نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22215
ڈاؤنلوڈ: 2980

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22215 / ڈاؤنلوڈ: 2980
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

تالیف:آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی

مقدمه

عرض ناشر

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اورچودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت(علیه السلام) کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت(علیه السلام) عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت(علیه السلام) عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کیعالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل مولف آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی گرانقدر کتاب ”نوجوانوں کے لئے اصول عقائد کے پچاس سبق “ کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

معرفت خدا کے دس سبق

پہلاسبق:خدا کی تلاش

۱ ۔کائنات سے واقفیت کا شوق

خلقت کائنات کے بارے میں آگاہی اور آشنائی حاصل کر نے کا شوق ہم سب میں پایا جاتاہے۔

یقینا ہم سب جاننا چاہتے ہیں:

خوبصورت ستاروں سے چمکتا ہوا یہ بلندوبالا آسمان ،دلکش مناظرسے بھری یہ وسیع زمین ،یہ رنگ برنگ مخلوقات،خوبصورت پرندے ،طرح طرح کی مچھلیاں ،سمندر اور پہاڑ،کلیاں اور پھول،سر بہ فلک قسم قسم کے درخت اور..کیا خود بخودپیدا ہو گئے ہیں یا یہ عجیب و غریب نقشے کسی ماہر ،قادر و غالب نقاش کے ہاتھوں کھینچے گئے ہیں؟..

اس کے علاوہ ہماری زندگی میں ہم سب کے لئے جو ابتدائی سوالات پیدا ہو تے ہیں ،وہ یہ ہیں:

ہم کہاں سے آئے ہیں ؟کہاں پر ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟

اگرہم ان مذکورہ تینوں سوالات کے جواب جانیں تو کتنے خو ش قسمت ہوں گے؟یعنی ہم جا نیں کہ ہماری زندگی کا آغاز کہاں سے ہوا ہے اور سر انجام کہاں جائیں گے؟اور اس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

ہمارا ضمیر ہم سے کہتا ہے :مذکورہ سوالات کے جواب حاصل کر نے تک آرام سے نہ بیٹھنا۔

کبھی کو ئی شخص ٹریفک حادثہ میں زخمی ہو کر بے ہوش ہو جا تا ہے اور معالجہ کے لئے اسے ہسپتال لے جاتے ہیں۔جب اس کی حالت قدرے بہتر ہو تی ہے اور وہ ہوش میں آتا ہے تو اپنے ارد گرد موجودافراد سے اس کا پہلا سوال یہ ہو تا ہے:یہ کون سی جگہ ہے؟مجھے کیوں یہاں لایا گیا ہے؟میں کب یہاں سے جاؤں گا؟اس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ایسے سوالات کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ۔

اس لئے جو چیز ہمیں سب سے پہلے خدا کی تلاش اور خالق کائنات کی معرفت حاصل کر نے پر مجبور کرتی ہے ،وہ ہماری تشنہ اور متلاشی روح ہے۔

۲ ۔شکر گزاری کا احساس۔

فرض کیجئے آپ کی ایک محترم مہمان کی حیثیت سے دعوت کی گئی ہے اور آپ کی مہمان نوازی اور آرام و آسائش کے تمام وسائل مہیا کئے گئے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ دعوت آپ کے بڑے بھائی کے توسط سے انجام پائی ہے اور اپنے اسی بھائی کے ہمراہ دعوت پر گئے ہیں اور وہ اپنے میز بان کو اچھی طرح سے نہیں پہچانتے،اس لئے اس دعوت پر پہنچتے ہی آپ سب سے پہلے اپنے میز بان کو پہچان کر اس کا شکریہ بجا لانے کی کوشش کریں گے۔

