مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)3%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 217568 / ڈاؤنلوڈ: 13269
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

(چوتھی فصل :)

نیند سے بیداری اور نماز تہجد

جاننا چاہیئے کہ شب بیداری اور اسکی فضیلت میں صاحبان عصمت و طہارتسے بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ شب بیداری مومن کا شرف ہے اور نماز تہجد بدن کی صحت اور دن کے گناہوں کا کفارہ ہے اور وحشت قبر کے دور ہونے کا سبب نیز چہرے کی رونق، بدن میں خوشبو اور روزی میں اضافے کا ذریعہ ہے ، جس طرح مال اور اولاد دنیا وی زندگی کی زینت ہیں اسی طرح رات کے آخری حصے میں آٹھ رکعت تہجد اور وتر آخرت کی زینت ہیں اور بعض اوقات حق تعالیٰ ان ہر دو زینتوں کو اپنے کچھ بندوں کے ہاں یکجا بھی کر دیتا ہے پس جھوٹا ہے وہ شخص کہ جو یہ کہتا ہے کہ میں نماز تہجد پڑھتا ہوں اور دن کو بھو کارہ جاتا ہوں ، کیونکہ نماز تہجد روزی کی ضامن ہے۔

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیرالمومنین- سے فرمایا: یا علی میں تمہارے ہی بارے میں تمہیں چند وصیتیں کرتا ہوں اور چند ایسے خصائل بتاتا ہوں کہ انہیں تم ضرور یاد رکھنا :اس کے بعد کہا کہ خداوندا! علی کی مدد فرما،پھر وہ چند خصائل بتانے کے بعد ارشاد کیا:

وعَلَیْکَ بِصَلاةِ اللیْلِ وَعَلَیْکَ بِصَلاةِ اللیْلِ وَعَلَیْکَ بِصَلاةِ اللیْلِ وَعَلَیْکَ بِصَلاةِ الزَّوالِ

تم پر نماز تہجد کی ادائیگی لازم ہے تم پرنماز تہجدکی ادائیگی لازم ہے تم پر نماز تہجد کی ادائیگی لازم ہے تم پر نماز

زوال کی ادائیگی لازم ہے تم پر

وَعَلَیْکَ بِصَلاةِ الزَّوالِ وَعَلَیْکَ بِصَلاةِ الزَّوالِ

نماز زوال کی ادائیگی لازم ہے۔ نماز زوال کی ادائیگی لازم ہے اور تم پر

اس سے ظاہر ہے کہ یہاں نماز شب سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد تیرہ رکعت نماز تہجد اور نماز زوال سے مراد ظہر کے نوافل ہیں جو زوال کے وقت پڑھے جاتے ہیں انس نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے سنا: رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ایک روایت میں ہے کہ کسی نے امام زین العابدین- سے پوچھا: آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ جو لوگ نماز شب ادا کرتے ہیں ان کے چہرے دوسروں سے زیادہ نورانی ہوتے ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ خداے تعالیٰ کے ساتھ خلوت کرتے ہیں اور ﷲ تعالیٰ انہیں اپنے نور سے ڈھانپ دیتا ہے اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اور رات کو بیدار نہ ہونا مکروہ ہے، شیخ نے صحیح سند کے ساتھ امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کوئی بھی بندہ ایسا نہیںہے جو رات کو ایک دو یا اس سے زیادہ مرتبہ بیدار نہ ہوتا ہو ، اگر وہ اُٹھ کھڑا ہوتو بہتر ورنہ شیطان اپنے پائوں پھیلا کر اس کے کانوں میں پیشاب کر دیتا ہے. آیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو نماز شب کے لیے نہیں اُٹھتے وہ جب صبح کو بیدار ہوتے تو بوجھل سست اور پریشان طبیعت کے ساتھ اٹھتے ہیں شیخ برقی نے معتبر سند کے ساتھ امام محمدباقرعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ فرمایا: رات کا ایک شیطان ہوتا ہے کہ جس کو’’رہا‘‘کہا جاتا ہے پس جب انسان نیند سے بیدار ہوتا اور نماز شب ادا کرنے کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو یہ شیطان اس سے کہتا ہے کہ ابھی تمہارے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا، تب وہ سو جاتا ہے اور جب وہ دوبارہ جاگتا ہے تو یہ اس سے کہتا ہے کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے ، ابھی بہت وقت ہے .اسی طرح وہ مسلسل اسے روکتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے، اس وقت وہ ملعون اس شخص کے کان میں پیشاب کر کے بڑے ناز و انداز کے ساتھ دم ہلاتا ہوا چلاجاتا ہے ابن ابی جمہور نے حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم میں سے جو بھی شخص رات کو سوتا ہے تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے میں تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے ’’علیک لیل طویل فارقد‘‘ یعنی رات بہت لمبی ہے. سوتے رہو. پھر جب وہ شخص بیدار ہوتا اور خدا کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے تب وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کی طبیعت بشاش اور پاک و پاکیزہ ہوتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ سستی اور خباثت کے ساتھ صبح کرتا ہے ، یہ روایت اہل سنت علمائ نے بھی نقل کی ہے. قطب راوندی نے روایت کی ہے کہ امیر المومنین- نے فرمایا: تین چیزوں کے ساتھ تین چیزوں کی آرزو نہ کرو شکم سیری کے ساتھ شب بیداری کی آرزو نہ کرو رات بھر سوتے رہنے کے ساتھ سفید روئی کی آرزو نہ کرو اور فاسقوں کے ساتھ دوستی میں دنیا کے امن و سکون کی آرزو نہ کرو نیز قطب الدین راوندی ہی سے روایت ہے کہ جب حضرت مریمعليه‌السلام کی وفات ہوگئی تو ان کے فرزند حضرت عیسیٰعليه‌السلام نے ان سے کہا والدہ گرامی! میرے ساتھ بات کریں ، آیا آپ چاہتی ہیں کہ دنیا میں واپس آجائیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! مگر اس لیے کہ سخت سردی کی راتوں میں نمازتہجد ادا کروں اور سخت گرمی کے دنوں میں روزے رکھوں! اے فرزند عزیز! یہ بڑا ہی کٹھن راستہ ہے۔

(نماز تہجد کی کیفیت:

نماز تہجد کی کیفیت نہایت ہی آسان ہے کہ جسے ہر شخص بجالا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو نہی نیند سے بیدار ہوتو خدا کیلئے سر سجدے میں رکھ دے، بہتر ہے کہ اسی حال میں یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھے:

الْحَمْدُ لِلّٰهِِ الَّذِی أَحْیانِی بَعْدَ ما أَمَاتَنِی وَ إلَیْهِ النُّشُور ُالْحَمْدُ

