نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق17%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25061 / ڈاؤنلوڈ: 5181
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

تالیف:آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی

مقدمه

عرض ناشر

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اورچودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت(علیه السلام) کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت(علیه السلام) عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت(علیه السلام) عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کیعالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل مولف آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی گرانقدر کتاب ”نوجوانوں کے لئے اصول عقائد کے پچاس سبق “ کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

معرفت خدا کے دس سبق

پہلاسبق:خدا کی تلاش

۱ ۔کائنات سے واقفیت کا شوق

خلقت کائنات کے بارے میں آگاہی اور آشنائی حاصل کر نے کا شوق ہم سب میں پایا جاتاہے۔

یقینا ہم سب جاننا چاہتے ہیں:

خوبصورت ستاروں سے چمکتا ہوا یہ بلندوبالا آسمان ،دلکش مناظرسے بھری یہ وسیع زمین ،یہ رنگ برنگ مخلوقات،خوبصورت پرندے ،طرح طرح کی مچھلیاں ،سمندر اور پہاڑ،کلیاں اور پھول،سر بہ فلک قسم قسم کے درخت اور..کیا خود بخودپیدا ہو گئے ہیں یا یہ عجیب و غریب نقشے کسی ماہر ،قادر و غالب نقاش کے ہاتھوں کھینچے گئے ہیں؟..

اس کے علاوہ ہماری زندگی میں ہم سب کے لئے جو ابتدائی سوالات پیدا ہو تے ہیں ،وہ یہ ہیں:

ہم کہاں سے آئے ہیں ؟کہاں پر ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟

اگرہم ان مذکورہ تینوں سوالات کے جواب جانیں تو کتنے خو ش قسمت ہوں گے؟یعنی ہم جا نیں کہ ہماری زندگی کا آغاز کہاں سے ہوا ہے اور سر انجام کہاں جائیں گے؟اور اس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

ہمارا ضمیر ہم سے کہتا ہے :مذکورہ سوالات کے جواب حاصل کر نے تک آرام سے نہ بیٹھنا۔

کبھی کو ئی شخص ٹریفک حادثہ میں زخمی ہو کر بے ہوش ہو جا تا ہے اور معالجہ کے لئے اسے ہسپتال لے جاتے ہیں۔جب اس کی حالت قدرے بہتر ہو تی ہے اور وہ ہوش میں آتا ہے تو اپنے ارد گرد موجودافراد سے اس کا پہلا سوال یہ ہو تا ہے:یہ کون سی جگہ ہے؟مجھے کیوں یہاں لایا گیا ہے؟میں کب یہاں سے جاؤں گا؟اس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ایسے سوالات کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ۔

اس لئے جو چیز ہمیں سب سے پہلے خدا کی تلاش اور خالق کائنات کی معرفت حاصل کر نے پر مجبور کرتی ہے ،وہ ہماری تشنہ اور متلاشی روح ہے۔

۲ ۔شکر گزاری کا احساس۔

فرض کیجئے آپ کی ایک محترم مہمان کی حیثیت سے دعوت کی گئی ہے اور آپ کی مہمان نوازی اور آرام و آسائش کے تمام وسائل مہیا کئے گئے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ دعوت آپ کے بڑے بھائی کے توسط سے انجام پائی ہے اور اپنے اسی بھائی کے ہمراہ دعوت پر گئے ہیں اور وہ اپنے میز بان کو اچھی طرح سے نہیں پہچانتے،اس لئے اس دعوت پر پہنچتے ہی آپ سب سے پہلے اپنے میز بان کو پہچان کر اس کا شکریہ بجا لانے کی کوشش کریں گے۔

ہم بھی جب خالق کائنات کے بچھائے ہوئے خلقت کے اس وسیع دستر خوان پر نظر ڈالتے ہیں اور بینائی والی آنکھیں،سننے کے کان ،عقل وہوش،مختلف جسمانی اور نفسیاتی توانائیاں،زندگی کے مختلف وسائل اور پاک و پاکیزہ رزق جیسی گو نا گوں نعمتوں کو اس وسیع دستر خوان پر دیکھتے ہیں تو بے ساختہ اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں عطا کر نے والے کو پہچان لیںاور اگر چہ وہ ہمارے شکریہ کا محتاج بھی نہ ہو،ہمیں اس کا شکر یہ بجا لاناچاہئے اورجب تک یہ کام انجام نہ دیں،ہم بے چینی اور کمی کا احساس کرتے ہیں ،لہذا یہ ایک اور دلیل ہے جو ہمیں خدا کوپہچاننے کی طرف ترغیب دیتی ہے۔

۳ ۔خدا کی معرفت سے ہمارے نفع و نقصان کا تعلق۔

فرض کیجئے اپنے سفر کے راستہ پرآپ ایک چورا ہے پر پہنچے،وہاں پر شور وغل بر پا ہے،سب پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس چوراہے پر نہ رکئے،یہاں بڑے خطرات ہیں۔ لیکن ہر ایک ہماری الگ الگ راستے کی طرف راہنمائی کر تا ہے ۔ایک کہتا ہے :بہترین راستہ یہ ہے کہ مشرق کی طرف چلے جائیں،دوسرا مغرب کی طرف مطمئن ترین راستہ بتاتا ہے اور تیسرا ہمیں ان دو راستوں کے بیچ والے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ،اور کہتا ہے خطرہ سے بچنے کا اور منزل نیز امن وامان اور سعادت وخوش بختی کی جگہ تک پہنچنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔

کیا ہم یہاں پر غور وفکر اور تحقیق کئے بغیر ان راستوں میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کریں گے؟یا ہماری عقل ہمیں یہ حکم دے گی کہ وہیں پر رکے رہیںاور کسی راستہ کا انتخاب نہ کریں؟قطعاًایسا نہیں ہے۔

بلکہ عقل ہمیں حکم دیتی ہے کہ اس حالت میں جتنی جلد ممکن ہو تحقیق کریں اور ان افراد کی تجویزوں میں سے ہر ایک پر غور و فکر کے بعد جس کسی کے بارے میں صحیح اور سچ ہو نے کی نشانیاں اور اطمینان بخش دلائل موجود ہوں،اسے قبول کریں اور اطمینان کے ساتھ اس راہ کو منتخب کر کے آگے بڑھیں۔

اس دینوی زندگی میں بھی ہماری یہی حالت ہے ۔مختلف مذاہب اور مکاتب فکر میں سے ہر ایک ہمیں اپنی طرف دعوت دیتا ہے ۔لیکن چونکہ ہماری تقدیر،ہماری خوشبختی وبد بختی، ہماری ترقی وتنزل کا دار ومدار بہترین راستہ کی تحقیق اور اس کے انتخاب کرنے پر ہے،اس لئے ہم مجبور ہیں کہ اس سلسلہ میں غور وفکر کریں اور جو راستہ ہماری ترقی و تکامل کے موجب ہو اسے اپنے لئے چن لیں اور جو ہماری نابودی ،بدبختی اور بربادی کا سبب ہو اس سے پر ہیز کریں۔

یہ بھی ہمارے لئے خالق کائنات کے بارے میں مطالعہ اور تحقیق کر نے کی طرف دعوت کر نے کی ایک اور دلیل ہے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( فبشّر عباد الّذین یستمعون القول فیتّبعون احسنه ) (سورئہ زمردآیہ/ ۱۸)

” میرے ان بندوں کو بشارت دیجئے،جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور ان میں جو بات اچھی ہو تی ہے اسی کا اتباع کرتے ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے:

۱ ۔کیاآپ نے خدا کی معرفت کے سلسلہ میں جو کچھ آج تک اپنے ماں باپ سے سناہے ،اس کے علاوہ اس بارے میں خودبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے ؟

۲ ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ خدا کی تلاش اور خدا کی معرفت میں کیا فرق ہے؟

۳ ۔کیا آپ نے خدا وند متعال سے راز و نیاز کے دوران کبھی ایک عمیق روحانی لذت کا احساس کیا ہے؟

دوسراسبق .ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں

فرض کیجئے کہ آپ کا ایک دوست سفر سے لوٹا ہے اور آپ کے لئے تحفہ کے طور پر ایک کتاب لایا ہے اور اس کتاب کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک بہترین کتاب ہے کیونکہ اس کا مصنف ایک غیر معمولی فطانت کا مالک،دانشور،آگاہ، ماہر اور اپنے فن میں ہر لحاظ سے انوکھا اور استاد ہے۔

آپ اس کتاب کا ہرگز سرسری مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے تمام جملوں حتی اس کے لفظ لفظ پر غور وخوض کریںگے اور اگر اس کے کسی جملہ کو نہ سمجھے تو گھنٹوں بلکہ شایدمسلسل کئی دنوں تک فرصت پانے پر اس کے بارے میں سعی و کوشش کریں گے تاکہ اس کا معنی ومفہوم آپ کے لئے واضح ہو جائے ،کیونکہ اس کا مصنف ایک عام انسان نہیں ہے بلکہ ایک ایسا عظیم دانشورہے جوسوچے سمجھے بغیر ایک لفظ بھی نہیں لکھتا ہے۔

لیکن اگر اس کے برعکس آپ سے کہا جائے کہ( اگر چہ ممکن ہے یہ کتاب بظاہر خوبصورت ہو،لیکن) اس کا مصنف ایک کم علم شخص ہے اور کسی قسم کی علمی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور اس کے کام میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے!

واضح ہے کہ آپ اس قسم کی کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے اور جہاں پر بھی کوئی ناقابل فہم مطلب نظر آئے گا اسے مصنف کی کم علمی کا نتیجہ تصور کریں گے اور سوچیں گے کہ اس پر وقت صرف کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہے !

کائنات کی مثال بھی ایک عظیم کتاب کے مانند ہے کہ اس میں موجود ہر مخلوق اس کا ایک لفظ یا جملہ ہے۔ایک خداشناس شخص کی نظر میں کائنات کے تمام ذرّات قابل غور ہیں۔ایک با ایمان انسان خدا پرستی کے نور کے پر تو میں ایک خاص تفکر و تدبر کے ساتھ خلقت کے اسرار کا مطالعہ کرتا ہے (اور یہی موضوع انسان کے علم ودانش کی تر قی میں مدد گار ثابت ہوتا ہے)کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق،بے انتہا علم وقدرت رکھتا ہے ،اور اس کے تمام کام حکمت وفلسفہ کی بنیاد پر ہیں ،اس لئے وہ اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر تا ہے ،گہری تحقیق کرتا ہے تاکہ اس کے اسرار کو بہتر صورت میں درک کرے۔

لیکن ایک مادہ پرست انسان خلقت کے اسرار کا گہرا مطالعہ کر نے کا شوق ہی نہیں رکھتا ہے،کیونکہ وہ بے شعور طبیعت کو ان کا خالق جانتا ہے ۔اگر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض مادی دانشور سائنسی ایجادات انجام دیتے ہیں ،یہ اس لئے ہے کہ وہ غالباًخدا کو قبول کرتے ہیں ،صرف اس کا نام طبیعت رکھتے ہیں ،کیونکہ وہ طبیعت کے کام کے سلسلہ میں ”نظم“،”حساب“اور”نظام“کے قائل ہیں۔مختصر یہ کہ خدا پرستی علم ودانش کی ترقی کا وسیلہ ہے۔

۲ ۔خدا کی معرفت اور تلاش وامید

جب انسان اپنی زندگی میں سخت اور پیچیدہ حوادث سے دوچار ہو تا ہے اور بظاہر اس پر ہر طرف سے امید کے دروازے بند ہو جاتے ہیںاور مشکلات کے مقابلہ میں کمزوری،ناتوانی اور تنہائی کا احساس کرتا ہے تو اس وقت خداپر ایمان اس کی مدد کرتا ہے اور اسے توانائی بخشتا ہے۔