ہم بھی جب خالق کائنات کے بچھائے ہوئے خلقت کے اس وسیع دستر خوان پر نظر ڈالتے ہیں اور بینائی والی آنکھیں،سننے کے کان ،عقل وہوش،مختلف جسمانی اور نفسیاتی توانائیاں،زندگی کے مختلف وسائل اور پاک و پاکیزہ رزق جیسی گو نا گوں نعمتوں کو اس وسیع دستر خوان پر دیکھتے ہیں تو بے ساختہ اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں عطا کر نے والے کو پہچان لیںاور اگر چہ وہ ہمارے شکریہ کا محتاج بھی نہ ہو،ہمیں اس کا شکر یہ بجا لاناچاہئے اورجب تک یہ کام انجام نہ دیں،ہم بے چینی اور کمی کا احساس کرتے ہیں ،لہذا یہ ایک اور دلیل ہے جو ہمیں خدا کوپہچاننے کی طرف ترغیب دیتی ہے۔

۳ ۔خدا کی معرفت سے ہمارے نفع و نقصان کا تعلق۔

فرض کیجئے اپنے سفر کے راستہ پرآپ ایک چورا ہے پر پہنچے،وہاں پر شور وغل بر پا ہے،سب پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس چوراہے پر نہ رکئے،یہاں بڑے خطرات ہیں۔ لیکن ہر ایک ہماری الگ الگ راستے کی طرف راہنمائی کر تا ہے ۔ایک کہتا ہے :بہترین راستہ یہ ہے کہ مشرق کی طرف چلے جائیں،دوسرا مغرب کی طرف مطمئن ترین راستہ بتاتا ہے اور تیسرا ہمیں ان دو راستوں کے بیچ والے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ،اور کہتا ہے خطرہ سے بچنے کا اور منزل نیز امن وامان اور سعادت وخوش بختی کی جگہ تک پہنچنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔

کیا ہم یہاں پر غور وفکر اور تحقیق کئے بغیر ان راستوں میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کریں گے؟یا ہماری عقل ہمیں یہ حکم دے گی کہ وہیں پر رکے رہیںاور کسی راستہ کا انتخاب نہ کریں؟قطعاًایسا نہیں ہے۔

بلکہ عقل ہمیں حکم دیتی ہے کہ اس حالت میں جتنی جلد ممکن ہو تحقیق کریں اور ان افراد کی تجویزوں میں سے ہر ایک پر غور و فکر کے بعد جس کسی کے بارے میں صحیح اور سچ ہو نے کی نشانیاں اور اطمینان بخش دلائل موجود ہوں،اسے قبول کریں اور اطمینان کے ساتھ اس راہ کو منتخب کر کے آگے بڑھیں۔

اس دینوی زندگی میں بھی ہماری یہی حالت ہے ۔مختلف مذاہب اور مکاتب فکر میں سے ہر ایک ہمیں اپنی طرف دعوت دیتا ہے ۔لیکن چونکہ ہماری تقدیر،ہماری خوشبختی وبد بختی، ہماری ترقی وتنزل کا دار ومدار بہترین راستہ کی تحقیق اور اس کے انتخاب کرنے پر ہے،اس لئے ہم مجبور ہیں کہ اس سلسلہ میں غور وفکر کریں اور جو راستہ ہماری ترقی و تکامل کے موجب ہو اسے اپنے لئے چن لیں اور جو ہماری نابودی ،بدبختی اور بربادی کا سبب ہو اس سے پر ہیز کریں۔

یہ بھی ہمارے لئے خالق کائنات کے بارے میں مطالعہ اور تحقیق کر نے کی طرف دعوت کر نے کی ایک اور دلیل ہے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( فبشّر عباد الّذین یستمعون القول فیتّبعون احسنه ) (سورئہ زمردآیہ/ ۱۸)

” میرے ان بندوں کو بشارت دیجئے،جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور ان میں جو بات اچھی ہو تی ہے اسی کا اتباع کرتے ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے:

۱ ۔کیاآپ نے خدا کی معرفت کے سلسلہ میں جو کچھ آج تک اپنے ماں باپ سے سناہے ،اس کے علاوہ اس بارے میں خودبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے ؟

۲ ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خدا کی تلاش اور خدا کی معرفت میں کیا فرق ہے؟

۳ ۔کیا آپ نے خدا وند متعال سے راز و نیاز کے دوران کبھی ایک عمیق روحانی لذت کا احساس کیا ہے؟

