مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 185915
ڈاؤنلوڈ: 11108

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185915 / ڈاؤنلوڈ: 11108
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

کاظمین کی مشترک زیارت

امام موسٰی کاظم اور امام محمد تقیعليه‌السلام کی مشترک زیارتیں دو ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جو ان دونوں میں سے ہر امام کیلئے علیحدہ پڑھی جاتی ہے چنانچہ شیخ قولویہ قمی نے کامل الزیارات میں امام علی نقی - سے روایت کی ہے کہ ان دونوں ائمہ میں سے ہر ایک کی زیارت اس طرح پڑھے:

پہلی زیارت

یہ بہت معتبر زیارت ہے جسے شیخ صدوقرحمه‌الله ، شیخ کلینیرحمه‌الله اور شیخ طوسیرحمه‌الله نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے جو اس طرح ہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نُورَ ﷲ فِی

آپ پر سلام ہو اے ولی خدا آپ پر سلام ہو اے حجت خدا آپ پر سلام ہو اے زمین کی تاریکیوں

ظُلُماتِ الْاََرضِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ بَدَا لِلّٰهِ فِی شَأْنِهِ أَتَیْتُکَ زائِراً عارِفاً بِحَقِّکَ

میں خدا کے نور سلام ہوآپ پر اے وہ جن کی شان خدا نے ظاہر فرمائی آپ کی زیارت کو آیا ہوں آپ کے حق سے واقف آپ کے

مُعادِیاً لاََِعْدائِکَ مُوالِیاً لاََِوْلِیائِکَ فَاشْفَعْ لِی عِنْدَ رَبِّکَ یَا مَوْلایَ

دشمنوں کا دشمن آپ کے دوستوں کا دوست پس میری شفاعت کریں اپنے رب کے حضور اے میرے آقا۔

دوسری زیارت

یہ وہ زیارت ہے جس کے پڑھنے سے ہر دو ائمہعليه‌السلام کی زیارت ہوجائیگی جیسا کہ شیخ مفیدرحمه‌الله شہیدرحمه‌الله اور محمد بن مشہدی نے فرمایا ہے کہ ضریح پاک کے سامنے کھڑے ہوکر ان دونوں بزرگواروں کی زیارت یوں پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا وَلِیَّیِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا حُجَّتَیِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا نُورَیِ ﷲ

سلام ہو آپ دونوں پر اے اولیائ ﷲ سلام ہو آپ دونوں پر اے حجت خدا سلام ہو آپ دونوں پر کہ آپ زمین کی تاریکیوں میں

فِی ظُلُمَاتِ الْاََرْضِ أَشْهَدُ أَنَّکُما قَدْ بَلَّغْتُما عَنِ ﷲ مَا حَمَّلَکُما وَحَفِظْتُما مَا اسْتُودِعْتُما

دو نور ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دونوں نے خدا کا پیغام پہنچایا جو آپکو ملا آپ نے حفاظت کی اسکی جو آپ کو دیا گیا آپ نے

وَحَلَّلْتُما حَلالَ ﷲ، وَحَرَّمْتُما حَرامَ ﷲ، وَأَقَمْتُما حُدُودَ ﷲ، وَتَلَوْتُما کِتابَ ﷲ،

حلال خدا کو حلال بتایا حرام خدا کو حرام کہاآپ دونوں نے حدود خدا جاری کیں آپ دونوں قرآن کی تلاوت کرتے رہے

وَصَبَرْتُما عَلَی الْاََذیٰ فِی جَنْبِ ﷲ مُحْتَسِبَیْنَ حَتَّی أَتَاکُمَا الْیَقِینُ، أَبْرَأُ إلَی ﷲ مِنْ

اور آپ دونوںنے خدا کی خاطر مصائب اور اذیت پر صبر کیا ہوشمندی سے یہاں تک کہ شہید ہوگئے میں خدا کے سامنے آپ کے

أَعْدائِکُما وَأَتَقَرَّبُ إلَی ﷲ بِوِلایَتِکُما أَتَیْتُکُما زائِراً، عارِفاً بِحَقِّکُما، مُوالِیاً

دشمنوں سے بیزاری کرتا ہوں اور آپ سے محبت کے ذریعے خداکا قرب چاہتاہوں ہوں آپکی زیارت کو آیا ہوں آپکے حق سے

لاََِوْلِیائِکُما، مُعادِیاً لاََِعْدائِکُما، مُسْتَبْصِراً بِالْهُدَیٰ الَّذِی أَنْتُما عَلَیْهِ، عارِفاً

واقف آپ دونوں کے دوستوں کا دوست آپ دونوں کے دشمنوں کا دشمن اس ہدایت کو سمجھتاہوں جس پر آپ دونوں قائم ہیں آپ

بِضَلالَةِ مَنْ خالَفَکُما، فَاشْفَعا لِی عِنْدَ رَبِّکُما، فَ إنَّ لَکُما عِنْدَ ﷲ جاهاً عَظِیماً،

دونوں کے مخالف کی گمراہی کو جانتا ہوں پس آپ دنوں میری شفاعت کریں اپنے رب سے کہ آپ دونوں کا خدا کے ہاں بڑا مرتبہ

وَمَقاماً مَحْمُوداً

اور بہترین مقام ہے۔

اس کے بعد ان قبور مبارکہ پر بوسہ دے۔ اپنا دایاں رخسار ان پر رکھے اور پھر سرہانے کی طرف جائے اور یہ پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُما یَا حُجَّتَیِ ﷲ فِی أَرْضِهِ وَسَمائِهِ، عَبْدُکُما وَوَلِیُّکُما زَائِرُکُما مُتَقَرِّباً إلَی

سلام ہو آپ دونوں پر اے حجت خدا اسکی زمین اور آسمان میں آپ دونوں کا غلام آپ کا محب آپ کا زائر جو آپ کی زیارت کے

ﷲ بِزِیارَتِکُما اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ لِی لِسانَ صِدْقٍ فِی أَوْلِیائِکَ الْمُصْطَفَیْنَ، وَحَبِّبْ إلَیَّ

ذریعے خدا کا قرب چاہتا ہے اے معبود مجھے اپنے ان دونوں چنے ہوئے ولیوںکے بارے میں سچ کہنے والا بنادے مجھے انکے

مَشاهِدَهُمْ، وَاجْعَلْنِی مَعَهُمْ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

مزاروں کی محبت عطا فرما اور مجھ کو دنیا وآخرت میں ان کے ساتھ رکھ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اس کے بعد چار رکعت نماز ادا کرے یعنی دو رکعت امام موسیٰ کاظم - کی زیارت کیلئے اور دو رکعت امام محمد تقی - کی زیارت کیلئے پڑھے اور پھر خدائے تعالیٰ سے جو دعا چاہے مانگے۔

مؤلف کہتے ہیں : چونکہ ان دو ائمہعليه‌السلام کے زمانے میں تقیہ کی ضرورت بہت زیادہ تھی لہذا انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مختصر زیارت تعلیم فرمائی ہے۔ تاکہ شیعہ مؤمنین ظالم حکام کے ظلم سے محفوظ رہیں۔ لیکن آج کل اگر کوئی زائر طویل زیارت پڑھنا چاہے تو وہ زیارت جامعہ پڑھے کہ یہ انکی بہترین زیارت ہے خصوصاً وہ زیارت جو حدیث کی رو سے امام موسیٰ کاظم -سے مختص ہے وہ زیارت جامعہ کے باب میں پہلی زیارت کے طور پر نقل کی جائے گی۔

جب زائر ان دو ائمہعليه‌السلام کے شہر سے جانا چاہے تو اسے ان بزرگواروں سے دواع کرنا چاہیے اور جیسا کہ شیخ طوسیرحمه‌الله نے تہذیب الاحکام میں فرمایا ہے کہ جب امام موسی کاظم - سے وداع کرنا چاہے تو قبر مبارک کے قریب کھڑے ہوکر یوں کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا أَبَا الْحَسَنِ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ، أَسْتَوْدِعُکَ ﷲ وَأَقْرَأُ

آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اے ابو الحسنعليه‌السلام خد اکی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں آپ کو حوالہ خدا کرتا ہوں اور آپ کو سلام

عَلَیْکَ السَّلامَ، آمَنَّا بِالله وَبِالرَّسُولِ وَبِما جِئْتَ بِهِ وَدَلَلْتَ عَلَیْهِ، اَللّٰهُمَّ اکْتُبْنا مَعَ

پیش کرتا ہوں ایمان رکھتا ہوں خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور اس پر جو آپ لائے اور جسکی طرف راہنمائی فرمائی اے معبود ہمیں یہ گواہی دینے

