نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق11%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25229 / ڈاؤنلوڈ: 5279
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

1

2

نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد

معاد کی بحث میں پیش آنے والے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ”معاد“ صرف روحانی پہلو رکھتی ہے یا انسان کا جسم و بدن بھی دوسری دنیا میں لوٹ آئے گا؟ اور انسان اسی دنیوی روح وجسم کے ساتھ صرف بلندتر درجہ کے ساتھ دوسری دنیا میں زندگی کوجاری رکھے گا؟

پرانے زمانہ کے بعض فلاسفہ صرف روحانی معاد کے قائل تھے اور جسم کو ایک ایسا مرکب جانتے تھے جو صرف اس دنیا سے مربوط ہے اور موت کے بعد انسان اس کا محتاج نہیں ہوگا، اسے چھوڑ کر عالم ارواح میں پرواز کرے گا۔

لیکن اسلام کے عظیم علما اور بہت سے فلاسفہ کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد دونوں صورتوں میں یعنی ”روحانی“ و”جسمانی“ ہوگی۔ صحیح ہے کہ یہ جسم خاک بن جائے گا اور یہ خاک زمین میں پراگندہ ہوکر گم ہوجائے گی، لیکن پروردگار قادر و عالم ان تمام ذرات کو قیامت کے دن دوبارہ اکٹھا کرکے انھیں زندگی بخشے گا اور اس موضوع کو”جسمانی معاد“ کہا جاتا ہے ،کیونکہ روح کے پھر سے لوٹنے کو قطعی سمجھا گیا ہے اور چونکہ بحث صرف جسم کے لوٹنے کی ہے، یہ نام اسی عقیدہ کے لئے رکھا گیاہے۔

بہر حال معاد سے متعلق، قرآن مجید میں مختلف اور کافی تعداد میں موجود آیات بھی ”جسمانی معاد“پر دلالت کرتی ہیں۔

جسمانی معادپر قرآنی شواہد

ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک صحرائی عرب نے ایک بوسیدہ ہڈی کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خد مت میں پیش کر کے سوا ل کیا تھا کہ کون اسے پھر سے زندہ کرسکتا ہے؟اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے جواب دیا تھا کہ وہی خدااسے پھر سے زندہ کر سکتا ہے جس نے اسے پہلے خلق کیا ہے،وہی جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سبزے درخت سے آگ نکالی ہے ۔اس واقعہ سے مربوط آیات سورہ یٓس کی آخر میں آئی ہیں۔

قرآن مجید کا دوسری جگہ پر ارشاد ہے:

”تم لوگ قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے۔“

( سورہ یٓس/ ۵۱ ،قمر/ ۷)

ہم جانتے ہیں کہ قبریں خاک شدہ جسموں کی جگہ ہیں نہ روح کی۔

بنیادی طور پر معاد کے منکروں کا تعجب اس بات پر تھا کہ وہ کہتے تھے :”جب ہم خاک میں تبدیل ہوجائیں گے اور یہ خاک پرا گندہ ہو جائے گی تو ہم کیسے پھر سے زندہ ہو جائیں گے؟“

( وقالوا ء إذاا ضللنا فی الارض ء إنّالفی خلق جدید ) (سورہ سجدہ/ ۱۰)

اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہو گئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے؟“

قرآن مجید جواب میں ارشاد فر ماتا ہے:

( اولم یروا کیف یبدی ء اللّٰه الخلق ثم یعیده إنّ ذٰلک علی اللّٰه یسیر ) (سورہ عنکبوت/ ۱۹)

”کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح مخلوقات کو ایجاد کرتا ہے اور پھر دوبارہ واپس لے جاتا ہے،یہ سب اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔“

ایک عرب جاہل کہتاتھا:

( ایعدکم انّکم إذا متّم وکنتم تراباً وعظاما انّکم تخرجون ) (سورہ مومنون/ ۳۵)

”کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے؟“

قرآن مجید کی مذکورہ تمام تعبیرات اور اس موضوع سے متعلق دوسری آیات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جگہ پر ”جسمانی معاد“کی بات کرتے تھے اور تنگ نظر مشرکین کا تعجب بھی اسی بات پر تھا۔چنانچہ ہم نے دیکھاکہ قرآن مجید اسی جسمانی معاد کے چند نمونوں کو نباتات وغیرہ کے سلسلہ میں پیش کر کے ان کے لئے تشریح فر ماتا ہے اور ابتدائی خلقت اور خدا کی قدرت کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور قرآن مجید سے تھوڑی سی واقفیت رکھتے ہوئے جسمانی معاد کا منکر ہو۔قرآن مجید کی نظر میں جسمانی معاد کا انکار اصل معاد کے انکار کے برابر ہے۔

عقلی شواہد

اس کے علاوہ عقل بھی کہتی ہے کہ روح اور بدن الگ الگ حقیقتیں نہیں ہیں ،یہ دونوں مستقل ہونے کے باوجود آپس میں پیوند اور رابطہ رکھتے ہیں،دونوں ایک ساتھ نشو ونما پاتے ہیں ،اور یقینا ابدی اور جاودانی زندگی کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

اگرچہ دونوں(روح اور بدن)برزخی مدت(دنیا وآخرت کے در میان فاصلہ)کے دوران کچھ مدت تک ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں،لیکن ہمیشہ کے لئے یہ دوری ممکن نہیں ہے ۔جس طرح روح کے بغیر جسم ناقص ہے اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر ناقص ہے ۔روح حکم فرما اور عامل حرکت ہے اور بدن فر مانبردار اور وسیلہ عمل ہے ،کوئی بھی حکم فر ما،فرما نبردار سے اور کوئی بھی ہنر مند وسیلہ عمل سے بے نیاز نہیں ہوتاہے۔

چونکہ آخرت میں روح اس دنیا کی نسبت ایک بلندتر سطح پر قرار پائے گی اس لئے اسی نسبت سے جسم کو بھی کمال حاصل کر نا چاہئے ،اور ضرور ایساہی ہوگا ،یعنی انسان کا جسم قیامت کے دن اس دنیا کی فرسودگی ،عیوب اور نقائص سے خالی ہوگا۔

بہر حال جسم و روح ایک دوسرے کی ہمزاد اور مکمل کر نے والے ہیں اور معاد صرف روحانی یا صرف جسمانی نہیں ہو سکتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں جسم وروح کی خلقت اور ان کے آپسی رابطہ اور پیوند کی حالت کا مطالعہ اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ معاد جسمانی و روحانی دونوں صورتوں میں واقع ہوگی ۔

دوسری طرف انصاف وعدالت کا قانون بھی یہی کہتا ہے :معاد دونوں پہلوؤں سے (جسمانی وروحانی)ہونی چاہئے ۔کیونکہ اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔تو اس نے اس گناہ کو اس روح اور جسم کے ذریعہ انجام دیا ہے ،اور اگر اس نے کو ئی نیک کام انجام دیا ہے تو وہ بھی اس جسم وروح سے انجام دیا ہے اس لئے اس کی جزا اور سزا بھی اسی روح اور بدن کو ملنی چاہئے ۔اگر صرف جسم ہی پلٹے گا یا صرف روح ہی پلٹے گی اور ان میں سے صرف ایک ہی کو جزا یاسزا ملے گی،تو عدل وانصاف کا قانون نافذ نہیں ہوگا ۔

جسمانی معاد سے متعلق چند سوالات

دانشوروں نے اس سلسلہ میں متعدد سوالات پیش کئے ہیں کہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ان میں سے بعض کاذکر جواب کے ساتھ ضروری ہے:

۱ ۔علوم طبیعیات( natural sciences )کے دانشوروں کی تحقیقات کے مطابق،انسان کا بدن اس کی پوری عمر کے دوران کئی بار تبدیل ہوتا ہے ۔اس کی مثال اس پانی کے حوض جیسی ہے،جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے رفتہ رفتہ باہر نکلتا ہے ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد اس حوض کا پورا پانی تبدیل ہو جاتا ہے ۔

انسان کے بدن میں یہ صورت احتمالاًہر سات سال کے بعد ایک بار پیش آتی ہے ،اس لئے انسان کا بدن اس کی پوری حیات کے دوران کئی بار تبدیل ہو تا ہے!

