نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22333
ڈاؤنلوڈ: 3064

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22333 / ڈاؤنلوڈ: 3064
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

نواں سبق:جسمانی اورروحانی معاد

معاد کی بحث میں پیش آنے والے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا ”معاد“ صرف روحانی پہلو رکھتی ہے یا انسان کا جسم و بدن بھی دوسری دنیا میں لوٹ آئے گا؟ اور انسان اسی دنیوی روح وجسم کے ساتھ صرف بلندتر درجہ کے ساتھ دوسری دنیا میں زندگی کوجاری رکھے گا؟

پرانے زمانہ کے بعض فلاسفہ صرف روحانی معاد کے قائل تھے اور جسم کو ایک ایسا مرکب جانتے تھے جو صرف اس دنیا سے مربوط ہے اور موت کے بعد انسان اس کا محتاج نہیں ہوگا، اسے چھوڑ کر عالم ارواح میں پرواز کرے گا۔

لیکن اسلام کے عظیم علما اور بہت سے فلاسفہ کا عقیدہ یہ ہے کہ معاد دونوں صورتوں میں یعنی ”روحانی“ و”جسمانی“ ہوگی۔ صحیح ہے کہ یہ جسم خاک بن جائے گا اور یہ خاک زمین میں پراگندہ ہوکر گم ہوجائے گی، لیکن پروردگار قادر و عالم ان تمام ذرات کو قیامت کے دن دوبارہ اکٹھا کرکے انھیں زندگی بخشے گا اور اس موضوع کو”جسمانی معاد“ کہا جاتا ہے ،کیونکہ روح کے پھر سے لوٹنے کو قطعی سمجھا گیا ہے اور چونکہ بحث صرف جسم کے لوٹنے کی ہے، یہ نام اسی عقیدہ کے لئے رکھا گیاہے۔

بہر حال معاد سے متعلق، قرآن مجید میں مختلف اور کافی تعداد میں موجود آیات بھی ”جسمانی معاد“پر دلالت کرتی ہیں۔

جسمانی معادپر قرآنی شواہد

ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک صحرائی عرب نے ایک بوسیدہ ہڈی کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خد مت میں پیش کر کے سوا ل کیا تھا کہ کون اسے پھر سے زندہ کرسکتا ہے؟اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے جواب دیا تھا کہ وہی خدااسے پھر سے زندہ کر سکتا ہے جس نے اسے پہلے خلق کیا ہے،وہی جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے اور سبزے درخت سے آگ نکالی ہے ۔اس واقعہ سے مربوط آیات سورہ یٓس کی آخر میں آئی ہیں۔

قرآن مجید کا دوسری جگہ پر ارشاد ہے:

”تم لوگ قیامت کے دن قبروں سے باہر آؤ گے۔“

( سورہ یٓس/ ۵۱ ،قمر/ ۷)

ہم جانتے ہیں کہ قبریں خاک شدہ جسموں کی جگہ ہیں نہ روح کی۔

بنیادی طور پر معاد کے منکروں کا تعجب اس بات پر تھا کہ وہ کہتے تھے :”جب ہم خاک میں تبدیل ہوجائیں گے اور یہ خاک پرا گندہ ہو جائے گی تو ہم کیسے پھر سے زندہ ہو جائیں گے؟“

( وقالوا ء إذاا ضللنا فی الارض ء إنّالفی خلق جدید ) (سورہ سجدہ/ ۱۰)

اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہو گئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے؟“

قرآن مجید جواب میں ارشاد فر ماتا ہے:

( اولم یروا کیف یبدی ء اللّٰه الخلق ثم یعیده إنّ ذٰلک علی اللّٰه یسیر ) (سورہ عنکبوت/ ۱۹)

”کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح مخلوقات کو ایجاد کرتا ہے اور پھر دوبارہ واپس لے جاتا ہے،یہ سب اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔“

ایک عرب جاہل کہتاتھا:

( ایعدکم انّکم إذا متّم وکنتم تراباً وعظاما انّکم تخرجون ) (سورہ مومنون/ ۳۵)

”کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور ہڈی ہوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤگے؟“