الشَّاهِدِین َ۔امام محمد تقی - سے وداع کرتے ہوئے یہ کہے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَابْنَ رَسُولِ

والوں میں لکھ دے آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند

ﷲ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ، أَسْتَوْدِعُکَ ﷲ وَأَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلامَ، آمَنَّا بِالله وَبِرَسُولِهِ

اور خدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں میں آپکو حوالہ خدا کرتا ہوں اور آپکو سلام پیش کرتا ہوں ایمان رکھتا ہوں خدا اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وَبِما جِئْتَ بِهِ وَدَلَلْتَ عَلَیْهِ، اَللّٰهُمَّ اکْتُبْنا مَعَ الشَّاهِدِینَ

پراور اس پر جو آپ لائے اور اس کی طرف راہنمائی کی ہے اے معبود ہمیں یہ گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔

اس کے بعد حق تعالیٰ سے دعامانگے کہ یہ کاظمین میں اس کا آخری وداع نہ ہو اور وہ اسے دوبارہ یہاں آکر زیارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے پھر ہر دوائمہ کی قبور پر بوسہ دے اور باری باری اپنے دونوں رخساران سے مس کرے۔

حاجی علی بغدادی کا واقعہ

مؤلف کہتے ہیں: ان زیارتوں کی مناسبت سے یہاں سعید ،صالح،برگزیدہ،اور متقی حاجی علی بغدادی کے واقعہ کا ذکر کردینا مفید ہوگا جیسے میرے استاد مرحوم نے اپنی دو کتابوں جنۃ الماوی ونجم الثاقب میں تحریر فرمایا ہے چنانچہ انہوں نے نجم الثاقب میں لکھا ہے اگر اس کتاب میں دیگر واقعات درج نہ کئے جاتے اور صرف یہی واقعہ مذکور ہوتا جو ھنوز تازہ ہے اورصحیح ہے نیز اس میں بہت سے فوائد بھی ہیں تو اس کتاب کی قدرو قیمت کیلئے اس میں صرف یہی کافی تھا اس تمہید کے بعد فرمایا کہ حاجی علی بغدادی کہ خدا ان کی تائید کرے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ میرے ذمے( ۰۸ ) اسی تومان مال امام تھا کہ( جو ایک ایرانی سکہ ہے )میں نجف اشرف گیا اور اسی تو مان میں سے بیس تومان علم الہدی شیخ مرتضی اعلی ﷲ مقامہ کی خدمت میں بیس تو مان شیخ محمد حسین مجتہد کاظمینی اور بیس تومان شیخ محمد حسن شروقی کی خدمت میں پیش کیے اور بقایا بیس تومان جو میرے ذمہ رہ گئے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ بغداد واپس پہنچ کر یہ رقم شیخ محمد حسن کاظمینی آلعليه‌السلام یاسین کی خدمت میں پیش کروں گا اور میری خواہش تھی کہ اس کام میں ہر ممکن عجلت سے کام لوں پھر جمعرات کے روز میں نے امامین کاظمینعليه‌السلام کی زیارت کا قصد کیا اور زیارت سے مشرف ہونے کے بعد میں جناب شیخ سلمہ کے پاس گیا اور ان بیس تومان میں سے کچھ ان کی خدمت میں پیش کیے اور جو باقی رہ گئے ان کے بارے میں عرض کی کہ یہ میرے پاس رہنے دیں یہ میں بعض اجناس کی فروخت کے بعد آپ کی ہدایت کے مطابق حقداروں تک پہنچادوں گا۔ ان کے ہاں سے فارغ ہوکر میں نے اسی روز عصر کے وقت بغداد واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو شیخ موصوف نے فرمایا کہ آج یہیں قیام کریں! میں نے عرض کی آج جاکر مجھے کارخانے کے مزدوروں کی اجرت ادا کرنا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہفتہ بھر کی مزدوری جمعرات کی عصر کے وقت ادا کی جاتی تھی پس میں وہاں سے چل پڑا اور ابھی میں نے ایک تہائی سفر طے کیا ہوگا کہ میری نظر ایک سید جلیل پر پڑی جو بغداد سے آرہے تھے ۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا خوش آمدید کہا اور مجھے سینے سے لگا کر معانقہ کیا پھر ہم نے رواج عرب کے مطابق ایک دوسرے کا بوسہ لیا‘ ان کے سرمبارک پر سبز عمامہ تھا اور رخسار پر بڑاسا سیاہ تل تھا انہوں نے فرمایا حاجی علی! آپ کا کیا حال ہے اور آپ کہاں جارہے ہیں؟ میں نے عرض کی کاظمین کی زیارت کرکے واپس بغداد جارہاہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ آج شب جمعہ ہے لہذا آپ زیارت کاظمین کے لیے واپس ہوچلیں ‘ میں نے عرض کی کہ میرے سردار میں ایسا نہیں کرسکتا! انہوں نے فرمایا کہ نہیں آپ ایسا کرسکتے ہیں۔ واپس چلیں تاکہ میں گواہ بنوں کہ آپ میرے جد بزرگوارامیر المؤمنین- کے موالیوں اور میرے محبوں میں سے ہیں نیز شیخ بھی اس بات کی گواہی دیں کیونکہ حق تعالی نے فرمایا ہے کہ اپنے لیے گواہ وشاہد بنائو۔ ان کی اس بات میں در اصل ایک اشارہ اس خیال کی طرف تھا کہ جو میرے دل میں تھا اور وہ یہ کہ شیخ مکرم ومحترم سے درخواست کروں کہ وہ مجھے ایک تحریر لکھ دیں جس میں یہ ذکر ہو کہ میں امیر المؤمنین- کے محبوں میں سے ہوں اور پھر اس تحریر کو کفن میں اپنے ساتھ رکھوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا اور آپ میرے لیے کس طرح کی شہادت دیں گے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص کسی کا حق اس تک پہنچاتا ہے تو حق وصول کرنے والے کو اس کے متعلق کیوں علم نہ ہو گا‘ میں نے عرض کیا کہ کونسا حق؟ انہوں نے فرمایا وہ جو آپ نے میرے وکیل کو دیا ہے میں نے کہا آپ کے کونسے وکیل کو؟ انہوں نے فرمایا وہی شیخ محمد حسن میں نے کہا کہ وہ آپ کے وکیل ہیں تو انہوں نے فرمایا ہاں وہ میرے وکیل ہیں اور جناب سید محمد بھی میرے وکیل ہیں میرے دل میں یہ بات آئی کہ ان سید جلیل نے مجھے میرے نام سے پکارا ہے حالانکہ وہ مجھے پہنچاتے نہیں ہیں پھر خیال آیا کہ وہ مجھے جانتے ہوں گے لیکن مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ہوگی۔ پھر خیال آیا کہ یہ سید بزرگوار مجھ سے حق سادات میں سے کچھ لینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہوں کہ انہیں مال امام میں سے کچھ دوں پس میں نے عرض کی کہ اے بزرگوار! آپ کے حق میں سے میرے پاس کچھ سہم امام موجود ہے اور میں نے آقا شیخ محمد حسن سے اجازت بھی لی ہوئی ہے تو کیا وہ آپ کو دے دوں؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ہمارے حق میں سے کچھ نجف اشرف میں وکیلوں کو دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ جو کچھ میں ادا کرچکا ہوں کیا وہ قبول ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہے‘ میرے دل میں آیا کہ یہ بزرگوار علمائ کرام کو اپنا وکیل بتا رہے ہیں اور یہ بات مجھے کچھ اچھی معلوم نہ ہوئی تب میں نے پوچھا کہ کیا علمائ کرام سہم سادات وصول کرنے میں وکیل ہوسکتے ہیں؟ اس کے بعد مجھ پر غفلت سی طاری ہوگئی اور میں اس سوال کا جواب دریافت نہ کرسکا۔ اس اثنائ میں انہوں نے فرمایا کہ میرے جد بزرگوار کی زیارت کے لیے واپس چلے چلیں پس میں زیارت کیلئے ان کے ساتھ واپس پلٹا اور وہ میرا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر چل پڑے میں نے راہ چلتے میں دیکھا کہ ایک نہر ہے جس میں صاف شفاف پانی جاری ہے اور لیموں نارنگی اور انگور کے درخت اور بیلیں موجود ہیں جن کا موسم نہیں ہے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ نہر اور دخت کیسے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے محبوں میں سے جو شخص ہمارے جد بزرگوار کی اور ہماری زیارت کے لئے جائے یہ ان کے لیے ہیں۔ اس پر میں نے عرض کی کہ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں پوچھیں میں نے کہا کہ شیخ عبد الرزاق مرحوم ایک عالم ومدرس تھے ایک دن میں ان کے پاس گیا تو سنا وہ فرمارہے تھے! کہ جو شخص زندگی بھر راتوں کو عبادت کرتا رہے اور دنوں میں روزے رکھے چالیس حج وعمرہ بجالا ئے اور صفاو مروہ کے درمیان فوت ہوجائے لیکن اگر وہ امیر المؤمنین- کے محبوں میں سے نہ ہو تو اسے ان عبادتوں کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں قسم بخدا اسے کچھ نہیں ملے گا‘ پھر میں نے اپنے عزیزوں میں سے ایک کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ امیر المؤمنین- کے محبوں میں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اور وہ بھی جو آپ کے متعلقین میں سے ہیں میں نے کہا کہ میرے سردار ایک مسئلہ پوچھتاہوں آپ نے فرمایا پوچھیں تب میں نے عرض کی کہ امام حسین - کی روضہ خوانی کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سلیمان اعمش کے پاس آیا اور اس نے امام حسین- کی زیارت کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ بدعت ہے ۔ اس نے خواب میں زمین وآسمان کے درمیان ایک ہودج ( نور کی عماری )دیکھا تو پوچھا کہ اس میں کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ اس میں بی بی فاطمہ زہراعليه‌السلام اور بی بی خدیجۃ الکبریعليه‌السلام ہیں اس نے پوچھا کہ یہ کہاں جارہی ہیں؟ جواب ملا کہ آج شب جمعہ ہے تو یہ اپنے فرزند امام حسین- کی زیارت کرنے جارہی ہیں پھر اس نے دیکھا کہ ہودج ( نور کی عماری)میں سے بہت سے کاغذ گر رہے ہیں جن پر تحریر ہے کہ شب جمعہ میں امام حسین- کی زیارت کرنے والے کے لیے قیامت کے روز آگ سے امان ہے تو کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں یہ بالکل صحیح ہے میں نے عرض کی میرے آقا کیا یہ صحیح ہے کہ جو شخص شب جمعہ میں امام حسین- کی زیارت کرے اس کیلئے آگ سے امان ہے انہوں نے فرمایا ہاں قسم بخدا یہ بالکل صحیح ہے میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور وہ گر یہ کر رہے ہیں میں نے کہا مجھے کچھ اور بھی پوچھنا ہے تو انہوں نے فرمایا ہاں پوچھیں میں نے کہا کہ ہم نے ۹۶۲۱ ھ میں امام علی رضا - کی زیارت کی تو مقام درود پر ایک عرب سے ہماری ملاقات ہوئی جو نجف اشرف کی مشرقی جانب کے دیہاتیوںمیں سے تھا۔ ہم نے اسے اپنا مہمان بنایا اور دوران گفتگو اس سے پوچھا کہ امام علی رضا - کا ملک کیسا ہے؟ اسنے کہا کہ یہ توجنت ہے مجھے یہاں رہتے ہوئے آج پندرہ دن ہو رہے ہیں اور میں حضرت کے مہمان خانے سے کھانا کھا رہا ہوں تو منکر نکیر کی کیا جرات ہے کہ وہ میری قبر میں آئیں جب کہ میرا گوشت پوست امام علی رضا - کے مہمان خانے کے کھانے سے پرورش پا چکا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امام علی رضا - اس کے پاس قبر میں تشریف لا کر اس کو منکر نکیر سے چھڑا لیں گے؟ انہوں نے فرمایا ہاں قسم بخدا کہ میرے جد اس شخص کے ضامن ہیں‘ میں نے کہا ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے انہوں نے کہا کہ پوچھیں میں نے عرض کی کہ میری وہ زیارت امام علی رضا - قبول ہے تو فرمایا کہ قبول ہے انشائ اللہ! میں نے کہا اے میرے مولا ایک اور سوال ہے تو فرمایا بسم اللہ پوچھیں‘ میں نے عرض کی کہ حاجی محمد حسین بزاز باشی ولد حاجی احمد بزاز باشی مرحوم جو اس زیارت میں میرے ہمراہی اور ہم خرچ تھے کیا ان کی زیارت قبول ہے یا نہیں انہوں نے فرمایا ہاں اس عبد صالح کی زیارت بھی قبول ہے ۔ میں نے پوچھا کہ بغداد کا فلاں شخص جو ہمارا ہمسفر تھا کیا اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو وہ خاموش ہو گئے میں نے دوبارہ پوچھا کہ اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو بھی انہوں نے کچھ جواب نہ دیا‘ حاجی علی بغدادی کا بیان ہے کہ وہ شخص بغداد کے مالدار افراد میں سے ایک تھا جو سفر زیارت میں کھیل تفریح کے کاموں میں مصروف رہتا تھا اور میں نے جس کے بارے میں سوال کیا تھا اس نے اپنی ماں کو قتل بھی کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم ایک کھلی سڑک پر پہنچے جس کے دونوں طرف باغات ہیں اور یہ کاظمین کے قریب وہ جگہ ہے جہاں بغداد کے باغات ان باغوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں وہ جگہ ایک یتیم سید کی تھی جس کو حکومت نے سڑک میں شامل کر لیا تھا اور کاظمین کے متقی و پرہیزگار لوگ سڑک کے اس حصے پر نہیں چلتے تھے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ اس جگہ پر چل رہے تھے میں نے عرض کی کہ اے میرے آقا یہ ایک یتیم سید کی جگہ ہے جسے استعمال کرنا درست نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جگہ میرے جد امیر المومنین- کی ان کی اولاد اور ہماری اولاد کی ہے لہذا ہمارے محبوں کے لیے اس کا استعمال حلال ہے۔ اس جگہ کے نزدیک حاجی میرزا ہادی کا ایک باغ تھا جو عجم کے معروف مالداروں میں سے ہیں اور آجکل بغداد میں سکونت پذیر ہیں ‘ میں نے اس باغ کے بارے میں پوچھا کہ مشہور ہے کہ یہ امام موسیٰ کاظم - کا ہے کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے فرمایا آپ کو اس سے کیا غرض اور اس بارے میں مزید کچھ نہ کہا‘ اتنے میں ہم دجلہ کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے باغوں اور کھیتوں کے لیے پانی لیا جاتا ہے۔ وہاں سے دو راستے شہر کاظمین کو جاتے ہیں کہ ایک سلطانی اور دوسرا سادات کے نام سے مشہور ہے‘ انہوں نے سادات کے راستے پر چلنا شروع کیا تو میں نے کہا سلطانی راستے سے چلیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہم اسی راستے سے جائیں گے‘ تھوڑا سا راستہ ہی چلے تھے کہ ہم صحن مبارک میں جہاں جوتے اتارے جاتے ہیں اس کے پاس پہنچ گئے جب کہ ہم کسی کوچہ و بازار سے نہ گزرے تھے۔ ہم مشرق کی جانب واقع باب المراد سے ایوان مبارک میں داخل ہوئے‘ وہ بزرگ رواق میں نہیں ٹھہرے اور اذن دخول بھی نہیں پڑھا بلکہ سیدھے حرم میں داخل ہوگئے‘ اور مجھ سے فرمایا کہ زیارت پڑھیں میں نے عرض کی کہ میں پڑھا ہوا نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھائوں؟ میں نے کہا ہاں پڑھایئے تب آپ نے فرمایا:

ئَ أَدْخُلُ یَاﷲ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ

کیا میں داخل ہوجائوں اے اللہ آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسول آپ پر سلام ہو اے مومنوں کے امیر۔

اسی طرح انہوں نے ائمہ میں سے ہر امام کا نام لے کر انہیں سلام کیا یہاں تک کہ امام حسن عسکری - کی نوبت آئی تو فرمایا:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا مُحَمَّدِ الْحَسَنَ الْعَسْکَرِی

آپ پر سلام ہو اے ابو محمد حسن العسکریعليه‌السلام ۔

پھر مجھ سے کہا کہ آیا آپ اپنے زمانے کے امام کو پہنچاتے ہو؟ میں نے کہا کیوں نہ پہچانوں گا انہوں نے فرمایاامام زمان (عج)کو سلام پیش کریں چنانچہ میں نے کہا:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَا بْنَ الْحَسَنِ

آپ پر سلام ہو اے حجت خدا اے صاحب زمان اے حسنعليه‌السلام کے فرزند۔

اس پر وہ بزرگ مسکرائے اور فرمایا:عَلَیْکَ اَلسَّلاَمُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکَاتُه ،

تم پر بھی سلام ہو خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔

اس کے بعد ہم حرم مطہر میں داخل ہوگئے ضریح مقدس کو سینے سے لگایا اور اس پر بوسہ دیا‘ ان بزرگ نے مجھ سے کہا کہ زیارت پڑھیں میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھائوں؟ میںنے عرض کی ہاں! انہوں نے فرمایا کہ آپ کونسی زیارت پڑھنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ جو زیارت افضل ہے مجھے وہی پڑھوائیں‘ انہوں نے فرمایا کہ زیارت امین ﷲ افضل ہے اور پھر زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگئے اور فرمایا:

اَلسََّلاَمُ عَلَیْکُمَا یَااَمِیْنَیِ ﷲ فِیْ اَرْضِهٰ وَحُجَّتَیْه عَلَیٰ عِبَادِهِ الخ

سلام ہو آپ دونوں پر اے خدا کی زمین میں اس کے امانتدارو اور اس کے بندوں پر اس کی حجت۔

تاآخر زیات امین ﷲ پڑھی اور عین اسی وقت حرم شریف کے چراغ جلادئے گئے میں دیکھ رہا تھا کہ شمعیں روشن ہیں لیکن حرم مطہر کسی اور نور سے جگمگا رہا تھا۔ جو سورج کی روشنی کی مانند تھا کہ جو شمعیں جل رہی تھیں وہ یوں لگتی تھیں جیسے سورج کے سامنے چراغ جلایا گیا ہو‘ لیکن مجھ پر اتنی غفلت چھائی ہوئی تھی کہ میں ان علامات کی طرف متوجہ نہ ہو رہا تھا۔ جب وہ بزرگ زیارت سے فارغ ہوئے تو پائنتی کی جانب مشرق کی سمت کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ آپ میرے جد بزرگوار امام حسین- کی زیارت کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا شب جمعہ ہے لہذا میں حضرت کی زیارت کرنا چاہتا ہوں تب آپ نے زیارت وارث پڑھی اور اس اثنائ میں مؤذن مغرب کی اذان دے چکے تھے آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جائیں اور جماعت کے ساتھ نماز مغرب ادا کریں‘ وہ اس وقت اس مسجد میں آئے جو روضہ مبارک کے سرہانے کی طرف ہے وہاں جماعت ہورہی تھی اور انہوں نے امام کے دائیں پہلو ہوکر فرادیٰ نماز پڑھی ۔ میں پہلی صف میں جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ان کو وہاں نہیں دیکھا میںمسجد سے نکلا اور حرم مبارک میں انہیں ڈھونڈنے لگا لیکن انہیں نہ پایا جب کہ میرا خیال تھا ان سے مل کر انہیں کچھ رقم دوں اور رات کو انہیں اپنے پاس ٹھہرائوں تاہم اس وقت میری آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا اور میں ان بزرگوار کے سبھی معجزوں کی طرف توجہ کرنے لگا کہ کیسے میں ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا کام چھوڑ کر بغداد سے واپس آیا‘ ان کا مجھے نام لے کر پکارنااپنے محبوںکی شہادت دینا اس نہر او ر درختوں پر بے موسم کے میوؤں کا دیکھاجانا وغیرہ کہ جن کے باعث مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے امام مہدی(عج) تھے پھر اذن دخول میں امام حسن عسکری - کے بعد ان کا مجھ سے پوچھنا کہ اپنے زمانے کے امام کو جانتے ہو؟ اور یہ فرمانا کہ ان کو سلام کرو اور میرے سلام پیش کرنے کے بعد ان کا مسکرانا اور جواب میں وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ کہنا وغیرہ تمام علامات میرے امام العصر (عج)ہی کی تھیں میں جوتے رکھنے کی جگہ پر آیا اور ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ باہر چلے گئے ہیں اور پوچھا کہ کیا وہ بزرگوار سید آپ کے ہمراہی تھے؟ میں نے کہ ہاں۔ اس کے بعد میں نے وہ شب اپنے سابق میزبان کے ہاں آکر گزاری اور صبح ہوئی تو میں شیخ محمد حسن قبلہ کی خدمت میں پہنچا اور جو واقعات گزرے تھے وہ سب ان کے گوش گزار کیے تو انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے اس قصہ اور اس راز کو اظہار کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ خدا آپ کو توفیق دے۔ چنانچہ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد تک میں نے اس واقعہ سے کسی کو مطلع نہیں کیا تھا لیکن ایک روز جب میں حرم کاظمین میں دوبارہ گیا تو وہاں ایک سید بزرگوار کو دیکھا اور انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ فلاں دن کیا واقعہ ہوا تھا؟ میں نے عرض کی کہ میں نے تو اس روز کوئی چیز نہیں دیکھی تھی‘ انہوں نے پھر پوچھا تو بھی میں نے واضح طو پر انکار کیا تب وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور اس کے بعد میں نے انہیں کہیں نہیں دیکھا۔

دوسرا مطلب

مسجد براثا میں جانا اور وہاں نمازپڑھنا

واضح ہو کہ مسجد براثا ایک مشہور اور بابرکت مسجد ہے جو بغداد اور کاظمین کے درمیان زائرین کے راستے میںواقع ہے لیکن اکثر زائرین اس کے فیض وبرکت سے محروم رہ جاتے ہیں حالانکہ اس کے بہت سے فضائل وخصائص نقل ہوئے ہیں ۶۰۰ ھ کے مورخین میں سے حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ براثا بغداد کا ایک محلہ تھا جوباب محول کے جنوب میں واقع تھااور محلہ کرخ سے قبلہ کی جانب تھا۔ اس میں شیعوں کی ایک مسجد تھی جس میں وہ نما زپنجگانہ ادا کرتے تھے تا ہم بعد میں وہی مسجد غیر آباد ہو گئی عباسی خلیفہ راضی باللہ کے زمانے سے پہلے شیعہ یہاں جمع ہو تے اور تبرا کرتے تھے یہاں تک کہ راضی باللہ کے حکم سے فوجی اس مسجد پر چڑھ دوڑے اور جسے وہاں پایا گرفتار کرلیا اور قید میں ڈال دیا اورمسجد کو گراکر زمین کے برابر کردیا شیعوں نے اس واقعہ سے بغداد کے حاکم حکم ماکانی کو مطلع کیا تو اس نے حکم دیا کہ اس مسجد کو وسیع ومضبوط شکل میں دوبارہ تعمیر کیا جائے چنانچہ مسجد تعمیر ہوگئی اور اس نے اس کے صدر دروازے پر خلفیہ راضی باللہ کا نام نقش کرادیا‘ اس وقت سے لے کر ۴۵۰ھ تک یہ مسجد آباد رہی اور اس میں نماز با جماعت ادا کی جاتی تھی لیکن ۴۵۰ھ کے بعدیہ مسجد پھر مسمار وغیر آباد ہوگئی آجکل یہ مسجدعالیشان عمارت کے ساتھ دوبارہ تعمیر ہوچکی ہے شیعہ مسلمانوں نے اسے بطریق احسن آباد کیا ہوا ہے اور بہت سے زائروہاں جاکر اعمال بجالاتے ہیں )

براثا شہر بغداد کے آباد ہونے سے پہلے ایک گاؤں تھا جس کے بارے میں لوگوں کا گمان ہے کہ خوارج سے جنگ کیلئے نہروان جاتے ہوئے امیر المؤمنین- یہاں سے گزرے اور آپ نے اس مسجد میں نماز ادا فرمائی نیز اس آبادی کے حمام میں آپ نے غسل بھی کیا تھا۔ مقام براثا ابو شعیب براثی سے منسوب ہے جو ایک عابد وزاہد شخص تھے اور وہی پہلے شخص ہیں جو براثا میں ایک جھونپڑی ڈال کر یہاں سکونت پذیر ہوئے اور اپنے وقت آخر تک یہاں عبادت کرتے رہے۔ ایک بہت ہی دولت مند شخص کی بیٹی جو عالیشان محلوں میں پلی بڑھی تھی‘ وہ اس جھونپڑی کے پاس سے گزری تو اسے ابو شعیب کی یہ حالت وکیفیت بڑی پسند آئی اور ان کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوئی کہ وہ ان کی محبت کی اسیر ہوکر ان کے قریب آبیٹھی اور کہنے لگی کہ میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتی ہوں انہوں نے کہا میں تجھے اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ اپنی اس موجودہ شان وشوکت کو ترک کردے پس اس نیک بخت خاتون نے اس بات کو منظور کرتے ہوئے عبادت گزاروں کا لباس اختیار کیا تب ابو شعیب نے اس سے نکاح کرلیا جب وہ خاتون جھونپڑی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ ابو شعیب نے نمی کے اثر سے بچنے کے لیے نیچے ایک چٹائی بچھا رکھی ہے وہ کہنے لگی کہ اگر آپ نے اس چٹائی کو اپنے نیچے سے ہٹا کر باہر نہ پھینکا تو میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی کیونکہ میں نے آپ ہی کی زبانی سن رکھا ہے کہ زمین کہتی ہے اے آدم کے بیٹے! تو میرے اور اپنے درمیان پردہ وحجاب ڈالتا ہے جب کہ کل کو تو میرے ہی پیٹ میں آنے والا ہے پس ابو شعیب نے وہ چٹائی اٹھا کر باہر پھینک دی اور پھر اپنی وفات تک اس نیک دل خاتون کے ساتھ بسر کرتے رہے جب کہ اس عرصے میں وہ دونوں بہترین طریقے سے خدا کی عبادت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ دونوں کی وفات ہو گئی ۔

