مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 185178
ڈاؤنلوڈ: 11062

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185178 / ڈاؤنلوڈ: 11062
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

نویں فصل

زیارت امام علی رضا -

امام الانس والجنۃ المدفون بالارض الغربۃ بضعہ سید الوریٰ مولانا ابوالحسن علی ابن موسٰی ا لرضا کی زیارت کے فضائل احصائ وشمار سے زیادہ ہیں یہاں ہم آپ کی زیارت کے فضائل میں چند حدیثیں نقل کر رہے ہیں: ان میں اکثر حدیثیںتحفت الزائر سے منقول ہیں ۔

( ۱ )حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے کہ فرمایا تھوڑی مدت کے بعد میرے جسم کا ایک ٹکڑا سر زمین خراسان میں دفن کیا جائے گا تو جو مومن ان کی زیارت کرنے جائے گا خدائے تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا اس کے بدن کے لیے آتش جہنم کو حرام کر دے گا۔ ایک اور حدیث معتبر میں کہا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرا ایک جگر گوشہ خراسان میں دفن کیا جائے گا پس جو شخص غمزدہ حالت میں اس کی زیارت کرے گا‘ خدا تعالیٰ اس کے رنج و غم دور کر دے گا اور جو گناہگار اس کی زیارت کرنے جائے گا حق تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔

( ۲ )حدیث دیگر میں امام موسیٰ کاظم - سے روایت ہوئی ہے کہ فرمایا جو شخص میرے بیٹے علی رضاعليه‌السلام کی زیارت کرے گا حق تعالیٰ اس کو ستر حج مقبول کا ثواب عطا کرے گا تو راوی نے اس ثواب کو کچھ زیادہ تصور کیا اور کہا کہ کیا ان کے زائر کے لئے ستر حج مقبولہ کا ثواب ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ستر ہزار حج! اس نے کہا ستر ہزار قبول شدہ حج؟ آپ نے فرمایا ہاں ستر ہزار حج جبکہ بہت سے لوگوں کے حج تو قبول بھی نہیں ہوتے۔ نیز جو شخص حضرت کی زیارت کرے یا ایک رات ان کے قریب بسر کرے تو وہ ایسا ہے گویا اس نے عرش معلی پر انوار الٰہی کا مشاہدہ کیا‘ اس نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے عرش پر نور خدا کی زیارت کی ہے آپ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے اور جب قیامت ہو گی تو چار انسان پہلے زمانے کے اور چار انسان موجودہ زمانے کے عرش معلیٰ پر موجود ہوں گے‘ سابقہ زمانے کے چار انسان حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہو نگے اور موجودہ زمانے کے چار انسان حضرت محمد مصطفی ،حضرت علی مرتضی، حضرت امام حسن اور امام حسین ہونگے۔ عرش عظیم پر ہمارے ساتھ وہ لوگ بیٹھیں گے جنہوں نے ائمہ طاہرین کی قبروں کی زیارت کی ہو گی لیکن ان سب میں سے میرے فرزند علی رضا - کے زائروں کا رتبہ بلند ہو گا اور انہیں اجر و انعام بھی سب سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔

( ۳ )امام علی رضا - سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: خراسان میں ایک قبہ ہے کہ جس پر ایک زمانے میں فرشتوں کی آمدورفت ہو گی اور صور اسرافیل کے پھونکے جانے تک ہمیشہ ملائکہ کی ایک فوج زمین پر اترتی اور ایک فوج آسمان پر چڑھتی رہے گی‘ آپ سے پوچھا گیا کہ اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ کونسا قبہ ہو گا؟ فرمایا کہ وہ قبہ زمین طوس میں ہو گا اور خدا کی قسم! وہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہو گا پس جو شخص وہاں میری زیارت کرے گا تو وہ ایسا ہو گا گویا اس نے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی

زیارت کی ہو‘ خدائے تعالیٰ اس زیارت کے بدلے میں اس کیلئے ایک ہزار حج اور ایک ہزار قبول شدہ عمرہ کا ثواب لکھے گا نیز میں اور میرے آبائ طاہرین قیامت میں اسکی شفاعت کریں گے۔

( ۴ )چند ایک معتبر اسناد کے ساتھ ابن ابی نصر سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے وہ خط پڑھا جو امام علی رضا - نے اپنے شیعوں کے لیے لکھا تھا‘ اس میں تحریر تھا یہ بات میرے شیعوں کو بتا دو کہ میری زیارت حق تعالیٰ کی نظر میں ایک ہزار حج کے مساوی ہے.

میں نے یہ حدیث امام محمد تقی - کی خدمت میں پیش کی تو فرمایا قسم بخدا کہ جو شخص حضرت کو امام برحق مانتا ہو وہ آپ کی زیارت کرے تو اس کا یہ عمل ایک لاکھ حج کے برابر ہے۔

( ۵ )دو معتبر سندوں سے نقل ہوا ہے کہ امام علی رضا - نے فرمایا:

جو شخص بہت دور ہونے کے باوجود میری قبر کی زیارت کرے گا تو میں قیامت میں تین وقتوں میں اس کے پاس آئوں گا تاکہ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دلائوں۔ پہلا وقت وہ ہے جب نیکوکاروں کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں اور بدکاروں کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے‘ دوسرا وقت وہ ہے جب لوگ پل صراط سے گزر رہے ہونگے اور تیسرا وہ وقت جب اعمال کا وزن کیا جائے گا۔

( ۶ )ایک معتبر حدیث میں ہے کہ آپ -نے فرمایا:

تھوڑے عرصے کے بعد میں زہر کے ساتھ ظلم سے شہید کر دیا جائوں گا اور مجھ کو ہارون الرشید کے پہلومیں دفن کیا جائے گا پس خدائے تعالیٰ میری قبر کو میرے شیعوں اور محبوں کا مرکز بنا دے گا پس جو شخص اس غربت و مسافرت کی جگہ میں میری زیارت کرے گا تو میرے لیے واجب ہوجائے گا کہ میں روز قیامت اس شخص کی زیارت کروں‘ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفی کو نبی و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنایا اور انہیں تمام کائنات میں سے چنا کہ تم شیعوں میں سے جو بھی میری قبر کے قریب آکر دو رکعت نماز پڑھے تو وہ اس بات کا حقدار ہو گا خدا روزِ قیامت اس کے گناہ معاف کر ے قسم اس ذات کی جس نے ہم کو بعد از رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امامت کے لیے چنا ہے اور ہمیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وصی قرار دیا ہے میں قسم سے کہتا ہوں کہ میری زیارت کرنے والے افراد خداوند عالم کے نزدیک ہر گروہ سے زیادہ عزیز و پسندیدہ ہوں گے۔ اور جو بھی مومن میری زیارت کرے اور راستے میں اس کے بدن پر بارش کا ایک ہی قطرہ گرے تو خدائے تعالیٰ اس کے بدن کو جہنم کی آگ پر حرام ٹھہرائے گا۔

( ۷ )معتبر سند کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ محمد بن سلیمان نے امام محمد تقی - سے پوچھا کہ ایک شخص نے حج ادا کیاجو اس پر واجب تھا اس کے بعد وہ مدینہ گیا اور حضرت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا پھر نجف اشرف گیا اور امیر المومنین- کی زیارت کی جب کہ وہ آپ کو حجت خدا و امام برحق اور خداوند عالم کا بنایا ہوا خلیفہ رسول سمجھتا تھا‘ پھر کربلا معلیٰ گیا وہاں امام حسین- کی زیارت سے مشرف ہوا اور بغداد پہنچ کر امام موسیٰ کاظم - کی زیارت بھی کی اور پھر اپنے گھر لوٹ آیا۔

اب خدائے تعالیٰ نے اسے بہت مال عطا کیاہوا ہے اور وہ حج کو جا سکتا ہے‘ کیا اس شخص کیلئے بہتر ہے کہ وہ حج ادا کرے حالانکہ وہ واجب حج کا فریضہ ادا کر چکا ہے یا اس کو آپ کے والد گرامی کی زیارت کیلئے خراسان جانا چاہیے؟۔

آپ نے فرمایا کہ اسے میرے پدر بزرگوار کے سلام کے لیے خراسان جانا چاہیے کہ یہ عمل افضل ہے لیکن وہ ان ایام میں وہاں نہ جائے کہ میرے اور تمہارے لیے خلیفہ وقت سے ملامت کا خوف ہے لہذا وہ وہاں رجب کے مہینے میں جائے۔

( ۸ ) شیخ صدوقرحمه‌الله نے من لا یحضرہ الفقیہ میں امام محمد تقی - سے روایت کی ہے کہ طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے جو بہشت سے لایا گیا ہے تو جو بھی زمین کے اس خطے میں داخل ہو وہ قیامت میں دوزخ کی آگ سے آزاد ہو گا۔

( ۹ )امام محمد تقی - ہی سے روایت ہے کہ فرمایا میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے جنت کا ضامن ہوں اس شخص کیلئے جو طوس جا کر میرے والد گرامی کی زیارت کرے اور آپ کو امام برحق بھی تسلیم کرتا ہو۔

(۱۰)شیخ صدوقرحمه‌الله نے عیون الاخبار میں روایت کی ہے کہ ایک نیک و صالح شخص نے خواب میں حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو دیکھا تو عرض کیا یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! میں آپ کے فرزندان میں سے کس کی زیارت کروں؟۔

آپ نے فرمایا کہ میرے کچھ فرزند زہر سے شہادت پا کر اور بعض تلوار سے شہادت پا کر میرے پاس آئے ہیں‘ میں نے عرض کی کہ یہ مختلف مقامات پر دفن ہیں تو ان میں سے کس کی زیارت کروں؟۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ان میں سے اس کی زیارت کرو جو تمہارے گھر سے زیادہ دور نہیں اور عالم مسافرت میں دفن شدہ ہے‘ میں نے عرض کیا یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! آپ کی مراد امام علی رضا - ہیں؟ تو فرمایا کہ صرف امام علی رضا نہ کہو ان کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ کہو صلی اللہ علیہ کہو صلی اللہ علیہ کہو یعنی آپ نے یہ جملہ تین بار دوہرایا۔

