مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)0%

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف: شیخ عباس بن محمد رضا قمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 185231
ڈاؤنلوڈ: 11064

تبصرے:

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 170 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185231 / ڈاؤنلوڈ: 11064
سائز سائز سائز
مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو)

مؤلف:
اردو

(چھٹا باب)

بعض سورتوں اور آیتوں کے خواص اور دیگر دعائیں اور اعمال۔

یہ باب چالیس امور پر مشتمل ہے :

(پہلا امر)

شیخ کلینی نے کافی میں امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ جوشخص سونے سے پہلے سورہ ہائے مسبحات یعنی سورہ حدید‘ حشر‘صف ‘جمعہ‘ تغابن اور اعلی کی تلاوت کرکے سوئے تو وہ حضرت امام العصر - کی زیارت سے مشرف ہوئے بغیر نہیں مرے گا اور بغیر زیارت کئے مر جائے تو وہ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوار میں رہے گا۔

(دوسرا امر)

اسی کتاب میں ہے کہ رسول ﷲ نے فرمایا جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیات اور سورہ بقرہ کی آخری تین آیات تلاوت کیا کرے تو وہ اپنی جان و مال میں ایسی کوئی بات نہیںدیکھے گا جو اسے ناگوار گزرے شیطان اس کے قریب نہ پھٹکے گا اور نہ قرآن کو فراموش کرے گا۔

(تیسرا امر)

شیخ کلینیرحمه‌الله نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ جو شخص سورہ قدر کو بآواز بلند پڑھے گا وہ ایسے ہوگا جیسے بے نیام تلوار سے راہ خدا میں جہاد کررہا ہو جو اس سورت کو آہستہ سے پڑھے گا وہ ایسے ہو گا جیسے راہ خدا میں اپنے خون میں ڈوبا ہوا ہو۔ نیزجو شخص اس سورت کو دس مرتبہ پڑھے گا تو ﷲ تعالی اس کے گناہوں میں سے ایک ہزار گناہ مٹا دے گا۔

(چوتھا امر)

شیخ کلینی نے بھی امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا .میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ سورہ اخلاص قرآن کا تیسرا حصہ ہے اور سورہ کافرون قرآن کا چوتھا حصہ ہے ۔

(پانچواں امر)

امام موسی کاظم - سے منقول ہے کہ جو شخص آیتہ الکرسی پڑھ کر سوئے تو فالج کے حملے سے محفوظ رہے گاانشائ ﷲ اور جو شخص اسے ہر فریضہ نماز کے بعد پڑھے تو زہریلا حیوان اس تک نہ پہنچ سکے گانیز فرمایا کہ جو شخص سورہ اخلاص کو اپنے اور ظالم شخص کے درمیان پڑھے گا تو حق تعالی اسے اس کے شر سے محفوظ رکھے گااس سورہ کو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں پڑھے اور پھر اس ظالم و جابر کے سامنے جائے تو ﷲ تعالی اسے اس کی طرف سے اچھائی دکھائے گااور اس کی برائی سے بچائے گا‘یہ بھی فرمایا کہ جب تمہیں کسی بات کا خطرہ ہو تو قرآن مجید کی کوئی سی سو آیات پڑھو اور پھر تین مرتبہ کہو:

اکْشِفْ عَنِّی الْبَلائَ

اے معبود میری مصیبت دور کر دے

(چھٹا امر)

شیخ کلینی نے امام جعفرصادق - سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا جو شخص خدا اورروز قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہر فریضہ نماز کے بعد سورہ اخلاص کا پڑھنا ترک نہ کرے جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد اس سورے کو پڑھے تو خدائے تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی جمع کر دے گا اور اس کو اس کے والدین اور اس کی اولاد کو بخش دے گا۔

(ساتواں امر)

آپعليه‌السلام ہی سے روایت ہے کہ جو شخص سوتے وقت سورہ تکاثر کی تلاوت کرے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ و مامون رہے گا ۔

(آٹھواں امر)

آپعليه‌السلام ہی سے روایت ہے کہ اگر مردہ پر ستر مرتبہ سورہ حمد پڑھی جائے اور اس کی روح پلٹ آئے تو تعجب نہیں کرنا چاہیے

(نواں امر)

امام موسیٰ کاظم - سے روایت ہے کہ بچے پر ہر رات تین مرتبہ سورہ فلق تین مرتبہ سورہ والناس اور سو مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے اگر سورہ توحید سو مرتبہ نہ پڑھی جاسکے تو پچاس مرتبہ پڑھے اور اگر اس امر کی پابندی کی جائے تو وہ بچہ مرتے دم تک ہر قسم کی آفات سے امن میں رہے گا۔

(دسواں امر)

شیخ کلینی ہی نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے مفضل سے فرمایا اے مفضل تم خود کو تمام لوگوں سے بچائے رکھو بسم ﷲ الرحمن الرحیم اور سورہ توحید کے ساتھ وہ یوں کہ تم یہ سورہ پڑھ کر اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے دم کر لیا کرو جب تم کسی جابر حاکم کے پاس جاؤ تو اسے دیکھتے ہی بائیں ہاتھ پر شمار کرتے ہوئے تین مرتبہ یہ سورہ پڑھو اور جب تک تم اس کے پاس رہو اپنے بائیں ہاتھ کی مٹھی کو بند رکھو جب باہر آ جاؤ تو اسے کھول دو بعض نے کہا ہے کہ جب تک اس کے پاس رہو یہ سورہ پڑھتے رہو ۔

(گیارہوں امر)

ایک حدیث میں حضرت امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ آگ میں جلنے اور پانی میں ڈوبنے سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھے:

ﷲ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتابَ وَهُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِینَ وَمَا قَدَرُوا ﷲ حَقَّ قَدَرِهِ وَالْاََرْضُ جَمِیعاً

وہی ﷲ ہے جس نے قرآن نازل کی وہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے لوگوں نے خدا کی وہ قدر نہیں کی جو اسکا حق ہے ساری زمین اسکے قبضہ

قَبْضَتُهُ یَوْمَ الْقِیامَةِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّات بِیَمِینِهِ سُبْحانَهُ وَتَعال عَمَّا یُشْرِکُون

قدرت میں ہے روز قیامت اور آسمان بھی لپیٹے ہوئے اسکے دست قدرت میں ہیںوہ پاک و بلند ہے اس سے جسے اسکا شریک بناتے ہیں ۔

(سر کش گھوڑے کو مطیع کرنے کیلئے اس کے دائیں کان میں کہے:)

وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ طَوْعاً وَکَرْهاً وَ إلَیْهِ یُرْجَعُونَ

اور خدا کے سامنے جھکے ہوئے ہیں وہ سبھی جو آسمانوں اور زمین میں ہیںچارو ناچار اور اس کی طرف پلٹ جائیں گے۔

(درندوں کی سرزمین میں ان کی گزند سے بچنے کے لیے یہ پڑھے:)

لقد جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ

یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آ چکا ہے کہ تم پر آنے والی سختی اسے ناگوار ہے وہ تمہیں

عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَحِیمٌ، فَ إنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ

بہت چاہتا ہے مومنوں کیلئے نرم خو مہربان ہے پس اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہو کہ مجھے کافی ہے

ﷲ لاَ إلهَ إلاَّ هُوَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ

ﷲ مگر نہیں معبود مگر وہی میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے ۔

(گمشدہ بازیابی کے لیے دو رکعت نماز میں سورہ یٰسین پڑھے اور بعد میں یہ کہے:)

یَا هادِیَ الضَّالَّةِ رُدَّ عَلَیَّ ضالَّتِی

اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے میری گمشدہ چیز مجھے لا دے ۔

(بھاگے ہوئے غلام کی واپسی کیلیے پڑھے:)

أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لُجِّیٍّ یَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْج الی قول عز وجل

یا جیسے گہرے سمندر میں تاریکیاں کہ ا نہیں ڈھانپتی ہے پانی کی ایک کے بعد دوسری لہر

وَمَنْ لَمْ یَجْعَلِ ﷲ لَهُ نُوراً فَمَا لَهُ مِنْ نُور

اور جسے خدا نور عطا نہ کرے تو اس کے لیے کوئی نور نہیں ہوتا۔

(چور سے بچنے کے لیے بستر پر سوتے وقت پڑھے:)

قُلْ ادْعُوا ﷲ أَوِ ادْعُو الرَّحْمٰنَ تا وَکَبِّرْهُ تَکْبِیراً

کہہ دو کہ ﷲ کو پکارو یا رحمن کو پکارو اوراس کی بہت بڑائی کرو

(بارھواں امر)

