِ، أَنَا إلَی ﷲ مِنْ ذلِکَ بَرِیئٌ

پر جو آپ کی شہادت کا سن کر خوش ہوا میں خدا کے سامنے اس جرم سے اظہار بے زاری کرتا ہوں۔

پانچویں زیارت

معبتر سند سے نقل ہوا ہے کہ امام موسیٰ کاظم - نے ابراہیم بن ابی البلاد سے فرمایا کہ جب تم امام حسین- کی زیارت کو جاتے ہو تو وہاں کیا پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں یہ کہا کرتا ہوں:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ أَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ أَقَمْتَ

آپ پر سلام ہو اے ابو عبداعليه‌السلام للہ آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ خدا کے فرزند میں گواہی دیتا ہوںکہ آپ نے نماز

الصَّلاةَ وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَدَعَوْتَ إلی سَبِیلِ

قائم کی زکوٰۃ ادا کی ہے آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع فرمایا آپ نے لوگوں کو اپنے رب کے راستے

رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، وَأَشْهَدُ أَنَّ الَّذِینَ سَفَکُوا دَمَکَ وَاسْتَحَلُّوا

کی طرف بلایا دانشمندی اور بہترین نصیحت کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں یقیناً ان لوگوں نے آپ کا خون بہایا اور آپ کی

حُرْمَتَکَ مَلْعُونُونَ مُعَذَّبُونَ عَلَی لِسانِ داوُدَ وَعِیسَی بْنِ مَرْیَمَ ذلِکَ بِما عَصَوْا

بے احترامی کی وہ لعنتی اورعذاب والے ہیں دائودعليه‌السلام اورعیسیٰعليه‌السلام بن مریم(س) کی زبان مبارک پر نافرمانی

وَکانُوا یَعْتَدُونَ ۔اس پر حضرت نے فرمایا یہ صحیح ہے۔

اور ظلم کی وجہ سے۔

چھٹی زیارت

امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ آپ نے عمار ساباطی سے ارشاد فرمایا کہ جب تم امام حسین- کی ضریح مبارک کے پاس پہنچو تو یہ زیارت پڑھو:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے امیر المومنینعليه‌السلام کے فرزند آپ پر سلام ہو

یَا أَبا عَبْدِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ شَبابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

اے ابو عبداللہ آپ پر سلام ہو اے جنت کے جوانوں کے سردار خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ رِضَاهُ مِنْ رِضَی الرَّحْمَٰنِ وَسَخَطُهُ مِنْ سَخَطِ الرَّحْمَٰنِ

آپ پر سلام ہو اے خدا کی رضا سے راضی اور خدا کی ناراضگی میں ناراض ہونے والے

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَمِینَ ﷲ، وَحُجَّةَ ﷲ، وَبابَ ﷲ، وَالدَّلِیلَ عَلَی ﷲ، وَالدَّاعِیَ

آپ پر سلام ہو اے خدا کے امانتدار خدا کی حجت دروازہ خدا کی طرف لے جانے والے اور خدا کی طرف بلانے والے

إلَی ﷲ، أَشْهَدُ أَ نَّکَ قَدْ حَلَّلْتَ حَلالَ ﷲ، وَحَرَّمْتَ حَرامَ ﷲ، وَأَ قَمْتَ الصَّلاةَ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حلال خدا کو حلال بتایا اور حرام خداکو حرام قرار دیا آپ نے نماز قائم کی

وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَدَعَوْتَ إلَی سَبِیلِ رَبِّکَ

زکوٰۃ دی ہے آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برے کاموں سے منع فرمایا آپ نے اپنے رب کے راستے کی

بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَأَشْهَدُ أَنَّکَ وَمَنْ قُتِلَ مَعَکَ شُهَدائُ أَحْیائٌ عِنْدَ

طرف دانش مندی اور بہترین نصیحت کے ساتھ دعوت دی میںگواہی دیتا ہوں کہ جو افراد آپ کے ساتھ قتل ہوئے وہ شہیدہیں رب

رَبِّکُمْ تُرْزَقُونَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ قاتِلَکَ فِی النَّارِ، أَدِینُ ﷲ بِالْبَرائَةِ مِمَّنْ قَتَلَکَ

کے ہاں زندہ ہیں رزق پاتے ہیں میں گواہی دیتا ہوںکہ آپ کے قاتل جہنم میں ہیں میں خدا کے دین پر ہوں اس سے بیزار ہوں

وَمِمَّنْ قاتَلَکَ وَشایَعَ عَلَیْکَ وَمِمَّنْ جَمَعَ عَلَیْکَ، وَمِمَّنْ سَمِعَ صَوْتَکَ

جس نے آپکو قتل کیا جو آپ سے لڑا آپ کے دشمنوں کے ساتھ رہا جس نے آپ پر چڑھائی کی اور وہ بھی جس نے آپ کی پکار سنی

وَلَمْ یُعِنْکَ، یَا لَیْتَنِی کُنْتُ مَعَکُمْ فَأَ فُوزَ فَوْزاً عَظِیماً

اور آپ کی مدد نہ کی اے کاش کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا اور عظیم کامیابی حاصل کرتا۔

مؤلف کہتے ہیں کہ یہ زیارت مزار ابن قولویہ سے نقل کی گئی ہے۔

ساتویں زیارت

شیخ نے مصباح میں صفوان جمال (ساربان) سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق - سے امام حسین- کی زیارت کیلئے اجازت مانگی اور یہ خواہش بھی کی آپ مجھے زیارت کے آداب اور طریقے تعلیم فرمائیں تب آپ نے فرمایا کہ اے صفوان زیارت کو جانے سے تین دن پہلے روزہ رکھو اور جب تیسرا روزہ رکھو تو اس دن غسل کرو اور اپنے اہل و عیال کو اکھٹا کر کے یہ دعا پڑھو:

اَللَّهُمَّ اِنِّیِ اَسْتَوْدِعُکَ ...تا آخر اور جب دریائے فرات کے کنارے پہنچو تو وہاں غسل کرو۔

