نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 22321
ڈاؤنلوڈ: 3061

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22321 / ڈاؤنلوڈ: 3061
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

دسواں سبق:نہایت چھوٹی مخلوقات کی دنیا

چونکہ ہم اس عالم خلقت کے عجائبات کے در میان زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم ان حیرت انگیز مخلوقات کی اہمیت سے اکثر غافل رہ جاتے ہیں ،مثال کے طور پر :

۱ ۔ہمارے ارد گرد بہت چھوٹے چھوٹے حیوانات اور حشرات پائے جاتے ہیں۔ کہ شایدان میں سے بعض کا جسم ایک یادو ملی میٹر سے زیادہ نہیں ہو گا ،پھر بھی یہ حیوانات ایک بڑے حیوان کے مانند ہاتھ پاؤں ،آنکھیں اور کان،یہاں تک کہ دماغ وہوش ،پٹھوں کا سلسلہ اور نظام ہاضمہ رکھتے ہیں۔

اگر ہم ایک چیونٹی کے دماغ کو مائیکر و سکوپ کے نیچے رکھ کر اس کی حیرت ناک بناوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا عجیب اور دلچسپ بناوٹ ہے !اس کے مختلف حصے،جن میں سے ہر ایک حصہ اس چیونٹی کے چھوٹے سے اندام کے ایک حصہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے،ایک دوسرے کے ساتھ منظم صورت میں قرار پائے ہیں اور ان کی حالت میں معمولی سا خلل ان کے بدن کے ایک ہی حصہ کو مفلوج کر تا ہے۔

تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ اس چھوٹے سے دماغ میں، جو یقینا ایک پن کی نوک سے بھی بہت چھوٹا ہے،ہوش،ذہانت ،تمدن ،ذوق اور ہنر کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔بہت سے سائنسدانوں نے سالہا سال تک اس حیوان کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کر نے میں اپنی عمر صرف کی ہے اور اس کے بارے میں دلچسپ اور حیرت انگیز نکات اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں۔

کیا جس نے اس قسم کے ایک چھوٹے سے حشرہ میں اس قدر ہوش،فطانت اور ذوق کو جمع کر دیا ہے ،وہ ایسی طبیعت ہو سکتی ہے جس میں ایک سوئی کی نوک کے برابر ہوش وذہانت نہ ہو؟

۲ ۔ایٹم کی پراسرار دنیا کے بارے میں ،ہم جانتے ہیں کہ سب سے چھوٹی مخلوق جس کے بارے میں بشر کو اب تک معلو مات حاصل ہوئی ہیں ایٹم اور اس کے اجزاء ہیں۔ایٹم اتنا چھوٹا ہے کہ طاقتور ترین مائیکرو سکوپ ،جو ایک تنکے کو پہاڑوں کی شکل میں دکھاتا ہے ،وہ بھی اسے دیکھنے میں عاجز ہے۔

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ایٹم کتنا چھوٹا ہے،تو بس اس قدر جانئے کہ پانی کے ایک قطرہ میں روئے زمین کی پوری آبادی سے زیادہ ایٹم موجود ہیں ۔اگر ہم ایک سینٹی میٹر باریک ترین تار کے پرو ٹونوں کو گننا چاہیں اور ایک ہزار افراد سے مدد بھی لیں اور ہر سیکنڈ میں ہر شخص ایک پرو ٹون کو جدا کرے تو ۳۰ سے ۳۰۰ سال تک ایٹموں کے اختلاف کے مطابق ہمیں دن رات بیدار رہنا پڑے گا تاکہ ان کو گن سکیں۔

اب جبکہ ہمیں معلوم ہوا کہ ایک سینٹی میٹر باریک تار میں اس قدر ایٹم موجود ہیں، تو ذراسوچئے آسمان ،زمین ،آب وہوا،کہکشانوں اور ہمارے منظومہ شمسی میں کتنے ایٹم ہو ں گے ؟کیا انسان کا ذہن اس کے تصور سے خستہ نہیں ہو جائے گااور خالق کائنات کے علاوہ کوئی اس کا حساب لگا سکتاہے؟

ایٹم ،توحید کا درس دیتے ہیں

آج کل کی سائنسی بحث میں ایٹم شناسی اہم ترین بحث ہے ۔یہ انتہائی چھوٹی مخلوق ہمیں توحید کا درس دیتی ہے،کیونکہ ایٹم کی دنیا میں دوسری چیزوں سے زیادہ اس کے مندرجہ ذیل چار نکتے توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتے ہیں:

۱ ۔غیر معمولی نظم وضبط۔ اب تک ایک سو سے زیادہ عناصر منکشف ہوئے ہیں ۔ان کے الیکٹرون تدریجاً ایک سے شروع ہو کر ایک سو سے زیادہ پر ختم ہوتے ہیں ۔یہ عجیب نظام ہرگز کسی بے شعور عامل کا پیداوار نہیں ہو سکتا ہے۔

