مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 185893
ڈاؤنلوڈ: 11108

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185893 / ڈاؤنلوڈ: 11108
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

فضیلت زیارت یوم عاشورا

ساتویں زیارت

عاشورا کے دن زیارت امام حسین-

معلوم ہونا چاہیئے کہ عاشورہ کے دن کے لیے امام حسین- کی بہت سی زیارتیں نقل ہوئی ہیں اور ہم بغرض اختصار دو زیارتوں کے نقل پر اکتفا کریں گے قبل ازیں دوسرے باب میں روز عاشورا کے اعمال میں ایک زیارت لکھی گئی ہے اور وہ مطالب بھی وہاں ذکر ہوئے ہیں جو اس مقام کے ساتھ مناسب ہیں اب رہیں دو زیارتیں تو ان میں سے ایک وہی زیارت عاشورا ہے جو معروف ہے اور دو ر و نزدیک سے پڑھی جاتی ہے اس کی تفصیل جیسا کہ شیخ ابو جعفر طوسی نے کتاب مصباح میں فرمائی کچھ اس طرح ہے کہ محمد بن اسماعیل بن بزیع نے صالح بن عقبہ سے اسنے اپنے باپ سے اور اسنے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص دسویں محرم کے دن امام حسین- کی زیارت کرے اور اسکے ساتھ وہاں گر یہ بھی کرے تو روز قیامت وہ خدا سے ملاقات کریگا دو ہزار حج دو ہزار عمرہ دو ہزار غزوہ کے ثواب کے ساتھ اس شخص جس نے حج‘ عمرہ اور جہادحضرت رسول ﷲ اور ائمہ طاہرینکیساتھ مل کر کیا ہو راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی آپ پر قربان ہو جائوں ایسے شخص کے لیے کیا ثواب ہے جو کربلا سے دور دراز کے شہروں میں رہتا ہو اور اس کیلئے عاشورہ کے دن مزار امام حسین- کی زیارت کو آنا ممکن نہ ہو؟ آپ نے فرمایا اس صورت میں وہ شخص صحرا میں چلا جائے گا یا اپنے گھر کی سب سے اونچی چھت پر چڑھے اور حضرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلام کرے اور آپ کے قاتلوں پر جتنی ہو سکے لعنت بھیجے پھر دو رکعت نماز پڑھے اور یہ عمل دن کے پہلے حصے میں زوال سے قبل بجا لائے بعد میں امام حسین- کیلئے روئے اور فریاد بلند کرے نیز گھر میں جو افراد ہوں اگر ان سے تقیہ نہ کرنا ہو تو انہیں بھی کہے کہ وہ گریہ کریں۔

اس طرح وہ اپنے گھر میں سوگواری اور گریہ زاری کی صورت بنائے اور حضرت کے مصائب پر باآواز بلند روتے ہوئے وہ لوگ ایک دوسرے سے تعزیت کریں تو میں خدا کی طرف سے ان لوگوں کیلئے ضامن ہوں کہ اگر وہ اس طرح عمل کریں تو ان کو بھی وہی ثواب ملے گا میں نے عرض کی کہ آپ پر قربان ہو جائوں ! کیا آپ اس ثواب کے ضامن و کفیل ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں ہر اس شخص کیلئے اس ثواب کا ضامن و کفیل ہوں جو یہ عمل انجام دے تب میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کس طرح ایک دوسرے سے تعزیت کریں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک دوسرے سے یہ کہیں:

أَعْظَمَ ﷲ أُجُورَنا بِمُصابِنا بِالْحُسَیْنِ، وَجَعَلَنا وَ إیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ

خدا ہماری جزائوں میں اضافہ کرے اس سوگواری پر جو ہم نے امام حسین- کیلئے کی اور ہمیں تمہیں انکے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے

بِثارِهِ مَعَ وَلِیِّهِ الْاِمامِ الْمَهْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ

ان کے وارث امام مہدیعليه‌السلام کی ہمراہی میں جو آل محمد میں سے ہیں۔

اگر ایسا ممکن ہو تو دسویں محرم کے دن کوئی شخص اپنے ذاتی اغراض کیلئے کہیں نہ جائے کیونکہ یہ دن نحس ہے جس میںکسی مومن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر حاجت پوری ہو بھی جائے تو وہ اس مومن کیلئے بابرکت نہ ہو گی اور وہ اس میں بھلائی نہ دیکھے گا نیز کوئی مومن اس دن اپنے گھر کے لیے ذخیرہ نہ کرے کہ جو شخص اس دن کوئی چیز ذخیرہ کرے گا اس میں برکت نہ ہو گی۔ اور وہ اس کیلئے مفید ثابت نہ ہو گی نہ ان افراد کے لیے جن کی خاطر اس نے ذخیرہ کیا ہے۔ پس جو لوگ یہ عمل بجا لائیں گے تو خدا تعالیٰ ان کے نام ہزار حج ہزار عمرہ اور ہزار جہاد کا ثواب لکھے گا جو انہوں نے رسولا ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہمراہی میںکیا ہو۔ اسکے علاوہ ان کیلئے ہر پیغمبر رسول وصی اور شہید کی مصیبت کا ثواب ہو گا خواہ وہ طبعی موت سے فوت ہوا ہو یا شہید کیا گیا ہو اس وقت سے جب سے خدا نے اس دنیا کو پیدا کیا اور اس وقت تک جب قیامت بپا ہو گی صالح ابن عقبہ اور سیف ابن عمیرہ کا بیان ہے کہ علقمہ ابن محمد خضرمی نے کہا ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر - سے عرض کی کہ مجھے ا یسی دعا تعلیم فرمائیں جسے میں دسویں محرم کے دن امام حسین- کی نزدیک سے زیارت کرتے وقت پڑھوں اور ایسی دعا بھی تعلیم فرمائیں کہ جو میں اس وقت پڑھوں جب نزدیک سے حضرت کی زیارت نہ کر سکوں اور میں دور کے شہروں اور اپنے گھر سے اشارے کیساتھ امام حسین- کو سلام پیش کروں۔ آپ نے فرمایا کہ اے عقلمہ! جب تم دو رکعت نماز ادا کر لو اور اس کے بعد سلام کیلئے حضرت کی طرف اشارہ کرو تو اشارہ کرتے وقت تکبیر کہنے کے بعدمندرجہ ذیل دعا پڑھو۔ کیونکہ جب تم یہ دعا پڑھو گے تو بے شک تم نے ان الفاظ میں دعا کی ہے کہ جن الفاظ میں وہ فرشتے دعا کرتے ہیں جو امام حسین- کی زیارت کرنے آتے ہیں‘ چنانچہ خدا تمہارے لیے دس لاکھ درجے لکھے گا اور تم اس شخص کی مانند ہو گے جو حضرت کے ہمراہ شہید ہوا ہو اور تم اس کے درجات میں حصہ دار بن جائو گے نیز تم ان افراد میں شمار کیے جائو گے جو امام حسین- کے ساتھ شہید ہوئے ہیں نیز تمہارے لیے ہر نبی و رسول اور امام مظلوم کے ہر اس زائر کا ثواب لکھا جائے گا جس نے اس دن سے کہ جب سے آپ شہید ہوئے ہیں آپکی زیارت کی ہو۔ آپ پر سلام ہواور آپکے خاندان پر پس وہ زیارت عاشورہ یہ ہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ

آپ پر سلام ہو اے ابا عبداعليه‌السلام للہ آپ پر سلام ہو اے رسول خدا کے فرزند سلام ہوآپ پر اے امیر المومنین

أَمِیرِالْمُوَْمِنِینَ وَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ

عليه‌السلام کے فرزند اور اوصیائ کے سردار کے فرزند سلام ہوآپ پر اے فرزند فاطمہعليه‌السلام جو جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاثارَ ﷲ وَابْنَ ثارِهِ وَالْوِتْرَ الْمَوْتُورَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی الْاََرْواحِ

آپ پر سلام ہو اے قربان خدا اور قربان خدا کے فرزنداور وہ خون جس کا بدلہ لیا جانا ہے آپ پر سلام ہواور ان روحوں پر

الَّتِی حَلَّتْ بِفِنائِکَ عَلَیْکُمْ مِنِّی جَمِیعاً سَلامُ ﷲ أَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّهارُ

جو آپ کے آستانوں میں اتری ہیں آپ سب پرمیری طرف سے خدا کا سلام ہمیشہ جب تک میں باقی ہوں اور رات دن باقی ہیں

یَا أَبا عَبْدِﷲ، لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِیَّةُ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتِ الْمُصِیبَةُ بِکَ عَلَیْنا وَعَلَی جَمِیعِ

اے ابا عبدﷲعليه‌السلام آپ کا سوگ بہت بھاری اور بہت بڑا ہے اور آپ کی مصیبت بہت بڑی ہے ہمارے لیے اور تمام اہل اسلام

أَهْلِ الْاِسْلامِ وَجَلَّتْ وَعَظُمَتْ مُصِیبَتُکَ فِی السَّمٰوَاتِ عَلَی جَمِیعِ أَهْلِ السَّمٰوَاتِ

کے لیے اور بہت بڑی اور بھاری ہے آپ کی مصیبت آسمانوں میں تمام آسمان والوں کے لیے

فَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً أَسَّسَتْ أَسَاسَ الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَیْکُمْ أَهْلَ الْبَیْتِ، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً

پس خدا کی لعنت ہو اس گروہ پرجس نے آپ پر ظلم و ستم کرنے کی بنیاد ڈالی اے اہلبیت اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر

دَفَعَتْکُمْ عَنْ مَقامِکُمْ وَأَزالَتْکُمْ عَنْ مَراتِبِکُمُ الَّتِی رَتَّبَکُمُ ﷲ فِیها، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً

جس نے آپکو آپکے مقام سے ہٹایا اور آپ کو اس مرتبے سے گرایا جو خدا نے آپ کو دیا خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ کو

قَتَلَتْکُمْ وَلَعَنَ ﷲ الْمُمَهِّدِینَ لَهُمْ بِالتَّمْکِینِ مِنْ قِتالِکُمْ بَرِیْتُ إلَی ﷲ وَ إلَیْکُمْ مِنْهُمْ

قتل کیا اور خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے انکو آپکے ساتھ جنگ کرنے کی قوت فراہم کی میں بری ہوں خدا کیسامنے اور آپکے سامنے ان

وَأَشْیاعِهِمْ وَأَتْباعِهِمْ وَأَوْلِیائِهِمْ، یَا أَبا عَبْدِﷲ، إنِّی سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَکُمْ، وَحَرْبٌ

سے انکے مددگاروں انکے پیروکاروں اور انکے ساتھیوں سے اے ابا عبداللہ میری صلح ہے آپ سے صلح کرنے والے سے اور میری جنگ ہے

لِمَنْ حارَبَکُمْ إلی یَوْمِ الْقِیامَةِ، وَلَعَنَ ﷲ آلَ زِیادٍ وَآلَ مَرْوانَ، وَلَعَنَ ﷲ بَنِی

آپ سے جنگ کرنے والے سے روز قیامت تک اور خدا لعنت کرے اولاد زیاداور اولاد مروان پر خدا اظہار بیزاری کرے تمام بنی امیہ سے

أُمَیَّةَ قاطِبَةً، وَلَعَنَ ﷲ ابْنَ مَرْجانَةَ، وَلَعَنَ ﷲ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ، وَلَعَنَ ﷲ شِمْراً،

خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر خدا لعنت کرے عمر بن سعد پر خدا لعنت کرے شمر پر

وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً أَسْرَجَتْ وَأَلْجَمَتْ وَتَنَقَّبَتْ لِقِتالِکَ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی،

اور خدا لعنت کرے جنہوں نے زین کسا لگام دی گھوڑوں کو اور لوگوں کو آپ سے لڑنے کیلئے ابھارا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں

لَقَدْ عَظُمَ مُصابِی بِکَ، فَأَسْأَلُ ﷲ الَّذِی أَکْرَمَ مَقامَکَ، وَأَکْرَمَنِی بِکَ، أَنْ یَرْزُقَنِی

یقینا آپکی خاطر میرا غم بڑھ گیا ہے پس سوال کرتا ہوں خدا سے جس نے آپکو شان عطا کی اور آپکے ذریعے مجھے عزت دی یہ کہ وہ

طَلَبَ ثارِکَ مَعَ إمامٍ مَنْصُورٍ مِنْ أَهْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّی ﷲ عَلَیْهِ وَآلِهِ اَللّٰهُمَّ

مجھے آپ کے خون کا بدلہ لینے کا موقع دے ان امام منصورعليه‌السلام کے ساتھ جو اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہوں گے اے معبود!

اجْعَلْنِی عِنْدَکَ وَجِیهاً بِالْحُسَیْنِ فِی الدُّنْیا وَالآخِرَةِ یَا أَبا عَبْدِﷲ إنِّی أَتَقَرَّبُ إلَی

مجھ کو اپنے ہاں آبرومند بنا حسین - کے واسطے سے دنیا و آخرت میں اے ابا عبداللہ بے شک میں قرب چاہتا ہوں

ﷲ، وَ إلی رَسُولِهِ، وَ إلی أَمِیرِ الْمُوَْمِنِینَ، وَ إلی فاطِمَةَ، وَ إلَی الْحَسَنِ، وَ إلَیْکَ

خدا کا اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امیر المومنینعليه‌السلام کا فاطمۃ زہراعليه‌السلام کا حسن مجتبیٰعليه‌السلام کا اور آپ کا قرب آپکی حبداری

بِمُوَالاتِکَ وَبِالْبَرائَةِ مِمَّنْ قَاتَلَکَ وَنَصَبَ لَکَ الْحَرْبَ وَبِالْبَرائَةِ مِمَّنْ أَسَّسَ أَسَاسَ

سے اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے آپکو قتل کیا اور آتش جنگ بھڑکائی اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے تم پر ظلم وستم

الْظُلْمِ وَالْجَوْرِ عَلَیْکُمْ وَأَبْرَأُ إلَی ﷲ وَ إلی رَسُولِهِ مِمَّنْ أَسَّسَ أَساسَ ذلِکَ وَبَنی

کی بنیاد رکھی اور میں بری الذمہ ہوں ﷲ اور اس کے رسول کے سامنے اس سے جس نے ایسی بنیاد قائم کی اور اس پر عمارت اٹھائی

عَلَیْهِ بُنْیانَهُ، وَجَریٰ فِی ظُلْمِهِ وَجَوْرِهِ عَلَیْکُمْ وَعَلَی أَشْیاعِکُمْ، بَرِیْتُ إلَی ﷲ

اور پھر ظلم و ستم کرنا شروع کیا اور آپ پر اور آپ کے پیروکاروں پر میں بیزاری ظاہر کرتا ہوں خدا

وَ إلَیْکُمْ مِنْهُمْ، وَأَتَقَرَّبُ إلَی ﷲ ثُمَّ إلَیْکُمْ بِمُوالاتِکُمْ وَمُوالاةِ وَلِیِّکُمْ، وَبِالْبَرائَةِ

اور آپ کے سامنے ان ظالموں سے اور قرب چاہتا ہوں خدا کا پھر آپ کا آپ سے محبت کی وجہ سے اور آپ کے ولیوں سے محبت

مِنْ أَعْدائِکُمْ، وَالنَّاصِبِینَ لَکُمُ الْحَرْبَ، وَبِالْبَرائَةِ مِنْ أَشْیَاعِهِمْ وَأَتْبَاعِهِمْ، إنِّی

کے ذریعے آپکے دشمنوں اور آپکے خلاف جنگ برپا کرنے والوں سے بیزاری کے ذریعے اور انکے طرف داروں اورپیروکاروں سے بیزاری کے ذریعے

سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَکُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَکُمْ، وَوَلِیٌّ لِمَنْ والاکُمْ،

میری صلح ہے آپ سے صلح کرنے والے سے اور میری جنگ ہے آپ سے جنگ کرنے والے سے میں آپکے دوست کا دوست اور

وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداکُمْ، فَأَسْأَلُ ﷲ الَّذِی أَکْرَمَنِی بِمَعْرِفَتِکُمْ، وَمَعْرِفَةِ أَوْلِیَائِکُمْ،

آپکے دشمن کا دشمن ہوں پس سوال کرتاہوںخدا سے جس نے عزت دی مجھے آپ کی پہچان اور آپکے ولیوں کی پہچان کے ذریعے

وَرَزَقَنِی الْبَرائَةَ مِنْ أَعْدائِکُمْ، أَنْ یَجْعَلَنِی مَعَکُمْ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ، وَأَنْ یُثَبِّتَ

اور مجھے آپ کے دشمنوں سے بیزاری کی توفیق دی یہ کہ مجھے آپ کے ساتھ رکھے دنیا اور آخرت میں اور یہ کہ مجھے آپ کے

لِی عِنْدَکُمْ قَدَمَ صِدْقٍ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ، وَأَسْأَلُهُ أَنْ یُبَلِّغَنِی الْمَقامَ الْمَحْمُودَ

حضور سچائی کے ساتھ ثابت قدم رکھے دنیا اور آخرت میں اور اس سے سوال کرتا ہے کہ مجھے بھی خدا کے ہاں آپ کے پسندیدہ مقام

لَکُمْ عِنْدَ ﷲ، وَأَنْ یَرْزُقَنِی طَلَبَ ثارِی مَعَ إمامِ هُدیً ظَاهِرٍ نَاطِقٍ بِالْحَقِّ

پر پہنچائے نیز مجھے نصیب کرے آپکے خون کا بدلہ لینا اس امام کیساتھ جو ہدایت دینے والا مدد گار رہبرحق بات زبان پر لانے والا ہے

مِنْکُمْ، وَأَسْأَلُ ﷲ بِحَقِّکُمْ وَبِالشَّأْنِ الَّذِی لَکُمْ عِنْدَهُ أَنْ یُعْطِیَنِی بِمُصابِی

تم میں سے اور سوال کرتا ہوں خدا سے آپکے حق کے واسطے اور آپکی شان کے واسطے جوآپ اسکے ہاں رکھتے ہیں یہ کہ وہ مجھ کو عطا

بِکُمْ أَفْضَلَ مَا یُعْطِی مُصاباً بِمُصِیبَتِهِ، مُصِیبَةً مَا أَعْظَمَها وَأَعْظَمَ

کرے آپکی سوگواری پر ایسا بہترین اجر جو اس نے آپکے کسی سوگوار کو دیاہواس مصیبت پر کہ جو بہت بڑی مصیبت ہے اور اسکا رنج و

رَزِیَّتَها فِی الْاِسْلامِ وَفِی جَمِیعِ السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی فِی مَقَامِی

غم بہت زیادہ ہے اسلام میں اور تمام آسمانوں میں اور زمین میں اے معبود قرار دے مجھے اس جگہ پر

هذَا مِمَّنْ تَنالُهُ مِنْکَ صَلَواتٌ وَرَحْمَةٌ وَمَغْفِرَةٌ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ مَحْیایَ مَحْیا مُحَمَّدٍ وَآلِ

ان فراد میں سے جن کو نصیب ہوں تیرے درود تیری رحمت اور بخشش اے معبود قرار دے میرا جینا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل

مُحَمَّدٍ وَمَماتِی مَماتَ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَللّٰهُمَّ إنَّ هذَا یَوْمٌ تَبَرَّکَتْ بِهِ بَنُو أُمَیَّةَ

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سا جینا اور میری موت کو محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موت کی مانند بنا اے معبود بے شک یہ وہ دن ہے کہ جس کو نبی امیہ اور کلیجے کھانے والی

وَابْنُ آکِلَةِ الْاََکْبادِ، اللَّعِینُ ابْنُ اللَّعِینِ عَلَی لِسانِکَ وَلِسانِ نَبِیِّکَ فِی کُلِّ مَوْطِنٍ

کے بیٹے نے بابرکت جانتا جو ملعون ابن ملعون ہے تیری زبان پراور تیرے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان پر ہر شہر میں جہاں رہے

وَمَوْقِفٍ وَقَفَ فِیهِ نَبِیُّکَ اَللّٰهُمَّ الْعَنْ أَبا سُفْیانَ وَمُعَاوِیَةَ وَیَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَةَ عَلَیْهِمْ

اور ہر جگہ کہ جہاں تیرانبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٹھہرے اے معبود اظہار بیزاری کر ابو سفیان اور معاویہ اور یزید بن معاویہ سے کہ ان سے اظہار بیزاری ہو

مِنْکَ اللَّعْنَةُ أَبَدَ الْاَبِدِینَ، وَهذَا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِیادٍ وَآلُ مَرْوانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَیْنَ

تیری طرف سے ہمیشہ ہمیشہ اور یہ وہ دن ہے جس میں خوش ہوئی اولاد زیاد اور اولاد مروان کہ انہوں نے قتل کیا حسین

صَلَواتُ ﷲ عَلَیْهِ، اَللّٰهُمَّ فَضاعِفْ عَلَیْهِمُ اللَّعْنَ مِنْکَ وَالْعَذابَ الْاََلِیمَ اَللّٰهُمَّ إنِّی

صلوات ﷲ علیہ کو اے معبود پس توزیادہ کر دے ان پر اپنی طرف سے لعنت اور عذاب کو اے معبود بے شک

أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ فِی هذَا الْیَوْمِ وَفِی مَوْقِفِی هذَا، وَأَیَّامِ حَیَاتِی بِالْبَرَائَةِ مِنْهُمْ،

میں تیرا قرب چاہتا ہوں کہ آج کے دن میں اس جگہ پر جہاں کھڑا ہوں اور اپنی زندگی کے دنوں میں ان سے بیزاری کرنے کے ذریعے

وَاللَّعْنَةِ عَلَیْهِمْ، وَبِالْمُوَالاةِ لِنَبِیِّکَ وَآلِ نَبِیِّکَ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمُ اَلسَّلَامُ ۔ پھر سو مرتبہ کہے:

اور ان پر نفرین بھیجنے کے ذریعے اور بوسیلہ اس دوستی کے جو مجھے تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آلعليه‌السلام سے ہے سلام ہو تیرے نبی اور ان کی آلعليه‌السلام پر

اَللّٰهُمَّ الْعَنْ أَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَآخِرَ تَابِعٍ لَهُ عَلَی ذلِکَ

اے معبود محروم کر اپنی رحمت سے اس پہلے ظالم کو جس نے ضائع کیا محمد و آل محمد کا حق اوراسکو بھی جس نے آخر میں اس کی پیروی کی

اَللّٰهُمَّ الْعَنِ الْعِصَابَةَ الَّتِی جاهَدَتِ الْحُسَیْنَ وَشایَعَتْ وَبایَعَتْ وَتابَعَتْ عَلَی قَتْلِهِ

اے معبود لعنت کر اس جماعت پر جنہوں نے جنگ کی حسینعليه‌السلام سے نیز ان پربھی جو قتل حسینعليه‌السلام میں ان کے شریک اور ہم رائے تھے

اَللّٰهُمَّ الْعَنْهُمْ جَمِیعاً اب سو مرتبہ کہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ وَعَلَی الْاََرْواحِ الَّتِی

اے معبود ان سب پر لعنت بھیج سلام ہو آپ پراے ابا عبد اللہ اور سلام ان روحوں پر جو آپ کے

حَلَّتْ بِفِنائِکَ، عَلَیْکَ مِنِّی سَلامُ ﷲ أَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّهارُ، وَلاَ جَعَلَهُ

روضے پر آتی ہیں آپ پر میری طرف سے خدا کا سلام ہو ہمیشہ جب تک زندہ ہوں اور جب تک رات دن باقی ہیں اورخدا قرار نہ

ﷲ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّی لِزِیارَتِکُمْ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ، وَعَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ،

دے اس کو میرے لیے آپ کی زیارت کا آخری موقع سلام ہو حسینعليه‌السلام پر اور شہزادہ علیعليه‌السلام فرزند حسینعليه‌السلام پر

وَعَلَی أَوْلادِ الْحُسَیْنِ، وَعَلَی أَصْحابِ الْحُسَیْنِ ۔ پھر کہے:اَللّٰهُمَّ خُصَّ أَنْتَ أَوَّلَ

سلام ہو حسینعليه‌السلام کی اولاد اور حسینعليه‌السلام کے اصحاب پر اے معبود!تو مخصوص فرما پہلے ظالم کو

ظالِمٍ بِاللَّعْنِ مِنِّی، وَابْدَأْ بِهِ أَوَّلاً، ثُمَّ الْعَن الثَّانِیَ وَالثَّالِثَ وَالرَّابِعَ

میری طرف سے لعنت کیساتھ تو اب اسی لعنت کا آغاز فرماپھرلعنت بھیج دوسرے اور تیسرے اور پھر چوتھے پر لعنت بھیج اے معبود!

اَللّٰهُمَّ الْعَنْ یَزِیدَ خامِساً، وَالْعَنْ عُبَیْدَﷲ بْنَ زِیادٍ وَابْنَ مَرْجانَةَ وَعُمَرَ بْنَ سَعْدٍ

لعنت کر یزید پر جو پانچواں ہے اور لعنت کرعبیداللہ فرزند زیاد پر اور فرزند مرجانہ پر عمر فرزند سعد پر

وَشِمْراً وَآلَ أَبِی سُفْیانَ وَآلَ زِیادٍ وَآلَ مَرْوَانَ إلی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۔ اس کے بعد سجدے

اور شمر پر اور اولاد ابوسفیان کواور اولاد زیاد کو اور اولاد مروان کو رحمت سے دور کر قیامت کے دن تک

میں جائے اور کہے:اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ حَمْدَ الشَّاکِرِینَ لَکَ عَلَی مُصَابِهِمْ الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَی

اے معبود! تیرے لیے حمد ہے شکر کرنے والوں کی حمد ،حمد ہے خدا کے لیے جس نے مجھے

عَظِیمِ رَزِیَّتِی، اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِی شَفاعَةَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ، وَثَبِّتْ لِی قَدَمَ صِدْقٍ

عزاداری نصیب کی اے معبود حشر میں آنے کے دن مجھے حسینعليه‌السلام کی شفاعت سے بہرہ مند فرما اور میرے قدم کو سیدھا اور پکا بنا جب

عِنْدَکَ مَعَ الْحُسَیْنِ وَأَصْحابِ الْحُسَیْنِ الَّذِینَ بَذَلُوا مُهَجَهُمْ دُونَ الْحُسَیْنِ

میں تیرے پاس آئوں حسینعليه‌السلام کے ساتھ اور اصحاب حسینعليه‌السلام کے ساتھ جنہوں نے حسینعليه‌السلام کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں ۔

علقمہ کابیان ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: اگر ممکن ہو تو یہی زیارت ہر روز اپنے گھر میں بیٹھ کرپڑھے، اور اسے وہ سارے ثواب ملیں گے جن کا پہلے ذکر ہوا ہے۔

محمد ابن خالد طیالسی نے سیف ابن عمیر سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا :میں صفوان ابن مہران اور اپنے بعض ساتھیوں کے ہمراہ نجف اشرف کی طرف نکلا جب کہ امام جعفر صادق - حیرہ سے مدینہ روانہ ہو چکے تھے وہاں جب ہم امیر المومنین- کی زیارت سے فارغ ہوئے تو صفوان نے اپنا رخ ابو عبد اللہ الحسین- کے روضہ مبارک کیطرف کیا اور کہنے لگے اس مقام یعنی امیر المومنین- کے سر اقدس کے قریب سے امام حسین- کی زیارت کرو۔ کیونکہ امام جعفر صادق - نے اسی جگہ سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت کو سلام پیش کیا تھا جب کہ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ سیف کا کہنا ہے کہ صفوان نے وہی زیارت پڑھی جو علقمہ ابن محمد حضرمی نے امام محمد باقر - سے روز عاشورہ کے لیے روایت کی تھی چنانچہ اس نے امیر المومنین- کے سرہانے دو رکعت نماز اد اکی اور اس کے بعد حضرت سے وداع کیا۔

زیارت عاشورا کے بعد کی دعا

یہ روایت جو نقل کی جا رہی ہے اس کے سلسلہ بیان میں یہ بھی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب + سے وداع کے بعد صفوان نے حضرت امام حسین- کو سلام پیش کیا۔ جب کہ اس نے اپنا چہرہ ان کے روضہ اقدس کی سمت کیا ہوا تھا زیارت کے بعد اس نے حضرت کا وداع بھی کیا اور جو دعائیں اس نے نماز کے بعد پڑھیں ان میں سے ایک دعا یہ تھی:

یَا ﷲ یَا ﷲ یَا ﷲ، یَا مُجِیبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّینَ، یَا کاشِفَ کُرَبِ الْمَکْرُوبِینَ، یَا

اے اللہ اے اللہ اے اللہ اے بے چاروں کی دعا قبول کرنے والے اے مشکلوں والوں کی مشکلیں حل کرنے والے اے

غِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ، یَا صَرِیخَ الْمُسْتَصْرِخِینَ، وَیَا مَنْ هُوَ أَقْرَبُ إلَیَّ مِنْ حَبْلِ

داد خواہوں کی داد رسی کرنے والے اے فریادیوں کی فریاد کو پہنچنے والے اور اے وہ جو شہ رگ سے بھی زیادہ میرے

الْوَرِیدِ، وَیَا مَنْ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِهِ، وَیَا مَنْ هُوَ بِالْمَنْظَرِ الْاََعْلَی، وَبِالْاُفُقِ

قریب ہے اے وہ جو انسان اور اسکے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور وہ جو نظر سے بالا تر جگہ اور روشن تر

الْمُبِینِ، وَیَا مَنْ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ، وَیَا مَنْ یَعْلَمُ خَائِنَةَ

کنارے میں ہے اے وہ جو بڑامہربان نہایت رحم والا عرش پرحاوی ہے اے وہ جو آنکھوں کی ناروا

الْاََعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ، وَیَا مَنْ لا یَخْفیٰ عَلَیْهِ خافِیَةٌ، یَا مَنْ لاَ تَشْتَبِهُ عَلَیْهِ

حرکت اور دلوں کی باتوں کو جانتا ہے اے وہ جس پر کوئی راز پوشیدہ نہیں اے وہ جس پر آوازیں

الْاََصْواتُ وَیَا مَنْ لاَ تُغَلِّطُهُ الْحاجاتُ، وَیَا مَنْ لاَ یُبْرِمُهُ إلْحَاحُ الْمُلِحِّینَ یَا مُدْرِکَ

گڈمڈ نہیں ہویں اے وہ جس کو حاجتوں میںبھول نہیں پڑتی اے وہ جس کو مانگنے والوں کا اصرار بیزار نہیں کرتا اے ہر گمشدہ

کُلِّ فَوْتٍ، وَیَا جامِعَ کُلِّ شَمْلٍ، وَیَا بارِیََ النُّفُوسِ بَعْدَ الْمَوْتِ، یَا مَنْ هُوَ کُلَّ یَوْمٍ

کو پالینے والے اے بکھروں کو اکٹھاکرنے والے اور اے لوگوں کو موت کے بعد زندہ کرنے والے اے وہ جس کی ہر روز

فِی شَأْنٍ، یَا قاضِیَ الْحاجاتِ، یَا مُنَفِّسَ الْکُرُباتِ، یَا مُعْطِیَ السُّؤُلاتِ، یَا وَلِیَّ

نئی شان ہے اے حاجتوں کے پورا کرنے والے اے مصیبتوں کو دور کرنے والے اے سوالوں کے پورا کرنے والے اے خواہشوں

الرَّغَباتِ، یَا کافِیَ الْمُهِمَّاتِ، یَا مَنْ یَکْفِی مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلاَ یَکْفِی مِنْهُ شَیْئٌ فِی

پر مختار اے مشکلوں میںمددگار اے وہ جو ہر امر میں مدد گار ہے اور جس کے سوا زمین اور آسمانوں

السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَعَلِیٍّ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ،