دوسراسبق .ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں

فرض کیجئے کہ آپ کا ایک دوست سفر سے لوٹا ہے اور آپ کے لئے تحفہ کے طور پر ایک کتاب لایا ہے اور اس کتاب کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک بہترین کتاب ہے کیونکہ اس کا مصنف ایک غیر معمولی فطانت کا مالک،دانشور،آگاہ، ماہر اور اپنے فن میں ہر لحاظ سے انوکھا اور استاد ہے۔

آپ اس کتاب کا ہرگز سرسری مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے تمام جملوں حتی اس کے لفظ لفظ پر غور وخوض کریںگے اور اگر اس کے کسی جملہ کو نہ سمجھے تو گھنٹوں بلکہ شایدمسلسل کئی دنوں تک فرصت پانے پر اس کے بارے میں سعی و کوشش کریں گے تاکہ اس کا معنی ومفہوم آپ کے لئے واضح ہو جائے ،کیونکہ اس کا مصنف ایک عام انسان نہیں ہے بلکہ ایک ایسا عظیم دانشورہے جوسوچے سمجھے بغیر ایک لفظ بھی نہیں لکھتا ہے۔

لیکن اگر اس کے برعکس آپ سے کہا جائے کہ( اگر چہ ممکن ہے یہ کتاب بظاہر خوبصورت ہو،لیکن) اس کا مصنف ایک کم علم شخص ہے اور کسی قسم کی علمی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور اس کے کام میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے!

واضح ہے کہ آپ اس قسم کی کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے اور جہاں پر بھی کوئی ناقابل فہم مطلب نظر آئے گا اسے مصنف کی کم علمی کا نتیجہ تصور کریں گے اور سوچیں گے کہ اس پر وقت صرف کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہے !

کائنات کی مثال بھی ایک عظیم کتاب کے مانند ہے کہ اس میں موجود ہر مخلوق اس کا ایک لفظ یا جملہ ہے۔ایک خداشناس شخص کی نظر میں کائنات کے تمام ذرّات قابل غور ہیں۔ایک با ایمان انسان خدا پرستی کے نور کے پر تو میں ایک خاص تفکر و تدبر کے ساتھ خلقت کے اسرار کا مطالعہ کرتا ہے (اور یہی موضوع انسان کے علم ودانش کی تر قی میں مدد گار ثابت ہوتا ہے)کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق،بے انتہا علم وقدرت رکھتا ہے ،اور اس کے تمام کام حکمت وفلسفہ کی بنیاد پر ہیں ،اس لئے وہ اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر تا ہے ،گہری تحقیق کرتا ہے تاکہ اس کے اسرار کو بہتر صورت میں درک کرے۔

لیکن ایک مادہ پرست انسان خلقت کے اسرار کا گہرا مطالعہ کر نے کا شوق ہی نہیں رکھتا ہے،کیونکہ وہ بے شعور طبیعت کو ان کا خالق جانتا ہے ۔اگر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض مادی دانشور سائنسی ایجادات انجام دیتے ہیں ،یہ اس لئے ہے کہ وہ غالباًخدا کو قبول کرتے ہیں ،صرف اس کا نام طبیعت رکھتے ہیں ،کیونکہ وہ طبیعت کے کام کے سلسلہ میں ”نظم“،”حساب“اور”نظام“کے قائل ہیں۔مختصر یہ کہ خدا پرستی علم ودانش کی ترقی کا وسیلہ ہے۔

۲ ۔خدا کی معرفت اور تلاش وامید

جب انسان اپنی زندگی میں سخت اور پیچیدہ حوادث سے دوچار ہو تا ہے اور بظاہر اس پر ہر طرف سے امید کے دروازے بند ہو جاتے ہیںاور مشکلات کے مقابلہ میں کمزوری،ناتوانی اور تنہائی کا احساس کرتا ہے تو اس وقت خداپر ایمان اس کی مدد کرتا ہے اور اسے توانائی بخشتا ہے۔

جو لوگ خداپر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی اپنے آپ کوتنہا اور ناتواںنہیں پاتے،نا امید نہیں ہوتے،کمزوری اور ناتوانائی کا احساس نہیں کرتے ،کیو نکہ خدائی طاقت تمام مشکلات سے بالاتر ہے اور خدا کے سامنے تمام چیزیں آسان ہیں ۔