قرآن مجید کی مذکورہ تمام تعبیرات اور اس موضوع سے متعلق دوسری آیات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جگہ پر ”جسمانی معاد“کی بات کرتے تھے اور تنگ نظر مشرکین کا تعجب بھی اسی بات پر تھا۔چنانچہ ہم نے دیکھاکہ قرآن مجید اسی جسمانی معاد کے چند نمونوں کو نباتات وغیرہ کے سلسلہ میں پیش کر کے ان کے لئے تشریح فر ماتا ہے اور ابتدائی خلقت اور خدا کی قدرت کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور قرآن مجید سے تھوڑی سی واقفیت رکھتے ہوئے جسمانی معاد کا منکر ہو۔قرآن مجید کی نظر میں جسمانی معاد کا انکار اصل معاد کے انکار کے برابر ہے۔

عقلی شواہد

اس کے علاوہ عقل بھی کہتی ہے کہ روح اور بدن الگ الگ حقیقتیں نہیں ہیں ،یہ دونوں مستقل ہونے کے باوجود آپس میں پیوند اور رابطہ رکھتے ہیں،دونوں ایک ساتھ نشو ونما پاتے ہیں ،اور یقینا ابدی اور جاودانی زندگی کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

اگرچہ دونوں(روح اور بدن)برزخی مدت(دنیا وآخرت کے در میان فاصلہ)کے دوران کچھ مدت تک ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں،لیکن ہمیشہ کے لئے یہ دوری ممکن نہیں ہے ۔جس طرح روح کے بغیر جسم ناقص ہے اسی طرح روح بھی جسم کے بغیر ناقص ہے ۔روح حکم فرما اور عامل حرکت ہے اور بدن فر مانبردار اور وسیلہ عمل ہے ،کوئی بھی حکم فر ما،فرما نبردار سے اور کوئی بھی ہنر مند وسیلہ عمل سے بے نیاز نہیں ہوتاہے۔

چونکہ آخرت میں روح اس دنیا کی نسبت ایک بلندتر سطح پر قرار پائے گی اس لئے اسی نسبت سے جسم کو بھی کمال حاصل کر نا چاہئے ،اور ضرور ایساہی ہوگا ،یعنی انسان کا جسم قیامت کے دن اس دنیا کی فرسودگی ،عیوب اور نقائص سے خالی ہوگا۔

بہر حال جسم و روح ایک دوسرے کی ہمزاد اور مکمل کر نے والے ہیں اور معاد صرف روحانی یا صرف جسمانی نہیں ہو سکتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں جسم وروح کی خلقت اور ان کے آپسی رابطہ اور پیوند کی حالت کا مطالعہ اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ معاد جسمانی و روحانی دونوں صورتوں میں واقع ہوگی ۔

دوسری طرف انصاف وعدالت کا قانون بھی یہی کہتا ہے :معاد دونوں پہلوؤں سے (جسمانی وروحانی)ہونی چاہئے ۔کیونکہ اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔تو اس نے اس گناہ کو اس روح اور جسم کے ذریعہ انجام دیا ہے ،اور اگر اس نے کو ئی نیک کام انجام دیا ہے تو وہ بھی اس جسم وروح سے انجام دیا ہے اس لئے اس کی جزا اور سزا بھی اسی روح اور بدن کو ملنی چاہئے ۔اگر صرف جسم ہی پلٹے گا یا صرف روح ہی پلٹے گی اور ان میں سے صرف ایک ہی کو جزا یاسزا ملے گی،تو عدل وانصاف کا قانون نافذ نہیں ہوگا ۔

جسمانی معاد سے متعلق چند سوالات

دانشوروں نے اس سلسلہ میں متعدد سوالات پیش کئے ہیں کہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ان میں سے بعض کاذکر جواب کے ساتھ ضروری ہے:

۱ ۔علوم طبیعیات( natural sciences )کے دانشوروں کی تحقیقات کے مطابق،انسان کا بدن اس کی پوری عمر کے دوران کئی بار تبدیل ہوتا ہے ۔اس کی مثال اس پانی کے حوض جیسی ہے،جس میں ایک طرف سے پانی داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف سے رفتہ رفتہ باہر نکلتا ہے ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد اس حوض کا پورا پانی تبدیل ہو جاتا ہے ۔

انسان کے بدن میں یہ صورت احتمالاًہر سات سال کے بعد ایک بار پیش آتی ہے ،اس لئے انسان کا بدن اس کی پوری حیات کے دوران کئی بار تبدیل ہو تا ہے!

