نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22336
ڈاؤنلوڈ: 3068

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22336 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

دوسرا سبق:معاد زندگی کو معنی بخشتی ہے

گر ہم اس دنیا کی زندگی کو دوسری دنیا (آخرت)کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں تو یہ بالکل بے معنی اور فضول ہو گی۔

اس صورت میں ہماری اس دنیا کی زندگی بالکل اس کے مانند ہو گی کہ ہم جنین کے دوران بچے کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں۔

ماں کے شکم میں موجود بچہ ،جو اس محدود وتنگ وتاریک زندان میں مہینوں قید و بند رہتا ہے ،اگر عقل وشعور رکھتا اور اپنی جنین والی زندگی کے بارے میں فکر کرتا تو وہ بیشک تعجب کرتا:

میں کیوں اس تاریک زندان میں قید وبند ہوں؟

میں کیوں اس پانی اور خون میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں؟

آخر میری زندگی کا کیا نتیجہ ہو گا؟

میں کہاں سے آیا ہوں اور میرے آنے کا کیا فائدہ ہے؟

لیکن اگر اسے بتایا جائے کہ یہ تیرے لئے ایک ابتدائی مرحلہ ہے یہاں پر تمھارے اعضاء بن جائیں گے ،توانا ہو جاؤ گے اور ایک بڑی کو شش وحر کت کے لئے آمادہ ہوجاؤ گے۔

نو مہینے گزر نے کے بعد اس زندان سے تمھاری رہائی کا حکم جاری کیا جائے گا۔اس کے بعد تم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھو گے جہاں پر چمکتا سورج ،روشن چاند،سرسبز درخت ،پانی کی جاری نہریں او گوناگوں نعمتیں ہوں گی۔یہ سننے کے بعد وہ اطمینان کا سانس لے کر کہے گا!اب میں سمجھ گیا کہ یہاں پر میری موجودگی کا فلسفہ کیا ہے!

یہ ایک ابتدائی مرحلہ ہے ،یہ چھلانگ لگا نے کا چبوترہ ہے،یہ ایک بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے ایک کلاس ہے۔

لیکن اگر جنین والی زندگی کا رابطہ اس دنیا سے کٹ جائے تو تمام چیزیں تاریک اور بے معنی ہو کر رہ جائیںگی اور جنین والی زندگی ایک وحشتناک ،تکلیف دہ،اور بے نتیجہ زندان میں تبدیل ہو جائے گی ۔

اس دنیا کی زندگی اور موت کے بعد والی دنیا کے در میان بھی ایساہی رابطہ ہے۔

کیاضروری ہے کہ ہم اس دنیا میں ستر سال یا اس سے کم یا زیادہ زندگی گزاریں اور مشکلات کے در میان ہاتھ پاؤں مارتے رہیں؟

کچھ مدت بے تجربہ اور خام رہیں ،جب ہماری خامی پختگی میں تبدیل ہو تو ہماری عمر تمام ہو جائے!

ایک مدت تک علم ودانش حاصل کریں ،جب ہم معلو مات کے لحاظ سے پختہ ہو جاتے ہیں تو بڑھاپا ہمارے سر پر آپہنچتا ہے!

آخر ہم کس لئے زندگی بسر کرتے ہیں ؟غذا کھانے ،لباس پہنے اور سونے کے لئے ؟اسی حالت میں زندگی کو دسیوں سال تک جاری رکھنے کا مطلب کیا ہے؟

کیا حقیقت میں یہ کشادہ آسمان،وسیع زمین ،یہ سب مقد مات ،یہ علم اور تجربے حاصل کر نا ،یہ سب اساتذہ اور مربیّ سب کے سب صرف اسی کھانے پینے اور لباس پہننے اور پست وتکراری زندگی کے لئے ہیں؟

یہاں پر معاد کو قبول کر نے والوں کے لئے زندگی کا فضول ہو نا یقینی بن جاتا ہے،کیونکہ وہ ان معمولی امور کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دے سکتے ہیں اور موت کے بعد والی دنیا پر تو ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں ۔

لہذا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ خود کشی کا اقدام کر کے اس بے مقصد زندگی سے نجات پانا چاہتے ہیں۔

لیکن اگر ہم یقین کریں کہ دنیا ”آخرت کی کھیتی “ہے ،دنیا ایسا کھیت ہے جس میں ہمیں بیج بونا ہے تا کہ اس کی فصل کو ہم ایک جاودانی اور ابدی زندگی میں کاٹ سکیں ۔

دنیا ایک ایسا کالج ہے جس میں ہمیں آگاہی حاصل کر نا ہے تا کہ ایک ابدی عالم کے لئے خود کو آمادہ کر سکیں ،دنیا ایک گزر گاہ اور پل ہے جس سے ہمیں عبور کر نا ہے۔

اس صورت میں ہماری دنیوی زندگی بے مقصد اور فضول نہیں ہوگی ،بلکہ ایک ایسی ابدی اور جاودانی زندگی کا مقدمہ ہوگی جس کے لئے ہم جس قدر کوشش کریں کم ہے۔