۲ ۔قوتوں کا توازن۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مخالف برقی رویں ایک دوسرے کو جذب کرتی ہیں ۔اس لحاظ سے ایک ایٹم کے اندر موجود الیکٹرون جو منفی برقی رورکھتے ہیں ،ان کا مرکز( nucleus ) ،جو مثبت برقی رو کا حامل ہے ،ان کو ایک دوسرے کو جذب کر نا چاہئے ۔

اور دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ نیو کلیس کے گرد الیکٹرونوں کی گردش سے قوئہ دافعہ(مرکزسے دور ہونے کی طاقت)وجود میں آتی ہے ۔اس لئے یہ قوئہ دافعہ الیکٹرونوں کو ایٹم کے دائرہ سے دور کر نا چاہتی ہے تاکہ ایٹم کا تجزیہ ہو جائے اور ادھر سے قوئہ جاذبہ الیکٹرو نوں کو جذب کر کے ایٹم کو نابود کر نا چاہتی ہے ۔

یہاں پر قابل توجہ بات ہے کہ ایٹموں کے اندر کس دقیق حساب سے قوئہ جاذبہ ودافعہ منظم ہوئی ہیں کہ الیکٹرون نہ بھاگتے ہیں اور نہ جذب ہو تے ہیں ،بلکہ ہمیشہ ایک توازن کی حالت میںاپنی حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ اس توازن کوایک اندھی اور بہری طبیعت نے وجود میں لایا ہو؟

۳ ۔ ہر ایک اپنے معین راستہ پر گامزن ہے۔

جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ بعض ایٹموں کے متعدد الیکٹرون ہوتے ہیں لیکن یہ سب الیکٹرون ایک مدار پر حرکت نہیں کرتے ،بلکہ یہ متعدّد مداروں پر حرکت کرتے ہیں ۔

یہ الیکٹروں لاکھوں سالوں سے ایک معین فاصلہ پر اپنے حدود میں بڑی تیزی کے ساتھ حرکت میں ہیں اور ان میں آپس میں کسی قسم کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا ہے۔

کیاان میں سے ہر ایک کو ان کے معین مداروں میں قرار دینا اور ایک حیرت انگیز نظام کے ساتھ ان کو حرکت میں لانا ایک آسان کام ہے؟

۴ ۔ایٹم کی عظیم طاقت۔

ایٹم کی طاقت کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے صرف اس بات پر غور کر نا کافی ہے:

۱۹۴۵ ء ء میں میلکسیکو کے ایک بے آب و علف صحرا میں ایک ایٹمی تجربہ انجام دیا گیا ۔ایک چھوٹے سے ایٹم بمب کو ایک فولادی ٹاور پر چھوڑ دیا گیا ۔اس نے پھٹنے کے بعد اس فولادی ٹاور کو پانی میں تبدیل کر دیا پھر اسے بھاپ میں تبدیل کر دیا اور ایک مہیب بجلی اور آواز بلند ہو ئی ۔جب سائنسدان اس جگہ پر پہنچے تو ٹاور کا کوئی نام ونشان نہیں پایا۔

اسی سال جاپان پردو چھوٹے ایٹم بم پھینکے گئے ۔ایک کو شہر ناکاسا کی پر اور دوسرے کر شہر ہیروشیما پر۔پہلے شہر میں ۷۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اور اتنے ہی لوگ مجروح ہوئے اور دوسرے شہر میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے اوراتنے ہی لوگ مجروح بھی ہوئے،جس کے نتیجے میں جاپان نے مجبور ہو کر امریکہ کے سامنے بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دئے ۔

کیا ایٹم کے صرف ایک ذرّہ کے اسرار کا مطالعہ کر نا انسان کو خالق کائنات کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟

لہذا وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد کے برابر خدا کے وجود کے دلائل موجود ہیں۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( ولوانما فی الارض من شجرة اقلام والبحر یمدّه من بعده سبعة ابحر مانفدت کلمات اللّٰه ) (سورئہ لقمان/ ۲۷)

”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہار دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا آپ چیونٹیوں کی زندگی کے اسرار کے بارے میں کچھ اورمعلو مات رکھتے ہیں؟

۲ ۔کیا آپ ایک ایٹم کی بناوٹ کا خاکہ تختہ سیاہ پر کھینچ سکتے ہیں؟

دسویں سبق کی ایک تکمیلی بحث

خداوند متعال کی عظیم الشان صفات

صفات خدا

قابل غور بات ہے کہ جس قدر خلقت کائنات کے اسرار کا مطالعہ کر نے کے طریقہ سے خدا کو پانا یعنی وجود خدا کے بارے میں علم حاصل کر ناآسان ہے،اسی قدر خداوند متعال کی صفات کو بھی دقّت اور کافی احتیاط کے ساتھ پہچاننے کی ضرورت ہے۔