جو لوگ خداپر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی اپنے آپ کوتنہا اور ناتواںنہیں پاتے،نا امید نہیں ہوتے،کمزوری اور ناتوانائی کا احساس نہیں کرتے ،کیو نکہ خدائی طاقت تمام مشکلات سے بالاتر ہے اور خدا کے سامنے تمام چیزیں آسان ہیں ۔

ایسے لوگ پروردگارعالم کی مہربانی،حمایت اور مدد کی امید کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں اور عشق و امید کے ساتھ سعی و کوشش کو جاری رکھتے ہیں اور مشکلات پر غلبہ پاتے ہیں۔

جی ہاں!خدا پر ایمان انسانوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہے۔

خدا پر ایمان استقامت اور پائداری کا سبب ہے۔

خدا پر ایمان،دلوں میں امید کی کرن کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔اسی لئے با ایمان افرادکبھی خود کشی کا اقدام نہیں کرتے ہیں کیو نکہ خودکشی کا سر چشمہ مکمل نا امیدی اورناکامی کا احساس ہے ،لیکن با ایمان افراد نہ ہی نا امید ہو تے ہیں اور نہ ہی ناکامی کا احساس کر تے ہیں۔

۳ ۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساس

ہم ایسے ڈاکٹروں کو جانتے ہیں کہ جب کوئی تنگ دست بیمار ان کے پاس آتا ہے تو نہ صرف وہ اس سے فیس نہیں لیتے بلکہ اس کی دوائی کے پیسے بھی اپنے جیب سے دیتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر اپنے بیمار کے بارے میں خطرہ کا احساس کرتے ہیں تو اس کی جھونپڑی میں رات بھر اس کے سر ہانے بیٹھے رہتے ہیں ۔یہ خداپرست اور با ایمان افراد ہیں۔

لیکن ہم ایسے ڈاکٹروں کو بھی جانتے ہیں کہ پیسے لئے بغیر بیمار کے لئے کسی قسم کا اقدام نہیں کرتے ہیں ،کیو نکہ یہ قوی ایمان نہیں رکھتے۔

ایک با ایمان انسان جس عہدہ پر بھی فائز ہو،ذمہ داری کا احساس کرتا ہے،وہ فرض شناس ہو تا ہے ،نیک اور بخشنے والا ہو تا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے اندر ایک معنوی پلیس کو حاضر پاتا ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔

لیکن بے ایمان افراد خود خواہ،خود غرض اور خطر ناک ہوتے ہیں اور اپنے لئے کبھی ذمہ دار ی کے قائل نہیں ہوتے۔ان کے لئے ظلم وستم اور دوسروں کی حق تلفی کرنا آسان ہو تا ہے اور نیک کام انجام دینے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ہیں۔

۴ ۔ خدا کی معرفت اور سکون قلب

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں نفسیاتی اور روحی بیماریاں دوسرے زمانوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کا ایک سبب احساس پریشانی ہے،مستقبل کے حوادث کی پریشانی ،موت کی پریشانی،جنگ کی پریشانی اور فقر و ناکامی کی پریشانی۔

لیکن اس کے بعد وہ کہتے ہیں:انسان کی روح سے پریشانیوں اور اضطرابوں کو دور کر نے والی چیزوں میں سے ایک خدا پر ایمان ہے ۔کیونکہ جب بھی پریشانی کے عوامل و اسباب اس کی روح پر اثر انداز ہو نا چاہتے ہیں خدا پر ایمان انھیں پیچھے ہٹا دیتا ہے۔

خدا جو مہر بان ہے،خدا جو رزق دیتا ہے،خدا جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے اور اس کے بندے جب بھی اس کی طرف رخ کرتے ہیں ،وہ ان کی مدد کرتا ہے اور مشکلات سے انھیں نجات بخشتا ہے۔

اسی لئے حقیقی مو منین ہمیشہ سکون احساس کرتے ہیں اور ان کی روح میں کبھی اضطراب نہیں ہوتا ہے اور چونکہ ان کاکام خدا کے لئے ہوتا ہے اس لئے اگر کبھی کوئی نقصان بھی اٹھاتے ہیں تو اسی سے تلافی چاہتے ہیں ،یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو تی ہے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( الّذین آمنواولم یلبسواإیمانهم بظلم اولٰئک لهم الامن ) (سورئہ انعام/ ۸۲)

”جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا اور انھیں کے لئے امن وسکون ہے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیاآپ کوگزشتہ لوگوں کی کوئی ایسی داستان یاد ہے جو مذکورہ ایمان وآثار کی وضاحت کرے؟

۲ ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا پر ایمان رکھنے کادم بھرنے والے بعض افراد کیوں اخلاقی برائیوں سے آلودہ ہو تے ہیں اور ان میں مذکورہ چار آثار نہیں پائے جاتے ہیں؟

تیسرا سبق خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے

۱ ۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقی

معرفت خدا کے بارے میں زمانہ قدیم سے آج تک بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور اس موضوع پر دانشوروں اور غیر دانشوروںمیں کافی بحث وگفتگو ہوتی رہی ہے۔

اس حقیقت کو پانے کے لئے ہر ایک نے ایک راستہ کا انتخاب کیا ہے۔لیکن تمام راستوں میں سے بہترین راستے جو ہمیں خالق کائنات تک جلدی پہنچاسکتے ہیں،دو راستے ہیں:

الف۔اندرونی راستہ(نزدیک ترین راستہ)

ب۔بیرونی راستہ(واضح ترین راستہ)

پہلے طریقہ میں ہم اپنے وجود کی گہرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ توحید کی آواز کو اپنی روح کے اندر سن لیں۔

دوسرے طریقہ میں ہم وسیع کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اورتمام مخلوقات کی پیشانی پر اور ہرذرّہ کے اندرخداوند متعال کی نشانیاں پاتے ہیں۔ان دو طریقوں میں سے ہر ایک کے بارے میں طویل بحثیں کی گئی ہیں ۔لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک مختصر بحث کے ذریعہ ان دو طریقوں کو ایک اجمالی تحقیق کے ساتھ بیان کریں۔

الف۔اندرونی راستہ

مندرجہ ذیل چند موضوعات قابل غور ہیں:

۱ ۔دانشور کہتے ہیں:اگر کسی بھی قوم ونسل سے متعلق ایک انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے کسی خاص قسم کی تعلیم وتر بیت نہ دی جائے ،حتی خدا پرستی اور مادیت کی گفتگو سے بھی بے خبر رکھاجائے تب بھی وہ خود بخود ایک ایسی قوی طاقت کی طرف متوجہ ہو جاتاہے جومادی دنیا سے بالا تر ہے اور پوری کائنات پر حکمران ہے۔

وہ اپنے دل اورضمیرکی عمیق گہرائیوں میں ایک لطیف ،محبت آمیز،اور متقن و محکم آواز کا احساس کرتا ہے جو اسے علم وقدرت کے ایک عظیم مبدا کی طرف بلاتی ہے،جسے ہم خدا کہتے ہیں ۔

یہ بشرکی وہی پاک اور بے لاگ فطری کی آواز ہے۔

۲ ۔ممکن ہے مادی دنیا اور روز مرہ زندگی کاشور وغل اوراس کی چمک دمک اس کو اپنی طرف مشغول کرے اور وہ عارضی طور پر اس آواز کو سننے سے غافل ہو جائے ،لیکن جب وہ اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کے مقابلہ میں پاتا ہے ،جب خطرناک طبیعی حوادث اس پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے سیلاب،زلزلہ،طوفان اورایک نامناسب موسم کے سبب ہوائی جہاز میں رونما ہونے والے اضطرابی حالات سے دو چار ہو تا ہے ،اس وقت وہ تمام مادی وسائل سے مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا ہے تو یہ آواز اس کی روح کے اندر ابھرتی ہے ،وہ احساس کرتا ہے کہ اس کے وجود کے اندر سے ایک طاقت اسے اپنی طرف بلا رہی ہے ،ایک ایسی طاقت جو تمام طاقتوں سے برتر ہے ،ایک پر اسرارطاقت جس کے سامنے تمام مشکلات سہل اور آسان ہیں۔

آپ بہت کم ایسے لوگوں کو پائیں گے جو اپنی زندگی کے مشکل ترین حوادث میں اس قسم کی حالت پیدا نہ کریں اور بے اختیار خدا کو یاد نہ کریں ۔یہی بات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کتنا اس کے نزدیک ہیں اور وہ کس قدر ہمارے قریب ہے،وہ ہماری روح و جان میں موجود ہے۔

البتہ فطری آوازہمیشہ انسان کی روح میںموجود ہے لیکن مذکورہ لحظات میں یہ آواز زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔

۳ ۔تاریخ ہمیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے صاحبان اقتدار جواپنے جاہ وجلال اور آرام و آسائش کے لمحات میں خدا کا نام تک لینے سے انکار کرتے تھے ،جب اپنی قدرت کی بنیادوں کو متزلزل ہوتے اور اپنی ہستی کے محلوں کو گرتے دیکھتے تھے تو اس عظیم مبداً(خدا) کی طرف متوجہ ہوتے تھے اورفطری آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔

تاریخ بتاتی ہے:جب فر وعون نے اپنے آپ کو پر تلاطم لہروں کی لپیٹ میں پایااور اس نے مشاہدہ کیا کہ جو پانی اس کے ملک کی آبادی اور زندگی کا سبب اور اس کی تمام مادی طاقت کا سر چشمہ تھا،اس وقت اس کے لئے موت کا حکم جاری کر رہاہے اور وہ چند چھوٹی لہروں کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گیا ہے اور ہر طرف سے اس پر نا امیدی چھائی ہوئی ہے ،تو اس نے فریاد بلند کی :”میں اس وقت اعتراف کرتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔“حقیقت میں یہ فر یاد اس کی فطرت اور روح کی گہرائیوں سے بلند ہوئی تھی نہ صرف فروعون بلکہ وہ تمام لوگ جو ایسے حالات سے دو چار ہوجاتے ہیں،اس آواز کو واضح طور پر سنتے ہیں۔

۴ ۔خود آپ بھی اگر اپنے دل کی گہرائیوں پر توجہ کریں گے توضرور تائید کریں گے کہ وہاں پر ایک نور چمکتا ہے جو تمھیں خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔شاید زندگی میں آپ کو کئی بار ناقابل برداشت حوادث اور مشکلات سے دوچار ہو نا پڑا ہو اور تمام مادی وسائل ان مشکلات کو دور کر نے میں ناکام ہو گئے ہوں ،ان لمحات کے دوران آپ کے ذہن میںیہ حقیقت ضرور اجاگر ہوئی ہوگی کہ اس کائنات میں ایک بڑی اور قدرتمند طاقت موجود ہے جو اس مشکل کو آسانی کے ساتھ حل کر سکتی ہے۔

ان لمحات میں آپ کی امید پرور دگار کی عشق سے ممزوج ہوکرآپ کی روح وجان کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور یاس ونا امیدی کو آپ کے دل سے دور کر دیتی ہے ۔

جی ہاں!یہ نزدیک ترین راستہ ہے کہ ہر شخص اپنی روح کے اندر پرور دگار عالم اور خالق کائنات کو پاسکتا ہے۔

ایک سوال

ممکن ہے آپ میں سے بعض افراد یہ سوال کریں کہ کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ہم ماحول اور اپنے والدین سے حاصل کی گئی تعلیمات کے زیر اثر حساس مواقع پر ایسا سوچتے ہیں ؟اور خدا کی بار گاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟

ہم اس سوال کے بارے میں آپ کو حق بجانب جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا ایک دلچسپ جواب ہے ،جسے ہم آئندہ سبق میں بیان کریں گے ۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( فإذارکبوا فی الفلک دعوااللّٰه مخلصین له الدّین فلمّا نجّٰهم إلی البرّ إذا هم یشرکون ) (سورئہ عنکبوت/ ۶۵)

”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیںپھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچ دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کوشش کرکے مذکورہ آیہ کریمہ کو آیت اور سورہ کے نمبر اس کے تر جمہ کے ساتھ لفظ بہ لفظ یاد کیجئے اور بتدریج زبان قرآن سے آگاہی حاصل کیجئے ۔

