نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22320
ڈاؤنلوڈ: 3060

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22320 / ڈاؤنلوڈ: 3060
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

آٹھواں سبق:حدیث ”ثقلین“اور حدیث”سفینہ“

حدیث ثقلین کے اسناد

اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی ایک بڑی جماعت نے بلا واسطہ (براہ راست)آنحضرت سے نقل کیا ہے بعض بزرگ علماء نے اس حدیث کی روایت کر نے والے اصحاب کی تعداد تیس سے زیادہ بتائی ہے۔(۱)

مفسرین،محدثین اور مور خین کے ایک بڑے گروہ نے اس حدیث کو اپنی کتا بوں میں درج کیا ہے۔اس طرح اس حدیث کے متواتر ہو نے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔

بزرگ عالم سید ہاشم بحرانی نے اپنی کتاب”غایة المرام“میں اس حدیث کو اہل سنت علماء کے ۳۹ اسناد اور شیعہ علماء کے ۸۰ اسناد سے نقل کیاہے ۔اور عالم بزرگوار میر حامد حسین ہندی نے اس حدیث کے بارے میں مزید تحقیقات انجام دی ہیں اور تقریباً دوسو اہل سنت علماء سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کے سلسلہ میں تحقیقات کو اپنی عظیم کتاب(احقاق الحق) کی چھ جلدوں میں جمع کیا ہے ۔

جن مشہور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیں۔حضرت ابوذرغفاری کے بیان کے مطابق اصل حدیث یوں ہے :ابوذر غفاری اس حال میں کہ خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، لوگوں کی طرف مخاطب ہو کربیان کر رہے تھے :میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ فر ماتے تھے :

( إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰه وعترتی وانهمالن تفترقاحتی یرد اعلی الحوض)

( جامع ترمذی،طبق نقل ینابیع المودة،ص ۳۷)

”میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جارہاہوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیت(ع)۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں ،پس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ہو۔“

یہ روایت اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ، جیسے ” صحیح ترمذی“، ”نسائی“،”مسند احمد“، کنزالعمال“ اور ” مستدرک حاکم“ و غیرہ میں نقل ہوئی ہے۔

بہت سی روایتوں میں”ثقلین“(دوگرانقدر چےزیں) کی تعبیر اور بعض روایات میں ”خلیفتین“(دوجانشین) کی تعبیر آ ئی ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاہے:

”جابربن عبداللہ انصاری“ کی روایت میں آیاہے کہ آنحضرت نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔

”عبداللہ بن خطب“ کی روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاہے۔

” ام سلمہ“ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرتنے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاہے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ہے(۲) ۔

حتی اہل سنت کے ایک مشہور عالم ” ابن حجر“ اپنی کتاب”صواعق المحرقہ“ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:

” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت علی(ع) کے ہاتھ کو پکڑ انھیں بلند کیا اور فرمایا:” یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے ملیں گے(۳) ۔“

اس سے واضح ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ہے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔

حدیث ثقلین کا مفہوم

یہاں پر چند نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔قرآن اور عترت (اہل بیت) کو پیغمبر اسلام کی طرف سے دو ”خلیفہ “ یا دو گرانقدر چیزوں کے عنوان سے پیش کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ہے :” اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چھوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے “اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ہو تی ہے۔

۲ ۔قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کا قرآن مجید کے ساتھ قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور خطا سے محفوظ ہے،اسی طرح عترت اور اہل بیت پیغمبر بھی مرتبہ عصمت کے مالک ہیں۔

۳ ۔ان بعض روایتوں میں پیغمبر اسلام نے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت سے

فر مایا ہے :میں قیامت کے دن تم سے ان دو یاد گاروں کے ساتھ کئے گئے تمھارے برتا ؤ کے بارے میں باز پرس کرونگا تاکہ دیکھ لو کہ تمھارا ان کے ساتھ کیسا سلوک رہا ہے؟

۴ ۔بلاشک شبہہ،ہم ”عترت واہل بیت“کی جس طرح بھی تفسیر وتوضیح کریں،حضرت علی (ع) ان کے نمایاں ترین مصداق ہیں ۔اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ع) کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوئے ہیں اور قرآن مجید بھی آپ(ع) سے جدا نہیں ہوا ہے۔