مؤلف کہتے ہیں: وسائل اور مستدرک میں ایک باب ہے جس کا نام ہے استحباب تبرک بمشھد امام رضا و مشاہد ائمہ طاہرین۔ اس میں کہا گیا ہے مستحب ہے کہ امام علی رضا - کی زیارت کو امام حسین- اور دیگر ائمہ طاہرین کی زیارت نیز حج مندوب و عمرہ مندوبہ پر ترجیح دے اور اسے پہلے انجام دے اس بارے میں منقول احادیث کو ہم نے طوالت کے خوف سے یہاں ذکر نہیں کیا اور صرف مذکورہ بالا دس احادیث پر ہی اکتفا کیا ہے۔

کیفیتِ زیارتِ امام علی رضا

واضح ہو کہ امام علی رضا - کیلئے بہت سی زیارتیں ہیں‘ آپکی مشہور زیارت وہی ہے جو معتبر کتب میں ہے اور اسکو شیخ محمد بن حسن بن ولید کیطرف نسبت دی گئی ہے جو شیخ صدوقرحمه‌الله کے اساتذہ میں سے تھے، ابن قولویہرحمه‌الله کی کتاب المزار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زیارت ائمہعليه‌السلام سے بھی روایت ہوئی ہے اور کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کے مطابق اسکی کیفیت اسطرح ہے کہ جب امام علی رضا - کی زیارت کا ارادہ ہو تو گھر سے سفر زیارت پر جانے سے قبل غسل کرے اور غسل کرتے وقت یہ پڑھے:

اَللّٰهُمَّ طَهِّرْنِی وَطَهِّرْ لِی قَلْبِی وَاشْرَحْ لِی صَدْرِی، وَأَجْرِ عَلَی لِسانِی مِدْحَتَکَ وَالثَّنائَ

اے معبود! مجھے پاک کر دے میرا دل پاک کر دے اور میرے سینے کو کھول دے میری زبان پر اپنی مدح و ستائش جاری کر دے

عَلَیْکَ، فَ إنَّهُ لاَ قُوَّةَ إلاَّ بِکَ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لِی طَهُوراً وَشِفائً ۔ جب گھر سے سفر زیارت پر

کیونکہ نہیں ہے قوت مگر تجھی سے اے معبود اس غسل کومیرے لیے پاکیزگی وشفا کا ذریعہ بنا

روانہ ہو تو یہ کہے:بِسْمِ ﷲ، وَبِالله وَ إلَی ﷲ وَ إلَی ابْنِ رَسُولِ ﷲ حَسْبِیَ ﷲ

خدا کے نام سے خدا کی ذات کے واسطے سے چلا ہوں خداکی طرف اور رسول خدا کے فرزند کی طرف میرے لیے خدا کافی ہے

تَوَکَّلْتُ عَلَی ﷲ اَللّٰهُمَّ إلَیْکَ تَوَجَّهْتُ وَ إلَیْکَ قَصَدْتُ وَمَا عِنْدَکَ أَرَدْتُ

بھروسہ کیا ہے میں نے خدا پر اے معبود میں نے تیری طرف رخ کیا اور تیری طرف چلا ہوں اور جو کچھ تیرے ہاں ہے اسکی خواہش رکھتا ہوں۔

اپنے گھر کے دروازے سے باہر آکر یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ إلَیْکَ وَجَّهْتُ وَجْهِی وَعَلَیْکَ خَلَّفْتُ أَهْلِی وَمالِی وَمَا خَوَّلْتَنِی وَبِکَ وَثِقْتُ

اے معبود میں نے اپنا رخ تیری طرف کیا اور میں نے اپنا مال اپنا کنبہ اور جو کچھ تو نے دیا ہے سب کچھ تیرے سپرد کیا اور تجھ پر بھروسہ

فَلاَ تُخَیِّبْنِی یَا مَنْ لاَ یُخَیِّبُ مَنْ أَرَادَهُ وَلاَ یُضَیِّعُ مَنْ حَفِظَهُ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

کیا ہے‘ پس تہی دست نہ کر اے وہ جو تہی دست نہیں کرتا جو اسکی طرف آئے وہ گم نہیں ہوتا جسکی وہ حفاظت کرے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل

وَآلِ مَحُمَّدٍ وَاحْفَظْنِی بِحِفْظِکَ فَ إنَّهُ لاَ یَضِیعُ مَنْ حَفِظْتَ

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور مجھ کو اپنی نگرانی میں رکھ کیونکہ جو تیری حفاظت میں ہو وہ ضائع نہیں ہوتا۔

جب خیریت کے ساتھ مشہد مقدس پہنچ جائے اور جب وہاں زیارت کرنے کا قصد کرلے تو پہلے غسل کرے اور اس وقت یہ پڑھے:

اَللّٰهُمَّ طَهِّرْنِی وَطَهِّرْ لِی قَلْبِی وَاشْرَحْ لِی صَدْرِی وَأَجْرِ عَلَی لِسانِی مِدْحَتَکَ

اے معبود مجھے پاک کر دے میرے دل کو پاک کر دے اور میرے سینے کو کھول دے میری زبان پر اپنی ستائش

وَمَحَبَّتَکَ وَالثَّنائَ عَلَیْکَ فَ إنَّهُ لاَ قُوَّةَ إلاَّ بِکَ وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَِوامَ دِینِی التَّسْلِیمُ

محبت اور تعریف جاری فرما دے کہ یقینا نہیں کوئی قوت مگر جو تجھ سے ملتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ میرے دین کی اصل

لاََِمْرِکَ وَالاتِّباعُ لِسُنَّةِ نَبِیِّکَ وَالشَّهَادَةُ عَلَی جَمِیعِ خَلْقِکَ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لِی شِفائً

تیرے حکم کا ماننا تیری نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کی پیروی کرنا اور تیری مخلوقات پر گواہ بننا ہے اے معبود اس غسل کو میرے لیے شفا و

وَنُوراً إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ

روشنی کا ذریعہ بنا کیونکہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اس کے بعد پاک و پاکیزہ لباس پہنے اور ننگے پائوں خدا کو یاد کرتے ہوئے آرام ووقار سے حرم مبارک کیطرف چلے اور یہ پڑھتا جائے:

ﷲ اَکْبَرُ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲ وَ سُبْحَانَ ﷲوَالْحَمْدُ ﷲِ

خدا بزرگتر ہے خدا کے سوائ کوئی معبود نہیں خدا پاک تر ہے اور ہر تعریف خدا کے لیے ہے۔

چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے اور روضہ اقدس میں داخل ہو تو یہ پڑھے:

بِسْمِ ﷲ وَبِالله وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ ﷲ أَشْهَدُ أَنْلاَ إلهَ إلاَّ ﷲ

خدا کے نام سے خدا کی ذات کے واسطے سے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے طریقے پر خدا رحمت کرے ان پر اور انکی آلعليه‌السلام پر میں گواہی دیتا ہوں کہ

وَحْدَهُ لا شَرِیکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عَلِیَّاً وَلِیُّ ﷲ

اللہ کے سوائ کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے کوئی اسکا شریک نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اسکے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ علیعليه‌السلام خدا کے ولی ہیں

پھر ضریح پاک کے قریب جائے پشت بہ قبلہ ہو کر حضرت امام رضا - کیطرف رخ کرے اور کہے:

أَشْهَدُ أَنْ لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوائ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں

وَأَنَّهُ سَیِّدُ الْاََوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ وَأَنَّهُ سَیِّدُ الْاََنْبِیائِ وَالْمُرْسَلِینَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

وہ اولین کے اور آخرین کے سردار ہیں اور وہ سب نبیوںاور رسولوں کے سردار ہیں اے معبود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت کر

عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ وَنَبِیِّکَ وَسَیِّدِ خَلْقِکَ أَجْمَعِینَ صَلاةً لاَ یَقْوَی عَلَی إحْصَائِها

جو تیرے بندے تیرے رسول تیرے نبی اور تیری ساری مخلوق کے سردار ہیں ایسی رحمت جس کا حساب تیرے سوا کوئی

غَیْرُکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طالِبٍ عَبْدِکَ وَأَخِی رَسُولِکَ

نہ لگا سکے اے معبود! حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام بن ابی طالبعليه‌السلام پر رحمت فرما جو تیرے بندے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی ہیں

الَّذِی انْتَجَبْتَهُ بِعِلْمِکَ وَجَعَلْتَهُ هادِیاً لِمَنْ شِئْتَ مِنْ خَلْقِکَ وَالدَّلِیلَ عَلَی مَنْ بَعَثْتَهُ

کہ انہیں خاص کیا تو نے علم دے کر اور انکو رہبر بنایا اس کیلئے جسے تو نے اپنی مخلوق میں سے چاہا اور رہنما بنایا اسکی طرف جسکو تو نے اپنا

بِرِسالاتِکَ وَدَیَّانَ الدِّینِ بِعَدْلِکَ وَفَصْلِ قَضائِکَ بَیْنَ خَلْقِکَ وَالْمُهَیْمِنَ عَلَی

پیغام دے کر بھیجا اور انکو مقرر کیا کہ تیرے عدل کے مطابق جزائے عمل دیں اور تیری مخلوق میں تیری مرضی سے فیصلے دیں اور وہ ان

ذلِکَ کُلِّهِ وَاَلسَّلَامُ عَلَیْهِ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُاَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی فاطِمَةَ بِنْتِ نَبِیِّکَ

تمام کاموں کے ذمہ دار ہیں سلام ہو ان پراور خدا کی رحمت ہو اوراسکی برکات ہو اے معبود فاطمہعليه‌السلام پر رحمت نازل کر جو تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر

وَزَوْجَةِ وَلِیِّکَ وَأُمِّ السِّبْطَیْنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ سَیِّدَیْ شَبابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ الطُّهْرَةِ

اور تیرے ولی کی زوجہ ہیں نیز وہ نبی کے دو نواسوں حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام کی ماں ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں وہ بی بی پاک

الطَّاهِرَةِ الْمُطَهَّرَةِ التَّقِیَّةِ النَّقِیَّةِ الرَّضِیَّةِ الزَّکِیَّةِ سَیِّدَةِ نِسائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَجْمَعِینَ صَلاةً لاَ

پاکیزہ پاک شدہ پرہیزگار باصفا پسندیدہ بے عیب نیز جنت میں تمام عورتوںکی سردار ہیںاتنی رحمت فرما جسے تیرے سوائ