شیخ کلینی نے امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایاسورہ زلزال کے پڑھنے میں تنگی محسوس نہ کرو کیونکہ جو شخص اسے نوافل میں پڑھے تو حق تعالی اسے زلزلے سے نقصان نہ پہنچنے دے گا۔ اور وہ مرتے دم تک زلزلے‘بجلی اور ہر قسم کی آفا ت سے محفوظ رہے گانیز اس شخص کی موت کے وقت ایک خوش جمال فرشتہ اس کے پاس آئے گاجو اس کے سرہانے بیٹھے گااور ملک الموت سے کہے گااے ملک الموت ﷲ تعالیٰ کے اس دوست کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو تاآخر روایت کہ مذکور ہے ۔اس وقت اس شخص کی آنکھوں سے پردے ہٹائے جائیں گے اور وہ جنت میں اپنی منزلوں کو دیکھ لے گا پھر بڑی سہولت کے ساتھ اس کی روح قبض کی جائے گی۔ سترہزار فرشتے اس کے جنازے کے پیچھے چلیں گے اور اسے سیدھا جنت میں لے جائیں گے ۔

(تیرھواں امر)

شیخ کلینی نے ہی امام محمدباقر - سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایاسورہ ملک ’’سورہ مانعہ ‘‘ ہے یعنی عذاب قبر کو روکتی ہے ۔

(چودھواں امر)

آنجنابعليه‌السلام ہی سے روایت ہے کہ قرآن مجید کا ایک نسخہ دریا میں گر گیا اور جب اسے وہاں سے نکالا گیا تو اس کے تمام کلمات میں سے صرف یہ جملہ باقی تھا۔

أَلا إلَی ﷲ تَصِیرُ الْاَُمُور

خبر دار ہو کہ تمام معاملوں کی بازگشت ﷲ کی طرف ہے ۔

(پندرھواں امر)

شیخ کلینی نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ماہ رمضان کی دوسری تہائی میں قرآن کو کھول کر اپنے آگے رکھے اور پھر یہ کہے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِکِتابِک الْمُنْزَلِ وَمَا فِیهِ وَفِیهِ اسْمُکَ الْاََعْظَمُ الْاََکْبَرُ وَأَسْمَاؤُکَ

اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بواسطہ تیری نازل کردہ کتاب کے اور جو اس میں ہے اس میں تیرا سب سے عظیم سب سے بڑا نام ہے

الْحُسْنَی وَمَا یُخافُ وَیُرْجَی أَنْ تَجْعَلَنِی مِنْ عُتَقائِکَ مِنَ النَّارِ

اور تیرے اچھے اچھے نام ہیں وہ چیز بھی جس سے خوف وامید ہے میرا سوال ہے کہ تو مجھے اپنے جہنم سے آزاد کردہ لوگوں میں رکھ۔

اس کے بعد خدا سے اپنی دیگر حاجات طلب کرے۔

(سولھواں امر)

شیخ کفعمی مصباح میں اور محدث فیض خلاصۃ الاذکار میں فرماتے ہیں میں نے بعض کتب امامیہ میں دیکھا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ خواب میں پیغمبر یاامامعليه‌السلام کی زیارت کرے یا اپنے کسی رشتہ دار یا اپنے والدین کو خواب میں دیکھے تو وہ باوضو ہو کر اپنے بستر پر دائیں پہلو پر لیٹے اور سورہ ہائے شمس‘لیل‘قدر‘کافرون‘ اخلاص‘ فلق اور والناس کی تلاوت کرنے کے بعد سومرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور سو مرتبہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پردرود بھیجے اور پھر دائیں پہلو سوجائے تو جس کا بھی ارادہ کیا ہو گاانشائ ﷲ اسے خواب میں دیکھے گااور اس سے جو بات کرناچاہے وہ بھی کر پائے گا ایک اور نسخے میں دیکھا گیا ہے کہ یہ عمل سات راتوں تک بجا لائے اور مذکورہ سورتیں پڑھنے سے قبل یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْحَیُّ الَّذِی لاَ یُوصَفُ وَالْاِیمانُ یُعْرَفُ

اے معبود تو وہ زندہ ہے جسکا وصف بیان نہیں ہو سکتا وہی جس سے ایمان کی معرفت ہوئی تجھی سے

مِنْهُ، مِنْکَ بَدَتِ الْاََشْیائُ وَ إلَیْکَ تَعُودُ فَمَا أَقْبَلَ مِنْها

چیزوں کا آغاز ہوا اور وہ تیری طرف پلٹ جائیں گی پس جو تیری طرف آئے گا

کُنْتَ مَلْجَأَهُ وَمَنْجاهُ وَما أَدْبَرَ مِنْها لَمْ یَکُنْ لَهُ مَلْجَأٌ وَلاَ مَنْجَیً مِنْکَ إلاَّ

تو اس کو پناہ و نجات دے گا اور جو منہ پھیرے گااسکے لئے نہ تجھ سے پناہ ہے نہ نجات مگر تیری مگر تیری طرف سے

إلَیْکَ فأَسْأَلُکَ بِلا إلهَ إلاَّ أَنْتَ وأَسْأَلُکَ بِبِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ

پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے بر حق معبود ہو نے کے واسطے سے سوال کرتا ہوں بسم ﷲ الرحمن الرحیم کے واسطے سے

وَبِحَقِّ حَبِیبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی ﷲ عَلَیْهِ وَآلِهِ سَیِّدِ النَّبِیِّینَ وَبِحَقِّ عَلِیٍّ خَیْرِ

اور تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی ﷲعلیہ وآلہ کے حق کے واسطے سے جو نبیوں کے سردار ہیں اور اوصیا میں

الْوَصِیِّینَ وَبِحَقِّ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ وَبِحَقِّ الحَسَنِ

بہترحضرت علیعليه‌السلام کے حق کے واسطے سے تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہعليه‌السلام کے حق اور حسنعليه‌السلام

وَالحُسَیْنِ اللَّذَیْنِ جَعَلْتَهُما سَیِّدَیْ شَبابِ أهْلِ الجَنَّةِ عَلَیْهِمْ

و حسینعليه‌السلام کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ دونوں کو تو نے جوانان جنت کاسردار قرار دیا ہے ان سب

أجْمَعِینَ اَلسَّلَامُ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تُرِیَنِی مَیِّتِی فِی

پر درود و سلام ہو کہ تو رحمت نازل فرما محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور یہ کہ مجھے دکھا دے میرا فلاں مردہ

الْحالِ الَّتِی هُوَ فِیها

اس حال میں کہ جس میں وہ ہے ۔

(سترھواں امر)

خلاصۃ الاذکار میں ہے بعض کتب میں منقول ہے کہ میں نے محمد بن جریرطبری کی کتاب آداب الحمیدہ میں دیکھا ہے کہ حارث بن روح اپنے والد سے ناقل ہیں کہ میرے والد نے اپنی اولاد سے فرمایاکہ جب کوئی معاملہ تمہیں غمزدہ کرے تو تم میں سے ہرشخص اس طرح رات بسر کرے کہ پاکیزہ ہو کر پاک صاف بستر میں اپنی بیوی سے الگ ہو کے سوئے اور سوتے وقت سات مرتبہ سورہ شمس اور سات مرتبہ سورہ لیل پڑھے اور پھر کہے :

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ لِی مِنْ أَمْرِی هذَا فَرَجاً وَمَخْرَجاً

اے معبود تو میرے لئے اس معاملے کے سلجھانے اور اس سے نکلنے کا راستہ بنا دے۔

چنانچہ جب کوئی شخص یہ عمل کرے گاتو اسی شب ایک فرد خواب میں اس کے پاس آئے گا یا تیسری یا پانچویں رات اور میرا خیال ہے کہ ساتویں رات میں آنے کا بھی کہا ہے پس وہ شخص اسے اس مشکل سے نکلنے کا طریقہ بتائے گا۔

اپنے مدعا کو خواب میں دیکھنے کا دستور العمل

مؤلف کہتے ہیں بعض بزرگوں نے سورہ والضحی اور سورہ الم نشرح کے پڑھنے کا بھی ذکر کیا ہے ۔جواہر المنثورہ میں ہے کہ جو شخص اپنا مدعا خواب میں دیکھنا چاہے تو وہ سوتے وقت سات سات مرتبہ یہ سورتیں پڑھے’’ سورہ شمس‘ واللیل‘ والتین‘اخلاص‘ فلق‘ والناس ‘‘ پھر حالت وضو میں پاک لباس میں پاک جگہ پر قبلہ رخ ہو کر دائیں پہلو پر لیٹے جیسے میت کو قبر میں لٹایا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اپنے مقصد کے حصول کی نیت کرکے سو جائے اگر پہلی رات کوئی صورت نظر نہ آئے تو اس کے بعد کی راتوں میں ضرور نظر آجائے گی اور سات راتوں سے زیادہ وقت نہیں لگے گا نیز کہا جاتا ہے کہ یہ عمل مجرب ہے ۔