آپ ضرور پوچھیں گے کیوں ؟اس کی دلیل واضح ہے، کیونکہ خدا وند متعال ہماری کسی چیز سے یا جو کچھ ہم نے دیکھا ہے یا سنا ہے ان سب سے شباہت نہیں رکھتا ہے ۔ اسی لئے خدا کی صفت کو پہچاننے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس مقدس ذات سے مخلوقات کی تمام صفات کی نفی کریں ۔یعنی خداوند عالم کو اس محدود عالم طبیعت کی مخلوقات میں سے کسی ایک سے بھی تشبیہ نہ دیں یہ ایک بہت ہی نازک مرحلہ ہے،کیونکہ ہم اس طبیعت کے اندر نشوونما پائے ہیں ،ہم طبیعت سے متصل ومرتبط رہے ہیں ،اس سے اُنس پیدا کر چکے ہیں ،اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہرایک چیز کو اس کے پیمانہ پر تولیں۔

دوسرے الفاظ میں ہم نے جو دیکھاہے وہ جسم اور جسم کی خاصیت رکھنے والی چیزیں تھیں،یعنی ایسی موجودات جوایک معین زمان و مکان کی حامل تھیں،ان کے مخصوص ابعاد اور اشکال تھیں ۔اس حالت میں ایک ایسے خدا کا تصورکہ نہ جسم رکھتا ہے اور نہ زمان و مکان ،اس کے باوجود تمام زمان و مکان پر وہ احاطہ رکھتا ہے اور ہر لحاظ سے لا محدود ہے، ایک مشکل کام ہے۔یعنی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس راستہ پر دقت کے ساتھ قدم رکھیں۔

لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا انتہائی ضروری ہے کہ ہم خدا وند متعال کی ذات کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو سکتے اور اس کی ہمیں توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے ،کیونکہ اس قسم کی توقع اس بات کے مانند ہے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ ایک عظیم سمندر کو ایک چھوٹے سے کوزے میں سمو دیں یا ماں کے بطن میں موجود بچے کو باہر کی تمام دنیا سے مطلع کردیں،کیا ایسا ممکن ہے؟

اس نازک مرحلہ پر ممکن ہے ایک چھوٹی سی لغزش انسان کو معرفت خدا کے راستہ سے کوسوں دورلے جاکر پھینک دے اور بت پرستی ومخلوق پرستی کی سنگلاخ وادیوں میں آوارہ کر دے۔(توجہ کیجئے!) مختصر یہ کہ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ صفات خدا کا مخلوقات کی صفات سے کبھی موازنہ نہ کریں۔

صفات جمال و جلال

عام طور پر خداوند متعال کی صفات کو دوقسموں میں تقسیم کیاگیا ہے :صفات ثبوتیہ یعنی وہ صفات جو خداوند متعال میں پائی جاتی ہیں اور صفات سلبیہ یعنی وہ صفات جن سے خداوند متعال منزّہ ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا وند متعال کی ذات کتنی صفتوں کی مالک ہے؟اس کا جواب یہ ہے :خداوند متعال کی صفات ایک لحاظ سے لامحدود ہیں اور دوسرے لحاظ سے خداوند متعال کی تمام صفات ایک صفت میں خلاصہ ہو تی ہیں کیو نکہ خداوند متعال کی تمام ثبوتی صفات کو مندر جہ ذیل ایک جملہ میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:

خدا وند متعال کی ذات،ہر جہت سے لا محدود اور تمام کمالات کی مالک ہے۔

اس کے مقابلہ میں سلبی صفات بھی اس جملہ میں خلاصہ ہوتی ہیں:ذات باری تعالٰی میں کسی لحاظ سے کوئی نقص نہیں ہے۔

لیکن چونکہ دوسرے لحاظ سے کمالات اور نقائص کے در جات ہیں ،یعنی لا محدود کمال اور لا محدود نقص کا تصور کیا جاسکتا ہے،لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا وند متعال لا محدود صفات ثبوتیہ اور لا محدود صفات سلبیہ رکھتا ہے۔کیو نکہ جس کمال کا بھی تصور کیا جائے وہ خدا میں مو جود ہے اور جس نقص کا بھی تصور کیا جائے خداوند متعال اس سے پاک و منزّہ ہے۔لہذا خدا وند متعال کی ثبو تی و سلبی صفات لا محدود ہیں۔

خدا کی مشہور ترین صفات ثبوتیہ

خدا وند متعال کی معروف ترین صفات ثبوتیہ وہی ہیں ،جن کو مندرجہ ذیل مشہورشعر میں ذکر کیا گیا ہے:

عالم و قادروحیّ است و مرید ومدرک ہم قدیم ازلی پس متکلم صادق

۱ ۔خدا وند متعال عالم ہے،یعنی ہر چیز جانتا ہے۔

۲ ۔قادر ہے،یعنی ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔

۳ ۔حیّ ہے،یعنی زندہ ہے،کیونکہ زندہ موجود وہ ہے جو علم وقدرت رکھتا ہو چونکہ خداوند متعال عالم وقادر ہے،اس لئے زندہ ہے۔

۴ ۔مرید ہے،یعنی صاحب ارادہ ہے اور اپنے کاموں میں مجبور نہیں ہے جو کام بھی انجام دیتا ہے اس کا کوئی مقصد اور فلسفہ ہوتا ہے اور زمین وآسمان میں کوئی بھی چیز فلسفہ اور مقصد کے بغیر نہیں ہے۔