اے معبود بے شک میں نے انہیں تیرے سپرد کیا ہے ۔

کیونکہ میرے پدر گرامی نے اپنے والد ماجد سے اور انہوں نے حضرت رسول سے خبر دی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میرا بیٹا حسین- میرے بعد فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا۔

پس جو شخص ان کی زیارت کو جائے اور فرات میں غسل کرے تو اس کے گناہ اس طرح دھل جائیں گے جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ جب وہ دریائے فرات پر غسل کرے تواس دوران یہ دعا پڑھے:

بِسْمِ ﷲ وَبِالله اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ نُوراً وَطَهُوراً وَحِرْزاً وَشِفائً مِنْ کُلِّ دائٍ وَسُقْمٍ

خدا کے نام اور خدا کی ذات سے اے معبود! قرار دے اس غسل کو روشن پاکیزہ اور شفا دینے والا ہر مرض ہر بیماری ہر آفت اور ہر

وآفَةٍ وَعاهَةٍ، اَللّٰهُمَّ طَهِّرْ بِهِ قَلْبِی، وَاشْرَحْ بِهِ صَدْرِی، وَسَهِّلْ لِی بِهِ أَمْرِی

برائی سے بچانے والا اے معبود! پاک کر دے اس سے میرے دل کو کھول دے اس سے میرے سینے کو اور آسان کردے اسکے ذریعے میرا کام۔

جب غسل کر چکے تو پاکیزہ لباس پہنے اور اس گھاٹ کے قریب دو رکعت نماز بجا لائے کہ یہ وہی زمین ہے جس کی شان خدا نے بیان کی ہے اورزمین کے کئی حصے آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں‘ انگور کے باغ کھیتی اور کھجور کے درخت کہ بعض کی ایک جڑ دو شاخیں اور بعض کی ایک شاخ جبکہ وہ سب ایک ہی پانی سے سیراب کیے جاتے ہیںاور میوئوں میں سے بعض کو بعض پر ہم فوقیت دیتے ہیں جب نماز پڑھ لے تو امام حسین- کے حرم مبارک کی طرف آہستہ آہستہ چل کر جائے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ایک ایک قدم کے بدلے میں حج و عمرہ کا ثواب عطا کرے گا چلتے ہوئے نہایت عاجز و انکساری کے ساتھ ذکر خدا اور گریہ و زاری کرتا جائے اور بہ کثرت یہ کہے:

ﷲ اَکْبَرُ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲ

خدا بزرگتر ہے اللہ کے سوائ کوئی معبود نہیں۔

نیز خدائے تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا جائے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امام حسین- پر درود وسلام پڑھتا ہوا چلے امام حسین- کے قاتلوں پر لعنت بھیجے اور ان پر بیزاری ظاہر کرے جنہوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کی ابتدائ کی جب حرم شریف کے دروازے پر پہنچے تو یہ کلمات کہے:

ﷲ أَکْبَرُ کَبِیراً، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ کَثِیراً، وَسُبْحانَ ﷲ بُکْرَةً وَأَصِیلاً، الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی

خدا بزرگتر ہے خدا کے لیے بہت زیادہ حمد ثنائ ہے اور خدا پاک ومنزہ ہے ہر صبح و شام حمد ہے خدا کے لیے جس نے

هَدَانا لِهذا وَمَا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلاَ أَنْ هَدَانَا ﷲ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنا بِالْحَقِّ پھر کہے:

ہمیں یہ راہ دکھائی اور ہم راہ نہ پاتے اگر خدا ہمیں راستہ نہ دکھاتابے شک خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کے ساتھ آئے

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خاتَمَ النَّبِیِّینَ

آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلام ہو آپ پر اے خدا کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ پر سلام ہو اے نبیوں کے خاتم

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیبَ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَمِیرَ

آپ پر سلام ہو اے رسولوں کے سردار آپ پر سلام ہو اے خدا کے حبیب سلام ہو آپ پر اے مومنوں کے

الْمُوَمِنِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْوَصِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا قَائِدَ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِینَ

امیر آپ پر سلام ہو اے اوصیائ کے سرکردہ آپ پر سلام ہو اے چمکتے ہوئے چہروں والوں کے پیشوا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلاَءِمَّةِ مِنْ

آپ پر سلام ہو اے فاطمہ زہراعليه‌السلام ئ کے فرزند جو تمام عورتوں کی سردار ہیں آپ پر سلام ہواور ان ائمہعليه‌السلام پر جو آپ کی

وُلْدِکَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَصِیَّ أَمِیرِ الْمُوَْمِنِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ الشَّهِیدُ

اولاد سے ہیں سلام ہو آپ پر اے امیر المومنینعليه‌السلام کے جانشین آپ پر سلام ہوجو کہ صدیق و شہید ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا مَلائِکَةَ ﷲ الْمُقِیمِینَ فِی هذَا الْمَقامِ الشَّرِیفِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

آپ پر سلام ہو اے خدا کے فرشتو جو اس بابرکت مقام پر رہتے ہو آپ پر سلام ہو

یَا مَلائِکَةَ رَبِّی الْمُحْدِقِینَ بِقَبْرِ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ مِنِّی أَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ

اے خدا کے وہ فرشتو جو قبر حسینعليه‌السلام کے ارد گرد کھڑے ہو سلام ہو اس امام پر سلام ہو تم پر میری طرف سے جب تک زندہ ہوں اور جب

اللَّیْلُ وَالنَّهارُ ۔ پھر کہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ

تک دن رات باقی ہیں آپ پر سلام ہو اے ابو عبدﷲعليه‌السلام آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ أَمِیرِ الْمُوَْمِنِینَ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ، وَابْنُ أَمَتِکَ ، الْمُقِرُّ بِالرِّقِّ

آپ پر سلام ہو اے امیر المومنینعليه‌السلام کے فرزند آپ کا غلام آپ کے غلام کا بیٹا اور آپ کی کنیز کابیٹا غلامی کا اقرار کرتا ہے

