نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22330
ڈاؤنلوڈ: 3064

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22330 / ڈاؤنلوڈ: 3064
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

چھٹا سبق:معاد کا اسی دنیا میں مشاہدہ

قرآن مجید کی آیات اس حقیقت کو بخوبی بیان کرتی ہیں کہ بت پرست اور تمام کفار نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے زمانے میں بلکہ دوسرے زمانوں اور عصروں میں بھی معاد اور موت کے بعد زندہ ہو نے کے مسئلہ پر تعجب اور وحشت کا اظہار کرتے تھے، حتیٰ اس قسم کا اعتقاد رکھنے والوں کو دیوانہ شمار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے تھے:

( هل ندلّکم علی رجل ینبئکم إذا مزّ قتم کلّ ممزّق إ نّکم لفی خلق جدید افتریٰ علی اللّٰه کذباً ام به جنّة ) (سبا/ ۷ ۔ ۸)

”کیا ان کا کہنا ہے کہ ہم تمھیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں گے جو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤگے تو تمھیں نئی خلقت کے بھیس میں لایا جائے گا ۔اس نے اللہ پر جھوٹا الزام باندھا ہے یا اس میں جنون پایا جاتا ہے۔“

جی ہاں،اس روز لاعلمی جہالت اور تنگ نظری کے سبب،موت کے بعد والی دنیا اور مردوں کے زندہ ہونے کے عقیدہ کو ایک قسم کی دیوانگی یا خدا پر تہمت شمار کیا جاتا تھا۔اور بے روح مادہ(مرنے کے بعد خاک میں ملے جسم)سے چشمہ حیات کے جاری ہونے کے عقیدہ کو دیوانگی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس قسم کے افکار کے مقابلہ میں مختلف دلائل پیش کی ہیں،کہ ان سے عام لوگوں کے علاوہ بڑے دانشور اور مفکرین بھی اپنی فکری صلا حیتوں کے مطابق استفادہ کر سکتے ہیں۔

اگر چہ قرآن مجید کی ان دلائل کی تشریح کر نے کے لئے ایک مستقل کتاب تالیف کرنے کی ضرورت ہے،لیکن ہم یہاں پر ان کے چند نمونے پیش کر نے پر اکتفا کرتے ہیں :

۱ ۔کبھی قرآن مجید ان سے کہتا ہے کہ تم لوگ اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے ہمیشہ معاد کے مناظرکا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح بعض مخلوقات مرتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں ،کیا اس کے باوجود بھی تم لوگ معاد کے مسئلہ میں شک وشبہہ کرتے ہو؟!

( واللّه الّذی ارسل الرّیٰح فتثیر سحاباً فسقنه الیٰ بلد مّیّت فاحیینا به الارض بعد موتها کذٰلک النشور ) ( سورہ فاطر/ ۹)

”اللہ ہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں مردہ شہر تک لے جاتے ہیں اور زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے زندہ کر دیتے ہیں ،اسی طرح مردے دو بارہ اٹھائے جائیں گے۔“

موسم سر ما میں جب ہم طبیعت کے چہرہ پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر سو موت کے آثار نظر آتے ہیں،درخت پتوں،پھولوں اور میوؤں سے خالی پڑے ہیں اور خشک لکڑی بن کر اپنی جگہوں پر بے حرکت کھڑے ہیں،نہ کوئی پھول مسکراتا ہے اور نہ کوئی کلی کھلتی دکھائی دیتی ہے اور نہ پہاڑوں اور صحراؤں میں کہیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔

جب بہار کا موسم آتا ہے ،ہوا ملائم ہوتی ہے ،بارش کے حیات بخش قطرات برسنے لگتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے پوری طبیعت میں ایک حرکت نمایاں ہو جاتی ہے:سبزے اور پودے اگنے لگتے ہیں،درختوں پرپتے لکل آتے ہیں، کلیاں اور پھول کھل اٹھتے ہیں، پرندے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہانے لگتے ہیں اور ”محشر“ کا شور بپا ہوجاتاہے۔

اگر موت کے بعد زندگی کے کوئی معنی نہ ہوتے تو ہم ہر سال اپنی آنکھوں کے سامنے ان مناظر کا مشاہدہ نہیں کرتے، اگر موت کے بعد زندگی ایک ناممکن امر اور دیوانگی کی بات ہوتی تو، ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح محسوس صورت میں اس کی ہرگز تکرار نہ ہوتی۔آخر زمین کے مرنے کے بعد زندہ ہونے اور انسان کے مرنے کے بعد زندہ نے میں کیا فر ق ہے؟