اب یہ سوال پیداا ہوتا ہے کہ انسان کے جسموں میں سے کون سا جسم قیامت کے دن لوٹے گا؟

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں :ان میں سے انسان کا آخری بدن لوٹے گا،جیسا کہ مذکورہ آیات میں ہم نے پڑھا کہ خداوند متعال انسانوں کو ان ہی پوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیوں سے دوبارہ زندہ کرے گا ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ انسان کا آخری بدن لوٹے گا،اسی طرح قبروں سے مردوں کے اٹھ کر نکلنے سے بھی آخری بدن کے زندہ ہو نے کے معنی نکلتے ہیں۔

لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کا آخری بدن اپنے اندر وہ تمام آثار اور خصو صیات محفوظ رکھتا ہے جو اس کی پوری عمر میں مختلف بدن رکھتے تھے ۔

دوسرے الفاظ میں:جو بدن تدریجاًنابود ہو تے ہیں۔وہ اپنے آثار وخصوصیات کو آنے والے دوسرے بدن میں منتقل کرتے ہیں،اس لئے آخری بدن گزشتہ تمام بدنوں کا وارث ہو تا ہے اور عدل وانصاف کے قانون کے تحت تمام جزا وسزا کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔

۲ ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم خاک میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہمارے بدن کے ذرات پودوں اور میوؤں میں تبدیل ہو جائیں گے ،اور نتیجہ کے طور پر دوسرے انسان کے بدن کے جزو بن جائیں گے تو قیا مت کے دن کیا ہو گا؟(یہ وہی چیز ہے جسے فلسفہ وکلام کے علم میں ”شبهئه آکل و ماکول “کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)

اگر چہ اس سوال کا جواب تفصیلی بحث کا حامل ہے، لیکن ہم ایک مختصر عبارت میں ضرورت بھر اس پر بحث کر نے کی کوشش کریں گے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے :جس انسان کے بدن کے ذرات خاک میں تبدیل ہو نے کے بعد دوسرے بدن میں منتقل ہوتے ہیں ،وہ یقینا پہلے بدن میں واپس آجاتے ہیں۔(مذکورہ آیات بھی اس دعویٰ کی واضح شا ہد ہیں)

یہاں پر بظاہر جو مشکل نظر آتی ہے ،وہ صرف یہ ہے کہ دوسرا بدن ناقص ہو جائے گا۔

لیکن حقیقت میں یہ دوسرا بدن ناقص نہیں ہو تا ہے بلکہ چھوٹا ہو تا ہے،چونکہ یہ ذرات تمام بدن میں پھیلے ہوئے تھے ،جب اس سے واپس لئے جاتے ہیں تو وہ بدن اسی نسبت سے ضعیف اور چھوٹا ہو جاتا ہے۔

اس لئے نہ پہلا بدن نابود ہوتا ہے اورنہ دوسرا بدن،صرف جو چیز یہاں پر وجود میں آتی ہے وہ دوسرے بدن کا چھوٹا ہو نا ہے اور یہ امر کبھی کو ئی مشکل پیدا نہیں کرتا ہے،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قیا مت کے دن تمام بدن کمال حاصل کریں گے،اور نقائص اور کمیاں دور ہو جائیں گی،جس طرح ایک بچہ نشو ونما پاتا ہے ۔یا ایک زخمی کے زخم میں نئے سرے سے گوشت بھر جاتا ہے اوراس کی شخصیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح قیا مت کے دن چھوٹے اور ناقص بدن مکمل صورت میں زندہ ہوں گے ،کیونکہ قیامت عالم کمال ہے۔

اس طرح اس سلسلہ میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ہے(غورکیجئے ۔مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد وجہان پس از مرگ“کی طرف رجوع کیجئے)۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا قیامت کے دن انسان کی زندگی ہر لحاظ سے اس دنیا جیسی زندگی ہے؟

۲ ۔کیا ہم قیامت کے دن جزا وسزا کو اس دینا میں بالکل درک کرسکتے ہیں؟

۳ ۔کیا بہشت کی نعمتیں اور جہنّم کے عذاب صرف جسم سے مربوط ہیں۔

۴ ۔اعمال کے مجسم ہونے سے مراد کیا ہے اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میں کیسے دلالت کی ہیں؟

۵ ۔اعمال کے مجسم ہو نے کاعقیدہ معاد کی بحث کی کن مشکلات کا جواب دیتا ہے۔

دسواں سبق:جنّت ،جہنّم اور تجسّم اعمال

بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موت کے بعد عالم آخرت بالکل اسی دنیا کے مانند ہے یا اس سے فرق رکھتا ہے؟ کیا اس عالم کی نعمتیں،سزائیں ،اور مختصر یہ کہ اس پر حکم فر ما نظام اور قوانین اسی دنیا جیسے ہیں؟