میں کوئی چیز مدد نہیںکرتی سوال کرتا ہوں تجھ سے نبیوں کے خاتم محمد کے حق کے واسطے اور مومنوں کے امیر علی مرتضیعليه‌السلام کے حق کے واسطے

وَبِحَقِّ فاطِمَةَ بِنْتِ نَبِیِّکَ، وَبِحَقِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، فَ إنِّی بِهِمْ أَتَوَجَّهُ إلَیْکَ فِی

تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر فاطمہعليه‌السلام کے حق کے واسطے اور حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام کے حق کے واسطے کیونکہ میں نے انہی کے وسیلے سے تیری طرف رخ کیا

مَقامِی هذَا، وَبِهِمْ أَتَوَسَّلُ، وَبِهِمْ أَتَشَفَّعُ إلَیْکَ، وَبِحَقِّهِمْ أَسْأَلُکَ وَأُقْسِمُ وَأَعْزِمُ

اس جگہ جہاں کھڑا ہوں انکو اپناوسیلہ بنایا انہی کو تیرے ہاں سفارشی بنایا اور انکے حق کے واسطے تیرا سوالی ہوںاسی کی قسم دیتا ہوں اور تجھ سے

عَلَیْکَ، وَبِالشَّأْنِ الَّذِی لَهُمْ عِنْدَکَ وَبِالْقَدْرِ الَّذِی لَهُمْ عِنْدَکَ، وَبِالَّذِی فَضَّلْتَهُمْ

طلب کرتا ہوں انکی شان کے واسطے جووہ تیرے ہاں رکھتے ہیں اس مرتبے کا واسطہ جو وہ تیرے حضور رکھتے ہیں کہ جس سے تو نے

عَلَی الْعَالَمِینَ، وَبِاسْمِکَ الَّذِی جَعَلْتَهُ عِنْدَهُمْ، وَبِهِ خَصَصْتَهُمْ دُونَ الْعَالَمِینَ،

انکو جہانوںمیں بڑائی دی اورتیرے اس نام کے واسطے سے جو تو نے انکے ہاں قرار دیا اور اسکے ذریعے ان کو جہانوںمیں خصوصیت عطا فرمائی

وَبِهِ أَبَنْتَهُمْ وَأَبَنْتَ فَضْلَهُمْ مِنْ فَضْلِ الْعَالَمِینَ حَتَّی فاقَ فَضْلُهُمْ فَضْلَ الْعَالَمِینَ

ان کو ممتاز کیا اور انکی فضیلت کو جہانوں میں سب سے بڑھا دیا یہاں تک کہ ان کی فضلیت تمام جہانوں میں سب سے

جَمِیعاً، أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَکْشِفَ عَنِّی غَمِّی وَهَمِّی

زیادہ ہو گئی سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل کر اور یہ کہ دور فرما دے میرا ہر غم ہر اندیشہ اور

وَکَرْبِی، وَتَکْفِیَنِی الْمُهِمَّ مِنْ أُمُورِی، وَتَقْضِیَ عَنِّی دَیْنِی، وَتُجِیرَنِی مِنَ الْفَقْرِ،

ہر دکھ اور میری مدد کر ہر دشوار کام میں میرا قرضہ ادا کر دے پناہ دے مجھ کو تنگدستی سے بچا

وَتُجِیرَنِی مِنَ الْفاقَةِ، وَتُغْنِیَنِی عَنِ الْمَسْأَلَةِ إلَی الْمَخْلُوقِینَ، وَتَکْفِیَنِی هَمَّ مَنْ

مجھ کو ناداری سے اور بے نیاز کر دے مجھ کو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے اور میری مدد فرما اس

أَخافُ هَمَّهُ، وَعُسْرَ مَنْ أَخافُ عُسْرَهُ، وَحُزُونَةَ مَنْ أَخافُ حُزُونَتَهُ، وَشَرَّ مَنْ

اندیشے میں جس سے میں ڈرتا ہوں اور اس تنگی میں جس سے پریشان ہوں اس غم میں جس سے گھبراتا ہوں اس تکلیف میں جس

أَخافُ شَرَّهُ، وَمَکْرَ مَنْ أَخافُ مَکْرَهُ، وَبَغْیَ مَنْ أَخافُ بَغْیَهُ، وَجَوْرَ مَنْ أَخافُ

سے خوف کھاتا ہوں اس بری تدبیر سے جس سے ڈرتا رہتا ہوں اس ظلم سے جس سے سہما ہوا ہوں اس بے گھر ہونے سے جس سے

جَوْرَهُ، وَسُلْطانَ مَنْ أَخافُ سُلْطانَهُ، وَکَیْدَ مَنْ أَخافُ کَیْدَهُ، وَمَقْدُرَةَ مَنْ أَخافُ

ترساں ہوں اسکے تسلط سے جس سے ہراساں ہوںاس فریب سے جس سے خائف ہوں اس کی قدرت سے جس سے ڈرتا ہوں

مَقْدُرَتَهُ عَلَیَّ، وَتَرُدَّ عَنِّی کَیْدَ الْکَیَدَةِ، وَمَکْرَ الْمَکَرَةِ اَللّٰهُمَّ مَنْ أَرادَنِی فَأَرِدْهُ،

دور کر مجھ سے دھوکہ دینے والوں کے دھوکے اور فریب کاروں کے فریب کو اے معبود جو میرے لیے جیسا قصد کرے تو اسکے ساتھ ویسا قصد کر

وَمَنْ کادَنِی فَکِدْهُ، وَاصْرِفْ عَنِّی کَیْدَهُ وَمَکْرَهُ وَبَأْسَهُ وَأَمانِیَّهُ وَامْنَعْهُ عَنِّی کَیْفَ

جو مجھے دھوکہ دے تو اسے دھوکہ دے اور دور کر دے مجھ سے اس کے دھوکے فریب سختی اور اسکی بد اندیشی کو روک دے اسے مجھ سے

شِئْتَ وَأَنَّیٰ شِئْتَ اَللّٰهُمَّ اشْغَلْهُ عَنِّی بِفَقْرٍ لاَ تَجْبُرُهُ، وَبِبَلائٍ لاَ تَسْتُرُهُ

جسطرح تو چاہے اور جہاں چاہے اے معبود اس کو میرا خیال بھلا دے ایسے فاقے سے جو دور نہ ہو ایسی مصیبت سے جسے تو نہ ٹالے

وَبِفاقَةٍ لاَ تَسُدُّها، وَبِسُقْمٍ لاَ تُعافِیهِ، وَذُلٍّ لاَ تُعِزُّهُ، وَبِمَسْکَنَةٍ

ایسی تنگدستی سے جسے تو نہ ہٹائے ایسی بیماری سے جس سے تو نہ بچائے ایسی ذلت سے جس میں توعزت نہ دے اور ایسی بے کسی سے

لاَتَجْبُرُها اَللّٰهُمَّ اضْرِبْ بِالذُّلِّ نَصْبَ عَیْنَیْهِ، وَأَدْخِلْ عَلَیْهِ الْفَقْرَ فِی مَنْزِلِهِ

جسے تو دور نہ کرے اے معبود میرے دشمن کی خواری اسکے سامنے ظاہر کر دے اسکے گھر میں فقر و فاقہ کو داخل کردے اور اسکے بدن میں

وَالْعِلَّةَ وَالسُّقْمَ فِی بَدَنِهِ حَتَّی تَشْغَلَهُ عَنِّی بِشُغْلٍ شاغِلٍ لاَ فَراغَ لَهُ، وَأَنْسِهِ

دکھ اور بیماری پیدا کر دے یہاں تک کہ مجھے بھول کر اسے اپنی ہی پڑ جائے کہ اسے برائی کاموقع نہ ملے اسے میری یاد بھلا دے جیسے

ذِکْرِی کَما أَنْسَیْتَهُ ذِکْرَکَ وَخُذْ عَنِّی بِسَمْعِهِ وَبَصَرِهِ وَلِسانِهِ وَیَدِهِ وَرِجْلِهِ وَقَلْبِهِ

اس نے تیری یاد بھلا رکھی ہے اور میری طرف سے اس کے کان اس کی آنکھیں اس کی زبان اس کے ہاتھ اس کے پائوں اس کا دل

وَجَمِیعِ جَوارِحِهِ وَأَدْخِلْ عَلَیْهِ فِی جَمِیعِ ذلِکَ السُّقْمَ وَلاَ تَشْفِهِ حَتَّی تَجْعَلَ ذلِکَ

اور اس کے تمام اعضائ کو روک دے اور وارد کر دے ان سب پر بیماری اور اس سے اسے شفا نہ دے یہاں تک کہ بنا دے اس کے

لَهُ شُغْلاً شاغِلاً بِهِ عَنِّی وَعَنْ ذِکْرِی، وَاکْفِنِی یَا کافِیَ مَا لاَ یَکْفِی سِواکَ

لیے ایسی سختی جس میں وہ پڑا رہے کہ مجھ سے اور میری یاد سے غافل ہو جائے اور میری مدد کر اے مدد گار کہ تیرے سواکوئی مدد گار نہیں

فَ إنَّکَ الْکافِی لاَ کافِیَ سِواکَ، وَمُفَرِّجٌ لاَ مُفَرِّجَ سِواکَ، وَمُغِیثٌ

کیونکہ تو میرے لیے کافی ہے تیرے سوا کوئی کافی نہیں تو کشائش دینے والا ہے تیرے سوا کشائش دینے والا نہیں تو فریاد رس ہے

لاَ مُغِیثَ سِواکَ، وَجارٌ لاَ جارَ سِواکَ، خابَ مَنْ کانَ جَارُهُ سِواکَ، وَمُغِیثُهُ

تیرے سوا فریاد رس نہیں تو پناہ دینے والا ہے کوئی اور نہیں نا امید ہوا جسکا تو پناہ دینے والا نہیں جس کا فریاد رس تو نہیں وہ تیرے علاوہ

سِواکَ وَمَفْزَعُهُ إلی سِواکَ وَمَهْرَبُهُ إلی سِواکَ وَمَلْجَأهُ إلی غَیْرِکَ، وَمَنْجَاهُ مِنْ

کس سے فریاد کرے اورتیرے علاوہ کس کی طرف بھاگے جو سوائے تیرے کس کی پناہ لے اور جسے بچانے والا

مَخْلُوقٍ غَیْرِکَ، فَأَنْتَ ثِقَتِی وَرَجائِی وَمَفْزَعِی وَمَهْرَبِی وَمَلْجَأی

سوائے تیرے کوئی اور ہو کیونکہ تو ہی میرا سہارا میری امید گاہ میری جائے فریاد میرے قرار کی جگہ اور میری پناہ گاہ ہے تو

وَمَنْجایَ، فَبِکَ أَسْتَفْتِحُ، وَبِکَ أَسْتَنْجِحُ، وَبِمُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ أَتَوَجَّهُ إلَیْکَ

مجھے نجات دینے والا ہے پس تجھی سے نجات کا طالب ہوں اور کامیابی چاہتا ہوں میں محمد و آل محمد کے واسطے سے تیری طرف آیا

وَأَتَوَسَّلُ وَأَتَشَفَّعُ، فأَسْأَلُکَ یَا ﷲ یَا ﷲ یَا ﷲ،فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ وَ إلَیْکَ

اور انہیں وسیلہ بنانا اور شفاعت چاہتا ہوں پس سوال ہے تجھ سے اے اللہ اے اللہ اے اللہ پس حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے تجھی سے

الْمُشْتَکَیٰ وَأَنْتَ الْمُسْتَعانُ، فأَسْأَلُکَ یَا ﷲ یَا ﷲ یَا ﷲ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

شکایت کی جاتی ہے اور تو ہی مدد کرنے والا ہے پس سوال کرتا ہوں تجھ سے اے اللہ اے اللہ اے اللہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واسطے سے کہ

أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَکْشِفَ عَنِّی غَمِّی وَهَمِّی وَکَرْبِی فِی

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما اور دور کر دے تومیرا غم میرا اندیشہ اور میرا دکھ اس جگہ جہاں

مَقامِی هذَا کَما کَشَفْتَ عَنْ نَبِیِّکَ هَمَّهُ وَغَمَّهُ وَکَرْبَهُ، وَکَفَیْتَهُ هَوْلَ عَدُوِّهِ، فَاکْشِفْ

کھڑا ہوں جیسے تو نے دور کیا تھا اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اندیشہ ان کا غم اور ان کی تنگی اور دشمن سے خوف میں ان کی مدد فرمائی تھی پس دور کر میری

عَنِّی کَما کَشَفْتَ عَنْهُ، وَفَرِّجْ عَنِّی کَما فَرَّجْتَ عَنْهُ، وَاکْفِنِی کَما کَفَیْتَهُ، وَاصْرِفْ

مشکل جیسے ان کی مشکل دور کی تھی اور کشائش دے مجھ کو جیسے ان کو کشائش دی تھی اور میری مدد کر جیسے ان کی مدد فرمائی تھی میرا خوف

عَنِّی هَوْلَ مَا أَخافُ هَوْلَهُ، وَمَؤُونَةَ مَا أَخافُ مَؤُونَتَهُ، وَهَمَّ مَا أَخافُ هَمَّهُ، بِلا

دور کر جیسے ان کا خوف دور فرمایا تھا میری تکلیف دور کر جیسے انکی تکلیف دور فرمائی تھی اور وہ اندیشہ مٹا جس سے ڈرتا ہوں بغیر اس کے

مَؤُونَةٍ عَلَی نَفْسِی مِنْ ذلِکَ، وَاصْرِفْنِی بِقَضائِ حَوائِجِی، وَکِفَایَةِ مَا أَهَمَّنِی هَمُّهُ

کہ اس سے مجھے کوئی زحمت اٹھانی پڑے مجھے پلٹا جبکہ میری حاجات پوری ہو جائیں جس امر کا اندیشہ ہے اس میں مدد دے

مِنْ أَمْرِ آخِرَتِی وَدُنْیَایَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَیَا أَبا عَبْدِﷲ، عَلَیْکُما مِنِّی سَلامُ ﷲ

میرے دنیا و آخرت کے تمام تر معاملات میں اے مومنوں کے امیر اور اے ابا عبدﷲعليه‌السلام آپ پر میری طرف سے خدا کا سلام

أَبَداً مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ والنَّهارُ وَلاَ جَعَلَهُ ﷲ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ زِیارَتِکُما وَلاَ فَرَّقَ

ہمیشہ ہمیشہ جب تک زندہ ہوں اور رات دن باقی ہیں اور خدا میری اس زیارت کو آپ دونوں کے لیے میری آخری زیارت نہ

ﷲ بَیْنِی وَبَیْنَکُما اَللّٰهُمَّ أَحْیِنِی حَیَاةَ مُحَمَّدٍ وَذُرِّیَّتِهِ، وَأَمِتْنِی مَمَاتَهُمْ، وَتَوَفَّنِی

بنائے اور میرے اور آپ کے درمیان جدائی نہ ڈالے اے معبودمجھے زندہ رکھ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی اولاد کی طرح مجھے انہی جیسی موت دے

عَلَی مِلَّتِهِمْ، وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَتِهِمْ، وَلاَ تُفَرِّقْ بَیْنِی وَبَیْنَهُمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ أَبَداً فِی

مجھے ان کی روش پر وفات دے مجھے ان کے گروہ میں محشور فرما اور میرے اور ان کے درمیان جدائی نہ ڈال ایک پل کی کبھی بھی

الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَیَا أَبا عَبْدِﷲ، أَتَیْتُکُما زائِراً وَمُتَوَسِّلاً إلَی

دنیا اور آخرت میں اے امیر المومنینعليه‌السلام اور اے ابا عبداللہعليه‌السلام میں آپ دونوں کی زیارت کو آیا کہاس کو خدا کے ہاںوسیلہ بنائوں جو میرا

ﷲ رَبِّی وَرَبِّکُما وَمُتَوَجِّهاً إلَیْهِ بِکُما وَمُسْتَشْفِعاً بِکُما إلَی ﷲ تَعالی فِی حاجَتِی