۲ ۔ کبھی قرآن مجید ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں ابتدائے خلقت کی طرف لے جاتاہے، ابتدائی خلقت کی یاد دہانی کراتاہے،اس صحرائی مرد کی داستان کی طرف اشارہ کرتاہے جو سڑی گلی ایک ہڈی کا ٹکڑالے کر پیغمبر اسلام کی خدمت میں آگیا اورر چیخ چیخ کر کہنے لگا:” اے محمد! کون اس سڑی ہوئی ہڈی کو پھر سے زندہ کرنے کی طاقت رکھتاہے؟ مجھے بتادو کہ کون یہ کام انجام دے سکتاہے؟“ وہ گمان کررہا تھا کہ مسئلہ معاد کے خلاف ایک دندان شکن دلیل لے آیا ہے۔ لیکن قرآن مجید نے پیغمبر اسلام کو یہ فرمانے کا حکم دیا:

( قل یحییها الذی انشاها اوّل مرّة ) (سورہ یٓس/ ۷۹)

” آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ(بے جان مادہ سے) خلق کیا ہے وہی (پھر سے ) زندہ کرے گا“

ابتدائی خلقت اور دوبارہ پیدا کرنے میں کیا فرق ہے ؟

لہذا دوسری آیات میں ایک بالکل مختصر لیکن بامعنی جملہ میں فرماتاہے:

( کما بدانا اول خلق لغید ) ( سورہ نساء/ ۱۰۳)

” جس طرح ہم نے شروع میں خلق کیا اسی طرح پھر لوٹا دیں گے۔“

۳ ۔ کبھی قرآن مجید وسیع زمین وآسمان کی خلقت کے بارے میں خداوند متعال کی عظیم قدرت کی یاد دہانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:

( اولیس الّذی خلق السّموات و الارض بقدر علی ان یخلق مثلهم بلی وهو الخلّق العلیم ۰انّما امره اذا اراد شیئا ان یقول له کن فیکون۰ ) سورہ یٓس/ ۸۱ ۔ ۸۲

” تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کردے۔ یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والاہے۔ اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا تو وہ شے فورا ہوجاتی ہے۔“

ان مسائل میں شک وشبہہ کرنے والے، ایسے افراد تھے جن کی فکر کی فضا ان کے چھوٹے سے گھر کی چار دیواری سے زیادہ نہیں تھی، ورنہ وہ جانتے تھے کہ دوبارہ زندہ کرنا ابتدائی خلقت سے آسان اور سادہ تر ہے اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے خدا کی قدرت کے مقابلہ میں مردوں کو زندہ کرنا کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔

۴ ۔ قرآن مجید کبھی موت کے بعد زندہ کرنے کی پروردگار کی ”طاقتوں“ کو ان کی نظروں میں منعکس کرکے فرماتاہے:

( الّذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منه توقدون ) (سورہ یٓس/ ۸۰)

” اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ۔“

یعنی جو خدا ہرے درخت سے آگ پیدا کرسکتا ہے وہ انسانوں کو مرنے کے بعد زندہ کرنے کی بھی قدرت رکھتاہے ۔

جب ہم قرآن مجید کی اس عجیب و غریب تعبیر پر دقت سے غور کرتے ہیں اور جدید سائنس سے مدد لیتے ہیں تو سائمنس ہمیں تباتی ہے: جب ہم کسی درخت کی لکڑی کو جلاتے ہیں تو اس سے جو آگ نکلتی ہے، یہ وہی سورج کی گری اور نورہے جو سالہا سال سے طاقت (انرجی) کی صورت میں درخت میں درخت میں ذخیرہ ہوئی ہے۔ ہم خیال کرتے تھے وہ نور اور حرارت نابود ہوچکی ہے، لیکن آج دیکھتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں اورحیات کا لباس نوزیب تن کرلئے ہیں۔

کیا اس خدا کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل امر ہے، جو یہ قدرت رکھتا ہے کہ دسیوں سال تک آفتاب کے نور و حرارت کو ایک درخت کے جسم مین زخیرہ کرے اور ایک لمحہ میں اس حرارت اور نور کو درخت سے بارہر لے آئے(۱) ؟

بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے کیسی مستدل اورواضح منطق سے ان لوگوں کا دندان شکن جواب دیکر معاد کے ممکن ہونے کو واضح طور پر ثابت کردیاہے، جو مسئلہ میں شک و شبہہ ایجاد کرتے تھے اور حتی کہ معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کو دیوانہ کہتے تھے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ مسئلہ معاد سے مشرکین کیوں تعجب کرتے تھے؟