وَالتَّارِکُ لِلْخِلافِ عَلَیْکُمْ، وَالْمُوالِی لِوَ لِیِّکُمْ، وَالْمُعَادِی لِعَدُوِّکُمْ، قَصَدَ حَرَمَکَ

اور آپ کی مخالفت ترک کر رہا ہے یہ آپ کے دوستوں کا دوست اور آپ کے دشمنوں کادشمن ہے آپ کے آستان پر آیا

وَاسْتَجارَ بِمَشْهَدِکَ، وَتَقَرَّبَ إلَیْکَ بِقَصْدِکَ، ئَ أَدْخُلُ یَا رَسُولَ ﷲ

اور آپ کے روضہ کی پناہ لیے ہوئے ہے آپ کے قریب ہوا ہے آپ کی تمنا کرتے ہوئے کیا اندرآجائوں اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا

ئَ أَدْخُلُ یَا نَبِیَّ ﷲ ئَ أَدْخُلُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ئَ أَدْخُلُ یَا سَیِّدَ الْوَصِیِّینَ ئَ أَدْخُلُ

میں اندر آجائوں اے نبی کیا میں اندر آجائوں اے مومنوں کے امیر کیا اندر آ جائوںاے اوصیائ کے سردار کیا اندر آ جائوں

یَا فاطِمَةُ سَیِّدَةَ نِسائِ الْعَالَمِینَ ئَ أَدْخُلُ یَا مَوْلایَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ ئَ أَدْخُلُ یَا مَوْلایَ

اے فاطمہعليه‌السلام دو جہانوں کی عورتوں کی سردار کیا اندر آ جائوں اے میرے آقااے ابو عبدﷲعليه‌السلام کیا اندر آ جائوں اے میرے مولا

یَابْنَ رَسُولِ ﷲ

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرزند۔

اس مرحلے پر اگر زائر کے دل میں سوز اور آنکھوںمیں آنسو آجائیںتو اسکو داخل ہونے کی اجازت تصور کرے اور حرم شریف کے اندر داخل ہو جائے ‘ داخل ہوتے ہوئے یہ کلمات کہے:

الْحَمْدُ لِلّٰهِ الْواحِدِ الْاََحَدِ الْفَرْدِ الصَّمَدِ الَّذِی هَدانِی لِوِلایَتِکَ، وَخَصَّنِی بِزِیارَتِکَ

خدا کی حمد ہے جو یکتا ہے یگانہ ہے اکیلا ہے بے نیاز ہے جس نے مجھے آپ کی ولایت کا راستہ بتایا مجھ کو آپ کی زیارت کیلئے مخصوص

وَسَهَّلَ لِی قَصْدَکَ ۔ پھر قبر پاک کے قریب جائے اور سرہانے کھڑے ہوکر کہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

کیا اور آپ کی طرف آنے میں سہولت دی آپ پر سلام ہو

یَا وَارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا

اے آدمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے چنے ہوئے ہیں سلام ہو آپ پر اے نوحعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے نبی ہیں آپ پر سلام ہو اے

وارِثَ إبْراهِیمَ خَلِیلِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

ابراہیمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پراے موسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں آپ پر سلام ہو

یَا وارِثَ عِیسی رُوحِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

اے عیسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کی روح ہیں سلام ہوآپ پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں آپ پر سلام ہو

یَا وارِثَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفی اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ

اے امیر المومنین - کے وارث و جانشین آپ پر سلام ہو اے محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند آپ پر سلام ہو اے علی مرتضیعليه‌السلام

عَلِیٍّ الْمُرْتَضی، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ الزَّهْرائِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ خَدِیجَةَ

کے فرزند آپ پر سلام ہو اے فاطمہ زہراعليه‌السلام ئ کے فرزند آپ پر سلام ہو اے خدیجہ الکبریٰعليه‌السلام

الْکُبْری اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ ﷲ وَابْنَ ثارِهِ وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ، أَشْهَدُ

فرزند آپ پر سلام ہو اے خدا کے نام پر قربان ہونے والے اور قربان ہونے والے کے فرزند اے ناحق بہائے گئے خون میں گواہی

أَنَّکَ قَدْ أَقَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ

دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اوربرے کاموں سے منع فرمایا

وَأَطَعْتَ ﷲ وَرَسُولَهُ حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً قَتَلَتْکَ، وَلَعَنَ ﷲ

آپ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت میں رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے پس خدا کی لعنت اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا خدا کی لعنت ہو

أُمَّةً ظَلَمَتْکَ، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِهِ، یَا مَوْلایَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ

اس گروہ پر جس نے آپ پر ظلم ڈھایا اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے یہ واقعہ سنا تو وہ اس پر خوش ہوا اے میرے آقا اے ابو عبدﷲعليه‌السلام

أَشْهَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاََصْلابِ الشَّامِخَةِ وَالْاََرْحامِ الْمُطَهَّرَةِ، لَمْ تُنَجِّسْکَ

میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ وہ نور ہیں جو بلند مرتبہ صلبوں اور پاک و پاکیزہ رحموں میںمنتقل ہوتا آیا آپ زمانہ جاہلیت کی

الْجَاهِلِیَّةُ بِأَنْجَاسِها وَلَمْ تُلْبِسْکَ مِنْ مُدْلَهِمَّاتِ ثِیَابِها وَأَشْهَدُ أَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ

ناپاکیوں سے آلودہ نہ ہوئے اور اس زمانے کے ناپاک لباسوں میں ملبوس نہ ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے نگہبان اور مومنوں

وَأَرْکانِ الْمُؤْمِنِینَ وَأَشْهَدُ أَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ الزَّکِیُّ الْهادِی الْمَهْدِیُّ،

کے رکن ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہ امام ہیں جو نیک کردار پرہیز گار پسندیدہ پاکیزہ ہدایت دینے والے اور ہدایت پائے ہوئے ہیں

وَأَشْهَدُ أَنَّ آلاَءِمَّةَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَةُ التَّقْوی وَأَعْلامُ الْهُدی وَالْعُرْوَةُ الْوُثْقی

میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد سے ہوئے ہیں وہ پرہیز گاری کے مظہر ہدایت کے نشان مضبوط و محکم رسی

وَالْحُجَّةُ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیا وَأُشْهِدُ ﷲ وَمَلائِکَتَهُ وَأَنْبِیائَهُ وَرُسُلَه، أَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ

اور دنیا والوں پر خدا کی دلیل و حجت ہیں میںگواہ بناتا ہوں اس کے فرشتوں کو اور اس کے نبیوں اور رسولوںکو کہ میں آپ پر اور آپ

وَبِ إیَابِکُمْ مُوقِنٌ، بِشَرائِعِ دِینِی، وَخَواتِیمِ عَمَلِی، وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ، وَأَمْرِی

کے باپ دادا پرایمان رکھتا ہوں اپنے دین کے احکام اور اپنے عمل کے انجام پر میرا دل آپ کے دل کے ساتھ ہے اور میرا کام

لاََِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ، صَلَواتُ ﷲ عَلَیْکُمْ، وَعَلَی أَرْواحِکُمْ، وَعَلَی أَجْسادِکُمْ، وَعَلَی

آپ کی پیروی ہے خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر آپ کی روحوں پر آپ کے پاک وجودوں پر

أَجْسامِکُمْ، وَعَلَی شاهِدِکُمْ، وَعَلَی غائِبکُمْ وَ عَلَی ظاهِرِکُمْ وَعَلَی باطِنِکُمْ

اور ر حمت ہو آپ میں سے حاضر پر اور غائب پر رحمت ہو آپ کے ظاہر و عیاں اور آپ کے باطن پر۔

اس کے بعد اپنے آپ کو قبر سے لپٹائے اس پر بوسہ دے اور کہے:

بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَابْنَ رَسُولِ ﷲ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا أَبا عَبْدِ ﷲ، لَقَدْ عَظُمَتِ

میرے ماں باپ آپ پر قربان اے رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند میرے ماں باپ آپ پر قربان اے ابو عبداللہعليه‌السلام بے شک ہمارے لیے آپ کا

الرَّزِیَّةُ، وَجَلَّتِ الْمُصِیبَةُ بِکَ عَلَیْنا وَعَلَی جَمِیعِ أَهْلِ السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ، فَلَعَنَ

سوگ بہت زیادہ اور آپ کی مصیبت ہمارے لیے بہت بڑی اور بھاری ہے سب آسمانوں میں رہنے والوںاور زمین والوں پر پس

ﷲ أُمَّةً أَسْرَجَتْ وَأَلْجَمَتْ وَتَهَیَّأَتْ لِقِتالِکَ، یَا مَوْلایَ یَا أَبا عَبْدِ ﷲ، قَصَدْتُ

خدا کی لعنت اس گروہ پر جس نے گھوڑے کو لگام لگائی، زین کسی اور آپ سے لڑنے کو تیار ہوئے اے میرے مولا اے ابو عبدﷲعليه‌السلام میں

حَرَمَکَ، وَأَ تَیْتُ إلی مَشْهَدِکَ، أَسْأَلُ ﷲ بِالشَّأْنِ الَّذِی لَکَ عِنْدَهُ

آپ کی بارگاہ میں چل کر آیا ہوں اور آپ کے روضے کے قریب پہنچا ہوںسوال کرتا ہوںخدا سے آپ کی شان کے واسطے

وَبِالْمَحَلِّ الَّذِی لَکَ لَدَیْهِ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ یَجْعَلَنِی مَعَکُمْ

جو اس کے ہاں ہے اور آپ کے مقام کے واسطے جو اس کے حضور میں ہے کہ وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت کرے نیز یہ کہ وہ مجھ کو دنیا اور

فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ

آخرت میں آپ کے ساتھ رکھے۔

اب دو رکعت نماز زیارت قبر مبارک کے سرہانے کی طرف ادا کرے کہ اس میں حمد کے ساتھ جو سورہ چاہے پڑھا کرے اور نماز کے بعد یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی صَلَّیْتُ وَرَکَعْتُ وَسَجَدْتُ لَکَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ لاََِنَّ الصَّلاةَ وَالرُّکُوعَ

اے معبود! بے شک میں نے تیرے لیے نماز پڑھی رکوع کیا اور سجدہ کیا ہے کہ تو یگانہ ہے تیرا کوئی شریک نہیںیہی وجہ ہے کہ نماز رکوع

وَالسُّجُودَ لاَ تَکُونُ إلاَّ لَکَ، لاََِنَّکَ أَنْتَ ﷲ لاَ إلهَ إلاَّ أَنْتَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

اور سجدہ نہیں ہوتا مگر صرف تیرے ہی لیے کہ بے شک تو وہ اللہ ہے کہ تیرے سوائ کوئی معبود نہیں اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَبْلِغْهُمْ عَنِّی أَفْضَلَ السَّلامِ وَالتَّحِیَّةِ وَارْدُدْ عَلَیَّ مِنْهُمُ السَّلامَ اَللّٰهُمَّ

درود بھیج اور ان کو میری طرف سے بہترین سلام اور دعا پہنچا اور لوٹا مجھ پر ان کی طرف سے دعا سلامتی اے معبود!

وَهَاتَانِ الرَّکْعَتانِ هَدِیَّةٌ مِنِّی إلی مَوْلایَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَلَیْهِمَا اَلسَّلَامُ اَللّٰهُمَّ

یہ دو رکعت نماز ہدیہ ہے میری طرف سے میرے مولا حسین ابن علی + کی خدمت میں اے معبود!

صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَیْهِ وَتَقَبَّلْ مِنِّی وَأْجِرْنِی عَلَی ذلِکَ بِأَ فْضَلِ أَمَلِی وَرَجائِی

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور حسینعليه‌السلام پر رحمت فرما اور میرا یہ عمل قبول فرما اور مجھ کو اس پر وہ بہترین اجر دے جسکی میں تجھ سے امید کرتا ہوں جب تیرے اس

فِیکَ وَفِی وَلِیِّکَ یَا وَلِیَّ الْمُؤْمِنِینَ

ولی اور مومنوں کے مولا کے دربار میںہوں۔

اس کے بعد امام حسین- کی پائنتی کی طرف جائے اور جناب علی اکبرعليه‌السلام کی زیارت ان کی قبر کے نزدیک کھڑے ہو کر اس طرح پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ نَبِیِّ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ

آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے نبی خدا کے فرزند سلام ہو آپ پر اے امیر المومنینعليه‌السلام

أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْحُسَیْنِ الشَّهِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الشَّهِیدُ

کے فرزند آپ پر سلام ہو اے حسینعليه‌السلام شہید کے فرزند سلام ہو آپ پر کہ آپ شہید ہیں شہید کے فرزند ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَ یُّهَا الْمَظْلُومُ وَابْنُ الْمَظْلُومِ، لَعَنَ ﷲ أُمَّةً قَتَلَتْکَ، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً

آپ پر سلام ہو کہ آپ مظلوم اور مظلوم کے فرزند ہیں خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے آپکو قتل کیا خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے

ظَلَمَتْکَ، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِهِ ۔ پھر اپنے آپ کو قبر سے لپٹائے بوسہ

آپ پر ظلم کیا خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے یہ واقعہ سنا تو اس پر خوش ہوئے

دے اور کہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَ لِیَّ ﷲ وَابْنَ وَ لِیِّهِ، لَقَدْ عَظُمَتِ الْمُصِیبَةُ وَجَلَّتِ

سلام ہو آپ پر اے ولی خدا کے فرزند یقیناً آپ کے دکھ اور آپ کا سوگ

الرَّزِیَّةُ بِکَ عَلَیْنا وَعَلَی جَمِیعِ الْمُسْلِمِینَ، فَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً قَتَلَتْکَ، وَأَبْرَأُ إلَی ﷲ

ہمارے لیے اورتمام مسلمانوں کیلئے ناقابل برداشت ہے پس خدا کی لعنت ہو آپ کو قتل کرنے والوں پر اور میں آپکے اور خداکے

وَ إلَیْکَ مِنْهُمْ

سامنے ان سے بیزار ہوں۔

اب حضرت علی اکبرعليه‌السلام کے قریب گنج شہیداں کی طرف رخ کرے کہ جہاں کربلا کے دیگر شہدائ دفن ہیں پس ان سب کی زیارت اس طرح پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَوْلِیائَ ﷲ وَأَحِبَّائَهُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَصْفِیائَ ﷲ وَأَوِدَّائَهُ

اے! اولیا اللہ آپ پر سلام ہو اور اے ﷲ کے پیارو آپ پر سلام ہو اے خدا کے برگزیدہ اور منتخب لوگو

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَنْصارَ دِینِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَنْصارَ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ

آپ پر سلام ہو اے دین خدا کی مدد کرنے والو آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی نصرت کرنے والو

عَلَیْکُمْ یَا أَ نْصارَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَ نْصارَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ

آپ پر سلام ہو اے امیر المومنینعليه‌السلام کی امداد کرنے والو آپ پر سلام ہو اے فاطمہ کی حمایت کرنے والو جو تمام عورتوں

الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَ نْصارَ أَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْوَ لِیِّ النَّاصِحِ

کی سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے ابو محمدعليه‌السلام حسن بن علی کے مددگاروکہ جو خدا کے ولی اور نصیحت کرنے والے ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَنْصارَ أَبِی عَبْدِ ﷲ، بِأَبِی أَ نْتُمْ وَأُمِّی طِبْتُمْ وَطابَتِ الْاََرْضُ

سلام ہوآپ پر اے ابو عبدا للہ حسینعليه‌السلام کی نصرت کرنے والومیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں تم پاکیزہ ہو اور وہ زمین بھی پاک ہے

الَّتِی فِیها دُفِنْتُمْ وَفُزْتُمْ فَوْزاً عَظِیماً، فَیالَیْتَنِی کُنْتُ مَعَکُمْ فَأَ فُوزَ مَعَکُمْ

جس میں آپعليه‌السلام مدفون ہیںآپ نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی اے کاش کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا تو یہ کامیابی حاصل کرتا۔

اس کے بعد امام حسین- کے سرہانے کی طرف آ جائے اور وہاں اپنے فرزندوں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے بہت زیادہ دعائیں مانگے کیونکہ امام حسین- کے روضہ مبارک پر دعا کرنے والے کی دعا اور سوال کرنے والے کا سوال رد نہیں کیا جاتا۔