اب یہ سوال پیداا ہوتا ہے کہ انسان کے جسموں میں سے کون سا جسم قیامت کے دن لوٹے گا؟

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں :ان میں سے انسان کا آخری بدن لوٹے گا،جیسا کہ مذکورہ آیات میں ہم نے پڑھا کہ خداوند متعال انسانوں کو ان ہی پوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ کرے گا ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ انسان کا آخری بدن لوٹے گا،اسی طرح قبروں سے مردوں کے اٹھ کر نکلنے سے بھی آخری بدن کے زندہ ہو نے کے معنی نکلتے ہیں۔

لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کا آخری بدن اپنے اندر وہ تمام آثار اور خصو صیات محفوظ رکھتا ہے جو اس کی پوری عمر میں مختلف بدن رکھتے تھے ۔

دوسرے الفاظ میں:جو بدن تدریجاًنابود ہو تے ہیں۔وہ اپنے آثار وخصوصیات کو آنے والے دوسرے بدن میں منتقل کرتے ہیں،اس لئے آخری بدن گزشتہ تمام بدنوں کا وارث ہو تا ہے اور عدل وانصاف کے قانون کے تحت تمام جزا وسزا کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔

۲ ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم خاک میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہمارے بدن کے ذرات پودوں اور میوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے ،اور نتیجہ کے طور پر دوسرے انسان کے بدن کے جزو بن جائیں گے تو قیا مت کے دن کیا ہو گا؟(یہ وہی چیز ہے جسے فلسفہ وکلام کے علم میں ”شبهئه آکل و ماکول “کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)

اگر چہ اس سوال کا جواب تفصیلی بحث کا حامل ہے، لیکن ہم ایک مختصر عبارت میں ضرورت بھر اس پر بحث کر نے کی کوشش کریں گے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے :جس انسان کے بدن کے ذرات خاک میں تبدیل ہو نے کے بعد دوسرے بدن میں منتقل ہوتے ہیں ،وہ یقینا پہلے بدن میں واپس آجاتے ہیں۔(مذکورہ آیات بھی اس دعویٰ کی واضح شا ہد ہیں)

یہاں پر بظاہر جو مشکل نظر آتی ہے ،وہ صرف یہ ہے کہ دوسرا بدن ناقص ہو جائے گا۔

لیکن حقیقت میں یہ دوسرا بدن ناقص نہیں ہو تا ہے بلکہ چھوٹا ہو تا ہے،چونکہ یہ ذرات تمام بدن میں پھیلے ہوئے تھے ،جب اس سے واپس لئے جاتے ہیں تو وہ بدن اسی نسبت سے ضعیف اور چھوٹا ہو جاتا ہے۔

اس لئے نہ پہلا بدن نابود ہوتا ہے اورنہ دوسرا بدن،صرف جو چیز یہاں پر وجود میں آتی ہے وہ دوسرے بدن کا چھوٹا ہو نا ہے اور یہ امر کبھی کو ئی مشکل پیدا نہیں کرتا ہے،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قیا مت کے دن تمام بدن کمال حاصل کریں گے،اور نقائص اور کمیاں دور ہو جائیں گی،جس طرح ایک بچہ نشو ونما پاتا ہے ۔یا ایک زخمی کے زخم میں نئے سرے سے گوشت بھر جاتا ہے اوراس کی شخصیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح قیا مت کے دن چھوٹے اور ناقص بدن مکمل صورت میں زندہ ہوں گے ،کیونکہ قیامت عالم کمال ہے۔

اس طرح اس سلسلہ میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے(غورکیجئے ۔مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“کی طرف رجوع کیجئے)۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا قیامت کے دن انسان کی زندگی ہر لحاظ سے اس دنیا جیسی زندگی ہے؟

۲ ۔کیا ہم قیامت کے دن جزا وسزا کو اس دینا میں بالکل درک کرسکتے ہیں؟

۳ ۔کیا بہشت کی نعمتیں اور جہنّم کے عذاب صرف جسم سے مربوط ہیں۔

۴ ۔اعمال کے مجسم ہونے سے مراد کیا ہے اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میں کیسے دلالت کی ہیں؟

۵ ۔اعمال کے مجسم ہو نے کاعقیدہ معاد کی بحث کی کن مشکلات کا جواب دیتا ہے۔

دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال

بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موت کے بعد عالم آخرت بالکل اسی دنیا کے مانند ہے یا اس سے فرق رکھتا ہے؟ کیا اس عالم کی نعمتیں،سزائیں ،اور مختصر یہ کہ اس پر حکم فر ما نظام اور قوانین اسی دنیا جیسے ہیں؟

اس کے جواب میںواضح طورپر کہنا چاہئے کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیا اور اس دنیا میں کافی فرق ہے، حتی کہ اس حدتک فرق ہے کہ جو کچھ ہم اس دنیا کے بارے میں جانتے ہیں وہ ایک ایسی سیاہی جسم کے مانند ے جسے ہم دور سے دیکھتے ہیں۔

بہتر ہے کہ ہم اس سلسلہ میں اسی ”جنین“ والی مثال سے استفادہ کریں:جس قدر”جنین“ کی دنیا اور اس دنیا میں فرق ہے، اسی قدر یاا س سے زیادہ اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان فرق ہے۔

اگر ماں کے شکم(عالم جنین) میں موجود بچہ عقل و شعور رکھتا اور باہر کی دنیا، آسمان،زمین،چاند،سورج،ستاروں،پہاڑوں،جنگلوں اور سمندروں کے بارے میں ایک صحیح تصویر کشی کرنا چاہتا تو وہ ہرگز یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔

عالم جنین میں موجود بچہ جس نے اپنی ماں کے انتہائی محدود شکم کے علاوہ کچھ نہین دیکھاہے، اس کے لئے اس دنیا کے چاند،سورج،سمند، امواج،طوفان،بادنسیم، اورپھولوں کی خوبصورتی کا کوئی مفہوم ومعنی نہیں ہے، اس کی لغت کی کتاب صرف چند الفاظ پر مشتمل ہے۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ماں کے شکم کے باہر سے کوئی اس سے بات کرے تو وہ ہرگز اس کی بات کے معنی تک نہیں سمجھ سکتاہے۔

اس محدود دنیا اور اس دوسری وسیع دنیا کے درمیان فرق ایسا ہی یا اس سے زیادہ ہے، لہذا ہم کبھی دوسری دنیا کی نعمتوں اوربہشت برین کی حقیقت کے بارے میں ہرگزآگاہ نہیں ہوسکتے ہیں۔

اسی وجہ سے ایک حدیث میںآیاہے:

” فیها مالاعین رات ولا اذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر

”بہشت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے، کسی کان نے نہیں سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور پیدا ہواہے۔“

قرآن مجید اسی مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:

( فلا تعلم نفس مااخفی لهم من قرّ اعین جزاء بماکانوا یعملون ) “(سورہ سجدہ/ ۱۷)

” پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے (وہاں پر)کیا کیاخنکی چشم کا سامان چھپاکر رکھا گیا ہے جوان کے اعمال کی جزاہے۔“

اس دنیا پر حکم فرما نظام بھی اس دنیا کے نظام سے کافی فرق رکھتاہے، مثلا:قیامت کی عدالت میں انسان کے ہاتھ، پاؤں، اس کے جسم کی جلد اوریہاں تک کہ جس زمین پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہے اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے:

قرآن مجید میں سورہ یٓس کی آیت نمبر ۶۵ میں ارشاد ہواہے:

( الیوم نختم علی افواههم و تکلمنا ایدیهم و تشهد ارجلهم بما کانوا یکسبون)

” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔“

دوسری جگہ پر سورہ فصلت کی آیت نمبر ۲۱ میں فرماتاہے:

( وقالوا لجلود هم الّذی انطق کلّ شی)

” اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تووہ جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے (تا کہ ہم حقائق بیان کریں)“

البتہ ایک زمانہ میںاس قسم کے مسائل کا تصور کرنا مشکل تھا، لیکن علم کی ترقی کے پیش نظر مناظر اور آواز کو رکارڈ اور ضبط کرنے کے نمونوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ چیز باعث حیرت نہیں ہے۔

بہر حال اگر چہ عالم آخرت کی نعمتوں کے بارے میں ہمارا تصور صرف دور سے نظر آنے والی ایک جسم کی سیاہی کے مترادف ہے اور ان کی وسعت اور اہمیت سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن اس حد تک جانتے ہیں کہ اس عالم کی نعمتیں اور

سزائیں، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں ہیں، کیونکہ معاد دونوں پہلو رکھتی ہے لہذا فطری طور پر اس کی جزاء وسزابھی دونوں جنبوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یعنی جس طرح مادی و جسمانی جنبوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵ میںارشاد ہوتاہے:

( وبشرّالّذین آمنوا وعملوالصّٰلحٰت انّ لهم جنّت تجری من تحتها الانهر ولهم فیها ازواج مطهرة وهم فیها خالدون)

” پیغمبر:آپ ایمان اور عمل صالح والوں کو بشارت دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہوںگی اور انھیں اس میں ہمیشہ رہنا بھی ہے۔“

اسی طرح قرآن مجید ، معنوی نعمتوں کے بارے میں بھی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۲ میں ارشاد فرماتاہے:

( ورضوان من اللّٰه اکبر)

”(بہشتیوں کو ملنے والی) اللہ کی خوشنود ی اور رضایت ان تمام نعمتوں سے برتر ہے۔“

جی ہاں، بہشتی اس احساس سے کہ خداوند متعال ان سے راضی ہے اور پروردگار عالم نے انھیں قبول کیاہے،اس قدر خوشنودی اورلذت کا احساس کرتے ہیں کہ اس کا کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاسکتاہے۔جہنمیوں کے بارے میںبھی جسمانی عذاب اور آگ کے علاوہ ان پر خداوند متعال کا خشم و غضب اور اس سے ناراضگی ہر جسمانی عذاب سے

بدترہے۔

اعمال کا مجسم ہونا

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہمارے اعمال زندہ ہوں گے اور مختلف شکلوں میں ہمارے ساتھ ہوں گے، جزاوسزا کی اہم باتوں میں سے ایک یہی اعمال کا مجسم ہوناہے۔

ظلم وستم، کالے بادلوں کی صورت میں ہمارا محاصرہ کریں گے جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث میں آیا ہے:

( الظّلم هو الظّلمات یوم القیامة)

” ظلم قیامت کے دن تاریکیاںہے“

ناجائز طریقے سے کھا یا ہوایتیموں کا مال آگ کے شعلوں کے مانند ہمیں گھیر لے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۰ مین ارشادہوتاہے:

( انّ الّذین یاکلون اموال الیٰتمٰی ظلماً إنّما یاکلون فی بطونهم نارا وسیصلون سعیرا)

” جولوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کامال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میںآگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنّم ہوںگے۔“

ایمان، نور وروشنی کی صورت میں ہمارے اطراف کو منور کرے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ حدید کی آیت نمبر ۱۲ میں ارشاد الہی ہے:

( یوم تری المومنین والمومنٰت یسعٰی نورهم بین ایدیهم وبایمانهم)

” اس دن تم باایمان مردوں اور با ایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رہاہے“

سود خور ، جنھوں نے اپنے برے اور بے شرمانہ عمل سے معاشرہ کے اقتصادی توازن کو درہم برہم کیا ہوگا، وہ مرگی کے مریضوں کی طرح ہوںگے جو اٹھتے وقت اپنا توازن برقرار رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کبھی زمین پر گرتے ہیں اور کبھی لڑکھڑاتے ہوئے اٹھتے ہیں۔(سورہ بقرہ / ۲۷)

جو مال ذخیرہ اندوزوں اور مالدار کنجوسوں نے جمع کرکے اس سے محروموں کا حق ادانہیں کیا ہے، وہ ان کے لئے ایک بھاری طوق کے مانند ان کی گردن میں اس طرح لٹکادیا جائے گا کہ وہ حرکت کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے۔

سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۸۰ میں ارشاد ہوتاہے:

( ولا یحسبنّ الذین یبخلون بما اٰتٰهم اللّٰه من فضله هو خیرا لهم بل هو شرّ لهم سیطوّقون ما بخلوا به یوم القیمة)

” اورخبردار جو لوگ خدا کے دئے ہوئے میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے۔ یہ بہت براہے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیاجائے گ“

اسی طرح تمام اعمال اپنی مناسب صورت میں مجسم ہوںگے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ علم وسائنس نے ثابت کیاہے کہ کوئی بھی چیز دنیا میں نابود نہیں ہوتی ہے بلکہ مادہ اورقوت (انزجی) ہمیشہ اپنی شکل و صورت بدلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے افعال اور اعمال بھی نابود ہوئے بغیر ان دونوں صورتوں سے خارج نہیں ہیں اور اس قانون کے حکم کے مطابق جاودانی اور ابدی حالت میں ہیں، اگر چہ ان کی شکل و صورت بدل جائے۔

قرآن مجید ایک مختصر اور لرزہ خیز عبارت میںقیامت کے بارے میں فرماتاہے:

( ووجدوا ماعملوا حاضرا ) (سورہ کہف/ ۴۹)

” اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے“

حقیقت میں انسان جو کچھ پاتاہے وہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتاہے ، لہذا خداوند متعال اسی آیت کے ذیل میں فورا فرماتاہے:

( ولایظلم ربّک احدا ) (سورہ کہف/ ۴۹)

”تمھارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے“

ایک دوسری جگہ پر سورہ زلزال کی آیت نبمبر ۶ میں فرماتاہے:

( یومئذ یصدر النّاس اشتاتا لیروا اعمالهم)

”اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تا کہ اپنے اعمال کو دیکھیں ۔“

اسی سورہ زلزال کی آیت نمبر ۷ اور ۸ میں ارشاد ہوتاہے:

( فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره ومن یعمل مثقال ذرّةشرّا یره)

”پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“

مذکورہ آیات میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرماتا ہے کہ خود ان اعمال کو دیکھے گا۔

اس حقیقت کو مدنظر رکھنا یعنی اسی دنیا کے ہمارے چھوٹے بڑے اورنیک وبد اعمال کا محفوظ اور ثابت رہنا اور نابود نہ ہونا اور قیامت کے دن ہر جگہ ان کا ہمارے ساتھ رہنا سب کے لئے ایک انتباہ ہوسکتاہے تاکہ ہم اپنے برے اعمال اور گناہوں کے مقابل ہوشیار رہیں اور اپنے نیک اعمال کے چاہنے والے اور ان پر ثابت قدم رہیں۔

تعجب کی بات ہے کہ دوحاضرمیں ایسے آلات ایجاد کئے گئے ہیں کہ اس مسئلہ کے ایک حصہ کو اسی دنیا میں ہمارے لئے مجسم کیا جاسکتاہے:

ایک دانشور لکھتاہے: سائنس دان آج مصری کمہاروں کی دوہزار سال قدیمی آواز کو اسی طرح منعکس کرسکتے ہیں کہ وہ آواز سننے کے قابل ہے۔ کیونکہ مصری عجائب گھروں میں دوہزارسال پرانے کوز ے موجود ہیں کہ انھیں مخصوص چرخوں اور ہاتھوں سے بناتے وقت کمہاروںکی آوازکی لہریں کوزوں کے جسمون میں نقش ہوگئے ہیں اور آج ان لہروںکو نئے سرے سے اس طرح زندہ کیا جارہاہے کہ ہم اپنے کانوں سے انھیں سن سکتے ہیں(۱) ۔

بہر حال مسئلہ معاد اورقرآن میں ذکر شدہ نیک لوگوںکی ابدی جزا اور بدکاروں کی دائمی سزاکے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ”اعمال کے مجسم ہونے“ اور ہراچھے اور برے کام کے انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالنے اور اس اثر کے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنے کے پیش نظر دیاجاسکتاہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ جسمانی معاد سے مراد کیاہے؟

۲ ۔ جسمانی معاد کے منکرین کیا کہتے ہیں اورقرآن مجید ان کا کیسے جواب دیتاہے؟

۳ ۔ جسمانی معاد کے لئے عقلی استدلال کیاہے؟

۴ ۔ عدل و انصاف کے قانون اور جسمانی معاد کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے؟

۵ ۔ شبہہ”آکل وماکل“ سے مرادکیا ہے اور اس کا جواب کیا ہے؟

____________________

۱۔کتاب”راہ طے شدہ“ سے ماخوذ۔

فہرست

مقدمه ۴

عرض ناشر ۴

معرفت خدا کے دس سبق ۶

پہلاسبق:خدا کی تلاش ۶

۱ ۔کائنات سے واقفیت کا شوق ۶

۲ ۔شکر گزاری کا احساس۔ ۷

۳ ۔خدا کی معرفت سے ہمارے نفع و نقصان کا تعلق۔ ۷

غور کیجئے اور جواب دیجئے: ۸

دوسراسبق .ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں ۹

۲ ۔خدا کی معرفت اور تلاش وامید ۱۰

۳ ۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساس ۱۰

۴ ۔ خدا کی معرفت اور سکون قلب ۱۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۱