۲ ۔ معاد کے منظر کو ہم کیسے ہر سال پودوں میں مشاہدہ کرتے ہیں؟

۳ ۔ قرآن مجید نے اپنی بعض آیات میں جنین کے دوران کو معاد کی ایک نشانی تبائی ہے، اس کی وجہ کیاہے؟

۴ ۔ توانائیوں(انرجیوں) کا دوبارہ زندہ ہونا کیاہے؟

۵ ۔ قرآن مجید نے کیوں” الشجر الاخضر“(ہر ے درخت) سے استدلال کیا ہے؟

____________________

۱۔ قابل غور بات ہے کہ سائنس(علم نباتات) نے ثابت کیا ہے کہ ہرے درخت سورج کی روشنی سے کاربن ڈائی اوکسائڈ گیس کو جذب کرکے اس کاتجزیہ کرتے ہیں اور کاربن کو اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیںا ور اوکسیجن کو چھوڑ دیتے ہیں اس کے علاوہ سورج کی توانای (انرجی) کو بھی اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیں۔

ساتواں سبق:معاد اور تخلیق کا فلسفہ

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟

باغبان درخت کو پھل کے لئے لگاتاہے، کسان فصل کاٹنے کے لئے زمین کو کھود کر اس میں کیاریان بناتا ہے اور بیج بوتاہے۔ آخر خلقت کے باغبان نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے؟

کیا خداوند متعال کو کسی چیز کی کمی تھی، جس کی تلافی کے لئے ہمین خلق کیاہے؟ اس صورت میں تو خدا کو محتاج ہونا پڑے گا اور پروردگار کے لئے محتاج ہونا اس کی ذات اور اس کے لامحدود وجود کے شایان شان نہیں ہے۔

مذکورہ سوالات کا جواب مفصل ہے لیکن ان کے جواب چند جملوں میں خلاصہ کرکے واضح کیا جاسکتاہے:

ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم خداوند متعال کی صفات کا اپنی ذات سے موازنہ کرتے ہیں، چونکہ ہم ایک محدود مخلوق ہیں، اس لئے جو بھی کام انجام دیتے ہیں، اپنی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہوتاہے، ہم سبق پڑھتے ہین تا کہ اپنی علمی کمی کو پورا کریں، کام کرتے ہیں تا کہ اپنی مال کمی پورا کریں ۔ علاج و معالجہ کے پیچھے دوڑتے ہین تا کہ صحت وسلامتی حاصل کریں۔

لیکن خداوند متعال، جو ہر لحاظ سے ایک لا محدود وجود ہے، اگر کو ئی کام انجام دے تو ہمیں اس کے مقصد کو اس کے وجود سے باہر جستجو اور تلاش کرنی چاہئے، وہ اس لئے کسی کو پیدا نہیں کرتا ہے تا کہ خود اسے کوئی فائدہ ملے،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ”اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازے“۔

وہ ایک پر نور اور لا محدود سورج ہے ، جو کسی احتیاج کے بغیر اپنا نور پھیلاتاہے تا کہ سب اس کے وجود سے مستفید ہوں ۔ یہ اس کی لامحدود اورپر برکت و پر فیض ذات کا تقاضا ہے کہ تمام مخلوقات کا ہاتھ بکڑ کر انھیں کمال کے راستہ پر گامزن کرتاہے۔

ہماری خلقت اپنے عدم سے کمال کی طرف ایک برجستہ قدم تھا خدا کی طرف سے انبیاء کا بھیجنا،آسمانی کتابوں کا نزول اور قوانین و احکام کا معین ہونا، ہر ایک ہمارے کمال کے مراحل شمار ہوتے ہیں ۔

یہ دنیا ایک عظیم یونیورسٹی ہے اور ہم اس کے طالب علم ہیں(۱) ۔

یہ دنیا ایک آمادہ کھیت ہے اورہم اس کے کسان ہیں(۲) ۔

یہ دنیا ایک فائدہ بخش تجارتی مرکز ہے اورہم اس کے تاجر ہیں(۳) ۔

ہم کیسے انسان کی خلقت کے لئے کسی مقصد کے قائل نہیں ہوسکتے ؟ حالانکہ جب ہم اپنے اطراف پر نظر ڈالتے ہیں اور مخلوقات کے ذرہ ذرہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے ہر ذرہ کا ایک مقصد ہے۔