اس کے جواب میںواضح طورپر کہنا چاہئے کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیا اور اس دنیا میں کافی فرق ہے، حتی کہ اس حدتک فرق ہے کہ جو کچھ ہم اس دنیا کے بارے میں جانتے ہیں وہ ایک ایسی سیاہی جسم کے مانند ے جسے ہم دور سے دیکھتے ہیں۔

بہتر ہے کہ ہم اس سلسلہ میں اسی ”جنین“ والی مثال سے استفادہ کریں:جس قدر”جنین“ کی دنیا اور اس دنیا میں فرق ہے، اسی قدر یاا س سے زیادہ اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان فرق ہے۔

اگر ماں کے شکم(عالم جنین) میں موجود بچہ عقل و شعور رکھتا اور باہر کی دنیا، آسمان،زمین،چاند،سورج،ستاروں،پہاڑوں،جنگلوں اور سمندروں کے بارے میں ایک صحیح تصویر کشی کرنا چاہتا تو وہ ہرگز یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔

عالم جنین میں موجود بچہ جس نے اپنی ماں کے انتہائی محدود شکم کے علاوہ کچھ نہین دیکھاہے، اس کے لئے اس دنیا کے چاند،سورج،سمند، امواج،طوفان،بادنسیم، اورپھولوں کی خوبصورتی کا کوئی مفہوم ومعنی نہیں ہے، اس کی لغت کی کتاب صرف چند الفاظ پر مشتمل ہے۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ماں کے شکم کے باہر سے کوئی اس سے بات کرے تو وہ ہرگز اس کی بات کے معنی تک نہیں سمجھ سکتاہے۔

اس محدود دنیا اور اس دوسری وسیع دنیا کے درمیان فرق ایسا ہی یا اس سے زیادہ ہے، لہذا ہم کبھی دوسری دنیا کی نعمتوں اوربہشت برین کی حقیقت کے بارے میں ہرگزآگاہ نہیں ہوسکتے ہیں۔

اسی وجہ سے ایک حدیث میںآیاہے:

” فیها مالاعین رات ولا اذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر

”بہشت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے، کسی کان نے نہیں سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور پیدا ہواہے۔“

قرآن مجید اسی مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:

( فلا تعلم نفس مااخفی لهم من قرّ اعین جزاء بماکانوا یعملون ) “(سورہ سجدہ/ ۱۷)

” پس کسی نفس کو نہیں معلوم ہے کہ اس کے لئے (وہاں پر)کیا کیاخنکی چشم کا سامان چھپاکر رکھا گیا ہے جوان کے اعمال کی جزاہے۔“

اس دنیا پر حکم فرما نظام بھی اس دنیا کے نظام سے کافی فرق رکھتاہے، مثلا:قیامت کی عدالت میں انسان کے ہاتھ، پاؤں، اس کے جسم کی جلد اوریہاں تک کہ جس زمین پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہے اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے:

قرآن مجید میں سورہ یٓس کی آیت نمبر ۶۵ میں ارشاد ہواہے:

( الیوم نختم علی افواههم و تکلمنا ایدیهم و تشهد ارجلهم بما کانوا یکسبون)

” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔“

دوسری جگہ پر سورہ فصلت کی آیت نمبر ۲۱ میں فرماتاہے:

( وقالوا لجلود هم الّذی انطق کلّ شی)

” اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تووہ جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے (تا کہ ہم حقائق بیان کریں)“

البتہ ایک زمانہ میںاس قسم کے مسائل کا تصور کرنا مشکل تھا، لیکن علم کی ترقی کے پیش نظر مناظر اور آواز کو رکارڈ اور ضبط کرنے کے نمونوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ چیز باعث حیرت نہیں ہے۔

بہر حال اگر چہ عالم آخرت کی نعمتوں کے بارے میں ہمارا تصور صرف دور سے نظر آنے والی ایک جسم کی سیاہی کے مترادف ہے اور ان کی وسعت اور اہمیت سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن اس حد تک جانتے ہیں کہ اس عالم کی نعمتیں اور