مؤلف کہتے ہیں: ہم نے ہدیۃ الزائرین میں اس مسجد کے فضائل میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان اخبار وروایات سے اس مسجد کی ایسی بہت سی فضیلتیں معلوم ہوتی ہیں کہ اگر کسی مسجد میں یہ فضلیتیں پائی جائیں تو وہ اس لائق ہوجاتی ہے کہ انسان دور دراز کی مسافتیں طے کرکے اس مسجد میں نماز ودعا سے فیض یاب ہو اور یہ مسجد براثا درج ذیل بہت سی فضیلتیں رکھتی ہے۔

( ۱ ) خدا کی طرف سے یہ مقرر کیا گیا ہے کہ سوائے پیغمبر اور وصی پیغمبر کے کوئی اور بادشاہ لشکر کے ہمراہ اس سرزمین پر نہیں اترے گا۔

( ۲ )حضرت مریم صدیقہ = کے گھر کا اس جگہ واقع ہونا۔

( ۳ ) یہ حضرت عیسی ٰ - کی سرزمین ہے۔

( ۴ )یہ وہی جگہ ہے جہاں بی بی مریم =کیلئے چشمہ ظاہر ہوا۔

( ۵ )اس چشمے کو امیر المؤمنین- کا دوبارہ ظاہر کرنا۔

( ۶ ) یہاں ایک بابرکت سفید پتھر کا ہونا جس پر حضرت مریم = نے حضرت عیسیٰ - کو لٹایا تھا۔

( ۷ ) اسی پتھر کا امیر المؤمنین- کے معجزے سے دوبارہ نکالنا آپ کا اسے قبلہ کی سمت نصب کرنا اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا۔

( ۸ ) امیر المؤمنین- اور آپ کے دو فرزند ان امام حسن وامام حسینعليه‌السلام کا اس مسجد میں نماز ادا کرنا ۔

( ۹ )اس مقام کی بزرگی وتقدس کے پیش نظر امیر المؤمنین- کا یہاں چار دن تک ٹھہرنا۔

(۱۰)پیغمبروں کا یہاں نماز ادا کرنا اور خصوصا حضرت ابراہیم - کا اس مسجد میں نماز پڑھنا۔

( ۱۱ )یہاں ایک پیغمبر کی قبر کا واقع ہونا اور شاید وہ حضرت یوشع -کی قبر ہے کیونکہ شیخ مرحوم کا ارشاد ہے کہ آپ کی قبر کاظمین کے باہر براثا کے سامنے ہے۔

(۱۲)اسی مقام پر حضرت امیرالمؤمنین- کیلئے سورج پلٹا اس مسجد کی اتنی فضیلتوں اور یہاں خدا کی اتنی نشانیوں کے ظہور اور اس مقام پر امیر المؤمنین- سے اس قدر معجزوں کے ظاہرہونے کے باوجودمعلوم نہیں کہ ہزاروں زائرین میں سے کوئی ایک اس مسجد میں جاتا ہو حالانکہ یہ ان کے راستے میں ہے اور وہ آنے جانے میں دو مرتبہ اس مسجد کے پاس سے گزرتے ہیں۔ اگر کوئی زائر اس مسجد سے فیض حاصل کرنے وہاں چلا جائے اور وہاں جاکر دروازہ مسجد کو بند پائے تو دروازہ کھلوانے کیلئے تھوڑی سی رقم خرچ کرنے سے کتراتا ہے اور خود کو بہت سے فیوض وبرکات سے محروم رکھتا ہے لیکن بغداد اور اس میں واقع ظالموں کی بنائی ہوئی عمارتوں کی سیر کرنے اور نجس وناپاک لوگوں سے فضول چیزیں خرید نے کو اپنے سفر زیارت کا حصہ تصور کرتا ہے اور ان کا موں میں بے باکی سے مال خرچ کرتا ہے اللہ ہی نیکیوں کی توفیق دینے والا ہے۔

تیسرا مطلب

نوابِ اربعہ کی زیارت

امام العصر (عج ) کے چار خاص نمائندے و نائب ہیں انہیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے اور وہ ابو عمر عثمان بن سعید اسدی‘ ابو جعفر محمد بن عثمان اسدی‘ ابو القاسم حسین بن روح نوبختی اور شیخ ابوالحسن علی بن محمد سمری ہیں۔ زائرین جب تک کاظمین شریفین کے حرم میں رہیں ان پر امام العصر -کے ان نواب اربعہ کی زیارت کے لیے بغداد جانا ضروری ہے کیونکہ ان میں سے ہر نائب خاص اگر دور کے شہروں میں سے کسی شہر میں دفن ہوتا تو بھی سفر کی تکالیف اٹھا کر ان کی زیارت سے فیض خاص کرنے کے لیے وہاں جانا چاہئے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئمہ کے خاص صحابہ میں سے کوئی بھی ان کی بزرگی اور مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ تقریباستر سال کی مدت تک یہ نیابت و سفارت کے مقام پر فائز رہ کر امام اور مومنین کے درمیان واسطہ بنے رہے اور ان کے ہاتھوں بہت سی کرامات ظاہر ہوئیں یہاں تک کہ بعض علمائ کرام ان نائبین خاص کی عصمت کے بھی قائل ہو گئے ہیں۔ یہ بات مخفی نہ رہے کہ جب یہ بزرگان اپنی دنیاوی زندگی میں امام العصر (عج) اور ان کی رعایا کے دمیان واسطہ و وسیلہ تھے اور ان کے ذریعے لوگوں کے عریضے اور حاجت سرکار کے سامنے پیش ہوتے تھے تو اب موت کے بعد بھی وہ اس اعلیٰ منصب پر فائزہیں اور انہیں وہی مقام حاصل ہے لہذا اب بھی حاجات و مشکلات کے بارے میں مومنوں کے خطوط و عرائض امام الزمان - تک پہنچا سکتے ہیں اور یہ چیز اپنے مقام پر مسلم و ثابت ہے۔ المختصر ان کے فضائل اور مناقب بہت زیادہ اور قابل ذکر ہیں لیکن زائرین محترم کو ان کی زیارت کی طرف رغبت دلانے کے لئے اتنی مقدار کافی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ۔

نواب اربعہ کی زیارت کا طریقہ

جیسا کہ شیخ طوسیرحمه‌الله نے تہذیب اور سید بن طائوسرحمه‌الله نے مصباح الزائر میں تحریر فرمایا ہے اور انہوں نے نواب اربعہ کی زیارت کے اس طریقے کی نسبت ابوالقاسم حسین بن روح کی طرف دی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ان نائبین کی زیارت میں سب سے پہلے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ پر سلام بھیجے اور اسکے بعد امیر المومنین- بی بی خدیجہ الکبریٰ ،بی بی فاطمۃ الزہرا، امام حسن و امام حسین پر اور پھر ہر امام پر سلام بھیجے یہاں تک کہ امام العصر پر سلام بھیجے پھر آپ کے چار نائبین پر سلام بھیجے کہے السلام علیک یا فلان بن فلان اور فلان بن فلاں کی بجائے ہر نائب کا نام اور اسکے والد کا نام لے اور پھر کہے:

السَّلام ُعَلَیْکَ یَا فُلانَ بْنَ فُلانٍ أَشْهَدُ أَنَّکَ بَابُ الْمَوْلَی، أَدَّیْتَ عَنْهُ وَأَدَّیْتَ إلَیْهِ، مَا

سلام ہو فلان بن فلان میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مولا کا دروازہ ہیں آپ نے ان کا فرمان پہنچایا اور ان تک بات پہنچائی آپ نے

خَالَفْتَهُ وَلاَ خَالَفْتَ عَلَیْهِ، قُمْتَ خاصّاً، وَانْصَرَفْتَ سابِقاً، جِئْتُکَ عارِفاً بِالْحَقِّ الَّذِی