جی ہاںمعاد کا ایمان انسان کی زندگی کو مفہوم اور معنی بخشتا ہے اور اسے اضطراب، پریشانی اور بیہودگی سے نجات دلاتا ہے۔

عقیدئہ معاد کا انسان کی تربیت میں اہم کردار

اس کے علاوہ آخرت میں ایک عظیم عدالت کے وجود کا عقیدہ ہماری اس زندگی میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے۔

فرض کریںایک ملک میں یہ اعلان ہوجائے کہ سال کے فلاں دن کسی بھی جرم کی سزا نہیں ہوگی ،اس دن کوئی کیس درج نہیں ہوگا اور لوگ مکمل اطمینان کے ساتھ اس دن کو کسی سزا کے بغیر گزار سکتے ہیں ،اس دن پولیس اور امن وانتظام کے مامورین تعطیل کریں گے ،عدالتیں بند ہوں گی ،یہاں تک کہ دوسرے دن جب زندگی معمول پر آجائے گی ،گزشتہ کل کی جرائم کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

ذراغور کیجئے اس دن معاشرہ کی کیا حالت ہوگی؟

قیامت پر ایمان درحقیقت ایک عظیم عدالت پر ایمان ہے جواس دنیا کی عدالتوں کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے۔

اس عظیم عدالت کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ایک ایسی عدالت ہے،جس میں نہ سفارش چلے گی اور نہ”ضوابط“پر ”روابط“کی حکمرانی ہوگی اور نہ جھوٹے مدارک پیش کر کے اس کے قاضیوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاسکے گا۔

۲ ۔ایک ایسی عدالت ہے جس میں اس دنیا کی عدالتوں کے مانند عدالتی کاروائی نہیں ہوگی اور اسی لئے وہاں پر لمبے اور تفصیلی مراحل نہیں ہیں ،برق آساتحقیقات کے بعدصحیح اور دقیق حکم جاری کر دیا جاتا ہے۔

۳ ۔ایک ایسی عدالت ہے جہاں پر مجرموں کے جرائم کے دلائل و مدارک خود ان کے اعمال ہوں گے ،یعنی اس عدالت میں خود اعمال حاضر ہو کر گواہی دیں گے ،اور مجرم کے ساتھ اپنے ارتباکو وہ خوداس طرح مشخص کریں گے کہ انکار کی کو ئی گنجائش نہیں ہوگی۔

۴ ۔اس عدالت کے گواہ انسان کے اپنے ہاتھ ،پاؤں ،کان،آنکھیں،زبان اور اس کے بدن کی جلد حتی جس جگہ پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہو گا اس کی زمین اور در دیوار ہوںگے ،یہ ایسے گواہ ہیں جو انسان کے اعمال کے فطری آثار کے مانند قابل انکار نہیں ہیں۔

۵ ۔اس عدالت کا قاضی اور حاکم خدا ہے ،جو ہر چیز سے آگاہ اور بے نیاز اور سب سے بڑا عادل ہے۔

۶ ۔اس کے علاوہ اس عدالت کی جزاوسزا قرار دادی نہیں ہیں ،اکثر خودہمارے اعمال ہی مجسّم ہو کر ہمارے سامنے ظاہر ہو تے ہیں اور ہمیں اذیت وآزار پہنچاتے ہیں یا ہمیں نعمت وآسائش میں غرق کر تے ہیں۔

اس قسم کی عدالت کا یقین انسان کو ایک ایسی جگہ پر پہنچاتا ہے،جہاں پر وہ علی علیہ السلام کے مانند کہتا ہے:

”خدا کی قسم اگر مجھے نرم بستر کے بجائے راتوں کو صبح تک مہلک کانٹوں پر جاگتے ہو ئے گزار نا پڑے اور دن کو میرے ہاتھوں اور پاؤں میں زنجریں باندھ کر مجھے گلی اور بازاروں میں گھسیٹا جائے ،یہ مجھے اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ کی عدالت میں اس حال میں حاضرکیا جاؤں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو یا کسے کا حق غضب کیا ہو۔“ (نہج البلاغہ،خطبہ: ۲۲۴)

یہ اس عدالت کا ایمان ہے جوانسان (حضرت علی)کو مجبور کر تاہے کہ وہ آگ میں دہکتا ہوا سرخ لوہا اپنے بھائی کے ہاتھ کے قریب لے جائے ،جو بیت المال سے اپنے حصہ سے زیادہ کا طالب تھا ،جب اس کا بھائی ڈر کے مارے فریاد بلند کرتا ہے ،تو اسے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:”تم اس آگ سے ڈرتے ہو جو ایک کھلونے کے مانند انسان کے ہاتھ میں ہے،لیکن اپنے بھائی کو ایک ایسی ہولناک آگ کی طرف ڈھکیل رہے ہو جسے خدا کے قہر وغضب کے شعلوں نے بھڑ کایاہے؟“ (نہج البلاغہ،خطبہ ۲۲۴)