تیسرا سبق خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے ۱۲

۱ ۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقی ۱۲

الف۔اندرونی راستہ ۱۲

ایک سوال ۱۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۴

چوتھا سبق ایک اہم سوال کا جواب ۱۵

سوال ۱۵

جواب ۱۵

بحث کا نتیجہ: ۱۷

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۷

پانچواں سبق: ایک سچاواقعہ ۱۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۹

چھٹا سبق: خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ ۲۰

ب۔بیرونی راستہ ۲۰

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ ۲۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۱

ساتواں سبق:نظام خلقت کے چند نمونے ۲۲

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز ۲۲

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ: ۲۳

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔ ۲۳

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟ ۲۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۴

آٹھواں سبق: ایک چھوٹے سے پرندے میں حیرت انگیزدنیا ۲۵

چمگادڑ اور اس کی عجیب خلقت ۲۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۷

نواں سبق :حشرات اور پھولوں کی دوستی! ۲۸

دوقدیمی اور جگری دوست ۲۹

توحید کاایک درس ۲۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۰

دسواں سبق:نہایت چھوٹی مخلوقات کی دنیا ۳۱

ایٹم ،توحید کا درس دیتے ہیں ۳۲

۳ ۔ ہر ایک اپنے معین راستہ پر گامزن ہے۔ ۳۲

۴ ۔ایٹم کی عظیم طاقت۔ ۳۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۳

دسویں سبق کی ایک تکمیلی بحث ۳۴

خداوند متعال کی عظیم الشان صفات ۳۴

صفات خدا ۳۴

صفات جمال و جلال ۳۵

خدا کی مشہور ترین صفات ثبوتیہ ۳۵

خدا کی مشہورترین صفات سلبیہ ۔ ۳۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۷

عدل الٰہی کے دس سبق ۳۸

عدل الٰہی کے دس سبق ۳۸

پہلا سبق عدل کیا ہے؟ ۳۸

۱ ۔تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے ؟ ۳۸

۲ ۔عدا لت کیا ہے؟ ۳۹

۳ ۔مساوات اور عدالت میں فرق۔ ۴۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۱

دوسرا سبق :عدل الہٰی کے دلائل ۴۲

۱ ۔حسن وقبح عقلی ۴۲

۲ ۔ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟ ۴۲

۳ ۔قرآن مجید اور عدل الہٰی ۴۳

۴ ۔عدل و انصاف کی دعوت ۴۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۴

تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۱) ۴۶

۱ ۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلے ۴۶

۲ ۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادث ۴۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۹

چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۲) ۵۰

۳ ۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے ۵۰

۴ ۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں ۵۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۲

پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ ( ۳) ۵۳

۵ ۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں ۵۳

۶ ۔خود ساختہ مشکلات ۵۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۶

چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ ۵۷

۱ ۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہ ۵۷

۲ ۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہ ۵۸

۳ ۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسباب ۵۸

الف:سیاسی عوامل ۵۹

ب۔نفسیاتی عوامل ۵۹

ج۔سماجی عوامل: ۵۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۰

ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل ۶۱

۱ ۔انسان کا ضمیر جبر کی نفی کرتا ہے ۶۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۳

آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟ ۶۴

۱ ۔”جبر“کے مقابلہ میں ”عقیدئہ تفویض“ ۶۴

۲ ۔در میانی مکتب ۶۴

دوسری مثال: ۶۵

۳ ۔قرآن مجید اور جبرو اختیار کا مسئلہ ۶۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۷

نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے ۶۸

۱ ۔ہدایت و گمراہی کی اقسام: ۶۸

۲ ۔ایک اہم سوال ۶۸

تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۱)

قدیم زمانہ سے آج تک ایک ناآگاہ گروہ نے عدل الہٰی پر نکتہ چینی کی ہے اور ایسے مسائل پیش کئے ہیں جو ان کے اعتقاد کے مطابق عدل الہٰی سے ساز گار نہیں ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات نہ صرف ان مسائل کو عدل الہٰی کی نفی کی دلیل بلکہ انھیں وجود خدا کے انکار کی دلیل سمجھے ہیں!

من جملہ ان کے ناگوار حوادث کا وجود ،جیسے طو فان ،زلزلہ اور دوسرے عام مصائب ۔

اسی طرح وہ فرق جو مختلف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انسان ،نباتات اور دوسری مخلوقات کو پیش آنے والی مصیبتیں اور آفتیں۔

یہ بحث،کبھی مادہ پرستوں کے مقابلہ میں معرفت خدا کی بحث میں پیش کی جاتی ہے اور کبھی عدل الہٰی کی بحث میں،ہم اسے اس بحث میں پیش کرتے ہیں۔

یہ جاننے کے لئے کہ،دقیق تجزیہ کے نتیجہ میں یہ تصور کس حدتک غلط ہے ،اس موضوع پر ایک مفصل بحث اور مندرجہ ذیل مطالب کی د قیق کی تحقیق ضرورت ہے:

۱ ۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلے

عام طور پرہم اپنے فیصلوں اور مصادیق کی تشخیص میں مختلف اشیاء کے اپنے ساتھ رابطہ پر تکیہ کرتے ہیں ۔مثلاًہم کہتے ہیں فلاں چیز دور ہے یانزدیک یعنی ہماری نسبت۔

یافلاں شخص طاقتور ہے یا کمزور،یعنی ہماری روحی یا جسمی حالت کی نسبت اس کی حالت ایسی ہے ۔خیر وشر اور مصیبت وبلا کے بارے میں بھی لوگوں کے فیصلے اکثر اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔

مثلاًاگر کسی علاقہ میں وسیع پیمانے پر بارش برسے ،ہمیں اس سے سرو کار نہیں ہے کہ اس بارش کے مجموعی اثرات کیسے تھے ،ہم صرف اپنی زندگی،گھر اورکھیت یازیادہ سے زیادہ اپنے شہر کی حد تک نظر ڈالتے ہیں ،اگر اس کا مثبت اثر تھا تو کہتے ہیں یہ نعمت الہٰی تھی ،اگر منفی تھا تو اسے ”بلا“کہتے ہیں۔

جب ایک پرانی اور فرسودہ عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے گراتے ہیں اور ہم پر وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے گرد وغبار پڑتے ہیں تو کہتے ہیں :کیسا برا حادثہ ہے،اگر چہ آئندہ وہاں پرہسپتال ہی کیوں نہ تعمیر ہو اور دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوں اور بارش کی مثال میں اگرچہ مجموعی طور پر علاقہ کے لئے مثبت اثرات ظاہر ہوں۔

ہم سطحی اور عام طور پر سانپ کے ڈسنے کو ایک مصیبت اور شر سمجھتے ہیں ۔ہم اس سے غافل ہیں کہ یہی ڈسنا اور زہر اس حیوان کے لئے دفاع کا ایک موثر وسیلہ ہے اور ہم اس سے بے خبر ہیں کہ گاہے اسی زہر سے حیات بخش دوائی بنائی جاتی ہے جو ہزاروں انسانوں کو موت سے نجات دیتی ہے۔

اس لئے اگر ہم مغالطہ سے بچناچاہیں تو ہمیں اپنی محدود معلو مات پر نظر ڈالنی چاہئے اور فیصلہ کرتے وقت صرف اشیاء کے اپنے ساتھ روابط کو مد نظر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہمیں تمام جہتوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرناچاہئے۔

بنیادی طور پر دنیا کے حوادث زنجیر کی کڑیوں کے مانند آپس میں ملے ہوئے ہیں: آج،ہمارے شہر میں آنے والاطوفان اور سیلاب لانے والی بارش کا برسنا اس طولانی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو دوسرے حوادث کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے اسی طرح یہ ماضی میں رو نما ہوئے اور مستقبل میں رونما ہونے والے حوادث سے جڑے ہوئے ہیں۔

نتیجہ کے طور پر حوادث کے ایک چھوٹے حصہ پر انگلی رکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کر نا منطق اورعقل کے مطابق نہیں ہے۔

قابل انکار چیزصرف مطلق شر کی خلقت ہے۔لیکن اگرکوئی چیز کسی جہت سے خیر اور کسی جہت سے شر ہو اور اس کا خیر غلبہ رکھتا ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے ۔ایک آپریشن کچھ جہات سے تکلیف دہ اور زیادہ تر جہات سے مفید ہے ،اس لئے نسبتاً خیر ہے۔