اور آپ کا رب ہے میں آپ کے ذریعے اس کی طرف متوجہ ہوا ہوں اور آپ دونوں کو خدا کے ہاں سفارشی بناتا ہوں اپنی حاجت

هذِهِ فَاشْفَعا لِی فَ إنَّ لَکُما عِنْدَ ﷲ الْمَقامَ الْمَحْمُودَ، وَالْجاهَ الْوَجِیهَ، وَالْمَنْزِلَ

کے بارے میں پس میری شفاعت کریں کہ آپ دونوں خدا کے حضور پسندیدہ مقام بہت زیادہ آبرو بہت اونچا مرتبہ اور

الرَّفِیعَ وَالْوَسِیلَةَ، إنِّی أَنْقَلِبُ عَنْکُما مُنْتَظِراً لِتَنَجُّزِ الْحاجَةِ وَقَضائِها وَنَجاحِها

محکم تعلق رکھتے ہیں بے شک میں پلٹ رہا ہوں آپ دونوں کے ہاں سے اس انتظار میں کہ میری حاجت پوری ہو اور مراد برآئے

مِنَ ﷲ بِشَفاعَتِکُما لِی إلَی ﷲ فِی ذلِکَ فَلا أَخِیبُ، وَلاَ یَکونُ مُنْقَلَبِی

خدا کے ہاں آپکی شفاعت کے ذریعے جو میرے حق میں آپ خدا کے ہاں ندا کریں گے لہذا میں مایوس نہیںاور میری واپسی ایسی واپسی نہیں ہے

مُنْقَلَباً خائِباً خاسِراً، بَلْ یَکُونُ مُنْقَلَبِی مُنْقَلَباً راجِحاً مُفْلِحاًمُنْجِحاً مُسْتَجاباً

جس میں ناامیدی و ناکامی ہو بلکہ میری واپسی ایسی جو بہترین نفع مند کامیاب قبول دعا کی حامل میری تمام حاجتیں پوری

بِقَضائِ جَمِیعِ حَوائِجِی وَتَشَفَّعا لِی إلَی ﷲ انْقَلَبْتُ عَلَی مَا شائَ ﷲ وَلاَ حَوْلَ

ہونے کے ساتھ ہے جبکہ آپ خدا کے ہاں میرے سفارشی ہیںمیں پلٹ رہا ہوں اس امر پر جو خدا چاہے اور نہیں طاقت

وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِالله، مُفَوِّضاً أَمْرِی إلَی ﷲ، مُلْجِئاً ظَهْرِی إلَی ﷲ، مُتَوَکِّلاً عَلَی

و قوت مگر جو خدا سے ملتی ہے میں نے اپنا معاملہ خدا کے سپردکر دیا اس کا سہارا لے کر خدا پر ہی

ﷲ، وَأَقُولُ حَسْبِیَ ﷲ وَکَفیٰ، سَمِعَ ﷲ لِمَنْ دَعا، لَیْسَ لِی وَرائَ ﷲ

بھروسہ رکھتا ہوں اور کہتا ہوں خدا میرا ذمہ دار اور مجھے کافی ہے خدا سنتا ہے جو اسے پکارے میرا کوئی ٹھکانہ نہیں سوائے خدا کے

وَوَرائَکُمْ یَا سادَتِی مُنْتَهیٰ، مَا شائَ رَبِّی کانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ

اور سوائے آپ کے اے میرے سردار جو میرا رب چاہے وہ ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا اور نہیں ہے طاقت

قُوَّةَ إلاَّ بِالله أَسْتَوْدِعُکُمَا ﷲ، وَلاَ جَعَلَهُ ﷲ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّی إلَیْکُما، انْصَرَفْتُ

و قوت مگر جو خدا سے ملتی ہے میں آپ دونوں کو سپرد خدا کرتا ہوں اور خدا اسکوآپکے ہاں میری آخری حاضری قرار نہ دے میں واپس جاتا ہوں

یَا سَیِّدِی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَمَوْلایَ وَأَنْتَ اُبْتُ یَاأَبا عَبْدِﷲ یَا سَیِّدِی وَسَلامِی

اے میرے آقا اے مومنوں کے امیر اورمیرے مدد گار اور آپ ہیں اے ابا عبداللہعليه‌السلام اے میرے سردار میرا سلام ہو

عَلَیْکُما مُتَّصِلٌ مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّهارُ، واصِلٌ ذلِکَ إلَیْکُما غَیْرُ مَحْجُوبٍ عَنْکُما

آپ دونوں پر متواتر جب تک رات اور دن باقی ہیں یہ سلام آپ دونوں کو پہنچتا رہے کبھی رکنے نہ پائے آپ پر میرا

سَلامِی إنْ شَائَ ﷲ، وَأَسْأَلُهُ بِحَقِّکُما أَنْ یَشائَ ذلِکَ وَیَفْعَلَ فَ إنَّهُ حَمِیدٌ مَجِیدٌ

یہ سلام اگر خدا چاہے تو سوال کرتا ہوں اس سے آپ کے واسطے کہ وہ یہی چاہے اور یہ کرے کیونکہ وہ ہے حمد والا بزرگی والا میں آپ

انْقَلَبْتُ یَا سَیِّدَیَّ عَنْکُما تائِباً حامِداً لِلّٰهِ شاکِراً راجِیاً لِلاِِْجابَةِ، غَیْرَ آیِسٍ وَلاَ

کے ہاں سے جاتا ہوں اے میرے سردار ا ور خدا سے توبہ کرتا ہوں اسکی حمد کرتا ہوں شکر کرتا ہوں قبولیت کا امید وار ہوں مجھے نا امید و مایوس

قَانِطٍ، آئِباً عائِداً راجِعاً إلی زِیارَتِکُما، غَیْرَ راغِبٍ عَنْکُما وَلاَ عَنْ زِیارَتِکُما بَلْ

نہ کرنا پھر آنے کی زیارت کرنے کے ارادے سے نہ کہ آپ سے اور نہ آپ کی زیارت سے

راجِعٌ عائِدٌ إنْ شَائَ ﷲ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِالله، یَا سادَتِی رَغِبْتُ إلَیْکُما

منہ موڑے ہوئے بلکہ دوبارہ آنے کے لیے اگر خدا چاہے اورنہیں طاقت و قوت مگر جو خدا سے ملتی ہے اے میرے سردار میں شائق

وَ إلی زِیارَتِکُما بَعْدَ أَنْ زَهِدَ فِیکُما وَفِی زِیارَتِکُما أَهْلُ الدُّنْیا، فَلا خَیَّبَنِیَ

ہوں آپ کا اور آپ کی زیارت کا جبکہ بے رغبت ہو گئے ہیں آپ سے اور آپ دونوں کی زیارت کرنے سے یہ دنیا والے پس خدا

ﷲ مِمَّا رَجَوْتُ وَمَا أَمَّلْتُ فِی زِیارَتِکُما إنَّهُ قَرِیبٌ مُجِیبٌ

مجھے نا امید نہ کرے اس سے جسکی امید و آرزو رکھتا ہوں آپکی زیارت کے واسطے بے شک وہ نزدیک تر ہے قبول کرنے والا ہے۔

زیارت عاشورا کے فوائد

سیف ابن عمیر کہتا ہے کہ میں نے صفوان سے کہا کہ علقمہ ابن محمد نے امام محمد باقر -سے یہ دعا ہمارے لیے نقل نہیں کی بلکہ اس نے صرف زیارت عاشورہ ہی بیان کی ہے صفوان نے کہا کہ میں اپنے سردار امام جعفر صادق - کے ساتھ اس مقام پر آیا تھا تو آپ نے یہی عمل کیا جو ہم نے کیا ہے یعنی اس طرح زیارت پڑھی اور پھر دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد یہی دعائے وداع پڑھی تھی جیسا کہ ہم نے نماز پڑھی اور وداع کیا ہے صفوان نے مزید کہا کہ امام جعفر صادق - نے مجھ سے فرمایا کہ اس زیارت اور دعا کا پڑھنا اپنا شیوہ بنا لو اور اسی طرح زیارت کیا کرو پس ضرور میں ضامن ہوں خدا کی جانب سے ہر اس شخص کے لیے جو اس طرح زیارت کرے اور اسی طرح دور یا نزدیک سے دعا پڑھے تو اس کی زیارت قبول ہو گی اس کا سلام حضرت تک پہنچے گا اور نا مقبول نہ ہو گا جب بھی وہ خدا سے حاجت طلب کرے گاوہ پوری ہوگی اور خدائے تعالیٰ اسے مایوسی کے عالم میں واپس نہ پلٹائے گا۔ اے صفوان میں نے اسی ضمانت کے ساتھ یہ زیارت اپنے والد گرامی امام علی ابن الحسین + سے سنی انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ امام حسین- سے انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ اپنے برادر امام حسن- سے انہوں نے اسی ضمانت کے ساتھ اپنے والد بزرگوار امیر المومنین- سے انہوں نے اسی ضمانت کیساتھ حضرت رسول سے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی ضمانت کے ساتھ جبرائیلعليه‌السلام سے اور جبرائیلعليه‌السلام نے اسی ضمانت کے ساتھ یہ زیارت خدا وند عالم سے سنی کہ یقیناً حق تعالیٰ نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص یہ زیارت پڑھ کر امام حسین- کی دور یا نزدیک سے زیارت کرے اور پھر یہی دعا پڑھے تو میں اس کی زیارت قبول کروں گا۔

اس کی ہر خواہش پوری کروں گا وہ جتنی بھی ہو اس کا سوال پورا کروں گا اور وہ میری بارگاہ سے مایوس و ناکام نہیں پلٹے گا بلکہ وہ بہ چشم روشن واپس جائے گا کہ اس کی حاجت پوری ہو چکی ہو گی وہ حصول جنت میں کامیاب او رجہنم سے آزاد ہو چکا ہو گا میں اس کی شفاعت قبول کروں گا سوائے دشمن اہل بیت کے اس حق میں اس کی شفاعت قبول نہ ہو گی خدائے تعالیٰ نے اپنی ذات برحق کی قسم کھائی اور ہمیں اس پر گواہ بنایا ہے کہ جس کی اس کے ملائکہ نے گواہی دی ہے جبرائعليه‌السلام یل نے بھی یہ کہا کہ یا رسول اللہ ! خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کو بشارت دوں اور مسرور کروں نیز اس لیے بھیجا ہے کہ علی و فاطمہ و حسن و حسین اور آپ کی اولاد سے دیگر ائمہ معصومین کو بشارت دو کہ یہ خوشی اور شادمانی تا قیامت قائم رہے لہذا آپ کی خوشی علی، فاطمہ،حسن، حسین،اور دیگر ائمہ اور آپکے شعیوں کی یہ مسرت و شادمانی تا قیامت بحال و قائم رہے اس کے بعد صفوان نے کہا کہ امام جعفر صادق - نے مجھ سے فرمایا کہ اے صفوان جب بھی بارگاہ الہٰی میں تجھے کوئی حاجت در پیش ہوا کرے تو تم جس جگہ پر بھی ہو وہاں یہ زیارت اور یہ دعا پڑھو اور پھر جو حاجت بھی خدا سے طلب کرو گے وہ پوری کی جائے گی اور حق تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ سے عطا وبخشش کا جووعدہ کر رکھا ہے وہ اس کے خلاف نہیں کرے گا والحمد للہ!

مولف کہتے ہیں نجم الثاقب میں حاج سید احمد رشتی کے سفر حج کے ذیل میں حضرت صاحب العصر ارواحنافداہ سے ان کے شرف ملاقات کی حکایت درج ہے جس میں امام العصر(عج) کا یہ فرمان نقل ہوا ہے کہ تم زیارت عاشورہ کیوں نہیں پڑھتے عاشورہ عاشورہ عاشورہ اور انشائ اللہ ہم یہ حکایت زیارت جامعہ کبیرہ کے ساتھ نقل کریں گے تاہم ہمارے استاد ثقتہ الاسلام نوریرحمه‌الله کا ارشاد ہے کہ زیارت عاشورہ کے مرتبہ و فضلیت میںاتنا ہی کافی ہے کہ یہ زیارت دیگر زیارتوں کی طرح معصوم کی طرف سے صرف ظاہری املائ و انشائ نہیں گو کہ ان کے پاک دلوں سے جو بات نکلتی ہے وہ عالم بالاسے آتی ہے لیکن یہ زیارت احادیث قدسیہ میں سے ہے جو اسی ترتیب سے زیارت و لعنت اورسلام و دعائ کے ساتھ ذات احدیت سے جبرائیل امینعليه‌السلام تک اور ان سے حضرت خاتم النبیینصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچی ہے اس کے تجربہ و آزمائش کے مطابق چالیس روز یا اس سے کم دنوں تک اس کو روزانہ پڑھنا حاجتوں کے پورا ہونے اور مقاصد کے برآنے اوردفعیہ دشمن کے لیے بے خطا اور بے نظیر ہے لیکن سب سے بڑا فائدہ جو اس کے متواتر پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے وہ وہی ہے جسے میں نے کتاب دارالسلام میں درج کیا ہے جو مختصراً یوں ہے کہ ثقہ صالح متقی حاج ملا حسن یزدیرحمه‌الله جو پارسا افراد میں سے تھے اور نجف اشرف میں عبادت و زیارت میںمصروف رہاکرتے تھے انہوں نے ثقہ امین حاج محمد علی یزدیرحمه‌الله سے نقل کیا ہے جو مرد فاضل و صالح تھے اور یزد میں ہمیشہ آخرت کی بھلائی کی خاطر مشغول عبادت رہتے ہیں یزد کے باہر واقع مقبرہ جس میں بہت سے صالحین مدفون ہیں اور اسے مزار کہتے ہیں اس میں راتیں گزارتے تھے ان کا ایک ہمسایہ تھا جو ان کے ساتھ پلا بڑھا تھا اور وہ دونوں ایک ہی استادکی شاگردی میں رہے جب وہ جوان ہوا تو اس نے وصولی عشر کا شغل اختیار کیا اور پھر اسی کام میں دنیا سے چل بسا وہ اسی جگہ کے قریب دفن ہوا جہاں یہ مرد صالح راتوں کو عبادت کرتے تھے اس کی مرگ پر ابھی ایک ماہ نہ گزرا تھا کہ اس نیک شخص نے اسے عمدہ لباس اور بہترین حالت میں دیکھا تب وہ اس کے قریب گئے اور اس سے کہا کہ میں تمہارے آغاز و انجام زندگی سے واقف ہوں اور تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کہ تم ایسے لوگوں میں سے نہ تھے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ ان کا باطن صاف ہے نیز جو پیشہ تم نے اختیار کر رکھا تھا اس کا تقاضا بھی یہ تھا کہ تم عذاب میں پڑے رہو پس وہ کون سا عمل ہے جس کے ذریعے تم اس مرتبے پر پہنچے ہو؟اس نے کہا کہ معاملہ ایسا ہی تھا جیسے آپ نے فرمایا ہے اور جب سے قبر میں آیا ہوں بڑے ہی سخت عذاب میںرہا ہوں یہاں تک کہ ہمارے استاد اشرف لوہار کی بیوی یہاں دفن کی گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی جائے دفن کی طرف اشارہ بھی کیا جو وہاں سے سو گز کے فاصلے پر تھی پھر بتایا کہ دفن کی رات میں امام ابو عبداللہ الحسین- نے تین بار اس خاتون کی خبر گیری فرمائی جب تیسری دفعہ تشریف لائے تو آپ نے حکم فرمایا کہ اس قبرستان پر سے عذاب اٹھا دیا جائے چنانچہ اس وقت سے ہم سبھی اہل قبور کی حالت بہتر ہو گئی اور ہم نعمت و رحمت میں بسر کر رہے ہیں اس پر وہ صالح حیرت زدہ ہو کر بیدار ہوئے جب کہ وہ نہ اس لوہار کو جانتے تھے نہ اس گھر کی جائے وقوع سے واقف تھے پس وہ لوہاروں کے بازار گئے اور جستجو کی تو اس عورت کا خاوند انہیں مل گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی بیوی تھی اس نے کہا ہاں وہ کل فوت ہو گئی اور اسے فلاں جگہ دفن کیاگیا ہے‘ ان بزرگ نے پوچھا کہ آیا وہ امام حسین- کی زیارت کو گئی تھی اس نے کہا نہیں کیا وہ ذکر و مصائب کیا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں انہوںنے دریافت کیا آیا وہ مجلس عزا برپا کرتی تھی اس نے کہا نہیں تب وہ لوہار کہنے لگا کہ آپ کس بات کی جستجو میں ہیں؟ اب بزرگ نے اسے اپنا خواب سنایا تو وہ کہنے لگا کہ میری بیوی ہمیشہ زیارت عاشورہ پڑھا کرتی تھی۔