ایسے لوگ پروردگارعالم کی مہربانی،حمایت اور مدد کی امید کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں اور عشق و امید کے ساتھ سعی و کوشش کو جاری رکھتے ہیں اور مشکلات پر غلبہ پاتے ہیں۔

جی ہاں!خدا پر ایمان انسانوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہے۔

خدا پر ایمان استقامت اور پائداری کا سبب ہے۔

خدا پر ایمان،دلوں میں امید کی کرن کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔اسی لئے با ایمان افرادکبھی خود کشی کا اقدام نہیں کرتے ہیں کیو نکہ خودکشی کا سر چشمہ مکمل نا امیدی اورناکامی کا احساس ہے ،لیکن با ایمان افراد نہ ہی نا امید ہو تے ہیں اور نہ ہی ناکامی کا احساس کر تے ہیں۔

۳ ۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساس

ہم ایسے ڈاکٹروں کو جانتے ہیں کہ جب کوئی تنگ دست بیمار ان کے پاس آتا ہے تو نہ صرف وہ اس سے فیس نہیں لیتے بلکہ اس کی دوائی کے پیسے بھی اپنے جیب سے دیتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر اپنے بیمار کے بارے میں خطرہ کا احساس کرتے ہیں تو اس کی جھونپڑی میں رات بھر اس کے سر ہانے بیٹھے رہتے ہیں ۔یہ خداپرست اور با ایمان افراد ہیں۔

لیکن ہم ایسے ڈاکٹروں کو بھی جانتے ہیں کہ پیسے لئے بغیر بیمار کے لئے کسی قسم کا اقدام نہیں کرتے ہیں ،کیو نکہ یہ قوی ایمان نہیں رکھتے۔

ایک با ایمان انسان جس عہدہ پر بھی فائز ہو،ذمہ داری کا احساس کرتا ہے،وہ فرض شناس ہو تا ہے ،نیک اور بخشنے والا ہو تا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے اندر ایک معنوی پلیس کو حاضر پاتا ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔

لیکن بے ایمان افراد خود خواہ،خود غرض اور خطر ناک ہوتے ہیں اور اپنے لئے کبھی ذمہ دار ی کے قائل نہیں ہوتے۔ان کے لئے ظلم وستم اور دوسروں کی حق تلفی کرنا آسان ہو تا ہے اور نیک کام انجام دینے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ہیں۔

۴ ۔ خدا کی معرفت اور سکون قلب

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں نفسیاتی اور روحی بیماریاں دوسرے زمانوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کا ایک سبب احساس پریشانی ہے،مستقبل کے حوادث کی پریشانی ،موت کی پریشانی،جنگ کی پریشانی اور فقر و ناکامی کی پریشانی۔

لیکن اس کے بعد وہ کہتے ہیں:انسان کی روح سے پریشانیوں اور اضطرابوں کو دور کر نے والی چیزوں میں سے ایک خدا پر ایمان ہے ۔کیونکہ جب بھی پریشانی کے عوامل و اسباب اس کی روح پر اثر انداز ہو نا چاہتے ہیں خدا پر ایمان انھیں پیچھے ہٹا دیتا ہے۔

خدا جو مہر بان ہے،خدا جو رزق دیتا ہے،خدا جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے اور اس کے بندے جب بھی اس کی طرف رخ کرتے ہیں ،وہ ان کی مدد کرتا ہے اور مشکلات سے انھیں نجات بخشتا ہے۔

اسی لئے حقیقی مو منین ہمیشہ سکون احساس کرتے ہیں اور ان کی روح میں کبھی اضطراب نہیں ہوتا ہے اور چونکہ ان کاکام خدا کے لئے ہوتا ہے اس لئے اگر کبھی کوئی نقصان بھی اٹھاتے ہیں تو اسی سے تلافی چاہتے ہیں ،یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو تی ہے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( الّذین آمنواولم یلبسواإیمانهم بظلم اولٰئک لهم الامن ) (سورئہ انعام/ ۸۲)

”جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا اور انھیں کے لئے امن وسکون ہے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیاآپ کوگزشتہ لوگوں کی کوئی ایسی داستان یاد ہے جو مذکورہ ایمان وآثار کی وضاحت کرے؟

۲ ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھنے کادم بھرنے والے بعض افراد کیوں اخلاقی برائیوں سے آلودہ ہو تے ہیں اور ان میں مذکورہ چار آثار نہیں پائے جاتے ہیں؟

تیسرا سبق خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے

۱ ۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقی

معرفت خدا کے بارے میں زمانہ قدیم سے آج تک بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور اس موضوع پر دانشوروں اور غیر دانشوروںمیں کافی بحث وگفتگو ہوتی رہی ہے۔

اس حقیقت کو پانے کے لئے ہر ایک نے ایک راستہ کا انتخاب کیا ہے۔لیکن تمام راستوں میں سے بہترین راستے جو ہمیں خالق کائنات تک جلدی پہنچاسکتے ہیں،دو راستے ہیں:

الف۔اندرونی راستہ(نزدیک ترین راستہ)

ب۔بیرونی راستہ(واضح ترین راستہ)

پہلے طریقہ میں ہم اپنے وجود کی گہرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ توحید کی آواز کو اپنی روح کے اندر سن لیں۔

دوسرے طریقہ میں ہم وسیع کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اورتمام مخلوقات کی پیشانی پر اور ہرذرّہ کے اندرخداوند متعال کی نشانیاں پاتے ہیں۔ان دو طریقوں میں سے ہر ایک کے بارے میں طویل بحثیں کی گئی ہیں ۔لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک مختصر بحث کے ذریعہ ان دو طریقوں کو ایک اجمالی تحقیق کے ساتھ بیان کریں۔

الف۔اندرونی راستہ

مندرجہ ذیل چند موضوعات قابل غور ہیں:

۱ ۔دانشور کہتے ہیں:اگر کسی بھی قوم ونسل سے متعلق ایک انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے کسی خاص قسم کی تعلیم وتر بیت نہ دی جائے ،حتی خدا پرستی اور مادیت کی گفتگو سے بھی بے خبر رکھاجائے تب بھی وہ خود بخود ایک ایسی قوی طاقت کی طرف متوجہ ہو جاتاہے جومادی دنیا سے بالا تر ہے اور پوری کائنات پر حکمران ہے۔

وہ اپنے دل اورضمیرکی عمیق گہرائیوں میں ایک لطیف ،محبت آمیز،اور متقن و محکم آواز کا احساس کرتا ہے جو اسے علم وقدرت کے ایک عظیم مبدا کی طرف بلاتی ہے،جسے ہم خدا کہتے ہیں ۔

یہ بشرکی وہی پاک اور بے لاگ فطری کی آواز ہے۔

۲ ۔ممکن ہے مادی دنیا اور روز مرہ زندگی کاشور وغل اوراس کی چمک دمک اس کو اپنی طرف مشغول کرے اور وہ عارضی طور پر اس آواز کو سننے سے غافل ہو جائے ،لیکن جب وہ اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کے مقابلہ میں پاتا ہے ،جب خطرناک طبیعی حوادث اس پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے سیلاب،زلزلہ،طوفان اورایک نامناسب موسم کے سبب ہوائی جہاز میں رونما ہونے والے اضطرابی حالات سے دو چار ہو تا ہے ،اس وقت وہ تمام مادی وسائل سے مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا ہے تو یہ آواز اس کی روح کے اندر ابھرتی ہے ،وہ احساس کرتا ہے کہ اس کے وجود کے اندر سے ایک طاقت اسے اپنی طرف بلا رہی ہے ،ایک ایسی طاقت جو تمام طاقتوں سے برتر ہے ،ایک پر اسرارطاقت جس کے سامنے تمام مشکلات سہل اور آسان ہیں۔