ہمارے بدن کے عجیب وغریب کارخانہ میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے یہاں تک کہ ہمارے آنکھوں کی پلکیں اور ہمارے تلوؤں کی گہرائی بھی بے مقصد نہیں ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے وجود کا ہر جز کوئی مقصد رکھتا ہولیکن ہمارا پورا وجود بے مقصد ہو؟

جب ہم اپنے وجود سے باہر آکر اس عظیم کائنات پر نظر ڈالتے ہیں،تو ہم اس کائنات میں موجود ہر چیز کو بامقصد پاتے سورج کی روشنی با مقصد ہے ،بارش کا برسنا با مقصد ہے اور ہوا کاچلنا بھی بامقصد ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پوری کائنات بے مقصد ہو؟!

حقیقت یہ ہے کہ گویا اس عظیم کائنات کے بیچ میں مقصد کی نشامذہبی کے لئے ایک بڑاسائن بورڈ نصب کیا گیا ہے ہم اس کی عظمت کے پیش نظر کبھی پہلے لمحات میں اسے دیکھ نہیں پاتے ہیں اس سائن بورڈپر یہ عبارت لکھی گئی ہے: ” تربیت و تکامل“۔

اب جبکہ ہم اپنی خلقت کے مقصد کے بارے میں کسی حدتک آگاہ ہوگئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری اس دنیا کی چند دنوں کی زندگی ان تمام مشکلوں،مصیبتوں اور ناکامیوں کے ساتھ ہماری خلقت کا مقصد ہوسکتی ہے؟

فرض کیجئے میں اس دنیا میں ساٹھ سال زندگی بسر کروں ،ہرروز صبح سے شام تک روزی کمانے کے لئے کوشش کروں اور شام کو تھکا ہوا گھر لوٹوں ،اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ میں اپنی پوری عمر میں کئی ٹن غذا اور پانی صرف کروں ،بڑی زحمتوں اور محنتوں کے بعد ایک گھر تعمیر کروں ،پھر اسے یہیں پر چھوڑ کر اس دنیا سے چلاجاؤں ۔کیا اس مقصد کی یہی اہمیت ہے کہ مجھے درد ورنج سے بھری اس چند روزہ زندگی کی طرف بلایا جائے؟

اگر ایک انجینئر ،ایک بیابان کے بیج میں ایک بڑی عمارت تعمیر کرے اور اس کو مکمل کر نے میں اسے برسوں لگ جائیں اور اس عمارت کو مکمل کر نے کے بعد اس میں تمام سازوسامان فراہم کرے ۔لیکن جب اسے اس عمارت کی تعمیر کے بارے میں سوال کریں کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟ تو وہ جواب میں کہے :میرا مقصد یہ ہے کہ جب تک یہ عمارت اس بیابان میں موجود ہے جو بھی مسافر یہاں سے گزرے،اس میں ایک گھنٹہ آرام کرے!کیا یہ جواب سن کر ہم سب تعجب سے یہ نہیں کہیں گے :ایک مسافر کے ایک گھنٹہ آرام کے لئے اس قدر زحمتوں اور محنتوں کی ضرورت نہیں تھی!

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ قیا مت اور موت کے بعد والی زندگی کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیںوہ اس دنیا کی زندگی کو فضول سمجھتے ہیں ۔مادہ پرستوں کی زبان سے یہ جملہ اکثر سنا گیا ہے کہ اس دنیا کی زندگی بے مقصد ہے۔حتی بعض اوقات ان میں سے کچھ افراد خود کشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا کی مادی اور مکرر اور بے مقصد زندگی سے تنگ آجاتے ہین۔

جو چیز زندگی کو مقصد بخشتی ہے اور اسے معقول اور با حکمت بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس زندگی کو دوسری دنیا کے لئے مقدمہ سمجھاجائے اور اس زندگی کے مشکلات کو برداشت کر نا اور اس کے لئے اتنے دکھ درد اٹھانا ایک ابدی زندگی کی راہ میں استفادہ کر نے کے لئے ہو۔