سزائیں، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں ہیں، کیونکہ معاد دونوں پہلو رکھتی ہے لہذا فطری طور پر اس کی جزاء وسزابھی دونوں جنبوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یعنی جس طرح مادی و جسمانی جنبوں کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵ میںارشاد ہوتاہے:

( وبشرّالّذین آمنوا وعملوالصّٰلحٰت انّ لهم جنّت تجری من تحتها الانهر ولهم فیها ازواج مطهرة وهم فیها خالدون)

” پیغمبر:آپ ایمان اور عمل صالح والوں کو بشارت دیں کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں بھی ہوںگی اور انھیں اس میں ہمیشہ رہنا بھی ہے۔“

اسی طرح قرآن مجید ، معنوی نعمتوں کے بارے میں بھی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۲ میں ارشاد فرماتاہے:

( ورضوان من اللّٰه اکبر)

”(بہشتیوں کو ملنے والی) اللہ کی خوشنود ی اور رضایت ان تمام نعمتوں سے برتر ہے۔“

جی ہاں، بہشتی اس احساس سے کہ خداوند متعال ان سے راضی ہے اور پروردگار عالم نے انھیں قبول کیاہے،اس قدر خوشنودی اورلذت کا احساس کرتے ہیں کہ اس کا کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاسکتاہے۔جہنمیوں کے بارے میںبھی جسمانی عذاب اور آگ کے علاوہ ان پر خداوند متعال کا خشم و غضب اور اس سے ناراضگی ہر جسمانی عذاب سے

بدترہے۔

اعمال کا مجسم ہونا

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہمارے اعمال زندہ ہوں گے اور مختلف شکلوں میں ہمارے ساتھ ہوں گے، جزاوسزا کی اہم باتوں میں سے ایک یہی اعمال کا مجسم ہوناہے۔

ظلم وستم، کالے بادلوں کی صورت میں ہمارا محاصرہ کریں گے جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث میں آیا ہے:

( الظّلم هو الظّلمات یوم القیامة)

” ظلم قیامت کے دن تاریکیاںہے“

ناجائز طریقے سے کھا یا ہوایتیموں کا مال آگ کے شعلوں کے مانند ہمیں گھیر لے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۰ مین ارشادہوتاہے:

( انّ الّذین یاکلون اموال الیٰتمٰی ظلماً إنّما یاکلون فی بطونهم نارا وسیصلون سعیرا)

” جولوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کامال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میںآگ بھر رہے ہیں اور عنقریب واصل جہنّم ہوںگے۔“

ایمان، نور وروشنی کی صورت میں ہمارے اطراف کو منور کرے گا۔ اس سلسلہ میں سورہ حدید کی آیت نمبر ۱۲ میں ارشاد الہی ہے:

( یوم تری المومنین والمومنٰت یسعٰی نورهم بین ایدیهم وبایمانهم)

” اس دن تم باایمان مردوں اور با ایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رہاہے“

سود خور ، جنھوں نے اپنے برے اور بے شرمانہ عمل سے معاشرہ کے اقتصادی توازن کو درہم برہم کیا ہوگا، وہ مرگی کے مریضوں کی طرح ہوںگے جو اٹھتے وقت اپنا توازن برقرار رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، کبھی زمین پر گرتے ہیں اور کبھی لڑکھڑاتے ہوئے اٹھتے ہیں۔(سورہ بقرہ / ۲۷)

جو مال ذخیرہ اندوزوں اور مالدار کنجوسوں نے جمع کرکے اس سے محروموں کا حق ادانہیں کیا ہے، وہ ان کے لئے ایک بھاری طوق کے مانند ان کی گردن میں اس طرح لٹکادیا جائے گا کہ وہ حرکت کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے۔

سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۸۰ میں ارشاد ہوتاہے:

( ولا یحسبنّ الذین یبخلون بما اٰتٰهم اللّٰه من فضله هو خیرا لهم بل هو شرّ لهم سیطوّقون ما بخلوا به یوم القیمة)

” اورخبردار جو لوگ خدا کے دئے ہوئے میں بخل کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ہے۔ یہ بہت براہے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ہے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیاجائے گ“

اسی طرح تمام اعمال اپنی مناسب صورت میں مجسم ہوںگے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ علم وسائنس نے ثابت کیاہے کہ کوئی بھی چیز دنیا میں نابود نہیں ہوتی ہے بلکہ مادہ اورقوت (انزجی) ہمیشہ اپنی شکل و صورت بدلتے رہتے ہیں ۔ ہمارے افعال اور اعمال بھی نابود ہوئے بغیر ان دونوں صورتوں سے خارج نہیں ہیں اور اس قانون کے حکم کے مطابق جاودانی اور ابدی حالت میں ہیں، اگر چہ ان کی شکل و صورت بدل جائے۔