خدا کے لیے حمد ہے ، جس نے مجھ کو موت کے بعد زندگی دی ہے اور اسی کے ہاں حاضر ہونا ہے .خدا کے لیے

لِلّٰهِ الَّذِی رَدَّ عَلَیَّ رُوحِی لاََِحْمَدَهُ وَأَعْبُدَهُ

حمد ہے جس نے میری روح پلٹائی کہ اس کی حمد و عبادت کروں۔

پس جب اٹھ کر کھڑا ہوجائے تو یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ أَعِنِّی عَلَی هَوْلِ الْمُطَّلَعِ، وَوَسِّعْ عَلَیَّ الْمَضْجَعَ وَارْزُقْنِی خَیْرَ مَا بَعْدَ الْمَوْتِ

اے معبود! قیامت کے پر خوف منظر میں میری مدد فرما میری قبر میں فراخی کر دے اور مجھے مرنے کے بعد بھلائی عطا فرما

جب مرغ کی اذان سنے تو کہے:

سُبُّوْحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلائِکَةِ وَالرُّوحِ سَبَقَتْ رَحْمَتُکَ غَضَبَکَ، لاَ إلهَ إلاَّ

بڑا پاک و پاکیزہ ہے ملائکہ اور روح کا پروردگار، خدایا تیری رحمت تیرے غضب سے آگے ہے نہیں

أَنْتَ، عَمِلْتُ سُوئاً وَظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی إنَّهُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ

کوئی معبود سواے تیرے میں نے برائی اور خود پر ستم کیا ہے پس مجھے بخش دے کہ تیرے سوا گناہوں کا

إلاَّ أَنْتَ فَتُبْ عَلَیَّ إنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ

بخشے والا کوئی نہیں ہے میری توبہ قبول کر کہ یقیناً تو بڑاہی تو بہ قبول کرنے والا ہے۔

جب آسمان کی طرف دیکھے تو کہے:

اَللّٰهُمَّ إنَّهُ لاَ یُوَارِی مِنْکَ لَیْلٌ ساجٍ وَلاَ سَمَائٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ وَلاَ أَرْضٌ ذَاتُ

اے معبود! تاریک رات تجھ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتی نہ بر جوں والاآسمان اور نہ پھیلی ہوئی زمین

مِهادٍ، وَلاَ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ وَلاَ بَحْرٌ لُجِّیٌّ تُدْلِجُ بَیْنَ یَدَیِ الْمُدْلِجِ

نہ ہی سے تاریکیوں کے تلےاوپر تہیں تجھ کچھ چھپا سکتی ہیں نہ موجیں مارتا ہوا سمندر جو راتوں کو چلنے

مِنْ خَلْقِکَ تُدْلِجُ الرَّحْمَةَ عَلَی مَنْ تَشائُ مِنْ خَلْقِک تَعْلَمُ خایِنَةَ الْاَعْیُنِ وَما تُخْفِی

والوں کے سامنے بپھر جاتا ہے تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے رحمت سے نوازتا ہے تو آنکھوں کی غلط حرکت کو جانتا

الصُّدُورُ غارَتِ النُّجُومُ وَنامَتِ الْعُیُونُ وَأَنْتَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَأْخُذُکَ سِنَةٌ وَلاَ

ہے اور سینوں میں چھپے راز دل کو بھی، خدایا ستارے ڈوب گئے اور تو زندہ پائندہ ہے کہ تجھ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ

نَوْمٌ سُبْحانَ ﷲ رَبِّ الْعالَمِینَ وَ إلهِ الْمُرْسَلِینَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِِ رَبِّ الْعالَمِینَ

نیند گھیرتی ہے۔ ﷲ پاک ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے اور پیغمبروں کا معبود ہے اور حمد ہے ﷲ کے لیے جو جہانوں کا رب ہے۔

پھر سورہ آلعليه‌السلام عمران کی یہ پانچ آیات پڑھے:

إنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّهارِ لاََیَاتٍ لاَُِولِی الْاَلْبَابِ الَّذِینَ

بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے آنے جانے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں جو

یَذْکُرُونَ ﷲ قِیاماً وَقُعُوداً وَعَلی فِی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ

خدا کو یاد کیا کرتے ہیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے بھی، وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں (کہتے ہیں )

رَبَّنا مَا خَلَقْتَ هَذا باطِلاً سُبْحانَکَ فَقِنا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنا إنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ

اے ہمارے رب تو نے ان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا تیری ذات پاک ہے پس ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ہمارے رب جسے تو جہنم میں

النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنْصارٍ رَبَّنا إنَّنا سَمِعْنا مُنادِیاً

داخل کرے گا اسے رسوا کرے گا اور ظالموں کا تو کوئی مددگار بھی نہیں ہے ہمارے رب ہم نے ایمان کی منادی

یُنادِی لِلاِِْیمانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنا فَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا

کرنے والے کی آواز سنی ہے کہ اپنے رب پر ایمان لائو تو ہم لے آئے پس ہمارے رب تو ہمارے

وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنا وَآتِنا مَا وَلاَ

گناہ بخش دے ہماری برائیوں کو مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں جیسی موت دے ہمارے رب ہمیں وہ چیز دے

تُخْزِنا یَوْمَ وَعَدْتَنا عَلَی رُسُلِکَ مالْقِیامَةِ اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ

سکا تو نے رسولوں کے ذریعے وعدہ کیا اور ہمیں قیامت میں رسوا نہ کرنا بے شک تو وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

پس جب عبادت کی طرف متوجہ ہو اور بیت الخلا جانے کی ضرورت بھی ہوتو پہلے بیت الخلائ جائے. جب وہاں سے نکلے تو پہلے مسواک کرے۔ کامل طور پر وضو کرے، خوشبو لگائے اور پھر نماز شب کی ادائیگی کیلئے مصلے پر آجائے۔ اس نماز کا اول وقت آدھی رات سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق کے طلوع ہونے سے جتنا نزدیک ہو بہتر ہے اگر صبح صادق طلوع ہو جائے تو پھر چار رکعت نماز شب ادا کرے اور باقی رکعتوں کو صرف سورۃ حمد کے ساتھ پڑھے تو سب سے پہلے آٹھ رکعت نماز شب کی نیت سے دودورکعت کرکے پڑھے اور ہر دوسری رکعت پر سلام کہے اور بہتر ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں سورہ حمد کے بعد ساٹھ مرتبہ سورہ توحید پڑھے یعنی ہر رکعت میںحمد کے بعد تیس تیس مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور جب یہ مکمل کر لے گا تو اس پر کوئی گناہ نہیں رہے گا۔ یا یہ کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ توحید اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورہ کافرون پڑھے باقی چھ رکعتوں میں سورہ حمد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے جس طرح ہر واجبی نماز میں قنوت مستحب ہے اسی طرح نوافل کی ہر دوسری رکعت میں بھی قنوت مستحب ہے اور قنوت میں صرف تین بارسبحان اللہ (خدا پاک ہے)کہنا بھی کافی ہے یا یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنا وَارْحَمْنا وَعافِنا وَاعْفُ عَنَّا فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئ قَدِیرٌ