پھر مزید وضا حت کے لئے زلزلہ کی مثال پر غور کیا جاسکتا ہے:صحیح ہے کہ ایک جگہ پر زلزلہ ویرانی اورتباہی لاتا ہے ۔لیکن اگر ہم دوسرے مسائل سے اس کے سلسلہ وار روابط کو مد نظر رکھیں تو ممکن ہے ہمارا فیصلہ بدل جائے ۔

اس سلسلہ میں سائنسدانوں کے مختلف نظریات ہیں کہ زلزلہ زمین کی اندرونی گرمی اوربھاپ سے مربوط ہے یا چاند کی قوت جاذبہ سے مربوط ہے جو زمین کی خشک و جامد سطح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کبھی اسے توڑ دیتا ہے ،یا دونوں چیزوں سے مربوط ہے؟

لیکن مذکورہ عوامل میں سے جوبھی ہو،اس کے آثار کو مد نظر رکھناچاہئے ۔یعنی ہمیں جاننا چاہئے کہ زمین کی اندرونی گرمی ،زمین کے اندر موجود تیل کے ذخائر اور کوئلے کی کانوں اور دوسری چیزوں کی تولیدپرکیا اثر ڈالتی ہے؟!اس لئے یہ نسبتاً خیر ہے۔

اس کے علاوہ سمندروں کے مدوجزر،سمندروں کے پانی اور اس میں موجود جانوروں کی حفاظت اور کبھی خشک سواحل کی آبیاری میں کتنے موثر ہیں!یہ بھی نسبتاً خیر ہے۔

یہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سطحی فیصلے اور محدود معلو مات ہیں جنھوں نے عالم خلقت کے ان امور کوتاریک کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ہم جس قدر حوادث کے آپسی روابط اور پیوند کے بارے میں زیادہ غور کریں گے اس مطلب کی اہمیت کے بارے میں اتناہی زیادہ آگاہ ہوں گے۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( وما اویتم من العلم إلاّ قلیلاً ) ( سورہ اسراء/ ۸۵)

”اور تمھیں بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔“

لہذا اس تھوڑے سے علم و دانش کے ذریعہ فیصلہ کر نے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔

۲ ۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادث

ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے کہ جب وہ کسی نعمت میں غرق ہوتے ہیں تو”خود خواہی اور غرور“سے دو چار ہوتے ہیں اور اس حالت میں بہت سے اہم انسانی مسائل اور اپنے فرائض کو بھول ڈالتے ہیں ۔

اور ہم سب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زندگی کے مکمل آرام وآسائش کی حالت میں انسان کس طرح”خواب غفلت “میں پڑ جا تا ہے کہ اگر انسان کی یہ حالت جاری رہی تو وہ بد بختی سے دو چار ہو جاتا ہے ۔

بیشک زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث انسان کو غرور وتکبر اور غفلت کی نیند سے بیدار کر نے کے لئے ہیں۔

آپ نے یقینا سنا ہو گا کہ با تجربہ اور ماہر ڈرائیور صاف و ہموار اور پیچ و خم اور موڑوں سے خالی سڑ کوں کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں اور اس قسم کی سڑ کوں کو خطر ناک جانتے ہیں ،کیونکہ سڑکوں کا ہموار و یکسان ہو نا ڈرائیور کے لئے خواب آور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور وہ خطرہ سے دوچار ہوسکتا ہے۔

حتی کہ بعض ملکوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی سڑکوں پر مصنوعی نشیب و فراز ( speed breaker ) سپیڈبریکراور موڑ بنائے جاتے ہیں تاکہ اس قسم کے خطرات کو روکا جاسکے ۔

انسان کی زندگی کا راستہ بھی ایسا ہی ہے ۔اگر زندگی میں نشیب و فرازاور مشکلات نہ ہوں اور اگر کبھی کبھار ناگوار حوادث پیش نہ آئیں تو انسان کے لئے خدا، اپنے سر انجام اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا یقینی بن جاتا ہے ۔ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ انسان خود اپنے لئے ناخوشگوار حوادث ایجاد کرے اور مصیبتوں کی طرف بڑھے، کیونکہ انسان کی زندگی میں یہ امورہمیشہ سے تھے اور رہیں گے ،بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسے توجہ کر نی چاہئے کہ ان حوادث میں سے بعض کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے غرور وغفلت کے لئے رکاوٹ بنیں کیو نکہ یہ چیزیں اس کی سعادت وخوشبختی کی دشمن ہیں ۔ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ فلسفہ بعض ناخوشگوار حوادث سے متعلق ہے،نہ کہ تمام حوادث سے متعلق۔باقی حصہ کے بارے میں انشا اللہ بعد میں بحث کریں گے۔

اس سلسلہ میں ہماری عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

( فاخذنٰهم بالباسآء والضرّآء لعلّهم یتضرّعون)

( سورہ انعام/ ۴۲)

”اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کن لوگوں نے آفات ومصائب کے مسئلہ کو عقائد میں شامل کیا ہے؟

۲ ۔آفات ومصائب کے کچھ نمو نے بیان کیجئے ،کیا آپ اپنی زندگی میں کبھی ان سے دوچار ہوئے ہیں؟

۳ ۔نسبتی اور ہمہ جہت فیصلہ اور ”شر مطلق“ و ”خیر مطلق“ کیا ہے؟

۴ ۔کیاطوفان اور زلزلے یقینا نقصان دہ ہیں؟

۵ ۔ناخوشگوارحوادث انسان کی زندگی میں کونسے مثبت نفسیاتی اثرات ڈال سکتے ہیں؟

چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۲)

ہم نے کہا کہ انسانی زندگی میں رو نما ہو نے والے ناخوشگوار حوادث،آفات،مشکلات اور ناکامیوں پر اعتراض کر نے والوں نے ان چیزوں کوعدل الہٰی سے انکار کر نے کا بہانہ قرار دیا ہے بلکہ بعض اوقات اسی بہانہ سے پرور دگار کے وجود کے بھی منکر بن گئے ہیں!

گزشتہ بحث میں ہم نے ان حوادث کے ایک حصہ پر بحث و تحقیق کی اور اس کے دو فلسفوں کی وضاحت کی ۔یہاں پر ہم اسی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔

۳ ۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے

ہم پھر یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہاتھوں اپنے لئے مشکلات اور حوادث ایجاد نہیں کر نے چاہئے ۔لیکن اس کے باوجود بہت سے مواقع پر سخت اور نا خوشگوار حوادث اور مشکلات ہمارے ارادہ کو تقویت بخشنے کا سبب بنتے ہیں،جس طرح لوہا بھٹی میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے اور وہ سرد و گرم جھیل کر پائدار ہو جاتا ہے ،اسی طرح ہم بھی حوادث کی بھٹی میں سرد و گرم زمانہ جھیل کر پختہ اور قوی بن جاتے ہیں۔

جنگ ایک بری چیز ہے،لیکن کبھی ایک سخت اور طولانی جنگ ایک ملت کی استعداد کو وسعت بخشتی ہے ،اختلافات کو اتحاد و یکجہتی میں تبدیل کرتی ہے اور پسماند گیوں کی تیزی کے ساتھ تلافی کر تی ہے۔

ایک معروف مغربی مورّخ کہتا ہے :”پوری تاریخ میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہر نمایاں تہذیب کا ظہور،ایک ملک پر کسی بیرونی بڑی طاقت کے حملہ کے بعد رونما ہو تا ہے اور یہی بیرونی حملہ اس ملک کی سوئی ہوئی قوتوں کو بیدار کر کے انھیں منسجم و متحد کر دیتا ہے“

لیکن زندگی کے تلخ حوادث کے مقابلہ میں ہر فرد اور ہر معا شرہ کا رد عمل یکساں نہیں ہو تا ہے ۔بعض لوگ ان حوادث کے مقا بلہ میں یاس و نا امیدی اور ضعف وبد ظنی کے شکار ہو جاتے ہیں اور منفی نتیجہ حاصل کرتے ہیں۔لیکن جن لوگوں کے پاس مناسب وسائل موجود ہو تے ہیں ،وہ ان حوادث کے مقابلہ میں جوش وجذبہ سے حرکت میں آجاتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کی تیزی کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں۔

چونکہ ایسے مواقع پر اکثر لوگ سطحی فیصلہ کر تے ہیں اورصرف مشکلات اور سختیوں کو دیکھتے ہیںاس لئے وہ ان کے مثبت اور تعمیری آثار کو نہیں دیکھ پاتے۔

ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تمام تلخ حوادث کے ایسے ہی اثرات ہوتے ہیں ،لیکن کم از کم ان میں سے بعض ایسے ہی ہیں۔