قرآن مجید ایک مختصر اور لرزہ خیز عبارت میںقیامت کے بارے میں فرماتاہے:

( ووجدوا ماعملوا حاضرا ) (سورہ کہف/ ۴۹)

” اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے“

حقیقت میں انسان جو کچھ پاتاہے وہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتاہے ، لہذا خداوند متعال اسی آیت کے ذیل میں فورا فرماتاہے:

( ولایظلم ربّک احدا ) (سورہ کہف/ ۴۹)

”تمھارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے“

ایک دوسری جگہ پر سورہ زلزال کی آیت نبمبر ۶ میں فرماتاہے:

( یومئذ یصدر النّاس اشتاتا لیروا اعمالهم)

”اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تا کہ اپنے اعمال کو دیکھیں ۔“

اسی سورہ زلزال کی آیت نمبر ۷ اور ۸ میں ارشاد ہوتاہے:

( فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره ومن یعمل مثقال ذرّةشرّا یره)

”پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“

مذکورہ آیات میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرماتا ہے کہ خود ان اعمال کو دیکھے گا۔

اس حقیقت کو مدنظر رکھنا یعنی اسی دنیا کے ہمارے چھوٹے بڑے اورنیک وبد اعمال کا محفوظ اور ثابت رہنا اور نابود نہ ہونا اور قیامت کے دن ہر جگہ ان کا ہمارے ساتھ رہنا سب کے لئے ایک انتباہ ہوسکتاہے تاکہ ہم اپنے برے اعمال اور گناہوں کے مقابل ہوشیار رہیں اور اپنے نیک اعمال کے چاہنے والے اور ان پر ثابت قدم رہیں۔

تعجب کی بات ہے کہ دوحاضرمیں ایسے آلات ایجاد کئے گئے ہیں کہ اس مسئلہ کے ایک حصہ کو اسی دنیا میں ہمارے لئے مجسم کیا جاسکتاہے:

ایک دانشور لکھتاہے: سائنس دان آج مصری کمہاروں کی دوہزار سال قدیمی آواز کو اسی طرح منعکس کرسکتے ہیں کہ وہ آواز سننے کے قابل ہے۔ کیونکہ مصری عجائب گھروں میں دوہزارسال پرانے کوز ے موجود ہیں کہ انھیں مخصوص چرخوں اور ہاتھوں سے بناتے وقت کمہاروںکی آوازکی لہریں کوزوں کے جسمون میں نقش ہوگئے ہیں اور آج ان لہروںکو نئے سرے سے اس طرح زندہ کیا جارہاہے کہ ہم اپنے کانوں سے انھیں سن سکتے ہیں(۱) ۔

بہر حال مسئلہ معاد اورقرآن میں ذکر شدہ نیک لوگوںکی ابدی جزا اور بدکاروں کی دائمی سزاکے بارے میں بہت سے سوالات کا جواب ”اعمال کے مجسم ہونے“ اور ہراچھے اور برے کام کے انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالنے اور اس اثر کے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنے کے پیش نظر دیاجاسکتاہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔ جسمانی معاد سے مراد کیاہے؟

۲ ۔ جسمانی معاد کے منکرین کیا کہتے ہیں اورقرآن مجید ان کا کیسے جواب دیتاہے؟

۳ ۔ جسمانی معاد کے لئے عقلی استدلال کیاہے؟

۴ ۔ عدل و انصاف کے قانون اور جسمانی معاد کے درمیان کو ن سا رابطہ ہے؟

۵ ۔ شبہہ”آکل وماکل“ سے مرادکیا ہے اور اس کا جواب کیا ہے؟

____________________

۱۔کتاب”راہ طے شدہ“ سے ماخوذ۔

فہرست

مقدمه ۴

عرض ناشر ۴

معرفت خدا کے دس سبق ۶

پہلاسبق:خدا کی تلاش ۶

۱ ۔کائنات سے واقفیت کا شوق ۶

۲ ۔شکر گزاری کا احساس۔ ۷

۳ ۔خدا کی معرفت سے ہمارے نفع و نقصان کا تعلق۔ ۷

غور کیجئے اور جواب دیجئے: ۸

دوسراسبق .ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں ۹

۲ ۔خدا کی معرفت اور تلاش وامید ۱۰

۳ ۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساس ۱۰

۴ ۔ خدا کی معرفت اور سکون قلب ۱۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۱