کیا ایسے ایمان رکھنے والے انسان کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے؟

کیا رشوت سے اس کے ایمان کو خریدا جاسکتا ہے؟

کیا اسے لالچ اور دھمکی سے حق کی راہ سے ظلم کی طرف منحرف کیا جاسکتا ہے؟

قرآن مجید فر ماتا ہے :جب گناہ کار اپنے اعمال ناموں کو دیکھیں گے تو چیختے ہوئے کہیں گے:

( مالهذا الکتاب لا یغادر صغیرةو الا کبیرة الّا احصاها ) (سورہ کہف/ ۴۹)

”ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ گناہ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے۔“

اس طرح ہر کام انجام دیتے وقت انسانی روح کی گہرائیوں میں ذمہ داری کے احساس کی ایک طاقتورموج پیدا ہوتی ہے اور یہی احساس اسے ہر قسم کے انحرافات ،گمراہی اورظلم وزیادتی سے بچاتا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔اگر اس محدود اور ناپائیدارزندگی کے بعد دوسری دنیا نہ ہو تی تو کیا ہو تا؟

۲ ۔معاد کے منکر بعض افراد کیوں خودکشی کا اقدام کرتے ہیں؟

۳ ۔قیا مت کی عدالت کااس دنیاکی عدالت سے کیا فرق ہے؟

۴ ۔معاد پر ایمان،انسان کے اعمال پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

۵ ۔امیرالمومنین علی علیہ اسلام نے اپنے بھائی عقیل سے کیا کہا؟وہ کیا چاہتے تھے اور علی علیہ السلام نے انھیں کیا جواب دیا؟

تیسراسبق :قیامت کی عدالت کا نمونہ خود آپ کے وجود میں ہے

چونکہ موت کے بعد کی زندگی اور قیامت کی عظیم عدالت کا مسئلہ اس محدود دنیا میں مقیّد انسان کے لئے ایک نئی بات ہے۔لہذا خد وند متعال نے اس عدالت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہمارے لئے اسی دنیا میں پیش کیا ہے،جس کا نام ”ضمیر(وجدان)کی عدالت“ہے۔لیکن یہ بات نہ بھولیں کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ عدالت اس عظیم عدالت کا ایک چھوٹاسا نمونہ ہے۔

اس بات کی بیشتر وضاحت یوں ہے:

انسان،جوبھی اعمال انجام دیتا ہے ،ان کے سلسلہ میںکئی عدالتوںمیں اس کا مقدمہ چلتا ہے:

پہلی عدالت ،تمام کمزریوںاور نقائص کے باوجود وہی دنیوی اور انسانی عام عدالت ہے۔

اگر چہ ان ہی دنیوی عدالتوں کا جرائم کو کم کر نے میں نمایاں اثر ہو تا ہے،لیکن ان عدالتوں کی بنیاد ایسی ہے کہ ان سے مکمل انصاف کے نفاذ کی ہر گز توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔

کیوں کہ اگر ان عدالتوں میں ناقص قوانین اور نالائق جج کا نفوذ ہو گا تو ان کی حالت معلوم ہے کیا ہوگی!رشوت ستانی ،پارٹی بازی :خصوصی روابط ،سیاست بازی اور اس قسم کے ہزاروں دوسرے مسائل اس عدالت کو اس قدر متاثر کر دیتے ہیں کہ اس کے ہونے سے نہ ہو ناہی بہتر ہے،کیونکہ ایسی عدالتوں کا وجود خودغرض لوگوں کے برے مقاصد پو رے ہونے کا سبب بنتا ہے!

اگر ان عدالتوں کے قوانین عدل وانصاف پر مبنی اور قاضی آگاہ اور با تقوی ٰبھی ہوں ،تب بھی بہت سے مجرم ایسے ہوتے ہیں جو اس قدر ماہرانہ چال چلتے ہیں۔کہ جرم کے آثار کو ہی نابود کر کے رکھدیتے ہیں۔

یا عدالت میں ایسی کاغذبازی کرتے ہیں اور ایسا داؤں پیچ مارتے ہیں کہ قاضی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قوانین کو بے اثر کردیتے ہیں۔

دوسری عدالت،جو اس عدالت سے منظم اور دقیق تر ہے وہ ”مکافات عمل“کی عدالت ہے۔

ہمارے اعمال کے کچھ اثرات ہو تے ہیں ،جو جلدی یا دیر سے رونما ہو کر ہمیں متاثر کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ امر مطلق اور عام نہیں ہے ،لیکن کم ازکم بہت سے مواقع پر سچ ثابت ہوتا ہے۔

ہم نے ایسی حکومتیں بھی دیکھی ہیں جن کی بنیاد ظلم وستم پر تھی اور حکام جو چاہتے کر ڈالتے تھے،لیکن سر انجام اپنے ہی پھیلائے گئے جال میں پھنس گئے ہیں۔ان کے اعمال کے ردعمل(اثر)نے انھیں جکڑلیا اور ایسے زوال سے دوچار کر دیا کہ وہ بالکل نسیاًمنسیا ہو گئے ہیں اور لعنت ونفرین کے سوا ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا ہے ۔چونکہ مکافا ت عمل وہی علت و معلول کے در میان رابطہ ہے ،اس لئے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو چالاکی سے اس کی گرفت سے بچ نکلیں۔