یَقْوٰی عَلَی إحْصائِها غَیْرُکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ سِبْطَیْ نَبِیِّکَ وَسَیِّدَیْ

کوئی شمار نہ کر سکتا ہو اے معبود! دونوں بھائیوں حسنعليه‌السلام اور حسینعليه‌السلام پر رحمت فرماجو تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو نواسے اور جوانان جن

شَبابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْقائِمَیْنِ فِی خَلْقِکَ وَالدَّلِیلَیْنِ عَلَی مَنْ بَعَثْتَ بِرِسالاتِکَ

جنت کے سید و سردار ہیں تیری مخلوق میں قائم و نگران ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں اس ذات کی طرف جسے تو نے پیغمبر بنا کے بھیجا وہ

وَدَیَّانَیِ الدِّینِ بِعَدْلِکَ وَفَصْلَیْ قَضائِکَ بَیْنَ خَلْقِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِیِّ بْنِ

تیرے عدل کے تحت اعمال کی جزا دینے والے اور تیری مخلوق میں تیرے احکام کے مطابق فیصلے دینے والے ہیں اے معبود علیعليه‌السلام بن الحسینعليه‌السلام پر

الْحُسَیْنِ عَبْدِکَ الْقائِمِ فِی خَلْقِکَ وَالدَّلِیلِ عَلَی مَنْ بَعَثْتَ بِرِسَالاتِکَ

رحمت فرما جو تیرے بندے ہیں تیری مخلوق کی نگہداری اور رہنمائی کرتے ہیں اس ذات کی طرف جسے تو نے پیغمبر بنا کے بھیجا

وَدَیَّانِ الدِّینِ بِعَدْلِکَ وَفَصْلِ قَضائِکَ بَیْنَ خَلْقِکَ سَیِّدِ الْعَابِدِینَ

وہ تیرے عدل کے تحت اعمال کی جزا دینے والے اور تیری مخلوق میں تیری مرضی سے فیصلے دینے والے عبادت گزاروں کے سردار ہیں

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَبْدِکَ وَخَلِیفَتِکَ فِی أَرْضِکَ باقِرِ عِلْمِ النَّبِیِّینَ

اے معبود! محمد بن علیعليه‌السلام پر رحمت فرما جو تیرے بندے اور تیری زمین میں تیرے نائب ہیں نبیوں کے علوم کی اشاعت کرنے والے

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ عَبْدِکَ وَوَلِیِّ دِینِکَ وَحُجَّتِکَ عَلَی

اے معبود جعفرعليه‌السلام صادق بن محمد پر رحمت فرما جو تیرے بندے ہیں تیرے دین کے مددگار اور تیری مخلوق پر

خَلْقِکَ أَجْمَعِینَ الصَّادِقِ الْبارِّ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ عَبْدِکَ الصَّالِحِ

تیری طرف سے حجت ہیں وہ صادق اور نیک ہیں اے معبود موسیٰعليه‌السلام بن جعفرعليه‌السلام پر رحمت فرما جو تیرے نیک بندے اور تیری مخلوق میں

وَلِسَانِکَ فِی خَلْقِکَ النَّاطِقِ بِحُکْمِکَ وَالْحُجَّةِ عَلَی بَرِیَّتِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِیِّ

تیرے حکم سے بولنے والی زبان ہیںاور تیری مخلوق پر تیری حجت ہیں اے معبود! علیعليه‌السلام بن موسیٰعليه‌السلام پر

بْنِ مُوسَی الرِّضَا الْمُرْتَضیٰ عَبْدِکَ وَوَلِیِّ دِینِکَ الْقائِمِ بِعَدْلِکَ وَالدَّاعِی إلی دِینِکَ

رحمت فرما جو تجھ سے راضی ہیںتیرے پسندیدہ بندے ہیں تیرے دین کے مددگار تیرے عدل پر کاربند اور تیرے دین کی طرف بلانے والے ہیں

وَدِینِ آبائِهِ الصَّادِقِینَ صَلاةً لاَیَقْوٰی عَلَی إحْصائِها غَیْرُکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ

جو ان کے صاحب صدق بزرگوں کا دین ہے اتنی رحمت کر جس کا شمار سوائے تیرے کوئی نہ کر سکتا ہو اے معبودمحمد بن علیعليه‌السلام پر رحمت فرما

عَلِیٍّ عَبْدِکَ وَوَلِیِّکَ الْقائِمِ بِأَمْرِکَ وَالدَّاعِی إلی سَبِیلِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِیِّ بْنِ

جو تیرے بندے اور تیرے ولی ہیں تیرا حکم پہنچانے والے اور تیرے راستے کی طرف بلانے والے اے معبود! علیعليه‌السلام بن محمد پر رحمت

مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَوَلِیِّ دِینِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْعامِلِ بِأَمْرِکَ الْقائِمِ

نازل کر جو تیرے بندہ اور تیرے دین کے ولی ہیں اے معبودحسنعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما جو تیرے حکم پر عمل کرنے والے

فِی خَلْقِکَ وَحُجَّتِکَ الْمُؤَدِّی عَنْ نَبِیِّکَ وَشاهِدِکَ عَلَی خَلْقِکَ الْمَخْصُوصِ

تیری مخلوق میں نگران تیرے نبی کی طرف حجت پیش کرنے والے تیری مخلوق پر تیرے گواہ تیری طرف سے بزرگی

بِکَرامَتِکَ الدَّاعِی إلی طاعَتِکَ وَطاعَةِ رَسُولِکَ صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِینَ اَللّٰهُمَّ

میں منتخب شدہ تیری اطاعت اور تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فرمانبرداری کا حکم دینے والے تیری رحمتیں ہوں ان سب پر اے معبود

صَلِّ عَلَی حُجَّتِکَ وَوَلِیِّکَ الْقائِمِ فِی خَلْقِکَ صَلاةً تَامَّةً نَامِیَةً بَاقِیَةً تُعَجِّلُ بِها فَرَجَهُ

اپنی حجت اور اپنے ولی پر رحمت نازل فرما جو تیری مخلوق میں نگہبان ہیں وہ رحمت جو کامل بڑھنے والی باقی رہنے والی ہے اس سے انہیں کشادگی دے

وَتَنْصُرُهُ بِها وَتَجْعَلُنا مَعَهُ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ اَللّٰهُمَّ إنِّی أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ بِحُبِّهِمْ

اور انکی مدد فرما اور ہمیں انکے ساتھ رکھ دنیا اور آخرت میں اے معبود!میں تیرا قرب چاہتا ہوں انکی محبت کے واسطے سے انکے

وَأُوَالِی وَلِیَّهُمْ وَأُعادِی عَدُوَّهُمْ فَارْزُقْنِی بِهِمْ خَیْرَ الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَاصْرِفْ عَنِّی بِهِمْ شَرَّ

دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں پس عطاکر ان کے صدقے دنیا کی بھلائی اور آخرت کی فلاح اور ان کے واسطے

الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ وَأَهْوالَ یَوْمِ الْقِیامَةِ ۔ پھر حضرت کے سرہانے کی طرف بیٹھ جائے اور کہے:

سے دنیا و آخرت کی تنگی سے مجھے بچائے رکھ اورقیامت میں ہر خوف سے محفوظ فرما۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَ ﷲاَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نُورَ ﷲ فِی

آپ پر سلام ہو اے خدا کے ولی آپ پر سلام ہو اے حجت خدا آپ پر سلام ہو اے وہ جو زمین کی تاریکیوں میں

ظُلُماتِ الْاََرْضِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمُودَ الدِّینِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ ﷲ

نور خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے دین کے ستون آپ پر سلام ہو اے آدمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے برگزیدہ ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراهِیمَ خَلِیلِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے نوحعليه‌السلام کے وارث جو نبی خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے ابراہیمعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إسْماعِیلَ ذَبِیحِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے اسماعیلعليه‌السلام کے وارث جو ذبیح خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے موسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسی رُوحِ ﷲ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ رَسُولِ ﷲ

آپ پر سلام ہو اے عیسیٰعليه‌السلام کے وارث جو خدا کی روح ہیں آپ پر سلام ہو اے محمد کے وارث جو خدا کے رسول ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیٍّ وَلِیِّ ﷲ وَوَصِیِّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

آپ پر سلام ہو اے امیر المومنین علیعليه‌السلام کے وارث جو خدا کے ولی اور رب کائنات کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ فاطِمَةَ الزَّهْرائِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ

آپ پر سلام ہو اے فاطمہ زہراعليه‌السلام کے وارث آپ پر سلام ہو اے وارث حسنعليه‌السلام وحسینعليه‌السلام جو جوانان بہشت کے

سَیِّدَیْ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ زَیْنِ الْعابِدِینَ اَلسَّلَامُ

سید و سردار ہیں سلام ہو آپ پر اے علیعليه‌السلام بن الحسینعليه‌السلام کے وارث جو عبادت گذاروں کی زینت ہیں آپ پر

عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ باقِرِ عِلْمِ الْاََوَّلِینَ وَالْاَخِرِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ

سلام ہو اے محمدعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کے وارث جو ظاہر کرنے والے ہیں اولین و آخرین کے علم کو سلام ہو آپ پر اے

جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ الْبارِّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ

جعفرعليه‌السلام بن محمدعليه‌السلام کے وارث جو صاحب صدق اور نیک ہیں آپ پر سلام ہو اے وارث موسیٰعليه‌السلام بن جعفرعليه‌السلام آپ پر سلام ہو

أَیُّهَا الصِّدِّیقُ الشَّهِیدُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا الْوَصِیُّ الْبَارُّ التَّقِیُّ أَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ أَقَمْتَ

اے صاحب صدق شہید سلام ہو آپ پر اے وصی نیک اور پرہیزگار میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز

الصَّلاةُ وَآتَیْتَ الزَّکَاةَوَأَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَعَبَدْتَ ﷲ مُخْلِصاً حَتّی

قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا آپ خدا کی بندکی کرتے رہے یہاں تکعليه‌السلام

أَتَاکَ الْیَقِینُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا الْحَسَنِ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ ۔ پھر خود کو ضریح پاک سے