تیسرا سبق خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے ۱۲

۱ ۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقی ۱۲

الف۔اندرونی راستہ ۱۲

ایک سوال ۱۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۴

چوتھا سبق ایک اہم سوال کا جواب ۱۵

سوال ۱۵

جواب ۱۵

بحث کا نتیجہ: ۱۷

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۷

پانچواں سبق: ایک سچاواقعہ ۱۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱۹

چھٹا سبق: خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ ۲۰

ب۔بیرونی راستہ ۲۰

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ ۲۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۱

ساتواں سبق:نظام خلقت کے چند نمونے ۲۲

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز ۲۲

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ: ۲۳

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔ ۲۳

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟ ۲۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۴

آٹھواں سبق: ایک چھوٹے سے پرندے میں حیرت انگیزدنیا ۲۵

چمگادڑ اور اس کی عجیب خلقت ۲۵

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۲۷

نواں سبق :حشرات اور پھولوں کی دوستی! ۲۸

دوقدیمی اور جگری دوست ۲۹

توحید کاایک درس ۲۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۰

دسواں سبق:نہایت چھوٹی مخلوقات کی دنیا ۳۱

ایٹم ،توحید کا درس دیتے ہیں ۳۲

۳ ۔ ہر ایک اپنے معین راستہ پر گامزن ہے۔ ۳۲

۴ ۔ایٹم کی عظیم طاقت۔ ۳۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۳

دسویں سبق کی ایک تکمیلی بحث ۳۴

خداوند متعال کی عظیم الشان صفات ۳۴

صفات خدا ۳۴

صفات جمال و جلال ۳۵

خدا کی مشہور ترین صفات ثبوتیہ ۳۵

خدا کی مشہورترین صفات سلبیہ ۔ ۳۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۳۷

عدل الٰہی کے دس سبق ۳۸

عدل الٰہی کے دس سبق ۳۸

پہلا سبق عدل کیا ہے؟ ۳۸

۱ ۔تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے ؟ ۳۸

۲ ۔عدا لت کیا ہے؟ ۳۹

۳ ۔مساوات اور عدالت میں فرق۔ ۴۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۱

دوسرا سبق :عدل الہٰی کے دلائل ۴۲

۱ ۔حسن وقبح عقلی ۴۲

۲ ۔ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟ ۴۲

۳ ۔قرآن مجید اور عدل الہٰی ۴۳

۴ ۔عدل و انصاف کی دعوت ۴۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۴

تیسرا سبق: آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۱) ۴۶

۱ ۔محدود معلومات اورحالات کے زیر اثر فیصلے ۴۶

۲ ۔ناخوشگوار اور انتباہ کر نے والے حوادث ۴۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۴۹

چوتھا سبق:آفات و بلیّات کا فلسفہ( ۲) ۵۰

۳ ۔انسان مشکلات میں پرورش پاتا ہے ۵۰

۴ ۔ مشکلات خدا کی طرف پلٹنے کا سبب ہیں ۵۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۲

پانچواں سبق;آفات و بلیّات کا فلسفہ ( ۳) ۵۳

۵ ۔مشکلات اور نشیب وفراز زندگی کو روح بخشتے ہیں ۵۳

۶ ۔خود ساختہ مشکلات ۵۴

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۵۶

چھٹا سبق : جبر و اختیارکا مسئلہ ۵۷

۱ ۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہ ۵۷

۲ ۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہ ۵۸

۳ ۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسباب ۵۸

الف:سیاسی عوامل ۵۹

ب۔نفسیاتی عوامل ۵۹

ج۔سماجی عوامل: ۵۹

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۰

ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل ۶۱

۱ ۔انسان کا ضمیر جبر کی نفی کرتا ہے ۶۱

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۳

آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟ ۶۴

۱ ۔”جبر“کے مقابلہ میں ”عقیدئہ تفویض“ ۶۴

۲ ۔در میانی مکتب ۶۴

دوسری مثال: ۶۵

۳ ۔قرآن مجید اور جبرو اختیار کا مسئلہ ۶۶

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۶۷

نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے ۶۸

۱ ۔ہدایت و گمراہی کی اقسام: ۶۸

۲ ۔ایک اہم سوال ۶۸