۲ ۔کیا آپ کو کبھی کوئی ایسا مشکل حادثہ پیش آیا ہے کہ آپ ہر طرف سے مایوس ہوچکے ہوں اور صرف پروردگار کے لطف کی امید باقی رہی ہو؟(ایک مختصر مقالہ یا تقریر کے ذریعہ اس کو بیان کیجئے )۔

۳ ۔اس راستہ کو ہم نے کیوں نزدیک ترین راستہ کہاہے؟

چوتھا سبق ایک اہم سوال کا جواب

سوال

گزشتہ سبق میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ہم توحید اور خدا پرستی کی آواز کو اپنی روح کے اندر سے سنتے ہیں ،خاص کر مشکلات اور مصیبتوں کے وقت یہ آواز قوی تر ہو جاتی ہے اور ہم بے ساختہ طور پر خدا کو یاد کر کے اس کی لامحدود قدرت اور لطف و محبت سے مدد مانگتے ہیں۔

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ یہ اند رونی آواز،جسے ہم فطرت کی آواز کہتے ہیں ،ان تبلیغات کا نتیجہ ہو جو معاشرہ کے ماحول ،مکتب و مدرسہ اور ماں باپ سے ہم سنتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک قسم کی عادت بن گئی ہے۔

جواب

اس اعتراض کا جواب ایک مختصر سے مقدمہ کے ذریعہ واضح ہو جاتا ہے۔

عادتیں اور رسم و رواج ،متغیّر اور ناپائیدار چیزیں ہیں ۔یعنی ہم کسی عادت اور رسم ورواج کو پیدا نہیں کرسکتے ہیں جو پوری تاریخ بشر کے دوران تمام اقوام میں یکساں صورت میں باقی رہے ہوں۔جو مسائل آج عادت اور رسم ورواج کے طور پر رونما ہوتے ہیں،ممکن ہے کل بدل جائیں ۔اسی وجہ سے ممکن ہے ایک قوم کے رسم ورواج اور عادات دوسری قوموں میں نہ پائے جائیں۔

اس لئے اگر ہم مشاہدہ کریں کہ ایک چیز تمام قوموں اور ملتوں کے در میان ہر زمان ومکان میں بلا استثنا ء موجودہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی ایک فطری بنیاد ہے جوانسان کی روح و جان کی ساخت اور بناوٹ میں قرار پائی ہے۔

مثال کے طور پر ایک ماں کی اپنے فرزند کی نسبت محبت کو کسی تلقین،تبلیغ عادت ورسم ورواج کا نتیجہ قطعاًنہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہم کسی قوم وملت اور کسی زمان و مکان میں نہیں پاتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتی ہو۔

البتہ ممکن ہے ایک ماں نفسیاتی بیماری کی وجہ سے اپنے فرزند کو نابود کر دے یا کوئی باپ جاہلیت کے زمانہ میں غلط اور خرافی تفکر کی وجہ سے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ،لیکن یہ انتہائی شاذو نادر اور استثنائی مواقع ہیں،جوجلدی ہی ختم ہو کر اپنی اصلی حالت(یعنی فرزند سے محبت)پر لوٹ آتے ہیں۔

مذکورہ تمہید کے پیش نظر ہم آج کے اور ماضی کے انسانوں کی خدا پرستی کے مسئلہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

(چونکہ یہ سبق قدرے پیچیدہ ہے اس لئے اس پر زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے)

۱ ۔عمر انیات کے ماہرین اور بڑے بڑے مورخین کی گواہی کے مطابق ہم کسی ایسے زمانے کو نہیں پاتے ہیں جس میں مذہب اور مذہبی ایمان لوگوں میںموجود نہ رہاہو بلکہ ہر عصراور ہر زمانے میں دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب موجود تھا اور یہ بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا پرستی کا سر چشمہ انسان کی روح وفطرت کی گہرائیوں میں مو جود ہے نہ یہ کہ عادات،رسم و رواج اور تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہے ۔اس لئے کہ اگر یہ عادات ،رسم ورواج اور تعلیم وتر بیت کا نتیجہ ہو تا تو اس صورت میں اسے عام اور لافانی نہیں ہو نا چاہئے تھا ۔

یہاں تک کہ ایسے آثار و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ماقبل تاریخ میں زندگی بسر کر نے والے لوگ بھی ایک قسم کے مذہب کے قائل تھے (ما قبل تاریخ کا زمانہ اس زمانہ کو کہتے ہیں کہ ابھی لکھائی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان اپنی یاد گار کے طور پر تحریر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ چونکہ ابتدائی لوگ خدا کو ایک مافوق طبیعی وجود کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے تھے اس لئے اسے مادی مخلوقت کے در میان تلاش کرتے تھے اور اپنے لئے مادی مخلوقات سے بت بناتے تھے ۔لیکن انسان نے عقل و فکر کی تر قی کے ساتھ رفتہ رفتہ حق کو پہچان لیا اور مادی مخلوقات کے بنائے ہو ئے بتوں کو چھوڑ کر طبیعی کائنات کے ماوراء خدا کی لا محدود قدرت سے آگاہ ہوا۔

۲ ۔بعض ماہرین نفسیات نے صراحتاًکہاہے کہ انسان کی روح کے چارپہلو یا چار اصلی حس پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”دانائی کی حس“: یہ حس انسان کوعلم و دانش حاصل کر نے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی روح کو علم حاصل کر نے کا شوق دلاتی ہے ،خواہ یہ علم اس کے لئے مادی فائدہ رکھتا ہو یانہ ہو۔

ب۔”بھلائی کی حس“یہ حس عالم بشریت میں اخلاقی اور انسانی مسائل کا سر چشمہ ہے۔

ج۔”زیبائی کی حس“:یہ حس،حقیقی معنی میں شعر،ادبیات اور فنّ وہنر کا سر چشمہ ہے۔

د۔”مذہبی حس“:یہ حس،انسان کو معرفت خدا اور اس کے فر مان کی اطاعت کر نے کی دعوت دیتی ہے ۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی حس انسانی روح کی ایک بنیادی اور اصلی حس ہے ۔یعنی یہ حس نہ کبھی اس سے جدا تھی اور نہ کبھی جدا ہو گی۔

۳ ۔آئندہ بحثوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اکثر مادہ پرست اور منکرین خدا نے بھی ایک طرح سے خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے،اگر چہ وہ لوگ خدا کے نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اوراسے فطرت یا دوسرے نام سے پکارتے ہیں ،لیکن اس فطرت کے لئے ایسی صفتوں کے قائل ہوتے ہیں کہ جو خدا کی صفات کے مشابہ ہیں۔

مثلاًکہتے ہیں :فطرت نے اگر انسان کو دو گردے دئے ہیں،یہ اس لئے ہے کہ اسے معلوم تھا،ممکن ہے ان دو گردوں میں سے ایک خراب ہو جائے تو دوسرا گردہ اس کی زندگی کو جاری رکھ سکے ،وہ ایسی ہی تعبیرات بیان کرتے ہیں ۔کیا یہ بات ایک بے شعور فطرت کے ساتھ متناسب ہے ؟یا یہ کہ یہ ایک ایسے خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے جو لامحدود علم وقدرت کا مالک ہے،اگر چہ انہوں نے اس کا نام فطرت رکھا ہے۔

بحث کا نتیجہ:

اس بحث میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ،اس سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں :

خدا کی محبت ہماری روح میں ہمیشہ موجود تھی اور ہو گی۔

خدا کا ایمان ایک ایسا ابدی شعلہ ہے جو ہمارے قلب و روح کو گرم کر تا ہے۔

خدا کی معرفت حاصل کر نے کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں کہ طولانی راستے طے کریں،ہمیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں نظر ڈالنی چاہئے،خدا پر ایمان کو ہم وہاں پر پائیں گے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( ونحن اقرب إلیه من حبل الورید ) (سورئہ ق/ ۱۶)

”اور ہم اس سے رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔عادت کی چند مثالیں اور فطرت کی چند مثالیں بیان کیجئے۔

۲ ۔نادان لوگ کیوں بت پرستی کے پیچھے جاتے تھے؟

۳ ۔مادہ پرست خدا کو کیوں”فطرت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں؟

آیت ۸۴

۸۴۔( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۴۔راہ خدا میں جنگ کرو ۔ تم صرف اپنی ذمہ داری کے جواب وہ ہو او رمومنین کو ( اس کام کا )شوق دلاو۔امید ہے کہ خدا کافروں کی قوت کو روک دے

( چاہے تم اکیلے ہی میدان میں چلے جاو) خدا کی قدرت بہت زیادہ ہے اور اس کی سزا دردناک ہے ۔

شان ِ نزول

تفسیر مجمع البیان ، قرطبی اور روح المعانی میں اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں اس طرح منقول ہے :

جس وقت ابو سفیان اور قریش کا لشکر فتح و کامیابی کے ساتھ میدان ِ احد سے پلٹا تو ابو سفیان نے پیغمبر سے معاہدہ کیا کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ( یعنی ماہِ ذی القعدہ میں جو بازار بدر کی زمین پر لگتا تھا) دوبارہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے ۔

جب مقررہ وقت آیا تو پیغمبر اکرم نے مسلمانوں کو مذکورہ مقام کی طرف جانے کی دعوت دی لیکن مسلمانوں کی ایک جماعت جو جنگ احد کی شکست کی تلخی کو ابھی تک نہیں بھولی تھی اس نے شدت کے ساتھ جانے کی مخالفت کی اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی اور رسول اللہ نے مسلمانوں کو دوبارہ چلنے کی دعوت دی تو اس موقع پر صرف ستر آدمی پیغمبر کے ہم رکاب ہو کر اس مقام پر پہنچے ۔ لیکن ابو سفیان ( جو مسلمانوں کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھا) مقابلہ کرنے نہ آیا اور پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے ساتھ صحیح و سلامت مدینہ لوٹ آئے ۔

ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے

جہاد سے متعلق آیات کے بعد اس آیت میں ایک بہت بڑا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اکیلے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں ۔ چاہے ایک شخص بھی میدان میں ان کا ہم قدم نہ ہو ۔ کیونکہ وہ صرف اپنی ذمہ داری کے لئے جوابدہ ہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شوق دلانے اور دعوتِ جہاد دینے کے علاوہ ان کی کوئی مسئولیت نہیں ہے ۔

( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ )

حقیقت میں یہ آیت ایک اہم اجتماعی حکم خصوصاً رہبروں کے متعلق اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اپنے کام میں اس قدر پختہ عزم ، ثابت قدم اور اٹل ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی شخص بھی ان کی دعوت پ ر” لبیک “ نہ کہے تب بھی وہ اپنے مقدس مقصد اور منزل کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار نہ ہوں ۔ دوسروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دینے کے باوجود اپنے لائحہ عمل کو دوسروں کی مرضی پر نہ چھوڑ یں ۔ کوئی رہبر بھی جب تک ایسے عزم ِ صمیم کا حامل نہ ہو وہ رہبری کے اہل نہیں اور نہ ہی وہ اپنے مقاصد کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے خصوصاً خدا کے مقرر شدہ رہبر و رہنما بلند عزم و حوصلہ اور کردار کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ انھیں خدا کی ذات پر تکیہ ہوتا ہے وہ خدا کہ جو تمام تونائیوں اور طاقتوں کا سر چشمہ ہے ۔

لہٰذا اس حکم کے بعد خدا فرماتا ہے : امید ہے کہ خدا تیری سعی و کوشش کے ذریعے دشمنوں کی قدرت و طاقت کو ختم کردے گاچاہے ان کے مد مقابل تو اکیلا ہی کیوں نہ ہو ۔ کوینکہ اس کی قدرت تمام قدرتوں سے مافوق اور اس کی سزا تمام عذابوں سے بڑھ کر ہے ۔

( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔(۱)