اس عدالت کا نقص یہ ہے کہ یہ عمومی اور کلی نہیں ہے ،اس لئے اس عدالت کے ہوتے ہوئے ہم قیامت کی عظیم عدالت سے بے نیاز نہیں ہیں ۔

تیسری عدالت، جو اس سے بھی منظم اور دقیق تر ہے،وہ”ضمیر کی عدالت“ہے۔

حقیقت میں جس طرح نظام شمسی ایک عظیم اور حیرت انگیز نظام کے باوجود ایٹم کی ایک انتہائی چھوٹے ذرّہ کے اندر سمٹا ہوا ہے ،اسی طرح قیامت کی عظیم عدالت کا ایک چھوٹاساماڈل ہماری روح میں پایا جاتا ہے۔

انسان کے وجود کے اندر ایک مرموزطاقت ہے ،جسے فلاسفر نے ”عقل عملی“کا نام دیا ہے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں اسے ”نفس لوامہ“کہا جاتا ہے اور آج اسے ”وجدان“اور ”ضمیر“کے نام سے جانتے ہیں۔

جوں ہی انسان کسی اچھے یا برے کام کو انجام دیتا ہے،فوراً یہ عدالت کسی شور وغل کے بغیر تشکیل پاتی ہے ،اور مکمل طور پر صحیح اور اصولوں پر مبنی محا کمہ شروع کرتی ہے اور حکم کے نتیجہ کونفسیاتی سزا یا جزا کی صورت میں نافذ کرتی ہے۔

یہ عدالت کبھی مجرموں کو اندر سے ہی ایسے کوڑے مار کر روحی اذیت پہنچاتی ہے کہ وہ دل سے موت کا استقبا ل کرتے ہیں اور اسے زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے وصیت نامہ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے ضمیر کے اضطراب کی وجہ سے خود کشی کی ہے!

کبھی انسان کے ایک نیک کام انجام دینے کے نتیجہ میں اس قدر اس کی اہمیت افزائی کرتے ہے کہ اس میں وجد وسرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،وہ اپنے وجود میں ایک گہرا سکون محسوس کرتا ہے،دل کو لبھانے والا ایک ایسا سکون، جس کی لذت قابل بیان نہیں ہوتی ہے۔

اس عدالت کی عجیب خصوصیات ہیں:

۱ ۔اس عدالت میں قاضی،شاہد،حکم نافذ کر نے والا اور عدالت کی کاروائی دیکھنے والا سب ایک ہی ہے،وہی ضمیر کی طاقت ہے جو شہادت بھی دیتی ہے ،فیصلہ بھی کرتی ہے اور اس کے بعد آستین چڑھا کر اپنے حکم کو نافذ بھی کرتی ہے!

۲ ۔اس عدالت کا فیصلہ عام عدالتوں کے بر خلاف (کہ جن میں کیس کو کئی سال لگتے ہیں)فوری ہو تا ہے ،عام طور پر اس میں وقت نہیں لگتا ہے،البتہ کبھی جرم کے دلائل ثابت ہو نے اور دل کی آنکھوں کے سامنے سے غفلت کے پردے ہٹنے میں وقت کی ضرورت ہو تی ہے،لیکن دلائل پیش ہو نے کے بعد ،حکم فوری اور قطعی طورپر سنا دیا جا تا ہے۔

۳ ۔اس عدالت کا حکم ایک ہی مرحلہ میں انجام پاتا ہے،یہاں پر اپیل ،نظر ثانی اور سپریم کورٹ جیسی چیزوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

۴ ۔یہ عدالت صرف سزائیں نہیں دیتی ہے بلکہ فرائض انجام دینے والوں کو جزا بھی دیتی ہے۔اس لئے یہ ایک ایسی عدالت ہے جس میں نیک وبد دونوں کے کیس کی تحقیق و شنوائی ہو تی ہے اور ان کے اعمال کے تناسب سے انھیں سزا یا جزا ملتی ہے۔

۵ ۔اس عدالت کی سزاؤں کی دنیا کی عام عدالتوں کی سزاؤں سے کوئی شباہت نہیں ہے ۔بظاہر نہ کوئی زندان ہے،نہ کوڑے،نہ تختہ دار اور نہ گولیوں کی مار،لیکن اس عدالت کا حکم مجرم کو اندر سے ایسا جلاتا ہے اور جیل میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے لئے دنیا اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے ایسی کہ ایک جیل کی خوفناک اور تنگ و تاریک کال کوٹھری سے بھی زیادہ تنگ ہو جاتی ہے۔مختصر یہ کہ عدالت اس دنیا کی عدالتوں کی جیسی نہیں ہے بلکہ قیامت کی عدالت کے مانند ہے۔