دوسری زیارت عاشورہ

یہ زیارت عاشورہ غیر معروف ہے جو زیارت مشہورہ ہی کیطرح اجر و ثواب کی حامل ہے اس میں سو مرتبہ لعنت کرنا اور سو مرتبہ سلام کرنا بھی نہیں ہے یہ ان لوگوں کیلئے فوز عظیم کی حیثیت رکھتی ہے جو اہم کاموں میں مشغول رہتے ہیں مزار قدیم میں اسکا جو طریقہ درج ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص دور یا نزدیک سے حضرت امام حسین- کی زیارت کرنا چاہے تو وہ غسل کرے اور صحرا یااپنے گھر کی چھت پر جائے دو رکعت نماز بجا لائے اور الحمد کے بعد سورہ اخلاص پڑھے اور جب سلام پھیرلے تو آنحضرت کی طرف سلام کے ساتھ اشارہ کرے اور اسی سلام ،اشارے اور نیت کے ساتھ اسی جہت کیطرف متوجہ ہو جس میں وہ ہے یعنی حضرت امام حسین- کے مزار کربلا معلی کیطرف رخ کرے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ یہ سلام پڑھے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ الْبَشِیرِ النَّذِیرِ وَابْنَ سَیِّدِ

آپ پر سلام ہو اے رسول خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے خوشخبری دینے والے ڈرانے والے کے فرزنداور اوصیائ کے سردار کے

الْوَصِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا

فرزند آپ پر سلام ہو اے فاطمہ زہراعليه‌السلام کے فرزند جوجہانوں کی عورتوں کی سردار ہیںآپ پر سلام ہو اے

خِیَرَةَ ﷲ وَابْنَ خِیَرَتِهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ ﷲ وَابْنَ ثَارِهِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا

پسندیدہ خدا اور پسندیدہ خدا کے فرزند سلام ہو آپ پراے قربان خدااور قربان خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے

الْوِتْرُ الْمَوْتُورُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْاِمامُ الْهَادِی الزَّکِیُّ وَعَلَی أَرْوَاح

وہ خون جس کا بدلہ لیا جانا ہے سلام ہوآپ پر اے وہ امام کہ جورہبر ہے پاک و پاکیزہ ہے اور سلام ہو ان روحوں پر جو

حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَأَقامَتْ فِی جِوارِکَ، وَوَفَدَتْ مَعَ زُوَّارِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ مِنِّی مَا

آپ کی بارگاہ میں اترتی ہیں آپ کے قرب میں ٹھہرتی اور آپ کے زائروں کے ہمراہ آتی ہیں سلام ہو آپ پر

بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّهارُ فَلَقَدْ عَظُمَتْ بِکَ الرَّزِیَّةُ وَجَلَّتْ فِی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ

میری طرف سے جب تک زندہ ہوں اور رات دن کی آمد جاری ہے یقینا آپ کا سوگ بہت زیادہ اور بہت بھاری ہے

وَفِی أَهْل السَّمٰوَاتِ وَأَهْلِ الْاََرَضِینَ أَجْمَعِینَ فَ إنَّا لِلّٰهِ وَ إنَّا إلَیْهِ راجِعُونَ صَلَواتُ

مومنوں اور مسلمانوں کے لیے اور ان سب پر بھاری ہے جو آسمانوں پر اورزمینوں میں ہیں پس ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف

ﷲ وَبَرَکاتُهُ وَتَحِیَّاتُهُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ الْحُسَیْنِ وَعَلَی آبائِکَ الطَّیِّبِینَ

لوٹیں گے خدا کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں اور سلام ہوں آپ پر اے ابا عبداللہ حسینعليه‌السلام اور سلام ہو آپ کے بزرگوں پر جو پاکیزہ

الْمُنْتَجَبِینَ وَعَلَی ذُرِّیَّاتِکُمُ الْهُداةِ الْمَهْدِیِّینَ لَعَنَ ﷲ أُمَّةً خَذَلَتْکَ وَتَرَکَتْ نُصْرَتَکَ

اور منتخب ہیں اور سلام آپکے فرزندوں پر جو ہدایت یافتہ رہبر ہیں خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپکا ساتھ چھوڑاآپ کی مدد نہ کی

وَمَعُونَتَکَ وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً أَسَّسَتْ أَساسَ الظُّلْمِ لَکُمْ وَمَهَّدَتِ الْجَوْرَ عَلَیْکُمْ وَطَرَّقَتْ

اور کمک نہ پہنچائی اور خدا کی لعنت ہو اس گروہ پر جس نے آپ پر ظلم کرنے کی بنیاد ڈالی آپ پرستم کرنے کا سامان فراہم کیا آپ کو

إلی أَذِیَّتِکُمْ وَتَحَیُّفِکُمْ وَجارَتْ ذلِکَ فِی دِیارِکُمْ وَأَشْیاعِکُمْ، بَرِیْتُ إلَی ﷲ

آزار پہنچانے اور آپ کو بے گھر کرنے کی راہ نکالی اس ظلم و ستم کو آپ کے گھروں اورآپ کے ساتھیوں تک بڑھایا میں اظہار

عَزَّوَجَلَّ وَ إلَیْکُمْ یَا سَادَاتِی وَمَوَالِیَّ وَأَیِمَّتِی مِنْهُمْ وَمِنْ أَشْیاعِهِمْ وَأَتْباعِهِمْ،

بیزاری کرتا ہوں خدائے تعالیٰ کے اور آپکے سامنے اے میرے سردارمیرے آقا اور میرے امام ان سے انکے ساتھیوں سے انکے پیروکاروں سے

وَأَسْأَلُ ﷲ الَّذِی أَکْرَمَ یَا مَوالِیَّ مَقامَکُمْ وَشَرَّفَ مَنْزِلَتَکُمْ وَشَأْنَکُمْ أَنْ یُکْرِمَنِی

اور سوال کرتا ہوں خدا سے جس نے اے میرے آقا بلند کیا آپ کا مقام بڑھائی آپ کی عزت اور شان یہ کہ وہ مجھے بزرگی دے

بِوِلایَتِکُمْ وَمَحَبَّتِکُمْ وَالائْتِمامِ بِکُمْ، وَبِالْبَرائَةِ مِنْ أَعْدَائِکُمْ، وَأَسْأَلُ ﷲ الْبَرَّ

آپ کی ولایت آپ کی محبت آپ کی پیروی اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعے سے اور سوال کرتا ہوں خدا سے جو بڑا

الرَّحِیمَ أَنْ یَرْزُقَنِی مَوَدَّتَکُمْ وَأَنْ یُوَفِّقَنِی لِلطَّلَبِ بِثارِکُمْ مَعَ الْاِمامِ الْمُنْتَظَرِ

مہربان ہے یہ کہ وہ مجھے آپ کی مودّت نصیب کرے اور مجھے توفیق دے کہ آپ کے خون کابدلہ لوں اس امام کے ہمراہ

الْهادِی مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ یَجْعَلَنِی مَعَکُمْ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ، وَأَنْ یُبَلِّغَنِی

جو آنے والے رہبر ہیں آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہیں اور یہ کہ وہ قرار دے مجھ کو آپ کے ساتھ دنیا وآخرت میں نیزمجھے بھی اس مقام محمود پر

الْمَقامَ الْمَحْمُودَ لَکُمْ عِنْدَ ﷲ، وَأَسْأَلُ ﷲ عَزَّوَجَلَّ بِحَقِّکُمْ وَبِالشَّأْنِ الَّذِی جَعَلَ

پہنچائے جو اس نے آپ کیلئے خاص کیا ہے پھر سوال کرتا ہوں خدائے عزو جل سے آپ کے حق اور مرتبے کے واسطے سے جو خدا

ﷲ لَکُمْ أَنْ یُعْطِیَنِی بِمُصابِی بِکُمْ أَفْضَلَ مَا أَعْطیٰ مُصاباً بِمُصِیبَةٍ،

نے آپ کیلئے قرار دیا ہے کہ وہ آپ کی عزا داری کے بدلے میں مجھے بہترین اجر دے جو اس نے آپ کے کسی عز دار کو عنایت کیا ہو

إنَّا لِلّٰهِ وَ إنَّا إلَیْهِ راجِعُونَ، یَا لَها مِنْ مُصِیبَةٍ مَا أَفْجَعَها وَأَنْکاها لِقُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ

یقیناً ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹیں گے افسوس ہے کہ آپ کی اس مصیبت پر جوکتنی دلگداز اور گہری ہے مومنوں اور مسلمانوں

وَالْمُسْلِمِینَ فَ إنَّا لِلّٰهِ وَ إنَّا إلَیْهِ راجِعُونَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنِی

کے دلوں کے لیے پس ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور مجھے اس جگہ قرار دے

فِی مَقامِی مِمَّنْ تَنالُهُ مِنْکَ صَلَواتٌ وَرَحْمَةٌ وَمَغْفِرَةٌ، وَاجْعَلْنِی عِنْدَکَ وَجِیهاً فِی

جہاں پر کھڑا ہوں ان افراد میں جن پر تیری سلامتی، رحمت اور بخشش ہوئی ہے اور مجھے قرار دے اپنے حضور باعزت

الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ فَ إنِّی أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ

اور مقربین میں سے دنیا اور آخرت میں کیونکہ میں تیرا قرب چاہتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صدقے ان پر

وَعَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ اَللّٰهُمَّ وَ إنِّی أَتَوَسَّلُ وَأَتَوَجَّهُ بِصَفْوَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ

اور انکی ساری آل پر تیری رحمتیں ہوں اے معبود! بے شک میں نے وسیلہ بنایا اور تیری طرف آیا بواسطہ مخلوق میں سے تیرے

وَخِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ وَالطَّیِّبِینَ مِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا، اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

پسندیدہ کے اور کائنات میں تیرے چنے ہوئوں یعنی حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حضرت علیعليه‌السلام اور ان دونوں کی پاکیزہ اولاد کو وسیلہ بنایا پس اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْ مَحْیایَ مَحْیاهُمْ، وَمَماتِی مَماتَهُمْ، وَلاَ تُفَرِّقْ بَیْنِی وَبَیْنَهُمْ فِی

و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور بنا دے میری زندگی انکی زندگی جیسی اور میری موت انکی موت جیسی اور جدائی نہ ڈال مجھ میں اور ان میں دنیا

الدُّنْیا وَالْاَخِرةِ، إنَّکَ سَمِیعُ الدُّعائِ اَللّٰهُمَّ وَهذَا یَوْمٌ تَجَدَّدَ فِیهِ النِّقْمَةُ، وَتَنَزَّلَ فِیهِ

وآخرت میں بے شک تو دعا کا سننے والا ہے اے معبود آج وہ دن ہے جس میں نیا عذاب آتا ہے اور برستی ہے

اللَّعْنَةُ عَلَی اللَّعِینِ یَزِیدَ وَعَلَی آلِ یَزِیدَ وَعَلَی آلِ زِیادٍ وَعُمَرَ بْنِ سَعْدٍ وَالشِّمْرِ

لعنت پر لعنت ملعون ولعنتی یزید پر اور اولاد یزید پر اور زیاد پر اور لعنت ہے عمر بن سعد اور شمر پر

اَللّٰهُمَّ الْعَنْهُمْ وَالْعَنْ مَنْ رَضِیَ بِقَوْلِهِمْ وَفِعْلِهِمْ مِنْ أَوَّلٍ وَآخِرٍ لَعْناً کَثِیراً وَأَصْلِهِمْ

اے معبود لعنت بھیج ان پر لعنت بھیج اس پر جو انکے قول و فعل پر راضی ہو اولین و آخرین میں سے بہت بہت لعنت ڈال دے انکا اپنی

حَرَّنارِکَ وَأَسْکِنْهُمْ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیراً وَأَوْجِبْ عَلَیْهِمْ وَعَلَی کُلِّ مَنْ شایَعَهُمْ

آگ کے شعلوں میں ٹھکانہ بنا ان کو جہنم میں ٹھہرا اور وہ کتنا برا ٹھکانہ ہے ضرور لعنت کر ان پر اور ان کے ساتھیوں پر

وَبایَعَهُمْ وَتابَعَهُمْ وَساعَدَهُمْ وَرَضِیَ بِفِعْلِهِمْ وَافْتَحْ لَهُمْ وَعَلَیْهِمْ وَعَلَی کُلِّ مَنْ

جنہوں نے ان سے پیمان باندھے انکی پیروی کی اور انکی مدد کرتے رہے اور انکے فعل پر راضی رہے کھول دے ان کیلئے اپنی ہر لعنت کا

رَضِیَ بِذلِکَ لَعَناتِکَ الَّتِی لَعَنْتَبِها کُلَّ ظالِمٍ، وَکُلَّ غاصِبٍ، وَکُلَّ جاحِدٍ،

راستہ اور ان پر بھی جو ان کے ظلم کو پسند کرتے ہیں اپنی طرف سے وہ لعنت کر جو لعنت کی ہے تو نے ہر ظالم پر ہر غاصب پرہر منکر پر ہر

وَکُلَّ کافِرٍ، وَکُلَّ مُشْرِکٍ، وَکُلَّ شَیْطانٍ رَجِیمٍ، وَکُلَّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ اَللّٰهُمَّ الْعَنْ یَزِیدَ

کافر پر ہر مشرک پر اور جو لعنت کی ہے تو نے ہر مردود شیطان پر اور ہر ضدی ستمگار پر اے معبود لعنت بھیج یزید پر

وَآلَ یَزِیدَ وَبَنِی مَرْوانَ جَمِیعاً اَللّٰهُمَّ وَضَعِّفْ غَضَبَکَ وَسَخَطَکَ وَعَذابَکَ وَنَقِمَتَکَ

اولاد یزید پر اور اولاد مروان سب پر اے معبود دگنا کر دے اپنا غضب اپنا غصہ اپنا عذاب اور اپنی سزا

عَلَی أَوَّلِ ظالِمٍ ظَلَمَ أَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّکَ، اَللّٰهُمَّ وَالْعَنْ جَمِیعَ الظَّالِمِینَ لَهُمْ وَانْتَقِمْ

اس پہلے ظالم پر جس نے تیرے نبی کے خاندان پر ظلم کاآغاز کیا اے معبود لعنت کر ان سب پر جنہوں نے اہل بیتعليه‌السلام پر ظلم کیا اور تو ان

مِنْهُمْ إنَّکَ ذُو نِقْمَةٍ مِنَ الْمُجْرِمِینَ، اَللّٰهُمَّ وَالْعَنْ أَوَّلَ ظالِمٍ ظَلَمَ آلَ بَیْتِ مُحَمَّدٍ،

سے انتقام لے کیونکہ تو مجرموں کو سزا دینے والا ہے اے معبود تو لعنت کر ان پہلے ظالموں پر جنہوں نے اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کیا

وَالْعَنْ أَرْواحَهُمْ وَدِیارَهُمْ وَقُبُورَهُمْ وَالْعَنِ اَللّٰهُمَّ الْعِصابَةَ الَّتِی نازَلَتِ الْحُسَیْنَ

اورلعنت بھیج ان کی روحوں پر ان کے گھروں پر اور انکی قبروں پر نیز لعنت کر اے معبود اس گروہ پر جنہوں نے حسینعليه‌السلام سے جنگ کی جو

بْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ وَحارَبَتْهُ وَقَتَلَتْ أَصْحابَهُ وَأَنْصارَهُ وَأَعْوَانَهُ وَأَوْلِیَائَهُ وَشِیعَتَهُ

تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر کے فرزند ہیں لعنت کر ان پر جس نے ان سے جنگ کی اور قتل کیا انکے ساتھیوں اور مدد گاروں کو اورقتل کیاانکے حامیوں انکے دوستوں

وَمُحِبِّیهِ وَأَهْلَ بَیْتِهِ وَذُرِّیَّتَهُ، وَالْعَنِ اَللّٰهُمَّ الَّذِینَ نَهَبُوا مالَهُ،وَسَلَبُوا

انکے پیروکاروں اور محبوں کو اور قتل کیا ان کے خاندان اور انکی اولاد کو اے معبود لعنت بھیج ان کا مال لوٹنے والوںاور ان کے خیمے

حَرِیْمُهَُ، وَلَمْ یَسْمَعُوا کَلامَهُ وَلاَ مَقالَهُ، اَللّٰهُمَّ وَالْعَنْ کُلَّ مَنْ بَلَغَهُ ذلِکَ فَرَضِیَ

تاراج کرنے والوں پر جنہوں نے توجہ نہ کی انکی گفتار اور ان کی پکار پراے معبود لعنت کر ان سب پر جنہوں نے یہ واقعہ سنا اور وہ اس

بِهِ مِنَ الْاََوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ وَالْخَلائِقِ أَجْمَعِینَ إلی یَوْمِ الدِّینِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

پر خوش ہوئے اولین و آخرین میں سے اور ساری مخلوق میں سے سب پر قیامت کے دن تک، سلام ہو آپ پر

یَا أَبا عَبْدِﷲ الْحُسَیْنَ وَعَلَی مَنْ سَاعَدَکَ وَعاوَنَکَ وَوَاسَاکَ بِنَفْسِهِ، وَبَذَلَ

اے ابا عبداللہ الحسینعليه‌السلام اور ان پر جنہوں نے آپ کا ساتھ دیاآپ کی مدد کی آپ کے لیے اپنی جانیں حاضر کر دیں اور آپ کا دفاع

مُهْجَتَهُ فِی الذَّبِّ عَنْکَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ وَعَلَیْهِمْ، وَعَلَی رُوحِکَ وَعَلَی

کرتے ہوئے اپنے خون میں نہا گئے سلام ہو آپ پر اے میرے آقا اور ان پر سلام آپ کی روح پر اور ان کی

أَرْواحِهِمْ، وَعَلَی تُرْبَتِکَ وَعَلَی تُرْبَتِهِمْ اَللّٰهُمَّ لَقِّهِمْ رَحْمَةً وَرِضْواناً وَرَوْحاً

روحوں پر اور سلام آپ کی قبر پر اور ان کی قبروں پر اے معبود ملاقات کر ان سے رحمت و خوشنودی سے اور راحت و

وَرَیْحاناً، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا أَبا عَبْدِﷲ، یَابْنَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَیَابْنَ سَیِّدِ

مسرت سے آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اے اباعبدﷲعليه‌السلام اے خاتم الانبیائ کے فرزند اے اوصیائ کے

الْوَصِیِّینَ، وَیَابْنَ سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَهِیدُ یَابْنَ الشَّهِیدِ

سردار کے فرزند اے جہانوں کی عورتوں کی سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو اے شہید ابن شہید

اَللّٰهُمَّ بَلِّغْهُ عَنِّی فِی هذِهِ السَّاعَةِ وَفِی هذَا الْیَوْمِ وَفِی هذَا الْوَقْتِ وَکُلِّ وَقْتٍ تَحِیَّةً

اے معبود! پہنچا ان کو میری طرف سے اس گھڑی آج کے دن اور اسی وقت اور ہر وقت بہت بہت درود

وَسَلاماً، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْعالَمِینَ، وَعَلَی الْمُسْتَشْهَدِینَ مَعَکَ سَلاماً

اور سلام، سلام ہو آپ پر اے جہانوں کے سردار کے فرزند اور ان پر جوآپ کے ہمراہ شہید ہوئے سلام ہو مسلسل

مُتَّصِلاً مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّهارُ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ الشَّهِیدِ، اَلسَّلَامُ

جب تک رات اور دن باقی رہیں سلام ہو حسینعليه‌السلام شہید پر جو علیعليه‌السلام کے فرزند ہیں سلام ہو

عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ الشَّهِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ الشَّهِیدِ

شہید علیعليه‌السلام پر جو حسینعليه‌السلام کے فرزند ہیں سلام ہو شہید عباسعليه‌السلام پر جو امیر المومنینعليه‌السلام کے فرزند ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّهَدائِ مِنْ وُلْدِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّهَدائِ مِنْ وُلْدِ

سلام ہو ان شہیدوں پر جو امیر المومنینعليه‌السلام کی اولاد سے ہیں سلام ہو ان شہیدوں پر جو جعفرعليه‌السلام اور عقیلعليه‌السلام کی

جَعْفَرٍ وَعَقِیلٍ، اَلسَّلَامُ عَلَی کُلِّ مُسْتَشْهَدٍ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

اولاد سے ہیں سلام ہو ان سب شہیدوں پر جو مومنوں میں سے ہیں اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَلِّغْهُمْ عَنِّی تَحِیَّةً وَسَلاماً اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ ﷲ وَعَلَیْکَ

و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل کر اور ان کو میرا درود اور سلام پہنچا آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ، أَحْسَنَ ﷲ لَکَ الْعَزائَ فِی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ ں ،

سلام ہو خدا کی رحمت ہو اور برکات ہوں خدا آپ کو اس غم کا بہترین اجر دے جو آپ نے اپنے فرزند حسین - کے بارے میں پایا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا الْحَسَنِ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

آپ پر سلام ہو اے ابا الحسنعليه‌السلام اے مومنوں کے امیر اور آپ پرسلام خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں خدا آپ کو

أَحْسَنَ ﷲ لَکَ الْعَزائَ فِی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا فاطِمَةُ یَا بِنْتَ رَسُولِ

اس غم پر بہترین اجر دے جو آپ نے اپنے فرزند حسینعليه‌السلام کے بارے میں پایا آپ پر سلام ہو اے فاطمہعليه‌السلام اے جہانوں کے پرودگار کے

رَبِّ الْعالَمِینَ وَعَلَیْکِ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ أَحْسَنَ ﷲ لَکِ الْعَزائَ فِی وَلَدِکِ

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دخترآپ پر سلام خدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں خدا آپکو اس غم پر بہترین اجر دے جو آپ نے اپنے فرزند حسینعليه‌السلام کے

الْحُسَیْنِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا مُحَمَّدٍ الْحَسَنَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

بارے میں دیکھا آپ پر سلام ہو اے ابا محمد الحسنعليه‌السلام آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں

أَحْسَنَ ﷲ لَکَ الْعَزائَ فِی أَخِیکَ الْحُسَیْنِ اَلسَّلَامُ عَلَی أَرْواحِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ

خدا آپ کو اس غم پر بہترین اجر دے جو آپ نے اپنے بھائی حسینعليه‌السلام کے بارے میں پایا سلام ہو مومنین و مومنات کی روحوں پر

الْاََحْیائِ مِنْهُمْ وَالْاََمْواتِ، وَعَلَیْهِمُ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ، أَحْسَنَ ﷲ لَهُمُ

کہ جو ان میں زندہ ہیں اور جو مر چکے ہیں ان سب پر سلام ہو خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوںخدا ان کو اس غم پر بہترین اجر

الْعَزائَ فِی مَوْلاهُمُ الْحُسَیْنِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنا مِنَ الطَّالِبِینَ بِثارِهِ مَعَ إمامٍ عَدْلٍ

دے جو انہیں اپنے مولا حسینعليه‌السلام کے بارے میں ہے اے معبود! ہمیں ان کے خون کا بدلہ لینے والوں میں قرار دے اس امام عادل

تُعِزُّ بِهِ الْاِسْلامَ وَأَهْلَهُ یَارَبَّ الْعالَمِینَ

کے ہمراہ جن کے ذریعے تو اسلام و مسلمانوں کو عزت دے گا اے جہانوں کے پروردگار۔

پھر سجدے میں جاکر پڑھے:اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی جَمِیعِ مَا نابَ مِنْ خَطْبٍ وَلَکَ الْحَمْدُ

اے معبود تیرے لیے حمد ہے بوجہ اس بڑی مصیبت کے جو پیش آئی تیرے لیے حمد ہے

عَلَی کُلِّ أَمْرٍ، وَ إلَیْکَ الْمُشْتَکیٰ فِی عَظِیمِ الْمُشْتَکیٰ فِی عَظِیمِ الْمُهِمَّاتِ بِخِیَرَتِکَ

ہر معاملے میں اور تیری بارگاہ میں شکایت ہے ان بڑی مصیبتوں پر جو تیرے برگزیدہ دوستوں

وَأَوْلِیائِکَ وَذلِکَ لِما أَوْجَبْتَ لَهُمْ مِنَ الْکَرَامَةِ وَالْفَضْلِ الْکَثِیرِ اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلَی

پر گزریں اس وجہ سے کہ تو نے لازم فرمائی ان کے لیے بزرگواری اور بہت زیادہ فضلیت پس اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْزُقْنِی شَفاعَةَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ وَالْمَقامِ الْمَشْهُودِ

پر رحمت فرما اور مجھے نصیب کر حسین - کی شفاعت و سفارش جس دن آنا ہے مقام معین حوض کوثر پر جو وارد

وَالْحَوْضِ الْمَوْرُودِ، وَاجْعَلْ لِی قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَکَ مَعَ الْحُسَیْنِ وَأَصْحابِ

ہونے کی جگہ ہے اور قرار دے میری اپنے حضور کی بہترین آمد جو حسنعليه‌السلام اور حسینعليه‌السلام کے اصحاب

الْحُسَیْنِ الَّذِینَ وَاسَوْهُ بِأَنْفُسِهِمْ، وَبَذَلُوا دُونَهُ مُهَجَهُمْ، وَجاهَدُوا مَعَهُ أَعْدائَکَ

کے ہمراہ وہم رکاب ہو جنہوں نے ان پر اپنی جانیں قربان کیں انکے سامنے گردنیں کٹوا دیںاور انکے ساتھ ہو کرتیرے دشمنوں سے

ابْتِغائَ مَرْضاتِکَ وَرَجَائِکَ، وَتَصْدِیقاً بِوَعْدِکَ، وَخَوْفاً مِنْ وَعِیدِکَ، إنَّکَ

لڑے کہ تیری رضا پائیں اور امید لگائیں تجھ سے انہوں نے تیرے وعدے کو سچا جانا اور تیری سخت گیری سے ڈرے بے شک تو

لَطِیفٌ لِمَا تَشائُ یَاأَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

مہربان ہے اس کے لیے جسے تو چاہے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

آٹھویں زیارت

زیارت اربعین

یہ وہ زیارت ہے جو امام حسین- کے چہلم کے دن یعنی بیس صفر کو پڑھی جاتی ہے شیخرحمه‌الله نے تہذیب میں اور مصباح میں امام حسن عسکری - سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا مومن کی پانچ علامات ہیں ( ۱ )ہر شب و روز میںاکاون رکعت نماز پڑھنا کہ اس سے مراد سترہ رکعت فریضہ اور چونتیس رکعت نافلہ ہے ( ۲ )زیارت اربعین کا پڑھنا،( ۳ ) دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، ( ۴ )سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی خاک پر رکھنا ( ۵ )نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا:

پہلی زیارت

بیس صفر کو امام حسین- کی زیارت کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ وہ ہے جسے شیخ نے تہذیب اور مصباح میں صفوان جمال (ساربان) سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا مجھ کو میرے آقا امام جعفر صادق - نے زیارت اربعین کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ جب سورج بلند ہو جائے تو حضرت کی زیارت کرو اور کہو:

اَلسَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ ﷲ وَحَبِیبِهِ اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ ﷲ وَنَجِیبِهِ اَلسَّلَامُ عَلَی

سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر سلام ہو خدا کے

صَفِیِّ ﷲ وَابْنِ صَفِیِّهِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی

پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو حسینعليه‌السلام پر جو ستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسینعليه‌السلام پر

أَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ اَللّٰهُمَّ إنِّی أَشْهَدُ أَنَّهُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ

جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ

وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، أَکْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ، وَحَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ، وَاجْتَبَیْتَهُ

اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انہیں شہادت کی عزت دی انکو خوش بختی نصیب کی اور انہیں

بِطِیبِ الْوِلادَةِ، وَجَعَلْتَهُ سَیِّداً مِنَ السَّادَةِ، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَةِ، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَةِ،

پاک گھرانے میں پیدا کیا تو نے قرار دیاانہیں سرداروںمیں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہداور انہیں

وَأَعْطَیْتَهُ مَوَارِیثَ الْاََنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاََوْصِیَائِ، فَأَعْذَرَ فِی

نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قرار دیاان کو اوصیائ میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا

الدُّعَاءِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَهَالَةِ، وَحَیْرَةِ

حق ادا کیابہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے

الضَّلالَةِ، وَقَدْ تَوَازَرَ عَلَیْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّهُ بِالْاََرْذَلِ الْاََدْنیٰ، وَشَرَیٰ

جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی

آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْاََوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی هَوَاهُ، وَأَسْخَطَکَ وَأَسْخَطَ نَبِیَّکَ

آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو

وَأَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ أَهْلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَةَ الْاََوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ،

ناراض کیا انہوںنے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کیطرف چلے گئے

فَجاهَدَهُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُهُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُهُ

پس حسینعليه‌السلام ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا

اَللّٰهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْهُمْ عَذاباً أَلِیماً اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ،

اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاََوْصِیائِ أَشْهَدُ أَنَّکَ أَمِینُ ﷲ وَابْنُ أَمِینِهِ عِشْتَ سَعِیداً

آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیائ کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے

وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَهِیداً، وَأَشْهَدُ أَنَّ ﷲ مُنْجِزٌ

قابل تعریف حال میںگزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا

مَا وَعَدَکَ، وَمُهْلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَأَشْهَدُ أَنَّکَ

جسکا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ

وَفَیْتَ بِعَهْدِ ﷲ، وَجاهَدْتَ فِی سَبِیلِهِ حَتّی أَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ ﷲ مَنْ قَتَلَکَ،

آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہیدہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا

وَلَعَنَ ﷲ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ ﷲ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِهِ اَللّٰهُمَّ إنِّی

خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں

أُشْهِدُکَ أَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاهُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداهُ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَابْنَ رَسُولِ ﷲ

تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدا

أَشْهَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاََصْلابِ الشَّامِخَةِ، وَالْاََرْحامِ الْمُطَهَّرَةِ، لَمْ تُنَجِّسْکَ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میںرہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست

الْجاهِلِیَّةُ بِأَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِیابِها وَأَشْهَدُ أَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ

سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں

وَأَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَأَشْهَدُ أَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ

مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امامعليه‌السلام ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ

الزَّکِیُّ الْهادِی الْمَهْدِیُّ وَأَشْهَدُ أَنَّ آلاَءِمَّةَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَةُ التَّقْوی وَأَعْلامُ الْهُدیٰ

پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیز گاری کے ترجمان ہدایت کے

وَالْعُرْوَةُ الْوُثْقی وَالْحُجَّةُ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیا وَأَشْهَدُ أَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِ إیابِکُمْ مُوقِنٌ

نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوںپر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا

بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ أَمْرِی لاََِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ

اپنے دینی احکام اور عمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری

وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّةٌ حَتَّی یَأْذَنَ ﷲ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ

مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں

ﷲعَلَیْکُمْ وَعَلَی أَرْواحِکُمْ وَ أَجْسادِکُمْ وَشاهِدِکُمْ وَغَائِبِکُمْ وَظَاهِرِکُمْ وَبَاطِنِکُمْ

آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر

آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ

ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔

اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اپنی حاجات طلب کرے اور پھر وہاں سے واپس چلا آئے

دوسری زیارت اربعین

یہ زیارت جابربن عبدا للہ انصاری سے منقول ہے اور اس کی کیفیت و طریقے کے بارے میں عطا سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں جابر کے ساتھ تھا ہم بیس صفر کو غاضریہ پہنچے جابر نے دریائے فرات میں غسل کیا اور پاکیزہ لباس پہنا جو ان کے پاس تھا پھر مجھ سے کہا اے عطا تمہارے پاس کوئی خوشبو ہے؟ میںنے کہا کہ ہاں میرے پا س ُسعد ہے پس انہوں نے وہ تھوڑی سی لے لی اور اپنے سر اور بدن پر چھڑک دی پھر ننگے پائوں چل پڑے یہاں تک کہ امام حسین- کے سرہانے جا ٹھہرے تب انہوں نے تین بار ﷲ اَکْبَرُ کہا اور بے ہوش ہر کر گر پڑے جب ہوش آیا تو میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھےاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا آلَ ﷲ..الخ جو بعینہ وہی پندرہ رجب والی زیارت ہے کہ جسے ہم نے اعمال رجب میں نقل کر چکے ہیں اور سوائے چند ایک کلمات کے اس میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ بھی جیسا کہ شیخ مرحوم نے احتمال دیا ہے کہ نقل در نقل (اختلاف نسخ ) ہونے کی وجہ سے ہوا ہے پس اگر کوئی شخص روز اربعین یہ زیارت بھی پڑھنا چاہے تو وہ پندرہ رجب کی زیارت کے صفحات میں سے پڑھ لے۔

امام حسین- کی زیارت کے خاص اوقات

مؤلف لکھتے ہیں کہ ان اوقات کے علاوہ جو ذکر ہوئے ہیں امام حسین- کی زیارت کے دیگر اوقات اور بابرکت شب و روز بھی ہیں جن میں آپ کی زیارت کرنا افضل ہے خصوصاً وہ دن اور راتیں جو حضرت کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں۔ مثلاً روز مباہلہ ’’آیہ ھل اتی‘‘ کے نزول کا دن، آپ کی ولادت کی رات اور جمعہ کی راتیں ہیںجیساکہ ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ئے تعالیٰ ہر شب جمعہ میںامام حسین- پر نظر کرم فرماتا ہے اور تمام نبیوں اور ان کے وصیوں کو آپ کی زیارت کرنے کے لیے بھیجتا ہے ابن قولویہ نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ فرمایا جو شخص شب جمعہ میں روضہ امام حسین- کی زیارت کرے تو وہ ضرور بخشا جائے گا اور وہ دنیا سے مایوسی و شرمندگی کی حالت میں نہیں جائے گا اور جنت میں اس کا گھر امام حسین- کے ساتھ ہو گا اعمش کی خبر میں آیا ہے کہ اس کے ہمسائے نے اس سے کہا میں نے خواب میںدیکھا کہ آسمان سے اوراق گر رہے ہیں جن پر ہر اس شخص کیلئے امان نامہ لکھا ہوا ہے جو شب جمعہ میں امام حسین- کی زیارت کرے آئندہ صفحات میں کاظمین کے اعمال کے ذیل میں حاجی علی بغدادی کی حکایت میںاس امر کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور ان اوقات زیارت کے علاوہ دیگر بہترین اوقات کا ذکر بھی آئیگا ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے امام جعفر صادق - سے پوچھا کہ امام حسین- کی زیارت کا کوئی ایسا وقت ہے جو دوسرے اوقات سے بہتر ہو؟ آپ نے فرمایا حضرت کی زیارت ہر وقت اور زمانے میں کرو کہ آپ کی زیارت ایک عمل خیر ہے جو اس کو جتنا زیادہ بجا لائے گا وہ اتنی ہی زیادہ نیکی حاصل کرے گا اور جو اسے کم بجا لائے گا وہ کم نیکی حاصل کر سکے گا۔ پس تم کوشش کرو کہ حضرت کی زیارت ان بابرکت اوقات میں کرو جن میں اعمال خیر کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے انہی مبارک اوقات میں ملائکہ آسمان سے اتر کر حضرت کی زیارت کرتے ہیں لیکن ان اوقات کے لیے کوئی زیارت مخصوصہ منقول نہیں ہے البتہ تین شعبان کو جو امام حسین- کا یوم ولادت ہے اس کیلئے ناحیہ مقدسہ سے ایک دعا صادر ہوئی ہے جو اس دن پڑھناچاہیے اورہم وہ دعا شعبان کے اعمال میں نقل کرچکے ہیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ حضرت کی زیارت کربلائے معلی میںپڑھنے کے علاوہ دوسرے شہروں میں پڑھنے کی بھی بڑی فضلیت ہے اس ضمن میں یہاں ہم صرف دو روایتیں نقل کرتے ہیں جو کافی تہذیب اور فقیہ میں آئی ہیں۔

پہلی روایت

ابن ابی عمیر نے ہشام سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا تم میں سے جس کا راستہ دور دراز ہو اور اس کے گھر سے ہمارے مزاروں تک سفر زیادہ ہو تو وہ اپنے مکان کی سب سے اونچی چھت پر جائے اور دو رکعت نماز بجا لاکر ہماری قبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم پر سلام بھیجے تو یقیناً اس کا سلام ہم تک پہنچ جاتا ہے۔

دوسری روایت

حنان ابن سدیر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے مجھ سے فرمایا کہ اے سدیر کیا تم ہر روز قبر حسین- کی زیارت کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں کہ میں آپ پر قربان ہو جائوں اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ کس قدر جفا کار ہو کیا ہر جمعہ کو زیارت کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیںآپ نے فرمایا کیا ہر ماہ زیارت کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا تو کیا ہر سال زیارت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ کچھ سال ایسے تھے جن میں میں نے زیارت کی ہے تب آپ نے فرمایا کہ اے سدیر تم لوگ امام حسین- کے ساتھ کیسی جفا کرتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ خدائے تعالیٰ نے دو ہزار فرشتے مقرر کیے ہیں اور تہذیب و فقیہ میں ہے کہ وہ دس لاکھ فرشتے ہیں کہ جن کے بال بکھرے ہوئے اور خاک آلود ہیں۔ وہ حضرت پر گریہ کرتے ہیں آپ کی زیارت کرتے ہیں اور کبھی کوتاہی نہیں کرتے پس اے سدیر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ہر جمعہ کو پانچ مرتبہ اور دن میں ایک مرتبہ روضہ امام حسین- کی زیارت نہیں کرتے؟ میں نے عرض کی کہ آپ پر فدا ہو جائوں ہمارے اور حضرت کے روضہ کے درمیان کئی فرسخ کا فاصلہ ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر کی چھت پر جائو پھر دائیں بائیں نظر کرو تو اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرو اور حضرت کے روضہ اقدس کی سمت اشارہ کر کے کہو’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِﷲ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَةُ ﷲوَ بَرَکَاتُه‘‘ پس اس سے تمہارے لیے ایک زیارت لکھی جائے گی اور وہ زیارت حج و عمرہ کے برابر ہو گی سدیر کا بیان ہے کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میں مہینے میںبیس مرتبہ سے بھی زیادہ یہ عمل کیا کرتا تھااور زیارت مطلقہ کے آغاز میں وہ امور گزر چکے ہیںجو یہاں کیلئے مناسب تھے۔

اضافی بیان

قبر حسینعليه‌السلام کی خاک کے فوائد

جاننا چاہیے کہ ایسی بہت سی روایات آئی ہیں کہ جن کے مطابق امام حسین- کی قبر مبارک کی خاک میں سوائے موت کے ہر تکلیف اور مرض سے شفا ہے اس میں ہر بلا و مصیبت سے امان اور ہر خوف خطر سے تحفظ کی تاثیر ہے اس سلسلے میں اخبار و روایات متواتر ہیں اور اس مقدس خاک کی جو کرامتیں ظاہر ہوئیں ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ یہاں ان سب کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ میری کتاب فوائد الرضوّیہ کہ جو علمائ امامیہ کے حالات میں ہے میں نے اس میں محدث جلیل القدیر آقا سید نعمت اللہ جزائری کے حالات میں لکھا ہے کہ انہوں حصول علم میں بڑی زحمت اٹھائی اور بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔ آغاز تعلیم میں چونکہ ان میں چراغ کے خریدنے کی سکت نہ تھی لہذا وہ چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر لکھتے پڑھتے تھے چاند کی چاندنی میںبیٹھ کر اتنا زیادہ لکھنے پڑھنے کے نتیجے میں ان کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو گئی چنانچہ وہ اپنی بینائی کی بحالی کیلئے امام حسین- کی قبر شریف کی خاک اور عراق میں واقع دیگر ائمہ معصومین کی قبور کی خاک بطور سرمہ استعمال فرماتے تھے پس اس خاک کی برکت سے ان کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے لوگ جن کا کفار و مشرکین کے ساتھ رہن سہن ہے ممکن ہے وہ اس کرامت پر تعجب کریں کمال الدین دمیری نے حیات العیون میں نقل کیا ہے کہ اژدھا جب ہزار سال کا ہو جاتا ہے تو اس کی آنکھیں اندھی اور بے نور ہو جاتی ہیں تب خدائے تعالیٰ اسے یہ سوجھ عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے اندھے پن کو دور کرنے کے لیے اپنی آنکھیں راز یا نج (ایک قسم کی گھاس) پر ملے‘ اس وقت وہ اژدھا اندھا ہونے کے باوجودبیابان سے نکل کر ان باغوں اور جگہوں کی طرف جاتا ہے جہاں راز یا نج گھاس پیدا ہوتی ہے پس وہ طویل راہیں طے کر کے اس گھاس کے پاس پہنچتا اور اپنی آنکھیں اس پر ملتا ہے تو اسکی بینائی پلٹ آتی ہے اس بات کو زمخشری وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے ہاں اگرخدائے قدیر نے ایک گھاس میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ اندھا اژدھا اس کی تلاش میںجائے تو اس کی آنکھیں پھر سے روشن ہو جائیں تو اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے فرزندان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کی قبور کی خاک میں وہ تمام بیماریوں سے شفا قراردے اور ان کو برکات دینے والی بنا دے تاکہ محبان اہل بیت ان سے فائدہ اٹھائیں اور آرام و راحت حاصل کریں یہاں ہم اس مضمون کی چند روایات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

پہلی روایت

اس روایت میں کہا گیا ہے کہ جنت کی حوریں جب دیکھتی ہیں کوئی فرشتہ کسی مقصد سے زمین پر جا رہا ہے تو وہ اس سے عرض کرتی ہیں کہ ان کیلئے قبر حسین- سے خاک شفا اور تسبیح بطور سوغات لے کر آئے

دوسری روایت

معتبر سند کے ساتھ منقول ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا امام علی رضا - نے میرے لیے خراسان سے کچھ چیزیں ایک پوٹلی میں باندھ کر بھیجیں میں نے اسے کھولا تو اس سے کچھ خاک ملی تب میں نے اسے لے کرآنے والے آدمی سے پوچھا کہ یہ کیسی خاک ہے اس نے کہا یہ امام حسین- کی قبر شریف کی خاک ہے امام علی رضا- جب بھی کسی کیطرف کوئی چیز یا کپڑا وغیرہ بھیجتے ہیں تو یہ خاک بھی اس کیساتھ رکھ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے اذن و مشیت سے یہ خاک بلائوں سے امان کا ذریعہ ہے۔

تیسری روایت

عبداللہ ابن ابی یعفور نے امام جعفر صادق - سے عرض کی کہ ایک شخص امام حسین- کی قبر سے خاک اٹھاتا ہے تو اسے اس سے برکت حاصل ہوتی ہے لیکن دوسرا شخص وہاں سے خاک اٹھاتا ہے تو اسے اس سے کچھ بھی نفع و برکت حاصل نہیں ہوتی حضرت نے فرمایا کہ بات یوں نہیں ہے بخدا جو بھی شخص یہ خاک اٹھائے اوریہ عقیدہ رکھے کہ اسے نفع دے گی تو اس کو ضرور نفع و برکت حاصل ہوتی ہے۔

چوتھی روایت

ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق - کی خدمت میں عرض کی کہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض ساتھی امام حسین- کی قبر مبارک سے خاک اٹھاتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں آیا اس خاک میں شفا کی تاثیر رکھی گئی ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت کی قبر اطہر اردگردکے چار میل تک کی خاک سے شفا حاصل ہو سکتی ہے اور اسی طرح ہمارے جد بزرگو ار حضرت رسول کی قبر شریف کی خاک، امام حسن-، امام زین العابدین- اور امام محمدباقر - کی قبور کی خاک میں بھی یہ تاثیر موجود ہے پس تم بھی ان قبور سے خاک لیا کرو کہ وہ ہر دکھ کی دوا اور ہر خوف سے امان کا ذریعہ ہے نیز یہ کہ سوائے اس دعا کے جس سے شفا ملتی ہے کوئی اور چیز اس خاک کی برابری نہیں کر سکتی اسے ناپاک جگہ یا ناپاک برتن میںنہ رکھا جائے کہ اس طرح خاک شفا کا اثر زائل ہو جاتا ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اسے شفا کی خاطر تو استعمال کرتے ہیں لیکن اس بات پر انہیں بہت کم یقین ہوتا ہے اور اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ اس خاک میں شفا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے کسی اور دوا کی حاجت نہیں رہتی اس خاک کے اثر کو کافر جنات زائل کر دیتے ہیں جو خود کو اس سے مس کر لیتے ہیں اس خاک کو جس چیز پررکھا جائے وہ اسے سونگھتے ہیں جس سے اسکی پاکیزہ خوشبو ختم ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ کافر جنات انسانوں سے حسد کرتے ہیں جب بھی کوئی شخص حائر حسینی سے خاک اٹھاتا ہے تو وہ کافر جنات خود کو اس سے مس کرنے کیلئے اکھٹے ہو جاتے ہیں جنکی تعداد کو خدا کے علاوہ کو ئی نہیں جانتا حالانکہ فرشتے ان کو روضہ پاک کے قریب آنے سے روکتے رہتے ہیں پس اگر یہ خاک ان کافر جنات کے مس کر لینے سے محفوظ رہ جائے تو جس بیماری کے علاج میں اسے کام میں لایا جائے اس سے ضرور شفا حاصل ہو گی لہذا جب اس خاک کو وہاں سے اٹھائے تو اسے چھپائے رکھے اور اس پر اللہ کا نام زیادہ سے زیادہ پڑھے:

میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جو لوگ اس خاک شفا کو وہاں سے لیتے ہیں وہ اسے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور بعض افراد تواسے جانوروں پر لادے ہوئے بورے میں یا کسی ایسے برتن میںرکھ دیتے ہیں جس کوناپاک ہاتھ لگتے رہتے ہیں پس کیونکر ایسے شخص کو اس سے شفا ملے گی جو اسکا جائز احترام نہیں کرتا اور جو چیز اس کیلئے فائدہ مند ہے اسکو معمولی سمجھے تو وہ اپنے عمل کو فاسد کر دیتا ہے۔

پانچویں روایت

اس روایت میں کہاگیا ہے کہ جو شخص خاک کربلا کو اٹھانا چاہے وہ اسے انگلیوں کے پوروںکیساتھ اٹھائے اور اسکی مقدار چنے کے دانے کے برابر ہو پھر اسے اپنی آنکھوں اور جسم کے دیگر حصوں پر ملے اوریہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ بِحَقِّ هذِهِ التُّرْبَةِ وَبِحَقِّ مَنْ حَلَّ بِها وَثَوَیٰ فِیها وَبِحَقِّ جَدِّهِ وَأَبِیهِ وَأُمِّهِ وَأَخِیهِ