اے معبود! ہمیں بخش دے ہم پر رحم فرما ،محفوظ رکھ ،ہم سے درگزر فرما دنیااور آخرت میں بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

یا یہ دعا پڑھے:

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ إنَّکَ أَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَجَلُّ الْاَکْرَمُ

یا رب بخش دے رحم فرما اور معاف کر دے جو تو جانتاہے بے شک تو بڑی عزت والا شان والا عطا کرنے والا ہے

ایک روایت میں ہے کہ جب امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تو صحیفہ کاملہ کی پچاسویں دعا پڑھا کرتے تھے کہ جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے :

اَللّٰهُمَّ إنَّک خَلَقْتَنِی سَوِیّاً

اے معبود تونے مجھے بہترین صورت میں پیدا کیا

جب نماز شب کی آٹھ رکعتوں سے فارغ ہو جائے تو دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت وتر پڑھے .ان تینوں رکعتوں میں سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھے، یہ ایسا ہے گویا اس نے قرآن مجید کا ایک ختم کیا ہے، کیونکہ سورہ توحید ایک تہائی قرآن کے برابر ہے یا یہ کہ نماز شفع کی پہلی رکعت میں حمد اور سورہ والناس پڑھے اور دوسری رکعت میں حمد اور سورہ فلق پڑھے جب نماز شفع سے فارغ ہوجاے تو مستحب ہے کہ یہ دعا پڑھے :

إلهِی تَعَرَّضَ لَکَ فِی هذ اللَّیْلِ الْمُتَعَرِّضُونَ

الٰہی تیرے حضور اس رات حاجت مند اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔

یہ وہ دعا ہے جو مفاتیح الجناں میں پندرہ شعبان کی رات کے اعمال میں مذکور ہے نماز شفع کی دو رکعتیں پڑھنے کے بعد نماز وتر کی ایک رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ، اس میں سورہ حمد کے بعد ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھے یا سورہ توحید تین مرتبہ اور اس کے بعد سورہ فلق اور سورہ والناس پڑھے پھر قنوت کیلئے ہاتھ اٹھاے اور جو دعا چاہے مانگے شیخ طوسیرحمه‌الله فرماتے ہیں اس موقع پر پڑھی جانے ولی دعائیں بہت زیادہ ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی خاص دعا پڑھی جائے اور کوئی دوسری دعا نہ پڑھی جا سکے. مستحب ہے کہ انسان نماز وتر کے قنوت میں خدا کے خوف اور اس کے عذاب کے ڈرسے گریہ کرے یا رونے کی شکل بنائے اور مومن بھائیوں کیلئے دعا مانگے مستحب ہے کہ چالیس مومنوں کے نام لے کر دعا مانگے کیونکہ جو شخص چالیس مومنین کیلئے دعا مانگتا ہے اسکی دعا یقیناً قبول ہوتی ہے. پھر جو دعا چاہے مانگے شیخ صدوقرحمه‌الله نے ’’کتاب الفقیہ‘‘میں لکھا ہے کہ حضرت رسول ﷲ نماز وتر کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے:

دعا نماز وتراَلَّهُمَّ وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ اهْدِنِی فِیمَنْ هَدَیْتَ وَتَوَلَّنِی فِیمَن تَوَلَّیْتَ وَبارِکْ لِی فِیما

اے معبود!مجھے ہدایت دے اس کے ساتھ جسے تو نے ہدایت دی محفوظ رکھ اس کے ساتھ جسے محفوظ رکھا سر پرستی کر اس کے ساتھ جس کی

أَعْطَیْتَ وَقِنِی شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَ إنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی اَلَیْکَ رَبَّ َسُبْحَانَک الْبَیْتِ

سر پرستی کی اور برکت دے اس میں جو تو نے عطا کیا ،بچا مجھے اس شر سے جو تو نے مقدر کیا کیونکہ توحکم کرتا ہے اور تجھ پر حکم نہیں کیا جاتا تو پاک ہے

أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إلَیْکَ وَأُوَْمِنُ بِک وَأَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ

اے رب کعبہ!تجھ سے بخشش چاہتا ہوں تیرے آگے تو بہ کرتا ہوں تجھ پر عقیدہ رکھتا ہوں تجھ پر بھر وسہ کرتا ہوں اور نہیں طاقت و قوت مگر جو تجھ

بِکَ یَا رَحِیمُ

سے ہے اے مہربان

اور بہتر ہے کہ ستر مرتبہ کہے :أَسْتَغْفِرُ ﷲ رَبِّی وَأَتُوبُ إلَیْهِ

اپنے رب ﷲ سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں

مناسب یہ ہے کہ استغفارکے لیے بائیں ہاتھ کو بلند کرے اور دائیں ہاتھ سے استغفار کو شمار کرے ایک روایت میں ہے کہ رسول ﷲ نماز وتر میں ستر مرتبہ استغفار کرتے اور سات مرتبہ یہ کہتے:

هذَا مَقَامُ الْعَاءِذِ بِکَ مِنَ النَّارِ

جہنم سے تیری پناہ لینے والا یہ کھڑاہے ۔

نیز یہ بھی مروی ہے کہ امام زین العابدین- نماز تہجد کے وتر تین سومرتبہ کہا کرتے تھے

الْعَفْوَ الْعَفْوَ

معافی دے معافی دے۔

اس کے بعد کہتے تھےرَبِّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی تُبْ عَلَیَّ إنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ لرَّحِیمُ

اے رب مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر اورمیری توبہ قبول فرما بے شک تو بڑاتوبہ قبول کرنے والا معاف کرنے والا مہربان ہے۔

مناسب یہ ہے کہ اس قنوت کو طول دے جب اس سے فارغ ہوتو رکوع کرے اور اس سے سر اٹھا نے کے بعد وہ دعا پڑھے جو شیخ طوسیرحمه‌الله نے تہذیب الاحکام میں امام موسیٰ کاظمعليه‌السلام سے نقل کی ہے اوروہ دعا یہ ہے :

هذَا مَقَامُ مَنْ حَسَناتُهُ نِعْمَةٌ مِنْکَ وَشُکْرُهُ ضَعِیفٌ وَذَنْبُهُ عَظِیمٌ