اس عدالت کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے اس کی قسم کھائی ہے اور اسے قیامت کی عدالت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے سورئہ قیامت کی آیت نمبر ۱ سے ۴ تک ارشاد فر ماتا ہے:

( لااقسم بیوم القیمة ولا اقسم بالنّفس اللّوّامةایحسب الإنسان الّن نجمع عظامةبلٰی قادرین علی ان نّسوّی نبانه)

”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں۔“

لیکن ان تمام اوصاف کے باوجود ضمیر کی عدالت دنیوی ہو نے کی وجہ سے کچھ نقائص رکھتی ہے،جس کی وجہ سے یہ ہمیں قیامت کی عدالت سے بے نیاز نہیں کرسکتی ہے۔ کیونکہ:

۱ ۔ ضمیر کے حدود کے دائرہ میں تمام چیزیں نہیں آسکتی ہیں کیونکہ ضمیر کے حدود انسان کی فکر و تشخیص کے قلمرو کے مطابق ہوتے ہیں۔

۲ ۔ کبھی ایک ماہر دھو کہ باز اور چالباز انسان اپنے ضمیر کوبھی دھو کہ دے سکتاہے یعنی اپنے ضمیر کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک سکتاہے۔

۳ ۔ کبھی بعض گناہگاروں کے ضمیر کی آواز اس قدر کمزور ہوجاتی ہے کہ وہ ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔

لہذا چوتھی عدالت یعنی قیامت کی عظیم عدالت کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ حقیقت میں انسان کامحاکمہ کتنی عدالتوں میں ہوتاہے؟

۲ ۔ پہلی عدالت کا نام اور اس کی خصوصیات بیان کیجئے۔

۳ ۔دوسری عدالت کی خصوصیات کیا ہیں؟

۴ ۔ تیسری عدالت کی خصوصیات کیا ہیں؟

۵ ۔ ضمیر کی عدالت کی خصوصیات اورنقائص بیان کیجئے۔

چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں

عام طورپر کہاجاتا ہے کہ خدا کی معرت انسان کی فطرت میں موجود ہے۔اگر ہم ایک انسان کے آگاہ اور ناآگاہ ضمیر پر تحقیق و جستجو کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک ایسے ماورائے طبیعت خالق پر ایمان رکھتا ہے جس نے علم، منصوبہ اور مقصد کے مطابق اس کا ئنات کو پیدا کیاہے۔

لیکن یہ مسئلہ”توحید و خداشناسی“ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ دین کے تمام بنیادی اصول اور فروع انسان کی فطرت کے اندرہونے چاہئے، اگر ایسا نہ ہوتو ”تشریعی“ اور”تکوینی“ احکام کے درمیان ضروری ہم آہنگی حاصل نہیں ہوگی۔(توجہ فرمایئے)

اگر ہم اپنے دل پر ایک نگاہ ڈالیں اور اپنی روح و جان کی گہرائیوں میں اترکر جستجو اور تحقیق کریں، تو ہم اپنے دل کے کانون سے یہ گنگناہٹ سنیں گے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ موت عالم بقاء کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے!

اس حقیقت کو ماننے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنی چاہئے:

۱ ۔ بقاء کا عشق

اگر انسان کوواقعا فنا اور نابودی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تو اسے فنا اور نابودی کا عاشق ہوناچاہئے، اور اپنی عمر کے آخر میں موت سے لذت حاصل کرنی چاہئے۔ لیکن ہم اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ انسان کے لئے موت کا چہرہ (نابودی کے معنی میں) کسی بھی زمانہ میں نہ صرف خوشگوار نہیں ہے بلکہ وہ ہر ممکن صورت میں اس سے بھاگتاہے۔

ہمارا بقاء کے ساتھ یہ عشق بتاتا ہے کہ ہم بقاء کے لئے خلق کئے گئے ہیں،اوراگر ہم فنا کے لئے پیدا کئے گئے ہوتے تو اس عشق و محبت کے کوئی معنی نہیں تھے۔

ہمارے اندر پائے جانے والے تمام بنیادی عشق ہمارے وجود کو مکمل کرتے ہیں، بقاء کے ساتھ ہمارا عشق بھی ہمارے وجود کو مکمل کرنے والاہے۔

یہ نہ بھولئے کہ ہم نے ”معاد“ کی بحث کو خداوند حکیم و علیم کے وجود کو قبول کرنے کے بعد شروع کیاہے، ہماراعقیدہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ ہمارے وجود میں خلق کیاہے وہ حساب و کتاب کے مطابق ہے، اس لحاظ سے انسان کا بقاء کے ساتھ عشق کا بھی کوئی حساب و کتاب ہوناچاہئے اور وہ اس دنیا کے بعدایک دوسری دنیا کے وجود کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہوسکتا۔

۲ ۔ گزشتہ اقوام میںقیامت کا عقیدہ

تاریخ بشر جس طرح گواہی دیتی ہے کہ زمانہ قدیم سے گزشتہ اقوام میں کلی طور پر مذہب کا وجود تھا،اسی طرح قدیم ترین زمانہ سے انسان کے”موت کے بعدوالی زندگی“ کے بارے میں راسخ عقیدہ کی بھی گواہی دیتی ہے۔