____________________

۱-باٴس کے معنی لغت لغت میں قوت، استحکام اور شجاعت ہے اور تنکیل مادہ نکول سے خوف کے مارے رک جانے کے معنی میں ہے اور اصل نکل

( بر وزن اکل ) کو جانور کی لگام کے معنی میں لیا گیا ہے اسی بناپر تنکیل جو کہ بات کا مصدر ہے ایسے کام کی انجام دہی کے مقصد میں آتا ہے کہ مقابل کی طرف جسے مشاہدہ کرنے کے ساتھ خلاف ورزی سے لوٹ آئے اور یہ وہی عذاب ہے کہ جو تم ستم گروں سے دوسرے لوگوں کی عبرت کا باعث بنتا ہے ۔

کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی

لفظ ” عسیٰ “ عربی لغت میں شائد کے معنی میں ردد کا مفہوم بھی دیتا ہے اور ” لعل“ پر امید ہونے ، انتظار اور ایسے امر کی توقع کے معنی میں آتا ہے آئندہ جنکے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ انسانوں کی گفتگو میں آنا تو فطری اور عین طبعی ہے کیونکہ انسان تمام مسائل سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی صلاحیت و قدرت بھی محدود ہے اور وہ جو کچھ کرے اس کے انجام کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ خدا جو ماضی ، حال اور مستقبل سے مکمل طو رپر باخبر ہے اور جو کرنا چاہے اس کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے ”جہالت “ی ا” بے اختیار“ ہونے کے الفاظ استعمال کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا اس لئے بہت سے علماء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ جو اس کے کلام میں استعمال ہوں وہ اپنے اصل معنی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کے کچھ اور معنی نکلتے ہیں مثلاً” عسی ٰ“ وعدہ کے معنی اور ” لعل “ طلب کے معنی میں ہے ۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ الفاظ کلام خدا میں بھی اپنے وہی اصلی معانی رکھتے ہیں اور ان کا لازمہ جہالت اور عدم اختیار نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ایسے مواقع پر استعمال ہوتے ہیں کہ جہاں مقصد تک پہنچنے کے لئے کئی ایک مقامات کی ضرورت ہوتی ہے تو جس وقت ان میں سے ایک یا کئی مقدمات حاصل ہو جائیں تو پھر بھی اس مقصد کے موجود ہونے کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ چاہیئے کہ اسے احتمالی حکم کے طور پر بیان کیا جائے ۔

مثلاً قرآن کہتا ہے :۔( واذا قرء القراٰن فاستمعو ا له و انصتوا لعلکم ترحمون )

جب قرآن پڑھا جائے تو کا دھرکے سنو اور خاموش رہو ، امید ہے کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو ۔ (اعراف، ۲۰۴)

واضح ہے کہ صرف قرآن کی آیات کو کان دھر نے کے سننے سے خدا کی رحمت انسان کے شامل حال نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک مقدمہ ہے اس کے علاوہ بھی دیگر لوازم ہیں جن میں ان آیات کا فہم و ادراک اور اس کے بعد ان احکام پر عمل در آمد جو ان آیات میں موجود ہیں بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا اس قسم کے مواقع پر ایک مقدمہ کے موجود ہونے سے نتیجہ کے حصول کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ اس ے ایک احتمالی حکم کے طور پر بیان کرنا ہو گا دوسرے لفظوں میں کلامِ خدا میں اس قسم کی تعبیرات تو بیدار کرنے اور سننے والے کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے ہیں اس کا م کے علاوہ کچھ اور شرائط و مقدمات بھی مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً اسی مثال میں خدا کی رحمت کا شعور حاصل کرنے کے لئے قرآن کو غور سے سننے کے ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔

زیر بحث آیت پر بھی یہ گفتگو مکمل طور پر صادق آتی ہے کیونکہ کفار کی طاقت صرف مومنین کو دعوت جہاد دینے اور انھیں شوق جہاد دینے سے ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ساتھ جہاد کے باقی لائحہ عمل پر عملدر آمد بھی ضروری ہے تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ الفاظ جب خدا کے کلام میں آئیں تو ان کے حقیقی معنی سے صرف نظر کر لیا جائے ۔(۱)

____________________

۱ -راغب نے کتاب مفردات میں اس قسم کے الفاظ( عسیٰ وغیرہ ) کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ ان سے مخاطب اور سننے والے کو امید دلانا مقصود ہے ۔ نہ کہ کہنے والے کی امید بیان کرنا اور واضح تر الفاظ میں جب خدا کہتا ہے ” عسی و لعل “ تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ میں امید رکھتا ہوں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم امید رکھو ۔

آیت ۸۵

۸۵۔( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَاوَکَانَ اللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیتًا )

ترجمہ

۸۵۔جو شخص نیک کام کی تحریک دے اس میں اس کا حصہ ہوگا اور جو برے کام کے لئے ابھارے گا تو اس میں سے ( بھی ) اسے حصہ ملے گا۔ اور خدا ہر چیز کا حساب کرتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے ۔

تفسیر

اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ

جیساکہ گذ شتہ آیت کی تفسیر میں اشارہ ہوچکا ہے قرآن کہتا ہے کہ ہر شخص پہلے مرحلہ میں اپنے کام کا جوابدہ ہے نہ کہ دوسروں کا۔ لیکن اس بنا پر کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جائے اس آیت میں کہتا ہے : یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا جوابدہ ہے لیکن جو شخص دوسرے کو نیک کام پر ابھارے تو اس کا حصہ ملے گا اور جو شخص دوسرے کو کسی برے کام پر اکسائے تو اس کا حصہ ( بھی) اس میں ہوگا

( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَا )

اس بناپر ہر شخص کااپنے اعمال کاجوابدہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ وہ دوسروں کو دعوتِ حق دینے اور فساد کا مقابلہ کرنے سے آنکھیں بند کرلے اور اسلام کی روحِ اجتماعیت کو مجرح کرتے ہوئے تجردد انفرادیت کے ذریعے معاشرے سے بیگانگی کا راستہ اختیار کرے ۔ شفاعت اصل میں مادہ شفع ( بر وزن نفع) سے جفت کے معنی میں ہے اس بناپر ایک چیز کا دوسری میں منضم و مدغم ہوجانا شفاعت کہلاتا ہے البتہ کبھی کبھار یہ راہنمائی اور ارشاد و ہدایت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( جس طرح درج بالا آیت میں ہے ) تو اس وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا معنی دیتا ہے ( شفاعت سیئہ اس کے بر عکس یعنی امر بالمنکر و نہی عن المعروف ہے )لیکن اگر گنہ گاروں کو ان کے انجام سے نجات دینے کا موقع ہو تو یہ ایسے گنہ گار افراد کی مدد کرنے کے معنی میں آتا ہے جو شفاعت کے لئے اہلیت اور لیاقت رکھتے ہوں ، دوسرے الفاظ میں شفاعت کبھی تو عمل کی انجام دہی سے پہلے ہوتی ہے جو رہنمائی کے معنی میں ہے اور کبھی عمل کی انجام دہی کے بعد ہوتی ہے ۔

جہاں عمل کے نتائج سے نجات دینے کے معنی میں ہے بہر حال دونوں طرح سے ایک چیز دوسری کے لئے ضمیمہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ضمناً توجہ رہے کہ آیت اگر چہ ایک کلی مفہوم کی حامل ہے ، نیک اور بد ہر طرح کی دعوت کا مفہوم اس میں شامل ہے لیکن چونکہ یہ جہاد کی آیات کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے لہٰذا شفاعت حسنہ سے پیغمبر اکرم کی طرف سے تشویق جہاد مراد ہے اور شفاعتِ سیئہ سے منافقین کی طرف شوق جہاد دلانا مراد ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ لفظ شفاعت کی تعبیراس موقع پر جہاں ( نیکیوں اور برائیوں کی طرف ) رہبری کے بارے میں گفتگو ہوری ہے ۔ ممکن ہے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ رہبر کی گفتگو ( چاہے خیر کا راستہ بتانے والا رہبر ہو یا شر کا سبق دینے والا ) دوسروں پر اسی صورت میں اثر کرے گی جب وہ اپنے لئے دوسروں کی طرح امتیاز نہ برتے بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کا ہم دوش اور ساتھی قرار دے ۔ یہ ایسا طریقہ ہے ، جو اجتماعی اور معاشرتی مقاصد میں بڑا موثر ہوتا ہے ۔ اگر قرآن میں بعض مواقع پرمثلاسورہ شعراء، اعراف، ہود ، نمل، عنکبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انبیاء و مرسلین کو جو امتوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے بھیجے گئے ہیں ” اخو ھم “ یا ” اخاھم“یعنی ان کا بھائی کہا ہے ، تو وہ بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن شفاعت حسنہ یعنی اچھے کام کی طرف راغب کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ترغیب دینے والوں کو ” نصیب “ ملے گا ۔ جب کہ ”شفاعت سیئہ“ کے ضمن میں کہتا ہے کہ اسے” کفل “ میسرآئے گا ۔ یہ تعبیر کا اختلاف اس وجہ سے ہے کہ ” نصیب “ کے معنی ہیں مفید اور زیادہ سود مند اور” کفل “کے معنی ہیں پست اور بری چیز ۔(۱)

یہ آیت اسلام کے بنیادی اجتماعی مسائل کی ایک منطق کو واضح کرتی ہے ۔ آیت صراحت سے کہتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے اعمال کے معاملے میں ترغیب دینے اور رہنمائی کے عمل میں شریک ہیں اس بنا پر جب بھی کوئی بات یا عمل بلکہ انسان کی خاموشی بھی اگر کسی گروہ کے نیک یا برے عمل کی ترغیب کا باعث بنے تو ترغیب دینے والا اس کام کے نتائج کے قابل ذکر حصہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ لیکن اس سے اصل کام کرنے والے کا حصہ کم نہیں ہو جائے گا ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

من امر بمعروف او نھی عن المنکر او دل علی خیر او اشار بہ فھو شریک و من امر بسوء او دل علیہ او اشار بہ فھو شریک ۔

جو شخص کسی اچھے کام کا حکم دے یا برے کام سے روکے یا لوگوں کے لئے عمل خیر کی رہنمائی کرے یا ترغیب دلانے کے لئے کوئی ایسے اسباب فراہم کرے وہ اس عمل میں شریک اور حصہ دار ہے اور اسی طرح جو شخص کسی برے کام کی دعوت دے یا اس کی رہنمائی کرے اور ترغیب وہ بھی اس کام میں شریک ہوگا اس حدیث میں تین مرحلوں میں لوگوں کو نیک یا بد کام کی دعوت دینے کا ذکر ہوا ہے ۔

۱۔ مرحلہ حکم

۲۔ مرحلہ دلالت

۳۔ مرحلہ ارشارہ

یہ تینوں ترتیب دار قوی ، متوسط اور کمزور مرحلے ہیں اس طرح ہر قسم کی دخل اندازی کسی نیک یا برے کام پر ابھارنے کا سبب بنتی ہے اور دخل اندازی کرنے والا اسی نسبت سے اس کے نتائج اور فوائد میں شریک ہوگا۔

اس اسلامی منطق کے مطابق صرف گناہ کرنے والے ہی گنہگار نہیں ہیں بلکہ وہ اشخاص جو کسی کام کی تبلیغ کے مختلف ذرائع استعمال کرکے حالات پیدا کریں ۔ یہاں تک کہ ذراسی ترغیب دلانے والے کا ایک لفظ بھی اسے گناہ کرنے والوں میں شام ل کرلیتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو خیرات اور نیکی اور نیکیوں کے راستے میں اس قسم کا کام کرتے ہیں وہ بھی اس کا اجر حاصل کرتے ہیں ۔

چند نیک روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شفا عت حسنہ یا سیئہ کے معنی میں سے ایک کسی کے حق میں اچھی یا بری دعا کرنا بھی ہے جو کہ بارگاہ ِ خدا وندی میں ایک قسم کی شفا عت ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا :

( من دعا لاخیه الملم بظهر الغیب استجیب له و قال له الملک فلک مثلاه فذلک النصیب ) ۔

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کے پس پشت دعا کرے تو وہ قبول ہو گی اور خدا کا فرشتہ اس سے کہے گا اس سے دوگناہ تمہارے لئے بھی ہے اور آیت میں نصیب سے مراد یہی ہے ۔ ( تفسیر صافی آیہ مذکور کے ذیل میں )

یہ تفسیر گذشتہ تفسیر سے اختلاف نہیں رکھتی بلکہ شفاعت کے معنی میں وسعت ہے یعنی جو مسلمان کسی دوسرے کی کسی طرح کی مدد کرے وہ چاہے نیکی کی ترغیب کی صورت میں ہو یا بار گاہ خدا وندی میں دعا کی شکل میں ہو یا کسی اور طرح سے اس کے نتیجہ میں شریک ہو گا ۔ یہ بات اسلامی پروگراموں کی روحِ اجتماعیت کو اجا گر کرتی ہے اور مسلمانوں کو شخصی اور فقط ذاتی حیثیت سے زندگی گزارنے سے منع کرتی ہے ۔

یہ امر اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ انسان دوسروں کی طرف توجہ اور ان کی بہتری کی کو ششوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور اس سے اس کا ذاتی مفاد خطر ے میں نہیں پڑتا ۔ بلکہ وہ اس کے نتائج میں شریک ہوتا ہے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : خدا توانا اور صاحبِ قدرت ہے اور تمہارے اعمال کی حفاظت کرتا اور حساب رکھتا ہے اور حسنات و سیئات کے نتیجے میں مناسب جزا و سزا دے گا( وکان الله علی ٰ کل شیء مقیتاً ) خیال رہے کہ ” مقیت“ اصل میں قوت کے مادہ سے ہے جس کے معنی اس غذا کے ہیں جو انسان کی جان کی حفاظت کرتی ہے اس بنا پر ” مقیت“ جو باب افعال کا اسم فاعل ہے اس شخص کے معنی میں ہے جو دوسروں کو روزی دیتا ہے ، چونکہ ایسا شخص اس کی زندگی کا محافظ ہوتا ہے اس لئے لفظ ” مقیت “ محافظ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ نیز وہ شخص جو روزی دیتا ہو یقینا اس پر قدرت اور طاقت بھی رکھتا ہے اسی بنا پر یہ لفظ مقتدر کے معنی میں بھی آتا ہے ، ایسا شخص یقینا اپنے زیر کفالت لوگوں کا حساب بھی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ لفظ حسیب کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ او پر والی آیت میں ممکن ہے کہ لفظ” مقیت“ سے یہ تمام مفاہیم مراد لئے گئے ہوں ۔

____________________

۱کفل ( بر وزن طفل ) اصل میں جانور کی پشت کا عقبی اور آخری حصہ ہے جس پر سوار ہونا تکلیف اور سختی کا باعث ہے اس لئے ہر قسم کے گناہ اور برے حصہ کو کفل کہتے ہیں اور ایسے کام کو بھی جس میں بوجھ اور زحمت ہو، کفالت کہتے ہیں ۔

آیت ۸۶

۸۶۔( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

ترجمہ

۸۶۔ جس وقت کوئی شخص تمہیں تحیہ( اور سلام ) کہے تو اس کا جواب بہتر انداز سے دویا ( کم از کم ) اسی طرح کا جواب دو، خدا ہر چیز کا حساب رکھتا ہے ۔

تفسیر

احترام ِ محبت

اگر چہ بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کاتعلق گذشتہ آیات کے ساتھ اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات کی مباحث جہاد سے متعلق تھیں اور اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر دشمن دوستی اور مصالحت چاہیں تو تم بھی مناسب جواب دو لیکن واضح ہے کہ یہ تعلق اس سے مانع نہیں کہ ایک کلی اور عمومی حکم تما م تحیات اور نوازشات کے اظہار سے متعلق ہو جو مختلف افراد کی طرف سے ہو ۔ آیت کی ابتدا میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تحیہ کہے تو اس کا جواب بہتر طریقہ سے دو یا کم از کم اس کے مساوی جواب دو ۔

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا )

تحیت لغت میں حیات کے مادہ سے دوسرے کے لئے حیات و زندگی کی دعا کرنے کے معنی میں ہے چاہے یہ دعا ” سلام علیک “ کی صورت میں ہو

( خدا تجھے سلامت رکھے ) یا حیاک اللہ ( خدا تجھے زندہ رکھے ) یا اس قسم کے اور الفاظ سے ہو لیکن عام طور پر یہ ہر قسم کے اظہار محبت کے لئے ہے جو لوگ الفاظ کے ذریعہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں جس کا واضح ترین اظہار سلام کرنا ہے لیکن کچھ روایات اور تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ عملی اظہار محبت بھی مفہوم ِ تحیت میں شامل ہے تفسیر علی بن ابراہیم میں امام محمد باقر اور امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :

( المراد بالتحیة فی الایة السلام و غیره من البر )

آیت میں محبت سے مراد سلام اور ہر قسم کی نیکی کرنا ہے ۔

کتاب مناقب کی ایک روایت میں ہے :

ایک کنیز نے پھول کی ایک شاخ امام حسن علیہ السلام کی خد مت میں پیش کی تو اس کے جواب میں امام (علیه السلام) نے اسے آزاد کردیا۔ جب آپ (علیه السلام) سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ خدا نے ہمیں یہی حسن سلوک سکھاتے ہوئے فرمایا :

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا )

اس کے بعد مزید فرمایا : بہتر تحیہ وہی اس کا آزاد کرناتھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ آیت ایک کلی حکم اور ہر قسم کے اظہار محبت کا جواب دینے کے سلسلہ میں ہے چاہے وہ زبانی ہو یا عملی ۔ آیت کے آخر میں اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ تحیات ان کے جوابات اور ان کی بر تری و مساوات ، جس قدر اور جیسے ہوں ، خدا سے پوشیدہ پنہاں نہیں ہیں ۔ فرماتا ہے : خدا تمام چیزوں کے حساب سے آگاہ ہے

( إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

سلام عظیم اسلامی تحیہ ہے

جہان تک ہمیں معلوم ہے دنیا کی تمام ملل و اقوام کے افراد جب ایک دوسرے سے ملا قات کرتے ہیں تو ایک دوسرے سے اظہار محبت کے لئے کچھ تحیہ پیش کرتے ہیں جو بعض اوقات لفظی ہوتا ہے اور کبھی عملی بھی ۔ عمل عموماً تحیت کی علامت ہوتا ہے ۔ اسلام میں بھی ” سلام “ ایک واضح ترین تحیت ہے اور اوپر والی آیت میں جیسا کہ اشارہ ہو چک ہے تحیہ اگر چہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے تاہم اس کا ایک واضح اظہار سلام کرنا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سلام کا عالی تر یا کم از کم مساوی جواب دیں ۔

آیاتِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام تحیت کی ایک قسم ہے سورہ نو کی آیة ۶۱ میں ہے :

( فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیة من عند الله مبارکة طبیة )

جب تم کہیں داخل ہو تو ایک دوسرے پر تحیت الہٰی بھیجو ، وہ تحیہ جو مبارک اور پاکیزہ ہے ۔

اس آیت میں سلام کو مبارک اور پاکیزہ خد ائی تحیہ کہہ کر پکارا گیا ہے اور ضمنی طور پر اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سلام ٌ علیکم کا معنی اصل میں سلام اللہ علیکم ہے ” یعنی پروردگار کا تم پر سلام ہو “ یا خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ اسی سبب سلام کرنا ایک قسم کا دوستی ، صلح اور جنگ نہ کرنے کا اعلان ہے ۔ قرآن کی کچھ آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل بہشت کا تحیہ بھی سلام ہے ۔

( اولئک یجزون الغرفة بما صبروا و یلقون فیها تحیة و سلاماً ) (فرقان۔ ۷۵)

” اہل بہشت اپنی استقامت اور صبر کی وجہ سے بہشت کے انعامات اور بلند مقامات سے بہر یاب ہوں گے اور انھیں تحیہ و سلام سے نوازا جائے گا“۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۳ اور سورہ یونس کی آیہ ۱۰ میں بھی اہل بہشت کے بارے میں ہے : تحیتھم فیھا سلام ” ان کا تحیہ بہشت میں سلام ہے ۔“

آیاتِ قرآں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت بمعنی سلام (یا اس کے مفہوم کا کچھ متبادل ) گذشتہ اقوام میں بھی مروج تھا جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیہ ۲۵ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے واقعہ میں آیا ہے کہ جب قوم ِ لوط (علیه السلام) کو سزا دینے والے فرشتے بھیس بدل کر حضرت ابراہیم

(علیه السلام) کے پاس آئے تو آپ (علیه السلام) پر سلام کہا اور آپ(علیه السلام) نے بھی ان کے سلا م کا جواب دیا ۔اذ دخلوا علیه فقالوا سلاماً ْقال سلام قوم منکرون

زمانہ جاہلیت کے عربی اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت سلام کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی تھی ۔(۱)

یہ شعر زمانہ جاہلیت کے توبہ نامی شاعر کے ہیں ۔

جب ہم غیر جانبدار انہ طور پر اس اسلامی تحیت کا مختلف اقوام کی تحیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اس کی قدر و قیمت ہم پر زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔ اسلامی تحیت خدا کی طرف توجہ بھی ہے مخاطب کے لئے سلامتی کی دعا بھی اور صلح و امن کا اعلام بھی ہے ۔ اسلامی روایات میں سلام کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :من بدء بالکلام قبل السلام فلاتجیبوه

جو شخص سلام سے پہلے گفتگو شروع کردے اس کا جواب نہ دو ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم ) ۔

اور امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ خدا فرماتا ہے :

البخیل من یخیل بالسلام بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :

ان الله عزو جل یحب افشاء السلام

افشاء سلام سلام عام کرنے والے کو خدا دوست رکھتا ہے ۔ ( اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

افشاء سلام سے مراد مختلف افراد کو سلام کرنا ہے ۔ احادیث میں سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام صرف ان افراد سے مخصوص نہیں ہے جن سے انسان خصوصی شنا سائی رکھتا ہو جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبراکرم سے سوال ہوا :

کونسا عمل بہتر ہے تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:”تطعم الطعام و تقمرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف“

کھانا کھلاو اور سلام کرو اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جاتے۔(۲)

احادیث میں بھی آیا ہے کہ سوار پیادہ کو اور پیش قیمت سواری والا کم قیمت سواری والوں کو سلام کریں گویا یہ حکم ایسے تکبر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے جو دولت، ثروت اور مخصوص مادی حیثیت سے پیدا ہو تا ہے ۔

یہ بات آج کل دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ آداب و سلام کو نچے طبقہ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور انھوں نے اسے استعمار، استعباد اور بت پرستی کی شکل دے رکھی ہے اگرہم پیغمبر اکرم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ تمام لوگوں کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ البتہ یہ بحث اس حکم سے اختلاف نہیں رکھتی جو بعض روایات میں آیا ہے کہ بچے جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ اپنے بڑوں کو سلام کریں کیونکہ ادب کا تقاضا یہی ہے اس بات کا طبقاتی تفاوت او رمادی حیثیت کے اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ۔

چند روایات میں حکم ہے کہ سودخور، فاسق ، کجرو اور منحرف وغیرہ پر سلام نہ کرو ۔ یہ بھی فساد اور برائی کے خلاف ایک طرح کا اقدام ہے ہاں البتہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے یا رابطے کے لئے تاکہ انھیں خدا ئی نافرمانی سے بچنے کی دعوت دی جاسکے، سلام کرنے کی اجازت ہے ” تحیت باحسن“ سے مراد یہ ہے کہ سلام کی دوسری عبارات مثلاً و رحمة اللہ یا و رحمة اللہ وبرکاتہ کو ساتھ ملا نا ۔