یہ کھڑا ہے وہ شخص جس کی نیکیاں تیری نعمت ہیں اس کا شکر کم تر اور اس کے گناہ زیادہ ہیں اور اس کے

وَلَیْسَ لِذلِکَ إلاَّ رِفْقُکَ وَرَحْمَتُکَ فَ إنَّکَ قُلْتَ فِی کِتابِکَ

لیے تیری مہربانی اور رحمت کے سوا کوئی سہارا نہیں بے شک تو نے اپنی اس کتاب میں کہا جو تیرے

الْمُنْزَلِ عَلَی نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ صَلَّی ﷲ عَلَیْهِ وَآلِهِ کانُوا قَلِیلاً

فرستادنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اتری خدا کی رحمت ہو ان پراور ان کی آلعليه‌السلام پر خدا کے نیک بندے رات کو کم

مِنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُونَ وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یسْتَغْفِرُونَ ُوطَالَ هُجُوعِی وَقَلَّ قِیامِی وَهذَا

سوتے ہیں اور وقت سحر اس سے بخشش مانگتے ہیں جب کہ میرا سونا زیادہ اور عبادت کم ہے یہ وقت سحر ہے میں تجھ سے

السَّحَرُ و أَنَا أَسْتَغْفِرُکَ لِذُنُوبِی اسْتِغْفارَ مَنْ لاَ یَجِدُ لِنَفْسِهِ ضَرَّاً وَلاَ نَفْعَاً وَلاَ مَوْتاً وَلاَ حَیاةً وَلاَ نُشُوراً

گناہوں کی معافی مانگتا ہوں یہ معافی مانگنے والاوہ ہے جواپنے نفع و نقصان اور اپنی زندگی اور موت اور حشر پراختیارنہیںرکھتا

پھر سجدے میں جائے اور نماز وتر کو مکمل کرے اور سلام کے بعد تسبیح فاطمہ زہراعليه‌السلام پڑھے اور پھر کہے:

الْحَمْدُ لِرَب الصَّباحِ الْحَمْدُ لِفالِق الْاِصْباحِ

حمد ہے صبح کے رب کے لیے حمد ہے صبح کو ظاہر کر نے والے کیلئے۔

اسکے بعد تین مرتبہ کہے:سُبْحانَ رَبِّیَ الْمَلِکِ الْقُدُّوس الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ پهر کهي: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ یَا بَرُّ یَا رَحِیمُ

پاک ہے میرا رب جو بادشاہ پاک تر غالب ہے حکمت والا ۔اے زندہ اے پائندہ اے نیک اے مہربان اے بے

یَا غَنِیُّ یَا کَرِیمُ ارْزُقْنِی مِنَ التِّجارَةِ اَعْظَمُهَا فَضْلاًوَأَوْسَعَها رِزْقاً وَخَیْرَها لِی عاقِبَةً

نیاز اے سخی مجھے وہ تجارتنصیب کر جو فضیلت میں بڑھی ہوئی ہو رزق میںوسعت لانے والی اور انجام کار میرے لیے

فَ إنَّهُ لاَ خَیْرَ فِیما لاَ عاقِبَةَ لَهُ

بہتر ہو کیونکہ وہ بھلائی نہیں جس کا انجام اچھا نہ ہو

مناسب ہے کہ اس کے بعد دعاے حزین پڑھے کہ جس کا آغاز’’اُنَاجِیْکَ یَا مَوْجُوْدُ فِیْ کُلِّ مَکَانٍ‘‘ سے ہوتا ہے یہ دعا باقیات و الصالحات کے ملحقات میں آئے گی پھر سجدے میں جائے اور پانچ مرتبہ کہے:

سُبُّوح قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلائِکَة وَالرُّوح

پاک و پاکیزہ ہے فرشتوں اور روح کا پروردگار۔

اب بیٹھ کر آیت الکرسی پڑھے، پھر سجدے میں جائے اور ذکر ’’سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ...‘‘ پانچ مرتبہ کرے اس کے بعد نماز فجر کے نافلہ کے لیے کھڑا ہو جائے ،نافلہ صبح دو رکعت ہے اس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد سورہ توحید پڑھے نماز کا سلام دینے کے بعد پہلو کے بل روبہ قبلہ ہو کریوں لیٹ جائے جیسے میّت کو قبر میںلٹا یاجاتا ہے ، پس اپنا دایاں رخسارہ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھے اوریہ پڑھے :

اسْتَمْسَکْتُ بِعُرْوَةِ ﷲ الْوُثْقیٰ الَّتِی لاَ انْفِصامَ لَها وَاعْتَصَمْتُ بِحَبْلِ ﷲ الْمَتِینِ وَأَعُوذُ

میں وابستہ ہوا ہوں خدا کی مضبوط زنجیر سے جو ٹوٹنے والی نہیں ہے اور تھامے ہوئے خدا کی محکم تر رسّی کو اور خدا کی

بِالله مِنْ شَرِّ فَسَقَةِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ وَأَعُوذُ بِالله مِنْ شَرِّ فَسَقَةِ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ

پناہ لیتا ہوں عرب و عجم کے بدکاروں کے شر سے اور خداکی پناہ لیتا ہوںجن و انس کے بدکاروں کے شر سے

پھر تین مرتبہ کہے:سُبْحَاَنَ رَبِّ الصَّباحِ فالِق الْاِصْباحِ

پاک ہے صبح کا پروردگار جو صبح کو وجود میں لاتا ہے۔

اس کے بعد سورہ آلعليه‌السلام عمران کی وہ پانچ آیات پڑھے جن کا شروع یہ ہے اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ بعدمیں بیٹھ کر تسبیح حضرت زہراعليه‌السلام پڑھے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں روایت ہوئی ہے کہ جو شخص صبح کے نافلہ اور فریضہ کے درمیان محمد و آلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سومرتبہ درود بھیجے تو ﷲ اسے جہنم کی تپش سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص سو مرتبہ کہے :

سُبْحانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ وَبِحَمْدِهٰٓ اَسْتَغْفِرُﷲ رَبِّیْ وَاَتُوْبُ اِلَیْهِ

پاک ہے میرا عظیم رب اور میں اس کی حمد کرتا ہوں میں اپنے ﷲ سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں

تو حق تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا جو شخص اکیس مرتبہ سورہ توحید پڑھے تو ﷲ تعالی اس کیلئے بھی جنت میں ایک گھر بنائے گااور اگر چالیس مرتبہ سورہ توحید پڑھے توخدا تعالےٰ اسے بخش دے گا بہتر ہے کہ نماز شب یعنی نماز تہجد کے بعدصحیفہ کاملہ کی بتیسویں دعا پڑھے:جس کا آغازیوں ہوتا ہے :