کہ شہید ہو گئے آپ پر سلام ہو اے ابوالحسن اور خدا کی رحمت اور اس کی برکات ہوں

لپٹائے اور کہے:اَللّٰهُمَّ إلَیْکَ صَمَدْتُ مِنْ أَرْضِی وَقَطَعْتُ الْبِلادَ رَجائَ رَحْمَتِکَ فَلاَ

اے معبود! میں تیری طرف آیا ہوں اپنا وطن چھوڑ کر اور کئی شہروںسے گزر کر تیری رحمت کی آرزو میں پس مجھے

تُخَیِّبْنِی وَلاَ تَرُدَّنِی بِغَیْرِ قَضائِ حاجَتِی وَارْحَمْ تَقَلُّبِی عَلَی قَبْرِ ابْنِ أَخِی رَسُولِکَ

ناامید نہ کر اور مجھے میری حاجت روائی کے بغیر نہ پلٹا اور رحم فرماجبکہ میں تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی کے فرزند کی قبر پر پڑا تڑپتا ہوں

صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا مَوْلایَ أَتَیْتُکَ زائِراً وافِداً عائِذاً مِمَّا جَنَیْتُ

ان پر اور انکی آل پر تیری رحمتیں ہوں قربان آپ پر میرے ماں باپ اے میرے آقا آپکی زیارت کرنے حاضر ہوا ہوں پناہ لینے

عَلَی نَفْسِی وَاحْتَطَبْتُ عَلَی ظَهْرِی فَکُنْ لِی شافِعاً إلَی ﷲ یَوْمَ

اس جرم سے جو میں نے اپنی جان پر کیا اور اس کا بار میری گردن پر ہے پس بن جائیں میرے لئے شفاعت کرنے والے خدا کے

فَقْرِی وَفاقَتِی فَلَکَ عِنْدَ ﷲ مَقامٌ مَحْمُودٌ وَأَنْتَ عِنْدَهُ وَجِیهٌ

سامنے میری غربت و ناداری کے دن کیونکہ آپ خدا کے ہاں بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور اس کے نزدیک آپ باعزت ہیں۔

پس اپنا دایاں ہاتھ بلند کرے بایاں ہاتھ قبر مبارک پر رکھے اور یہ کہے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ بِحُبِّهِمْ وَبِوِلایَتِهِمْ أَتَوَلَّیٰ آخِرَهُمْ بِمَا تَوَلَّیْتُ بِهِ

اے معبود میں تیرا قرب چاہتا ہوں انکی محبت اور انکی ولایت کے ذریعے محب ہوں ان میں سے آخری کا جیسے محب تھا ان میں سے

أَوَّلَهُمْ وَأَبْرَأُ مِنْ کُلِّ وَلِیجَةٍ دُونَهُمْ اَللّٰهُمَّ الْعَنِ الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَتَکَ وَاتَّهَمُوا

پہلے کا اور بیزار ہوں ہر گروہ سے سوائے انکے اے معبود لعنت بھیج ان لوگوںپر جنہوں نے تیری نعمت کو اسکی جگہ سے ہٹایا تیرے پیغمبر

نَبِیَّکَ وَجَحَدُوا بِآیاتِکَ وَسَخِرُوا بِ إمامِکَ وَحَمَلُوا النَّاسَ عَلَی أَکْتافِ آلِ مُحَمَّدٍ

کو الزام دیا تیری آیتوں کا انکار کیا تیرے مقرر کردہ امام کا مذاق اڑایا اور دوسرے لوگوں کو آلِ محمد پر حاکم و مختار بنایا

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَتَقَرَّبُ إلَیْکَ بِاللَّعْنَةِ عَلَیْهِمْ وَالْبَرائَةِ مِنْهُمْ فِی الدُّنْیا وَالآخِرَةِ یَا رَحْمنُ ۔ پھر

اے معبود میں تیرا قرب چاہتا ہوں ظالموں پر لعنت کر کے اور ان سے بیزاری کرتے ہوئے دنیا اور آخرت میں اے بہت رحم والے

حضرت کی پائنتی کی طرف جائے اور کہے:صَلَّی ﷲ عَلَیْکَ یَا أَبَا الْحَسَنِ صَلَّی ﷲ عَلَی

خدا آپ پر رحمت کرے اے ابوالحسنعليه‌السلام خدا آپ کی روح پر رحمت فرمائے

رُوحِکَ وَبَدَنِکَ صَبَرْتَ وَأَنْتَ الصَّادِقُ المُصَدَّقُ قَتَلَ ﷲ مَنْ قَتَلَکَ بِالْاََیْدِی

اور آپکے بدن پر کہ آپ نے صبر کیا اور آپ ہیں تصدیق کرنے والے تصدیق شدہ خدا قتل کرے اسے جس نے آپکے قتل میں ہاتھ

وَالْاََلْسُنِ

اور زبان سے کام لیا۔

اس کے بعد بہت گریہ و زاری کرے اور امیر المومنین، امام حسن، امام حسین اور دیگر افراد اہلبیت کے قاتلوں پر بے شمار لعنت کرے۔ پھر حضرت کے سرہانے کی طرف ہو کر دو رکعت نماز زیارت بجا لائے کہ پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ یٰسین اور دوسری رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ رحمن پڑھے جب نماز سے فارغ ہو جائے تو خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے لیے اپنے والدین اور تمام مومنوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگے اور اس کے بعد جب تک چاہے وہاں ذکر الٰہی میں مشغول رہے اور مناسب ہو گا کہ اپنی واجب نمازیں بھی حضرت کے روضہ مبارک کے نزدیک ہی بجا لائے۔

مؤلف کہتے ہیں مندرجہ بالا زیارت حضرت کی تمام زیارتوں میں سے بہتر ہے جو آپ کیلئے نقل ہوئی ہیں من لا یحضرہ الفقیہ ‘ عیون الاخبار اور علامہ مجلسی کی کتابوں میںسَخِرُوْا بِاِمَامِکَ کا جملہ آیا ہے ‘ جو زیارت کے آخر میں ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خدایا لعنت کر ان لوگوں پر جنہوں نے اپنی زندگی میں تیرے معین کردہ امام کا مذاق اڑایا۔ لیکن مصباح الزائر میں یہ جملہ اس طرح ہے وَسَخِرُوْا بِاَیَّامِک تاہم یہ بھی معنی کے لحاظ سے درست ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ زیادہ بہتر ہو کیونکہ ایام سے بھی امام ہی مراد ہیں۔ جیسا کہ پہلے باب کی پانچویں فصل میں صقر بن ابی دلف سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہنا چاہئے کہ ائمہعليه‌السلام کے قاتلوں پر جس زبان میں بھی لعنت کی جائے وہ درست ہے۔ ذیل کے جملے جو بعض دعاؤں سے ماخوذ ہیں اگر ائمہعليه‌السلام کے قاتلوں پر لعنت کرنے میں یہ جملے دوہرائے جائیں تو اور بھی بہتر ہے۔

اَللّٰهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ وَقَتَلَةَ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ عَلَیْهِمُ اَلسَّلَامُ وَقَتَلَةَ أَهْلِ بَیْتِ

اے معبود امیر المومنینعليه‌السلام کے قاتلوں پر لعنت بھیج اور حسنعليه‌السلام و حسینعليه‌السلام کے قاتلوں پر لعنت بھیج اور اپنے نبی کے اہلبیتعليه‌السلام

نَبِیِّکَ اَللّٰهُمَّ الْعَنْ أَعْدائَ آلِ مُحَمَّدٍ وَقَتَلَتَهُمْ وَزِدْهُمْ عَذاباً فَوْقَ الْعَذَابِ وَهَوَاناً فَوْقَ

کے قاتلوں پر لعنت بھیج اے معبود آلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمنوں اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیج ان کیلئے عذاب پر عذاب بڑھا خواری پر

هَوَانٍ وَذُلاًّ فَوْقَ ذُلٍّ وَخِزْیاً فَوْقَ خِزْیٍ اَللّٰهُمَّ دُعَّهُمْ إلَی النَّارِ دَعّاً وَأَرْکِسْهُمْ فِی أَلِیمِ

خواری ذلت پر ذلت اور رسوائی پر رسوائی دے اے معبود! ان کو آگ میں سختی سے جھونک دے اور انہیں سخت

عَذابِکَ رَکْساً وَاحْشُرْهمْ وَأَتْباعَهُمْ إلی جَهَنَّمَ زُمَراً

عذاب میں اوندھے منہ ڈال دے اور ان کو اور ان کے پیروکاروں کو جہنم میں اکٹھا کر دے۔

دعابعد اززیارت اما رضا ـ

تحفۃ الزائر میں ہے کہ شیخ مفیدرحمه‌الله کا ارشاد ہے کہ امام علی رضا -کی نماز زیارت ادا کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ یَا ﷲ الدَّائِمُ فِی مُلْکِهِ الْقَائِمُ فِی عِزِّهِ الْمُطاعُ فِی سُلْطانِهِ الْمُتَفَرِّدُ فِی

اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اے اللہ جو ہمیشہ سے حکمران اور ہمیشہ سے عزت دار ہے اپنی حکومت میںاسکا حکم مانا جاتا ہے

کِبْرِیائِهِ الْمُتَوَحِّدُ فِی دَیْمُومِیَّةِ بَقائِهِ الْعادِلُ فِی بَرِیَّتِهِ الْعالِمُ فِی قَضِیَّتِهِ الْکَرِیمُ فِی تَأْخِیرِ

اپنی بڑائی میں یگانہ ہے ہمیشہ باقی رہنے میں یکتا ہے اپنی مخلوق میں عدل کرنے والا اپنے فیصلے میں علم والا اپنی طرف سے سزا دینے

عُقُوبَتِهِ إلهِی حَاجَاتِی مَصْرُوفَةٌ إلَیْکَ وَآمالِی مَوْقُوفَةٌ لَدَیْکَ وَکُلَّما

میں دیر کرنے والا بزرگوار ہے میرے معبود میری حاجات تیری بارگاہ میں پہنچ رہی ہیں میری تمنائیں تیرے سامنے جا ٹھہری ہیں اور

وَفَّقْتَنِی مِنْ خَیْرٍ فَأَنْتَ دَلِیلِی عَلَیْهِ وَطَرِیقِی إلَیْهِ یَا قَدِیراً لاَ تَؤُودُهُ الْمَطالِبُ

