شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)0%

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 80

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف: ترتیب:محمدوارث
زمرہ جات:

صفحے: 80
مشاہدے: 29222
ڈاؤنلوڈ: 1443

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29222 / ڈاؤنلوڈ: 1443
سائز سائز سائز
شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف:
اردو

کس کو معلوم کہ دن بھر کے تھکے ہارے ہوئے

شام کو اپنے لہو میں ہیں نہانے والے

*

کیا بتائیں تجھے کیا چیز ہے یہ تشنہ لبی

خشک ہو جاتے ہیں دریا نظر آنے والے

*

جو بچاتے نہیں کل کے لیے اک دانہ بھی

وہی درویش ہیں عقبیٰ کے خزانے والے

*

درِ مولا پہ پڑے ہیں تو بڑے ہیں شہزاد

یہ پرندے نہیں اڑ کر کہیں جانے والے

***

۶۱

امتناع کا مہینہ

اختر حسین جعفری

اس مہینے میں غارت گری منع تھی، پیڑ کٹتے نہ تھے، تیر بکتے نہ تھے

بہرِ پرواز محفوظ تھے آسماں

بے خطر تھی زمیں مستقر کے لیے

اس مہینے میں غارت گری منع تھی یہ پرانے صحیفوں میں مذکور ہے

قاتلوں، رہزنوں میں یہ دستور تھا، اس مہینے کی حرمت کے اعزاز میں

دوش پر گردنِ خم سلامت رہے

کربلاؤں میں اترے ہوئے کاروانوں کی مشکوں کا پانی امانت رہے

میری تقویم میں بھی مہینہ ہے یہ

اس مہینے کئی تشنہ لب ساعتیں، بے گناہی کے کتبے اٹھائے ہوئے

روز و شب بین کرتی ہیں دہلیز پر اور زنجیرِ در مجھ سے کھلتی نہیں

فرشِ ہموار پر پاؤں چلتا نہیں

دل دھڑکتا نہیں

اس مہینے میں گھر سے نکلتا نہیں

***

۶۲

صبا اکبر آبادی

حسین نزہتِ باغِ پیمبرِ عربی

حسین نازشِ فاقہ، وقارِ تشنہ لبی

*

حسین مرکزِ ایثار و مخزنِ تسلیم

حسین شمعِ حقیقت، چراغِ بزمِ نبی

*

حسین لختِ دلِ مرتضیٰ و جانِ بتول

جہاں میں کس کو میسر ہے یہ علو نسبی

*

حسین، سینۂ اکبر سے کھینچ لی برچھی

حسین سینہ میں اس وقت کیسے آہ دبی

*

ستم کا تیر بھی دیکھا گلوئے اصغر میں

وہ مسکرانے کا انداز روحِ تشنہ لبی

*

جوان بھائی کے شانے کٹے ہوئے دیکھے

یہ صبر ابنِ ید اللہ، یہ رضا طلبی

*

یہی تو شان ہے سبطِ رسول ہونے کی

دعائے بخششِ امت، جوابِ بے ادبی

*

نہیں ہے کوئی ذریعہ صبا، حسین تو ہیں

بڑا سبب ہے زمانہ میں اپنی بے سببی

***

۶۳

غلام محمد قاصر

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر

فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر

*

سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے

جو کشتیِ حق کا بادباں ہے سلام اس پر

*

جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں

وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر

*

مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی

جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر

*

ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی

وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر

*

حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے

جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر

*

کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ

وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر

*

۶۴

میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گِھر چکا ہوں

وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر

*

شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے

لہو تمھارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر

***

۶۵

خورشید رضوی

اشک میں گُھل گیا لہو، سرخ ہوا فضا کا رنگ

عرصۂ جاں پہ چھا گیا پھر وہی کربلا کا رنگ

*

کس سے بھلا وہ ٹل سکے، عزم ہو جب حُسین کا

کون اسے بدل سکے، رنگ ہو جب خدا کا رنگ

*

اس نے بجھا دیا چراغ، تا رہے سہل و سازگار

ظلمتِ پردہ دار میں، بدلی ہوئی ہوا کا رنگ

*

پر وہ سبھی تھے جاں نثار، سود و زیاں سے بر کنار

ان کے دلوں میں تھا کوئی رنگ تو تھا وفا کا رنگ

*

جب بھی خیال آ گیا اس سرِ سرفراز کا

صفحۂ دل سے اڑ گیا مصلحت و ریا کا رنگ

*