اس کے علاوہ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ آیہ ”مباہلہ“ کے نازل ہو نے کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی،فاطمہ حسن اور حسین (علیہم السلام) کو پکار کر فر مایا: ”یہ میرے اہل بیت ہیں۔“(۴)

۵ ۔اگر چہ اس دنیا کی چار دیواری میں مقیّد ہم لوگوں کے لئے قیامت سے متعلق مسائل پوری طرح واضح نہیں ہیں ،لیکن جیسا کہ روایتوں سے معلوم ہو تا ہے ”حوض کوثر“سے مراد بہشت میں موجود ایک خاص نہر ہے جس کے بہت سے خصوصیات ہیں، اور یہ نہر سچے مومنین ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ائمہ اہل بیت(ع) اور ان کے مکتب کے پیروؤں کے لئے مخصوص ہے۔

یہاں تک کی گئی ہماری گفتگو سے واضح ہو تا ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے رہبر و قائد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپ(ع) کے بعد آپ ہی کی نسل سے گیارہ ائمہ ہیں۔

حدیث سفینہ

اہل سنت اور شیعوں کی کتا بوں میں جو دلکش تعبیریں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سے نقل ہو ئی ہےں،ان میں سے ایک مشہور حدیث ”سفینہ نوح“ہے۔

اس حدیث کے راوی حضرت ابو ذر فر ماتے ہیں کہ پیغمبر نے یوں فر مایا:

”الا إن ّمثل اهل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبها نجی ومن تخلف عنها غرق“

”میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے جدا ہوا وہ غرق (ہلاک) ہو گیا۔“

(مستدرک حاکم ،ج ۳ ،ص ۱۵۱)

یہ مشہور حدیث بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت پیغمبر کی پیروی و اطاعت کو ضروری اور لازم قرار دیتی ہے۔

چونکہ ایسی عظیم اور عالمگیر طوفان کے وقت صرف حضرت نوح کی کشتی نجات کا ذریعہ تھی ،اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں رونما ہو نے والے گمراہی کے طوفان میں راہ نجات صرف ولایت اہل بیت سے تمسک رکھنا تھا اور ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔حدیث ثقلین کا مفہوم کیا ہے؟ اور یہ حدیث اہل بیت(ع) کے لئے کون سے امتیازات وخصوصیا ت ثابت کرتی ہے؟

۲ ۔حدیث ثقلین کو کن لوگوں نے نقل کیا ہے؟

۳ ۔”ثقلین“کے کیا معنی ہیں ؟کیا احادیث میں اس کی بجائے کوئی دوسری تعبیر بھی ذکر ہوئی ہے؟

۴ ۔حدیث ”ثقلین“کو پیغمبر اسلام نے کن مواقع پر بیان فر مایا ہے؟

۵ ۔حدیث”سفینہ“ کو سند اور مفہوم کے اعتبار سے بیان کیجئے۔

____________________

۱۔ الصواعق المحرقہ،ص ۷۵

۲۔سیرہ حلی ج۳۳،ص۳۰۸۔

۳۔المراجعات،ص ۴۲

۴۔مشکوة المصابیح ،ص۵۶۸(طبع دہلی)ریاض المنضرہ ،ج۲،ص۲۴۸(بحوالہ مسلم و تر مذی)۔

نواں سبق :بارہ امام (ع)

بارہ اماموں کے بارے میں روایات

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت و امامت کو ثابت کر نے کے بعد اب ہم باقی اماموں کی امامت کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔

اس سلسلہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے :

آج ہمارے پاس اہل سنت اور اہل تشیّع کی متعدد ایسی روایتیں موجود ہیں جو کلی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد”بارہ خلفاء اور ائمہ“کی خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔

یہ احادیث اہل سنت کی نہایت اہم اور مشہور کتا بوں ،جیسے:صحیح بخاری،صحیح تر مذی،صحیح مسلم ،صحیح ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں درج ہیں۔

کتاب”منتخب الاثر “ کے مصنف نے اس موضوع پر دوسو اکتھر احادیث جمع کی ہیں جن کی قابل توجہ تعداد اہل تسنن علماء کی کتا بوں سے اور باقی شیعوں کی کتا بوں سے نقل کی گئی ہیں۔

مثال کے طور پر،اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلہ یوں آیا ہے:

”جابر بن سمرة“کہتا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فر مایا:

”یکون اثنا عشرامیراًفقال کلمة لم اسمعها فقال ابی انه قالکلهم من قریش ۔“ (صحیح بخاری ،ج ۹ ،کتاب الامقام،ص ۱۰۰)

”میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔اس کے بعد ایک جملہ فر مایا کہ میں سن نہ سکا ۔میرے باپ نے کہا کہ پیغمبر نے فر مایا تھا :”وہ سب قریش میں سے ہیں “

”صحیح مسلم“میں اس حدیث کو یوں نقل کیا گیا ہے کہ”جابر“نے کہا :میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپنے فر مایا:

”لایزال الاسلام عزیزاًالی اثنا عشر خلیفة ثم قال کلمة لم افهمها،فقلت لابی ماقال فقال کلهم من قریش “(صحیح مسلم،کتاب الامارہ ،باب الناس تیع لقریش)

”اسلام ہمیشہ عزیز رہے گا یہاں تک کہ میرے بارہ خلیفہ وجانشین ہوں گے ۔اس کے بعد ایک جملہ ارشاد فر مایا کہ میں نہ سن سکا۔ میں نے اپنے باپ سے سوال کیا ،تو انہوں نے کہا پیغمبر نے فر مایا :”وہ سب قریش ہوں گے۔“

کتاب ”مسند احمد“میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے خلفائ

کے بارے میں سوال کیا ۔توآپنے فر مایا:

”اثناعشر کعدة نقباء بنیاسرائیل “ (مسند احمد،ج ۱ ،ص ۳۹۸)

”(میرے خلفاء)بنی اسرائیل کے نقباؤرؤسا کی تعداد کے برابر بارہ ہوں گے۔“

ان احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں سے بعض میں”اسلام کی عزت“کا دار ومدار بارہ خلیفوں پر قرار دیا گیا ہے اور بعض میں قیامت کے دن کی بقاء اور حیات کو بارہ خلفاء کا مر ہون منت جانا ہے۔سب کو قریش سے اور بعض احادیث میں سب کو خاندان ”بنی ہاشم“سے بتایا گیا ہے۔یہ احادیث مذاہب اسلامی میں سے مذہب شیعہ کے علاوہ کسی مذہب سے تطبیق نہیں کرتی ہیں،کیونکہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ان کی توجیہ مکمل طور پر بالکل صحیح اور واضح ہے،جبکہ اہل سنت علماء کے پاس ان کی توجیہ کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔

کیا ان(بارہ خلفاء)سے مراد پہلے چار خلفاء اور خلفائے بنی امیہ وبنی عباس ہیں؟

جبکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نہ پہلے خلفاء کی تعدادبارہ تھی اور نہ بنی امیہ کے خلفاء کو ملاکر بارہ بنتی ہے نہ خلفائے بنی عباس کو ملا کر یہ تعداد بارہ بنتی ہے ۔مختصر یہ کہ کسی بھی حساب سے بارہ کی یہ تعداد پوری نہیں ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بنی امیہ کے خلفاء میں ”یزید“جیسے اور خلفائے بنی عباس میں ”منصوردوانقی “اور ”ہارون الرشید“جیسے افراد بھی تھے جن کے ظالم اور جابر ہونے میں کسی کو شک وشبہہ نہیں ہے ،اس لئے ممکن نہیں ہے ایسے افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء اور اسلام کی عزت وسر بلندی کا سبب شمار ہوں،جس قدر بھی ہم خلافت کے معیار کو گھٹائیں،ایسے افراد قطعاًاس دائرے میں نہیں آسکتے ہیں۔

اس بحث سے قطع نظر،شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی صورت میں بارہ خلفاء کی تعداد کہیں بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی ۔

بہتر ہے کہ اس بحث کو ہم اہل سنت کے ایک مشہور عالم کی زبانی پیش کریں:

”سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی “اپنی کتاب ”ینا بیع المودة“میں فر ماتے ہیں:

بعض محققین نے کہا ہے :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدآپ کے بارہ خلفاء پردلالت کر نے والی احادیث مشہور ہیں ۔ یہ احادیث مختلف طریقوں سے نقل کی گئی ہیں۔مرور زمانہ سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد آپ کے اہل بیت اور عترت سے بارہ جانشین ہیں،کیونکہ اس حدیث کو پہلے خلفاء سے مربوط جاننا ممکن نہیں ہے،کیونکہ ان کی تعداد چار افراد سے زیادہ نہیں تھی ۔اس کے علاوہ یہ حدیث بنی امیہ پر بھی تطبیق نہیں ہوتی ہے ،کیونکہ وہ بارہ سے زیادہ تھے اور وہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم وستمگر تھے اور یہ کہ وہ ”بنی ہاشم“سے نہیں تھے ،جبکہ پیغمبر نے فر مایا ہے کہ وہ بارہ کے بارہ بنی ہاشم سے ہیں،جیسا کہ ”عبد الملک بن عمر“نے ”جابر بن سحرہ“سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سوال کے سلسلہ میں کہ وہ (بارہ جانشین)کسی قبیلہ سے ہوں گے؟ آہستہ جواب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی ہاشم کی خلافت پر بعض افرادراضی نہیں تھے ۔اسی طرح یہ حدیث خلفائے بنی عباس پر بھی قابل تطبیق نہیں ہے،کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے آیہ مودت( قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربیً ) (سورہ شوریٰ/ ۲۳) پر عمل نہیں کیا ہے اور حدیث کساء سے چشم پوشی کی ہے!

ان وجو ہات کی بناء پریہ حدیث صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت وعترت سے تعلق رکھنے والے بارہ اماموں پر ہی قابل تطبیق ہے۔

کیونکہ وہ علم ودانش کے اعتبار سے سب پر فضیلت رکھتے ہیں ،اور زہد وتقویٰ کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ زاہد وپرہیز گار ہیں ،اور حسب ونسب کے اعتبار سے بھی سب پر فضیلت رکھتے ہیں اور انہوں نے تمام علوم وفنون کو اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وراثت میں حاصل کیا ہے ۔اس نظریہ کی حدیث ثقلین اور دوسری بہت سی احادیث تائید کرتی ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہو ئی ہیں۔“ (ینابیع المودة،ص ۴۴۶)

دلچسپ بات ہے کہ میں نے اپنے سفر مکہ کے دوران علماء حجاز کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کے دوران اس حدیث کے بارے میں ان سے ایک نئی توجیہ سنی ،جس سے ان کی اس سلسلہ میں بے بسی اور عاجزی واضح ہوتی ہے ،وہ کہتے تھے :”شاید بارہ خلفاء اور امراء سے مراد پہلے چار خلیفہ ہیں جو اسلام کی ابتداء میں تھے اور ان کے باقی افراد مستقبل میں آنے والے ہیں جنہوں نے ابھی ظہور نہیں کیا ہے!“

اس طرح ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے واضح ہو نے والے ان خلفاء کے ارتباط سے دیدہ و دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی ہے۔

ہم یہ کہتے ہیںکہ کیاوجہ ہے کہ ہم اس حدیث کی واضح اور روشن تفسیر (جو شیعوں کے بارہ اماموں پر منطبق ہے)کو چھوڑ کر ایسی دلائل میں کود پڑیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔

نام بنام ائمہ کی تعیین

قابل توجہ بات ہے کہ اہل سنت راویوں سے ہم تک پہنچی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کے نام ذکر ہوئے ہیں اور ان کی خصوصیات و صفات بھی تفصیل سے ذکر ہوئی ہیں۔

اہل سنت کے معروف اور مشہور عالم ”شیخ سلیمان قندوزی “اپنی اسی کتاب ”ینابیع المودة“میں یوں نقل کرتے ہیں:

”نعثل نامی ایک یہودی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکئی سوالات کے ضمن میں آپ کے خلفاء اور اوصیاء کے بارے میں سوال کیا ۔آنحضرتنے اپنے جانشینوںکا تعارف یوں کرایا:

ان وصیی علی بن ابیطالب وبعده سبطای الحسن والحسین تلوه تسعة ائمة من صلب الحسین

قال یا محمّد فسمهم لی

قال(ص) اذا مضی الحسین فابنه علی،فاذا مضی علی فابنه محمد ،فاذا مضی محمد فابنه جعفر،فاذامضی جعفر فابنه موسی ،فازامضی موسی فابنه علی،فاذا مضی علی فابنه محمد، فاذا مضی محمد فابنه علی، فاذا مضی علی فابنه الحسن، فاذا مضی الحسن فابنه الحجة محمد المهدی (ع) فهٰؤلاء اثنا عشر “ (ینابیع المودة،ص ۴۴۱)

”میرے وصی علی بن ابیطالب ہیں اور ان کے بعد میرے دو نواسے حسن اور حسین ہیں اور حسین کے بعد نو امام ان کی نسل سے ہوں