جب تو مجھے نیکی کی توفیق دیتا ہے پس تو ہی اس میں میرا رہبر اور تو ہی میرا راستہ ہے اے قدرت والے حاجات تجھے تھکاتے نہیں

یَا مَلِیّاً یَلْجَأُ إلَیْهِ کُلُّ راغِبٍ ما زِلْتُ مَصْحُوباً مِنْکَ بِالنِّعَمِ جارِیاً عَلَی عَادَاتِ الْاِحْسانِ

اے وہ مختار کہ ہر مشتاق جس کی پناہ لیتا ہے تو نے ہمیشہ ہی مجھے اپنی نعمتوں سے ہمکنار کیا تو نے ہمیشہ احسان و کرم کا سلسلہ جاری

وَالْکَرَمِ أَسْأَلُکَ بِالْقُدْرَةِ النَّافِذَةِ فِی جَمِیعِ الْاََشْیائِ وَقَضائِکَ الْمُبْرَمِ الَّذِی تَحْجُبُهُ

رکھا ہے میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری قدرت کے واسطے سے جو سب چیزوں پر حاوی ہے تیرے محکم فیصلے کے واسطے سے جسے

بِأَیْسَرِ الدُّعائِ وَبِالنَّظْرَةِ الَّتِی نَظَرْتَ بِها إلَی الْجِبالِ فَتَشامَخَتْ وَ إلَی الْاََرَضِینَ

تھوڑی سی دعا بھی روک دیتی ہے اور تیری نظر کے واسطے سے جو تو نے پہاڑوں پر ڈالی تو وہ بلند ہو گئے زمینوں پر ڈالی تو وہ بچھتی چلی گئیں

فَتَسَطَّحَتْ وَ إلَی السَّمَواتِ فَارْتَفَعَتْ وَ إلَی الْبِحارِ فَتَفَجَّرَتْ یَا مَنْ جَلَّ عَنْ أَدَوَاتِ

وہ نظر آسمانوں پر کی تو وہ بالاتر ہو گئے سمندروں پر کی تو وہ پھٹ گئے کہ جو انسان کی نظروں میں آنے سے

لَحَظَاتِ الْبَشَرِ وَلَطُفَ عَنْ دَقائِقِ خَطَراتِ الْفِکَرِ لاَ تُحْمَدُ یَا سَیِّدِی إلاَّ بِتَوْفِیقٍ

بلند تر ہے اور ذہن میں آنے والے خیالات کی رسائی سے دور ہے تیری حمد نہیں ہو سکتی اے میرے مالک لیکن تیری دی ہوئی توفیق

مِنْکَ یَقْتَضِی حَمْداً وَلاَ تُشْکَرُ عَلَی أَصْغَرِ مِنَّةٍ إلاَّ اسْتَوْجَبْتَ بِها شُکْراً فَمَتیٰ تُحْصیٰ

سے کہ جس پر تیری حمد ہے اورنہ تیرے چھوٹے سے احسان کا شکر ادا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہ تو نے اس کا شکر واجب کیا پس کیسے شمار ہو

نَعْماؤُکَ یَا إلهِی وَتُجازیٰ آلاؤُکَ یَا مَوْلایَ وَتُکافَأُ صَنَائِعُکَ یَا

تیری نعمتوں کا اے میرے معبود کیسے بدلہ ہو تیری مہربانیوں کااے میرے آقا اور کس طرح حساب ہو تیرے احسانوں کا اے

سَیِّدِی وَمِنْ نِعَمِکَ یَحْمَدُ الْحَامِدُونَ وَمِنْ شُکْرِکَ یَشْکُرُ الشَّاکِرُونَ

میرے سردار یہ بھی تیری نعمت ہے جو حمد کرتے ہیں حمد کرنے والے اور تیری قدر دانی سے شکر کرنیوالے شکر کرتے ہیں اور تو ہی ہے

وَأَنْتَ الْمُعْتَمَدُ لِلذُّنُوبِ فِی عَفْوِکَ وَالنَّاشِرُ عَلَی الْخَاطِئِینَ جَنَاحَ سِتْرِکَ وَأَنْتَ الْکاشِفُ

کہ گناہوں میں اپنے عفو کا سہارا دیتا ہے اور خطا کاروں کو اپنی پردہ پوشی سے ڈھانپ لیتا ہے تو اپنے دست قدرت سے

لِلضُّرِّ بِیَدِکَ فَکَمْ مِنْ سَیِّئَةٍ أَخْفاها حِلْمُکَ حَتَّی دَخِلَتْ وَحَسَنَةٍ

سختیاں دور کر دیتا ہے پس کتنے ہی گناہ ہیں جن کو تیری نرمی چھپائے رکھتی ہے وہ معدوم ہو جاتے ہیںاور کتنی ہی نیکیاں ہیں

ضاعَفَها فَضْلُکَ حَتَّی عَظُمَتْ عَلَیْهَا مُجَازَاتُکَ جَلَلْتَ أَنْ یُخافَ مِنْکَ إلاَّالْعَدْلُ

کہ تیرا احسان انہیں دگنا کردیتا ہے ان پر تو بہت زیادہ جزا دیتا ہے تو بلند ہے اس سے کہ تجھ سے ڈریں سوائے تیرے عدل کے

وَأَنْ یُرْجیٰ مِنْکَ إلاَّ الْاِحْسانُ وَالْفَضْلُ فَامْنُنْ عَلَیَّ بِمَاأَوْجَبَهُ فَضْلُکَ وَلاَ تَخْذُلْنِی

اور یہ کہ آرزو رکھیں تجھ سے سوائے تیرے احسان اور بخشش کے پس احسان فرما مجھ پر جسے تیرا فضل لازم کرے اور مجھے نظر انداز نہ کر

بِما یَحْکُمُ بِهِ عَدْلُکَ سَیِّدِی لَوْ عَلِمَتِ الْاََرْضُ بِذُنُوبِی لَساخَتْ بِی أَوِ الْجِبالُ لَهَدَّتْنِی

اس فیصلے پر جو تیرے عدل نے کیا ہو میرے مالک اگر زمین میرے گناہوں کو جان جاتی تو مجھے نیچے دبا دیتی یا پہاڑ مجھے پیس ڈالتے

أَوِ السَّمَوَاتُ لاَخْتَطَفَتْنِی أَوِ الْبِحارُ لاَََغْرَقَتْنِی سَیِّدِی سَیِّدِی سَیِّدِی مَوْلایَ مَوْلایَ

یا آسمان مجھے کھینچ لیتے یا سمندر مجھ کو ڈبو دیتے میرے مالک میرے مالک میرے مالک میرے آقا میرے آقا

مَوْلایَ قَدْ تَکَرَّرَ وُقُوفِی لِضِیافَتِکَ فَلاَ تَحْرِمْنِی مَا وَعَدْتَ الْمُتَعَرِّضِینَ

میرے آقا یقینا بار دیگر میں تیری مہمانی میں کھڑا ہوں پس مجھے اس چیز سے محروم نہ رکھ جس کا وعدہ مانگنے والوں سے تو نے کیا ہے جو

لِمَسْأَلَتِکَ یَا مَعْرُوفَ الْعارِفِینَ یَا مَعْبُودَ الْعابِدِینَ یَامَشْکُورَ الشَّاکِرِینَ یَا جَلِیسَ الذَّاکِرِینَ

تیرے ہاں آئیں اے عرفائ کے پہچانے ہوئے اے عبادتگزاروں کے معبود اے شاکرین کے مشکور اے ذکر کرنے والوں کے ہم

یَا مَحْمُودَ مَنْ حَمِدَهُ یَا مَوْجُودَ مَنْ طَلَبَهُ یَا مَوْصُوفَ مَنْ وَحَّدَهُ یَا مَحْبُوبَ مَنْ أَحَبَّهُ

دم اے حمد کرنے والوں کے محمود جو حمد کرے اے موجود ہر طلبگار کے لیے اے توصیف شدہ کہ جو یگانہ ہے اے محبوں کے محبوب

یَا غَوْثَ مَنْ أَرَادَهُ یَا مَقْصُودَ مَنْ أَنَابَ إلَیْهِ یَا مَنْ لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ إلاَّ هُوَ یَا مَنْ لاَ یَصْرِفُ

اے پکارنے والوں کے داد رس اے توبہ کرنے والوںکے مرکز نگاہ اے وہ کہ جس کے سوائ کوئی غیب کا جاننے والا نہیں اے وہ کہ

السُّوئَ إلاَّ هُوَ یَا مَنْ لاَ یُدَبِّرُ الْاََمْرَ إلاَّ هُوَ یَا مَنْ لاَ یَغْفِرُ الذَّنْبَ

جس کے سوا کوئی بدی کا معاف کرنے والانہیں اے وہ کہ جس کے سوا کوئی کام بنانے والا نہیں اے وہ کہ جس کے سوا کوئی گناہ کا

إلاَّ هُوَ یَا مَنْ لاَ یَخْلُقُ الْخَلْقَ إلاَّ هُوَ یَا مَنْ لا یُنَزِّلُ الْغَیْثَ إلاَّ هُوَ صَلِّ

معاف کرنے والا نہیں اے وہ کہ جس کے سوا کوئی خلق کرنے والا نہیں اے وہ کہ جس کے سوا کوئی بارش برسانے والا نہیں ہے محمد

عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِی یَا خَیْرَ الْغافِرِینَ رَبِّ إنِّی أَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ حَیائٍ

وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور مجھ کو بخش دے اے سب سے بڑھ کر بخشنے والے اے پروردگار میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوںحیا درانہ بخشش

وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ رَجائٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ إنَابَةٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ رَغْبَةٍ

تجھ سے بخشش چاہتا ہوں امیدوارانہ بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں توبہ کی سی بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں رغبت کی سی بخشش تجھ

وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ رَهْبَةٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ طَاعَةٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ إیمانٍ

سے بخشش چاہتا ہوں خائفانہ بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوںفرمانبردارانہ بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں ایمان والی

وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ إقْرارٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفَارَ إخْلاصٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ تَقْوی

بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اقرار والی بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں خلوص والی بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں پرہیزگارانہ بخشش

وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفَارَ تَوَکُّلٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفَارَ ذِلَّةٍ وَأَسْتَغْفِرُکَ اسْتِغْفارَ عَامِلٍ