اَللّٰهُمَّ َیا ذَاالْمُلْکِ الْمُتَأَبِّدِ بِالْخُلُودِ

اے ﷲ! اے دائمی وابدی بادشاہی والے ۔

پھر سجدہ شکر بجالاے اور بہتر ہے کہ اس میں مومن بھائیوں کے لیے دعا کرے اور اسی حالت سجدہ میں۔

اَللّٰهُمَّ رَب الْفَجْرِ

اے معبود! اے فجر کے رب ۔

سے شروع ہونے والی دعا پڑھے جو سجدہ شکر کے بیان میں ذکر ہو چکی ہے مؤلف کو اپنے مؤمن بھائیوں سے قوی امید ہے کہ وہ حالت سجدہ میں اس کے لیے بھی دعا کریں گے کیونکہ اسے ان کی دعائوں کی سخت ضرورت ہے اور خداوند عالم ہی سب کو توفیق دینے والا ہے۔

آیت ۱۶۵۔۱۶۶

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا ِبه اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍم بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّانَهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُوْنُوْا قِرَدَةً خٰاسِئِیْنَ )

ترجمہ: پس جب انہوں نے اس یاد دہانی کو فراموش کر دیا تو ہم نے نہی عن المنکر کرنے والوں کو نجات دیدی اور ظالموں کو ان کے فسق وفجوربجالانے کے سبب سخت عذاب میں گرفتار کر دیا۔

پس جب انہو ں ے اس بات سے سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے انہیں کہا: تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ!

چند نکات:

"بئس" کا لفظ "باس" سے نکلا ہے جس کا معنی ہے "سخت"

سورہ مائدہ/ ۶۰ میں ہے کہ کچھے لوگ بندر اور سور بن گئے۔ جبکہ یہاں صرف بندر بننے کا تذکرہ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ دونوں آیات ایک ہی گروہ کے بارے میں ہیں اور آیت کا ظاہر یہی بتاتا ہے کہ وہ لوگ بندروں کی شکل میں تبدیل ہو گئے تھے بندروں کی خصلت نہیں بنائی تھی۔

روایات کے مطابق جب بنی اسرائیل کے موغطہ کرنے والوں نے دیکھا کہ ان کی نصیحت اپنی قوم میں بے اثر ہے تو وہ ان لوگوں سے جدا ہو گئے اور اسی رات عذاب الہٰی نازل ہوا جس نے گناہگاروں اور خاموشی اختیار کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (ازتفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ نہی عن المنکر اگر دوسروں کی ہدایت کا سبب نہ بن سکے، ہماری اپنی نجات کا ذریعہ ضرور ہوتا ہے۔ (( انجینا ینهون الذین )

۲ ۔ اگر عدم توجہ اور غفلت کی وجہ سے فراموشی کو اختیار کیا جائے تو اس سے سزا مل سکتی ہے۔( فلما نسوا- ) ۔۔۔۔)

۳ ۔ جوا پنے لئے موغطہ اور پندو نصیحت کے راستے بند کر دیتا ہے وہ اپنے لئے خدائی قہر و غضب کے دروازے کھول دیتا ہے( نسوا-- اخذنا )

۴ ۔ نہی عن المنکر ایک دائمی فریضہ ہے۔ (ینہون) فعل مضارع دوام و استمرار دلالت کرتا ہے،

۵ ۔ بے پروا قسم کے لوگ ظالم ہیں۔( الذین ظلموا ) اس سے پہلی آیت بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل تین گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ۱ ۔ ظالم۔ ۲ ۔ ہندونصحت کرنے والے اور ۳ ۔ لاپرواہ قسم کے لوگ جو ہر بات پر خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ اس آیت میں خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ظلم کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔( انجینا الذین ینهون عنه )

۶ ۔ بہت بڑا اور بہت سخت عذاب ، مرحلہ ان نیت سے گر جاتا ہے( عذاب بئیس ----- قردة )

۷ ۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کی صورتیں مسخ ہو جائیں اور متکبرین کی سزا یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی دھتکار دیا جائے اوران کی توہین و تحقیر کی جائے۔( عتوا، قردة خاسئین )

۸ ۔ جو قومیں قوانین الہٰی کے مقابلے میں غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بندروں کی مانند کبھی تو مشرق والوں کی ور کبھی اہل مغرب کی نقالی کرتی رہتی ہیں۔( قردة )

۹ ۔ جو لوگ حکم خداوندی کو مختلف حیلو ں بہانوں سے مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اپنے چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔ دین کے ساتھ بازیگری کرنے والے، خود ہی بازیگر جانوروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

۱۰ ۔ جو خدا صر ف ایک ہی حکم کے ساتھ ابراہیم کے لئے آگ کو گلستان بنا سکتا ہے، وہ انسان کو بندر میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

آیت ۱۶۷

( وَ اِذْتَاَذِّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِط اِنَّ رَبََََََّکَ لَسَرِیْعُ الْْعِقَابِ وَاِنَّه لَغَفُوْرُُرَّحِیْمِ )

ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا کہ قیامت کے دن تک ان (بنی اسرائیل) پر کسی ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں سخت اور برا عذاب دیتا رہے گا یقینا تمہارا مددگار ، بہت جلد سزا دینے والا ہے اور (توبہ کرنے والوں کے لئے) بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک نکتہ:

"تاذّن" اور "اذّن" (دونوں) کا معنی اعلان کرنا ہے۔ اور قسم کے معنی کے لئے بھی آتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ خدا وند عالم کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ مجرمین کومہلت دیتاہے، لیکن جو لوگ اس کے آگے اکڑ جاتے ہیں تو انہیں سزا بھی بہت جلد دیتا ہے۔

۲ ۔ فاسد اور جابر لوگوں کا تباہکار عوام پر تسلط کبھی خدائی سزا اور ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہوا کرتا ہے۔( لیبعثن )

۳ ۔ اقوام و ملل کی تاریخ زنجیر کڑیوں کی مانند ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہے اور کسی ایک گناہ کی سزا بعض اوقات تاریخی طور پر اس قدر طوانی ہوتی ہے کہ قیامت تک چلی جاتی ہے۔( الی یوم القیامة )

۴ ۔ جو لوگ اولیاء اللہ کا منہ چیڑٓتے ہیں وہ ذلیل اور اشرار لوگ ہوتے ہیں۔( یسومهم ) ۔۔) ۵۲

۵ ۔ خداوند عالم کی پیشن گوئی یہی ہے کہ ظالم یہودی قوم ہمیشہ ذلیل اور خوار ہی رہے۔( الی یوم القیامة )

۶ ۔ توبہ کا دروازہ ہمیشہ اور ہر ایک کے واسطے کھلا ہوا ہے۔( غفور رحیم )