انکی مخالفت نہ کی اور انکے نام پر غلط بات نہ کہی آپ نیابت خاصہ پر قائم ہوئے اور رہبرو رہنما بنے آپکے ہاں آیا ہوں اس حق کو

أَنْتَ عَلَیْهِ وَأَنَّکَ مَا خُنْتَ فِی التَّأْدِیَةِ وَالسَّفارَةِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ مِنْ بابٍ مَا أَوْسَعَکَ

پہنچانتے ہوئے جس پر آپ تھے اور بے شک آپ نے کمی نہ کی پیغام رسانی و نمائندگی میں آپ پر سلام ہو اے وسیع و کشادہ باب

وَمِنْ سَفِیرٍ مَا آمَنَکَ، وَمِنْ ثِقَةٍ مَا أَمْکَنَکَ، أَشْهَدُ أَنَّ ﷲ اخْتَصَّکَ بِنُورِهِ حَتَّی

اور وہ نمائندے جو امانتدارو بااعتبار ہیں ثابت قدم ہیں میں گواہی دیتا ہوںکہ خدا نے آپ کو خاص نور دیا جس سے

عَایَنْتَ الشَّخْصَ فَأَدَّیْتَ عَنْهُ وَأَدَّیْتَ إلَیْهِ ۔پھر حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے امام العصر (عج) تک دوبارہ

آپ نے امام کو دیکھا پس ان کی طرف سے بات پہنچائی اور ان تک غرضیں پہنچائیں

سلام بھیجے اور کہے:جِئْتُکَ مُخْلِصاً بِتَوْحِیدِ ﷲ، وَمُوالاةِ أَوْلِیَائِهِ، وَالْبَرَائَةِ مِنْ أَعْدَائِهِ وَمِنَ

آپکے ہاں آیا ہوں جب خدا کی توحید پر خالص ایمان ہے اسکے دوستوں سے سچی دوستی ان کے دشمنوں سے بیزاری اور آپ

الَّذِینَ خالَفُوکَ، یَا حُجَّةَ الْمَوْلیٰ وَبِکَ إلَیْهِمْ تَوَجُّهِی، وَبِهِمْ إلَی ﷲ تَوَسُّلِی

کے مخالفوں سے دوری رکھتا ہوں اے مولا کی حجت میں آپکے ذریعے ان کی طرف مڑا ہوں اور ان کو خدا کے حضور وسیلہ بنایا ہے۔

اس کے بعد دعا مانگے اور جو حاجت بھی رکھتا ہو خدا سے طلب کرے کہ انشائ اللہ پوری ہوگی۔

مؤلف کہتے ہیں: بہت ضروری اور مناسب ہے کہ بغداد میں شیخ اجل ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینیرحمه‌الله (خدا ان کی قبر کو معطر کرے) کی زیارت بھی کی جائے کہ یہ شیعوں کے وہ عالی مرتبہ محدث ہیں جن کو شیخ اور رئیس الشیعہ کہا جاتا ہے‘ وہ مقام روایت میں بہت معتبر اور پختہ ہیں۔ انہوں نے بیس برس کی طویل محنت کر کے کتب اصول کافی و فروع کافی تالیف کیں جو شیعہ مسلمانوں کے لیے نور بصارت کی حیثیت رکھتی ہیں‘ یقینا ان بزرگوار نے شیعہ افراد اور خاص کر شیعہ علمائ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ہدیۃ الزائرین میں ان بہت سارے علمائ کا ذکر کیا ہے جو ائمہ طاہرین کے روضہ ہائے مبارکہ کے جوار میں مدفون ہیں پس جو حضرات ان کے اسمائ گرامی سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کریں۔

چوتھا مطلب

حضرت سلمان فارسی کی زیارت

جاننا چاہئے کہ جو زائرین کاظمین جائیںانہیں وہاں سے مدائن جا کر خدا کے نیک و صالح بندے جناب سلمان محمدی کی زیارت کرنا چاہئے جو چار ارکان میں سے پہلے اور صاحب عظمت و بزرگی ہیں جن کے حق میں حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ سلمان(رض) ہم اہل بیتعليه‌السلام نبوت میں سے ہیں۔ اور مسلک اہل بیت و نبوت سے وابستہ ہیں آپ کی فضیلت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ بھی فرمایا سلمان(رض) (علم کا) ایک سمندر ہے جو خشک نہ ہو گا اور وہ (علم و ایمان کا) ایک خزانہ ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے یعنی سلمان ہم اہل بیتعليه‌السلام میں سے ہیں وہ علم و حکمت بانٹتے اور لوگوں کو دلیل و برہان سے آشنا کرتے ہیں۔ امیر المومنین- نے ان کو لقمان حکیم قرار دیا ہے بلکہ امام جعفر صادق -نے انہیں لقمان حکیم سے افضل شمار فرمایا اور امام محمد باقر - نے ان کو متوسمین یعنی ایمان و جنت کے لیے نشان زدہ افراد میں شامل بتایا ہے‘ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سلمان اسم اعظم کے حامل اور ان بزرگ ہستیوں میں سے تھے جن کے ساتھ فرشتے ہمکلام ہوتے ہیں نیز وہ ایمان کے دس درجوں میں دسویں درجے پر فائز تھے بلکہ انہیں غیب کی باتوں اور موت آنے کے اوقات کو جاننے میں بھی قدرت تھی۔ جناب سلمان(رض) نے اسی دنیا میں جنت کے میوے تناول کیے‘ جنت ان کی عاشق اور مشتاق تھی۔ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوجن چار انسانوں سے محبت رکھنے کا حکم ملا تھا جناب سلمانصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان چار میں سے ایک مردتھے‘ قرآن پاک کی بہت سی آیات ان کی تعریف و توصیف میں نازل ہوئیں‘ جبریلعليه‌السلام جب بھی حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں آتے تو ان سے عرض کرتے کہ سلمان(رض) کو خدائے رحمن کا سلام پہنچائیں انہیں موت آنے کے اوقات اور سختیوں کی آمد کا علم عطا فرمائیں۔ بعض راتیں ایسی ہوتیں جن میں آپ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ خلوت میں رہا کرتے‘ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امیر المومنین- نے انہیں ایسے اسرار الٰہی کی تعلیم دی تھی جن کو ان کے علاوہ کوئی سنبھال نہ سکتا تھا‘ وہ اس بلند تر درجے پر پہنچ گئے تھے کہ انکے متعلق امام جعفر صادق - نے فرمایا کہ سلمان پاک(رض) نے علم اول و آخر حاصل کر لیا ہے اور وہ ایک ایسا سمندر ہے جو کبھی خشک نہ ہو گا اور یہ کہ وہ ہم اہل بیتعليه‌السلام میں سے ہے یہاں ہم نے حضرت سلمان(رض) کے جو تھوڑے سے فضائل نقل کیے ہیں وہ اہل ایمان کو ان کی زیارت کا شوق دلانے کے لیے کافی ہیں‘ تمام صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص امتیاز ملا ہے کہ امیر المومنین- ان کے غسل و کفن کے لیے معجزانہ طور پر مدینہ منورہ سے مدائن تشریف لے گئے اوراپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں غسل و کفن دیا ان کی نماز جنازہ پڑھائی جب کہ فرشتوں کی ان گنت صفیں آپ کے پیچھے کھڑی تھیں جبکہ اسی شب آپ واپس مدینہ لوٹ آئے ان کی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آلعليه‌السلام محمدعليه‌السلام کے ساتھ محبت و مودت اور ان کے اقوال و افعال کی سچی پیروی کا ثمرہ دیکھیں کہ حضرت سلمان (رض) کو کتنا بلند و بالا مرتبہ حاصل ہو گیا۔

کیفیت زیارت سلمان فارسی(رض)

سید بن طائوسرحمه‌الله نے مصباح الزائر میں حضرت سلمان(رض) کی چار زیارتیں نقل کی ہیں ‘ یہاں ہم ان بزگوار کے لیے ان میں سے پہلی زیارت نقل کر رہے ہیں اور ہم نے ہدیہ میں چوتھی زیارت نقل کی ہے جس کو شیخ نے تہذیب میں نقل کیا ہے پس جب اس مقدس صحابی کی زیارت کرنا چاہے تو ان کی قبر شریف کے قریب قبلہ رخ کھڑے ہو کر یہ زیارت پڑھے:

اَلسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ ﷲ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِﷲ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ

سلام ہو خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمد بن عبداللہ پر جو خاتم الانبیائ ہیں سلام ہو مومنوں کے امیر پر جو

سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَی آلاَءِمَّةِ الْمَعْصُومِینَ الرَّاشِدِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْمَلائِکَةِ

اوصیائ کے سردار ہیں سلام ہو معصوم اماموں پر جو ہدایت دینے والے ہیں سلام ہو خدا کے مقرب

الْمُقَرَّبِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَاحِبَ رَسُولِ ﷲ الْاََمِینِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ أَمِیرِ

فرشتوں پر سلام ہو آپ پر اے خدا کے امین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی و ساتھی آپ پر سلام ہو اے امیر المومنینعليه‌السلام کے

الْمُؤْمِنِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُودَعَ أَسْرَارِ السَّادَةِ الْمَیامِینِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بَقِیَّةَ ﷲ

دوست آپ پر سلام ہوکہ جن کو بابرکت آقائوں نے صاحب اسرار بنایا سلام ہو آپ پر کہ زمانہ ماضی کے نیکور کاروں میں سے

مِنَ الْبَرَرَةِ الْمَاضِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ، أَشْهَدُ أَنَّکَ

خدا کے مخصوص ہیں آپ پر سلام ہو اے ابو عبدﷲعليه‌السلام خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا کی

أَطَعْتَ ﷲ کَما أَمَرَکَ، وَاتَّبَعْتَ الرَّسُولَ کَمَا نَدَبَکَ، وَتَوَلَّیْتَ خَلِیفَتَهُ کَما أَلْزَمَکَ،

اطاعت کی جیسے اس نے حکم فرمایا آپ نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایسی پیروی کی جیسی چاہیے تھی آپ نے خلیفہ رسول کی ولایت قبول کی جو لازم تھی

وَدَعَوْتَ إلَی الاهْتِمامِ بِذُرِّیَّتِهِ کَمَا وَقَفَکَ وَعَلِمْتَ الْحَقَّ یَقِیناً وَاعْتَمَدْتَهُ کَمَا أَمَرَکَ

آپ نے اولاد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقام بیان کیا جو انہوں نے آپکو بتایا تھا آپ نے حق کویقین کیساتھ سمجھا اور اس پر بھروسہ کیا جیسے آپکو حکم ہوا تھا

وأَشْهَدُ أَنَّکَ بابُ وَصِیِّ الْمُصْطَفیٰ وَطَرِیقُ حُجَّةِ ﷲ الْمُرْتَضیٰ وَأَمِینُ ﷲ فِیمَا

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وصی مصطفی سے تعلق کا ذریعہ ہیں خدا کی پسندیدہ حجت تک پہنچنے کا راستہ ہیں اور آپ خدا کے امانتدار ہیں

اسْتُوْدِعْتَ مِنْ عُلُومِ الْاََصْفِیَائِ أَشْهَدُ أَنَّکَ مِنْ أَهْلِ بَیْتِ النَّبِیِّ النُّجَبَائِ الْمُخْتَارِینَ

پاکبازوں کے علوم میں جو آپ کے سپرد ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اہل بیت میں سے ہیں جو نسل واصل میں بلند اور وصی رسول کی

لِنُصْرَةِ الْوَصِیِّ ، أَشْهَدُ أَنَّکَ صاحِبُ الْعاشِرَةِ ، وَالْبَراهِینِ وَالدَّلایِلِ الْقاهِرَةِ،

نصرت کیلئے چنے گئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ایمان کے دس درجوں کے مالک اور اسکی قوی دلیلوں اور ثبوتوں کے حامل ہیں

وَأَقَمْتَ الصَّلاةَ ، وَآتَیْتَ الزَّکَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَدَّیْتَ

آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا آپ نے امانت

الْاََمانَةَ، وَنَصَحْتَ لِلّٰهِ وَلِرَسُولِهِ، وَصَبَرْتَ عَلَی الْاََذیٰ فِی جَنْبِهِ حَتَّی أَتَاکَ

ادا کی آپ نے خدا اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے خیر اندیشی کی اور انکی خاطر تکلیفوں پر صبرکرتے رہے یہاں تک کہ آپ کی

الْیَقِینُ لَعَنَ ﷲ مَنْ جَحَدَکَ حَقَّکَ وَحَطَّ مِنْ قَدْرِکَ لَعَنَ ﷲ مَنْ آذاکَ

وفات ہو گئی خدا کی لعنت اس پر جس نے آپکے حق کا انکار کیا اور آپکی شان کم تصور کی خدا لعنت کرے اس پر جس نے آپکے دوستوں

فِی مَوالِیکَ لَعَنَ ﷲ مَنْ أَعْنَتَکَ فِی أَهْلِ بَیْتِکَ، لَعَنَ ﷲ مَنْ لامَکَ فِی

کے بارے میں آپ کو ایذا دی خدا لعنت کرے اس پرجس نے آپ کے خاندان کے متعلق آپ کو رنجیدہ کیا خدا لعنت کرے اس پر

سَادَاتِکَ، لَعَنَ ﷲ عَدُوَّ آلِ مُحَمَّدٍ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنَ

جس نے آپکے سرداروں کے بارے میں آپکو طعنہ دیا خدالعنت کرے آلعليه‌السلام محمد کے دشمن پر جو جنوں اور انسانوں میں سے ہیں اور

الْاََوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ وَضاعَفَ عَلَیْهِمُ الْعَذابَ الْاََلِیمَ صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ،

اولین و آخرین میں سے ہیں اور دگنا کرے ان پر دردناک عذاب کو آپ پر خدا رحمت کرے اے ابو عبداللہ آپ پر

صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا صاحِبَ رَسُولِ ﷲ وَعَلَیْکَ یَا مَوْلی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ،

خدا رحمت کرے اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھی ان پر خدا رحمت کرے اور انکی آلعليه‌السلام پر خدا رحمت کرے اے امیر المومنینعليه‌السلام کے دوست

وَصَلَّی ﷲ عَلَی رُوحِکَ الطَّیِّبَةِ، وَجَسَدِکَ الطَّاهِرِ، وَأَلْحَقَنا بِمَنِّهِ

اور آپکی شفاف روح پر خدا رحمت کرے اور آپکے پاکیزہ بدن پر خدا رحمت کرے اور اپنے احسان و کرم سے ہمیں آپ سے ملا دے

وَرَأْفَتِهِ إذا تَوَفَّانا بِکَ وَبِمَحَلِّ السَّادَةِ الْمَیامِینِ وَجَمَعَنا مَعَهُمْ بِجِوارِهِمْ فِی جَنَّاتِ

دے جب ہم مریں اور ہمیں برکت والے آقائوں کے مکان میں پہنچائے ہمیں ان کے ساتھ ان کے قریب نعمتوں والی جنت میں

النَّعِیمِ صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ، وَصَلَّی ﷲ عَلَی إخْوانِکَ الشِّیعَةِ الْبَرَرَةِ مِنَ

ملا دے آپ پر خدا رحمت کرے اے ابو عبداللہ اور آپ کے نیک اطوار شیعہ بھائیوں پر خدا رحمت کرے جو پہلے والے بابرکت

السَّلَفِ الْمَیامِینِ، وَأَدْخَلَ الرَّوْحَ وَالرِّضْوانَ عَلَی الْخَلَفِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، وَأَلْحَقَنا

لوگوں میں سے ہیں اور خدا مسرت و خوشنودی نصیب کرے بعد میں آنے والے مومنوں کو اور ہمیں

وَ إیَّاهُمْ بِمَنْ تَوَلاَّهُ مِنَ الْعِتْرَةِ الطَّاهِرِینَ وَعَلَیْکَ وَعَلَیْهِمُ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

اور انہیں ان تک پہنچائے جو پاکیزہ عزت میں اسکے پیارے ہیں پس آپ پر اور ان پر سلام ہو خدا کی رحمت اور اسکی برکات ہوں۔

اس کے بعد سات مرتبہ سورہ قدر پڑھے اور جس قدر چاہے مستحب نمازیں بجا لائے:

مؤلف کہتے ہیں: جب حضرت سلمان(رض) کے مزار سے واپس جانا چاہے تو قبر مبارک کے قریب جائے اور وداع کرتے ہوئے وہ دعائے وداع پڑھے جسے سید نے زیارت چہارم کے آخر میں لکھا ہے وہ یہ ہے :

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبا عَبْدِﷲ، أَنْتَ بابُ ﷲ الْمُؤْتیٰ مِنْهُ وَالْمَأْخُوذُ عَنْهُ، أَشْهَدُ أَنَّکَ

آپ پر سلام ہو اے ابو عبداللہ آپ وہ دروازہ ہیں جس سے خدا دیتا ہے اور وہاں سے لیا جاتاہے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حق