تجھ سے بخشش چاہتا ہوں توکل والی بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں عاجزانہ بخشش تجھ سے بخشش چاہتا ہوں بخشش چاہتا ہوں خدمتگار

لَکَ هَارِبٍ مِنْکَ إلَیْکَ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَتُبْ عَلَیَّ وَعَلَی والِدَیَّ بِما

کیطرح جو تجھ سے ڈر کے تیری طرف بھاگا آئے پس محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمد پر رحمت نازل کر اور میری توبہ قبول فرما اور میرے والدین کی توبہ

تُبْتَ وَتَتُوبُ عَلَی جَمِیعِ خَلْقِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ یَا مَنْ یُسَمَّی

قبول فرما جیسے تو قبول کرتا ہے توبہ اور تمام بندوں کی توبہ بھی قبول فرمااے سب سے زیادہ رحم کرنے والے اے وہ جسے کہا جاتا ہے

بِالْغَفوُرِ الرَّحِیمِ یَا مَنْ یُسَمَّی بِالْغَفُورِ الرَّحِیمِ یَا مَنْ یُسَمَّی بِالْغَفُورِ الرَّحِیمِ صَلِّ عَلَی

بخشنے والا مہربان اے وہ جسے کہا جاتا ہے بخشنے والا مہربان اے وہ جسے کہا جاتا ہے بخشنے والا مہربان محمد وآل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْبَلْ تَوْبَتِی وَزَکِّ عَمَلِی وَاشْکُرْ سَعْیِی وَارْحَمْ ضَراعَتِی وَلاَ

رحمت نازل کر اور قبول کر میری توبہ میرے عمل کو پاک بنا میری کوشش کو قبول فرما اور میری زاری پر رحم کر اور میری

تَحْجُبْ صَوْتِی وَلاَ تُخَیِّبْ مَسْأَلَتِی یَا غَوْثَ الْمُسْتَغِیثِینَ وَأَبْلِغْ أَئِمَّتِی سَلامِی وَدُعائِی

آواز نہ روک اور میری حاجت رد نہ فرما اے فریادیوں کی فریاد سننے والے میرے ائمہعليه‌السلام کو میرا سلام اور دعا پہنچا

وَشَفِّعْهُمْ فِی جَمِیعِ مَا سَأَلْتُکَ وَأَوْصِلْ هَدِیَّتِی إلَیْهِمْ کَما یَنْبَغِی لَهُمْ

اور ان کو میرا شفاعت کرنے والا بنا سبھی حاجات میں جو میں نے طلب کیں اور میرے ہدیہ کو ان تک اس طرح پہنچا دے جس طرح

وزِدْهُمْ مِنْ ذلِکَ مَا یَنْبَغِی لَکَ بِأَضْعَافٍ لاَ یُحْصِیها غَیْرُکَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ

انکو پسند ہو اور یہ تحفہ جسطرح تو پسند کرتا ہے اسے اتنے گنا بڑھا کر قبول فرما کہ تیرے سوا اسکا شمار کوئی نہ کر سکے کوئی طاقت وقوت نہیں ہے

إلاَّ بِالله الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ وَصَلَّی ﷲ عَلَی أَطْیَبِ الْمُرْسَلِینَ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَ

مگر خدا کی طرف سے ملتی ہے جو بلند و برتر ہے اور خدا مرسلوں میں سے پاکیزہ تر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کے پاک خاندان پر رحمت کرے ۔

مؤلف کہتے ہیں: علامہ مجلسیرحمه‌الله نے بحار الانوار میں بعض بزرگان سے امام رضا - کیلئے ایک زیارت نقل کی ہے جو زیارتِ جوادیہ کے نام سے معروف ہے اسکے آخر میں تحریر فرمایا ہے کہ یہ زیارت پڑھنے کے بعد نماز زیارت بجا لائے تسبیح پڑھے اور اسے حضرت کیلئے ہدیہ کرے اور اسکے بعد یہ دعا پڑھے:اَللَّهُمَّ اِنَّیْ اَسْئَلُکَ یَا ﷲ الدَآئِمُ یہ وہی دعا ہے جو ہم نے ابھی اوپر نقل کی ہے لہذا جو بھی زائر مشہد مقدس میں زیارتِ جواد یہ پڑھے تو وہ اس دعا کا پڑھنا ہرگز ترک نہ کرے۔

امام علی رضا - کی ایک اور زیارت

ابن قولویہرحمه‌الله نے ائمہ سے روایت کی ہے کہ جب زائر امام رضا - کی قبر شریف کے قریب جائے تو یہ زیارت پڑھے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِیِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا الْمُرْتَضَی الْاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلَی مَنْ

اے معبود علیعليه‌السلام بن موسیٰعليه‌السلام پر رحمت نازل کر جو صاحب رضا پسندیدہ اور امام ہیں پارسا پاکیزہ ہیں اور تیری حجت ہیں اس پر جو

فَوْقَ الْاََرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّریٰ الصِّدِیقِ الشَّهِیدِ صَلاةً کَثِیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً

زمین پر اور زیر زمین ہے وہ صاحب صدق شہید ہیںان پر رحمت کر بہت زیادہ کامل پاکیزہ

مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً کَأَفْضَلِ مَا صَلَّیْتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَوْلِیَائِکَ

پے در پے لگا تار مسلسل جیسے تو نے بہترین رحمت کی ہو اپنے دوستوں میں سے کسی ایک پر۔

زیارتِ دیگر

یہ وہ زیارت ہے جو شیخ مفیدرحمه‌الله نے مقنعہ میں نقل فرمائی اور کہا ہے کہ غسل زیارت کرنے اور پاکیزہ لباس پہننے کے بعد امام علی رضا - کی قبر اطہر کے نزدیک کھڑے ہو کر کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ ﷲ وَابْنَ وَلِیِّهِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّةَﷲ وَابْنَ حُجَّتِهِ اَلسَّلَامُ

آپ پر سلام ہو اے ولی خدا اور ولی خدا کے فرزند آپ پر سلام ہو اے حجت خدا اور حجت خدا کے فرزند آپ پر

عَلَیْکَ یَا إمامَ الْهُدیٰ وَالْعُرْوَةَ الْوُثْقیٰ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ مَضَیْتَ عَلَی مَا

سلام ہو اے ہدایت والے امام اور سلسلہ محکم خدا کی رحمت ہو اور اسکی برکات ہوں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اسی عقیدے پر دنیا سے

مَضیٰ عَلَیْهِ آباؤُکَ الطَّاهِرُونَ صَلَواتُ ﷲ عَلَیْهِمْ لَمْ تُؤْثِرْ عَمیً عَلَی هُدیً وَلَمْ تَمِلْ

گئے جس پر آپ کے پاک بزرگ رخصت ہوئے خدا کی رحمتیں ہوں ان پر آپ نے گمراہی کو نور ہدایت پر ترجیح نہ دی اور حق سے

مِنْ حَقٍّ إلی باطِلٍ وَأَنَّکَ نَصَحْتَ لِلّٰهِ وَلِرَسُولِهِ وَأَدَّیْتَ الْاََمانَةَ فَجَزاکَ ﷲ عَنِ

باطل کی طرف نہ پھرے بلکہ آپ خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خیر اندیش رہے اور امانتداری کا حق ادا کیا پس خدا جزا دے آپ کو

الْاِسْلامِ وَأَهْلِهِ خَیْرَ الْجَزَائِ أَتَیْتُکَ بِأَبِی وَأُمِّی زَائِراً عَارِفاً بِحَقِّکَ مُوالِیاً

اسلام و اہل اسلام کیطرف سے بہترین جزا میں آیا ہوں قربان میرے ماں باپ آپکی زیارت کرنے آپکے حق سے واقف آپکے

لاََِوْلِیائِکَ مُعادِیاً لاََِعْدائِکَ فَاشْفَعْ لِی عِنْدَ رَبِّکَ

دوستوں کا دوست آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں پس اپنے رب کے ہاں میری سفارش کریں۔

پھر خود کو قبر شریف سے لپٹائے اس پر بوسہ دے اپنے دونوں رخسار باری باری اس پر رکھے اور پھر سرہانے کی طرف مڑے اور کہے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَابْنَ رَسُولِ ﷲ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ الْاِمامُ الْهادِی

آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے فرزند خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام رہبر

وَالْوَلِیُّ الْمُرْشِدُ أَبْرَأُ إلَی ﷲ مِنْ أَعْدائِکَ وَأَتَقَرَّبُ إلَی ﷲ بِوِلایَتِکَ صَلَّی ﷲ

سرپرست رہنما ہیں میں خدا کے سامنے آپکے دشمنوں سے بیزاری کرتا ہوں اور آپکی ولایت سے اسکا قرب چاہتا ہوں خدا درود بھیجے

عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُ

آپ پر خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔

اس کے بعد دو رکعت نماز زیارت بجا لائے اور اس کے علاوہ جو نمازیں چاہے وہاں ادا کرے۔ پھر حضرت کی پائنتی کی طرف آ جائے اور جس قدر چاہے دعائیں مانگے۔

مؤلف کہتے ہیں: خاص ایام میں آپ کی زیارت کی بہت زیادہ فضیلت ہے خصوصاً ماہ رجب میں نیز تیسویں اور پچیسویں ذیقعد اور چھٹی رمضان کو جیسا کہ مختلف مہینوں کے اعمال میں ذکر ہو چکا ہے اس کے علاوہ وہ دن جو حضرت کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہیں ان میں بھی آپ کی زیارت بہت فضیلت رکھتی ہے۔ جب حضرت سے وداع کرنا چاہے تو وہ وداع پڑھے۔ جو حضرت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وداع کرتے وقت پڑھا جاتا ہے وہ پڑھے اور وہ یہ ہے:

لاَ جَعَلَهُ ﷲ آخِرَ تَسْلِیمِی عَلَیْکَ اگر چاہے تو یہ وداع بھی پڑھے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ ﷲ

خدا اسے آپ پر میرا آخری سلام قرار نہ دے سلام ہوآپ پر اے ولی خدا

وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکاتُهُاَللّٰهُمَّ لاَ تَجْعَلْهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ زِیارَتِی ابْنَ نَبِیِّکَ وَحُجَّتِکَ عَلَی

رحمت خدا ہو اور اس کی برکات اے معبود اس کو میرے لیے آخری موقع قرار نہ دے جو زیارت کی میں نے تیر ے نبی کے فرزند اور