آپ بہت کم ایسے لوگوں کو پائیں گے جو اپنی زندگی کے مشکل ترین حوادث میں اس قسم کی حالت پیدا نہ کریں اور بے اختیار خدا کو یاد نہ کریں ۔یہی بات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کتنا اس کے نزدیک ہیں اور وہ کس قدر ہمارے قریب ہے،وہ ہماری روح و جان میں موجود ہے۔

البتہ فطری آوازہمیشہ انسان کی روح میںموجود ہے لیکن مذکورہ لحظات میں یہ آواز زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔

۳ ۔تاریخ ہمیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے صاحبان اقتدار جواپنے جاہ وجلال اور آرام و آسائش کے لمحات میں خدا کا نام تک لینے سے انکار کرتے تھے ،جب اپنی قدرت کی بنیادوں کو متزلزل ہوتے اور اپنی ہستی کے محلوں کو گرتے دیکھتے تھے تو اس عظیم مبداً(خدا) کی طرف متوجہ ہوتے تھے اورفطری آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔

تاریخ بتاتی ہے:جب فر وعون نے اپنے آپ کو پر تلاطم لہروں کی لپیٹ میں پایااور اس نے مشاہدہ کیا کہ جو پانی اس کے ملک کی آبادی اور زندگی کا سبب اور اس کی تمام مادی طاقت کا سر چشمہ تھا،اس وقت اس کے لئے موت کا حکم جاری کر رہاہے اور وہ چند چھوٹی لہروں کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گیا ہے اور ہر طرف سے اس پر نا امیدی چھائی ہوئی ہے ،تو اس نے فریاد بلند کی :”میں اس وقت اعتراف کرتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔“حقیقت میں یہ فر یاد اس کی فطرت اور روح کی گہرائیوں سے بلند ہوئی تھی نہ صرف فروعون بلکہ وہ تمام لوگ جو ایسے حالات سے دو چار ہوجاتے ہیں،اس آواز کو واضح طور پر سنتے ہیں۔

۴ ۔خود آپ بھی اگر اپنے دل کی گہرائیوں پر توجہ کریں گے توضرور تائید کریں گے کہ وہاں پر ایک نور چمکتا ہے جو تمھیں خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔شاید زندگی میں آپ کو کئی بار ناقابل برداشت حوادث اور مشکلات سے دوچار ہو نا پڑا ہو اور تمام مادی وسائل ان مشکلات کو دور کر نے میں ناکام ہو گئے ہوں ،ان لمحات کے دوران آپ کے ذہن میںیہ حقیقت ضرور اجاگر ہوئی ہوگی کہ اس کائنات میں ایک بڑی اور قدرتمند طاقت موجود ہے جو اس مشکل کو آسانی کے ساتھ حل کر سکتی ہے۔

ان لمحات میں آپ کی امید پرور دگار کی عشق سے ممزوج ہوکرآپ کی روح وجان کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور یاس ونا امیدی کو آپ کے دل سے دور کر دیتی ہے ۔

جی ہاں!یہ نزدیک ترین راستہ ہے کہ ہر شخص اپنی روح کے اندر پرور دگار عالم اور خالق کائنات کو پاسکتا ہے۔

ایک سوال

ممکن ہے آپ میں سے بعض افراد یہ سوال کریں کہ کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ہم ماحول اور اپنے والدین سے حاصل کی گئی تعلیمات کے زیر اثر حساس مواقع پر ایسا سوچتے ہیں ؟اور خدا کی بار گاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟

ہم اس سوال کے بارے میں آپ کو حق بجانب جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا ایک دلچسپ جواب ہے ،جسے ہم آئندہ سبق میں بیان کریں گے ۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( فإذارکبوا فی الفلک دعوااللّٰه مخلصین له الدّین فلمّا نجّٰهم إلی البرّ إذا هم یشرکون ) (سورئہ عنکبوت/ ۶۵)

”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیںپھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچ دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کوشش کرکے مذکورہ آیہ کریمہ کو آیت اور سورہ کے نمبر اس کے تر جمہ کے ساتھ لفظ بہ لفظ یاد کیجئے اور بتدریج زبان قرآن سے آگاہی حاصل کیجئے ۔