(اٹھارواں امر)

خلاصۃ الاذکار میں فاطمہ الزہرا = سے روایت ہے کہ میں سونے کے لئے بستر بچھا رہی تھی کہ میرے والد گرامی محمد مصطفی تشریف لائے اور فرمایا اے فاطمہعليه‌السلام اس وقت تک نہ سوناجب تک چار عمل بجا نہ لاؤ ( ۱ )قرآن مجید کا ختم کرلو ( ۲ )انبیائ کو اپنا شفیع بنا لو ( ۳ )مومنین کو خود سے راضی کر لو۔

( ۴ )حج اور عمرہ کو بجا لاؤ۔

اس ارشاد کے بعد آنحضرت نماز میں مشغول ہو گئے پس میں نے نما ز سے آپ کے فارغ ہو نے کا انتظار کیا اور جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے چار چیزوں کا حکم دیا ہے لیکن یہ تو میرے بس سے باہر ہے کہ اسی وقت ان سب چیزوں کو بجا لاؤ؟تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا جب تم تین مرتبہ سورہ توحید پڑھو گی تو گویا قرآن ختم کیا‘جب مجھ پر اور مجھ سے پہلے انبیاعليه‌السلام ئ پر صلوات بھیجو گی تو ہم سبھی انبیاعليه‌السلام قیامت میں تمہارے شفیع بن جائیں گے جب تمام مؤمنین کے لئے مغفرت طلب کرو گی تو سب تم سے راضی ہو جائیں گے اور جب

سُبْحانَ ﷲ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلاَ إلهَ إلاَّ ﷲ، وَﷲ أَکْبَرُ

پاک ہے ﷲ تو حمد ﷲ ہی کیلئے نہیں کوئی معبود مگر ﷲ اور جب ﷲ بزرگ تر ہے۔

کہو گی تو حج و عمرہ بجا لاؤ گی ۔

مؤلف کہتے ہیں کفعمی نے روایت نقل کی ہے کہ جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ

یَفْعَلُ ﷲ مَا یَشائُ بِقُدْرَتِهِ وَیَحْکُمُ مَا یُرِیدُ بِعِزَّتِهِ

خدا جو چاہتا ہے اپنی قدرت سے انجام دیتا ہے اور جو ارادہ ہو اپنی عزت سے اس کا حکم جاری کرتا ہے۔

کہے گا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ہزار رکعت نماز ادا کی ہو ۔

(انیسواں امر)

خلاصۃ الاذکار ہی میں مذکور ہے کہ وقت مطالعہ یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ أَخْرِجْنِی مِنْ ظُلُماتِ الْوَهْمِ وَأَکرِمْنِی بِنُورِ الْفَهْمِ اَللّٰهُمَّ

اے معبودتو مجھ کو وہم کی تاریکیوں سے نکال اور عقل و فہم کے نور سے مجھے شرف عطا فرمااے معبود تو

افْتَحْ عَلَیْنا أَبْوابَ رَحْمَتِکَ، وَانْشُرْ عَلَیْنا خَزایِنَ عُلُومِکَ

ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اپنے علوم کے خزانے ہم پر نچھاور کردے اپنی

بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

رحمت کے ساتھ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

(بیسوا ں امر)

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام محمد تقی - کی خدمت میں عریضہ بھیجاکہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں آنجنابعليه‌السلام نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو اور اپنی زبان کو سورہ انا انزلنا ہ کی تلاوت کے ساتھ ہمیشہ تر رکھو۔

(اکیسواں امر)

ایک حدیث میں وارد ہے کہ مفضل نے امام جعفر صادق - کی خدمت میں سانس پھولنے کی شکایت کی اور بتایا کہ میں تھوڑی دور تک چلتاہوں تو سانس رکنے لگتی ہے اور میں دم لینے کو بیٹھ جاتا ہوں حضرتعليه‌السلام نے فرمایا کہ تم اونٹ کا پیشاب پیو تو یہ تکلیف دور ہو جائیگی ایک اور حدیث میں ہے۔

کہ کسی شخص نے آنجنابعليه‌السلام سے کھانسی کی شکایت کی تو آپعليه‌السلام نے فرمایا کہ انجدان رومی اور اس کے ہم وزن مصری لے کر ان کا سفوف بنالو اور ایک دوروز تک اسے کھاؤ اس شخص کا کہنا ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تو کھانسی دور ہو گئی

(بائیسواں امر)

امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ کا ایک شہر سے گزر ہوا جس کے تمام باشندوں کا رنگ زرد اور آنکھیں نیلی ہو چکی تھیں انہوں نے آپعليه‌السلام سے بہت سی بیماریوں کی شکایت کی تو آپعليه‌السلام نے فرمایاتم گوشت کو دھوے بغیر پکاتے ہو جب کہ کوئی بھی جانور اس دنیا سے نہیں جاتا جو حالت جنابت میں نہ ہو یہ سن کر ان لوگوں نے گوشت کو دھو کر پکانا شروع کر دیا اور ان کی تمام بیماریاں جاتی رہیں حضرت عیسٰی- ایک اورشہر سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کے دانت گر چکے تھے اور چہرے سوجے ہوئے تھے آپعليه‌السلام نے ان سے فرمایا کہ تم سوتے وقت ایک مرتبہ اپنا منہ کھول کے پھر اسے بند کر کے سویا کرو پس انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور ان کی یہ بیماری دور ہو گئی ۔

( تیئسواں امر )

امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ جب تم کسی مصیبت زدہ کو دیکھو تو نہایت دھیمی آواز میں جسے وہ سن نہ سکے تین مرتبہ کہو :

الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی عافانِی مِمَّا ابْتَلاکَ بِهِ وَلَوْ شائَ فَعَلَ

حمد ہے اس ﷲ کیلئے جس نے مجھے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اگر وہ چاہتا تو ایسا کر دیتا۔

جو ایسا کرے وہ اس بلائ میں مبتلا نہ ہوگا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نہایت دھیمی آواز میں جسے وہ سن نہ سکے تین مرتبہ یہ کہو:

الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی عافانِی مِمَّا ابْتَلاکَ بِهِ وَفَضَّلَنِی عَلَیْکَ وَعَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ

حمد اس ﷲ کیلئے جس نے مجھے بچایا جس نے تجھے مبتلا کیا اور مجھے تجھ پر اور اپنی بہت سی مخلوق پر بڑھائی دی ہے

(چوبیسواں امر)

امام جعفر صادق - کا ارشاد ہے کہ جب تمہاری زوجہ حاملہ ہو اور حمل پر چار مہینے گزر چکے ہوں تو اپنا منہ قبلہ رخ کر کے آیۃ الکرسی پڑھو اور پھر اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کر کہواَللّٰهُمَّ اِنِّی سَمْیِتَه، مُحَمَّد یعنی (اے معبود میں نے اس بچے کا نام محمد رکھا ہے) پس جو شخص بھی یہ عمل کرے گا ﷲ تعالی اسے بیٹا عطا فرمائے گا اگر وہ اس کا نام محمد رکھے گا تو وہ بچہ بڑا مبارک ہو گا اور اگر یہ نام نہیں رکھے گا تو خدا چاہے تو یہ بچہ اس سے لے لے گا اور چاہے تو اس کے پاس رہنے دے گا ۔

( پچیسواں امر)

روایت ہوئی ہے کہ عقیقہ کی بھیڑ بکری مینڈھا یا بکرا ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

بِسْمِ ﷲ وَبِالله اَللّٰهُمَّ عَقِیقَةٌ عَنْ فُلانٍ

خدا کے نام خدا کی ذات سے اے معبود یہ عقیقہ فلاں کی طرف سے ہے

فلاں کی جگہ اس بچے کانام لیں۔

لَحْمُها بِلَحْمِهِ وَدَمُها بِدَمِهِ وَعَظْمُها بِعَظْمِهِاَللّٰهُمَّ اجْعَلْها

اس کا گوشت اس کے گوشت کا اسکا خون اسکے خون کا اسکی ہڈیاں اسکی ہڈیوں کا بدلہ ہے اے معبود تو اسے

وِقائً لاَِلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِ وَآلِهِ السَّلام

آل محمد کیلئے حفاظت کا ذریعہ بنا ان پر اور ان کی آل پر سلام ہو۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ یہ دعا پڑھے:

یَا قَوْمِ إنِّی بَرِیئٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ إنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لَلَّذِی فَطَرَ

اے میری قوم میں بری ہوں اس سیجسے تم خدا کا شریک بناتے ہو میں نے اپنا رخ اس کی طرف کیا

السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضَ حَنِیفاً مُسْلِماً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ

ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا میں نرا کھرا مسلمان ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں

إنَّ صَلاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیایَ وَمَماتِی لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِینَ لاَ

ہوں یقینا میری نماز میری عبادت میری زندگی میری موت ﷲ کیلئے ہے جوجہانوں کا رب ہے جس کا

شَرِیکَ لَهُ وَبِذلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ

کوئی شریک نہیں یہی حکم مجھے دیا گیا ہے اور میں سر جھکانے والوں میں سے ہوں اے خدا تیرے لئے اور تجھ سے ہے خدا کے

ﷲ وَبِالله وَاللّهُ أَکْبَرُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَتَقَبَّلْ مِنْ فُلانِ ابْنِ فُلان

نام خدا کے ساتھ اور ﷲ بزرگ تر ہے اے معبود رحمت نازل فرمامحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور فلاں ابن فلاں سے قبول فرما۔

(یہاں بچے کا نام بمعہ ولدیت کے لے)پھر جانور کو ذبح کرے

(عقیقہ کابیان )

علامہ مجلسی فرماتے ہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اولاد کا عقیقہ کرنا سنت موکدہ ہے ہر اس شخص پر جو اس کیلئے وسعت رکھتا ہے اور بعض علمااسے واجب جانتے ہیں بہتر ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اگر اس میں تاخیر ہو جائے تو بچے کے بالغ ہونے سے قبل تک تو اس کے باپ پر سنت ہے اور اس کے بعد خود اس بچے پر آخر عمر تک سنت ہے بہت سی معتبر احادیث میں وارد ہے کہ جس شخص کو اولاد عطا ہو اس پر عقیقہ واجب ہے اور اکثر حدیثوں میں منقول ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہے یعنی اگر اس کا عقیقہ نہیں کیا جائے گا تو اس کے مر جانے یا طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جو شخص مالدار ہو اس پر عقیقہ واجب ہے اور جو مفلس ہے جب مالدار ہو جائے تو عقیقہ کرلے ورنہ اس کے ذمہ کچھ نہیں ہے اگر والدین بچے کا عقیقہ نہ کریں لیکن پھر جب اس کی طرف سے قربانی کریں تو وہی کافی ہو جاتی ہے ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق - سے پوچھا گیا کہ عقیقہ کے لیے جانور کی بہت تلاش کی ہے لیکن مل نہیں سکا پس آپعليه‌السلام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اس کی قیمت صدقہ کردی جائے آپعليه‌السلام نے فرمایا پھرتلاش کرو اور کہیں سے حاصل کرو کیونکہ حق تعالی خون بہانے اور کھانا کھلانے کو دوست رکھتا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ امامعليه‌السلام سے پو چھا گیا کہ جو بچہ پیدائش کے ساتویں دن مرجا ئے تو کیا اس کاعقیقہ کرنا واجب ہے؟ فرمایا کہ اگر ظہر سے پہلے فوت ہوتو نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر ظہر کے بعد فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ کرنا چاہیے ایک معتبر حدیث میں عمر بن یزید سے منقول ہے کہ اس نے امامعليه‌السلام کی خدمت میں عرض کیا مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد نے میرا عقیقہ کیا ہے کہ نہیں؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا تم اپنا عقیقہ خود کروپس اس نے بڑھاپے میں اپنا عقیقہ کیا حدیث حسن میں آپعليه‌السلام ہی سے منقول ہے کہ ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے عقیقہ کیا جائے اس کا سر منڈوایا جائے اور سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کی جائے عقیقہ کے جانور کے ران اور پایے دایہ کو دیے جائیں کہ جس نے بچے کی پیدائش میں خدمت انجا م دی ہے باقی گوشت لوگوں کو کھلایا جائے اور تصدق کیا جائے ایک اور موثق حدیث میں فرماتے ہیں جب تمہارے ہاں لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو ساتویں دن اس کا عقیقہ کرواس کا نام رکھو اور اس کا سر منڈوا دو اور اسی روز اس کے سر کے بالوں کے برابر سونا چاندی صدقہ کر دوعقیقہ کا جانور گوسفند یا اونٹ ہو ایک اور حدیث میں ہے کہ عقیقہ کے گوشت کا چوتھا حصہ دایہ کو دیا جائے اگر بچہ دایہ کے بغیر پیدا ہو اہے تو وہ گوشت بچے کی ماں کو دیا جائے وہ جسے چاہے دے دے عقیقہ کا گوشت کم ازکم دس مسلمانوں کو کھلایا جائے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو بہتر ہے لیکن یاد رہے کہ عقیقہ کے گوشت سے خود نہ کھائے اور دایہ اگر عیسائی ہے تو اسے چوتھائی گوشت کے بدلے اس کی قیمت دے دی جائے ایک اور روایت میں ہے کہ دایہ کو عقیقہ کے گوشت کی ایک تہائی دی جائے اور علمائ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ عقیقہ کا جانور اونٹ‘ بھیڑ یا بکری ہو نی چاہیے .امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ حضرات حسنین شریفین کی ولادت کے وقت رسول خدا نے ان کے کانوں میں اذان دی حضرت فاطمہ الزہرا = نے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا اور دایہ کو اس کے پائے اور ایک اشرفی عطا کی .ضروری ہے کہ عقیقہ کا جانور اگر اونٹ ہے توپانچ سال کا یا چھٹے سال میں یا اس سے زیادہ عمر کا ہو اگر بکری ہے تو ایک سال کی یا دوسرے سال میں یا اس سے زیادہ عمر کی ہو اور اگر بھیڑ ہے تو کم از کم چھ یا سات ماہ کی ہو نی چاہیے اور سات ماہ پورے ہو چکے ہوں تو بہتر ہے نیز جانور خصی نہ ہونا چاہیے اور سینگ ٹوٹا‘ کان کٹا‘ لاغر‘ اندھا اور لولاا لنگڑا نہ ہونا چاہیے اور اگر لنگڑا ہو تو ایسا نہ کہ چل پھر نہ سکے۔یاد رہے کہ امام جعفر صادق - کے فرمان کے مطابق عقیقہ کا شمار قربانی میں نہیں ہوتا جو بھی گوسفندمل جائے بہتر ہے ‘اصل چیز تو گوشت ہے اور جانور جتنا موٹا تازہ ہو مناسب ہے علمائ میں مشہور قول یہ ہے کہ لڑکے کیلئے عقیقہ کا جانور اور لڑکی کیلئے مادہ ہونا چاہیے اور یہ حقیر مؤلف گمان کرتا ہے کہ دونوں کے لئے نرجانور ہو تو بہتر ہے اور یہ بات بہت سی معتبر حدیثوں سے مطابقت رکھتی ہے تاہم دونوں کیلئے مادہ جانور ہو نے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے سنت یہ ہے کہ بچے کے والدین عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ جو چیز اس میں پکائی جائے وہ بھی نہ کھائیں اور بچے کی ماں کا اس گوشت سے کھانا اشد مکروہ ہے بہتر ہے کہ بچے کے والدین خاندان جو اس گھر میں رہتے ہیں وہ بھی یہ گوشت نہ کھائیں یہ بھی سنت ہے کہ گوشت پکا کر کھلایا جائے اور کچا گوشت صدقہ میں نہ دیا جائے اس کے پکانے کی کم ازکم حد یہ کہ اسے نمک کے پانی میں پکایا جائے اور احتمال یہ ہے کہ یہی صورت بہتر ہے لیکن اگر کچا گوشت ہی تصدق کردیا جائے تو بھی بہتر ہے اگر عقیقہ کا جانور نہ مل سکے تو اس کی قیمت صدقے میں دینا بے فائدہ ہے بلکہ صبر کرناچاہیے یہاں تک کہ جانور مل جائے اور عقیقہ کر دیا جائے۔ اس میں شرط نہیں کہ جو لوگ کھانے میں آئیں وہ سب محتاج ہی ہوں بلکہ فقیروں کے ساتھ نیکوکار افراد کو بھی بلانا چاہیے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ عقیقہ کے گو شت میں اس کی ہڈیوں کو توڑنے کی کراہت ایک مشہور بات ہے اور روایت ہے

یکسر عظمها و یقطع لحمها و تصنع بها بعد الذبح ما شئت

اس کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گوشت کاٹا جائے اور ذبح کے بعد تم جیسے چاہو گوشت تیار کرو ۔

اس کراہت کے منافی نہیں ہے ‘صاحب جواہر الکلام فرماتے ہیں کہ یہ بات جو اہل عراق میں مشہور ہے کہ عقیقہ کی ہڈیاں اکٹھی کر کے انہیں کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا مستحب ہے پس مجھے اس بارے میں کوئی نص نہیں مل سکی ‘خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔

(چھبیسواں امر)

امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ بچے کے ختنے کے وقت یہ دعا پڑھی جائے اگر اس وقت نہ پڑھی جاسکے تو لڑکے کے بالغ ہونے تک جب بھی موقع ملے دعا پڑھی جائے کہ اس طرح گرم لوہے سے مرنے اور اس سے پہنچنے والی دوسری تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے وہ دعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ هذِهِ سُنَّتُکَ وَسُنَّةُ نَبِیِّکَ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَاتِّباعٌ مِنَّا لَکَ وَلِنَبِیِّکَ

اے معبود یہ تیرا طریقہ ہے اورتیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے تیری رحمت ہو انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کی آلعليه‌السلام پر ہماری طرف سے تیری اور تیرے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی

بِمَشِیئَتِکَ وَبِ إرادَتِکَ وَقَضائِکَ اََِمْرٍ أَرَدْتَهُ وَقَضائٍ حَتَمْتَهُ وَأَمْرٍ

اتباع ہے تیری مشیت اور تیرے ارادے اور تیر احکم بجا لانے کے لئے جس کا تو نے ارادہ کیا

أَنْفَذْتَهُ وَأَذَقْتَهُ حَرَّ الْحَدِیدِ فِی خِتانِهِ وَحِجامَتِهِ بِأَمْرٍ أَنْتَ

فیصلے کو یقینی بنایا اور حکم جاری کردیا اور اس سے لوہے کی کاٹ اورزخم کی اذیت کا ذائقہ چکھایااس حکم سے

أَعْرَفُ بِهِ مِنِّی اَللّٰهُمَّ فَطَهِّرْهُ مِنَ الذُّنُوبِ وَزِدْ فِی عُمْرِهِ وَادْفَع

جسے تو مجھ سے زیادہ پہچانتاہے اے معبود پس اسے گناہوں سے پاک کر اس کی عمر میں اضافہ فرما اس

ِالْأَفاتِ عَنْ بَدَنِهِ وَالْاََوْجاعَ عَنْ جِسْمِهِ وَزِدْهُ مِنَ الْغِنَیٰ وَادْفَعْ عَنْهُ الْفَقْرَ، فَ إنَّکَ تَعْلَمُ وَلاَ نَعْلَمُ

کے بدن سے آفتیں اور دکھ درد دورکردے اس کو زیادہ مال عطا کر اور محتاجی کو اس سےدور رکھ کہ یقینا تو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔

(ستائیسواں امر)

سید ابن طاؤس نے خطیب مستغفری کی کتاب ’’دعوات‘‘ اور اس نے رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جب تم کتاب ﷲ(قرآن ) سے فال لینا چاہو تو تین مرتبہ سورہ توحید پڑھو اور اس کے بعد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تین مرتبہ درود بھیجو اس کے بعد یہ کہو:

اَللّٰهُمَّ إنِّی تَفَأَّلْتُ بِکِتابِکَ وَتَوَکَّلْتُ عَلَیْکَ فَأَرِنِی مِنْ کِتابِکَ مَا هُوَ مَکْتُومٌ

اے معبود میں تیری کتاب سے فال لے رہا ہوں تجھی پر میرا بھروسہ ہے پس مجھے اپنی کتاب میں سے وہ چیز دکھا جو پوشیدہ ہے تیرے چھپے

مِنْ سِرِّکَ الْمَکْنُونِ فِی غَیْبِکَ

ہوئے راز سے تیرے پردہ غیب میں ۔

اس کے بعد کہ قرآن جامع کہ جس میں تمام سورتیں اور آیتیں ہوں اسے ہاتھ میں لے کر کھولو پھر صفحہ و سطر شمار کیے بغیرداہنی طرف کی پہلی سطر سے فال لو۔یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ مجلسی نے بعض علمائ کی تالیفات میں شیخ یوسف قطیفی کے خط سے اور انہوں نے آیۃ ﷲ علامہ کے خط سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا جب تم کتاب عزیز (قرآن)سے استخارہ کرنے کا ارادہ کرو تو بسم ﷲ الرحمن الرحیم کے بعد یہ کہو:

إنْ کانَ فِی قَضائِکَ وَقَدَرِکَ أَنْ تَمُنَّ عَلَی شِیعَةِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهِمُ

الہی اگر تیرے حکم اور فیصلے میں یہ بات ہے کہ شیعیان آلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر احسان فرمائے کشائش دے کر

اَلسَّلَامُ بِفَرَجِ وَلِیِّکَ وَحُجَّتِکَ عَلَی خَلْقِکَ فَأَخْرِجْ إلَیْنا آیَةً

اپنے ولی اور اپنی حجت پر جو تیری مخلوق کے لئے ہے تو ظاہر فرما ہم پر ایسی آیت

مِنْ کِتابِکَ نَسْتَدِلُّ بِها عَلَی ذلِکَ

اپنی کتاب سے جو اس پر ہماری دلیل بن جائے۔

پھر قرآن مجید کھولے اورو ہاں سے چھ صفحے شمار کرے پس ساتویں صفحے کی سطر پر نظر کرے اور اس سے مطلب اخذ کرے۔شیخ شہیدرحمه‌الله نے اپنی کتاب ذکریٰ میں فرمایا ہے کہ استخاروں میں سے ایک استخارہ عدد ہے جو سید کبیر رضی الدین محمد بن محمدآلاوی مجاور روضہ امیر المؤمنینعليه‌السلام سے قبل مشہور نہ تھا ہم اس استخارے کو تمام روایتوں کے ساتھ اپنے مشائخ میں سے شیخ کبیر فاضل جمال الدین بن مطہر سے اور وہ اپنے واالد گرامی سے اور وہ سید رضی الدین مذکور سے اور وہ حضرت صاحب العصرعليه‌السلام سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ دس مرتبہ اس سے کم تین مرتبہ اور کم ازکم ایک مرتبہ اور پھر سورہ قدر دس مرتبہ پڑھے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْتَخِیرُکَ لِعِلْمِکَ بِعاقِبَةِ الْاَُمُورِ وَأَسْتَشِیرُکَ لِحُسْنِ

اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوںکہ تو معاملوں کے انجام کو جانتا ہے تجھ سے مشورہ کرتا ہوں کہ

ظَنِّی بِکَ فِی الْمَأْمُولِ وَالَْمحْذُورِ اَللّٰهُمَّ إنْ کانَ الْاََمْرُ الْفُلانِیّ مِمَّا نِیطَتْ بِالْبَرَکَةِ

امیدوں اور خطروں میں تجھ ہی سے حسن ظن ہے اے معبود فلاں کام ان کاموں میں سے ہے کہ جن کے انجام میں برکت

أَعْجازُهُ وَبَوادِیهِ وَحُفَّتْ بِالْکَرامَةِ أَیَّامُهُ وَلَیالِیهِ فَخِرْ لِی اَللّٰهُمَّ فِیهِ خِیَرَةً

ہے اور آغاز میں بھی اور اس کے دن رات نفع سے بھر پورہیں تو اے معبود تو میرے لئے اس خیر کو

تَرُدُّ شَمُوسَهُ ذَلُولاً وَتَقْعَضُ أَیَّامَهُ سُرُوراً اَللّٰهُمَّ إمَّا أَمْرٌ فَأْتَمِرُ

اختیار کرجس سے سرکش مطیع ہو جائے اور دن خوشیوں سے بھر جائیں اے معبود اگر کرنے کا حکم ہے تو

وَ إمَّا نَهْیٌ فَأَنْتَهِی اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِرَحْمَتِکَ خِیَرَةً فِی عافِیَةٍ

کروں اور نہیں ہے تو رکا رہوں اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیری رحمت سے ایسی خیر جس میں آرام ہو۔