تفسیر در المنثور میں ہے :

ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا : السلام علیک۔ تو آپ نے فرمایا ” و علیک السلام و رحمة اللہ “ دوسرے نے عرض کیا” السلام علیک ورحمة اللہ “ تو آپ نے فرمایا” وعلیک السلام و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تیسرے شخص نے کہا” السلام علیک و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تو پیغمبر نے فرمایا” و علیک “ جب اس نے سوال کیا کہ آپ نے مجھے مختصر جواب کیوں دیا ہے تو فرمایا ۔” قرآن کہتا ہے تحیہ کا جواب زیادہ بہتر طریقہ سے دولیکن تونے کوئی چیز باقی نہیں رکھی ۔“

حقیقت میں پیغمبر نے پہلے اور دوسرے شخص کے جواب میں احسن طریقہ پر تحیہ کیا ہے لیکن تیسرے شخص کے بارے میں مساوی طریقہ اختیار کیا ہے کیونکہ ” وعلیک “ کا مفہوم ہے کہ جو کچھ تونے کہا وہ تیرے لئے بھی ہو ۔ ( در المنثورجلد ۲ صفحہ ۸)

____________________

۱-ولو ان لیلی الاخیلیة سلمت، علی ودونی جندل و صفایح : لسلمت تسلیم البشاشة او زقا الیما صدی من جانب الزبر صالح

۲ ۔تفسیر فی ظلال ذیل آیہ مذکورہ۔

آیت ۸۷

۸۷۔( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

ترجمہ

۸۷۔ وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تم سب کو یقینی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا اور کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہو ۔

تفسیر

درج بالاآیت گذشتہ آیات کی تکمیل اور بعد میں آنے والی آیات کا مقدمہ ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں ” تحیت“ کے حکم کے بعد فرمایا ہے کہ خدا تمہارے اعمال کا حساب رکھتا ہے اس آیت میں مسئلہ قیامت اور روز قیامت ہونے والی عام عدالت کا ذکر ہے اور اسے مسئلہ توحید اور خدا کی یکتائی کے مسئلہ کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے جو کہ ایمان کا ایک اور رکن ہے ۔ فرماتا ہے کوئی معبود اس کے علاوہ نہیں ہے اور لازمی طور پر تمہیں قیامت کے دن اکٹھا مبعوث کرے گا وہی قیامت کا دن کہ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ )

” یجمعنکم “کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام افراد کے لئے روز محشر ایک ہی ہو گا ۔ جیسا کہ سورہ مریم کے آخر میں آیة ۹۳ سے لے لیکر ۹۵ تک اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ خدا کے تمام بندے چاہے وہ اہل زمیں ہو ں یا دوسرے کرات کے رہنے والے ، سب ایک ہی دن مبعوث ہو ں گے ۔

( لاریب فیه ) “ ( اس میں کوئی شک و شبہ نہیں )قیامت کے آنے کے بارے میں اس آیت میں اور قرآن کی دوسری آیات میں یہ تعبیر ان قطعی اور مسلم دلائل کی طرف اشارہ ہے جو اس دن قیامت کی خبر دیتے ہیں مثلا قانون تکامل ، تخلیق کا حکمت و فلسفہ اور قانون عدالت پ روردگار معاد کی بحث میں ان کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے آخر میں اس مطلب کی تاکید کے لئے فرماتا ہے کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہے( وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

لہٰذا وہ جس کا وعدہ روز قیامت یا اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں کرتا ہے اس پر شک نہیں کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ جھوٹ کا سر چشمہ جہالت ہے یا کمزوری اور ضرورت مندی ہے لیکن وہ خدا جو سب سے زیادہ جانتے والا ہے اور سب سے بے نیاز ہے ، وہ سب سے زیادہ سچا ہے اور اصولی طور پر جھوٹ اس کے لئے کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔

آیت ۸۴

۸۴۔( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔

ترجمہ

۸۴۔راہ خدا میں جنگ کرو ۔ تم صرف اپنی ذمہ داری کے جواب وہ ہو او رمومنین کو ( اس کام کا )شوق دلاو۔امید ہے کہ خدا کافروں کی قوت کو روک دے

( چاہے تم اکیلے ہی میدان میں چلے جاو) خدا کی قدرت بہت زیادہ ہے اور اس کی سزا دردناک ہے ۔

شان ِ نزول

تفسیر مجمع البیان ، قرطبی اور روح المعانی میں اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں اس طرح منقول ہے :

جس وقت ابو سفیان اور قریش کا لشکر فتح و کامیابی کے ساتھ میدان ِ احد سے پلٹا تو ابو سفیان نے پیغمبر سے معاہدہ کیا کہ بدر صغریٰ کے موقع پر ( یعنی ماہِ ذی القعدہ میں جو بازار بدر کی زمین پر لگتا تھا) دوبارہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے ۔

جب مقررہ وقت آیا تو پیغمبر اکرم نے مسلمانوں کو مذکورہ مقام کی طرف جانے کی دعوت دی لیکن مسلمانوں کی ایک جماعت جو جنگ احد کی شکست کی تلخی کو ابھی تک نہیں بھولی تھی اس نے شدت کے ساتھ جانے کی مخالفت کی اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی اور رسول اللہ نے مسلمانوں کو دوبارہ چلنے کی دعوت دی تو اس موقع پر صرف ستر آدمی پیغمبر کے ہم رکاب ہو کر اس مقام پر پہنچے ۔ لیکن ابو سفیان ( جو مسلمانوں کا سامنا کرنے سے خوف زدہ تھا) مقابلہ کرنے نہ آیا اور پیغمبر اکرم اپنے اصحاب کے ساتھ صحیح و سلامت مدینہ لوٹ آئے ۔

ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے

جہاد سے متعلق آیات کے بعد اس آیت میں ایک بہت بڑا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اکیلے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں ۔ چاہے ایک شخص بھی میدان میں ان کا ہم قدم نہ ہو ۔ کیونکہ وہ صرف اپنی ذمہ داری کے لئے جوابدہ ہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شوق دلانے اور دعوتِ جہاد دینے کے علاوہ ان کی کوئی مسئولیت نہیں ہے ۔

( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ )

حقیقت میں یہ آیت ایک اہم اجتماعی حکم خصوصاً رہبروں کے متعلق اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اپنے کام میں اس قدر پختہ عزم ، ثابت قدم اور اٹل ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی شخص بھی ان کی دعوت پ ر” لبیک “ نہ کہے تب بھی وہ اپنے مقدس مقصد اور منزل کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار نہ ہوں ۔ دوسروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دینے کے باوجود اپنے لائحہ عمل کو دوسروں کی مرضی پر نہ چھوڑ یں ۔ کوئی رہبر بھی جب تک ایسے عزم ِ صمیم کا حامل نہ ہو وہ رہبری کے اہل نہیں اور نہ ہی وہ اپنے مقاصد کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے خصوصاً خدا کے مقرر شدہ رہبر و رہنما بلند عزم و حوصلہ اور کردار کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ انھیں خدا کی ذات پر تکیہ ہوتا ہے وہ خدا کہ جو تمام تونائیوں اور طاقتوں کا سر چشمہ ہے ۔

لہٰذا اس حکم کے بعد خدا فرماتا ہے : امید ہے کہ خدا تیری سعی و کوشش کے ذریعے دشمنوں کی قدرت و طاقت کو ختم کردے گاچاہے ان کے مد مقابل تو اکیلا ہی کیوں نہ ہو ۔ کوینکہ اس کی قدرت تمام قدرتوں سے مافوق اور اس کی سزا تمام عذابوں سے بڑھ کر ہے ۔

( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔(۱)

____________________

۱-باٴس کے معنی لغت لغت میں قوت، استحکام اور شجاعت ہے اور تنکیل مادہ نکول سے خوف کے مارے رک جانے کے معنی میں ہے اور اصل نکل

( بر وزن اکل ) کو جانور کی لگام کے معنی میں لیا گیا ہے اسی بناپر تنکیل جو کہ بات کا مصدر ہے ایسے کام کی انجام دہی کے مقصد میں آتا ہے کہ مقابل کی طرف جسے مشاہدہ کرنے کے ساتھ خلاف ورزی سے لوٹ آئے اور یہ وہی عذاب ہے کہ جو تم ستم گروں سے دوسرے لوگوں کی عبرت کا باعث بنتا ہے ۔

کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی

لفظ ” عسیٰ “ عربی لغت میں شائد کے معنی میں ردد کا مفہوم بھی دیتا ہے اور ” لعل“ پر امید ہونے ، انتظار اور ایسے امر کی توقع کے معنی میں آتا ہے آئندہ جنکے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ انسانوں کی گفتگو میں آنا تو فطری اور عین طبعی ہے کیونکہ انسان تمام مسائل سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی صلاحیت و قدرت بھی محدود ہے اور وہ جو کچھ کرے اس کے انجام کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ خدا جو ماضی ، حال اور مستقبل سے مکمل طو رپر باخبر ہے اور جو کرنا چاہے اس کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے ”جہالت “ی ا” بے اختیار“ ہونے کے الفاظ استعمال کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا اس لئے بہت سے علماء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ جو اس کے کلام میں استعمال ہوں وہ اپنے اصل معنی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کے کچھ اور معنی نکلتے ہیں مثلاً” عسی ٰ“ وعدہ کے معنی اور ” لعل “ طلب کے معنی میں ہے ۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ الفاظ کلام خدا میں بھی اپنے وہی اصلی معانی رکھتے ہیں اور ان کا لازمہ جہالت اور عدم اختیار نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ایسے مواقع پر استعمال ہوتے ہیں کہ جہاں مقصد تک پہنچنے کے لئے کئی ایک مقامات کی ضرورت ہوتی ہے تو جس وقت ان میں سے ایک یا کئی مقدمات حاصل ہو جائیں تو پھر بھی اس مقصد کے موجود ہونے کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ چاہیئے کہ اسے احتمالی حکم کے طور پر بیان کیا جائے ۔

مثلاً قرآن کہتا ہے :۔( واذا قرء القراٰن فاستمعو ا له و انصتوا لعلکم ترحمون )

جب قرآن پڑھا جائے تو کا دھرکے سنو اور خاموش رہو ، امید ہے کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو ۔ (اعراف، ۲۰۴)

واضح ہے کہ صرف قرآن کی آیات کو کان دھر نے کے سننے سے خدا کی رحمت انسان کے شامل حال نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک مقدمہ ہے اس کے علاوہ بھی دیگر لوازم ہیں جن میں ان آیات کا فہم و ادراک اور اس کے بعد ان احکام پر عمل در آمد جو ان آیات میں موجود ہیں بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا اس قسم کے مواقع پر ایک مقدمہ کے موجود ہونے سے نتیجہ کے حصول کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ اس ے ایک احتمالی حکم کے طور پر بیان کرنا ہو گا دوسرے لفظوں میں کلامِ خدا میں اس قسم کی تعبیرات تو بیدار کرنے اور سننے والے کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے ہیں اس کا م کے علاوہ کچھ اور شرائط و مقدمات بھی مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً اسی مثال میں خدا کی رحمت کا شعور حاصل کرنے کے لئے قرآن کو غور سے سننے کے ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔

زیر بحث آیت پر بھی یہ گفتگو مکمل طور پر صادق آتی ہے کیونکہ کفار کی طاقت صرف مومنین کو دعوت جہاد دینے اور انھیں شوق جہاد دینے سے ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ساتھ جہاد کے باقی لائحہ عمل پر عملدر آمد بھی ضروری ہے تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ الفاظ جب خدا کے کلام میں آئیں تو ان کے حقیقی معنی سے صرف نظر کر لیا جائے ۔(۱)

____________________

۱ -راغب نے کتاب مفردات میں اس قسم کے الفاظ( عسیٰ وغیرہ ) کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ ان سے مخاطب اور سننے والے کو امید دلانا مقصود ہے ۔ نہ کہ کہنے والے کی امید بیان کرنا اور واضح تر الفاظ میں جب خدا کہتا ہے ” عسی و لعل “ تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ میں امید رکھتا ہوں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم امید رکھو ۔