آیت ۱۶۸

( وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَماً مِّنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَبَلَوْْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو روئے زمین پر کئی گروہوں کی صورت میں منتشر کر دیا، ان میں سے کچھ لوگ تو نیک اور صالح ہیں اور کچھ لوگ ان کے علاوہ (ضدی اور ہٹ دھرم) ہیں۔ اور ہم نے انہیں نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ آزمایا ہے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔

ایک نکتہ:

بنی اسرائیل کو بعض اوقات عزت اور اقتدار مل جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کا شکر بجا لائیں اور بعض اوقات انہی سختیوں اور مصیبتوں میں جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں توبہ اور بازگشت کی حس بیدار ہو جائے۔ انجام کار ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ صالح بھی ہوتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو صدقہ دل سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض کم بخت قسم کے لوگ دنیا پرستی اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات انتشار ، آوارگی اور پراکندگی، خدا کے قہر و غضب کی علامتیں ہوتی ہیں اور مرکزیت اور ہمبستگی لطف خداوندی کی نشانیاں ہوتی ہیں۔( قطعناهم )

۲ ۔ انسان، آزاد ہے( منهم الصالحون ومنهم دون ذالک )

۳ ۔ کسی پر تنقید کرتے وقت اچھے لوگوں کے حق کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔( منهم الصالحون )

۴ ۔ تلخ اور شیریں واقعات خدا کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں۔( بلوناهم )

۵ ۔ تشویق و ترغیب اور تنبیہ نیز مہر اور قہر دونوں ہی انسان ساز اور تربیت کنندہ ہوتے ہیں۔( لعلهم یرجعون )

۶ ۔ انسان کی روحانی تبدیلی اور حق کی طرف اس کی بازگشت امتحان الہٰی کی حکومتوں میں سے ایک حکمت ہے۔( لعلهم رجعون )

آیت ۱۶۹

( فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوْا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰی وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُه یَاْخُذُوْهُط اَلَمْ یُوْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِط وَالدَّارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرُ لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ: پس ان کے بعد ان کی ناخلف اولاد ان کی جانشین ہوئی جو کہ آسمانی کتاب (تورات) کی وارث ہوئی (لیکن اس کی قدر کو نہ جانا) اور اس ناپائیدار دنیا کا مال و متاع سمیٹتی رہی اور (قوانین خداوندی کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ) کہتی رہی کہ ہم بہت جلد بخش دئیے جائیں گے۔ اور اگر دوسری مرتبہ بھی ان قسم کے مادی منافع ملنے لگ جائیں پھر بھی وہ اسے لے لیں (اور قوانین الہٰی کو ترک کر دیں) آیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ خد اکی طرف حق بات کے علاوہ کسی بھی چیز کی نسبت نہ دیں؟ اور ان لوگوں نے اس کتاب اور میثاق کو بارہا (درس کی صورت میں) پڑھا بھی ہے (لیکن عملی طور پر دنیا کی پرستش کی) حالانکہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں، آیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

دو نکات:

’خلف" (بروزن حرف) عام طور پر ناخلف اولاد کو کہا جاتا ہے اور "خلف" (بروزن شرف) صالح شائستہ اور لائق اولاد کو کہتے ہیں۔ (ازتفسیر نمونہ، منقول از تفسری مجمع البیان وابوالفتوح)

"عرض" (بروزن صمد) ہر قسم کے سرمائے کو کہا جاتا ہے جبکہ "عرض" (بروزن قرض) صرف نقد رقم کے لئے بولا جاتا ہے۔ چونکہ دنیا ناپائیدار ہے اسی لئے اسے عرض کہا گیا ہے۔ علامہ محسن فیض کاشانی فرماتے ہیں اس آیت میں "عرض" سے مراد "رشوت" ہے۔

پیام:

۱ ۔ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں غفلت سے کام نہ لو کہ کہیں وہ رفاہ طلب اور دنیا پرست نہ ہو جائیں!( خلف )

۲ ۔ دنیا پرستی اور دنیا داری پر انقلاب کے لئے آفت ہوا کرتی ہے۔( من بعدهم خلف )

۳ ۔ دنیا ناپائیدار ہے۔( عرض )

۴ ۔ یہودی ایک ایسی قوم تھے جو اپنے آپ پر راضی اور خوش تھے نیز بڑی ڈینگیں مارا کرتے تھے۔( سیغفر لنا ) ۵۴

۵ ۔ بے جا امید بھی بے جا خوف کی مانند خرابی پیدا کر دیتی ہے۔( سیغفرلنا )

۶ ۔ حقیقی توبہ کی علامت یہ ہے کہ اگر دوسری مرتبہ خلاف ورزی کا موقع ملے تو اس کا ارتکاب نہ کیا جائے( یاتیهم عرض مثله یاخذوه )

۷ ۔ آسمانی کتاب کا صرف جان لینا اور اس کا مطالعہ کرنا ہی کافی نہیں ساتھ ہی تقویٰ بھی ضروری ہے( ورؤا الکتاب ، درسوا، یاخذوه )

آیت ۱۷۰

( وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَط اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ )

ترجمہ: اور جو لوگ آسمانی کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں تو ہم بھی یقینا اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔

دو نکات:

قرآن کریم کا عموم قرینہ ہے کہ فاسد اور مفسد اکثریت کے ساتھ نیک اور صالح اقلیت کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔

"کتاب" کا لفظ تمام آسمانی کتابوں کو شامل ہے اور آیت کا مفہوم کسی خاص گوہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہان البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر گزشتہ آیات کو پیش نظر لایا جائے تو پھر ممکن ہے کہ اس سے مراد "تورات" ہو۔

پیام:

۱ ۔ حقیقی معنوں میں اصلاح کی دو شرائط ہیں۔ ۱ ۔ قوانین کے ساتھ مکمل تمسک ۲ ۔ نماز کے ذریعہ خداوند عالم کے ساتھ مستحکم ربط۔ (مکمل آیت کا مفہوم)

۲ ۔ آسمانی کتا ب کو پڑھنا ، اسے حفظ کرنا، اسے چھاپنا، اس کی نشر و اشاعت کرنا ہی اصلاح کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کو مضبوطی سے تھامنا یعنی اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس طرح سے نجات حاصل ہو،( یمسکون )

۳ ۔ دین یہودیت میں بھی نماز فرض چلی آئی ہے۔( اقاموالصلٰوة )

۴ ۔ اگرچہ نماز آسمانی کتاب کے مضامین کا ایک حصہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں پر اس کا خصوصیت کے ساتھ نام لیا گیا ہے۔( اقامواالصلٰوة )

۵ ۔ بے نماز اور کتاب سے بے خبر لوگ مصلح نہیں بن سکتے۔

۶ ۔ دین کے جہاں اُخروی فوائد میں وہاں پر اس دنیا میں بھی اس کی زبردست اہمیت ہے( مصلحین )

۷ ۔ نماز، معاشرے کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے( اقامواالصلٰوة ، مصلحین )

آیت ۱۶۵۔۱۶۶

( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا ِبه اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍم بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّانَهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُوْنُوْا قِرَدَةً خٰاسِئِیْنَ )

ترجمہ: پس جب انہوں نے اس یاد دہانی کو فراموش کر دیا تو ہم نے نہی عن المنکر کرنے والوں کو نجات دیدی اور ظالموں کو ان کے فسق وفجوربجالانے کے سبب سخت عذاب میں گرفتار کر دیا۔

پس جب انہو ں ے اس بات سے سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے انہیں کہا: تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ!