ڈھل نہ سکے گا تا ابد اب کفِ دستِ شام سے

خونِ دلِ شہید کا رنگ نہیں حنا کا رنگ

*

صرف کیے سخن ہزار، پھر بھی رہا مآلِ کار

مہر بلب حروف پر حسرتِ مدّعا کا رنگ

****

۶۶

جلیل عالی

بندگانِ ریا کی نگاہوں میں شام و سحر اور تھے

اور اہلِ صفا کے رموزِ قیام و سفر اور تھے

*

آبجو پاس تھی بوند پانی کو ترسے ہوؤں کے لیے

منتظر باغِ جنت میں صبر و رضا کے ثمر اور تھے

*

نور پیشانیوں پر فروزاں تھا جو فیصلہ اور تھا

چور چہروں پر ٹھہرے ہوئے تھے جو اندر کے ڈر اور تھے

*

گو رہِ عشق میں شان پہلے بھی کم تو نہ تھی آپ کی

کربلا میں مگر سرخرو تھے سوا، معتبر اور تھے

*

سطح صحرا پہ عالی کہاں کوئی تحریر ٹھہری کبھی

لفظ لیکن لہو سے جو لکھے گئے ریت پر اور تھے

***

۶۷

رباعیات

جوش ملیح آبادی

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین

چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین

***

اوہام کو ہر اک قدم پہ ٹھکراتے ہیں

ادیان سے ہر گام پہ ٹکراتے ہیں

لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے حسین

ہم اہلِ خرابات بھی جھک جاتے ہیں

***

سینے پہ مرے نقشِ قدم کس کا ہے

رندی میں یہ اجلال و حشم کس کا ہے

زاہد، مرے اس ہات کے ساغر کو نہ دیکھ

یہ دیکھ کہ اس سر پر علم کس کا ہے

****

۶۸

شبِ درمیان۔

عرفان صدیقی

(۱)

یہ عجب مسافتیں ہیں

یہ عجب مصافِ جاں ہے

کہ میں سینکڑوں برس سے

اسی دشتِ ماریہ میں

سرِ نہرِ شب کھڑا ہوں

وہی اک چراغِ خیمہ

وہی اک نشانِ صحرا

وہی ایک نخلِ تنہا

نہ فرشتگاں کے لشکر

نہ بشارتوں کے طائر

وہی اگلے دن کی آہٹ

یہ ستارہ ہے کہ نیزہ

یہ دعا ہے یا دھواں ہے

مگر اک صدا مسلسل

یہ کہاں سے آ رہی ہے

ابھی رات درمیاں ہے

ابھی رات درمیاں ہے

***

۶۹

(دشتِ ماریہ سے)

(۲)

رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا

اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا

*

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنارِ آب ہے پہرا لگا ہوا کیسا

*

ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار

افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا

*

اذان ہے کہ عَلم کیا بلند ہوتا ہے

یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا

*

یہ لوگ دشتِ جفا میں کسے پکارتے ہیں

یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا

*

گلوۓ خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر

خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا

*

یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے

یہاں تو معرکہ ہوگا، مقابلہ کیسا

*

۷۰

سلگتی ریت میں کو شاخ شاخ دفن ہوا

رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا

*

یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں

یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا

*

کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں

گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئینہ کیسا

*

یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لئے

اجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا

*

سیاہ نیزوں پہ سورج ابھرتے جاتے ہیں

سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا

*

تجھے بھی یاد ہے اے آسمان کہ پچھلے برس

مری زمین پہ گزرا ہے حادثہ کیسا

***

۷۱

(۳)

خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا

یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا

*

دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی

اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا

*

کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہوتا ہے

دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا

*

آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات

کاش ہوتا درِ شبّیر پسر پانی کا

*

تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو

اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا

****

۷۲

(۴)

سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون

بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون

*

سوادِ شام یہ شہزادگانِ صبح کہاں

ویاہ شب میں یہ سورج اگانے والا کون

*

یہ ریگزار میں کس حرفِ لا وال کی چھاؤں

شجر یہ دشتِ زیاں میں لگانے والا کون

*

یہ کون راستہ روکے ہوۓ کھڑا تھا ابھی

اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے والا کون

*

یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے

یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون

*

بدن کے نقرئی ٹکڑے، لہو کی اشرفیاں

ادھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون

*

یہ کس کے نام پہ تیغِ جفا نکلتی ہوئی

یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون

*

۷۳

ابھرتے ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں

کلامِ حق سرِ نیزہ سنانے والا کون

*

ملی ہے جان تو اس پر نثار کیوں نہ کروں

توٗ اے بدن، مرے رستے میں آنے والا کون

****

۷۴

(۵)

سب داغ ہاۓ سینہ ہویدا ہمارے ہیں

اب تک خیام دشت میں برپا ہمارے ہیں

*

وابستگانِ لشکرِ صبر و رجا ہیں ہم

جنگل میں یہ نشان و مصلّیٰ ہمارے ہیں

*

نوکِ سناں پہ مصحفِ ناطق ہے سر بلند

اونچے عَلَم تو سب سے زیادہ ہمارے ہیں

*

یہ تجھ کو جن زمین کے ٹکڑوں پہ ہے غرور

پھینکے ہوئے یہ اے سگِ دنیا! ہمارے ہیں

*

سر کر چکے ہیں معرکۂ جوۓ خوں سو آج

روۓ زمیں پہ جتنے ہیں دریا، ہمارے ہیں*

*

*۔آخری.شعرکامصرع ثانی میرمونسؔ.کاہے

***

۷۵

ٹائپنگ: محمد وارث، اعجاز عبید (مؤخر الذکر صرف انتخابِ عرفان صدیقی)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش=

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

۷۶

فہرست

حرفِ آغاز ۴

سلام ۵

میرزا اسد اللہ خان غالب ۵

امامِ بر حقِ ۸

حسرت موہانی ۸

امام حسین ۹

واصف علی واصف ۹

تمنّائے کربلا ۱۱

محمد علی جوہر ۱۱

احمد ندیم قاسمی ۱۲

انور مسعود ۱۴

شعر ۱۴

مسدس ۱۴

سیّد الشّہداء ۱۶

احمد فراز ۱۶

سلام اُس پر ۱۸

احمد فراز ۱۸

ہم جیسے ۲۱

۷۷

احمد فراز ۲۱

کوثر نیازی ۲۳

مرثیۂ امام ۲۴

فیض احمد فیض ۲۴

سلام ۲۹

منیر نیازی ۲۹

حفیظ تائب ۳۰

مرثیہ ۳۱

از میر تقی میر ۳۱

شامِ غریباں ۴۰

پروین شاکر ۴۰

میں نوحہ گر ہوں ۴۲

امجد اسلام امجد ۴۲

آنسوؤں کے موسم میں ۴۳

اقبال ساجد ۴۳

قتیل شفائی ۴۴

عبدالحمید عدم ۴۵

فارغ بخاری ۴۶

عطاء الحق قاسمی ۴۷

خالد احمد ۴۸

۷۸

محمد اعظم چشتی ۵۰

رباعیات ۔ ۵۱

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ۵۱

سبط علی صبا ۵۲

گردھاری پرشاد باقی ۵۳

نظم طباطبائی ۵۴

ثروت حسین ۵۵

صدائے استغاثہ ۵۶

افتخار عارف ۵۶

شورش کاشمیری ۵۸

شہزاد احمد ۶۰

امتناع کا مہینہ ۶۲

اختر حسین جعفری ۶۲

صبا اکبر آبادی ۶۳

غلام محمد قاصر ۶۴

خورشید رضوی ۶۶

جلیل عالی ۶۷

رباعیات ۶۸

جوش ملیح آبادی ۶۸

شبِ درمیان۔ ۶۹

۷۹

عرفان صدیقی (۱) ۶۹

(دشتِ ماریہ سے) (۲) ۷۰

(۳) ۷۲

(۴) ۷۳

(۵) ۷۵

۸۰