پھر تسبیح کے کچھ دانے مٹھی میں لے کر اپنی حاجت دل میں لائے اگر مٹھی میں لئے ہوئے دانوں کی تعداد جفت ہے تو یہ ’’افعل ‘‘(اس کام کے کرنے کا حکم) اور طاق ہے تو یہ ’’لا تفعل‘‘(اس کام کے بجانہ لانے کا حکم )ہے یا اس کے برعکس کہ طاق بہتر ہے اور جفت بہتر نہیں ‘یہ استخارہ کرنے والوں کی نیت سے وابستہ ہے ۔مؤلف کہتے ہیں ’’تقعض‘‘ضاد معجمہ کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں لوٹ جائے پلٹ جائے اور ہم نے نمازوںکے باب میں استخارہ ذات الرقاع اور دیگر اقسام کے استخاروں کاذکر کیا ہے لہذا انکی طرف رجوع کیا جائے جانناچاہیے کہ سید ابن طاؤسرحمه‌الله فرماتے ہیں ان کاخلاصہ کلام یہ ہے کہ مجھے اس بار ے میں کوئی صریح حدیث نہیں ملی کہ انسان کسی اور کیلئے بھی استخارہ کرسکتا ہے؟ لیکن مجھے ایسی بہت سی احادیث میں یہ بات ضرور نظر آتی ہے کہ دعاؤں اور توسل کے دیگر ذریعوں کے ساتھ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجات پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ روایات میں تو مؤمن بھائیوں کیلئے دعاکرنے کے اتنے فوائد بیان ہوئے ہیں کہ جن کے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے چونکہ استخارے کا شمار بھی دعاؤں اور حاجتوں میں ہے اور جب کوئی شخص کسی سے استخارہ کرنے کو کہتا ہے تو گویااس کے سامنے اپنی حاجت پیش کر رہا ہوتا ہے اور جو استخارہ کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے لئے استخارہ کرتا ہے تاکہ اسے بتائے آیا اس میں مصلحت ہے کہ اس سے کہے یہ کام کرو یا نہ کرو وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کام کے کرنے میں مصلحت ہے یا اس کے نہ کرنے میں مصلحت ہے پس اس بات کا تعلق استخاروں اور حاجتوں کے پورا کرنے کے ضمن میں نقل شدہ روایات سے ہے کہ علامہ مجلسیرحمه‌الله کا ارشاد ہے کہ سید کا کلام دوسروں کے لئے استخارہ کرنے کے جواز میں قوت سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق عوامی ضرورتوں سے ہے خصوصا اس صورت میں جب استخارہ کرانے والے کا نائب اس چیز کا قصد کرے کہ وہ اس شخص کا نائب بن کر کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو یا انجام نہ دو .جیسا کہ سیدرحمه‌الله نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے یہ استخارے کو خاص روایات و اخبار کے تحت لانے کا ایک ذریعہ ہے تاہم زیادہ احتیاط اور زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ صاحب حاجت اپنے لئے خود استخارہ کرے کیونکہ ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ جس میں استخارہ میں وکالت کو جائز قرار دیا گیا ہو اگر یہ عمل جائز یا قابل ترجیح ہوتا تو آئمہ کے اصحاب ان حضراتعليه‌السلام سے اس بارہ میں ضرور پوچھتے اور اگر پوچھا گیا ہوتا تو ضرور ہم تک یہ بات پہنچ جاتی اور کم ازکم ایک ہی ایسی روایت مل جاتی ہے ماسوائے اس کے کہ مضطر اور پریشان حال قبولیت دعا کے سلسلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی دعا خلوص نیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔

(اٹھائیسواں امر)

رسول ﷲ نے فرمایاجو شخص کسی یہودی یا عیسائی مجوسی کو دیکھے وہ یہ دعاپڑھے تو ﷲتعالی اسے اور اس کافر کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔

الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی فَضَّلَنِی عَلَیْکَ بِالْاِسْلامِ دِیناً وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ

حمد ہے ﷲ کے لئے جس نے مجھے تجھ پر فضیلت دی دین اسلام کے ساتھ کتاب قرآن کے ساتھ پیغمبرمحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ علیعليه‌السلام ایسے امامعليه‌السلام

إماما،ً وَبِالْمُؤْمِنِینَ إخْوانا وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً

کے ساتھ مومنوں کی برادری کے ساتھ اور کعبہ ایسے قبلہ کے ساتھ۔

مؤلف کہتے ہیں بہت سی آیات وروایات کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے ساتھ محبت اور مشابہت پیدا نہ کریں اور نہ ہی ان کی روش کو اپنائیں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔

قَدْ کَانَ لَکُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إبْرَاهِیمَ وَالَّذِینَ مَعَهُ إذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إنَّا بُرَأٰٓؤُا مِنْکُمْ

جیسا کہ ﷲ تعالی کا فرمان ہے ضرور تمہارے لیے ابراہیمعليه‌السلام اور ان کے ساتھیوں کے کردار میں بہترین نمونہ عمل ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ

وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ وَبَدَا بَیْنَنا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ أَبَداً

ہم تم لوگوں سے بری ہیں اور خدا کےعلاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کی عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔

شیخ صدوقرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ایک نبیعليه‌السلام کی طرف یہ وحی آئی کہ اے نبی مومنوں سے کہہ دو کہ میرے دشمنوں کا جیسا لباس نہ پہنو میرے دشمنوں جیسی خوراک نہ کھاؤ اور میرے دشمنوں کی روش پر نہ چلو ورنہ تم لوگ بھی میرے دشمن تصور کیے جاؤ گے جیسے وہ میرے دشمن ہیں اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ فلاں عمل کو بجا لاؤاور خود کو کفار کے مشا بہ نہ کرومثلا وہ روایت جو حضرت رسول ﷲ سے منقول ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا مونچھیں منڈواؤ اور داڑھی بڑھاؤ بس خود کو یہود ونصاری کے مشابہ نہ بناؤ کیونکہ نصاری اپنی داڑھیوں کو منڈواتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں جب کہ ہم داڑھی کو بڑھاتے اور مونچھوں کو کٹواتے ہیں چنانچہ جب حضرت رسول ﷲ کے تبلیغی مکتوب مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو موصول ہوئے تو کسریٰ (شاہ ایران)نے یمن میں اپنے گورنرباذان کو حکم بھیجا کہ وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کے پاس روانہ کردے تب اس نے اپنے کاتب ۔بانویہ۔ اور ایک دوسرے شخص ۔خر۔خسک۔ کو مدینہ روانہ کیا ان دونوں نے داڑھیاں منڈوائی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں ان کی یہ حالت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہایت ناگوار گزری اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں دیکھنا بھی گوارا نہ کیا آپ نے ان سے فرمایا: افسوس ہے تم پر کس نے تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیا؟ انہوں نے کہا ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب (پروردگار) نے مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کاحکم دیا ہے نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ﷲ تعالی نے سورہ ہود میں فرمایا۔

وَلا تَرْکَنُوا إلَی الَّذیِنَ ظَلَمُوا َتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ ﷲ مِنْ أَوْلِیَائَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُونَ

ظالموں کی طرف میلان پیدا نہ کرو ورنہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی مدد گار نہ ہوگااور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے گی ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ظالموں کی طرف تھوڑا ساجھکاؤبھی پیدا نہ کرو چہ جا ئیکہ بہت سارا جھکاؤ پیدا کیا جائے کیونکہ اس سے جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی بعض مفسرین کا قول ہے کہ جس قسم کے جھکاؤ سے روکا گیا ہے وہ ظالموں کے ظلم میں شریک ہونا ان کاموں میں راضی اور ان سے محبت کااظہار کرنا ہے روایات اہل بیتعليه‌السلام میں وارد ہے کہ ۔رکون۔ سے مرادان کے ساتھ محبت کرنا‘ان کی خیر خواہی اور ان کی اطاعت کرنا ہے :

(انتیسواں امر)

وہ انیس کلمات ہیں دعا مانگنے والے کی مصیبتوں کے دور ہونے کا سبب بنتے ہیں ‘یہ کلمات حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المؤمنین- کو تعلیم فرمائے اور شیخ صدوقرحمه‌الله نے انہیں اپنی کتاب الخصال کے انیسویں باب میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں۔

یَا عِمادَ مَنْ لاَ عِمادَ لَهُ وَیَا ذُخْرَ مَنْ لاَ ذُخْرَ لَهُ وَیَا سَنَدَ مَنْ لا اَسَنَدَ لَهُ وَیَا حِرْزَ مَنْ لاَ حِرْزَ

اے اس کے سہارے ‘جس کا کوئی سہارا نہیں اے اس کی پونچی جس کی کوئی پونجی نہیں اے اسکے آسرے جس کا کوئی آسرا نہیں اے اس کی

لَهُ وَیَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَهُ وَیَا کَرِیمَ الْعَفْوِ وَیَا حَسَنَ الْبَلائِ وَیَا عَظِیمَ الرَّجائِ وَیَا

پناہ جس کی کوئی پناہ نہیں اے اس کے فریاد رس جس کا کوئی فریاد رس نہیں اے خوب معاف کرنے والے اے بہتر آزمائش کرنے والے

عِزَّ الضُّعَفائِ، وَیَا مُنْقِذَ الْغَرْقَیٰ وَیَا مُنْجِیَ الْهَلْکَیٰ یَا مُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ

اے بڑے امید دلانے والے اےاے کمزوروں کی عزت اے ڈوبتوں کو بچانے والے اے ہلاکتوں سے بچانے والے احسان

یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ أَنْتَ الَّذِی سَجَدَ لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ وَنُورُ النَّهارِ، وَضَوْئُ