۲ ۔کیا آپ کو کبھی کوئی ایسا مشکل حادثہ پیش آیا ہے کہ آپ ہر طرف سے مایوس ہوچکے ہوں اور صرف پروردگار کے لطف کی امید باقی رہی ہو؟(ایک مختصر مقالہ یا تقریر کے ذریعہ اس کو بیان کیجئے )۔

۳ ۔اس راستہ کو ہم نے کیوں نزدیک ترین راستہ کہاہے؟

چوتھا سبق ایک اہم سوال کا جواب

سوال

گزشتہ سبق میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ہم توحید اور خدا پرستی کی آواز کو اپنی روح کے اندر سے سنتے ہیں ،خاص کر مشکلات اور مصیبتوں کے وقت یہ آواز قوی تر ہو جاتی ہے اور ہم بے ساختہ طور پر خدا کو یاد کر کے اس کی لامحدود قدرت اور لطف و محبت سے مدد مانگتے ہیں۔

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ یہ اند رونی آواز،جسے ہم فطرت کی آواز کہتے ہیں ،ان تبلیغات کا نتیجہ ہو جو معاشرہ کے ماحول ،مکتب و مدرسہ اور ماں باپ سے ہم سنتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک قسم کی عادت بن گئی ہے۔

جواب

اس اعتراض کا جواب ایک مختصر سے مقدمہ کے ذریعہ واضح ہو جاتا ہے۔

عادتیں اور رسم و رواج ،متغیّر اور ناپائیدار چیزیں ہیں ۔یعنی ہم کسی عادت اور رسم ورواج کو پیدا نہیں کرسکتے ہیں جو پوری تاریخ بشر کے دوران تمام اقوام میں یکساں صورت میں باقی رہے ہوں۔جو مسائل آج عادت اور رسم ورواج کے طور پر رونما ہوتے ہیں،ممکن ہے کل بدل جائیں ۔اسی وجہ سے ممکن ہے ایک قوم کے رسم ورواج اور عادات دوسری قوموں میں نہ پائے جائیں۔

اس لئے اگر ہم مشاہدہ کریں کہ ایک چیز تمام قوموں اور ملتوں کے در میان ہر زمان ومکان میں بلا استثنا ء موجودہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی ایک فطری بنیاد ہے جوانسان کی روح و جان کی ساخت اور بناوٹ میں قرار پائی ہے۔

مثال کے طور پر ایک ماں کی اپنے فرزند کی نسبت محبت کو کسی تلقین،تبلیغ عادت ورسم ورواج کا نتیجہ قطعاًنہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہم کسی قوم وملت اور کسی زمان و مکان میں نہیں پاتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتی ہو۔

البتہ ممکن ہے ایک ماں نفسیاتی بیماری کی وجہ سے اپنے فرزند کو نابود کر دے یا کوئی باپ جاہلیت کے زمانہ میں غلط اور خرافی تفکر کی وجہ سے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ،لیکن یہ انتہائی شاذو نادر اور استثنائی مواقع ہیں،جوجلدی ہی ختم ہو کر اپنی اصلی حالت(یعنی فرزند سے محبت)پر لوٹ آتے ہیں۔

مذکورہ تمہید کے پیش نظر ہم آج کے اور ماضی کے انسانوں کی خدا پرستی کے مسئلہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

(چونکہ یہ سبق قدرے پیچیدہ ہے اس لئے اس پر زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے)

۱ ۔عمر انیات کے ماہرین اور بڑے بڑے مورخین کی گواہی کے مطابق ہم کسی ایسے زمانے کو نہیں پاتے ہیں جس میں مذہب اور مذہبی ایمان لوگوں میںموجود نہ رہاہو بلکہ ہر عصراور ہر زمانے میں دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب موجود تھا اور یہ بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا پرستی کا سر چشمہ انسان کی روح وفطرت کی گہرائیوں میں مو جود ہے نہ یہ کہ عادات،رسم و رواج اور تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہے ۔اس لئے کہ اگر یہ عادات ،رسم ورواج اور تعلیم وتر بیت کا نتیجہ ہو تا تو اس صورت میں اسے عام اور لافانی نہیں ہو نا چاہئے تھا ۔