قدیمی حتی،قبل تاریخ کے انسانوں کے بارے میں ملنے والے آثار، بالخصوص قبور کی تعمیر اورمردوں کو دفن کرنے کے طریقے اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ وہ موت کے بعد والی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔

انسان میں ہمیشہ سے پائے جانے والے اس بنیادی عقیدہ کو محض ایک معمولی مسئلہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے یا اسے ایک عادت یا تلقین کا نتیجہ تصور نہیں کیا جاسکتاہے۔

جب بھی ہم انسانی معاشروں میں پوری تاریخ کے دوران مستحکم بنیادوں پر مبنی کسی عقیدہ کو پائیں تو ہمیں اسے فطری ہونے کی علامت سمجھنا چاہئے، کیونکہ یہ صرف فطرت ہی ہے جو زمانہ حوادث اور اجتماعی و فکری تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے اور ثابت قدم رہ سکتی ہے، ورنہ عادات، رسومات اور تلقینیں زمانہ کے گزرنے کے ساتھ فراموش ہوجاتی ہیں۔

کسی خاص لباس کا پہننا ایک عادت یا آداب و رسوم کا حصہ ہے، لہذا حالات کے بدلنے یا زمانہ کے گزرنے سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔

لیکن بیٹے کی نسبت ماں کی محبت ایک غریزہ اور فطرت ہے، لہذا نہ ماحول اور حالات کی تبدیلی اس کے شعلے کو خاموش کرسکتی ہے اورنہ زمانہ کے گزرنے کی وجہ سے اس پر گردوغبار پڑسکتاہے۔ اس طرح کی ہر کشش پیدا ہونے کی صورت میں جاننا چاہئے کہ یہ انسان کی فطرت کی دلیل ہے۔، جب دانشور کہتے ہیں: ”دقیق تحقیقات سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کے ابتدائی اقوام بھی کسی نہ کسی مذہب کے پیرو تھے کیونکہ وہ اپنے مردوں کو ایک خاص طریقے پر دفن کرتے تھے اور ان کے کام کرنے کے آلات و وسائل کو ان کے ساتھ رکھتے تھے، اوراس طرح دوسری دنیا (آخرت) کے وجود پر اپنے عقیدہ کو ثابت کرتے تھے(۱) ۔“

توہمیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ اقوام موت کے بعد والی زندگی کا عقیدہ رکھتے تھے،اگرچہ وہ اس سلسلہ میں غلط راہ پر چلتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ موت کے بعد والی زندگی بھی اس دنیوی زندگی کے مشابہ ہے، اس لئے اس دنیا کے آلات اورسازوسامان کی وہاں بھی ضرورت پڑے گی۔

۳ ۔ معاد کے فطری ہونے کی ایک اور دلیل انسان کے اندر وجدان و ضمیر کی عدالت کا وجود ہے ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی بیان کیا کہ ہم سب بخوبی احساح کرتے ہیں کہ ہماری یہ اندرونی عدالت ہمارے اعمال کی تفتیش کرتی ہے، نیکیوں کے مقابلہ میں جزادیتی ہے جس کے نتیجہ میں ہم ایسا آرام اور سکون کا احساس کرتے ہیں کہ ہماری روح نشاط وشادی کی ایک ایسی لذت محسوس کرتی ہے، جس کی توصیف سے زبامان اور قلم عاجز ہیں۔ اور بُرے کاموں بالخوصوص گناہان کبیرہ کے مقابلہ میںایسی سزا دیتی ہے جو انسان کے لئے زندگی کو تلخ بنادیتی ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد نے ایک بڑے ظلم و جرم جیسے قتل کے ارتکاب کے بعد عدالت سے فرار کرنے کے بعد رضا کا رانہ طور پر خود کو عدالت میں پیش کیا ہے اور جرم کا اعتراف کرنے کے بعد پھانسی کے پھندے کا استقبال کیاہے اور اس کی وجہ ضمیرکے شکنجہ اور روحی عذاب سے نجات حاصل کرنا بتایاہے۔

اس باطنی و روحی عدالت کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان اپنے آپ سے یہ سوال کرتاہے: یہ کسیے ممکن ہے کہ ایک چھوٹا وجود رکھنے کے باوجود میرے اندر ایک ایسی عدلات موجود ہو، لیکن اس عظیم کائنات کی کوئی عدالت نہ ہو؟!