کرنے والے اے خوش رفتار اے نعمت دینے والے اے عطا کرنے والے تو وہ ہے جسے سجدہ کرتے ہیں رات کی سیاہی دن کی روشنی ،چاند

الْقَمَرِ وَشُعاعُ الشَّمْسِ وَدَوِیُّ الْمائِ وَحَفِیفُ الشَّجَرِ یَاﷲ یَا ﷲ یَا ﷲ أَنْتَ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ

کی چاندنی، سورج کی شعاعیں، پانی کیلہریں اور درختوں کی حرکت یا ﷲ یا ﷲیا ﷲ تو ہی یکتا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے

پھر کہے:

اَللّٰهُمَّ افْعَلْ بِی کَذا وَکَذا

اے معبود میری یہ اور یہ حاجت پوری فرما۔

(دعا میں کذا کذا کی بجائے اپنی حاجات بیان کرے)۔

ابھی وہ شخض اپنی جگہ سے اٹھا نہ ہو گا کہ دعا قبول ہو چکی ہوگی انشائ ﷲ:

(تیسواں امر)

شیخ کفعمی نے مفاتیح الغیب سے نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنے گھر کے دروازے پر لفظ’’بسم ﷲ‘‘ لکھے وہ ہلاکتوں سے محفوظ رہے گاخواہ وہ کافر ہی ۔ہو کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالی نے فرعون کو اس لئے جلد ہلاک نہیں کیا اور اس کے دعویٰ ربوبیت کے باوجود اسے مہلت دی کہ اس نے اپنے محل کے بیرونی دروازے پر ’’بسم ﷲ‘‘ لکھی ہوئی تھی جب حضرت موسیٰٰ - نے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کی تو ﷲ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسیعليه‌السلام تم اس کے محل کو دیکھ رہے ہو اور میں اس کے دروازے پر نوشتے کو دیکھ رہا ہوں ۔

(اکتیسواں امر)

شیخ ابن فہد نے روایت کی ہے کہ ایک روز ابو دردائ کو بتایاگیا کہ تمہارا گھر جل گیا ہے اس نے کہا وہ نہیں جلا پھر ایک شخص نے بھی آکر یہی کہا اور اس نے وہی جواب دیا۔پھر ایک تیسرا شخص آیااور اس نے بھی گھر جلنے کی خبر دی لیکن ابو دردائ نے وہی جواب دیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے گھر کے اطراف میں سب گھر جل چکے تھے لیکن اس کا گھر محفوظ رہ گیا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں کہاں سے پتہ چلا کہ تمہاراگھر نہیں جلا؟ اس نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت رسول ﷲ سے سنا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے گا تو دن میں اس کا اور اگر شام کو پڑھے گا تو رات کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گااور میں آج صبح کو یہ دعا پڑھ چکا تھا:

اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّی لا إلهَ إلاَّ أَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَلاَ

اے معبود تو میرا رب ہے نہیں کوئی معبود مگر تو ہے میںتجھ پربھروسہ کرتا ہوں توعظمت والے عرش کا مالک ہے نہیں ہے

حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّبِالله الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ مَا شائَ ﷲ کانَ وَما لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ أَعْلَمُ أَنَّ ﷲ

طاقتت وقوت مگر جو بلند و بزرگ خدا سے ہے خدا جو چاہے ہو جاتا ہے اور جووہ نہ چاہے نہیں ہوتا میں جانتا ہوں

عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ ﷲ أَحاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْماً اَللّٰهُمَّ إنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ

کہ ﷲ ہر چیز پر قادر ہےاور یقینا ﷲ کے علم نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے اے معبود میں تیری پناہ لیتا ہوں

شَرِّ نَفْسِی وَمِنْ شَرِّ قَضائِ السُّوئِ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ، وَ مِنْ شَرِّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ

اپنے نفس کے شر سے ہر بری شی کے شر سے ہر شریر کے شر سے جنوں اور انسانوں کے شر سے اور

وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِناصِیَتِها إنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ

ہرحیوان کے شر سے کہ جس کی مہار تیرے ہاتھ میں ہے یقینا میرا رب سیدھے راستے پر ملتا ہے ۔

(بتیسواں امر)

شیخ کلینیرحمه‌الله اور دیگر بزرگان نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم فرمائی کہ ہمارے شیعہ امام العصرعليه‌السلام کی غیبت میں اور پھر ان کی کشائش کے وقت یہ دعا پڑھا کریں:

اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَ إنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ

اے معبود تو مجھے اپنی معرفت عطا کر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کو نہ پہچان

نَبِیَّکَ اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ، فَ إنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ

پاؤ نگا اے معبود مجھے اپنے رسول کی معرفت عطاکر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی

لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَک اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَ إنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی

تو میں تیری حجتعليه‌السلام کو نہ پہچان پاؤنگااے معبود مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت

حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی

کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمرا ہ ہو جاؤں گا۔

(تینتیسواں امر)

کتاب:عدۃ الداعی میں ہے کہ امیر المؤمنین- سے روایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو اپنادایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے اور یہ کہے:

بِسْمِ ﷲ وَضَعْتُ جَنْبِی لِلّٰهِ، عَلَی مِلَّةِ إبْراهِیمَ وَدِینِ مُحَمَّدٍ

ﷲ کے نام سے میں نے اپنا پہلو ﷲ کے لئے رکھ دیا ہے ملت ابراہیم اور حضرت محمد صلی ﷲ

صلی ﷲ علیه وآله وسلم وَوِلایَةِ مَنِ افْتَرَضﷲ طاعَتَهُ مَا شَائَ ﷲکانَ وَما لَمْ

علیہ وآلہ وسلم کے دین پراور ان کی ولایت پرجن کی اطاعت ﷲ نے واجب ٹھہرائی ہے جو ﷲ چاہے ہو جاتا ہے اور جو وہ نہ چاہے

یَشَأْ لَمْ یَکُنْ

نہیں ہوتا۔

پس جو شخص سوتے وقت اس دعا کو پڑھے ﷲ تعالی اسے چور ڈاکو اور چھت تلے دبنے سے محفوظ رکھے گااور فرشتے اس کے لئے مغفرت طلب کریں گے۔

(چونتیسواں امر)

کتاب عدۃ الداعی میں ہے کہ ہر وہ چیز جو پوشیدہ طور پر استعمال کیلئے رکھی گئی ہے اس پر سورہ قدر کاپڑھنااسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے اور یہ بات آنجناب ہی سے روایت ہوئی ہے:

(پینتیسواں امر)

امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ جوشخص قرآن مجید میں سے کوئی سی سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یا ﷲ کہے تو اگر وہ یہ عمل کسی پتھر پر بھی کرے گاتو اسے حق تعالی توڑ دے گا۔

(چھیتسواں امر)

امیرالمومنین- ہی سے منقول ہے کہ جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا تو ﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے پچاس ہزار فرشتے بھیجے گا جو رات بھر اس کی پاسبانی کرتے رہیں گے. امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ جس شخص پر پورا دن گزر جائے اور وہ اپنی کسی بھی نماز میں سورہ اخلاص نہ پڑھے تو قیامت میں اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے! تو نمازگذاروں میں سے نہیں تھا انہی جناب سے منقول ہے کہ جو شخص سات دنوں میں سورہ اخلاص (ایک مرتبہ بھی) نہ پڑھے اور مرجائے تو وہ ابولہب کے دین پر مرے گا۔ آپعليه‌السلام ہی سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مرض یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس وقت سورہ اخلاص نہ پڑھے تو وہ اہل جہنم سے ہوگا۔

( سینتیسواں امر)

عدۃ الداعی میں منقول ہے کہ اس تعویذ کو لکھ کر خربوزہ، خیار اور دوسری فصلوں کے لیے لٹکائے تو وہ کیڑے مکوڑوں اور جانوروں سے محفوظ رہیں گی اس کی کیفیت یہ ہے کہ اسے کپڑے کے چار ٹکڑوں پر لکھے اور لکڑی کے ساتھ باندھ کر کھیت کے چاروں کونوں پر نصب کر دے وہ تعویذ یہ ہے:

أَیُّهَا الْدُوْذُ أَیُّهَا الدَّوابُّ وَالْهَوامُّ وَالْحَیْواناتُ اخْرُجُوا مِنْ هذِهِ الْاََرْضِ وَالزَّرْعِ إلَی الْخَرابِ

اے کیڑے مکوڑو! اے جانوروں چرندو! اے جاندارو! اس زمین اور اس کھیت سے نکل کر ویرانے میںچلے جائو