زیارت وارث اور زائد جملے

مؤلف کہتے ہیں کہ یہ زیارت، زیارت وارث کے نام سے معروف ہے اسکا ماخذ شیخ طوسیرحمه‌الله کی کتاب مصباح المتھجد ہے جوکہ عطائ کے نزدیک مشہور اور متعبر کتب میں سے شمار ہوتی ہے۔یہاں ہم نے اسے براہ راست مصباح ہی سے نقل کیا ہے۔ اورزیارت شہدائ میں اس کے آخری جملے یہی تھے جو ہم نے ذکر کیے ہیں یعنی فیالیتنی معکم فا فوز معکم پس وہ زائد جملے جو بعض لوگوں نے ان کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔ مثلاً فی الجنان مع النبیین و الصدیقین و الشھدآئ والصالحین و حسن أولئک رفیقا السلام علی من کان فی الحآئر منکم و علی من لم یکن فی الحائر معکم۔الخ یہ سب زائد اور بے جوڑ جملے ہیں جن کا اس زیارت سے کوئی ربط نہیں ہے۔چنانچہ ہمارے شیخ معظم نے اپنی کتاب لؤلؤ والمرجان میں فرمایا ہے کہ ان کلمات میں کئی ایک جھوٹ ہیں ان میں ارتکاب بدعت کے علاوہ فرمان امامعليه‌السلام پر زیادتی کی جسارت بھی کی گئی ہے یہ اس طرح معروف ہو گئے ہیںکہ ابا عبد اللہ -کے نورانی مرقد فرشتوں کے اترنے کی جگہ اور انبیا و مرسلین کی اس جائے طواف کے سامنے ہزاروں مرتبہ دوہرائے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کرتا اس جھوٹ کو دہرانے اور گناہ کا ارتکاب کرنے سے مانع نہیں ہوتا اس کے ساتھ ساتھ یہ کلمات عوام میں سے بے خبر افراد کے مرتب کردہ دعا و زیارت کے مجموعوں میں جگہ پاگئے ہیں جو کسی نہ کسی نام سے چھپ کر عوام کے ہاتھوں تک پہنچ گئے ہیں اور پھر ایک بے خبر کی کتاب سے دوسرے بے خبر کی کتاب میں نقل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان ادعیہ و زیارات کی حیثیت طلبائ دینی پر بھی مشتبہ ہو گئی اور وہ درست و نا درست میں امیتاز نہیں کر پاتے مثلاً ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک طالب علم ان جھوٹے کلمات کو شہدائ کربلا کے حضور پڑھ رہا تھا میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ میری طرف متوجہ ہوا میں نے کہا کہ کیا اہل علم کے لئے یہ بات قبیح نہیں ہے کہ وہ ان مقدسین کے سامنے ایسے جھوٹے کلمات دوہرائے؟ اس نے کہا کیا یہ روایت شدہ نہیں؟ میں نے تعجب کیا اور کہا کہ نہیں یہ روایت شدہ نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ میں نے اسے کتاب میںدیکھا ہے میں نے کہا کون سی کتاب میں دیکھا ہے؟ وہ بولا کہ مفتاح الجنان میں اس پر میں خاموش ہو گیا کیونکہ جو شخص اس قدر بے اطلاع و بے خبر ہو کہ ایک عام آدمی کے تالیف کردہ مجموعے کو کتاب کہے اور اسے مستند سمجھے تو وہ اس قابل نہیں کہ اس سے بات کی جائے۔ اس مقام پرشیخ مرحوم نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہے یعنی عوام کو ان جزئی امور اور چھوٹی چھوٹی بدعتوں جیسے غسل اویس قرنی یا ابو دردائ کی آش جو معاویہ کا تابع اور مخلص ساتھی تھا‘ یا چپ کا روزہ کہ جس میں دن بھر بات نہ کی جائے اور دیگر ایسی چیزیں کہ جن سے کوئی عوام کو منع نہ کرے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ ہر مہینے اور ہر سال کوئی نہ کوئی نیا پیغمبر یا امام پیدا ہو گا اور لوگ گروہ گروہ ہو کر دین خدا سے نکل جائیں گے یہاں شیخ مرحوم کا کلام اختتام کو پہنچا۔

اب یہ فقیر عرض کرتا ہے کہ اس عالم جلیل کے کلام پر بہت زیادہ غور و فکر کریں کہ جو شرع مقدس کی روش سے واقف ہیں‘ ان کے دل میں یہ غم انگیز بات اس لیے آئی کہ وہ اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو ان لوگوں کی نسبت بہتر طور پر جانتے تھے جو علوم اہل بیت سے بے بہرہ اور بے اطلاع ہیں۔ جنہوں نے چند اصطلاحوں اور چند الفاظ کے جاننے کو کافی سمجھ رکھا ہے وہ اس طرح کی باتوں کی خرابی کا احساس نہیں کرتے بلکہ ان کو درست قرار دیتے اور بہتر تصور کرتے ہوئے انہی کے موافق عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح المتہجد الاقبال‘ مہج الدعوات‘ جمال الاسبوع‘ مصباح الزائر‘ بلد الامین‘ جنۃ الواقیہ‘ مفتاح الفلاح مقباس‘ ربیع الا سابیع‘ تحفہ اور زاد المعاد جیسی بلند پایہ کتابیں نظر انداز اور فراموش ہو گئی اور ان کی جگہ یہ احمقانہ و جاہلانہ مجموعے رائج ہو گئے ہیں کہ جن میں دعائے مجیر جو کہ ایک مستند دعاہے اس میںاسی ( ۰۸ ) جگہوں پر لفظ ’’بعفوک‘‘ بڑھایا گیا ہے اور اس پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اسی طرح دعائے جوشن جو سو فصلوں پر مشتمل ہے اس کی ہر فصل کے لیے الگ الگ خاصیت گھڑی گئی ہے اور منقولہ زیارات کے ہوتے ہوئے زیارت مفجعہ بنائی گئی ہے یعنی جعلی زیارتیں گھڑی گئی ہیں دعا حبّی جعلی ہے ۔

معتبر دعائیں جو روایت شدہ ہیں ان کے مضامین بلند اور کلمات شفاف و پر معنی ہیں۔ ان کی موجودگی میں ایک بے ربط اور بے سوز دعا وضع کی گئی اور اس کا نام حبی رکھا گیا ہے اسے عرش سے نازل شدہ بتایاگیا ہے اوراسکے اتنے فضائل گنائے گئے ہیں کہ انسان حیرت میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ معاذ اللہ جبرائیلعليه‌السلام نے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق تعالیٰ کا یہ پیغام دیا کہ جو شخص اس دعا کو اپنے پاس رکھے گا میں اسے عذاب نہ کروں گا۔ اگرچہ وہ جہنم کا مستحق ہو اس نے اپنی زندگی گناہوں میں بسر کی ہو اور کبھی بھی مجھے سجدہ نہ کیا ہو میں اس شخص کو ستر ہزار نبیوں کا ثواب عطا کروںگا۔ ستر ہزار زاہد ۔اور ستر ہزار شہید ستر ہزار نماز گزاروں کا ثواب دوں گا اس کو ستر ہزار بے لباس افراد کو لباس پہنانے کا ثواب دوں گا‘ ستر ہزار بھوکے افراد کو کھانا کھلانے کا ثواب عنایت کروں گا۔ اور اسے صحرائوں کی ریت کے ذروں کی تعداد جتنا ثواب بخشوں گا نیز اس کو زمین کی ستر ہزار بارگاہوں کا ثواب نبی اکرم کی مہر نبوت کا ثواب‘ عیسیٰعليه‌السلام روح اللہ‘ ابراہیمعليه‌السلام خلیل اللہ ‘ اسماعیلعليه‌السلام ذبیح اللہ‘ موسیٰعليه‌السلام کلیم اللہ‘ یعقوبعليه‌السلام نبی اللہ و آدمعليه‌السلام صفی اللہ اور جبرائیلعليه‌السلام ، میکائلعليه‌السلام ، اسرافیلعليه‌السلام اور عزرائیلعليه‌السلام اور تمام فرشتوں کا ثواب دوں گا۔ اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو بھی شخص اس عالی شان دعا کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے گا تو میں اسے بخش دوں گا اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس کو عذاب کروں۔