اگر آپ دنیا کے غیر معمولی انسانوں کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا تقریباً وہ سب مشکلات اور سختیوں میں پلے ہیں ،ایسے بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں ،جو عیش وعشرت میں پلے ہوں اور غیر معمولی شخصیت بن کر شہرت پائے ہوں۔فوج کے کمانڈر وہ بنتے ہیںجوسخت اور طولانی میدان کار زار میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔عظیم اقتصاددان وہ ہو تے ہیں جو بحران زدہ اقتصادی بازاروں میں گرفتار رہے ہیں ۔

بڑے اور قدرتمند سیاست دان وہ ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی تحریک میں مشکلات سے مقابلہ کرتے ہیں اور سختیاں جھیلتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ انسان مشکلات اور سختیوں کی آغوش میں پرورش پاتا ہے۔

ہم قرآن مجید میں یوں پڑھتے ہیں:

( فعسیٰ ان تکرهوا شیئاً ویجعل اللّٰه فیه خیرا کثیراًً)

( سورہ نساء/ ۱۹)

”ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے۔“

۴ ۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں

ہم نے گزشتہ بحثوں میں پڑھا کہ ہمارے وجود کے ہر ایک حصہ کا ایک مقصد ہے۔آنکھ ایک مقصد کے لئے ہے ،کان ایک دوسرے مقصد کے لئے ،دل،دماغ اور اعصاب میں سے ہرایک کسی نہ کسی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ،یہاں تک کہ ہماری انگلیوں کی لکیروں میں بھی ایک فلسفہ مضمر ہے۔

اس بنا پر کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پورا وجود مقصد اور فلسفہ کے بغیر ہو؟

ہمیںگزشتہ بحثوں میں معلوم ہوا کہ یہ مقصد،انسان کے تمام جہتوں میں تکامل حاصل کر نے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے۔

اس تکامل تک پہنچنے کے لئے یقینا،تعلیم وتر بیت کے ایک ایسے عمیق نظام کی ضرورت ہے جو انسان کے پورے وجود پر حاوی ہے ۔اسی لئے خداوند متعال نے انسان کو پاک توحیدی فطرت عطا کر نے کے علاوہ عظیم انبیاء کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیجا تاکہ اس راہ میں انسان کی رہبری کی ذمہ داری نبھائیں ۔

اس کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اس کے گناہوں اور خطاؤں کا رد عمل دکھا یا جائے اور خدا کی نافر مانی کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے دو چار ہو تاکہ اپنے برے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہو کر خدا کی طرف پلٹ آئے ۔ایسے ہی مواقع پر بعض بلائیں اور نا خوشگوار حوادث رحمت و نعمت الہٰی ہو تے ہیں۔

جیساکہ قرآن مجید یاددہانی کرتا ہے:

( ظهر الفساد فی لبرّ والبحر بما کسبت ایدی النّاس لیذیقهم بعض الّذی عملوا لعلّهم یرجعون)

( سورہ روم/ ۴۱)

”لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بناپر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھادے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں ۔“

مذکورہ بیان کے پیش نظر درد ناک حوادث کو”شر“ کامصداق جاننا، انھیں ”بلائیں“کہنا،اور انھیں عدل الہٰی کے خلاف سمجھنا عقل و منطق کے خلاف ہے،کیو نکہ جتنا ہم اس مسئلہ میں عمیق تر غور کریں گے زیادہ سے زیادہ اس کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں گے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ہماری خلقت کا مقصد کیا ہے؟اس مقصد تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟

۲ ۔انسان مشکلات کا مقابلہ کر کے کیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند قوی بن سکتا ہے؟

۳ ۔کیا آپ نے ایسے افراد کو دیکھا ہے یا تاریخ میں پڑھا ہے جو مشکلات اور سختیوں سے مقابلہ کر نے کے نتیجہ میں عظیم مرتبہ پر فائز ہو چکے ہوں؟ ان کے حالات زندگی بیان کیجئے۔

۴ ۔ہمارے گناہوں کے رد عمل کے بارے میں قرآن مجید کیا فر ماتا ہے؟

۵ ۔تلخ اور نا خوشگوار حوادث سے کون لوگ مثبت نتیجہ حاصل کرتے ہیں اور کون لوگ منفی نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟

پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ ( ۳)

چونکہ خدا کی معرفت اور توحید کے مباحث کا مطالعہ کر نے والوں کے لئے ناخوشگوار آفات و حوادث کی مشکل ایک قابل غور مشکل ہے،اس لئے ہم آفات و حوادث کے بارے میں مزید فلسفوں کو بیان کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،لہذا اس بحث کو آگے بڑھا تے ہیں ۔

۵ ۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں

شاید بعض افراد کے لئے اس مسئلہ کا ادراک مشکل ہو گا کہ اگر خدا کی نعمتوں کا سلسلہ جاری اور یکساں ہو تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔

آج ثابت ہو چکا ہے کہ اگرایک جسم کوایک کمرہ کے بیچ میں رکھا جائے اور اسپر ہر طرف سے یکساں اور تیز روشنی ڈالی جائے اور خود جسم اور کمرہ بھی مکمل طور پر شفاف اور گول ہوں،تواس جسم کو ہر گز دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ جب روشنی کے کنارے سائے قرار پاتے ہیں تو وہ جسم کے ابعاد کو مشخص کر تے ہیں اور اسے اپنے اطراف سے جدا کرتے ہیں اور ہم اسے دیکھ سکتے ہیں۔

زند گی کی نعمتوں کی قدر و قیمت بھی مشکلات کے پرُ رنگ اور کم رنگ سایوں کے بغیر قابل مشاہدہ نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص زندگی بھر کبھی بیمار نہ ہو تو وہ ہر گز صحت و سلا متی کے مزہ کا احساس نہیں کر سکتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر وہ ایک رات کو شدید بخار اور سر درد میں مبتلا ہو جا ئے اور صبح ہو نے پر وہ اس بخار اور سر درد سے نجات پا جائے تو صحت و سلامتی کا مزہ اس کے ذائقہ کو اس قدرشیرین کر تا ہے کہ جب کبھی اسے اس بحرانی اور المناک رات کی یاد آتی ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ اس کے پاس صحت وسلامتی نام کا کون ساقیمتی گوہر ہے۔

یکساںزندگی۔حتی خوشحال ترین زندگی۔بالکل تھکا دینے والی،بے روح اور مہلک زندگی ہو تی ہے ۔اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض افراد خوشحال اور ہر قس کے رنج والم سے خالی زندگی سے اس قدر تھک چکے ہیں کہ خود کشی کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں یا ہمیشہ اپنی زندگی کے بارے میں گلہ شکوے کرتے ہیں۔

آپ کسی باذوق معمار کو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ،جو ایک بڑے ہال کی دیواروں کو ایک زندان کی دیواروں کے مانند صاف اور یکساں تعمیر کرے،بلکہ وہ اس ہال کی دیواروں کو اتار چڑھاؤاور پیچ و خم کے ساتھ تعمیر کرکے پُر کشش بنا دیتا ہے ۔

یہ عالم طبیعت کیوں اس قدر خوبصورت ہے؟

پہاڑوں پر موجود جنگلوں کے مناظر اور چھوٹے بڑے درختوں کے بیچ میں سے مار پیچ کے مانندگزرنے والی نہریں کیوں اس قدرخوبصورت اور دل آویز ہوتی ہیں؟!