۵ ۔خداوند متعال مدرک ہے،یعنی تمام چیزوں کو درک کر تا ہے،تمام چیزوں کو دیکھتا ہے،تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام چیزوں سے آگاہ وباخبر ہے

۶ ۔خدا وند متعال قدیم اور ازلی ہے،یعنی ہمیشہ تھا اور اس کے وجود کا کوئی آغاز نہیں ہے ،کیونکہ اس کی ہستی اسی کی ذات کے اندر سے ابلتی ہے ،اسی وجہ سے ابدی اور جاودانی بھی ہے ۔اس لئے کہ جس کی ہستی اس کی ذاتی ہو اس کے لئے فنا اور نابودی کوئی معنی رکھتی۔

۷ ۔خداومد متعال متکلم ہے،آواز کی لہروں کو ہوا میں ایجاد کر سکتا ہے تا کہ اپنے انبیاء ومرسلین سے بات کرے،نہ یہ کہ خدا وند متعال زبان،ہونٹ اور گلا رکھتا ہے۔

۸ ۔خداوند متعال صادق ہے ،یعنی جو کچھ کہتا ہے سچ اور عین حقیقت ہے،کیونکہ جھوٹ بولنا یا جہل و نادانی کی وجہ سے ہو تا ہے یا ضعیف وناتوانی کی وجہ سے،چونکہ خداوند متعال عالم اور قادر ہے اس لئے محال ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔

خدا کی مشہورترین صفات سلبیہ ۔

خدا وند متعال کی معرو ف ترین سلبی صفات مندرجہ یل شعرمیں ملاحظہ فر مائیں:

نہ مرکب بود وجسم ،نہ مرئی نہ محل بی شریک است ومعانی ،توغنی دان خالق

۱ ۔وہ مرکب نہیں ہے۔یعنی اس کے اجزائے ترکیبی نہیں ہیں ،کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے اجزاء کی احتیاج پیدا کر تا ،جبکہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

۲ ۔خداوند متعال جسم نہیں ہے ،کیونکہ ہر جسم محدود،متغیر اورنا بودی کے قابل ہو تا ہے ۔

۳ ۔خداوند متعال مرئی نہیں ہے یعنی دکھائی نہیں دیتا ،کیونکہ اگر وہ دکھائی دیتا تو جسم ہو تا اور محدود اور قابل فنا ہو تا۔

۴ ۔خدا وند متعال کو ئی محل نہیں رکھتا ہے ،کیو نکہ وہ جسم نہیں ہے تاکہ اسے محل کی ضرورت پڑے۔

۵ ۔خدا کا کوئی شریک نہیں ہے ،کیو نکہ اگر اس کا شریک ہو تا تو اسے ایک محدود مو جود ہو نا چاہئے تھا ،چونکہ دو لا محددودمو جودات ہر جہت سے نا ممکن ہیں،اس کے علاوہ اس دنیا کے قوانین کی وحدت اس کی وحدا نیت کی علامت ہے۔

۶ ۔خداوند متعال کے معانی نہیں ہیں، کیونکہ اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں۔

۷ ۔خداوند متعال محتاج اور نیاز مند نہیں ہے ،بلکہ غنی اور بے نیاز ہے،کیو نکہ علم و قدرت اور ہر چیز کے لحاظ سے ایک لا محدود وجود،کسی قسم کی کو ئی کمی نہیں رکھتا ہے ۔

قرآن مجید فر ماتا ہے:

( لیس کمثله شیءٍ ) (سورہ شوری ٰ آیت/ ۱۱)

”اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔“

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا خدا کی وحدانیت اور اس کے لاشریک ہو نے کے بارے میں آپ کے پاس کوئی اور دلیل موجود ہے؟

۲ ۔کیا آپ نے سنا ہے کہ بعض مذاہب تین خداؤں اور بعض دو خداؤں کے قائل ہیں ؟یہ کون سے مذاہب ہیں؟


عدل الٰہی کے دس سبق

پہلا سبق عدل کیا ہے؟

خدا کی صفات میں سے صرف عدل کو اصو ل دین کا جزو کیوں قرار دیا گیا ہے؟

”عدالت“اور”مساوات“کے در میان فرق

۱ ۔تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے ؟

اس بحث میں دوسری چیزوں سے پہلے یہ نکتہ واضح ہو نا چاہئے کہ عدالت کو جو کہ صفات خدا میں سے ایک صفت ہے ،بڑے علماء نے دین اصول کے پنجگانہ میں سے ایک اصل کے طور پرکیوں منتخب کیا ہے؟

خداوند متعال عالم ہے،قادر ہے،عادل ہے،حکیم ہے،رحمان ورحیم اور ازلی وابدی ہے،خالق ورازق ہے۔ان تمام صفات میں سے کیوں صرف عدالت کا انتخاب کیا گیا ہے اور اسی کو دین کے پنجگانہ اصول میں سے ایک قرار دیا گیا ہے؟

اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند مطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

۱ ۔خدا وند متعال کی صفات میں عدالت کو ایک ایسی اہمیت حاصل ہے کہ بہت سی دوسری صفات اس کی طرف پلٹتی ہیں ،کیونکہ”عدالت“ اپنے وسیع معنی میں ہر ایک چیز کو اپنی جگہ پر قرار دینا ہے ۔اس صورت میں حکیم ،رزّاق،رحمان و رحیم اور ان جیسی دوسری صفات اس پر منطبق ہو تی ہیں۔

۲ ۔معاد کا مسئلہ بھی ”عدل الہی“ پر منحصر ہے۔انبیاء ومرسلین کی نبوت ورسالت اور ائمہ کی امامت بھی عدل الہٰی سے مربوط ہیں۔

۳ ۔اسلام کی ابتداء میں عدل الہٰی کے مسئلہ پر کچھ اختلا فات رو نما ہوئے:

سنّی مسمانوں کا ایک گروہ جنھیں ”اشاعرہ“ کہتے تھے، عدل الہٰی کے بالکل منکر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے بارے میں عدل و ظلم کو ئی مفہوم نہیں رکھتا ہے۔پوری کائنات اس کی ملک ہے اور اس سے متعلق ہے،وہ جو بھی کام انجام دے وہی عین عدالت ہے۔ یہاں تک کہ وہ حسن و قبح عقلی کے بھی قائل نہیں تھے ۔وہ کہتے تھے کہ ہماری عقل اکیلے ہی برے اور بھلے کو درک نہیں کر سکتی ہے ،یہاں تک کہ نیکی کر نے کی خوبی اور ظلم کی بدی کو بھی درک نہیں کر سکتی ہے(وہ اس قسم کے بہت سے مغالطے سے دو چار تھے)

اہل سنت کا ایک دوسرا گروہ جنھیں ”معتزلہ“ کہتے تھے اور تمام”شیعہ“ پرور دگار عالم کے بارے میں عدالت کے اصول کے قائل تھے اور کہتے تھے وہ ہر گز ظلم وستم نہیں کرتا ہے۔

ان دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر نے کے لئے دوسرے گروہ کا نام ”عدلیہ“ رکھا گیا،جوعدل الہٰی کو اپنے مکتب کی علا مت کے عنوان سے اصول دین کا جزو سمجھتے تھے اور پہلے گروہ کا نام ”غیر عدلیہ“رکھا گیا،شیعہ”عدلیہ“گروہ میں شمار ہو تے تھے۔

شیعوں نے دوسرے تمام عدلیہ سے اپنے آپ کو مشخص کر نے کے لئے ”امامت“ کو بھی اصول دین کا جزو قرار دیا۔

لہذا جہاں کہیں بھی ”عدل“و”امامت“کی بات ہو وہ”شیعہ امامیہ“ کی پہچان ہے ۔

۴ ۔چونکہ فروع دین ہمیشہ اصول دین کا ایک پرتو ہے اور عدالت الہٰی کا اثر انسانی معاشروں میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے اور انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیاد بھی اجتماعی عدالت پر منحصر ہے ،اس لئے عدالت کو اصول دین کے ایک جزو کے طور پر چن لینا ایک ایسا راز ہے جو انسانی معاشرے میں عدل کو زندہ کر نے اور ہر قسم کے ظلم وستم سے مقابلہ کر نے کا سبب بنتا ہے۔

جس طرح پرور دگار کی توحید ذات و صفات اور اس کی عبادت و پر ستش کی تو حید انسانی معا شرے میں وحدت و یکجہتی اور اتحاد کا نور ہے اور توحید صفوف کو تقویت بخشتی ہے ،اسی طرح انبیاء اور ائمہ کی رہبری بھی انسانی معا شرے میں ”سچی (عادلانہ)رہبری“کا مسئلہ القا کرتی ہے۔اس لئے پوری کائنات پر حاکم پروردگار کی عدالت کی اصل انسانی

معاشرے کے تمام مواقع میں عدالت کی ضرورت کی طرف ایک اشارہ و راز ہے۔

عظیم عالم خلقت عدالت پر بر قرار ہے۔انسانی معاشرہ بھی اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔

۲ ۔عدا لت کیا ہے؟

عدالت کے دو مختلف معانی ہیں:

۱ ۔اس لفظ کے وسیع معنی ،جیسا کہ ہم نے بیان کئے ”ہر چیز کا اپنی جگہ پر قرار پانا“ ہیں ۔دوسرے الفاظ میں موزون اور متعادل ہو نا ہے ۔

عدالت کے یہ معنی ،پوری خلقت کائنات، عالم کے نظام ،ایٹم ،انسانی وجود کی بناوٹ اور تمام نباتات وحیوانات میں پائے جاتے ہیں ۔

یہ وہی بات ہے جو پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ آپنے فر مایا:

”بالعدل قامت السموٰت والارض“

”عدالت کے ذریعہ آسمان اور زمین برقرار ہیں“

مثال کے طور پر اگر زمین کے قوائے ”جاذبہ“و ”دافعہ“ اپنے توازن کو کھودیں اور ان میں سے ایک دوسرے پر غلبہ پاجائے تو زمین ،یاسورج کی طرف جذب ہو جائے گی،اس میں آگ لگ جائے گی اور نابود ہو جائے گی اور یا اپنے مدار سے خارج ہو کر وسیع فضا میں آوارہ ہو کر نابود ہو جائے گی ۔

عدالت کے اسی معنی کو شاعر نے مندرجہ ذیل مشہور اشعار میں بیان کیا ہے :

عدل چبود ؟وضع اندر موضعش ظلم چبود؟وضع در نا موضعش

عدل چبود؟آب دہ اشجاررا ظلم چبود ؟آب دادن خاررا

عدل کیا ہے؟ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا ۔ظلم کیا ہے ؟چیز کو اس جگہ پر نہ رکھنا۔

عدل کیا ہے؟ درختوں کو پانی دیناظلم کیا ہے ؟کانٹوں کو پانی دینا۔

واضح ہے کہ پھولوں کے پودے یا میوہ دار درخت کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال ہے اور عین عدالت ہے ۔اگر بیکار گھاس پھوس یا کانٹوں کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال نہیں ہے اور عین ظلم ہے۔

۲ ۔عدالت کے دوسرے معنی”افراد کے حقوق کی رعایت کر نا“ہیں اوراس کا مخالف”ظلم“ یعنی دوسروں کا حق چھین کر اپنے لئے مخصوص کر نا،یا کسی کا حق چھین کردوسرے کو دینا یا تفریق کا قائل ہو نا ہے ،اس صورت میں کہ بعض کو ان کا حق ادا کریں اور بعض کو ان کا حق ادا نہ کریں۔

واضح ہے کہ دوسرے معنی”خاص“اور پہلے معنی ”عام“ہیں قابل توجہ بات ہے کہ”عدل“کے دونوں معانی خداوند متعال کے بارے میں صحیح ہیںاگر چہ ان مباحث میں زیادہ تر دوسرے معنی مقصود ہیں ۔

عدل الہٰی کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نہ کسی کا حق چھینتا ہے اور نہ کسی کا حق کسی دوسرے کو دیتا ہے اور نہ افراد کے در میان امتیازبرتتا ہے،وہ ہر لحاظ سے عادل ہے۔ اس کی عدالت کے دلائل سے اگلی بحث میں آگاہ ہوں گے۔

”ظلم“کسی کا حق چھیننے کے معنی میں ہو یا کسی کا حق کسی دوسرے کو دینے کے معنی میں یاتفریق وزیادتی کی صورت میں ،خدا کی ذات کے بارے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وہ ہرگز نیک انسان کو سزا نہیں دیتا ہے اور بُرے انسان کی تشویق نہیں کرتا ہے۔کسی سے دوسرے کے گناہ پر مواخذہ نہیں کرتا ہے اوربُرے اور بھلے سے ایک ہی قسم کا برتاؤ نہیں کرتا ہے۔

یہاں تک کہ اگر ایک بڑے معاشرے میں ایک شخص کے علاوہ سب گناہ گارہوں تو خدا وند متعال اس ایک شخص کے حساب کو دوسروں سے جدا کرتا ہے اور اسے

گنا ہ گاروں کے ساتھ سزا میں شامل نہیں کرتا ہے۔

یہ جو”اشاعرہ“کی جماعت نے کہا ہے کہ”اگر خدا تمام انبیاء کوجہنّم میں ڈال دے اور تمام بد کاروں اور ظالموں کو بہشت میں ڈال دے، تو یہ ظلم نہیں ہے“یہ ایک بیہودہ، ناشائستہ، شرم ناک اور بے بنیاد بات ہے ،جس شخص کی بھی عقل خرافات اور تعصب سے آلودہ نہ ہو گی وہ اس بات کے قبح کی گواہی دے گا۔

۳ ۔مساوات اور عدالت میں فرق۔

ایک اور اہم نکتہ،جس کی طرف اس بحث میں اشارہ کر نا ضروری ہے ،یہ ہے کہ بعض اوقات ”عدالت“کا ”مساوات“ سے مغالطہ کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ عدالت کے معنی یہ ہیں کہ مساوات کی رعایت کی جائے،جبکہ ایسا نہیں ہے۔

عدالت میں ہرگز مساوات شرط نہیں ہے بلکہ حق اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے ۔

مثال کے طور پر ایک جماعت کے شاگردوں میں عدالت یہ نہیں ہے کہ سب کو مساوی نمبر دئے جائیں اور دو مزدوروں کے در میان یہ عدالت نہیں ہے کہ دونوں کو مساوی مزدوری دی جائے ۔بلکہ عدا لت یہ ہے کہ ہر شاگرد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق نمبر دئے جائیں اور ہر مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری دی جائے۔