کَما خَرَجَ ابْنُ مَتَّ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ فَ إنْ لَمْ تَخْرُجُو أَرْسَلْتُ عَلَیْکُمْ شُواظاً مِنْ نارٍ وَنُحاسٍ فَلا

جیسے یونس ابن متیٰ مچھلی کے پیٹ سے نکلے تھے پس اگر تم پر نہ نکلے تو میں پر آگ اور تابنےکے شعلے بھیجوں گا پھر

تَنْتَصِرانِ أَلَمْ تَرَ إلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقالَ

تمہاری مدد نہیں کی جائے گی آیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گھروں سے نکلے ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کے تو

لُهُمُ ﷲ مُوتُوا فَماتُوا اخْرُج مِنْها فَ إنَّکَ رَجِیمٌ، فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً یَتَرَقَّبُ سُبْحانَ

ﷲ نے ان سے فرمایا کہ مرجائوپس وہ مرگئے تم یہاں سے نکل جائو کیونکہ تم راندہ درگاہ ہو تو وہ وہاں سے ڈرتا ہوا نکلا پاک ہے وہ ﷲ

الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِد الْحَرَامِ إلَی الْمَسْجِد الْاََقْصَیکَأَنَّهُمْ یَوْم یَرَوْنَها لَمْ یَلْبَثُوا

جس نے اپنے بندے کو راتوں رات سیر کرائی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے تو نہیں ٹھہریں

إلاَّ عَشِیَّةً أَوْ ضُحَاهَا فَأَخْرَجْناهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ کَرِیمٍ، وَنَعْمَةٍ کانُوا فِیها فاکِهِینَ فَما

گے مگر شام یا ظہر تک پس ہم نے نکالا ان کو باغوں چشموں کھیتوں حویلیوں اور نعمتوں سے جن میں وہ خوش تھے تو نہ ان پر

بَکَتْ عَلَیْهِمُ السَّمائُ وَالْاََرْضُ وَما کانُوا مُنْظَرِینَ اُخْرُجْ مِنْها فَما یَکُونُ لَکَ أَنْ تَتَکَبَّر فِیها فَاخْرُجْ

آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ان کو مہلت ملی تو یہاں سے نکل جا تجھے یہ حق نہیں کہ اس میں تکبر کیا کرے پس نکل جا کہ

إنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُوما مَدْحُوراً فَلَنَأْتِیَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَ قِبَلَ لَهُمْ

تو پست لوگوں میں سے ہےاس جگہ سے نکل جا بدحال و مردود ہوکر پس ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کا سامنا کر سکیں اور

وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْها أَذِلَّةً وَهُمْ صاغِرُونَ

ضرور ہم انہیں وہاں سے ذلیل و خوار کر کے نکالیں گے۔

(اڑتیسواں امر)

سید ابن طائوسرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں صبح کرے کہ اس کے دائیں ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی ہو تو وہ کسی اور چیز کی طرف نظر کرنے سے پہلے انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف پھیرے اور اس پر نگاہ رکھ کر سورہ قدر کو پڑھے اور اس کے بعد کہے:

آمَنْتُ بِالله وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ وَکَفَرْتُ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَآمَنْتُ بِسِرِّ آلِ

میں ایمان رکھتا ہوں ﷲ پر جو یکتا ہے کوئی اس کاشریک نہیں انکار کرتا ہوں بت اور طاغوت کا ایمان رکھتا ہوںآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

مُحَمَّدٍوَعَلانِیَتِهِمْ وَظاهِرِهِمْ وَباطِنِهِمْ وَأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ

نہاں و عیاں پر ان کے ظاہر پراور ان کے باطن پر ان کے اول پر اوران کے آخری پر۔

پس جو شخص یہ عمل کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس دن کی شام تک آسمان سے اتر نے والی چیزوں اور آسمان کی طرف جانے والی چیزوں، زمین میں داخل ہونے والی چیزوں اور زمین سے نکلنے والی چیزوں کے شر سے محفوظ رکھے گا اور خدا اور دوستان خدا کی حفاظت میں رہے گا

(انتالیسواں امر)

شیخ کفعمیرحمه‌الله نے کتاب جمع الشتات سے امام جعفر صادق - سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم ہماری کوئی حدیث بیان کرنا چاہتے ہو ،لیکن شیطان تمہیں اس میں بھلا دیتا ہے پس اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھو اور یہ کہو:

صَلَّی ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ یَا مُذَکِّرَ الْخَیْرِ وَفاعِلَهُ

خدا رحمت کرے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آلعليه‌السلام پراے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں. اے خیر کو یاد دلانے اس پر عمل

وَالْاَمِرَ بِهِ ذَکِّرْنِی مَا أَنْسانِیهِ الشَّیْطانُ من لا یحضره

کرنے والے اور اس کا حکم دینے والے مجھے یاد دلا جو شیطان نے مجھے بھلا دیا ۔

نماز میں بہت زیادہ نیسان ہونے کی دعا

. نیز کتاب ’’مَنْ لَا یَحضرہ الفقیہ‘‘ میں امام جعفر صادق - سے منقول ہے جو شخص نماز میں بہت زیادہ بھولتا ہو تو اسے چاہیئے کہ جب بیت الخلائ میں جائے تویہ دعا پڑھے:

بِسْمِ ﷲ أَعُوذُ بِالله مِنَ الرِّجْسِ النَّجِسِ الْخَبِیثِ الْمُخْبِثِ الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ

خدا کے نام سے خدا کی پناہ لیتا ہوں پلید نجس خبیث آلودہ کرنے والے راندے ہوئے شیطان سے۔

قوت حافظہ کی دوا اور دعا

مولف کہتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حافظہ زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ مسوا ک کرے ، روزہ رکھے ، قرآن کی اور خاص کر آیت الکرسی کی تلاوت کرے، ناشتے میں کشمش خصوصاً سرخ کشمش کے اکیس دانے پابندی سے کھائے یہ چیز فہم حافظہ اور ذہن کے لیے بہت ہی مفید ہے اسی طرح حلوہ ، جانور کی گردن کے قریب کا گوشت ، شہد اور مسور کا کھانا بھی ترقی حافظہ کا موجب ہوتا ہے یہ بھی منقول ہے کہ تجربہ شدہ دوائوں میں سے ایک یہ ہے کہ کندر، سعد اور شکر مساوی مقدار میں لے کر آہستہ آہستہ کوٹ کر سفوف بنالیا جائے اور اسے پانچ درہم کی مقدار میں ہر روز کھائے لیکن اس طرح کہ لگا تار تین دن کھائے اور پانچ دن کا ناغہ کرے نیز صبح کی نماز کے بعد کسی سے بات کیے بغیر یہ کہے:

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ، فَلا یَفُوتُ شَیْئاً عِلْمُهُ وَلاَ یَؤُدُهُ

اے زندہ! اے پایندہ! جس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں پاتی نہ اسے تھکاتی ہے

نیز ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھے:

سُبْحانَ مَنْ لاَ یَعْتَدِی عَلَی أَهْلِ مَمْلِکَتِهِ

پاک ہے وہ اپنے زیر حکومت لوگوں پر زیادتی روا نہیں رکھتا۔

پھر وہ نماز پڑھے جو ہم نے دوسرے باب میں قوت حافظہ کے لیے لکھی ہے نیز ایسی چیزوں سے پرہیز کرے جو سہو و نسیان کا موجب ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں کھٹا سیب، سبز دھنیا، پنیر اور چوہے کا جھوٹا کھانا، کھڑے پانی میں پیشاب کرنا ، قبروں کی تختیوں کو پڑھنا ، دو عورتوں کے درمیان سے گزرنا، جو ئیں پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا، ناخن نہ کٹوانا ، دنیوی امور میں بہ کثرت مشغول اور ان کے لیے مغموم رہنا ، سولی پر چڑھے ہوئے شخص کو دیکھنا اور اونٹوں کی قطار کے درمیان سے گزرنا۔

(چالیسواں امر)

شیخ ابن فہدرحمه‌الله نے امام جعفر صادق - سے نقل کیا ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ہر وہ دعا جس کے آغاز میں خدا کی تمجید و بزرگی اور ثنائ و تعریف نہ ہو وہ ابتر و ناکام ہوتی ہے پہلے خدا کی تمجید ہوتی ہے پھر ثنائ اور تعریف ہوتی ہے، راوی نے پوچھا کم سے کم تمجید کیا ہے جو کافی ہو سکتی ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا:یوں کہا کرو:

اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْاََوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْاَخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ

اے معبود! تو ایسا اول ہے کہ تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی توایسا آخر ہے کہ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی تو ایسا ظاہر

فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْباطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ

ہے کہ تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں تو ایسا باطن ہے کہ تجھ سے نیچے کوئی چیز نہیں اور تو غالب ہے حکمت والا.