یہاں تک کہ ایسے آثار و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ماقبل تاریخ میں زندگی بسر کر نے والے لوگ بھی ایک قسم کے مذہب کے قائل تھے (ما قبل تاریخ کا زمانہ اس زمانہ کو کہتے ہیں کہ ابھی لکھائی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان اپنی یاد گار کے طور پر تحریر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ چونکہ ابتدائی لوگ خدا کو ایک مافوق طبیعی وجود کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے تھے اس لئے اسے مادی مخلوقت کے در میان تلاش کرتے تھے اور اپنے لئے مادی مخلوقات سے بت بناتے تھے ۔لیکن انسان نے عقل و فکر کی تر قی کے ساتھ رفتہ رفتہ حق کو پہچان لیا اور مادی مخلوقات کے بنائے ہو ئے بتوں کو چھوڑ کر طبیعی کائنات کے ماوراء خدا کی لا محدود قدرت سے آگاہ ہوا۔

۲ ۔بعض ماہرین نفسیات نے صراحتاًکہاہے کہ انسان کی روح کے چارپہلو یا چار اصلی حس پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”دانائی کی حس“: یہ حس انسان کوعلم و دانش حاصل کر نے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی روح کو علم حاصل کر نے کا شوق دلاتی ہے ،خواہ یہ علم اس کے لئے مادی فائدہ رکھتا ہو یانہ ہو۔

ب۔”بھلائی کی حس“یہ حس عالم بشریت میں اخلاقی اور انسانی مسائل کا سر چشمہ ہے۔

ج۔”زیبائی کی حس“:یہ حس،حقیقی معنی میں شعر،ادبیات اور فنّ وہنر کا سر چشمہ ہے۔

د۔”مذہبی حس“:یہ حس،انسان کو معرفت خدا اور اس کے فر مان کی اطاعت کر نے کی دعوت دیتی ہے ۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی حس انسانی روح کی ایک بنیادی اور اصلی حس ہے ۔یعنی یہ حس نہ کبھی اس سے جدا تھی اور نہ کبھی جدا ہو گی۔

۳ ۔آئندہ بحثوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اکثر مادہ پرست اور منکرین خدا نے بھی ایک طرح سے خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے،اگر چہ وہ لوگ خدا کے نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اوراسے فطرت یا دوسرے نام سے پکارتے ہیں ،لیکن اس فطرت کے لئے ایسی صفتوں کے قائل ہوتے ہیں کہ جو خدا کی صفات کے مشابہ ہیں۔

مثلاًکہتے ہیں :فطرت نے اگر انسان کو دو گردے دئے ہیں،یہ اس لئے ہے کہ اسے معلوم تھا،ممکن ہے ان دو گردوں میں سے ایک خراب ہو جائے تو دوسرا گردہ اس کی زندگی کو جاری رکھ سکے ،وہ ایسی ہی تعبیرات بیان کرتے ہیں ۔کیا یہ بات ایک بے شعور فطرت کے ساتھ متناسب ہے ؟یا یہ کہ یہ ایک ایسے خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے جو لامحدود علم وقدرت کا مالک ہے،اگر چہ انہوں نے اس کا نام فطرت رکھا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

اس بحث میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ،اس سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں :

خدا کی محبت ہماری روح میں ہمیشہ موجود تھی اور ہو گی۔

خدا کا ایمان ایک ایسا ابدی شعلہ ہے جو ہمارے قلب و روح کو گرم کر تا ہے۔

خدا کی معرفت حاصل کر نے کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں کہ طولانی راستے طے کریں،ہمیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں نظر ڈالنی چاہئے،خدا پر ایمان کو ہم وہاں پر پائیں گے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( ونحن اقرب إلیه من حبل الورید ) (سورئہ ق/ ۱۶)

”اور ہم اس سے رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔عادت کی چند مثالیں اور فطرت کی چند مثالیں بیان کیجئے۔

۲ ۔نادان لوگ کیوں بت پرستی کے پیچھے جاتے تھے؟

۳ ۔مادہ پرست خدا کو کیوں”فطرت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں؟