یہاں پر اس دلچسپ مثال کا پھر سے ذکر کر نا مناسب ہو گا جسے ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے،یعنی اگر ماں کے شکم میں موجود جنین صاحب عقل وشعور ہو تا اور اس سے کہا جاتا :”تیری اس زندگی کے بعد کوئی خبر نہیں ہے ،“تو وہ اپنی زندگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا:”پس اس کا کیا مطلب ہے کہ میں اس جگہ قیدی بنا رہوں؟خون پیتا رہوں اور ہاتھ پاؤں باندھے ہو ئے ایک کو نے میں پڑا رہوں اور اس کے بعد کچھ نہ ہو ؟پرور دگار کا میری اس خلقت سے کیا مقصد تھا؟!“لیکن اگر اسے اطمینان دلایا جائے کہ یہ چند مہینے جلدی گزرنے والے ہیں اور یہ دنیا میں نسبتاً ایک طولانی زندگی کی آمادگی کا دور ہے ،وہ دنیا اس جنین کے ماحول سے بہت زیادہ وسیع،پر نور اور با شکوہ ہے اور اس کی نسبت زیادہ نعمتوں سے مالا مال ہے۔“اس وقت وہ مطمئن ہو جائے گا کہ اس کاجنینی دوران ایک با معنی و با مقصد دور ہے اسی لئے قابل برداشت ہے۔

قرآن مجید سورہ واقعہ آیت نمبر ۶۲ میں ارشاد فر ماتا ہے:

( ولقد علمتم النشّاة الاولیٰ فلو لا تذکرون)

”اور تم پہلی خلقت کو تو جانتے ہو تو پھر اس میں غور کیوں نہیں کرتے ہو؟(کہ اس کے بعد بھی ایک جہان ہے)۔“

مختصر یہ کہ یہ دنیا اپنے تمام وجود سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس کے بعد ایک اور دنیا ہے ورنہ یہ دنیا فضول ،بیہودہ اور بے معنی ہوتی ۔

اس بات کو قرآن مجید کی زبانی سنئے کہ سورہ مو منون کی آیت نمبر ۱۱۵ میں ارشاد فر ماتا ہے:

( افحسبتم انّما خلقنکم عبثا وانکم إ لینا لا تر جعون)

”کیا تمھارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے؟“

اس کا اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ اگر ”معاد“(جس کی تعبیر قرآن مجید میں خدا کی طرف پلٹنا ہے)کا وجود نہ ہو تا تو انسان کی خلقت عبث اور بیہودگی کے برابر ہوتی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلقت کا فلسفہ کہتا ہے:اس عالم کے بعد ایک اور عالم کا وجود ضروری ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔خدا کی صفات کا مخلوق کی صفات سے کیوں موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے؟

۲ ۔ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟

۳ ۔کیا اس دنیا کی زندگی انسان کی خلقت کا مقصد ہوسکتی ہے۔

۴ ۔جنین کی زندگی کا اس دنیا کی زندگی سے موازنہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟

۵ ۔قرآن مجید اس دنیا کی تخلیق سے آخرت کے وجود پر کیسے استدلال کرا ہے؟

____________________

۱،۲،۳:نہج البلاغہ:کلمات قصار اور حدیث مشہور”الدنیا مزرعة الآخرة“ کامضمون۔

آٹھواں سبق :روح کی بقاء،قیامت کی ایک علامت

کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ انسان کب سے”روح“کے وجود کے بارے میں فکر کرنے لگاہے۔

صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ انسان ابتداء سے ہی اپنے اور اس دنیا کی دوسری مخلوقات کے در میان فرق کا مشاہدہ کرتا رہا ہے ،اپنے او رپتھر ،لکڑی ،پہاڑ اور صحرا کے در میان فرق،اپنے اور حیوانات کے در میان فرق۔

انسان نے خواب کی حالت کو دیکھا تھا ،اسی طرح اس نے موت کی حالت کو بھی دیکھاتھا ۔وہ دیکھ رہاتھا کہ خواب اور موت کے دوران بغیر اس کے کہ جسم و مادہ میں کوئی تبدیلی ایجاد ہو اس کی حالت میں ایک عظیم تغیر وتحول پیدا ہوتا ہے ،یہیں سے اس نے سمجھا کہ اس جسم کے علاوہ ایک اور گوہر بھی اس کے اختیار میں ہے۔

اس کے علاوہ وہ دیکھ رہا تھا کہ حیوانات سے بھی فرق رکھتا ہے،کیونکہ وہ فیصلے لینے میں اختیار وآزادی کا مالک ہے ،جبکہ حیوانات کی نقل وحرکت فطری اور جبری ہے۔

بالخصوص نیند کی حالت میں جب اس کے بدن کے تمام اعضاء ایک کونے میں خاموش پڑے ہوتے تھے اور وہ خواب میں مختلف مناظر کا مشاہدہ کرتا تھا تو اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ ایک مخفی اور پر ُاسرارطاقت اس کے وجود پر حکم فر ماہے ،تو اس نے اس کا نام ”روح“ رکھا۔