گے ۔“

یہودی نے کہا :اُن کے نام بیان فر ما ئیے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

جب حسین دنیاسے رخصت ہوںگے تو اُن کے بیٹے علی ہوں گے، جب علی دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے محمد ہوں گے ،جب محمد دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے جعفر ہوں گے ،جب جعفر دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے موسیٰ ہوں گے ،جب موسیٰ دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے علی ہوں گے،جب علی دنیا سے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے محمد ہوں گے ،جب محمد دنیاسے رخصت ہوں گ تو ان کے بیٹے علی ہوں گے ،جب علی اس دنیاسے رخصت ہوں گے تو ان کے بیٹے حسن ہوں گے،اور جب حسن اس دنیا سے رخصت ہوں گے توان کے بیٹے حجت محمد المھدی ہوں گے۔یہ بارہ امام ہیں۔“(ینابیع المودة،ص ۴۴۱)

اس کے علاوہ اسی کتاب”ینابیع المودة“میں ”کتاب مناقب“سے نقل کی گئی ایک اور حدیث درج ہے ،جس میں بارہ اماموں کے نام اور ان کے القاب بھی بیان کئے گئے ہیں اور حضرت مھدی کی غیبت ،اور اس کے بعد ان کے قیام کر کے دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح پر کر نے کا ذکر کیا گیا ہے جس طرح دنیا اس سے پہلے ظلم وستم سے بھر گئی ہوگی۔ (ینابیع المودة،ص ۴۴۲)

البتہ اس سلسلہ میں شیعوں کی احادیث بہت زیادہ اور حد تواتر سے بڑھ کر موجود ہیں ۔(غور فر مائیے)۔

جوشخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے

دلچسپ بات ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے:

”من مات بغیر امام مات میتتة جا هلیة“

(المعجم المفہرس لالفاظ الاحادیث النبوی،ج ۶ ،ص ۳۰۲)

”جو شخص امام کے بغیر مر جائے ،اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔“

شیعہ کتابوں میں یہی حدیث اس عبارت میں نقل ہو ئی ہے:

”من مات ولا یعرف امامه مات میتته جاهلته“

”جوشخص مرگیا اور اس نے اپنے امام کو نہیں پہچانا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔“(بحارالانوار ج ۶ ،(طبع قدیم)ص ۱۶)

یہ حدیث اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زما نے ایک معصوم امام موجود ہوتا ہے ،اس کو پہچاننا ضروری ہے ۔اس کو نہ پہچاننا اتنا نقصان دہ ہے کہ انسان کفر و جاہلیت کی سر حدمیں پہنچ جاتا ہے۔

کیا اس حدیث میں بیان کئے گئے امام وپیشوا سے مراد وہی لوگ ہیں جو زمام حکومت سنبھالتے ہیں،جیسے،چنگیز خان ،ہارون اور دوسروں کے ایجنٹ اور کٹھ پتلی حکام؟

بے شک اس سوال کا جواب منفی ہے، کیونکہ اکثر حکمران غیر صالح ،ظالم اور کبھی مشرق ومغرب کی طاقتوں سے وابستہ اور اغیار کی سیاست کے آلہ کار ہو تے ہیں،یقیناًایسے حکمرانوں کو امام کی حیثیت سے قبول کر نا انسان کو جہنم میں بھیج دیتا ہے۔

لہذا واضح ہو تا ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک معصوم امام موجود ہو تا ہے لوگوں کے لئے اس کو تلاش کر کے اس کی رہبری کو قبول کر نا ضروری ہے۔

البتہ ہر ایک امام کی امامت کو مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ قرآنی نصوص اور آنے والے امام کے بارے میں ہر سابق امام کی بیان کی گئی احادیث و روایات نیز ان کے معجزات سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔بارہ اماموں کے بارے میں روایات کن کتا بوں میں نقل ہوئی ہے؟

۲ ۔ان احادیث کا مفہوم کیا ہے؟

۳ ۔ان احادیث اور روایات کے بارے میں کی گئی جھوٹی تو جیہات بیان کیجئے۔

۴ ۔کیا اہل سنت کی احادیث میں بارہ اماموں کے نام آئے ہیں؟

۵ ۔بارہ اماموں کو ثا بت کر نے کا دوسرا طریقہ کیا ہے؟