اس لئے معاد کے عقیدہ اور موت کے بعد زندگی کے فطری ہونے کو درج ذیل تین راہوں سے ثابت کیا جاسکتاہے:

۱ ۔ بقاء کاعشق۔

۲ ۔ پوری تاریخ بشریت میں اس ایمان اور عقیدہ کا وجود۔

۳ ۔ انسان کی روح کے اندر اس کے ایک چھوٹے سے نمونہ کا وجود۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔غیرفطری امور کو فطری امور سے کیسے جدا کیا جاسکتا ہے؟

۲ ۔انسان کی بقاء سے عشق رکھنے کی دلیل کیا ہے؟اور یہ بقاء کا عشق کیسے معاد کے فطری ہو نے کی دلیل بن سکتا ہے ؟

۳ ۔کیا گزشتہ اقوام بھی معاد کا عقیدہ رکھتے تھے ؟

۴ ۔ہمارے ضمیر کی عدالت کیسے ہمیں جزا یا سزا دیتی ہے ؟اس کی دلیل اور کچھ نمو نے بیان کیجئے۔

۵ ۔ضمیر کی عدالت اور قیامت کی عظیم عدالت کے درمیان کیا ربط ہے ؟

____________________

۱۔ جامعہ شناسی”کینگ“ ،ص۱۹۲

پانچواں سبق:قیامت،انصاف کی ترازومیں

کائنات کے نظام اور خلقت کے قوانین پر تھوڑا ساغور کرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ہرجگہ قانون کی حکمرانی ہے اور ہر چیز اپنی جگہ پربرقرارہے۔

یہ عادلانہ نظام،انسان کے بدن میں اس قدر باریکی کے ساتھ قائم ہے کہ اس میں چھوٹی سی تبدیلی اور ناہم آہنگی بیماری یا موت کا سبب بن جاتی ہے۔

مثال کے طور پر آنکھ، دل اور مغز کی بناوٹ میں ہر چیز اپنی جگہ پرہے اور ضروری حد تک یہ عدالت اور نظم نہ صرف انسان کے بدن میں موجود ہے بلکہ تمام کائنات پر حکم فرماہے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے:

”بالعدل قامت السموات و الارض“

”عدل کے ذریعہ آسمان اور زمین قائم ہیں“

ایک ایٹم اس قدر چھوٹا ہے کہ دسیوں لاکھ ایٹم ایک سوئی کی نوک میں سماسکتے ہیں ۔ذرا غور کیجئے کہ اس ایٹم کی بناوٹ کس قدر دقیق اور منظم ہونی چاہئے کہ کروڑوں سال سے اپنی اس حالت کو قائم رکھتا ہے۔

یہ الیکٹر ونوں اور یروٹونوں کے دقیق نظام میں غیر معمولی توازن وتعادل کی وجہ سے ہے اور کوئی بھی بڑا یا چھوٹا سسٹم اس حیرت انگیز نظام سے باہر نہیں ہے ۔

کیا واقعاًانسان ایک استثنائی مخلوق ہے؟اس عظیم کائنات کے لئے ایک نا موزون اور نا منظم جزء اور ایک بے جوڑ پیوند ہے کہ اسے آزاد رہنا چاہئے اور جس بے نظمی، ظلم اور بے انصافی کو چاہے ،اس کا مرتکب ہو جائے ؟یا یہاں پر ایک راز مضمر ہے؟

اختیار اور ارادہ کی آزادی

حقیقت میں انسان کائنات کی تمام مخلوقات سے ایک بنیادی تفاوت رکھتا ہے اور وہ اس کا ”اختیار اور ارادہ کی آزادی“رکھنا ہے۔

خداوند متعال نے انسان کو کیوں آزاد خلق کیا ہے اور فیصلہ کر نے کا حق اسے بخشا ہے تاکہ جو چاہے انجام دے؟

اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ آزاد نہ ہو تا تو وہ کمال حاصل نہیں کر سکتا تھا اور یہ عظیم امتیاز انسان کے معنوی واخلاقی کمال کا ضامن ہے ۔مثلاًاگر کسی کو نیزے کی نوک پر مستضعفین کی مدد کر نے اور معاشرے کی بھلائی کے کام انجام دینے پر مجبور کیا جائے ،تو بہر صورت یہ نیک کام انجام پاسکتا ہے،لیکن مدد کرنے والے کے لئے کسی قسم کے اخلاقی و انسانی کمال کا سبب نہیں بن سکتا ہے،حالانکہ اگر وہ اپنی مرضی اور ارادہ سے اس کا ایک فی صد حصہ بھی دیدے تو اسی قدر اس نے اخلاقی و معنوی کمال کی راہ پر قدم بڑھا یا ہے۔

اس لئے معنوی و اخلاقی کمال حاصل کر نے کی پہلی شرط ”اختیار وارادہ کی آزادی“ہے تاکہ انسان اپنی مرضی سے اس راہ کو طے کرے نہ کہ عالم طبیعت کے اضطراری عوامل کی طرح مجبوری کی حالت میں ۔خداوند متعال نے انسان کو یہ نعمت اسی بلند مقصد کے لئے عطا کی ہے۔

لیکن یہ نعمت اس پھول کے مانند ہے جس کے ارد گرد کانٹے بھی اگے ہو تے ہیں،او ریہ کانٹوں کا اگنا انسان کا اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر ظلم وستم اور گناہ کا مرتکب وآلودہ ہو نا ہے۔