جب عالم بشریت کے مفکرین نے فلسفہ کی بنیاد ڈالی تو ”روح“ایک اہم فلسفی مسئلہ کے عنوان سے دوسرے مسائل کی فہرست میں قرار پائی ۔اس کے بعد تمام فلاسفہ نے اس کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے،یہاں تک کہ بعض اسلامی علماء کے کہنے کے مطابق ،روح کی حقیقت اور اس سے مربوط دوسرے مسائل کے بارے میں تقریباً ”ایک ہزار اقوال ونظریات“پیش کئے گئے ہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے، لیکن جس اہم مطلب کو جاننا ضروری ہے،وہ اس سوال کا جواب ہے:

کیا روح مادہ ہے یا غیر مادہ ؟دوسرے الفاظ میں :کیا روح مستقل ہے یا مغز واعصاب کے سلسلہ کے مادی اور کیمیاوی خصوصیات میں سے ہے؟

بعض مادی فلاسفہ اس بات پر مصر ہیں کہ روح اور اس سے متعلق مظاہر بھی مادی ہیں اور مغز کے خلیوں کے خواص میں سے ہیں،اور جب انسان مرتا ہے تو اس کے ساتھ روح بھی نابود ہو جاتی ہے ،بالکل اسی طرح کہ ایک گھڑی پر ہتھوڑی مار کر اسے توڑ دیا جائے تو اس گھڑی کا چلنابھی بند ہو جا تا ہے!

اس گروہ کے مقابلہ میں الہٰی فلاسفہ ہیں،حتی بعض مادی فلاسفہ بھی جوروح کی حقیقت کے قائل ہیں ،وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ بدن کے مرنے سے روح نہیں مرتی بلکہ وہ باقی رہتی ہے۔

اس مسئلہ ،یعنی روح کی حقیقت ،استقلال اور بقاء کو ثابت کر نے کے لئے کافی اور پیچیدہ دلائل پیش کی گئی ہیں کہ ہم یہاں پر ان میں سے بعض واضح ترین دلائل کو آسان اور روان عبارتوں میں اپنے عزیز نو جوانوں کی آگاہی کے لئے بیان کرتے ہیں:

۱ ۔ ایک وسیع کا ئنات ایک چھوٹی جگہ میں نہیں سما سکتی

فرض کیجئے آپ ایک عظیم سمندر کے کنارے بیٹھے ہیں ۔اس کے ساحل پر سربفلک پہاڑوں کاایک سلسلہ ہے ۔پانی کی گرجتی لہریں مسلسل ساحلی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں اور غیض وغضب کی حالت میں سمندر کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔

پہاڑ کے دامن میں واقع بڑی بڑی چٹانیں بتارہی ہیں کہ پہاڑوں پر کیا غوغا ہے،نیلگوں آسمان بھی اس پہاڑ اور سمندر پر خیمہ لگائے ہوئے ہے اور رات کے وقت اپنی عظمت و شکوہ کا مظا ہرہ کر رہا ہے۔

ہم ایک لمحہ اس منظر کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے اس منظر کو اپنے ذہن میں اسی شان وشوکت اور عظمت کے ساتھ مجسم کرتے ہیں۔

بے شک اس ذہنی نقشہ اور اس عظیم منظر اور تصور کے لئے ایک مناسب جگہ کی ضرورت ہے،ممکن نہیںہے کہ یہ نقشہ مغز کی چھوٹی خلیوں میں سما سکے ،اگر ایسا ہو تو ایک بڑا نقشہ ایک چھوٹے سے نقطہ پر سمائے گا (جو محال ہے)،جبکہ ہم اس نقشہ کو اس کی تمام عظمتوں کے سا تھ اپنے ذہن میں احساس کرتے ہیں۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم جسم اور مغز کی خلیوں کے علاوہ ایک اور گوہر رکھتے ہیں اور ہر اندازہ کے نقشہ کو اپنے اندر منعکس کر سکتا ہے،یقینا یہ گوہر عالم مادہ سے ماوراء ہے،کیونکہ مادی دنیا میں ہمیں ایسی چیز نہیں ملتی ہے۔

۲ ۔بیرونی دنیا میں روح کے انعکاس کی خصوصیت

ہم اپنے وجود کے اندر بہت سی طبیعیاتی اور کیمیاوی خاصیتں رکھتے ہیں،معدہ اور دل کی حرکتیں طبیعیاتی عمل ہیں،لیکن آب دہن اور معدہ کی رطوبت کا غذا پر اثر ایک کیمیاوی عمل ہے ۔اور اس قسم کے عوامل ہمارے پورے جسم میں فراواں صورت میں پائے جاتے ہیں۔