عالم فطرت میں بھی وسیع معنی میں عدالت کا مفہوم یہی ہے ۔اگر ایک وہیل مچھلی کا دل جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہو تا ہے،ایک چڑیا کے دل کے برابر ہوتاتو یہ عدالت نہیں تھی ۔اگر ایک مضبوط لمبے درخت کی جڑ ایک چھوٹے سے پودے کی جڑ کے برابر ہو تو یہ عدالت نہیں ہے بلکہ عین ظلم ہے۔

عدالت کے معنی یہ ہیں کہ ہر مخلوق اپنے حق،استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ حاصل کرے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔خدا کی تمام صفات میں سے صرف عدالت کو کیوں اصول دین کا جزو شمار کیاگیا ہے؟

۲ ۔”اشاعرہ“کون تھے؟ان کے عقائد کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

۳ ۔عدل الہٰی کا اعتقاد معاشرے میں کیا اثر رکھتا ہے؟

۴ ۔عدالت کے کتنے معانی ہیں؟ان کی تشریح کیجئے

۵ ۔کیا عدالت مساوات کے معنی میں ہے؟

دوسرا سبق :عدل الہٰی کے دلائل

۱ ۔حسن وقبح عقلی

پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری عقل اشیاء کی ”خوبی“اور ”بدی“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتی ہے ۔(یہ وہی چیز ہے،جس کا نام علماء نے ”حسن قبح عقلی“رکھا ہے)

مثلا ہم جانتے ہیںکہ عدالت واحسان اچھی چیز ہے اور ظلم وبخل بری چیز ہے۔یہاں تک کہ ا ن کے بارے میں دین و مذہب کی طرف سے کچھ کہنے سے پہلے بھی ہمارے لئے یہ چیز واضح تھی،اگر چہ دوسرے ایسے مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں ہمارا علم کافی نہیں ہے اور ہمیں رہبران الہٰی و انبیاء کی رہبری سے استفادہ کر نا چاہئے۔

اس لئے اگر”اشاعرہ“ کے نام سے مسلمانوں کے ایک گروہ نے ”حسن قبح عقلی“ سے انکار کر کے اچھائی اور برائی کو پہچاننے کا راستہ ۔حتی عدالت وظلم وغیرہ کے سلسلہ میں۔صرف شرع ومذہب کو کافی جانا ہے ،تو یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔

کیونکہ اگر ہماری عقل نیک وبد کو درک کر نے کی قدرت وصلاحیت نہ رکھتی ہوتو ہمیں کہاں سے معلوم ہو گا کہ خداوند متعال معجزہ کو ایک جھوٹے انسان کے اختیار میں نہیں دیتا ہے؟لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بُرا اور قبیح ہے اور خدا سے یہ کام انجام پا نا محال ہے،تو ہم جانتے ہیں کہ خدا کے وعدے سب حق ہیں اور اس کے بیانات سب سچے ہیں ۔وہ کبھی جھوٹے کی تقویت نہیں کرتا ہے اور معجزہ کو ہر گز جھوٹے کے اختیار میں نہیں سونپتا ہے۔

اسی وجہ سے شرع ومذہب میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

اس لئے ہم نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ حسن وقبح عقلی پر اعتقاددین و مذہب کی بنیاد ہے۔(توجہ کیجئے!)

اب ہم عدل الہٰی کے دلائل کی بحث شروع کرتے ہیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں جاننا چاہئے:

۲ ۔ظلم کا سر چشمہ کیا ہے؟

”ظلم“کا سر چشمہ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ہے:

الف۔جہل:بعض اوقات ظالم انسان حقیقت میں نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔نہیں جانتا ہے کہ وہ کس کی حق تلفی کرتا ہے،اور اپنے کام سے بے خبر ہے۔

ب۔احتیاج:کبھی دوسروں کے پاس موجود چیز کی احتیاج انسان کو وسواس میں ڈالتی ہے کہ اس شیطانی کام کو انجام دے،جبکہ اگر بے نیاز ہو تا،اس قسم کے مواقع پر اس کے لئے ظلم کر نے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تی۔

ج۔عجز و ناتوانی: بعض اوقات انسان راضی نہیں ہو تا کہ دوسروں کا حق ادا کر نے میں کو تاہی کرے لیکن اس میں یہ کام انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہو تی ہے اور ناخواستہ ”ظلم“کا مرتکب ہو تا ہے۔

د۔خود پرستی ، حسد اور انتقامی جذبہ۔ گاہےمذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک مؤثرنہیں ہوتا ہے،لیکن”خود پرستی“اس امر کا سبب بنتی ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق کو پائمال کرے ۔یا ”انتقامی جذبہ“اور”کینہ وحسد“ اسے ظلم وستم کر نے پر مجبور کرتے ہیں ۔یا کبھی”اجارہ داری“دوسروں کی حق تلفی کا سبب بن جا تی ہے۔اور ان کے مانند دوسرے عوامل و اسباب۔