اے معبود اس خاک کے واسطے سے اور اس کے واسطے سے جو اس میں دفن اور مقیم ہے اور اسکے نانا اسکے بابا اسکی ماں اور اسکے بھائی کے واسطے سے

وَآلاَءِمَّةِ مِنْ وُلْدِهِ وَبِحَقِّ الْمَلائِکَةِ الْحافِّینَ بِهِ إلاَّ جَعَلْتَها شِفائً مِنْ کُلِّ دائٍ وَبُرْئاً

ان ائمہعليه‌السلام کے واسطے سے جو اسکی اولاد میں ہوئے اور ان فرشتوںکے واسطے سے جو اسکے اردگرد ہیں اس خاک کو ہر درد کی دوا بنادے

مِنْ کُلِّ مَرَضٍ، وَنَجاةً مِنْ کُلِّ آفَةٍ، وَحِرْزاً مِمَّا أَخافُ وَأَحْذَرُ

اسے ہر بیماری سے ذریعہ صحت اور ہر مصیبت سے بچنے کا ذریعہ بنا نیز اسے میری سپر بنااس چیز سے جس کا مجھے خوف و خطرہ ہے۔

اسکے بعد اس خاک شفا کو استعمال میں لائے روایت میں آیا ہے کہ امام حسین- کی خاک قبر کو مہر کرنے کا طریقہ یہ ہے۔کہ اس پر سورہ قدر پڑھے نیز روایت ہوئی ہے کہ جب خاک شفا خود کھائے یا کسی کو کھلائے تو اس وقت کہے:

بِسْمِ ﷲ وَبِﷲ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ رِزْقاً واسِعاً وَعِلْماً نَافِعاً وَشِفائً مِنْ کُلِّ دائٍ إنَّکَ عَلَ

خدا کے نام سے اور خدا کی ذات سے اے معبود اس خاک کورزق کی فراوانی علم میں نفع اور ہر بیماری سے شفاکاذریعہ بنا بے شک تو

کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ

ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔

مؤلف کہتے ہیں امام حسین- کی خاک قبرکے بہت سے فائدے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو میت کے ساتھ قبر میں رکھنا‘ اس سے کفن پر لکھنا اور اس پر سجدہ کرنا مستحب ہے روایت ہے کہ اس پر سجدہ کرنا سات پردوں کو ہٹا دیتا ہے یعنی یہ قبول نماز کا سبب بن جاتا ہے اور وہ نماز آسمان کی طرف بلند ہو جاتی ہے نیز اس خاک سے تسبیح بنانا‘ اس تسبیح سے ذکر الہی کرنا اور اسے ہاتھ میں رکھنا بڑی فضلیت کا موجب ہے اس خاک سے بنائی گئی تسبیح کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کے ہاتھ میں تسبیح کرتی رہتی ہے اگرچہ وہ تسبیح نہ بھی پڑھ رہا ہو اور اس کا یہ تسبیح کرنا اور اس تسبیح کے علاوہ ہے جسے دنیا کی ہر چیز انجام دیتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٰ وَلَکِنْ لاَ تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ

اور کوئی ایسی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ اس کی تسبیح کرتی ہے حمد سے لیکن تم ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔

اس مفہوم کو مولانا رومیرحمه‌الله نے یوں ادا کیا ہے:

( ۱ )گر ترا از غیب چشمی باز شد

با تو ذات جہاں ہم راز شد

( ۲ )نطق خاک و نطق آب و نطق گل

ہست محسوس حواس اہل دل

( ۳ )جملہ ذرات در عالم نہاں

باتو میگویند روزان و شبان

( ۴ )ماسمیعیم و بصیر و باشیم

باشما نامحرماں ما خامشیم

( ۵ )از جمادی سوی جان جان شوید

غلغل اجزای عالم بشنوید

( ۶ )فاش تسبیح جمادات آیدت

وسوسہ تادیلہا بزوایدت

ترجمہ:

( ۱ ) اگر تمہارے باطن کی آنکھ کھل جائے توتم دنیا کے ذر ے ذرے کے رازداں بن جائو گے۔

( ۲ )مٹی پانی اور پھول کی گفتگو کو اہل باطن کے کان ہی سنتے ہیں۔

( ۳ )اس دنیا کا ذرہ ذرہ دن رات تم سے سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔

( ۴ )کہ ہم میں سے ہر ایک سنتا، دیکھتا اور سمجھتا ہے لیکن تم نامحرموں کیسامنے ہم چپ رہتے ہیں۔

( ۵ )تم اپنی جان لکڑی پتھر وغیرہ کی جان سے ملا دو اور دنیا کے ہر ذرے کی آواز سنو۔

( ۶ )اس طرح تم جمادات کی تسبیح سنو گے اور تمہارا تخیل تمہیں اس تسبیح کے معنی سے آشنا کرے گا۔

خلاصہ یہ کہ اس روایت میں قبر حسین- کی مٹی سے بنائی گئی تسبیح کا جوتسبیح کرنا بیان ہوا ہے وہ اس پاک خاک کی ایک خصوصیت ہے۔

چھٹی روایت

امام علی رضا - سے منقول ہے کہ جو شخص خاک شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر ہر دانے پر یہ پڑھے:

سُبْحَانَ ﷲ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلاَ اِلَهَ اِلاَّ ﷲ وَﷲ اَکْبَرُ

پاک تر ہے خدا حمد ہے خدا کے لیے خدا کے سوائ کوئی معبود نہیں اور خدا بزرگتر ہے۔

پس خدائے تعالی تسبیح کے ہر ہر دانے کے عوض اس کے لیے چھ ہزار نیکیاں لکھے گا اس کے چھ ہزار گناہ معاف کر دے گا ۔ اس کے چھ ہزار درجے بلند کرے گا اور اس کیلئے چھ ہزار شفاعتیں لکھے گا۔ امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ جو شخص خاک کربلا سے بنائی ہوئی پختہ تسبیح پھیرے اور ایک بار استغفار کرے تو حق تعالیٰ اس کیلئے ستر بار استغفار لکھے گا اور اگر اس تسبیح کو محض ہاتھ میں لیے رہے تو بھی اس کے ہر دانے کے عوض اس شخص کیلئے سات بار استعفار لکھی جائے گی۔

ساتویں روایت

یہ ایک معتبر روایت ہے جس میں منقول ہے کہ جب امام جعفر صادق - عراق آئے تو لوگوں کا ایک گروہ آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ہمیں اس بات کا تو علم ہے کہ امام حسین- کی خاک قبر ہر درد کی دوا ہے تو کیا یہ خاک پاک ہرخوف وخطر سے امن کا موجب بھی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے اور جو شخص یہ چاہے کہ ہر خطرے سے امان میں رہے تو وہ خاک شفا کی بنی ہوئی تسبیح ہاتھ میں پکڑتے ہوئے تین بار یہ دعا پڑھے:

أَصْبَحْتُ اَللّٰهُمَّ مُعْتَصِماً بِذِمامِکَ وَجِوَارِکَ الْمَنِیعِ الَّذِی لاَ یُطاوَلُ وَلاَ یُحاوَلُ مِنْ

صبح کی میں نے اے معبود کہ محفوظ ہوں تیری نگہداری وتیری پناہ میں جو بچائو کرتی ہے کہ نہ دست درازی کرتا ہے نہ گھیرتا ہے کوئی

شَرِّ کُلِّ غَاشِمٍ وَطَارِقٍ مِنْ سائِرِ مَنْ خَلَقْتَ وَمَا خَلَقْتَ مِنْ خَلْقِکَ الصَّامِتِ

فریب کار اور تاریکی میں آزار پہنچانے والا تیری تمام مخلوقات میں سے اور نہ وہ جو مخلوق میں سے تو نے پیدا کیا چپ رہنے

وَالنَّاطِقِ فِی جُنَّةٍ مِنْ کُلِّ مَخُوفٍ بِلِباسٍ سابِغَةٍ حَصِینَةٍ وَهِیَ وَلائُ أَهْلِ بَیْتِ

اور بولنے والے میں ہر خطرے سے حفاظت میں ہوں کہ پہنے ہوئے ہوںزرہ جو محکم ہے اور وہ ہے محبت ان اہلعليه‌السلام بیت کی

نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ مُحْتَجِزاًمِنْ کُلِّ قاصِدٍ لِی إلَی أَذِیَّةٍ بِجِدارٍ حَصِینٍ الْاِخْلاصِ فِی

جو تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان ہیں محفوظ ہوں ہراذیت پہنچانے والے سے محکم دیوار کے پیچھے کہ وہ ہے تہ دل سے ماننا

الاعْتِرافِ بِحَقِّهِمْ، وَالتَّمَسُّکِ بِحَبْلِهِمْ جَمِیعاً، مُوقِناً أَنَّ الْحَقَّ لَهُمْ وَمَعَهُمْ وَمِنْهُمْ

ان کے حق کو اور تعلق رکھنا ان کے مضبوط سلسلے سے اس یقین کے ساتھ کہ حق ان کا ہے ان کے ساتھ ہے ان سے ہے اور ان سے

وَفِیهِمْ وَبِهِمْ، أُوَالِی مَنْ والَوْا، وَأُعَادِی مَنْ عادَوْا، وَأُجانِبُ مَنْ جانَبُوا،

محبت کرتا ہوں جو ان سے محبت کریں ان سے دشمنی رکھتا ہو ں جو ان سے دشمنی رکھیں اور ان سے دور ہوں جو ان سے دوری کریں

فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ، وَأَعِذْنِی اَللّٰهُمَّ بِهِمْ مِنْ شَرِّ کُلِّ مَا أَتَّقِیهِ، یَا عَظِیمُ

پس محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آلعليه‌السلام پر رحمت فرما اور پناہ دے اے معبود بواسطہ انکے ہر چیز کے شر سے جس سے ڈرتا ہوںاے بزرگی والے

حَجَزْتُ الْاََعادِیَ عنِّی بِبَدِیعِ السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ، إنَّا جَعَلْنا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیهِمْ سَدَّاً

دور کر دے دشمنوں کو مجھ سے بواسطہ آسمانوں اور زمین کی پرورش کے اور ہم نے ایک دیوار ان کے آگے اور ایک دیوار

وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدَّاً فَأَغْشَیْناهُمْ فَهُمْ لاَیُبْصِرُونَ ۔ پھر تسبیح پر بوسہ دے اور دونوں آنکھوں پر

ان کے پیچھے بنا دی ہے پس ہم نے ڈھانپ دیا ان کو تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے

ملے اور کہے:اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِحَقِّ هذِهِ التُّرْبَةِ الْمُبَارَکَةِ، وَبِحَقِّ صَاحِبِها، وَبِحَقِّ

اے معبود میں سوال کرتا ہوں تجھ سے بواسطہ اس برکت والی خاک کے بواسطہ اس قبر والے کے بواسطہ

جَدِّهِ وَبِحَقِّ أَبِیهِ وَبِحَقِّ أُمِّهِ وَبِحَقِّ أَخِیهِ وَبِحَقِّ وُلْدِهِ الطَّاهِرِینَ اجْعَلْها شِفائً مِنْ

اسکے نانااور بابا کے اور بواسطہ اسکی ماں اور بھائی کے اور اسکے پاک فرزندوں کے واسطے سے اس خاک کو ہردرد کی دوا

کُلِّ دَاءٍ، وَأَمَاناً مِنْ کُلِّ خَوْفٍ، وَحِفْظاً مِنْ کُلِّ سُوئٍ

ہر خطرے سے امان اور ہر تکلیف سے حفاظت کرنے والی بنا دے۔

اس کے بعد تسبیح کو اپنی پیشانی پر ملے چنانچہ اگر یہ عمل صبح کے وقت کرے تو اس دن شام تک اور اگر شام کو کرے تو صبح تک وہ شخص خدا کی پناہ و امن میں رہے گا ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کو کسی حاکم یا کسی اورشخص سے خوف لاحق ہو تو وہ جب گھر سے باہر جائے تو یہ عمل کرے پس وہ اس حاکم وغیرہ کے شروآزار سے محفوظ رہے گا۔

مولف کہتے ہیں کہ علمائ کے ہاں مشہور یہ ہے کہ خاک کا کھانا اگرچہ جائز نہیں ہے لیکن امام حسین- کی قبر مطہر کی خاک کو حصول شفا کی خاطر چنے کے دانے کی مقدار میںکھایا جاسکتا ہے بلکہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مسور کے دانے جتنی ہی کھائے اور بہتر یہ ہے کہ خاک شفا کو منہ میں ڈال کر اوپر سے پانی پیئے اور یہ پڑھے:

اَللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رِزْقاً وَاسِعاً وَعِلْماً نَافِعاً وَشِفَاء مِنْ کُلِ دَاءٍ وَسُقْمٍ

اے معبود اسے بنا دے رزق واسع، علم نافع اور ہر بیماری سے شفا اور ہر دکھ کی دوری کا ذریعہ۔

علامہ مجلسی کا ارشاد ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ خاک کربلا سے جو تسبیح اور سجدہ گاہ بنائی جائے اسے بیچا اور خریدا نہ جائے بلکہ بطور ہدیہ و سوغات دیا جائے لیکن پہلے سے شرط کیے بغیر اگر بعد میں ایک دوسرے کو راضی کر لیں یعنی کچھ رقم سے لین دین کر دیں تو بہت بہتر ہوگا جیسا کہ ایک معتبر حدیث میں امام جعفر صادق - سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص امام حسین- کی خاک قبر کو بیچے تو یہ فعل ایسا ہے جیسے اس نے حضرت کی ہڈی اور گوشت کی خرید و فروخت کی ہے۔

مولف کہتے ہیں میرے استاد محترم ثقتہ الاسلام محدث نوری نے اپنی کتاب دارالسلام میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک دن میرے بھائیوں میں سے ایک والدہ مرحومہ کی خدمت میں حاضر ہوا والدہ مرحومہ نے دیکھا کہ اس نے سجدہ گاہ اپنی قبا کی اس جیب میںرکھی ہے جو پہلو کی طرف ہوتی ہے پس انہوں نے اسے یہ بے ادبی کرنے پر ڈانٹا کیونکہ اس کی جیب میں رکھنے سے سجدہ گاہ کبھی ران تلے دب کر ٹوٹ جاتی ہے تب میرے بھائی نے تسلیم کیا کہ بے شک آپ درست فرماتی ہیں کہ اب تک دو سجدہ گاہیں مجھ سے اسی طرح ٹوٹ چکی ہیں لہذا اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد ایسی جیب میں سجدہ گاہ نہیں رکھوں گا اس بات کو کئی دن ہو گئے تھے کہ میرے والد علامہ مرحوم نے خواب دیکھا جن کو اس واقعہ کی خبر نہ تھی کہ آقا و مولا امام حسین- ان کے پاس تشریف لائے اور کتاب خانے میں اکھٹے بیٹھے ہیں‘ آپ نے والد مرحوم سے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کوبلائیں کہ میں ان سے بھی ملاقات کروں چنانچہ میرے والد نے ہم پانچ بھائیوں کو وہاں بلایا اور ہم سب حضرت کے سامنے آ کھڑے ہوئے‘ آپ کے پاس ملبوسات اور ایک خاص چیز تھی جو ہم میں سے ہر ایک کو باری باری بلا کر عنایت فرماتے تھے جب میرے اس مذکورہ بھائی کی باری آئی تو حضرت نے اس پر غصے کی نظر ڈالی اور میرے والد سے فرمایا کہ اس نے میری خاک قبر سے بنی ہوئی دو سجدہ گاہیں توڑی ہیں۔ چنانچہ آپ نے وہ خاص چیز اسکی طرف پھینک دی اور دوسروں کی طرح اپنے پاس بلا کر عنایت نہیں فرمائی اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ شال بننے کی کنگھی تھی۔

اس وقت میرے والد کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے اپنا یہ خواب میری والدہ مرحومہ کو سنایا تو انہوں نے سجدہ گاہ کے بارے میں میرے اس بھائی سے اپنی گفتگو کا قصہ بیان کیاتو وہ اس خواب کی صداقت پر متعجب ہو کر رہ گئے۔