اس کی ایک واضح وجہ ان کا یکساں نہ ہو نا ہے۔

”روشنی“اور”تاریکی“،اورشب وروز کی آمد ورفت کا نظام ،جس کا ذکر قرآن مجید نے مختلف آیات میں کیا ہے،اس کا ایک اہم مقصد انسانوں کی یکساں زندگی کو ختم کر نا ہے ،کیو نکہ اگر سورج آسمان کے ایک کو نے سے یکساں اور مسلسل طور پر کرئہ زمین پر اپنی روشنی پھیلاتا اور نہ اپنی حالت میں تبدیلی لاتا اور نہ اس کی جگہ رات کا پردہ پڑتا،تو دوسرے مشکلات کے علاوہ ،تھوڑی ہی مدت میں سب انسان تھک جاتے۔

اس وجہ سے ماننا چاہئے کہ کم از کم زندگی کے بعض ناخوشگوار حوادث اور مشکلات میں یہ فلسفہ ہے کہ یہ بقیہ زندگی کو روح بخشتے ہیں اسے شرین اور قابل برداشت بناتے ہیں،نعمتوں کی قدر وقیمت کو واضح کر دیتے ہیں اور انسانوں کے لئے یہ ممکن بناتے ہیں کہ موجودہ نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

۶ ۔خود ساختہ مشکلات

ایک اور نکتہ،جس کی طرف ہم اس بحث کے اختتام پر اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں ،یہ ہے کہ بہت سے لوگ ناخوشگوار حوادث اور مصائب کے عوامل کا محاسبہ کر نے میں بعض اوقات مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ظالم انسانوں کے ذریعہ وجود میں آئے ظلم کو خلقت کے نظام کی نا انصافی جانتے ہیں اور انسان کے کام کی بد نظمی کو خلقت کی بد نظمی شمار کرتے ہیں۔

مثلاًکبھی اعتراض کرتے ہیں کہ مصیبت زدہ پر ہی کیوں مصیبتیں ٹوٹ پڑ تی

ہیں ؟!زلزلوں میں کیوں شہروں میں نقصا نات کم ہوتے ہیں اور گاؤں میں زیادہ قربانیاں رو نما ہو تی ہیں اور بہت سے لوگ ملبے میں پھنسے رہ جاتے ہیں ،یہ کونسا انصاف ہے؟اگر کوئی مصیبت قسمت میں طے ہو تو کیوں یکساں نہیں آتی؟

درد ناک حادثات سے کیوں اکثر مستضعفین (کمزرولوگ)دو چار ہو تے ہیں؟اور وبائی بیماروں کے کیوں یہی لوگ زیادہ تر شکار ہو تے ہیں؟

جبکہ حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی چیز خلقت کے نظام اور خدا کی خلقت اور عدالت سے مربوط نہیں ہے،بلکہ یہ خود انسانوں کے ایک دوسرے پر ظلم واستعمار کا نتیجہ ہو تا ہے۔

اگر گاؤں والے شہر نشینوں کے ظلم کی وجہ سے فقر و محرومیت سے دو چار نہ ہو تے اور اپنے لئے مضبوط مکانات تعمیر کر سکتے تو وہ زلزلہ میں زیادہ نقصا نات سے کیوں دوچار ہو تے اور دوسرے کم؟

لیکن جب ان کے گھر معمولی مٹی،پتھر اور لکڑی کے بنے ہوں اور ان میں چونا اورسمینٹ کا نام تک نہ ہو اور ہوا کے ایک جھونکے یا معمولی زلزلہ سے زمین بوس ہو جائیں تو انھیں اس سے بہتر حالت کی توقع نہیں کر نی چاہئے ،لیکن اس کا خدا کے کام سے کیا ربط ہے؟

ہمیں اس شاعر کے مانند اعتراض نہیں کر نا چاہئے ،جس نے کہا ہے:

”یکے را دادہ ای صد نازو نعمت“

ایک کو سو نعمتیں عطا کی ہیں اور دوسرے کو خاک ذلت پر بٹھا دیا ہے،

ایک کومحل کو عطا کئے ہیں اور دوسرے کو جھونپڑی!

حقیقت میں یہ اعتراض معاشرہ کے غیر عادلانہ اور غلط نظام پر کئے جانے چاہئے ۔ہمیں ان اجتماعی نا انصافیوں کا خاتمہ کرنا چاہئے فقر و پسماند گی سے مقابلہ کر نا چاہئے اور مستضعفین کو ان کے حقوق دینے چاہئے تاکہ معاشرہ میںاس قسم کے حالات پیدا نہ ہو نے پائیں۔

اگر معاشرہ کے تمام لوگوں کو مناسب غذا ،صحت اور طبی خدمات ملیں تو وہ عام بیماریوں کے مقابلہ میں مقاومت پیدا کریں گے۔

لیکن جب ایک معاشرہ کاغلط اجتماعی نظام اور اس پر حاکم استکبارایک شخص کے لئے اس قدر وسائل فراہم کرے کہ اس کے پالتو کتے اور بلی کے لئے بھی مخصوص ڈاکٹر معین ہو اور اس کے مقا بلہ میں دوسرے کے ایک نوزاد بچے کے لئے بھی صحت وسلامتی کے ابتدائی وسائل مہیا نہ ہوں تو اس قسم کے ناخوشگوار حالات زیادہ رو نما ہوتے ہیں۔

ایسے حالات میں ہمیں خدا کے کام پر اعتراض کر نے کے بجائے خود اپنے ہی کام پر اعتراض کر نا چاہئے۔

ہمیں ظالم سے کہنا چاہئے کہ ظلم نہ کرے ۔

ہمیں مظلوم سے کہنا چاہئے کہ ظلم برداشت نہ کرے!

ہمیں کو شش کر نی چاہئے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کم از کم صحت و صفائی ،علاج و معالجہ ،کھانے پینے،رہائشی ،ثقافتی اور تعلیم وتر بیت کے ابتدائی ضروریات سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔

مختصر یہ کہ ہمیں اپنے گناہوں کو خلقت کے نظام کی گردن پر نہیں ڈالنا چاہئے۔

خدا وند متعال نے ہم پر کب ایسی زندگی مسلط کی ہے؟اور کہاں پر اس قسم کے نظام کی تعریف کی ہے؟

اس نے ہمیں آزاد خلق کیا ہے ،کیونکہ آزادی ہمارے تکامل اور ارتقا اورتر قی کا راز ہے۔

لیکن ہم اپنی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں اور دوسروں پر ظلم وستم کرتے ہیں اوریہی ظلم وستم معاشرہ کی بد حالی کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔

افسوس کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ،یہاں تک کہ معروف ومشہور شعراء کے اشعار میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں۔

قرآن مجید ایک مختصر اور بامعنی جملہ میں فر ماتا ہے:

( إن اللّٰه لا یظلم النّاس شیئاً ولکن النّاس انفسهم یظلمون ) ( سورہ یونس/ ۴۴)

”اللہ انسا نوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“

اب ہم آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ختم کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ ایک طولانی موضوع ہے لیکن ہم اسی مختصر بحث پر اکتفا کرتے ہیں۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ آفات وبلیّات کے فلسفہ کی بحث کو ہم نے کیوں تین اسباق میں بیان کیا؟

۲ ۔زندگی کے یکساں ہو نے میں کون سے برُے اثرات ہیں؟کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جو اپنی عیش وعشرت کی زندگی سے بیزار ہو؟

۳ ۔کائنات میں نور وظلمت کے نظام کے فلسفہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

۴ ۔کیا معاشرے میں موجود تمام مصیبتیں خلقت کے نظام سے مربوط ہیں یا ان کے ہم بھی ذمہ دار ہیں؟

۵ ۔کیا معاشرے کی مصیبتوں کو ختم کر نے کے لئے کوئی صحیح طریقہ موجود ہے؟مستضعفین کے بارے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ

پرور دگار عالم کی عدالت سے مربوط مسائل میں سے ایک مسئلہ ”جبر و اختیار“کا مسئلہ ہے۔کیونکہ عقیدئہ جبر کے قائل لوگوں کے نزدیک انسان کو اپنے اعمال،رفتار اور گفتار پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہے اور اس کے اعضاء کی حرکات ایک مشین کے پرزوں کے مانند ہیں۔

اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ عدال الہٰی سے کیا مناسبت رکھتا ہے؟شاید اسی وجہ سے اشاعرہ نے ،جن کے بارے میں ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا اور وہ حسن وقبح عقلی کے منکر ہیں،جبر کو قبول کر کے عدل الہٰی سے انکار کیا ہے ۔کیونکہ جبر کو قبول کر نے کی صورت میں ”عدالت“ کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

اس بحث کو واضح کر نے کے لئے چند موضوعات کی دقیق وضاحت کر نا ضروری ہے:

۱ ۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہ

ہرشخص اپنے وجود کی گہرائیوں میں احساس کر تا ہے کہ وہ اپنے ارادہ میںآزاد ہے،مثال کے طورپر فلاں دوست کی وہ مالی مدد کرے یا نہ کرے یا یہ کہ پیاس کی حالت میں اگر اس کے سامنے پانی رکھا جائے تو وہ اسے پئے یا نہ پئے۔اگر کسی نے اس کے خلاف کوئی ظلم کیا ہو تو وہ اسے بخش دے یا نہ بخشے۔

یا یہ کہ ہر شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کانپنے والے ہاتھ اور اپنے ارادہ سے حرکت کر نے والے ہاتھ کے در میان فرق کرسکتا ہے۔

آزادی ارادہ کا مسئلہ انسان کا ایک عام احساس ہو نے کے باوجود کیوں انسانوں کا ایک گروہ جبر کا عقیدہ رکھتاہے؟!