خَلْقِکَ وَاجْمَعْنِی وَ إیَّاهُ فِی جَنَّتِکَ وَاحْشُرْنِی مَعَهُ وَفِی حِزْبِهِ مَعَ الشُّهَدائِ

تیری مخلوق پر تیری حجت کی مجھے اور انہیں اپنی جنت میں یکجا کردے مجھے محشور کر ان کے ساتھ ان کے گروہ میں شہیدوں اور نیکوں

وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَیِکَ رَفِیقاًوَأَسْتَوْدِعُکَ ﷲ وَأَسْتَرْعِیکَ وَأَقْرَأُعَلَیْکَ السَّلامَ

کے ساتھ اور یہ کتنے اچھے ہم نشین ہیں آپ کو سپرد خدا کرتا ہوں آپ کی توجہ چاہتا ہوں اورآپ کو سلام پیش کرتا ہوں

آمَنَّا بِالله وَبِالرَّسُولِ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ وَدَلَلْتَ عَلَیْهِ فَاکْتُبْنا مَعَ الشَّاهِدِینَ

ہم ایمان رکھتے ہیں خدا و ر رسول پر اور اس پر جو آپ لائے اور اس کی طرف رہبری کی پس اے خدا ہمیںگواہوں میں لکھ دے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ یہاں چند ایک مطالب کا بیان کر دینا بہت مناسب ہے:

سفر امام رضا بہ خراسان

( ۱ )معتبر سند کے ساتھ امام علی نقی - سے نقل ہوا ہے کہ جس شخص کو خدائے تعالیٰ سے کوئی حاجت ہو تو اسے طوس میں میرے جد بزرگوا کی زیارت کرنا چاہئے‘ وہ غسل کرے اور حضرت کے سرہانے کی طرف ہو کر دو رکعت نماز پڑھے اور اس نماز کی قنوت میں اپنی حاجت طلب کرے تو وہ لازماً پوری ہو گی سوائے اس کے کہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحم کا دخل ہو کیونکہ امام علی رضا - کی قبر شریف جنت کے گھروں میں سے ایک گھر ہے پس کوئی مومن اس کی زیارت نہیں کرے گا مگر یہ کہ حق تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا۔

( ۲ )علامہ مجلسیرحمه‌الله نے شیخ جلیل حسین بن عبد الصمد (شیخ بہائیرحمه‌الله کے والد) کا ایک مکتوب نقل کیا ہے جس میں تحریر ہے کہ شیخ ابوالطیب حسین بن احمدرحمه‌الله فقیہ رازی نے فرمایا ہے کہ جو شخص امام علی رضا - یا ائمہ معصومین میں سے کسی امام کی بھی زیارت کرے اور ان کی قبر مبارک کے نزدیک نماز جعفر طیارعليه‌السلام بجا لائے تو اس کے لیے ہر رکعت کے بدلے ایک ہزار حج ایک ہزارہ عمرہ کا ثواب ہے نیز خدا کے نام پر ایک ہزار غلام آزادکرنے اور ایک ہزار جہاد کا ثواب لکھا جاتا ہے جو اس نے کسی نبی مرسل کی معیت میں کیا ہو.

مزید برآں اس کیلئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو گناہ محو کر دیے جائیں گے نماز جعفر طیار(رض) کا طریقہ روز جمعہ کے اعمال میں گذر ہو چکا ہے بوقت ضرورت وہاں مراجعہ فرمائیں۔

( ۳ )محول سجستانی سے روایت ہے کہ جب ماموں الرشید عباسی نے امام علی رضا - کو مدینہ منورہ سے خراسان بلایا تو حضرت اپنے جد بزرگوار نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وداع کرنے مسجد نبوی میں گئے‘ آپ بار بار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک سے وداع کر کے باہر آتے اور پھر پلٹ جاتے اور ہر بار آپ کے گریہ کی آواز بلند تر ہوتی جاتی تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ اسوقت میں حضرت کے نزدیک گیا سلام کیا آپ نے جواب سلام دیا اور میں نے انہیں اس سفر کی مبارکباد پیش کی‘ تب حضرت نے فرمایاکہ ابھی تم میری زیارت کر لو جب کہ میں اپنے جد بزرگوار سے بچھڑ کر دور جا رہا ہوں اور میں اسی سفر میں تنہائی کی حالت میں دنیا سے گزر جائوں گا اور مجھ کو ہارون الرشید کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔

شیخ یوسف بن حاتم شامی نے در النظیم میں فرمایا ہے کہ امام علی رضا - کے چند اصحاب نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب میں مدینہ منورہ سے روانہ ہونے لگا تو میں نے اپنے اہل و عیال کو جمع کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ مجھ پر گریہ و بکا کریں کہ اسے میں خود سنوں‘ میں نے بارہ ہزاردینار ان میں تقسیم کیے اور یہ بھی کہا کہ میں اس سفر سے لوٹ کر تمہارے پاس نہ آسکوں گا نیز میں نے اپنے فرزند ابو جعفر جوادعليه‌السلام کا ہاتھ پکڑا انہیں اپنے جد بزرگوار کی قبر شریف پر لے گیا اور ان کا ہاتھ اس پر رکھوا کر انہیں اس سے لپٹا دیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی حفاظت کرنے کی درخواست کی اپنے تمام خدام و وکلائ کوابو جعفر جوادعليه‌السلام کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ان کی مخالفت سے منع کیا اور ان سب کو بتلایا کہ یہ میرے قائم مقام و جانشین ہیں۔

( ۴ )سید عبدالکریم بن طائوسرحمه‌الله نے روایت کی ہے کہ جب مامون الرشید نے امام علی رضا - کو مدینہ سے خراسان بلایا تو آپ مدینہ سے بصرہ اور وہاں سے کوفہ ہوتے ہوئے بغداد اور وہاں سے قم پہنچے‘ جب آپ قم میں داخل ہوئے تو لوگ آپ کا استقبال کرنے آئے ان میں سے ہر ایک یہ اصرار کرتاتھا کہ حضرت میرے مہمان ہوں آپ نے فرمایا کہ میرا اونٹ اس پر مامور ہے اور وہ جہاں بیٹھے گا میں اسی کے ہاں مہمان ہوں گا چنانچہ وہ اونٹ چلتے چلتے ایک ایسے شخص کے گھر کے سامنے بیٹھ گیا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ کل امام علی رضا - اس کے مہمان بنیں گے۔ زیادہ مدت نہ گزری کہ وہ جگہ ایک بلند مرتبہ مقام قرار پا گئی اور اب ہمارے زمانے میں اس مکان میں ایک دینی مدرسہ قائم ہے۔

( ۵ )شیخ صدوقرحمه‌الله نے اسحاق بن راہویہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: جب امام علی رضا - نیشا پور پہنچے اور وہاں سے آگے روانہ ہونا چاہا تو وہاں کے علمائ محدثین حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ اے فرزند رسول ! آپ ہمارے ہاں سے جا رہے ہیں تو کیا آپ ہمیں کوئی حدیث سنائیں گے کہ جس سے ہم استفادہ کریں؟ آپ اس وقت عماری (کجاوے) میں بیٹھے تھے پس آپ نے اپنا سر مبارک عماری سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد بزرگوار امام موسیٰ کاظم - سے سنا انہوں نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادق -سے‘ انہوں نے اپنے والد امام محمد باقر - سے انہوں نے اپنے والد بزگوار امام علی بن الحسین سے اور انہوں نے اپنے والدگرامی امام حسین- سے انہوں نے اپنے پدرگرامی امام علی بن ابی طالب سے اور انہوں نے نبی کریم سے سنا کہ آپ نے فرمایا۔ میں نے حضرت جبرائیل - سے اور انہوں نے خدائے عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا:

لاَ اِلَهَ اِلاَّ ﷲ حِصْنِیْ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ یعنی کلمہلاَ اِلَهَ اِلاَّ ﷲ میرا قلعہ ہے اور جو بھی میرے اس قلعے میں داخل ہو جائے وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ آپ نے یہ فرمایا اور روانگی کا حکم دے دیا جب آپ کا اونٹ چل پڑا تو آپ نے ہمیں پکارا اور فرمایا بِشُرُوطِھَا۔۔۔۔ وَاَنَا مِنْ شُرُوطِھَا یعنی یہ حکم اپنی شرط اور شروط کے ساتھ ہے اور میں بھی اس قلعہ کی ایک شرط ہوں یعنی مجھ کو امام برحق ماننا بھی اس قلعہ میں داخل ہونے کی ایک شرط ہے۔

( ۶ )ابوالصلت سے روایت ہے کہ اس سفر میں جب امام علی رضا - سرخ نامی گائوں میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے عرض کی کہ اے فرزند رسول ! وقت ظہر ہو چکا ہے کیا آپ یہاں نماز ادا نہیں فرماتے؟ اس پر آپ وہیں اتر پڑے اور وضو کے لیے پانی طلب فرمایا تو وہ لوگ کہنے لگے کہ پانی تو ہمارے ہاں نہیں ہے! یہ سن کر آپ نے اپنے دست مبارک سے زمین کو کھوداپس وہاں سے اتنا پانی ابل پڑا کہ آپ نے اور آپ کے تمام ساتھیوں نے اس سے وضو کیا اور پانی کا یہ چشمہ اب بھی وہاں موجود ہے۔ پھر جب آپ سنا آباد شہر میں آئے تو آپ نے پشت مبارک سے ایک پہاڑی کے ساتھ ٹیک لگائی اور اس کے پتھر سے اب تک ہانڈیاں تراشی جاتی تھیں‘ آپ نے فرمایا تھا کہ خداوند! اس پہاڑی کو نفع بخش بنا دے اور ہر اس چیز میں برکت دے جو اس کے پتھر سے بنے ہوئے برتن میں رکھی جائے‘ راوی کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اس پتھر سے ہنڈیاں تراش کر کے خود حضرت کی خدمت میں بھی پیش کیں اور آپ نے حکم دیا تھا کہ میرے لیے اس ہنڈیا میں کھانا پکایا جائے۔ چنانچہ اسی دن سے وہاں کے لوگوں نے اس پہاڑی کے پتھر سے برتن بنانے شروع کیے اور انہیں بابرکت پایا۔