قُلْتَ حَقّاً، وَنَطَقْتَ صِدْقاً، وَدَعَوْتَ إلی مَوْلایَ وَمَوْلاکَ عَلانِیَةً وَسِرّاً، أَتَیْتُکَ زائِراً

بیان کیا آپ نے ہمیشہ سچ بولا اور میرے اور اپنے مولا کیطرف بلاتے رہے ظاہرا و پوشیدہ طور پر میں آیا ہوں آپکی زیارت کرنے

وَحَاجَاتِی لَکَ مُسْتَوْدِعاً، وَهَاأَنَاذَا مُوَدِّعُکَ، أَسْتَوْدِعُکَ دِینِی وَأَمانَتِی وَخَواتِیمَ

اور اپنی حاجات آپ کے سپرد کرنے کیلئے اب میں آپ سے وداع ہوتا ہوں آپ کے سپرد کیا میں نے اپنا دین اپنی امانت اپنے

عَمَلِی وَجَوَامِعَ أَمَلِی إلی مُنْتَهیٰ أَجَلِی، وَاَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُﷲ وَبَرَکاتُهُ، وَصَلَّی

عمل کا انجام اور اپنی سب آرزوئیں یہاں تک کہ مجھے موت آجائے آپ پر سلام ہوخدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الْاََخْیَارِ

اور ان کی نیک آلعليه‌السلام پر خدا رحمت فرمائے ۔

اس کے بعد خدا کے حضور بہت دعا کرے اور پھر وہاں سے لوٹ آئے:

امیر ـ کا ایوان کسریٰ جان

مؤلف کہتے ہیں: یاد رہے کہ جب زائر مدائن آئے اور حضرت سلمان فارسی(رض) کی زیارت کر چکے تو وہاں اسے دو اور کام بھی کرنا چاہیں اور وہ یہ ہیں ایوان کسریٰ میں جانا اور حضرت حذیفہ یمانی کی زیارت کرنا۔ پس ہر زائر کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایوان کسریٰ میں جائے اور وہاں دو رکعت یا اس سے زیادہ نماز ادا کرے کیونکہ اس جگہ امیرالمؤمنین- نے نماز پڑھی تھی۔

عمار ساباطی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین- مدائن تشریف لائے اور ایوان کسریٰ میں گئے اور دلف بن بحیر آپ کے ہمراہ تھے‘ یہاں آپ نے نماز ادا کی اور دلف بن بحیر سے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو اور آپ بھی چل پڑے۔ جب کہ اہلِ ساباط میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کسریٰ کے محل میں داخل ہوئے اور دلف بن بحیر سے فرماتے جا رہے تھے کہ یہاں کسریٰ کی فلاں چیز اور وہاں فلاں چیز ہوتی تھی‘ دلف کہتے تھے قسم بخدا کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں وہ درست اور سچ ہے۔ آپ اس گروہ کے ساتھ کسریٰ کے محل میں چلنے پھرنے کے دوران اس کے بارے میں حقائق بیان کرتے جاتے تھے‘ دلف کہتے تھے کہ اے میرے مولا! آپ تو اس محل کی ہر خاص بات کو جانتے ہیں گویا کہ آپ نے اس کی ہر چیز کو اپنے ہاتھ سے رکھا ہے۔

روایت ہے کہ اس وقت آپ مدائن پر نگاہ ڈالتے ہوئے کسریٰ کے برباد شدہ محل اور اس کے آثار کو ملاحظہ فرما رہے تھے ایسے میں آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے عبرت کے لیے یہ شعر پڑھا:

جَرَتِ الرِّیاحُ عَلَیٰ رُسُومِ دِیارِهِمْ

فَکَأَنَّهُمْ کانُوا عَلیٰ مِیعادِ

ان کے ویران محلوں پر ہوائیں خاک اڑاتی ہیں

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا وقت مقرر تھا جو گزر گیا۔

حضرت نے اس شخص سے فرمایا کہ یہاں تم یہ آیات کیوں نہیں پڑھتے:

کَمْ تَرَکُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ وَنَعْمَةٍ کَانُوا فِیها فَاکِهِینَ کَذَلِکَ

وہ کتنے ہی باغات چھوڑ گئے چشمے کھیتیاں اور اونچے مرتبے اور وہ نعمتیں جن میں خوش تھے اسی طرح ہم

وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِینَ فَمَا بَکَتْ عَلَیْهِمُ السَّمائُ وَالْاََرْضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِین ۔اسکے بعد

نے وہ چیزیں بعد والوں کو دے دیں پس ان پر آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ان کو مہلت ملی

آپ نے فرمایا:إنَّ هَؤُلائِ کانُوا وَارِثِینَ فَأَصْبَحُوا مَوْرُوثِینَ، لَمْ یَشْکُرُوا النِّعْمَةَ فَسُلِبُوا

بے شک یہ وارث ہوئے پھروراثت چھوڑ گئے انہوں نے نعمتوں پر شکر نہ کیاان کی دنیا چھن گئی،

دُنْیاهُمْ بِالْمَعْصِیَةِ، إیَّاکُمْ وَکُفْرَ النِّعَمِ لاَ تَحُلُّ بِکُمُ النِّقَمُ

نافرمانی کی وجہ سے اس لیے کہ تم نعمتوں پر ناشکری نہ کرو اور تم پر سختی نہ آئے۔

اس واقعہ کوحکیم خاقانی نے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

ہان ای دل عبرت بین ازدیدہ نظر کن ہان

ایوان مدائن را آئینہ عبرت دان

پرویز کہ بنہادی برخوان ترہ زرین

زرین ترہ کو برخوان؟ روکم تر کوبر خوان

اے عبرت پکڑنے والے دل! مدائن کے اجڑے محل پر نظر کر اور عبرت کا ذریعہ سمجھ کہ پرویز جو اپنے دستر خوان پر سنہری پارچہ ڈالتا تھا اب اس کا وہ دستر خوان کہاں ہے؟ اس کے حال پر آیہ ’’کَمْ تَرَکُوا‘‘پڑھ کہ وہ مر گیا اور اس کا محل کھنڈر بن چکا ہے۔ دوسری جگہ جہاں زائر کو لازماً جانا چاہیے وہ حضرت حذیفہ یمانی کا مزار ہے کہ جو رسول اللہ کے عالی قدر صحابہ میں سے تھے اور وہ امیر المومنین- کے خاص رفقائ میں سے تھے۔ تمام صحابہ میں جناب حذیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ انہیں منافقوں کے نام معلوم تھے اور آپ ان کو پہنچانتے تھے اس لیے جب ان میں سے کوئی ایک مرتا تھا تو آپ اس کے جنازے پر نہیں جاتے تھے اور آپ کی دیکھا دیکھی خلیفہ ثانی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوتے تھے۔ خلیفہ دوم نے حضرت حذیفہ کو مدائن کا والی مقرر کیا بعد میں انہیں معزول کر کے ان کی جگہ حضرت سلمان فارسی کو والی بنایا اور جب ان کی وفات ہو گئی تو دوبارہ جناب حذیفہ ہی کو والی مدائن مقرر کر دیا۔ امیر المومنین- کے ظاہری خلافت پر متمکن ہونے تک آپ اس منصب پر فائز رہے‘ حضرت نے اہل مدائن کو اپنی خلافت سے آگاہ کیا اور حضرت حذیفہ کو اس عہدے پر بحال رکھا‘ جب آپ جنگ جمل کیلئے مدینہ سے روانہ ہوئے تو آپ کے لشکر کی مدائن آمد سے قبل حذیفہ کی وفات ہو گئی اور آپ کواس شہر میں دفن کر دیا گیا۔ ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ جب حضرت حذیفہ کا وقت آخر آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس بلایا اور اسے ان اچھی باتوں پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی اور کہا: اے فرزند! ہر اس چیز سے اپنی امید قطع کر لے جو دوسروں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ اسی میں توانگری و بے نیازی ہے‘ اپنی حاجات کیلئے لوگوں کے پاس نہ جا کہ یہ فقر و محتاجی ہے‘ ہر دن اس طرح بسر کر کہ تیرا آج کا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو۔ جب نماز پڑھے تو یہ تصور کر کہ یہ تیری آخری نماز ہے اور کوئی ایسا کام نہ کر جس پر تجھے معافی مانگنا پڑے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حضرت سلمان کے حرم کے قریب مدائن کی جامعہ مسجد ہے جو امام حسن عسکری - کی طرف منسوب ہے کہ یہ آپ نے تعمیر کروائی اور اس میں نماز ادا کی تھی پس زائر اس مسجد میں دو رکعت نماز تحیت مسجد بجا لانے کے اجر و ثواب سے محروم نہ رہنے پائے۔