چند نکات:

"بئس" کا لفظ "باس" سے نکلا ہے جس کا معنی ہے "سخت"

سورہ مائدہ/ ۶۰ میں ہے کہ کچھے لوگ بندر اور سور بن گئے۔ جبکہ یہاں صرف بندر بننے کا تذکرہ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ دونوں آیات ایک ہی گروہ کے بارے میں ہیں اور آیت کا ظاہر یہی بتاتا ہے کہ وہ لوگ بندروں کی شکل میں تبدیل ہو گئے تھے بندروں کی خصلت نہیں بنائی تھی۔

روایات کے مطابق جب بنی اسرائیل کے موغطہ کرنے والوں نے دیکھا کہ ان کی نصیحت اپنی قوم میں بے اثر ہے تو وہ ان لوگوں سے جدا ہو گئے اور اسی رات عذاب الہٰی نازل ہوا جس نے گناہگاروں اور خاموشی اختیار کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (ازتفسیر نمونہ)

پیام:

۱ ۔ نہی عن المنکر اگر دوسروں کی ہدایت کا سبب نہ بن سکے، ہماری اپنی نجات کا ذریعہ ضرور ہوتا ہے۔ (( انجینا ینهون الذین )

۲ ۔ اگر عدم توجہ اور غفلت کی وجہ سے فراموشی کو اختیار کیا جائے تو اس سے سزا مل سکتی ہے۔( فلما نسوا- ) ۔۔۔۔)

۳ ۔ جوا پنے لئے موغطہ اور پندو نصیحت کے راستے بند کر دیتا ہے وہ اپنے لئے خدائی قہر و غضب کے دروازے کھول دیتا ہے( نسوا-- اخذنا )

۴ ۔ نہی عن المنکر ایک دائمی فریضہ ہے۔ (ینہون) فعل مضارع دوام و استمرار دلالت کرتا ہے،

۵ ۔ بے پروا قسم کے لوگ ظالم ہیں۔( الذین ظلموا ) اس سے پہلی آیت بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل تین گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ۱ ۔ ظالم۔ ۲ ۔ ہندونصحت کرنے والے اور ۳ ۔ لاپرواہ قسم کے لوگ جو ہر بات پر خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ اس آیت میں خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ظلم کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔( انجینا الذین ینهون عنه )

۶ ۔ بہت بڑا اور بہت سخت عذاب ، مرحلہ ان نیت سے گر جاتا ہے( عذاب بئیس ----- قردة )

۷ ۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کی صورتیں مسخ ہو جائیں اور متکبرین کی سزا یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی دھتکار دیا جائے اوران کی توہین و تحقیر کی جائے۔( عتوا، قردة خاسئین )

۸ ۔ جو قومیں قوانین الہٰی کے مقابلے میں غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بندروں کی مانند کبھی تو مشرق والوں کی ور کبھی اہل مغرب کی نقالی کرتی رہتی ہیں۔( قردة )

۹ ۔ جو لوگ حکم خداوندی کو مختلف حیلو ں بہانوں سے مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اپنے چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔ دین کے ساتھ بازیگری کرنے والے، خود ہی بازیگر جانوروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

۱۰ ۔ جو خدا صر ف ایک ہی حکم کے ساتھ ابراہیم کے لئے آگ کو گلستان بنا سکتا ہے، وہ انسان کو بندر میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔

آیت ۱۶۷

( وَ اِذْتَاَذِّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِط اِنَّ رَبََََََّکَ لَسَرِیْعُ الْْعِقَابِ وَاِنَّه لَغَفُوْرُُرَّحِیْمِ )

ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا کہ قیامت کے دن تک ان (بنی اسرائیل) پر کسی ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو انہیں سخت اور برا عذاب دیتا رہے گا یقینا تمہارا مددگار ، بہت جلد سزا دینے والا ہے اور (توبہ کرنے والوں کے لئے) بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک نکتہ:

"تاذّن" اور "اذّن" (دونوں) کا معنی اعلان کرنا ہے۔ اور قسم کے معنی کے لئے بھی آتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ خدا وند عالم کا طریقہ کار تو یہ ہے کہ مجرمین کومہلت دیتاہے، لیکن جو لوگ اس کے آگے اکڑ جاتے ہیں تو انہیں سزا بھی بہت جلد دیتا ہے۔

۲ ۔ فاسد اور جابر لوگوں کا تباہکار عوام پر تسلط کبھی خدائی سزا اور ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہوا کرتا ہے۔( لیبعثن )

۳ ۔ اقوام و ملل کی تاریخ زنجیر کڑیوں کی مانند ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہے اور کسی ایک گناہ کی سزا بعض اوقات تاریخی طور پر اس قدر طوانی ہوتی ہے کہ قیامت تک چلی جاتی ہے۔( الی یوم القیامة )

۴ ۔ جو لوگ اولیاء اللہ کا منہ چیڑٓتے ہیں وہ ذلیل اور اشرار لوگ ہوتے ہیں۔( یسومهم ) ۔۔) ۵۲

۵ ۔ خداوند عالم کی پیشن گوئی یہی ہے کہ ظالم یہودی قوم ہمیشہ ذلیل اور خوار ہی رہے۔( الی یوم القیامة )

۶ ۔ توبہ کا دروازہ ہمیشہ اور ہر ایک کے واسطے کھلا ہوا ہے۔( غفور رحیم )

آیت ۱۶۸

( وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَماً مِّنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَبَلَوْْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ )

ترجمہ: اور ہم نے بنی اسرائیل کو روئے زمین پر کئی گروہوں کی صورت میں منتشر کر دیا، ان میں سے کچھ لوگ تو نیک اور صالح ہیں اور کچھ لوگ ان کے علاوہ (ضدی اور ہٹ دھرم) ہیں۔ اور ہم نے انہیں نیکیوں اور برائیوں کے ساتھ آزمایا ہے تاکہ وہ لوٹ آئیں۔