اگر روح ،سوچ اور فکر سب مغزکی خلیوں کی مادی ،طبیعیاتی اور کیمیاوی خصو صیتیں ہیں،توان میں اور ہمارے جسم کی دوسری خصوصیتوں میں کیوں فرق پا یا جا تا ہے؟

فکر واندیشہ اور روح بیرونی دنیا کے ساتھ ہمارے رابطہ اور پیوند کو برقرار کرتی ہیں اور ہمارے ارد گرد گزرنے والے حالات سے ہمیں آگاہ کرتی ہیں،لیکن لعاب دہن اور معدہ کی رطوبت کی کیمیائی خصو صیتں اور آنکھ ،زبان،اور دل کی طبیعیاتی حر کتیں ہر گز یہ حالت نہیں رکھتی ہیں ۔

دوسرے الفاظ میں ،ہم بخوبی احساس کرتے ہیں کہ ہمارا وجودبیرونی دنیا سے

مر بوط ہے ،اور ہم اس کے مسائل سے آگاہ ہیں ،کیا بیرونی دنیا ہمارے اندر داخل ہوتی ہے؟ یقینا نہیں،پس مسئلہ کیا ہے؟

یقینا بیرونی دنیا کا نقشہ ہماے پاس آتا ہے اور ہم روح کی بیرونی منظر کشی کی خصوصیت سے استفادہ کے ذریعہ اپنے وجود سے باہر والی دنیا کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں اور یہ خصوصیت ہمارے جسم کے کسی بھی طبیعیاتی اور کیمیائی حصہ میں موجود نہیں ہے۔(غور کریں)

دوسری عبارت میں :بیرونی اور عینی مخلوقات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ان پر ایک قسم کا تسلط اور حاوی ہو نا ضروری ہے ۔یہ کام مغز کی خلیوں کا نہیں ہے،مغز کی خلیے صرف باہر سے متاثر ہو سکتی ہیں ،جس طرح جسم کی دوسری خلیے متاثر ہوتی ہیں۔

اس فرق سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں پر طبیعیاتی اور کیمیائی تبدیلیوں کے علاوہ ایک اور حقیقت کا وجود ہے جو ہمیں اپنے وجود سے باہر والی دنیا پر مسلط اور حاوی کرتی ہے اور یہ ”روح“کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ،جو مادی دنیا اور مادہ کی خصوصیات سے بالاتر ہے۔

۳ ۔روح کے حقیقی اور مستقل ہونے پر تجرباتی دلائل

خوش قسمتی سے آج دنیا کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے مختلف علمی اور تجربی طریقوں سے روح کی حقیقت اور اس کے مستقل ہونے کو ثابت کیا ہے اوران لوگوں کا داندان شکن جواب دیا ہے جو روح کے مستقل ہو نے کے منکر ہیں اور اسے مادہ کی خصوصیات سے نیز اس کا تابع جانتے ہیں ۔

۱ ۔مقنا طیسی خواب (ہیپنو ٹزم یا میگنیٹزم)ان محکم دلائل میں سے ہیں جو بہت سے تجربوں کے بعد ثابت ہوئے ہیں ۔بہت سے لوگوں نے انھیں دیکھا ہے ،جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا ہے،ان کے لئے تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے:

کچھ افراد مختلف علمی طریقوں سے کسی اور شخص کے ذریعہ نیند میں چلے جاتے ہیں،کسی کو نیند میں ڈالنے والے کو”عامل “کہا جاتا ہے اور نیند میں چلا جانے والا ”میڈیم“کہلاتا ہے۔”میڈیم“شخص تلقین ،فکری تمرکز،اور آنکھ کی مقنا طیسی قوت جیسی چیزوں کے ذریعہ ایک گہری نیند میں چلا جاتا ہے ،لیکن یہ نیند عام نیند کے مانند نہیں ہوتی ہے ،بلکہ یہ ایک ایسی نیند ہوتی ہے جس میں سونے والے (میڈیم)سے رابطہ برقرار کیا جاسکتا ہے،اس سے بات کی جاسکتی ہے اور اس کا جواب سنا جاسکتا ہے۔

اسی حالت میں روح سونے والے کو مختلف جگہوں پر بھیجتی ہے،کبھی وہ وہاں سے اپنے ساتھ تازہ خبریں لے آتا ہے اور ایسے مسائل کی اطلاع حاصل کرتا ہے،جن کے بارے میں عام حالت میں اسے کوئی خبر نہیں ہوتی ہے۔