آیت ۸۵

۸۵۔( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَاوَکَانَ اللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیتًا )

ترجمہ

۸۵۔جو شخص نیک کام کی تحریک دے اس میں اس کا حصہ ہوگا اور جو برے کام کے لئے ابھارے گا تو اس میں سے ( بھی ) اسے حصہ ملے گا۔ اور خدا ہر چیز کا حساب کرتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے ۔

تفسیر

اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ

جیساکہ گذ شتہ آیت کی تفسیر میں اشارہ ہوچکا ہے قرآن کہتا ہے کہ ہر شخص پہلے مرحلہ میں اپنے کام کا جوابدہ ہے نہ کہ دوسروں کا۔ لیکن اس بنا پر کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جائے اس آیت میں کہتا ہے : یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا جوابدہ ہے لیکن جو شخص دوسرے کو نیک کام پر ابھارے تو اس کا حصہ ملے گا اور جو شخص دوسرے کو کسی برے کام پر اکسائے تو اس کا حصہ ( بھی) اس میں ہوگا

( مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَهُ نَصِیبٌ مِنْهَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَهُ کِفْلٌ مِنْهَا )

اس بناپر ہر شخص کااپنے اعمال کاجوابدہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ وہ دوسروں کو دعوتِ حق دینے اور فساد کا مقابلہ کرنے سے آنکھیں بند کرلے اور اسلام کی روحِ اجتماعیت کو مجرح کرتے ہوئے تجردد انفرادیت کے ذریعے معاشرے سے بیگانگی کا راستہ اختیار کرے ۔ شفاعت اصل میں مادہ شفع ( بر وزن نفع) سے جفت کے معنی میں ہے اس بناپر ایک چیز کا دوسری میں منضم و مدغم ہوجانا شفاعت کہلاتا ہے البتہ کبھی کبھار یہ راہنمائی اور ارشاد و ہدایت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( جس طرح درج بالا آیت میں ہے ) تو اس وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا معنی دیتا ہے ( شفاعت سیئہ اس کے بر عکس یعنی امر بالمنکر و نہی عن المعروف ہے )لیکن اگر گنہ گاروں کو ان کے انجام سے نجات دینے کا موقع ہو تو یہ ایسے گنہ گار افراد کی مدد کرنے کے معنی میں آتا ہے جو شفاعت کے لئے اہلیت اور لیاقت رکھتے ہوں ، دوسرے الفاظ میں شفاعت کبھی تو عمل کی انجام دہی سے پہلے ہوتی ہے جو رہنمائی کے معنی میں ہے اور کبھی عمل کی انجام دہی کے بعد ہوتی ہے ۔

جہاں عمل کے نتائج سے نجات دینے کے معنی میں ہے بہر حال دونوں طرح سے ایک چیز دوسری کے لئے ضمیمہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ضمناً توجہ رہے کہ آیت اگر چہ ایک کلی مفہوم کی حامل ہے ، نیک اور بد ہر طرح کی دعوت کا مفہوم اس میں شامل ہے لیکن چونکہ یہ جہاد کی آیات کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے لہٰذا شفاعت حسنہ سے پیغمبر اکرم کی طرف سے تشویق جہاد مراد ہے اور شفاعتِ سیئہ سے منافقین کی طرف شوق جہاد دلانا مراد ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ لفظ شفاعت کی تعبیراس موقع پر جہاں ( نیکیوں اور برائیوں کی طرف ) رہبری کے بارے میں گفتگو ہوری ہے ۔ ممکن ہے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ رہبر کی گفتگو ( چاہے خیر کا راستہ بتانے والا رہبر ہو یا شر کا سبق دینے والا ) دوسروں پر اسی صورت میں اثر کرے گی جب وہ اپنے لئے دوسروں کی طرح امتیاز نہ برتے بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کا ہم دوش اور ساتھی قرار دے ۔ یہ ایسا طریقہ ہے ، جو اجتماعی اور معاشرتی مقاصد میں بڑا موثر ہوتا ہے ۔ اگر قرآن میں بعض مواقع پرمثلاسورہ شعراء، اعراف، ہود ، نمل، عنکبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انبیاء و مرسلین کو جو امتوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے بھیجے گئے ہیں ” اخو ھم “ یا ” اخاھم“یعنی ان کا بھائی کہا ہے ، تو وہ بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن شفاعت حسنہ یعنی اچھے کام کی طرف راغب کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ترغیب دینے والوں کو ” نصیب “ ملے گا ۔ جب کہ ”شفاعت سیئہ“ کے ضمن میں کہتا ہے کہ اسے” کفل “ میسرآئے گا ۔ یہ تعبیر کا اختلاف اس وجہ سے ہے کہ ” نصیب “ کے معنی ہیں مفید اور زیادہ سود مند اور” کفل “کے معنی ہیں پست اور بری چیز ۔(۱)

یہ آیت اسلام کے بنیادی اجتماعی مسائل کی ایک منطق کو واضح کرتی ہے ۔ آیت صراحت سے کہتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے اعمال کے معاملے میں ترغیب دینے اور رہنمائی کے عمل میں شریک ہیں اس بنا پر جب بھی کوئی بات یا عمل بلکہ انسان کی خاموشی بھی اگر کسی گروہ کے نیک یا برے عمل کی ترغیب کا باعث بنے تو ترغیب دینے والا اس کام کے نتائج کے قابل ذکر حصہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ لیکن اس سے اصل کام کرنے والے کا حصہ کم نہیں ہو جائے گا ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :

من امر بمعروف او نھی عن المنکر او دل علی خیر او اشار بہ فھو شریک و من امر بسوء او دل علیہ او اشار بہ فھو شریک ۔

جو شخص کسی اچھے کام کا حکم دے یا برے کام سے روکے یا لوگوں کے لئے عمل خیر کی رہنمائی کرے یا ترغیب دلانے کے لئے کوئی ایسے اسباب فراہم کرے وہ اس عمل میں شریک اور حصہ دار ہے اور اسی طرح جو شخص کسی برے کام کی دعوت دے یا اس کی رہنمائی کرے اور ترغیب وہ بھی اس کام میں شریک ہوگا اس حدیث میں تین مرحلوں میں لوگوں کو نیک یا بد کام کی دعوت دینے کا ذکر ہوا ہے ۔

۱۔ مرحلہ حکم

۲۔ مرحلہ دلالت

۳۔ مرحلہ ارشارہ

یہ تینوں ترتیب دار قوی ، متوسط اور کمزور مرحلے ہیں اس طرح ہر قسم کی دخل اندازی کسی نیک یا برے کام پر ابھارنے کا سبب بنتی ہے اور دخل اندازی کرنے والا اسی نسبت سے اس کے نتائج اور فوائد میں شریک ہوگا۔

اس اسلامی منطق کے مطابق صرف گناہ کرنے والے ہی گنہگار نہیں ہیں بلکہ وہ اشخاص جو کسی کام کی تبلیغ کے مختلف ذرائع استعمال کرکے حالات پیدا کریں ۔ یہاں تک کہ ذراسی ترغیب دلانے والے کا ایک لفظ بھی اسے گناہ کرنے والوں میں شام ل کرلیتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو خیرات اور نیکی اور نیکیوں کے راستے میں اس قسم کا کام کرتے ہیں وہ بھی اس کا اجر حاصل کرتے ہیں ۔

چند نیک روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شفا عت حسنہ یا سیئہ کے معنی میں سے ایک کسی کے حق میں اچھی یا بری دعا کرنا بھی ہے جو کہ بارگاہ ِ خدا وندی میں ایک قسم کی شفا عت ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا :

( من دعا لاخیه الملم بظهر الغیب استجیب له و قال له الملک فلک مثلاه فذلک النصیب ) ۔

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کے پس پشت دعا کرے تو وہ قبول ہو گی اور خدا کا فرشتہ اس سے کہے گا اس سے دوگناہ تمہارے لئے بھی ہے اور آیت میں نصیب سے مراد یہی ہے ۔ ( تفسیر صافی آیہ مذکور کے ذیل میں )

یہ تفسیر گذشتہ تفسیر سے اختلاف نہیں رکھتی بلکہ شفاعت کے معنی میں وسعت ہے یعنی جو مسلمان کسی دوسرے کی کسی طرح کی مدد کرے وہ چاہے نیکی کی ترغیب کی صورت میں ہو یا بار گاہ خدا وندی میں دعا کی شکل میں ہو یا کسی اور طرح سے اس کے نتیجہ میں شریک ہو گا ۔ یہ بات اسلامی پروگراموں کی روحِ اجتماعیت کو اجا گر کرتی ہے اور مسلمانوں کو شخصی اور فقط ذاتی حیثیت سے زندگی گزارنے سے منع کرتی ہے ۔

یہ امر اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ انسان دوسروں کی طرف توجہ اور ان کی بہتری کی کو ششوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور اس سے اس کا ذاتی مفاد خطر ے میں نہیں پڑتا ۔ بلکہ وہ اس کے نتائج میں شریک ہوتا ہے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : خدا توانا اور صاحبِ قدرت ہے اور تمہارے اعمال کی حفاظت کرتا اور حساب رکھتا ہے اور حسنات و سیئات کے نتیجے میں مناسب جزا و سزا دے گا( وکان الله علی ٰ کل شیء مقیتاً ) خیال رہے کہ ” مقیت“ اصل میں قوت کے مادہ سے ہے جس کے معنی اس غذا کے ہیں جو انسان کی جان کی حفاظت کرتی ہے اس بنا پر ” مقیت“ جو باب افعال کا اسم فاعل ہے اس شخص کے معنی میں ہے جو دوسروں کو روزی دیتا ہے ، چونکہ ایسا شخص اس کی زندگی کا محافظ ہوتا ہے اس لئے لفظ ” مقیت “ محافظ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ نیز وہ شخص جو روزی دیتا ہو یقینا اس پر قدرت اور طاقت بھی رکھتا ہے اسی بنا پر یہ لفظ مقتدر کے معنی میں بھی آتا ہے ، ایسا شخص یقینا اپنے زیر کفالت لوگوں کا حساب بھی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ لفظ حسیب کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ او پر والی آیت میں ممکن ہے کہ لفظ” مقیت“ سے یہ تمام مفاہیم مراد لئے گئے ہوں ۔

____________________

۱کفل ( بر وزن طفل ) اصل میں جانور کی پشت کا عقبی اور آخری حصہ ہے جس پر سوار ہونا تکلیف اور سختی کا باعث ہے اس لئے ہر قسم کے گناہ اور برے حصہ کو کفل کہتے ہیں اور ایسے کام کو بھی جس میں بوجھ اور زحمت ہو، کفالت کہتے ہیں ۔

آیت ۸۶

۸۶۔( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

ترجمہ

۸۶۔ جس وقت کوئی شخص تمہیں تحیہ( اور سلام ) کہے تو اس کا جواب بہتر انداز سے دویا ( کم از کم ) اسی طرح کا جواب دو، خدا ہر چیز کا حساب رکھتا ہے ۔

تفسیر

احترام ِ محبت

اگر چہ بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کاتعلق گذشتہ آیات کے ساتھ اس لحاظ سے ہے کہ گذشتہ آیات کی مباحث جہاد سے متعلق تھیں اور اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر دشمن دوستی اور مصالحت چاہیں تو تم بھی مناسب جواب دو لیکن واضح ہے کہ یہ تعلق اس سے مانع نہیں کہ ایک کلی اور عمومی حکم تما م تحیات اور نوازشات کے اظہار سے متعلق ہو جو مختلف افراد کی طرف سے ہو ۔ آیت کی ابتدا میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تحیہ کہے تو اس کا جواب بہتر طریقہ سے دو یا کم از کم اس کے مساوی جواب دو ۔

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا اٴَوْ رُدُّوهَا )