البتہ خدا وند متعال کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں تھی کہ اگر انسان ظلم وستم کا مرتکب ہوتا تو فوراً اس پر ایک ایسا عذاب نازل کر تا کہ پھر ایسا کبھی سوچتا بھی نہیں ،مثلاً اس کے ہاتھ فلج ہو جاتے ،آنکھیں اندھی ہو جاتیں اور زبان بے کار ہو جاتی۔

صحیح ہے کہ ایسی صورت میں کو ئی شخص آزادی کا نا جائز فائدہ نہ اٹھاتا اور گناہ کے پیچھے نہ جاتا،لیکن حقیقت میں یہ پرہیز گاری اور تقویٰ کا جبری پہلو ہوتا،اور انسان کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہوتی بلکہ یہ شدید ،فوری اور بلا فاصلہ سزا سے ڈرنے کے سبب ہو تا۔

لہذا،انسان کو ہر حالت میں آزاد ہو نا چاہئے ،اور پرور دگار عالم کے گونا گوں امتحانات کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ،اور استثنائی مواقع کے علاوہ فوری سزاؤں سے محفوظ رہنا چاہئے تاکہ اپنی وجودی قدر ومنزلت کا مظاہرہ کر سکے۔لیکن یہاں پر ایک مطلب باقی رہ جاتا ہے ۔اور وہ یہ ہے :

اگر یہی حالت بر قرار رہے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق راستہ کا انتخاب کرے،تو کائنات پر حکم فرما خدا کے قانون عدالت کی خلاف ورزی ہو گی۔

یہاں پر ہمیں یقین پیدا ہو تا ہے کہ انسان کے لئے ایک عدالت معیّن ہوئی ہے،جس میں بلا استثنا سب لوگ حاضر کئے جائیں تا کہ اپنے اعمال کی جزا پائیں اور عالم خلقت کی عمو می عدالت سے اپنا حصہ وصول کریں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ وقت کے نمرود ،فر عون ،چنگیزاور قارون ایک عمر ظلم و ستم کر تے رہیں اور ان کے لئے کسی قسم کا حساب و کتاب نہ ہو؟

کیا یہ ممکن ہے کہ مجرم اور پر ہیز گار دونوں کو پرور دگارکی عدالت کی ترازو کے ایک ہی پلّہ میں رکھا جائے؟

قرآن مجید اس سلسلہ میں سورہ قلم کی آیت نمبر ۳۵،۳۶ میں فر ماتا ہے:

( افنجعل المسلمین کا لمجرمین مالکم کیف تحکمون)

”کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں ۔تمھیں کیا ہو گیا کیسا فیصلہ کر رہے ہو؟

ایک اور جگہ پر سورئہ ص کی آیت نمبر ۲۸ میں ارشاد ہو تا ہے :

( ام نجعل المتقین کا لفجّار)

”کیا ہم صاحبان تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دے دیں ؟“

صحیح ہے کہ بعض گناہگار اسی دنیا میں اپنے برے اعمال کی سزا پاتے ہیں یا اس سزا کے ایک حصہ کو پاتے ہیں ۔

صحیح ہے کہ ضمیر کی عدالت ایک اہم مسئلہ ہے۔

اور یہ بھی درست ہے کہ بعض اوقات گناہ اور ظلم وستم کے رد عمل اور بے انصافی کے برُے نتائج انسان کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں۔

لیکن اگر ہم درست اور دقت سے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ تین امور میں سے کوئی ایک بھی عام نہیں تاکہ ہر ظالم وگناہ کار کو اس کے ظلم اور گناہ کے برابر سزادے۔ اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مکافات عمل کے چنگل ،ضمیر کی سزا اور اپنے برے اعمال کے رد عمل سے فرار کر جاتے ہیں یا کافی حد تک سزا نہیں پاتے۔

ایسے افراد اور عام لوگوں کے لئے عدل وانصاف کی ایک عدا لت کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں پرذرہ برابر بھی نیک اور برُے کام کا محاسبہ ہو،اگر ایسا نہ ہو گا تو اصلاًعدل وانصاف حاصل نہیں ہو گا۔

لہذا ”پرور دگارکے وجود“اور ”اس کے عدل“کو قبول کرنا ”قیامت“اور ”دوسری دنیا“ کے قبول کر نے کے برابر ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے جزو لا ینفک ہیں۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔آسمان اور زمین عدل کے ذریعہ کیسے قائم ہیں؟

۲ ۔انسان کو ”اختیار و ارادہ“کی آزادی کی نعمت سے کیوں نوازا گیا ہے؟

۳ ۔اگر گناہ گاراسی دنیا میں فوری طور پر اپنے اعمال کی شدید سزاپاتے تو کیا ہوتا؟

۴ ۔مکافات عمل ،ضمیر کی عدالت اور ہمارے اعمال کے رد عمل ہمیں قیامت کی عدالت سے کیوں بے نیاز نہےں کرتے؟

۵ ۔”عدل الہٰی“ اور ”معاد“کے مسئلہ کے در میان کیا رابطہ ہے؟