( ۷ )صاحب مطلع الشمس نے نقل کیا ہے کہ پچیس ذوالحجہ ۱۰۰۶ھ میں شاہ عباس اول مشہد آئے اور دیکھا کہ عبدالمومن خان اوزبکی نے حرم مبارک کو لوٹ لیا اورحجرہ طلا کے سوا وہاں کچھ نہیں چھوڑا شاہ عباس اٹھائیس ذوالحجہ کو ہرات گئے اور اسے فتح کر لیا وہاں کا انتظام مکمل کرنے کے بعد مشہد مقدس آگئے اور ایک مہینہ وہیںٹھہرے اس دوران میں صحن مبارک کی مرمت کروائی خدام حرم کو انعام و اکرام سے نوازا اور عراق چلے گئے۔ پھر ۱۰۰۸ھ کے اواخرمیں شاہ عباس بار دیگرمشہد مقدس گئے اور پورا موسم سرما وہیں گزارا‘ اس عرصے میں آستان قدس کے خادم کی حیثیت سے بہ نفس نفیس تمام خدمات انجام دیتے رہے یہاں تک کہ شمع کی صفائی خود کرتے اور قینچی سے اسکی بتی کاٹ کر درست کرتے تھے چنانچہ شاہ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے شیخ بہائیرحمه‌الله نے فی البدیہہ یہ اشعار کہے:

پیوستہ بود ملائک علیین

پروانہ شمع روضہ خلد آئین

مقراض باحتیاط زن ایخادم

ترسم ببری شہپر جبریل آمین

عالم بالا کے فرشتے ہمیشہ اس جنت جیسے روضہ کی شمع پر مثل پروانوں کے پرواز کرتے ہیں‘ اے اس آستان کے خدمتگار یہ قینچی ذرا احتیاط سے چلائو کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم جبریل کا پر ہی نہ کاٹ دو۔

شاہ عباس نے نذر مان رکھی تھی کہ وہ پاپیادہ مشہد مقدس جا کر امام علی رضا - کی زیارت کریں گے چنانچہ اپنی اس نذر کو پورا کرنے کے لیے ۱۰۰۹ھ میں پیدل یہاں آئے اور یہ سفر اٹھائیس دنوں میں طے کیا‘ اس موقع کی مناسبت سے صاحب تاریخ عالم آرا نے یہ اشعار کہے:

غلام شاہ مردان شاہ عباس

شہ والا گہر خاقان امجد

بطوف مرقد شاہ خراسان

پیادہ رفت باخلاص بے حد

پیادہ رفت شد تاریخ رفتن

زاصفاہان پیادہ تابمشہد ۱۰۰۹

شاہ عباس کا پیدل مشہد جانا

شہ مردان علی مرتضیٰ - کا غلام شاہ عباس کہ جو نیک خصلت شہنشاہ ہے۔

وہ شاہ خراسان امام علی رضا - کے روضہ پر حاضری دینے کے لیے خلوص و محبت کے ساتھ پیدل چل کر گیا۔ شاہ عباس کے پا پیادہ جانے کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اصفہان سے مشہد تک پیدل چلا یہ ۱۰۰۹ھ کا واقعہ ہے۔ چنانچہ ۱۰۰۹ھ میں جب شاہ عباس مشہد مقدس آئے تو انہوں نے صحن مبارک کو کشادہ کیا اور ایوان علی شیر کودرمیان میں رکھا کہ جو پہلے روضہ پاک کے ایک طرف صحن میں واقع تھا اور کچھ بھلا نہ لگتا تھا‘ جو ایوان اس کے سامنے تھا اسے دوسری طرف بنوایا‘ ایک سڑک شہر کے مغربی دروازے سے مشرقی دروازے تک بنائی جو ہر طرف سے صحن مبارک تک جاتی تھی۔ شہر مشہد کے لیے نہریں اور چشمے بنائے ایک نہر اس سڑک کے وسط سے نکالی جو صحن مبارک سے گزرتی ہوئی باہر چلی جاتی تھی‘ صحن کے درمیان میں ایک حوض بنوایا کہ پانی اس میں سے گزر کر مشرق میں سڑک کی طرف نکل جاتا ہے۔ پھر ہر نئی تعمیر پر کتبے لگوائے جو میرزا محمد رضائی صدر الکتاب ‘ علی رضا عباسی اور محمد رضا امامی کے خط میں ہیں‘ شاہ عباس نے ہی امام علی رضا - کا قبہ سونے کی اینٹوں سے بنوایا اور اس کے لیے جو کتبہ لکھا گیا ہے اس کا مضمون یہ ہے۔

اس خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے ۔

خدا کی عظیم تو فیقات سے ہے کہ اس نے توفیق دی کہ بادشاہ اعظم ،عرب و عجم کے بادشاہوں کے آقا ،پاکیزہ نسبت والے ،روشن علوی حسب والے حرم مطہر کے خادموں کے قدموں کی خاک ، اس روضہ منورہ کے زائرین کی جو تیوں کا غبار ،اپنے معصوم اجداد کے آثار کے مروج بادشاہ ابن بادشاہ ابو مظفر شاہ عباس حسین موسوی صفوی بہادر خان اپنے دارالسلطنت اصفہان سے پیدل چلنے کے لئے آمادہ ہوئے اس کی زیارت کیلئے اور وہ اس قبہ کی زینت کی اپنے خالص مال کے ساتھ مشرف ہوا اور یہ کام ۱۰۱۰ھجری میں شروع ہوا اور ۱۰۱۶ھجری میں مکمل ہوا ۔

معجزات امام رضا

( ۸ )شیخ طبرسی نے اعلام الوری میں امام علی رضا - کے بہت سے معجزات تحریر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ حضرت کی شہادت سے لے کر ہمارے زمانے تک حضرت کے بہت زیادہ عجیب و غریب معجزے ظاہر ہوئے ہیںان معجزات کو ہر مخالف و موافق نے دیکھا اور ان کی تصدیق کی ہے، چنانچہ یہ مسلم بات ہے کہ یہاں پیدائشی اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا حاصل ہوئی، لوگوں کی دعائیں قبول ہوئیں، ان کی حاجات بر آئیں اور بہت سے لوگوں کی سختیاں اور مصیبتیں دور ہوئی ہیں۔ ان میں سے بہت سے واقعات کو ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ واقعات سچے ہیںاور ان میں شک کی گنجائش نہیںہے شیخ حر عاملی نے اثبات الہدی میں شیخ طبرسی کے اس کلام کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ان میں سے بہت سارے معجزات کا خود میں نے بھی مشاہدہ کیا ہے جیسا کہ شیخ طبرسی نے ان کو دیکھا اور مجھے ان کے بارے میں ویسا ہی یقین ہوا ہے جیسا انہیں ہوا تھا مشہد مقدس میں میری مجاورت جو چھبیس برس پر محیط ہے اس زمانے میں میں امام علی رضا- کے روضہ مبارک سے ظاہر ہونے والی کرامات و برکات کے بارے میں اتنے واقعات سننے میں آئے کہ جو حد تواتر سے بڑھے ہوئے ہیں اور مجھے کوئی ایسا موقع یاد نہیں کہ میں نے اس آستان پر دعا مانگی یا حاجت طلب کی ہو اور وہ پوری نہ ہوئی ہو ۔ یہ مقام تفصیل کی گنجائش نہیں رکھتا لہٰذا ہم اسی پر اکتفائ کرتے ہیں۔

مؤلف کہتے ہیں ہر زمانے میں اس روضہ مطہرہ سے اس قدر معجزات ظاہر ہوئے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے گزشتہ معجزوں کو نقل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہم ستائیس رجب کی رات کے اعمال میں کچھ مناسب حال چیزیں نقل کر آئے ہیں لہٰذا عدم گنجائش کے پیش نظر یہاں ہم نے مزید واقعات درج نہیں کیے چنانچہ اس فصل کو تمام کرتے ہوئے ہم امام علی رضا - کی مدح میں ملاں جامی کے چند اشعار نقل کرتے ہیں:

سَلامٌ عَلی آلِ طه وَیٓسَ

سَلامٌ عَلی آلِ النَّبِیِّین

سلام ہو طٰہٰ و یاسین کی آلعليه‌السلام پر

سلام ہو نبیوں میں سے بہترین کی آلعليه‌السلام پر

سَلامٌ عَلی رَوْضَةٍ حَلَّ فِیها

إمامٌ یُباهِی بِهِ الْمُلْکُ وَالدِّین

سلام ہو اس روضہ پر جس میں دفن ہے

وہ امام کہ جس پر ملک و دین کو فخرہے

امام بحق شاہ مطلق کہ آمد

حریم درش قبلہ گاہ سلاطین

شہ کاخ عرفان گل شاخ احسان

دُر درج امکان مہ برج تمکین

علی ابن موسٰی الرضا کز خدایش

رضا شد لقب چون رضا بودش آئین

زفضل و شرف بینی او راجہانی اگر

نبودت تیرہ چشم جہان بین

پئی عطر رو بند حوران جنت

غبار درشر ابگسیوی مشگین

اگر خواہی آری بکف دامن او

برو دامن از ہر چہ جز اوست برچین

امام علی رضا- جو سچے امام اور با اختیار بادشاہ ہیں ان کے حرم پاک کی چوکھٹ دنیا کے بادشاہوں کے جھکنے کی جگہ ہے ۔وہ مرکز معرفت کے فرمانروا اور نیکی کی ٹہنی پر کھلے ہوئے پھول ہیں کائنات کی لڑی کے موتی اور آسمان عزت کے چاند ہیں وہ علی ابن موسٰی الرضا ہیں کہ ان کے خدا نے انہیں رضا کے لقب سے سرفراز کیا کہ خدا کی رضا پر راضی رہنا ان کا شیوا ہے ،اگر دنیا کو دیکھنے والی تمہاری آنکھ بے نور نہ ہو تو تم دیکھو گے کہ یہ امام فضیلت و بڑائی میں اس دنیا پر بھاری ہیں ایسا کیوں نہ ہو جنت کی حوریں اپنی سیاہ زلفوں میں، خوشبو بسانے کے لئے ان کے دروازے کی دھول اپنے سر پر ملتی ہیں ،اگر تم پاک امام کا دامن پکڑنا چاہتے ہو تو جاؤ ان کے علاوہ ہر ایک سے اپنا دامن بچا کر ان کی طرف بڑھو ۔