تحیت لغت میں حیات کے مادہ سے دوسرے کے لئے حیات و زندگی کی دعا کرنے کے معنی میں ہے چاہے یہ دعا ” سلام علیک “ کی صورت میں ہو

( خدا تجھے سلامت رکھے ) یا حیاک اللہ ( خدا تجھے زندہ رکھے ) یا اس قسم کے اور الفاظ سے ہو لیکن عام طور پر یہ ہر قسم کے اظہار محبت کے لئے ہے جو لوگ الفاظ کے ذریعہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں جس کا واضح ترین اظہار سلام کرنا ہے لیکن کچھ روایات اور تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ عملی اظہار محبت بھی مفہوم ِ تحیت میں شامل ہے تفسیر علی بن ابراہیم میں امام محمد باقر اور امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :

( المراد بالتحیة فی الایة السلام و غیره من البر )

آیت میں محبت سے مراد سلام اور ہر قسم کی نیکی کرنا ہے ۔

کتاب مناقب کی ایک روایت میں ہے :

ایک کنیز نے پھول کی ایک شاخ امام حسن علیہ السلام کی خد مت میں پیش کی تو اس کے جواب میں امام (علیه السلام) نے اسے آزاد کردیا۔ جب آپ (علیه السلام) سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ خدا نے ہمیں یہی حسن سلوک سکھاتے ہوئے فرمایا :

( وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْهَا )

اس کے بعد مزید فرمایا : بہتر تحیہ وہی اس کا آزاد کرناتھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ آیت ایک کلی حکم اور ہر قسم کے اظہار محبت کا جواب دینے کے سلسلہ میں ہے چاہے وہ زبانی ہو یا عملی ۔ آیت کے آخر میں اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ تحیات ان کے جوابات اور ان کی بر تری و مساوات ، جس قدر اور جیسے ہوں ، خدا سے پوشیدہ پنہاں نہیں ہیں ۔ فرماتا ہے : خدا تمام چیزوں کے حساب سے آگاہ ہے

( إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا ) ۔

سلام عظیم اسلامی تحیہ ہے

جہان تک ہمیں معلوم ہے دنیا کی تمام ملل و اقوام کے افراد جب ایک دوسرے سے ملا قات کرتے ہیں تو ایک دوسرے سے اظہار محبت کے لئے کچھ تحیہ پیش کرتے ہیں جو بعض اوقات لفظی ہوتا ہے اور کبھی عملی بھی ۔ عمل عموماً تحیت کی علامت ہوتا ہے ۔ اسلام میں بھی ” سلام “ ایک واضح ترین تحیت ہے اور اوپر والی آیت میں جیسا کہ اشارہ ہو چک ہے تحیہ اگر چہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے تاہم اس کا ایک واضح اظہار سلام کرنا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سلام کا عالی تر یا کم از کم مساوی جواب دیں ۔

آیاتِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام تحیت کی ایک قسم ہے سورہ نو کی آیة ۶۱ میں ہے :

( فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیة من عند الله مبارکة طبیة )

جب تم کہیں داخل ہو تو ایک دوسرے پر تحیت الہٰی بھیجو ، وہ تحیہ جو مبارک اور پاکیزہ ہے ۔

اس آیت میں سلام کو مبارک اور پاکیزہ خد ائی تحیہ کہہ کر پکارا گیا ہے اور ضمنی طور پر اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سلام ٌ علیکم کا معنی اصل میں سلام اللہ علیکم ہے ” یعنی پروردگار کا تم پر سلام ہو “ یا خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ اسی سبب سلام کرنا ایک قسم کا دوستی ، صلح اور جنگ نہ کرنے کا اعلان ہے ۔ قرآن کی کچھ آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل بہشت کا تحیہ بھی سلام ہے ۔

( اولئک یجزون الغرفة بما صبروا و یلقون فیها تحیة و سلاماً ) (فرقان۔ ۷۵)

” اہل بہشت اپنی استقامت اور صبر کی وجہ سے بہشت کے انعامات اور بلند مقامات سے بہر یاب ہوں گے اور انھیں تحیہ و سلام سے نوازا جائے گا“۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۲۳ اور سورہ یونس کی آیہ ۱۰ میں بھی اہل بہشت کے بارے میں ہے : تحیتھم فیھا سلام ” ان کا تحیہ بہشت میں سلام ہے ۔“

آیاتِ قرآں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت بمعنی سلام (یا اس کے مفہوم کا کچھ متبادل ) گذشتہ اقوام میں بھی مروج تھا جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیہ ۲۵ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کے واقعہ میں آیا ہے کہ جب قوم ِ لوط (علیه السلام) کو سزا دینے والے فرشتے بھیس بدل کر حضرت ابراہیم

(علیه السلام) کے پاس آئے تو آپ (علیه السلام) پر سلام کہا اور آپ(علیه السلام) نے بھی ان کے سلا م کا جواب دیا ۔اذ دخلوا علیه فقالوا سلاماً ْقال سلام قوم منکرون

زمانہ جاہلیت کے عربی اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تحیت سلام کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی تھی ۔(۱)

یہ شعر زمانہ جاہلیت کے توبہ نامی شاعر کے ہیں ۔

جب ہم غیر جانبدار انہ طور پر اس اسلامی تحیت کا مختلف اقوام کی تحیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو اس کی قدر و قیمت ہم پر زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔ اسلامی تحیت خدا کی طرف توجہ بھی ہے مخاطب کے لئے سلامتی کی دعا بھی اور صلح و امن کا اعلام بھی ہے ۔ اسلامی روایات میں سلام کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :من بدء بالکلام قبل السلام فلاتجیبوه

جو شخص سلام سے پہلے گفتگو شروع کردے اس کا جواب نہ دو ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم ) ۔

اور امام صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ خدا فرماتا ہے :

البخیل من یخیل بالسلام بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے ۔ (اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

دوسری حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :

ان الله عزو جل یحب افشاء السلام

افشاء سلام سلام عام کرنے والے کو خدا دوست رکھتا ہے ۔ ( اصول کافی جلد ۲ باب تسلیم) ۔

افشاء سلام سے مراد مختلف افراد کو سلام کرنا ہے ۔ احادیث میں سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام کے بارے میں بہت سے آداب بیان ہوئے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ سلام صرف ان افراد سے مخصوص نہیں ہے جن سے انسان خصوصی شنا سائی رکھتا ہو جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبراکرم سے سوال ہوا :

کونسا عمل بہتر ہے تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:”تطعم الطعام و تقمرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف“

کھانا کھلاو اور سلام کرو اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جاتے۔(۲)

احادیث میں بھی آیا ہے کہ سوار پیادہ کو اور پیش قیمت سواری والا کم قیمت سواری والوں کو سلام کریں گویا یہ حکم ایسے تکبر کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے جو دولت، ثروت اور مخصوص مادی حیثیت سے پیدا ہو تا ہے ۔

یہ بات آج کل دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ آداب و سلام کو نچے طبقہ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور انھوں نے اسے استعمار، استعباد اور بت پرستی کی شکل دے رکھی ہے اگرہم پیغمبر اکرم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ تمام لوگوں کو یہاں تک کہ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ البتہ یہ بحث اس حکم سے اختلاف نہیں رکھتی جو بعض روایات میں آیا ہے کہ بچے جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں وہ اپنے بڑوں کو سلام کریں کیونکہ ادب کا تقاضا یہی ہے اس بات کا طبقاتی تفاوت او رمادی حیثیت کے اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ۔

چند روایات میں حکم ہے کہ سودخور، فاسق ، کجرو اور منحرف وغیرہ پر سلام نہ کرو ۔ یہ بھی فساد اور برائی کے خلاف ایک طرح کا اقدام ہے ہاں البتہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے یا رابطے کے لئے تاکہ انھیں خدا ئی نافرمانی سے بچنے کی دعوت دی جاسکے، سلام کرنے کی اجازت ہے ” تحیت باحسن“ سے مراد یہ ہے کہ سلام کی دوسری عبارات مثلاً و رحمة اللہ یا و رحمة اللہ وبرکاتہ کو ساتھ ملا نا ۔

تفسیر در المنثور میں ہے :

ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا : السلام علیک۔ تو آپ نے فرمایا ” و علیک السلام و رحمة اللہ “ دوسرے نے عرض کیا” السلام علیک ورحمة اللہ “ تو آپ نے فرمایا” وعلیک السلام و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تیسرے شخص نے کہا” السلام علیک و رحمة اللہ و بر کاتہ“ تو پیغمبر نے فرمایا” و علیک “ جب اس نے سوال کیا کہ آپ نے مجھے مختصر جواب کیوں دیا ہے تو فرمایا ۔” قرآن کہتا ہے تحیہ کا جواب زیادہ بہتر طریقہ سے دولیکن تونے کوئی چیز باقی نہیں رکھی ۔“

حقیقت میں پیغمبر نے پہلے اور دوسرے شخص کے جواب میں احسن طریقہ پر تحیہ کیا ہے لیکن تیسرے شخص کے بارے میں مساوی طریقہ اختیار کیا ہے کیونکہ ” وعلیک “ کا مفہوم ہے کہ جو کچھ تونے کہا وہ تیرے لئے بھی ہو ۔ ( در المنثورجلد ۲ صفحہ ۸)

____________________

۱-ولو ان لیلی الاخیلیة سلمت، علی ودونی جندل و صفایح : لسلمت تسلیم البشاشة او زقا الیما صدی من جانب الزبر صالح

۲ ۔تفسیر فی ظلال ذیل آیہ مذکورہ۔

آیت ۸۷

۸۷۔( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

ترجمہ

۸۷۔ وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، تم سب کو یقینی طور پر قیامت کے دن کہ جس میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا اور کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہو ۔

تفسیر

درج بالاآیت گذشتہ آیات کی تکمیل اور بعد میں آنے والی آیات کا مقدمہ ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں ” تحیت“ کے حکم کے بعد فرمایا ہے کہ خدا تمہارے اعمال کا حساب رکھتا ہے اس آیت میں مسئلہ قیامت اور روز قیامت ہونے والی عام عدالت کا ذکر ہے اور اسے مسئلہ توحید اور خدا کی یکتائی کے مسئلہ کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے جو کہ ایمان کا ایک اور رکن ہے ۔ فرماتا ہے کوئی معبود اس کے علاوہ نہیں ہے اور لازمی طور پر تمہیں قیامت کے دن اکٹھا مبعوث کرے گا وہی قیامت کا دن کہ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ )

” یجمعنکم “کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام افراد کے لئے روز محشر ایک ہی ہو گا ۔ جیسا کہ سورہ مریم کے آخر میں آیة ۹۳ سے لے لیکر ۹۵ تک اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ خدا کے تمام بندے چاہے وہ اہل زمیں ہو ں یا دوسرے کرات کے رہنے والے ، سب ایک ہی دن مبعوث ہو ں گے ۔

( لاریب فیه ) “ ( اس میں کوئی شک و شبہ نہیں )قیامت کے آنے کے بارے میں اس آیت میں اور قرآن کی دوسری آیات میں یہ تعبیر ان قطعی اور مسلم دلائل کی طرف اشارہ ہے جو اس دن قیامت کی خبر دیتے ہیں مثلا قانون تکامل ، تخلیق کا حکمت و فلسفہ اور قانون عدالت پ روردگار معاد کی بحث میں ان کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے آخر میں اس مطلب کی تاکید کے لئے فرماتا ہے کون ہے جو خدا سے زیادہ سچا ہے( وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ۔

لہٰذا وہ جس کا وعدہ روز قیامت یا اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں کرتا ہے اس پر شک نہیں کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ جھوٹ کا سر چشمہ جہالت ہے یا کمزوری اور ضرورت مندی ہے لیکن وہ خدا جو سب سے زیادہ جانتے والا ہے اور سب سے بے نیاز ہے ، وہ سب سے زیادہ سچا ہے اور اصولی طور پر جھوٹ اس کے لئے کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17