ایک نکتہ:

بنی اسرائیل کو بعض اوقات عزت اور اقتدار مل جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کا شکر بجا لائیں اور بعض اوقات انہی سختیوں اور مصیبتوں میں جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں توبہ اور بازگشت کی حس بیدار ہو جائے۔ انجام کار ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ صالح بھی ہوتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو صدقہ دل سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض کم بخت قسم کے لوگ دنیا پرستی اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہتے ہیں۔

پیام:

۱ ۔ بعض اوقات انتشار ، آوارگی اور پراکندگی، خدا کے قہر و غضب کی علامتیں ہوتی ہیں اور مرکزیت اور ہمبستگی لطف خداوندی کی نشانیاں ہوتی ہیں۔( قطعناهم )

۲ ۔ انسان، آزاد ہے( منهم الصالحون ومنهم دون ذالک )

۳ ۔ کسی پر تنقید کرتے وقت اچھے لوگوں کے حق کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔( منهم الصالحون )

۴ ۔ تلخ اور شیریں واقعات خدا کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں۔( بلوناهم )

۵ ۔ تشویق و ترغیب اور تنبیہ نیز مہر اور قہر دونوں ہی انسان ساز اور تربیت کنندہ ہوتے ہیں۔( لعلهم یرجعون )

۶ ۔ انسان کی روحانی تبدیلی اور حق کی طرف اس کی بازگشت امتحان الہٰی کی حکومتوں میں سے ایک حکمت ہے۔( لعلهم رجعون )

آیت ۱۶۹

( فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوْا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰی وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُه یَاْخُذُوْهُط اَلَمْ یُوْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِط وَالدَّارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرُ لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ )

ترجمہ: پس ان کے بعد ان کی ناخلف اولاد ان کی جانشین ہوئی جو کہ آسمانی کتاب (تورات) کی وارث ہوئی (لیکن اس کی قدر کو نہ جانا) اور اس ناپائیدار دنیا کا مال و متاع سمیٹتی رہی اور (قوانین خداوندی کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ) کہتی رہی کہ ہم بہت جلد بخش دئیے جائیں گے۔ اور اگر دوسری مرتبہ بھی ان قسم کے مادی منافع ملنے لگ جائیں پھر بھی وہ اسے لے لیں (اور قوانین الہٰی کو ترک کر دیں) آیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ خد اکی طرف حق بات کے علاوہ کسی بھی چیز کی نسبت نہ دیں؟ اور ان لوگوں نے اس کتاب اور میثاق کو بارہا (درس کی صورت میں) پڑھا بھی ہے (لیکن عملی طور پر دنیا کی پرستش کی) حالانکہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں، آیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

دو نکات:

’خلف" (بروزن حرف) عام طور پر ناخلف اولاد کو کہا جاتا ہے اور "خلف" (بروزن شرف) صالح شائستہ اور لائق اولاد کو کہتے ہیں۔ (ازتفسیر نمونہ، منقول از تفسری مجمع البیان وابوالفتوح)

"عرض" (بروزن صمد) ہر قسم کے سرمائے کو کہا جاتا ہے جبکہ "عرض" (بروزن قرض) صرف نقد رقم کے لئے بولا جاتا ہے۔ چونکہ دنیا ناپائیدار ہے اسی لئے اسے عرض کہا گیا ہے۔ علامہ محسن فیض کاشانی فرماتے ہیں اس آیت میں "عرض" سے مراد "رشوت" ہے۔

پیام:

۱ ۔ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں غفلت سے کام نہ لو کہ کہیں وہ رفاہ طلب اور دنیا پرست نہ ہو جائیں!( خلف )

۲ ۔ دنیا پرستی اور دنیا داری پر انقلاب کے لئے آفت ہوا کرتی ہے۔( من بعدهم خلف )

۳ ۔ دنیا ناپائیدار ہے۔( عرض )

۴ ۔ یہودی ایک ایسی قوم تھے جو اپنے آپ پر راضی اور خوش تھے نیز بڑی ڈینگیں مارا کرتے تھے۔( سیغفر لنا ) ۵۴

۵ ۔ بے جا امید بھی بے جا خوف کی مانند خرابی پیدا کر دیتی ہے۔( سیغفرلنا )

۶ ۔ حقیقی توبہ کی علامت یہ ہے کہ اگر دوسری مرتبہ خلاف ورزی کا موقع ملے تو اس کا ارتکاب نہ کیا جائے( یاتیهم عرض مثله یاخذوه )

۷ ۔ آسمانی کتاب کا صرف جان لینا اور اس کا مطالعہ کرنا ہی کافی نہیں ساتھ ہی تقویٰ بھی ضروری ہے( ورؤا الکتاب ، درسوا، یاخذوه )

آیت ۱۷۰

( وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَط اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ )

ترجمہ: اور جو لوگ آسمانی کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں تو ہم بھی یقینا اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔

دو نکات:

قرآن کریم کا عموم قرینہ ہے کہ فاسد اور مفسد اکثریت کے ساتھ نیک اور صالح اقلیت کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔

"کتاب" کا لفظ تمام آسمانی کتابوں کو شامل ہے اور آیت کا مفہوم کسی خاص گوہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہان البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر گزشتہ آیات کو پیش نظر لایا جائے تو پھر ممکن ہے کہ اس سے مراد "تورات" ہو۔

پیام:

۱ ۔ حقیقی معنوں میں اصلاح کی دو شرائط ہیں۔ ۱ ۔ قوانین کے ساتھ مکمل تمسک ۲ ۔ نماز کے ذریعہ خداوند عالم کے ساتھ مستحکم ربط۔ (مکمل آیت کا مفہوم)

۲ ۔ آسمانی کتا ب کو پڑھنا ، اسے حفظ کرنا، اسے چھاپنا، اس کی نشر و اشاعت کرنا ہی اصلاح کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کو مضبوطی سے تھامنا یعنی اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس طرح سے نجات حاصل ہو،( یمسکون )

۳ ۔ دین یہودیت میں بھی نماز فرض چلی آئی ہے۔( اقاموالصلٰوة )

۴ ۔ اگرچہ نماز آسمانی کتاب کے مضامین کا ایک حصہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں پر اس کا خصوصیت کے ساتھ نام لیا گیا ہے۔( اقامواالصلٰوة )

۵ ۔ بے نماز اور کتاب سے بے خبر لوگ مصلح نہیں بن سکتے۔

۶ ۔ دین کے جہاں اُخروی فوائد میں وہاں پر اس دنیا میں بھی اس کی زبردست اہمیت ہے( مصلحین )

۷ ۔ نماز، معاشرے کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے( اقامواالصلٰوة ، مصلحین )


46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88