اس کے مختلف اسباب ہیں کہ ہم ان میں سے ایک اہم سبب کو یہاں پر بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کر تا ہے کہ ماحول افراد پر اثر ڈالتا ہے ،تربیت بھی ایک دوسری علت ہے اسی طرح پروپیگنڈے،ذرائع ابلاغ اور سماجی ماحول بھی بلا شبہ انسان کی فکرو روح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کبھی اقتصادی حالات بھی انسان میں تبدیلیاں ایجاد کر نے کا سبب بنتے ہیں ۔وراثت کے سبب ہو نے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ تمام عوامل اس کا سبب بنتے ہیں کہ انسان یہ خیال کرے کہ ہم با اختیار نہیں ہیں بلکہ ہمیں داخلی اور خارجی ذاتی عوامل اکھٹے ہو کر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کچھ ارادے اور فیصلے کریں،اگر یہ عوامل نہ ہو تے تو ہم سے بہت سے کام سرزد نہیں ہوتے۔یہ ایسے امور ہیں، جنھیںماحول کے جبر ،اقتصادی حالات کے جبر ،تعلیم وتربیت کے جبر اور وراثت کے جبر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ان عوامل میں سے ”مکتب جبر“فلاسفہ کی زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔

۲ ۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہ

لیکن جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں وہ ایک بنیادی بات سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بحث”محر کات و عوامل“اور ”علت ناقصہ“کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث”علت تامّہ“میں ہے۔دوسرے الفاظ میں :کوئی شخص انسان کی فکر اور اس کے عمل میں ماحول،تہذیب وتمدن اور اقتصادی اسباب کے اثر انداز ہو نے سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔اصل بحث اس میں ہے کہ ان تمام اسباب کے باوجود فیصلہ کا اختیار ہم ہی کو ہے۔

کیونکہ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سابقہ شہنشاہی نظام جیسے ایک غلط اور طاغوتی نظام میں بھی گمراہ ہو نے کے مواقع فراہم تھے ،لیکن ہم اس کے لئے مجبور نہیں تھے۔ ہمارے لئے اسی نظام اور ماحول میں بھی ممکن تھا کہ ہم رشوت لینے سے پر ہیز کریں، فحاشی کے مراکز کی طرف رخ نہ کریں اور آزادروی سے پرہیز کریں۔

لہذا ان مواقع کو”علت تامّہ“سے جدا کر نا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد غیر مہذب گھرانوں اور برے ماحول میں پرورش پانے یا نامناسب وراثت کے مالک ہو نے کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کا انتخاب کرتے ہیں،یہاں تک کہ بعض اوقات یہی افراد اس قسم کے ماحول اور نظام کے خلاف انقلاب برپا کر کے اسے بدل دیتے ہیں، ورنہ اگر یہ ضروری ہوتا کہ تمام انسان ماحول،تہذیب و تمدن اور پروپیگنڈے کے تابع ہوں تو دنیا میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا اور تمام افراد ماحول کے سامنے ہتھیار ڈال کر جدید ماحول پیدا کر نے سے قاصر رہتے۔

اس سے معلوم ہو تا ہے کہ تمام مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک بھی ”تقدیر ساز“نہیں ہے بلکہ یہ اسباب صرف مواقع فراہم کرتے ہیں اور انسان کی تقدیر کو صرف اس کا ارادہ اور عزم بناتا ہے۔

یہ ایساہی ہے کہ ہم ایک انتہائی گرم موسم میں خدا کی اطاعت کرتے ہوئے روزے رکھنے کا عزم کریں جبکہ ہمارے وجود کے تمام ذرات پانی کی خواہش کرتے ہیں لیکن ہم خدا کی اطاعت میں ان کی پروا نہیں کرتے جبکہ ممکن ہے کوئی دوسرا شخص حکم خدا کے باوجود اس خواہش کو قبول کر کے روزہ نہ رکھے۔

نتیجہ کے طور پر ان تمام ”اسباب وعوامل“کے باوجود انسان کے پاس عزم وارادہ جیسی ایک چیز ہے جس سے وہ اپنا مقدر بنا سکتا ہے۔

۳ ۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسباب

حقیقت یہ ہے کہ ابتداسے ہی ”جبر واختیار“کے مسئلہ کے بارے میں کثرت سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔انسان کے ارادہ کی آزادی کی ”نفی“اور جبر کے عقید کی تقویت کے لئے کچھ خاص عوامل کا ایک سلسلہ بھی موثر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

الف:سیاسی عوامل

بہت سے جابر وستمگر حکام محروم اور مستضعف لوگوں کے انقلابی جذبہ کو خاموش کر نے اور اپنی غیر قانو نی اور مطلق العنان حکومت کو باقی رکھنے کے لئے ہمیشہ اس فکر کا سہارا لیتے رہے ہیں کہ ہم خود کوئی اختیار نہیں رکھتے،تقدیر کا ہاتھ اور تاریخ کا جبر ہماری قسمت کا فیصلہ کر نے والا ہے۔اگر کوئی امیر ہے اور کوئی غریب تو یہ قضا وقدر کے حکم یا تاریخ کے جبر کے سبب سے ہے!

واضح ہے کہ اس قسم کا طرز فکر کس حد تک لوگوں کے افکار کو بے حس کر سکتا ہے اور جابر حکام کی استعماری اور آمرانہ سیاست کی مدد کرسکتا ہے؟حالانکہ عقلی اور شرعی طور پر ہماری ”تقدیر“ خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ”جبر“کے معنی میں قضا وقدر کا بالکل وجود نہیں ہے ۔الہٰی قضا وقدر کی تعیین ہماری حرکات ،خواہشات ،ارادہ،ایمان،جستجو اور کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔

ب۔نفسیاتی عوامل

جوکاہل اور سست افراد اپنی زندگی میں اکثر نا کام رہتے ہیں وہ ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ ان کی سستی اور خطائیں ان کی شکست کا سبب بنی ہیں۔لہذا اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے کے لئے ”مکتب جبر“کا سہارا لیتے ہیںاور اپنی ناکامی کو اپنی اجباری قسمت کے سر پر ڈالتے ہیں تاکہ اس طرح جھوٹا اور ظاہری سکون پیدا کر سکیں ۔وہ کہتے ہیں :کیا کریں ہماری قسمت کی چادر تو روز اول سے ہی ایسی سیاہ بنیُ گئی ہے جسے زمزم یا حوض کوثر کا پانی بھی سفید نہیں کر سکتا ۔ہم با استعداد بھی ہیں اور ہم نے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا!

ج۔سماجی عوامل:

بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ہو اوہوس کی راہوں پر چلتے رہیںاور اپنی حیوانی خواہشات کے مطابق ہر گناہ کے مرتکب ہوتے رہیں اس کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ وہ گناہ کار نہیں ہیں اور سماج میں بھی اس قسم کا تاثر قائم کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔

اس لئے وہ”عقیدہ جبر“کا سہارا لے کر اپنی ہوس رانی کی جھوٹی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :ہمیں اپنے کاموں میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے!

لیکن بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ،حتی اس قسم کی باتیں کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے یہ عذر بے بنیاد ہیں۔لیکن عارضی لذتیں اور ناپائیدار منافع انھیں حقیقت کا کھلم کھلا بیان کر نے کی اجازت نہیں دیتے ۔

لہذا ضروری ہے کہ سماج کو اس جبری طرز فکر سے اور قسمت و تقدیر کو جبر کا نتیجہ قرار دینے کے عقیدہ سے بچانے کے لئے کوشش کی جائے۔کیونکہ اس قسم کا عقید ہ

سا مراجی طاقتوں کاآلہ کار اور جھوٹی ناکامیوں کے لئے مختلف بہانوں کا وسیلہ اور سما ج میں آلودگی بڑھانے کا بہت بڑا سبب بنتا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔”جبر“اور”اختیار“کے نظریہ میں کیا فرق ہے؟

۲ ۔جبر کا عقیدہ رکھنے والے افراد کس دلیل پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں؟

۳ ۔ماحول،تہذیب وتمدن اور وراثت کے اثرات کا جواب کیا ہے؟

۴ ۔ان سیاسی ،نفسیاتی اور سماجی عوامل کی وضاحت کیجئے جن کی جھوٹی توجیہ کے لئے عقیدئہ جبر کا سہارا لیا جاتا ہے۔

۵ ۔ان عوامل کا مقابلہ کر نے کے لئے ہمیں کیا کر نا چاہئے؟


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17