لیکن چونکہ مذکورہ بری صفات اور عیوب ونقائص میں سے کو ئی چیز خدا وند متعال کے وجود مقدس میں نہیں پائی جاتی ،وہ ہر چیز کا عالم ،سب سے بے نیاز،ہر چیز پر قادر اور ہر ایک کے بارے میں مہر بان ہے،اس لئے اس کے لئے ظلم کا مرتکب ہو نا معنی نہیں رکھتا ہے۔

اس کا وجود بے انتہا اور کمال لا محدود ہے،ایسے وجود سے خیر،نیکی،عدل وانصاف ،مہر بانی اور رحمت کے علاوہ کوئی چیز صادر نہیں ہو تی ہے ۔

اگر وہ بد کاروں کو سزا دیتا ہے تو وہ حقیقت میں ان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انھیں ملتا ہے،اس شخص کے مانند جو نشہ آورچیزیں یا شراب پینے کے نتیجہ میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔قرآن مجید فر ماتا ہے:

( هل تجزون إلاّ ماکنتم تعلمون ) (سورہ نمل/ ۹۰)

”کیا تمھیں تمھارے اعمال کے علاوہ بھی کوئی معادضہ دیا جاسکتا ہے۔“

۳ ۔قرآن مجید اور عدل الہٰی

قابل توجہ بات ہے کہ قرآن مجید میں اس مسئلہ کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔

ایک جگہ پر فر ماتا ہے:

( إنّ اللّٰه لا یظلم النّاس شیئاً ولکنّ الناّس انفسهم یظلمون)

(سورہ یونس/ ۴۴)

”اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خودہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔“

ایک دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:

( إنّ اللّٰه لا یظلم مثقال ذرّة)

”اللہ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے۔“

روز قیامت کے حساب اور جزا کے بارے میں فر ماتا ہے:

( ونضع الموازین القسط لیوم القیمة فلا تظلم نفس شیئاً ) (سورہ انبیاء/ ۴۷)

”اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازوقائم کریں گے اور کسی نفس پر ادنیٰ ظلم نہیں کیا جائے گا۔“

(قا بل توجہ بات ہے کہ یہاں پر ”میزان“سے مقصود نیک و بد کو تولنے کا وسیلہ ہے نہ اس دنیا کے مانند کو ئی ترازو)

۴ ۔عدل و انصاف کی دعوت

ہم نے کہا کہ انسان کی صفات ،خدا وند متعال کی صفات کا ایک پر تو ہو نا چاہئیں تا کہ انسانی معاشرے میں الہٰی صفات کا نور پھیلے ۔اسی اصول کی بنیاد پر جس قدر قرآن مجید عدل الہٰی کو بیان کر تا ہے ،اسی قدر انسانی معاشرے اور ہر انسان میں عدل و انصاف قائم کر نے پر اہمیت دیتا ہے۔قرآن مجید بار بار ظلم کو معاشروں کی تباہی و بر بادی کا سبب بتاتا ہے اور ظالموں کے انجام کو درد ناک ترین انجام شمار کرتا ہے۔

قرآن مجید گزشتہ اقوام کی داستان بیان کر نے کے ضمن میں باربار اس حقیقت کی یاد دہانی کرتا ہے کہ دیکھو ظلم وفساد کے نتیجہ میں کس طرح وہ اقوام عذاب الہٰی سے دو چار ہو کر نابود ہوئے ،تم بھی اس سے ڈرو کہ کہیں ظلم کر نے کے نتیجہ میں اس قسم کے انجام سے دوچار نہ ہو جاؤ۔

قرآن مجید واضح الفاظ میں ایک بنیادی اصول کے عنوان سے کہتا ہے:

( إنّ الله یامر بالعدل والاحسان و إتیاء ذی القربیٰ وینهی عن الفحشآء والمنکر والبغی ) (سورہ نحل/ ۹۰)

”بیشک اللہ عدل،احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بد کاری ،ناشائستہ حر کات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔“

قابل توجہ بات ہے کہ جس طرح ظلم کر نا ایک برا اور قبیح کام ہے ،اسی طرح ظلم کو بر داشت کر نا بھی اسلام اور قرآن کی نظر میں غلط ہے،چنانچہ سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۹ ۲ میں آیا ہے:

( لا تظلمون ولا تظلمون ) ( سورہ بقرہ/ ۲۷۹)

”نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے “

اصولی طور پر ظلم کو قبول کر نا ظلم کی حوصلہ افزائی ،اس کی تقویت اور ظالم کی مدد

کر نے کا باعث ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا ہماری عقل براہ راست اور شرع کے بغیر نیکی اور بدی کو درک کرسکتی ہے؟

۲ ۔ظلم کن امور سے صادر ہوتا ہے ؟عدل الہٰی کی عقلی دلیل کیا ہے؟

۳ ۔عدل الہٰی اور خدا کی ذات مقدس سے ظلم کی نفی کے بارے میں قرآن مجید کیا کہتا ہے؟

۴ ۔عدالت اور ظلم کے مقابلہ میں انسان کی کیا ذمہ داری ہے؟

۵ ۔کیاظلم کو قبول کرنا اور ظلم وستم کو برداشت کر نا بھی گناہ ہے؟