تاآخر اور مناسب تو یہ ہے کہ انسان ان مضامین کو سن کر ہنسنے کی بجائے روئے۔

کتب اخبار و حدیث میں تصرف

دعائوں اور زیارتوں کی شیعہ کتب جو اس قدر یقینی اور محفوظ تھیںکہ ان کے اکثر مؤلفین اہل علم و فضل تھے وہ ان کی تطبیق ایسے نسخے سے کیا کرتے تھے جو اہل علم کا جمع کردہ اور علمائ کا تصیح شدہ ہوتا تھا اگر کہیں تفاوت ہوتا تو حاشیے میں اس کی طرف اشارہ کردیتے جیسا کہ دعائ مکارم الاخلاق میں حاشیے پر وضاحت کر دیتے ہیں کہ جملہ و بلغ بایمانی ابن اشناس کے نسخے میں و ابلغ بایمانی کی صورت میں ہے اور ابن شاذان کی روایت میں اس کی بجائے اَللّٰھُمَّ ابْلغ ایمانی آیا ہے۔ یا فلاں لفظ ابن سکون کے قلم سے یوں لکھا گیا ہے اور شہید نے اسے یوں تحریر کیا ہے اور اسی طرح دیگر مقامات پر بھی وضاحت کی گئی ہے لیکن اب حال یہ ہو گیا ہے کہ سب معتبر کتابیں ترک کر کے محض مفتاح الجنان پر انحصار کر لیا گیا ہے جس کا مختصر ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اب یہ کتاب خواص و عوام اور عرب و عجم کی نگاہوں کا مرکز بن چکی ہے اس کا سبب کتب اخبار و حدیث سے علمائ کی بے توجہی تعلیمات اہل بیت اطہار کے حامل علمائ و فقہائ کی کتب سے عدم التفات اور ایسی بدعتوں اور اضافوں کی راہ نہ روکنے‘ دعائیں گھڑنے والوںکی آمیزش اور جاہل افراد کی تحریف کو عیاں نہ کرنے نا اہل اور بے عقل لوگوں کو تصرفات سے باز نہ رکھنے سے معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ دعائیں اپنے رجحان کے موافق جمع کی گئی ہیں نیز زیارات مفجعات اور صلوات اختراع کی گئی ہیں۔ چنانچہ ایسی دعائیں جن میں اضافے کیے گئے ہیں ان پر مشتمل بہت سے مجموعے طبع ہو گئے ہیں جو گویا کتاب مفتاح الجنان کے بچے ہیں پھر آہستہ آہستہ وضع و تحریف کی یہ روش دیگر عناوین کی کتب میں بھی سرایت کر چکی ہے اور اب اس کا رواج عام ہو گیا ہے جیسا کہ احقر مولف کی کتاب منتہی الآمال اشاعت جدید میں بعض کاتب حضرات نے اپنے سلیقہ و مذاق کے مطابق اس میں تصرفات کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مالک ابن یسر ملعون کے حالات میں لکھا ہے کہ امام حسین- کی دعا سے اس کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے تھے۔ الحمد للہ‘ جو گرمیوں میں دو سوکھی لکڑیوں کی مانند ہو جاتے ہیں۔ الحمدللہ سردی کے دنوں میں ان سے خون ٹپکتا رہتا تھا۔ الحمد للہ اور وہ اسی بدترین حال میں رہا الحمد للہ۔ پس ان دو سطروں میں کاتب نے اپنی پسند کے مطابق عبارت میں چار جگہوں پر جملہ الحمد للہ کا اضافہ کیا ہے نیز بعض مقامات پر جناب زینبعليه‌السلام یاام کلثومعليه‌السلام کے ناموں کے آگے اپنی چاہت کے موافق لفظ خانم لکھ دیا ہے تاکہ زینب خانم اور ام کلثوم خانم کہا جائے تاکہ اس سے ان مخدرات کا احترام ظاہر ہو‘ پھر حمیدابن قحطبہ کو چونکہ وہ دشمن تصور کرتا تھا۔ لہذا اس کی برائی کے پیش نظر اسے حمید ابن قحبہ لکھا لیکن احتیاط کرتے ہوئے قحطبہ کو بھی نسخہ بدل کے طور پر لکھ دیا ہے۔ عبدربہ کا نام دیکھ کر کاتب کو خیال ہوا کہ یہاں عبدا للہ لکھا جانا چاہیے۔ اور زحر ابن قیس کا نام جو کہ حائ مہملہ سے ہے اس کو ہر جگہ جیم کے ساتھ زجر ابن قیس لکھ دیا ہے اسی طرح ام سلمہ کی ترکیب کو غلط تصور کرتے ہوئے جہاں تک ہو سکا اس کا نام ام السلمہ کی صورت میں لکھا ہے اور اسی طرح کئی مقامات پر تصرف کیا ہے یہاں اس بات کا ذکر کرنے میں میری غرض دو چیزیں تھیں، ایک یہ کہ اس شخص نے یہ جو تصرفات کیے ہیں‘ اپنی من پسندی اور فہم کے مطابق، تو اس نے اسے کمال سمجھا اور دوسری صورت کو نقص تصور کیا جب کہ جس چیز کو اس نے کمال جانا وہی باعث نقص ہو گئی ہے پس اس پر قیاس کریں کہ ہم جہالت کے باعث دعائوں میں جن چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں یا اپنے ناقص خیال سے ان میں بعض تصرفات کرتے ہیں اور اسے کمال تصور کہتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہی چیزیں اہل علم و فن کے نزدیک وجہ نقص اور اس کی دعایا زیارت کی بے اعتباری کا سبب بن جاتی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم اس معاملے میں دخل نہ دیں اور جو دستور العمل ہمیں دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور اس سے آگے قدم نہ بڑھائیں دوسری غرض یہ تھی کہ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ وہ کتاب جس کا مؤلف زندہ اور اس کا نگہبان ہے اور اس کتاب کی یہ حالت بنائی گئی ہے تو پھر ان کتابوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی جن کے مؤلف گزر چکے ہیںنیز جو کتابیں چھپ چکی ہیں ان پر کیونکر اعتبار کیا جا سکتا ہے سوائے اس کتاب کے جو معروف علمائ کے مصنفات میں سے ہو اور اس فن کے علمائ میں سے کسی ثقہ عالم کی نظر سے گزر چکی ہو اور انہوں نے اس کی توثیق فرمائی ہو۔ ایک قدیم عالم ثقہ جلیل یونس بن عبدالرحمان کے حالات میں روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے شب و روز کے اعمال میں ایک کتاب مرتب کی تو جناب ابوہاشم جعفری نے یہ کتاب امام حسن عسکری - کے حضور پیش کی پس حضرت نے پوری کتاب کا بہ غور مطالعہ کیا اور فرمایا ھذا دینی و دین ابائی کلہ و ھو الحق کلہ یعنی یہ سب میرا دین ‘ میرے آبائ کا دین اور سب کا سب درست ہے‘ آپ دیکھیں کہ اگرچہ ابو ہاشم جعفری جناب یونس بن عبدالرحمن کی وسیع فقاہت اورا ن کی دیانت و منزلت سے آگاہ تھے پھر بھی ان کی کتاب کے تحت عمل کرنا شروع نہیں کیا جب تک وہ کتاب امام کے حضور پیش کر کے اس کی توثیق نہ کرالی نیز روایت کی گئی ہے کہ بورق شنجانی ہراتی جو سچائی نیکی اور پرہیز گاری میں معروف تھے وہ سامرہ میں امام حسن عسکری - کی خدمت میںآئے اور فضل ابن شاذان نیشا پوری کی کتاب ’’یوم ولیلہ‘‘ حضرت کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ میںآپ پر قربان ہو جائوں میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کتاب کو ملاحظہ فرمائیں‘ تب آپ نے فرمایا ھذا صحیح ینبغی ان تعمل بہ یعنی یہ کتاب صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے اگرچہ یہ احقر آج کے دور کے لوگوں کے مذاق سے آشنا تھا کہ یہ ان امور میں کسی تحقیق و توثیق کا اہتمام نہیں کرتے لیکن اپنی طرف سے حجت تمام کرنے کی خاطر میں نے انتہائی کوشش کی ہے کہ جو زیارتیں اور دعائیں اس کتاب میں شامل ہوں وہ تاحد امکان اصل کتابوں سے نقل کی جائیں دیگر نسخوں سے ان کا تقابل کیا جائے اور جہاں تک ہو سکے ان کی تصحیح کروں تاکہ میری ذمہ داری پوری ہو جائے اور اس کے مطابق عمل بجا لانے والے اطمینان کے ساتھ عمل کر سکیں‘ بشرطیکہ کاتب حضرات اس میں تصرف نہ کریںاور پڑھنے والے بھی اپنی خواہش پر اس میں اختراع کرنے سے پرہیز کریں۔ شیخ کلینیرحمه‌الله نے عبدالرحیم قصیر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا امام جعفر صادق - کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی کہ آپ پر قربان ہو جائوں میں نے ایک دعا وضع کی ہے! حضرت نے فرمایا مجھے اپنی اختراعوں سے معاف رکھو اور وہ دعامجھے نہ سنائو پس حضرت نے اسے یہ اجازت بھی نہ دی کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دعا سنائے بلکہ آپ نے اس کو اپنی طرف سے دستور عمل تعلیم فرمایا۔ شیخ صدوق نے عبداللہ ابن سنان سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا امام جعفر صادق - نے فرمایا کہ وہ وقت قریب ہے جب تم شبہ کا شکار ہوجائو گے اور رہبر و پیشوا کے بغیر سرگرداں ہوجاؤ گے‘ اس شبہ کے دور میں کوئی شخص نجات نہ پائے گا مگر وہ شخص جو دعائے غریق پڑھے۔ میں نے عرض کی دعا غریق کیا ہے آپ نے فرمایا کہ تم یہ کہو:

یَا ﷲ یَا رَحَمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَامُقَّلِبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَیٰ دِیْنِکَ میںنے کہہ دیا : یَا

اے معبود!اے بہت رحم کرنے والے اے مہربان اے دلوں کو پلٹا دینے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ اے

مُقَّلِبَ الْقُلُوْبِ وَالْاَبْصَارِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَیٰ دِیْنِکَ ۔

دلوں اور آنکھوں کو پلٹا دینے والے میرے دل کو اپنے دین پرقائم رکھ۔

حضرت نے فرمایا یہ درست ہے کہ خدائے تعالیٰ دلوں اور آنکھوں کو پلٹا دینے والا ہے لیکن تم اسی طرح کہو‘جیسے میں نے کہا ہے:

یَامُقَّلِبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَیٰ دِیْنِکَ

اے دلوں کو پلٹا دینے والے میرے دل کو اپنے دین پرثابت رکھ ۔

ان دونوں حدیثوں پر غوروفکر کرنا ان افراد کے لیے کافی ہے جو اپنی پسند کے مطابق دعائوں اور زیارتوں میں بعض الفاظ کا اضافہ کر کے تصرف کے مرتکب ہوتے ہیں۔

وَﷲ الْعَاصِمُ

اور خدا ہی بچانے والا ہے۔