کبھی اس حالت میں ریاضی کے پیچیدہ ترین سوال حل کرتا ہے۔

کبھی اس مقنا طیسی نیند کے دوران اپنی مادری زبان کے علاوہ ایک ایسی زبان میں بات کرتا ہے ،جس سے وہ کبھی آشنا نہیں تھا۔

کبھی کسی مقفّل صندوق میں رکھے ہوئے کاغذ پر کچھ مطالب وہ لکھ دیتا ہے ۔

حتی کہ کبھی ارواح ،شبح (دورسے نظرآنے والے جسم) کی صورت میںاور کبھی واضح سایوں کی صورت میں اس قسم کے اجتماعات میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کی تفصیل ہم نے کتاب”عودارواح“ میں بیان کی ہے۔

۲ ۔”اسپرٹزم“ یا”موت کے بعد ارواح سے ارتباط“ روح کی حقیقت اور استقلال کی ایک دلیل ہے۔

اس وقت بھی ”روحیون کی جماعتوں“ کے نام سے دنیا بھر میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں۔ جن کے بارے میں مصری دانشور”فریدوجدی“ کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے تقریبا تین سورسالے اورروزنامے دنیا بھر میں شائعے ہوتے ہیں۔ مختلف شخصیتوں پر مشمل معروف افراد ان کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے سامنے ارواح سے رابطہ قائم کیا جاتاہے اور اس کے علاوہ بہت سے غیر معمولی کام بھی انجام دئے جاتے ہیں۔

اگر چہ بعض فریب کار، روح سے ارتباط کے مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا علم رکھے بغیر لوگوں کو دھو کہ دینے کے لئے ارواح سے رابطہ کا دعوی کرتے ہیںا ور اس طرح اس سے کافی حد تک ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں۔ لیکن یہ فریب کاری اس حقیت کے سلسلہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا بڑے بڑے محققین نے اعتراف کیا ہے اور وہ ارواح کے ساتھ رابطہ کا ممکن ہونا ہے(۱) ۔

یہ سب انسان کی روح کی حقیقت ، اس کے استقلال اور مرنے کے بعد باقی رہنے کی دلیل ہے، اور معاد اورموت کے بعد زندگی کی حقیقت کے سلسلہ میں ایک مؤثر قدم ہے۔

۳ ۔ وہ خواب جو ہم دیکھتے ہیں اور خواب کی حالت میں ہمارے سامنے مجسم ہونے والے مناظر کبھی مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے پردہ اٹھاتے ہیں اور پوشیدہ مسائل کو آشکار کرتے ہیں، ان کو ہم محض اتفاق نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ بھی روح کی حقیقت و استقلال کی ایک اور دلیل ہیں۔

اکثر افراد نے اپنی زندگی میں سچے خواب دیکھے ہیں اس کے علاوہ سنتے آئے ہیں کہ فلاں دوست نے ایک ایسا خواب دیکھا ہے کہ ایک مدت کے بعد کسی کمی بیش کے بغیر اس کی تعبیر سچ نکلی ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ انسان کی روح کا خواب کی

حالت میں دوسرے عوالم سے رابطہ ہوتاہے اور وہ کبھی مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث کا مشاہدہ کرتی ہے۔

مجموعی طور پر یہ اموربخوبی ثابت کرتے ہیں کہ روح مادی نہیں ہے اور یہ انسان کے مغز کی طبیعیاتی اور کیمیائی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ یہ ماورائے طبیعت ایک حقیقت ہے جو اس جسم کے مرنے سے نابود نہیں ہوتی ہے اور یہ امور بذات خود مسئلہ معاد اور موت کے بعد عالم آخرت کو ثابت کرنے کے لئے راہ کوہمرارکرتی ہیں۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ روح کے مسئلہ میں الہی فلاسفہ اور مادی افراد کے درمیان کیا فرق ہے؟

۲ ۔ روح کی حقیقت کی ایک دلیل ”بڑی چیز کا چھوٹی جگہ میں نہ سماناہے“ اس سے مراد کیاہے؟

۳ ۔ ”مقناطیسی خواب“ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

۴ ۔ ارواح کے ساتھ ارتباط سے کیا مراد ہے؟

۵ ۔ سچے خواب کس طرح روح کی حقیقت اوراستقلال کی دلیل ہے؟

____________________

۱۔ اس کی مزید و ضاحت کے لئے کتاب”عود ارواح“ اورکتاب”معاد وجہان پس از مرگ“ کی طرف رجوع فرمائیں۔